رنگوں اور لکیروں سے لکھنے، نقشے تیار کرنے اور اپنے صحن یا آنگن کو سجانے کی روایت بہت قدیم ہیں گاؤں اور چھوٹے قبضوں اور چھوٹے بڑے شہروں میں عورتیں نے آج بھی اِن روایات کو زندہ رکھا ہے۔
آہستہ آہستہ اُس کی فلسفیانہ اور مذہبی سطحیں بھی قائم ہوتی گئی۔ عوامی ذہن نے مختلف عہد میں اِس فن میں نئے تجربے کیے ہیں۔ رفتہ رفتہ تصویریں بنیں دیوی دیوتاؤں کے نقوش بھی اُبھرے، اُن کی علامتوں کے پیکر سجے آج جس فن کو ہم رنگولی کہتے ہیں
بلاشبہ یہ ایک قدیم فن ہے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اُس کی علاقائی اور دیسی روایتں موجود ہیں۔ قدیم عقائد اور توہمات سے اُس کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ یہ لکیروں اور رنگوں کا فن ہے کہ جس میں عوامی رحجانات کا مطالعہ کرتے ہوے مختلف عہد کے عقائد اور رسوم مختلف علاقوں کے حسّی اور نفس تصورات کے ساتھ لکیروں اور رنگوں کے تعلق سے جمالیاتی تجربات کی بھی پہچان ہوتی ہے۔ سنسکرت میں اِس قدیم رنگین فن کو رنگاولی RanGAvalli کہا گیا ہے یعنی وہ بیل جو رنگوں سے تیار ہو۔ رنگوں کی لکیریں بیل کی مانند چڑھتی جائیں اور آہستہ آہستہ کسی دائرہ یا حلقے میں پھیل کر ایک یا ایک سے زیادہ تاثر کو ابھاریں رنگولی ہمیشہ حسّی اور نفس تاثرات اُبھارتی رہی ہے۔ جب مذہبی اور فلسفیانہ سطحیں قائم ہوتی ہیں تو یہ تاثرات اور گہرے اور معنی خیز بن گئے ہیں۔
ابتداء سے اس فن کا مظاہرہ زمین کے کینوس پر کیا گیا ہے اُس کے لیے صحن یا آنگن یا دروازے کے قریب زمین تیار کی گئی ہے۔ آج تو مختلف تہوار اور شادی بیاہ کے موقعوں پر عورتیں رنگولی سجاتی ہیں۔ شب ِ عروسی کے کمروں اور رسوئی گھروں کو بھی رنگولی سے آراستہ کیا جاتا ہے
اس فن کی ابتدائی صورت نسلی اور قبائلی عقائد اور رسوم کو پیش کرتے ہوے قبائلی اور نسلی احساسِ جمال کو پیش کرتی رہی ہے۔ کوئی نہ کوئی موضوع ہوتا ہے جیسے رنگوں اور لکیروں کی علامتوں میں پیش کیا جاتا۔
ولستائن کام سوتر کا مصنف VatsaYan نے کام سوتر میں جہاں عورتوں کے تعلق سے چونسٹھ 64 فنون کا ذکر کیا ہے اُن میں الگھیام ALEKHYAM کی جانب بھی اشارہ کیا ہے یعنی وہ فن جو رنگوں اور لکیروں کا فن ہو۔ ولستائن نے عورتوں کے چھٹے فن کو رنگولی کہا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ بہت مقدس فن ہے۔ رنگولی لکیروں، خاکوں اور تصویروں کا یہ فن صرف دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے ہے کام سوترکے مصنف نے ایک اور فن کا ذکر کیا ہے کہ جس کا تعلق رنگوں سے ہے یہ منی کرما MANI KARMA کا فن ہے یعنی عورتیں رنگین اور خوبصورت پتھروں کو جمع کریں اور اُن سے نقشے اور تصویریں مرتب کریں۔ پتھروں کی ترتیب سے نقشے اور تصویریں اُبھر آئیں۔ یہ فن آج بھی بعض علاقوں میں زندہ ہے۔ عورتیں پتھروں کو سجاتے ہوے انھیں رنگ بھی عطا کرتی ہیں۔ یہ بہت قدیم عقیدہ رہا ہے کہ ہر دن کسی نہ کسی سیارے کی گرفت میں ہے۔ کو دن ایسا نہیں کہ جس پر کسی سیارے اور ستّارے کی گرفت نہ ہو سیارہ یا ستارہ اپنی رحمتیں لیے ہوتا ہے اگر اُن کی رحمتوں کو حاصل کرنا ہے تو ذات اور شخصیت اور رحمتوں کے پیش نظر رنگوں اور لکیروں رنگوں اور لکیروں سے نقشے تیار کیے جائیں یہ نقشے انسان اور مخصوص سیارے میں ایک معنوی رشتہ پیدا کر دیتے ہیں اور وہ دن سیاروں اور انسان کے لیے اپنی رحمتوں کا دروازہ کھول دیتا ہے اِس طرح سیاروں کی علامتیں خلق ہونے لگیں۔ جو انسان اور کائنات اور مظاہر فطرت کی وحدت کا احساس عطا کرنے لگیں۔ ہندوستانی تجربوں اور جمالیات میں وحدت اور جمالیاتی وحدتی کا تصور بہت قدیم ہے۔ اس حسّی تصور نے صدیوں کے سفر کے بعد مذہبی اور فلسفیانہ سطحوں کو واضح کیا۔ آفتاب ہندوستانی ذہن و شعور میں ہمیشہ جذب رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفر کی علامتیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئیں۔ ابتداء میں رنگوں اور لکیروں کے فن میں خاص پودوں کو بھی شامل کیا جاتا تھا۔ مختلف قبیلوں نے بعض پودوں کو حد درجہ مقدس جانا جاتا تھا۔ ایسے پودوں کی خاص دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ اور اُن کی ہیتّ توتم ToTEM کی ہوگئی تھی، رفتہ رفتہ تلسی کے پودوں نے زیادہ اہمیت اختیار کرلی اور تمام دوسرے پودوں پر اُسے فوقیت حاصل ہوگی۔ آج بھی رنگولی میں تلسی کے پودوں کو نمایاں جگہ حاصل ہے۔
مہابھارت میں رنگوں اور لکیروں کے اس فن کا ذکر ملتا ہے۔ کچھ اس طور کہ محسوس ہوتا ہے کہ اُس کی روایات پہلے سے قائم تھی۔ گوپیوں سے جب کرشن الگ ہوگئے تو جدائی کے اِس غم کو فراموش کرنے کے لیے گوپیوں نے اسی فن کا سہارا لیا اور رنگ اور لکیروں کے اس فن میں گم ہوجانے کی کوشش کی اور جب کرشن کے لوٹنے کی خبر ملی تو اُن کے استقبال کے لئے ایک رنگولی سجائی گئی۔
چتر سترCITRASUTRA میں رنگوں اور لکیروں سے کینوس تیار کرنے کے سلسلہ میں جو ہدایتیں ہیں وہ بھی اس فن کی جانب واضح اشارہ کرتی ہیں۔ وشنو دھر مُْوتر پران نے نیتر، بھومی چتر اور نوگرہ نوسیارہ کے سلسلہ میں ہدایتیں دیتے ہوئے بتایا ہے کہ زمین رنگوں اور لکیروں کے فن کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے اور اُسے کس طرح کینوس کی طرح استعمال کرنا چاہیے۔ وشنو کو جس طرح کائنات کے اسٹیج پر پہلا اداکار سمجھا جاتا ہے اُسی طرح انھیں پہلا مُصور بھی کہا جاتا ہے۔ رنگولی کے فن میں تلسی یا کسی بھی مقدس پودے کے شامل ہوتے ہی وشنو کا امیج جذب ہوگیا۔ انھیں تو بعض پودوں میں اِس طرح محسوس کیا گیا ہے کہ یہ پودے اُن کے پیکر بن گئے ہیں۔ جس طرح وشنو کو لکشمی عزیز ہیں۔ اُسی طرح عابد کو تلسی یا کوئی اور مقدس پودا عزیز ہے رنگولی کے فن میں وشنو کے ساتھ لکشمی بھی شامل ہوگئیں۔ چونکہ کہ ابتداء سے عورتوں نے اس فن کو عزیز رکھا ہے۔ اس لکشمی نے زیادہ اہمیت اختیار کرلی۔ یہ دیوی مادّی آسُودگی عطا کرتی ہیں۔ دولت اور عزت اور گھر کی خوش حالی کا سرچشمہ ہیں۔ لہذا اُن کے لیے مختلف سماجی ماحول میں مختلف قسم کی رنگولی تیار کرنے کی روایتیں موجود ہیں۔ ہندوستانی جمالیات میں مختلف سماجی زندگی اور طبقاتی ماحول کے پیش نظر اِس فن کا مطالعہ نہیں ہوا ہے۔ ورنہ قدیم جمالیاتی احساس و شعور کی جانے کتنی جہتوں اور جانے کتنی روایتوں کی پہچان ہو جاتی تصویر نگاری اور مصوری کے فن کے پس منظر میں عوامی حسّی تجربوں اور رنگوں اور لکیروں نقشوں اور علامتوں کی روایات بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ سب ہندوستان کے کلچر کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ اُن کے مطالعہ سے قدیم عقائد اور توہمات کے ساتھ قدیم احساسِ جمال کی بھی پہچان ہوگی جمالیات کے تعلق سے بعض رنگین نقشے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ احساسِ حُسن کی پہچان کے لیے بعض بنیادی خصوصیات بہت اہم بن جاتی ہیں۔ کچھ نقشے سادہ ہوتے ہیں اور اکثر بہت حد تک پیچیدہ عورتیں صبح اٹھ کر اپنے دروازوں پر اپنے شوہر اور بچوں کی صحت اور خوشیوں کے لیے رنگولی سجاتی ہیں۔ دیوی، دیوتا جب صبح سویرے گھر کے اندر قدم رکھیں تو اپنے پیکروں کو پہچان لیں۔ ایسے نقشوں پر قدم رکھ کر اندر آئیں۔ گھر کی عورت کی آرزو جان لیں اور اُسے پوری کریں۔ یہ رنگین لکیریں اور صورتیں بھگوان بن جائیں علامتوں کے وجود میں آتے ہی اِن میں جذب ہوجائیں۔ محسوسات کی دنیا اس طرح پھیلی کہ خود یہ رنگین لکیریں اور علامتیں بھگوان بن گئیں۔ کوئی علامت لکشمی بنی تو کوئی وشنو
ہندوستان میں عوامی احساسِ جمال نے صرف مندروں اور بدُھ خانقاہوں کو حُسن نہیں بخشا بلکہ اپنے گھروں کو بھی سنورا سجایا اور انھیں بھی اپنے احساس جمال کا تقدس عطاء کیا ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں یہ روایات ابھی زندہ اور متحرک ہیں۔ تمل ناڈو میں کولم KOLAM ہو یا گجرات میں رنگولی بنگال اور آسام میں اَل پنا Alpana ہو یا بہار میں آری پنا ARIPANA سب اِن ہی روایتےسے وابستہ ہیں۔ کیرالا کولم مہاراشٹر رنگولی راجستھان مَن ڈنا MaNDANAاور آندھراپردیش موگولوں MUGLU میں یہ روایت آج بھی محترک ہیں۔ علاقائی تجربوں کا اختلاف بھی ہے توجہ طلب ہے اِس لیے کہ یہ سب اِس بڑے ملک کے جمالیاتی تجربوں کی خصوصیتوں کو اپنے اپنے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ہر علاقائی جمالیاتی تجربے کے پس منظر میں تمدنی تہذہبی قدروں کی بنیادی اور امتیازی خصوصیات موجود ہیں۔ جو مختلف مذہبی اور ثقافتی روایات کی خبر دیتی ہیں۔ خاکہ نگاری اور رسومات کی رنگا رنگی کی آمیزش کے جلوے توجہ طلب ہیں۔ ساحلی علاقوں میں آج بھی جذباتی اظہار کی وسعتوں کے لیے روزانہ یہ عمل جاری ہے۔ خاکوں میں قدیم مذہبی اور تمدنی علامتیں موجود ہیں کہا جاتا ہے کہ دوسری صدی عیسوی میں چوَلا خاندان میں رنگاولی یا کولم کو بہت اہمیت دی گئی راج درباروں سے مندروں تک اور مندروں سے عوام کے گھروں تک کولم سجائے جانے لگے۔ انفرادی اور اجتماعی مذہبی اور ثقافتی تجربوں کو پیش کیا جانے لگا
اس قدیم رنگین عوامی فن کے پس منظر میں نیتروں اور منڈلوں کی روایات ہیں۔ کائنات اور داخلی توانائی کے رشتے نے اس فن کو بڑی تقویت بخشی۔ رفتہ رفتہ یوگ کے اثرات بھی ہونے لگے
اور کولم رنگولی رنگاولی اور موکوتو وغیرہ میں یوگ کے تعلق سے علامتیں بھی مختلف صورتوں میں اُبھرنے لگیں۔ دیوی دیوتاؤں کے حسّی پیکروں کی علامتیں بہت اہم بن گئیں۔ آنگن ہو یا پُوجا گھر، رسوئی ہو یا تلسی کی عبادت کرنے کی جگہ، دیواریں ہوں یا درختوں کے نیچے کی دھرتی ہر جگہ عوامی احساسات اور جذبات کے نقشے اور لکیریں اُبھرنے لگیں اب تو رنگولی یا کولم سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر آگئی ہے ابتدائی دور میں جب پہلی بار کائنات اور دھرتی اور انسان کے خوبصورت رشتے کی وحدت کا احساس پیدا ہوا ہوگا۔ اُس وقت معلوم نہیں کس قسم کے خوبصورت نقشے اور حسین اقلیدسی سی صُورتیں اُبھری ہوں گئی۔ لیکن آج مختلف موسموں اور مختلف واقعات کے پیش نظر جو کولم یا رنگولی سجائی جاتی ہے۔ اُن کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ یقیناً محسوس ہوتا ہے کہ فطرت کی قوتوں کو بیدار کرنے اور اچھے موسموں کے آنے کے وقت رنگاولی سجائی جاتی ہوگئی مثلاً آج بھی بہار کی آمد بہت اہمیت رکھتی ہے اور اُس کا استقبال رنگولی سے ہوتا ہے۔ اچھی بارش اور اچھی فصل کی آرزو لے کر بھی رنگولی بنانے کا رواج موجود ہے ہر واقعے کے لیے اُس کے مطابق مجرّد علامتیں ملتی ہیں۔ شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش اور مہمانوں کے استقبال کے لیے رنگولی سجانے کا رواج بہت پرانا ہے۔ مختلف واقعات کے لیے رنگولی کی تیکنک بھی مختلف ہوتی ہے اور ساتھ ہی موتف Motifs میں بھی تبدیلی ملتی ہے ملتی ہے رنگولی یا کولم وغیرہ کے اسالیب میں حد درجہ تجریدیت ہے نقطے، لکیریں، مربعے، دائرے، اور زاویے، اور کنول یا پاؤں کے نشانات، علامتی سواتیکا چاند، ستارے، سورج سب پرُاسرار سرگوشیاں کرتے ہوئے جمالیاتی انبساط اور جمالیاتی آسودگی عطا کرتے ہیں پتوںّ درختوں، پھولوں، پودوں، پرندوں، اور جانوروں کی بھی جانے کتنی علامتیں ملتی ہیں۔
اس خوبصورت رنگین فن میں رنگوں کے عوامی احساس کے ساتھ دو بڑی دیویاں اپنی علامتوں کے ساتھ شامل ہوئیں۔ دولت کی دیوی لکشمی کے پاؤں کے نشانات جلوے بنے دو منسلک زاویوں اور کنول کے چوبیس 24 پتوں سے لکشمی کے مجرد پیکروں کو اُبھارا گیا۔ سرسوتی جو علم کی دیوی ہیں وہ بھی دو منسلک زاویوں لیکن کنول کی سولہ 16 پتوں کے ساتھ اپنی مجرد صورت میں آتی ہیں کبھی کنول کے پتے نہیں ہوتے بس ایک نقطہ ڈال دیا جاتا ہے۔ جو اپنی فطرت میں ایک روشنی اور شعاعیں عطا کرنے والا ہمہ گیر دائرہ ہے عظیم دائرے کے ارتقاء اور اُس کی وسعتوں کو ایک نقطے سے سمجھا دیا جاتا ہے۔ درگا کے مجرد پیکر اور حسّی تصور کو عموماً سواتیکا کی علامت میں پیش کیا جاتا رہا ہے سواستیکا خوبصورت اور رنگین لکیروں اور دائروں میں اٹھارہ 18 نقطوں میں ہوتا ہے نو 9نقطے عمودی Vertical ہوتے ہیں اور دوسرے نو 9 اُفقی HORIZONTAL درگا کے نو نام درگا کے لیے جو رنگاولی سجائی جاتی ہے اُسے عام طور پر نو دن رکھا جاتا ہے۔ رنگاولی میں شیو کا حسّی پیکر بھی شامل ہوا اور مختلف اقلیدسی صورتیں مختلف رنگوں میں جلوہ گر ہونے لگیں۔ شیو کی علامت کی پہچان مشکل نہ ہوتی۔ نٹ راج کے رقص کے کئی چکر دائروں میں نظر آتے ہیں۔ دائروں کے اندر مربعے بھی ہوتے ہیں جو غالباً رقص کی معنویت کی پیچیدگیوں کو سمجھاتے ہیں عموماً کئی لکیروں کے نشیب و فراز نظر آتے ہیں۔ جو زندگی کے وسیع سمندر کی تیز تر لہروں کو سمجھاتے ہیں۔ سوریہ سورج دیوتا کو دائروں کے چکر سے سمجھایا گیا ہے۔ علاقائی دیویوں اور دیوتاؤں کے حسّی پیکر بھی اہمیت رکھتے ہیں مثلاً بنگال میں منسوسا MANOSA دیوی کی عبادت ہوتی ہے جو سانپوں اور ناگوں کی دیوی ہیں الہذا ناگ پنچمی کے تہوار کو مناتے ہوئے مختلف قسم کی رنگولی سجائی جاتی ہے اور ناگ کے پیکروں سے منُوسا دیوی کی مجرد تصویر اُبھاری جاتی ہے۔ مدھیہ پردیش میں مربعوں کے ذریعے مقامی دیوی اور مقامی دیوتاؤں کے مجرد تصویریں بنُتی ہیں
پالائی PaLANI کے ڈھول کے نقش کو مربعوں سے اُبھارا جاتا ہے۔
راجستھانی مندانا میں نیلے رنگ کی شدت ملتی ہے سبز اور سیاہ رنگوں کے درمیان نیلے رنگ کی تیزی جاذبِ نظر بن جاتی ہے۔ تامل ناڈو کے کولم میں سرخ رنگ زیادہ اہم ہے۔ کیرالا میں پھولوں کو سجا کر مختلف رنگوں تئیں بیدار کیا جاتا ہے مدھیہ پردیش میں پھلوں کے رنگوں کو اہمیت دی جاتی ہے اور سبزیوں کے مختلف رنگوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
مختلف علاقوں کی تصویر کاری کے پس منظر میں منڈل سنیتر اور رنگاولی کی قدیم روایات نظر انداز نہیں کی جاسکتیں، قبائلی تصویر نگاری اور جدید عہد تک اس کی روایات کا بھی بہتر مطالعہ نہیں ہوا ہے ورنہ قبائلی احساسِ جمال کو اب تک ہندوستانی جمالیات میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہوچکی ہوتی، قبائلی جمالیات نے بھی لکیروں، نقشوں اور رنگوں کے ساتھ اساطیری نقوس کی ایک بڑی انجمن سجائی ہے۔ قدیم قبائلی تصویر نگاری میں مختلف عقائد اور رسومات نے اپنے رنگ بھرے ہیں۔ لوک کہانیاں اپنے پیکروں اور رنگوں کے ساتھ نمایاں ہوئی ہیں تجریدی اور نیم تجریدی رنگین نقوش جلوے بنے ہیں۔ آج بھی مٹی کے گھروں کی دیواروں پر رنگین تصویریں بنائی جاتی ہیں جو قدیم اور قدیم ترین قبائلی جمالیات روایات کی خبر دیتی ہیں۔ جھونپڑیوں کی مٹی کی دیواریں، رنگاولی کی خصوصیات کے ساتھ سجائی جاتی ہیں قبائلی زندگی میں مقامی دیویوں اور دیوتاؤں، درختوں، پودوں، مکانوں، کھیتوں، پرندوں، اور جانوروں کے دلچسپ رنگین پیکر ملتے ہیں۔ رنگوں کو تیار کرنے کے کے اپنے پرانے طریقے ہیں جن میں گوبر کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ قبائلیوں نے اپنے رقص کے مختلف انداز کو ہمیشہ عزیز رکھا ہے اسی طرح اپنی چھوٹی چھوٹی پرانی کہانیوں کو زندہ رکھا ہے۔ دیواری تصویروں میں رقص اور کہانیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں دیوی دیوتاؤں کے جلال و جمال اور عقل مند جانوروں اور پرندوں کے جانے کتنے قصّے رنگین تصویروں میں نمایاں ہوے ہیں بعض قصوں اور کہانیوں کی علامتیں وجود میں آگئی ہیں اور یہ علامتیں ذہن کو پرانی کہانیوں تک لے جاتی ہیں۔ تمدنی اور تہذیبی زندگی کے ارتقاء کے ساتھ دوسرے علاقوں کے قصّے بھی شامل ہوتے گئے ہیں رامائن، مہابھارت، اور پنچ تنتر کے کردار بھی آتے ہیں۔
عورت تخلیقی توانائی کا مرکزی پیکر بن گئی ہے روزانہ زندگی کے واقعات اور حادثات بھی شامل ہوتے رہے ہیں بعض علاقوں میں مٹی کی دیواروں پر مقامی عظیم ماں بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ عظیم ماں کا رنگین پیکر نقش ہو جاتا ہے تب ہی شادی ہوتی ہے اچھی فصل کے لیے بھی اُن کی تصویر بناکر عبادت کی جاتی ہے۔ کھیتوں میں بیج ڈالنے سے قبل ان سے دعائیں مانگی جاتی ہے، گجرات میں رتھوا قبیلے The RathVas کے فنکار اسی طرح اپنی تصویر نگاری کی قدیم روایات کو عزیز رکھتے ہیں جس طرح مدھیہ پردیش کے بھیل BABOIND اور بابو پتھر حد درجہ متحرک حسّی پیکر ہیں جو تصویروں میں قدیم قصوں کی اساطیری خصوصیتوں کو لیے ہوے ہیں گھروں کو تصویروں سے سجانے اور انھیں مناسب رنگ دینے کی روایات بہت قدیم ہیں۔ گھروں کی دیواروں پر قدیم کہانیاں اپنے رنگوں کے ساتھ مکمل طور پر نقش ہوتی رہی ہیں دیواروں کی رنگین تصویریں محض آرائشِ و زیبائش کے لیے نہیں ہیں بلکہ نسلی اور اجتماعی تجربوں کو بھی لیے ہوئے ہیں لہراتی ہوئی لکیریں ہوں یا رنگین اقلیدسی نقشے، سب اپنی معنویت کو لیے ہوئے ہیں اور نسلی اور اجتماعی تجربوں کی خبر دیتے ہیں
ہندوستانی مصوری پر قبائلی اور علاقائی تصویر کاری کی انگنت جہتیں اثر انداز ہوئی ہیں اس لیے بھی کہ علاقائی اور قبائلی مصوری اجتماعی شعور اور اپنے کی پیداوار ہے قبائلی مصوری میں ہندوستان اپنے مختلف رنگوں کے ساتھ ملتا ہے، صورت، جامد نہیں ہوتی متحرک ہوتی ہے پیکر اپنے عمل کو نمایاں کرتے ہیں ابتدائی فکر کی زرخیزی توجہ طلب بن جاتی ہے زمین عورت، مرد،بچے، جانور، کھیت، کھلیان، کسان اور بادل، زندگی کی تخلیق، ہل بیل، اور زندگی اور موت وغیرہ ہر جگہ بینادی موضوعات رہے ہیں۔ زندگی کے جانے کتنے مظاہر مختلف لکیروں، نقشوں پیکروں اور رنگوں میں نمایاں ہوے ہیں۔ چھوٹا ناگپور قبائلی حلقوں میں قدیم کہانیاں اور لوک کہانیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ کہانیاں رقص میں بھی پیش ہوتی ہیں اور تصویروں میں بھی دیواروں پر مختلف لکیروں اور رنگوں سے تصویریں بنانے کا رواج یہاں بھی بہت قدیم ہے بنگال، بہار اور اڑیسہ کے سنھتال بھومج منڈا اور اڑاؤں قبیلوں کو لکیروں اور رنگوں کی ایک بڑی میراث حاصل ہوئی ہے۔ دیواروں پر تجریدی اور نیم تجریدی اور واضح اور صاف تصویریں بنانے کا رواج آج بھی موجود ہے۔ رنگوں کے انتخاب میں اجتماعی شعور کی کارفرمائی توجہ طلب ہے۔ اقلیدسی نقوش بھی انھوں نے ماضی سے حاصل کیا ہے جن میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں مچھلیاں اور پھول اور پتےّ اقلیدسی نقوش کی بنیاد ہیں اُن کی تصویر نگاری مادی زندگی میں پیوست ہے تخیلی جانور اور پرندے نہیں ملتے وہی جانور اور پرندے نقش ہوتے ہیں جو حقیقی ہیں جنھیں وہ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں مختلف قسم کے سماجی موضوعات توجہ طلب بن جاتے ہیں۔ رقص کی اداؤں اور رقص کے متحرک کی اَن گنت تصویریں ملتی ہیں جو اپنے رنگوں کی زرخیزی سے زندگی کی مسرتوں اور لذتوں کی جانب اشارہ کرتی ہیں تیر کمان سّور، ہرن شیر، اور دولہا دولہن، وغیرہ بھی ہمیشہ بینادی موضوعات بنے رہے ہیں دیواری تصویروں کے ساتھ صحن میں بھی رنگین تصویریں، پھولوں؛اور پتوں کی صورتوں میں اُبھاری جاتی ہیں لیکن پھول اور پتے بہت حد تک تجریدی ہوتے ہیں دائروں مرلعبوں، زاویوں اور لہراتی ہوئی لکیروں میں موضوع پوشیدہ رہتا ہے۔ دائروں کی تعداد اکثر اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پہلا تاثر یہ ہوتا ہے جیسے ہم کسی پھول کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
چھوٹے قبیلوں اور اُن کی برادری اور خاندان کے مختلف حلقوں کی اپنی اپنی علامتیں ہوتی ہیں اور یہ علامتیں عموماً جنگلوں کی زندگی سے رشتہ رکھتی ہیں درخت، پودے،پرندے جانور سانپ، کچھوے اور بھینس، وغیرہ کی علامت قبائلی علامتوں CLan Symbol s کی صورتوں میں ملتی ہیں اگر کوئی قبیلہ یا کسی قبیلے کی کوئی برداری کسی خاص درخت یا کسی مخصوص جانور کو عزیز رکھتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق اُن کی روایات اور اُن کی لوک کہانیوں سے بہت ہی گہرا ہے، بعض درخت اور جانور اتنے عزیز ہیں کہ تیبو TABOoS بن گئے ہیں انھیں کاٹنا یا مارنا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ تہواروں پر اُن کی رنگین تصویریں اُبھاری جاتی ہیں۔ وقت کے ساتھ اُن کی علامتی اہمیت کم ہوتی گئی اور اُن کی حیثیت موتف MOTIFS کی رہ گئی ہے قبائلی فنکار آرائش و زیبائش کے لیے اُن کے رنگی پیکر اُبھارتے ہیں۔ رامائن، مہابھارت اور پنچ تنتر، کے کردار بھی اُن میں شامل ہوگئے ہیں
ہندوستان میں دیواری تصویروں کی جو داستان غاروں سے شروع ہوئی، وہ مختلف قبیلوں کے گھروں کی دیواروں تک آئی ہے اور اس کے بعد محلوں اور قلعوں کی دیواروں پر رنگین تصویریں اُبھری ہیں
ملک کے بعض علاقوں میں سرخ رنگ کے گرد عورتوں کے رقص کی روایت رہی ہے کہا جاتا ہے جب مندروں پر اونچی ذات کے لوگوں کا قبضہ ہوگیا تو کھیتوں اور کھلیانوں کے قریب ہزاروں چوزوں کی قربانی کے بعد اُن کے لہو کے گرد عورتوں نے رقص کرنا شروع کیا، یہ رقص ہی عبادت بن گیا۔ وقت کی تبدیلی نے قربانی کا سلسلہ ختم کر دیا تو سرخ کپڑوں کے گرد رقص شروع ہوگیا آج بھی جنوبی ہند کے بعض علاقوں میں سرخ کپڑوں کے گرد رقص شروع ہوگیا آج بھی جنوبی ہند کے بعض علاقوں میں سرخ کپڑوں کے گرد رقص موجود ہے بعض تہواروں میں دیوی کی خوشنودی کے لیے ایسے رقص کے مناظر ملتے ہیں کیرل کے ایک مشہور تہوار کو کودُن گُّلر KUDUNGALlUR میں عموماً ایسے رقص پیش کیے جاتے ہیں پتوںّ Palm Leaves پر تصویریں بنانے کی روایات بھی بہت پرانی ہے۔ تصویریں اُبھارنے کا عمل اتنا مشکل نہ تھا جتنا کہ انھیں مختلف رنگوں سے مزّین کرنے کا عمل مشکل تھا اُڑیسیہ میں اس روایات کی خبر پندرھویں صدی سے ملتی ہے۔ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اُس کی روایات موجود ہے فنکاروں نے سیاہ حاشیوں کے درمیان متحرک اور غیر متحرک تصویروں میں ایک ساتھ کئی رنگوں کو شامل کیا ہے سیاہ، سبز، سرخ، زرد، اور سفید بینادی رنگ رہے ہیں پتوں پر جو زائچے Horoscopes بنائے گئے ہیں اُن میں بھی بعض شوخ رنگوں کا استعمال ملتا ہے۔ منقش تختوں پر بنی ہوئی تصویروں PANAL Paintings اور دیواری تصویروںPATA-CITRA میں رنگوں کا احساس توجہ طلب ہے مختلف علاقوں کی تصویروں، خاکوں اور رنگوں کے اسالیب مختلف ہیں لیکن مقامی اسلوب اپنی بینادی خصوصیات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے مثلاً اُڑیسہ میں تصویروں اور رنگوں کا ایک ہی اسلوب کینوس میں اُبھرتا رہا ہے منقش تختوں اور دیواری تصویروں زائچوں لپٹے ہوے کاغذوں یا طوماروںSCROLLS میں جو اسلوب ہے وہی نقلی چہروں یا مصنوعی چہروں MAsks زیورات کے صندوقوں اور دیوی دیوتاؤں کے پیکروں میں ملتا ہے مٹھوں اور مندروں کی دیواریں بھی بینادی اسلوب کو نمایاں کرتی ہیں مصوری اور رنگوں کے فن کا رشتہ انتہائی قدیم روایات مذہبی تصورات اور اسطوری واقعات سے قائم ہے اڑیسہ ایسٹ میوزیم میں گیتا گوبندا GITA GOVINDA آمارو AMARU مادھوا MADHOVA سستاکا SATAKA وغیرہ کے جو منقش رنگین نسخے دیکھے اُن سے تصویروں اور رنگوں کے تعلق سے اپنی قدیم متحرک روایات کی خبر ملی، آمارو کے سینکڑوں اشعار کو پتوں پر تصویروں میں نقش کیا گیا ہے مصّور کی تخلیقی صلاحیتوں کا جس طرح اظہار ہوا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، فن کار کے تخیل کی شادابی کے رنگین مناظر جذبات اور عمل میں نمایاں ہوے ہیں انتظار ہم آغوشی، شادی سے قبل معاشقہ الوداع کہنے کا لمحہ یہ غیر معمولی مناظرہ ہیں جو متحرک پیکروں اور غیر متحرک صورتوں کے رنگوں کو احساس اور جذبے کی علامتیں بنا دیتے ہیں۔ جے دیو بارہویں صدی کی تخلیق گیتا گوندا یا گیتا گوندم کے منقش پر نقش گری اور رنگ آمیزی کی رویات کتنی قدیم ہوں گی کہ ایسے رنگین پیکر اُبھرے ہیں فنکاروں کی تخلیقی صلاحیتوں اور اُن کی تخیل نگاری نے اس فن میں جدتیّں بھی پیدا کی ہیں اور روایات کی نئی تشکیل بھی کی ہے۔ گیتا گوبندا، کرشن کا نغمہ ہے جس نے اپنی سحر انگیز کیفیتوں سے ہندوستانی فنون کو شدت سے متاثر کیا ہے اُس کا موضوع مختلف علاقوں کے فنکاروں کو بھی عزیز رہا ہے۔ اڑیسہ اسٹیٹ میوزیم میں میں َ نے جو نسخہ دیکھا وہ اپنی جمالیاتی خصوصیات کے پیش نظر بہت اہم ہے ایک بڑی بینادی خصوصیت پیکروں اور رنگوں کا تحرک ہے لکیروں، خاکوں اور رنگوں کی وحدت سے تحرک کی توانائی پیدا ہوئی ہے۔ جنگوں کے مناظر ہوں یا رادھا اور کرشن کے ملاپ کے مناظر، جانوروں، درختوں، پھولوں اور تالاب کی جھلیوں کے پیکر ہوں یا جمنا کے کنارے گائے اور درختوں پر چڑھتے ہوئے بندروں کی تصویریں تحرک اور تحرک کی توانائی کا جمالیاتی احساس ملنے لگتا ہے۔ تالاب میں کھلتےِ ہوے کنول کا جمالیاتی احساس جس طرح پیدا کیا گیا ہے اُس کی مثال آسانی سے نہیں ملے گی، انداز کیا جاسکتا ہے کہ فنکاروں اور فطرت کے پیکروں اور رنگوں کا رشتہ کتنا گہرا اور تہِ دار تھا اس دستاویز میں فطرت کے تعلق سے نئی تخلیق کا عمل ہر جگہ توجہ طلب بنتا ہے دو جمالیاتی جہتوں میں عموماً بات کہہ دی گئی ہے چھوٹے سے کینوس PALM Leaves میں کہانیوں کا منظری بیان ہندوستانی جمالیات کی تاریخ میں ایک امتیازی نشان بن جاتا ہے۔ اگر پتوں پر لکھی ہوئی نظم نہ پڑھی جائے تو یہ رنگین تصویریں نظم بن جاتی ہیں اور جمالیاتی آسودگی عطا کرنے لگتی ہیں۔ پتوں پر منقّش تصویریں جہاں متھ، روایت اور رسم رواج کے تئیں بیدار کرتی ہیں وہاں اسلوب، تیکنک، موتف، اور رنگوں کے فنکارانہ انتخاب، اور استعمال سے بھی آشنا کرتی ہیں
دکن میں بیانیہ مصّوری Narrative Paintings کی روایت بہت قدیم ہے نرمدا Narmada اور کرشنا krishna ندیوں کے کنارے قدیم آبادی نے مصوری کی جو روایت قائم کی اُس کا سفر صدیوں میں جاری رہا ہے۔ قصوّں اور کہانیوں کو مصوری میں بیان کیا جاتا رہا ہے، ابھی حال میں تلنگانہ بیانیہ مصوری کے جو نمونہ دریافت ہوے ہیں اُن سے انداز ہوتا ہے کہ دکن میں روایت کتنی قدیم رہی ہے رنگوں کا غیر معمولی احساس توجہ طلب بن گیا ہے، مقامی صورتیں تیز تر رنگوں کے ساتھ نمایاں ہیں۔ قلم کاری اور طومار، اور دیوار کا تعلق بہت پرانا ہے دکن میں طومار SCROLLکو منقش کرنے کا جمالیاتی ذوق رہا ہے سولہویں صدی کی دیواری تصویریں کے پیچھے ان روایات کو محسوس کیا جاسکتا ہے روایتی تصویری اظہار کا سلسلہ صدیوں قائم رہا۔ قدیم بُدھ اور جین آرٹ میں اُسے بڑی اہمیت حاصل ہوئی۔ برہمنوں نے بھی اس فن کی ترقی میں بڑا حصّہ لیا ہے پتّ چتر، PATA CHITRASاور یام پتّ YAMA PAT وغیرہ اسی فن کے نام رہے ہیں مذہبی اور جمہوری اور سیکولر موضوعات کو منتخب کیا گیا اور انھیں مختلف قصّوں اور کہانیوں میں مختلف پیکروں اور رنگوں سے اجاگر کیا گیا، بہار راجستھان گجرات اور بنگال میں یامَ پتّ اور پتپتّ چترّ کی روایات ملتی ہیں اساطیری قصوّں کو تصویریں اور اُن کے رنگوں میں پیش کرنے کی ایک طویل داستان مختلف ادوار میں موجود رہی ہے بیانیہ رنگین تصویریں کپڑوں پر بھی بنائی جانے لگیں۔ بدھ تانتر اور جین تانتر کے موضوعات خاص طور پر نقش ہونے لگے زندگی چکر حیات و موت جنت اور جہنم محنت اور مشقت، جہدوجہد اور قربانی اور دوسرے کئی موضوعات طومار اور کپڑوں پر ملتے ہیں، پرانوں کی کہانیاں بھی مختلف پیکروں اور رنگوں میں اُجاگر ہونے لگیں۔ طوماروں اور کپڑوں پر جو رنگین تصویریں بنی ہیں وہ اُفقی Horizontal بھی ہیں اور عمودی VERTICALبھی لیکن عمودی تصویریں زیادہ بنی ہیں۔ عمودی طوماروں میں کہانی اوپر سے نیچے کی جانب آتی ہے اور اپنے مختلف تیز اور شوخ رنگوں سے متاثرکرتی ہے اُفقی طوماروں میں تصویریں عموماً دو حصوں میں تقسیم ہیں جہاں قصّہ یا واقعہ رکتا ہے وہاں عموماً کوئی درخت بنا دیا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں کے فنکاروں نے اپنی روایات کو منت کرتے ہوے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ عوامی دلچسپی قائم رہے، واقعات کا انتخاب کرتے ہوے اپنے قبیلے کے عقائد رسومات اور اپنی ذات CaSteکی اسطور کو پیش نظر رکھا ہے اپنے دیوتاؤں کے نقش اُن کے مخصوص رنگوں کے ساتھ اُبھارے ہیں۔ طوماروں اور کپڑوں پر سرخ رنگ کزی رنگ رہا ہے عموماً پس منظر بھی سرخ میں اُبھرا ہے ایسی تمام تصویریں کے پیکروں کے آہنگ میں رنگوں نے نمایاں حصہ لیا ہے رامائن اور مہابھارت کے واقعات کے شامل ہوتے ہی رنگوں کے تحرک کی اہمیت بڑھ گئی ہے جس کی کوئی صورت FORMنہیں ہے عابد اُسے اپنے خیال اور تصوّر سے صورت دے سکتا ہے یہ صورت آہستہ آہستہ الوہی خصوصیتوں کے ساتھ ذہن پر نقش ہو جاتی ہے اور عابد اپنے تصور کے مطابق اُن کی تصویر بنا دیتا ہے اس قدیم عقیدے نے دھیان DHYAN کو بڑی اہمیت دی اور یہ بتایا کہ ہر شخص کا اپنا تصور اور خیال ہوسکتا ہے لہذا صورت اُسی خیال کے مطابق جنم لیتی ہے۔ صورتوں کے اختلاف کی وجہ یہی ہے کہ مختلف دھیانی مختلف اندازے کسی دیوی یا دیوتا کی صورت کے متعلق سوچتے ہیں ایک شخص اپنے دھیان کے مطابق فارم یا صورت کی تخلیق کرتا ہے ایک ہی دیوی یا ایک ہی دیوتا کی مختلف صورتیں اسی وجہ سے وجود میں آیئں، اُلوہی خصوصیات کے تعلق سے بھی احساسات مختلف رہے دھیانی صرف فارم یا صورت ہی خلق نہیں کرتا بلکہ رنگوں کا انتخاب بھی کرتا ہے دیوی دیوتاؤں کے اپنے بنیادی رنگ پیکروں کا احساس دیتے ہیں پہاڑی، مصّوری میں دیوی کے جانے کتنے رنگ ملتے ہیں اور یہ دھیان منتر کا کرشمہ ہے جو ذہن کو کسی خاص رنگ کی جانب لے جاتا ہے اور عبارت کے بول اور اشلوک سے رنگ پیدا کرتا ہے کبھی آواز سے رنگ خلق کرتا ہے اورکبھی عبادت کے لمحوں کے نغمے کے آہنگ سے رنگ کا شعور عطا کر دیتا ہے۔ رفتہ رفتہ مختلف دیویوں اور دیوتاؤں کی تخلیق کے لیے مختلف دھیان منتر وجود میں آگئے، پہاڑی مصّوری میں دیوی یا عظیم ماں کے سات رنگ بہت نمایاں ہیں دیوی دیوی کے عمل میں تصور کے مطابق خاکہ اُبھرتا ہے اور اُن کی شخصیت کے مطابق رنگ جنم لیتا ہے عظیم ماں کا رنگ اس دیوی کے رنگ سے مختلف ہے جو صرف کسی کے گھر کا تخفظ کرکے اُس کے گھر کو خوشیاں عطا کرتی ہیں۔ صبح سے شب تک کے رنگ دیوی کے مختلف پیکروں میں شامل ہیں صبح کاذب کا رنگ اپنا جلوہ رکھتا ہے، دیوی اس رنگ میں بھی آتی ہے جب روشنی پھیلتی ہے اور صبح اور دوپہر کے درمیان کا رنگ اُبھرتا ہے تو دیوی کا رنگ ہی دوسرا ہو جاتا ہے اسی طرح دیوی دوپہر سہ پہر، شام اور رات کے رنگوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔ مختلف اوقات کی دیویوں کے رنگوں میں تخیل اور تخلیقی تخیل کے کرشمہ غیر معمولی نوعیت کے ہیں شکتی تخلیقی توانائی کا رنگ بکھیر دیتی ہے کہ جن سے پرش PURUSH اور پراکرتی PRAKRITl میں زبردست تحرک پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مہا لکشمی، مہیشوری اور مہا سرسوتی کے اپنے اپنے رنگ ہیں اورہر رنگ ایک نغمہ، ایک کہانی ہے سحر انگیز فسانہ ہے ہر دیوی کا اپنا جمال ہے، اپنا جلوہ ہے لکشمی نوجوان ہیں رخسار حد درجہ پرکشش ہیں، لب سرخ ہیں ابرو کمان کی مانند ہیں، زیوارت پہنے ہوئی ہیں گول مٹول خوبصورت چہرہ اپنے دلکش بالوں کے ساتھ نظر آتا ہے سنہرے رنگ کا پیکر ہیں جو کنول کے خوبصورت تخت پر جلوہ گر ہیں جب دودھ کے سمندر سے باہر آئیں تو سارے دیوتا اُن کے جمال کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے اور لگے بےاخیتار رقص کرنے وہ نہا کر آئیں تو وشنو کے وجود میں جذب ہوگئیں اور اپنے وجود کا رنگ لیے وشنو کے وجود کے رنگوں میں شامل ہوگئیں۔
وشنو ہر عہد میں عہد کا رنگ لئے آتے ہیں تو لکشمی بھی اپنے جمال کے ساتھ اُن کے قریب ہوتی ہیں وہ ماں بھی ہیں اور عابدہ بھی محبوب بھی ہیں اور عاشق بھی اور اس طرح وہ کئی رنگوں کو لئے ہوتی ہیں وہ قربانی، شہرت، عظمت، خوشخالی، سب کی علامت ہیں پودوں کے اندر بھی رہتی ہیں اور دھرتی کے نیچے بھی، کھیتوں اور جنگلوں میں بھی ہیں اور نیک کردار لوگوں کی فطرت میں بھی چاول اور گیہوں کے دانوں میں چھپ کر مسرتیں لٹاتی رہتی ہیں زرخیزی کی علامت ہیں کنول کے خوبصورت تخت پر بیٹھی رہتی ہیں، اُن تمام دیویاں کے جلوؤں کے رنگ شامل ہیں عوامی ذہن نے انھیں غالباً سب سے پہلے کھیتوں میں محسوس کیا تھا آج بھی عقیدہ ہے کہ وہ اناج کی دیوی ہیں کھیتوں اور کھلیانوں میں اُن کا رنگ گندمی ہے اور اُن کا نام دھیما مالی DHANYAMALI ہے ہندوستان کے گاؤں اور دیہاتوں میں اُن عبادت دھنیامالی کی صورت میں ہوتی ہے جو اناج کے وجود اور تخلیق کی ذمہ دار ہیں۔ کھیتوں کے قریب اُن کے اپنے مندر ہیں اناج کی کٹائی کے وقت اُن کی عبادت ضروری ہے
دروپدی ماں عموماً محبوب شوہر؛ ارجن کے ساتھ نظر آتی ہیں اور اُن کا بینادی رنگ سرُخ ہے
پاروتی پہاڑ کی بیٹی ہیں لہذا اِن کا رشتہ زمین سے ہے وہ دھرتی کی طاقت ہیں دھرتی کا رنگ اُن کا بینادی رنگ ہے عقیدہ یہ ہے کہ سب سے پہلے انھوں نے ہی ریت سے لنگم بنا کر عبادت کی تھی اور آسمانوں اور زمین کا رشتہ قائم کرکے کائنات کی وحدت کا احساس دیا تھا وہ پودوں اور پھولوں اور جانوروں کی زندگی کی ذمہ دار ہیں۔ زندگی کی زرخیزی کا انحصار اُن ہی پر ہے۔ وہی ہر شئے میں رنگ بھرتی ہیں مہیشوری کی صورت اختیار کر لیتی ہیں تو اُن کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے
اتاوارو امواتی دیوی کائنات کے تمام رنگوں کا سر چشمہ ہیں یہ وہی ہیں جنھوں نے تین انڈے دیئے تھے ایک خراب ہوگیا دوسرے میں ہوا بھر گئی اور تیسرے سے تین دیوتاؤں برہما، وشنو، اور شیو، نے جنم لیا۔ برہما کی پرورش ہلدی اور؛اُس کے رس سے کی وشنو کی پرورش مکھن سے اور شیو کو اپنا دودھ پلایا تین خوبصورت شہر بسائے جن کے گرد کی دیواریں سونے اور کانسی کے رنگ REDISH BEOWN کی تھیں، شہروں کے سیکڑوں دروازے تھے ان میں کمہار، حجام اور دھوبی رہتے تھے،
پولر امّا Poleramma کھیتوں کی دیوی ہیں جو آج بھی آندھرا پردیس میں مقبول ہیں، اناج کو اپنا لہو بخشتی ہیں لہٰذا اُن کا بنیادی رنگ سرخ ہے
سورج کا حسّی پیکر غیر معمولی رہا ہے وہ جو دن کا پہلا خوبصورت درخت ہے الوہیت کا سرچشمہ ہے ماضی حال اور مستقبل میں توازن قائم کئے ہوے ہیں، جو فرد کے وجدان اور تخیل کو متحرک کرتا ہے جس کی کرنوں اور شعاعوں سے زندگی قائم ہے جو جسم اور روح کی علامت ہے سات گھوڑوں پر سوار ہے جو ذہانت اور عقل و دانش کا مرکز ہے اُس کی آنکھوں کا رنگ شہد کا رنگ ہے اُس کا چہرہ گہرا سرخ ہے کائنات کے تمام رنگ اسی کی دین ہیں گیاتری منترسے اُس کی خصوصیات روشن ہو جاتی ہیں اور فرد پر رحمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے
مندروں کی دیواریں کو سجانے اور پیکروں اور رنگوں سے پرکشش بنانے کی قدیم روایت قلم کاری KALAMKARRI آج بھی زندہ ہے مچھلی پٹم کی قلم کاری کا اپنا منفرد اسلوب رہا ہے مرتعش رنگوں Vibrant Colors کو لئے ہوئے اساطیری اور مذہبی واقعات اور کردار اپنے جلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں فنکاروں نے فطرت کے حسن و جمال اور احساس جمال میں ایک معنی خیز رشتہ قائم دیا تھا اس عوامی فن میں درخت، پودے پھول سورج چاند بادل وغیرہ بینادی پیکر بنے رہے ہیں۔ دھرتی کی خوشبو مختلف اساطیری، روایتی اور مذہبی کرداروں میں پھیل رہی ہے سبزیوں سے مختلف قسم کے رنگ بنائے جاتے اور مرتعش سرخ سیاہ اور سبز رنگوں سے تصویروں کو پر کشش بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مچھلی پٹم کی قلم کاری کا اسلوب۔ سری کلا ہاستی SRI KALAHASTI کی قلم کاری کے اسلوب سے مختلف رہا ہے سری کلا ہاستی اسلوب میں علامتوں کی اہمیت زیادہ رہی ہے۔ موضوعات کے انتخاب کے لئے اس اسلوب کے فنکار رزمیہ قصوں اور کہانیوں سے قریب رہے ہیں۔ مقامی رزمیہ قصّوں کے موتف کا استعمال زیادہ ملتا ہے۔ اس اسلوب کا تقاضا رہا ہے کہ پینل PANELS اور کینوس پھیلے ہوئے ہوں تاکہ علامتوں کے ذریعے واقعات کی تفصیل پیش کی جاسکے۔ سری کلا ہاستی کے فنکاروں نے کپڑوں پر اپنے فن کا مظاہرہ زیادہ بہتر کیا ہے اس لئے کہ کپڑے موضوعات اور واقعات کے تعلق سے زیادہ بہتر پینل اور کینوس ثابت ہوئے ہیں۔ مچھلی پٹم کی قلم کاری میں ساحلی علاقوں کے موضوعات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ لوک کہانیوں اور اُن کے کردار کو پیکروں اور رنگوں کے تحرک میں نمایاں کرنے میں مچھلی پٹم کے فنکار پیش پیش رہے ہیں۔ پرندوں کے پیرَ مختلف رنگوں میں ملتے ہیں۔ آبی پرندوں کو پیش کرتے ہوئے فنکاروں نے اپنی ذات کا اظہار جس شدت سے کیا ہے وہ توجہ طلب ہے، پرندے اکثر ذات کے پیکر بن گئے ہیں کپڑوں پر تصویریں بنانے سے قبل کافی محنت درکار تھی عموماً کپڑوں کو دودھ اور پھٹکری سے دھویا جاتا۔ رنگوں کی تیاری میں بھی بہت محنت کی جاتی مثلاً سیاہ رنگ کے لیے لوہے پر چڑھتے ہوئے زنگ؛ RUST اور پھٹکری کی مدد لی جاتی۔
تردپتی، تانجور اور مچھلی پٹم کی قلم کاری کے قدیم نمونے رنگوں کے تئیں عوامی بیداری کا بینّ ثبوت ہیں
مدھو بنی آرٹ میں قدیم قصوں اور کہانیوں کے واقعات ملتے ہیں۔ موضوعات علامتوں میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ اساطیری اور مذہبی واقعات اور کردار اہمیت رکھتے ہیں اُن کی وجہ سے اس فن کا رشتہ قومی تمدن سے قائم ہوجاتا ہے معمولی قسم کے برّشِ تیار کئے جاتے اور مٹی کی کچی دیواروں پر تصویریں بنا کر ان میں رنگ بھرے جاتے، عوامی فن کا حقیقت پسندانہ رحجان پیکروں اور اُن کے عمل میں نمایا ہے، انسان پیٹر، پودے اور جانور اپنی حقیقی صورتوں میں ملتے ہیں رَقص ایک بینادی موضوع ہے عوامی ذہن نے جسم کے تحرک کو بڑی اہمیت دی ہے مختلف قسم کی لکیروں سے تحرک کو پیش کیا گیا ہے عموماً پودے اور درخت بھی رقص کی کیفیت میں نظرآتے ہیں کنول منڈل کی صورت میں ملتا ہے جو انسان اور آفتاب دونوں کی علامت بن جاتا ہے۔ کنول کی تصویر میں دو آنکھیں بنا دی جاتی ہیں اور آفتاب اور انسان دونوں کے تاثرات پیدا کر دیئے جاتے ہیں، رنگوں میں سرخ، زرد سیاہ اور سفید بینادی رنگ ہیں۔ متھیلا کی عوامی تصویر نگاری میں لڑکیوں اور عورتوں کا بہت بڑا حصہ رہا ہے بچپن سے ہی لڑکیوں کی تربیت میں حصہ لیا جاتا ہے تاکہ وہ فنکاری کے بہتر نمونے پیش کرسکیں۔ کوہبرشبِ عروسی کا کمرہایک بینادی موضوع ہے، پہلی نظر میں اس بات کی پہچان ہوجاتی ہے کہ تانتر کی علامتوں کو اس موضوع کے اظہار کے لیے ضروری سمجھا گیا ہے۔ لنگم مرکزی علامت ہے جو یونی کے دائرہ حسن میں جذب ہے یونی کے لئے کھلاَ ہوا کنول عام علامت ہے
کوہبر کی تصویریں تخلیق، تسلسل، تخلیق اور حسن ِ تخلیق کو پیش کرتی ہیں۔ ایسی دیواری تصویریں اپنی مثال آپ ہیں، ہر گھر کی دیوار، زندگی اور تخلیق حسن اور لذت کے تعلق سے سرگوشیاں کرتی ہے، دنیا کے آرٹ کی تاریخ میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی۔
لڑکیاں کوہبر شبِ عروسی کا کمرہ کی جو تصویریں بناتی ہیں انھیں عموماً ان لڑکوں کو پیش کیا جاتا ہے جن سے رشتہ قائم کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ تصویریں دراصل شادی کی تجویزیں ہوتی ہیں۔ جب شادی طے ہو جاتی ہے تو کوہبر سجایا جاتا ہے، شبِ عروسی کے لئے جس کمرے کو منتخب کیا جاتا ہے اُسے تصویروں سے نکھار دیا جاتا ہے۔ شیو، پاروتی، رادھا اور کرشن کے علاوہ دیوی دیوتاؤں کے ایسے پیکر بھی ملتے ہیں جو حفاظت اور تحفظ کے احساس کو بڑھاتے ہیں شیو اور درگا، مرکزی پیکر ہیں جو مرد اور عورت کے وجود کی وحدت کے تئیں بیدار کرتے ہیں ابدی نسوانی توانائی کے تاثر کو عموماً گھومتے ہوئے چھ زاویوں میں پیش کیا جاتا ہے، کائنات کے ابدی کھیل لیلا کے مناظر کو کپڑوں اور دیواروں پر طرح طرح اُبھار جاتا ہے، عوامی ذہن نے اس عظیم التباس کے حسن و جمال کو یقیناً ایک اعلیٰ ترین سطح پر محسوس کیا تھا جہاں شیو کی شکتی کی جمالیاتی وحدت عظیم تر نمونہ ہے وقت کے ساتھ علامتوں کی صورتیں بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ کرشن بھگتی کی وجہ سے شیو کی جگہ کرشن نے لے لی اور درگا کی جگہ رادھا نے لنگم کرشن کی بنسری میں تبدیل ہوگیا۔
مدھو بنی اور متھیلا کے فنون، بینادی طور پر کسانوں اور اُن کے گھروں کے فنون رہے ہیں، کسان مرد اور عورتیں اپنی تصویروں کے لیے عام رنگوں کا انتخاب کرتی تھیں۔ سیاہ سرخ اور زرد رنگوں کے بنانے کے اپنے طریقے تھے، کالک سے سیاہ، سرخ مٹی سے سرخ اور گہرے پیازی پھولوں سے زرد رنگ بناتے رنگوں کی تیاری میں دودھ کا استعمال کرتے، رفتہ رفتہ مختلف قسم کے پھولوں اور سبزیوں اور نیل Indigo نیلے رنگ کے لیے سنکھیا Arsenic زرد رنگ کے لیے
اور صندل کی لکڑیوں نارنجی رنگ کے لیے سے مدد لی جانے لگی شیو اور کرشن کے لئے نیلے رنگ کو منتخب کیا جاتا ہے۔ کالی کے لیے سیاہ، شیو سرخ رنگ میں بھی پیش کئے جاتے ہیں
عوامی رقص میں رنگوں کی بڑی اہمیت رہی ہے، نقلی چہروں اور مصنوعی صورتوں کے لئے رنگوں کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے کتھا کلی میں آج بھی مصنوعی چہروں اور اُن کے رنگوں کو نمایاں حیثیت حاصل ہے کتھا کلی تمثل ہے کہ جس کی روایت جانے کب سے قائم ہے رنگ برنگے کپڑوں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور چہروں پر مختلف قسم کے رنگوں کو اُبھارا جاتا ہے اس رقص میں نرَت NRITTA یعنی اظہاری رقص اور ناٹیہ NATYA یعنی نِرِت اور نرتیہ کی وحدت کے ساتھ ڈرامائی رقص تینوں بھینے ABHINAYA کے ذریعے سامنے آتے ہیں اور ابھینے مختلف قسم کے رنگوں کو لئے واقعات اور تاثرات کے رنگوں کو بکھرتا رہتا ہے۔ جسم اور چہرے کے معنی خیز اشارے زبان بن جاتے ہیں رقاص رنگوں کا پیکر ہوتا ہے ہاتھوں، آنکھوں، ابرؤں، ہونٹوں، اور پاؤں سے اُس کے اشارے رنگوں کی مانند بکھرنے لگتے ہیں میک اپ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے لہٰذا ان کی مختلف قسمیں ہیں کٹّیKATTI منیکو MINUKKU کاری KARI ٹاڈی TADI پاچھا PACHA وغیرہ سبز رنگ الوہیت کی علامت ہے سفید روحانیت کی سرخ آرزو امید، خواہش اور تمنا کی اور سیاہ مکروہ خیالات کی رنگوں کے پیشِ نظر جو میک اپ ہوتا ہے اس کی منعویت بھی توجہ طلب ہے مثلاً پاچھا PACHA میں وہ رنگ شامل ہیں جو شجاعت جوانمردی اور بہادری کو نمایاں کرتے ہیں اسی طرح کٹیّ KATTI میں وہ رنگ ہیں جو مکروہ کرداروں اور اُن کے ناپاک ارادوں کو پیش کرتے ہیں۔ کاری Kari مضحکہ خیز پیکروں کے لئے ہیں اور منیکو MINUKKU باعزت اور پروقار اشخاص کے لیے ان سے کلاسیکی اور عوامی رقص میں رنگوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے
کتاب: ہندوستانی جمالیات جلد نمبر:1، مصنف: شکیل الرحمٰن، صفحہ نمبر:117 تا 174
انتخاب و کمپوزنگ :احمد نعیم





کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں