سنیل دت - فٹ پاتھ سے آسمان تک - فلمی الف لیلیٰ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-18

سنیل دت - فٹ پاتھ سے آسمان تک - فلمی الف لیلیٰ

sunil-dutt-versatile-actor-bollywood-superstar
قیام پاکستان سے پہلے کا زمانہ بمبئی کی فلمی صنعت کے لئے ایک سنہری دور تھا۔ بڑے بڑے نامور اور کامیاب ہدایت کار ، اداکار، موسیقار اور گلو کار اس دور میں انڈین فلمی صنعت میں موجود تھے ۔ ہر شعبے میں دیو قامت اور انتہائی قابل قدر ہستیاں موجود تھیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان کی فلمی صنعت کے ناقابل فراموش اور انتہائی اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے لوگ ایسے تھے جنہوں نے کبھی کسی انسٹی ٹیوٹ یا فلم کی تعلیم دینے والے ادارے کا منہ تک نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں اور تجربہ کار لوگوں سے یہ فن سیکھا تھا ۔ پونا فلم انسٹی ٹیوٹ کا قیام تو کافی عرصے بعد عمل میں آیا تھا۔ اس ے پہلے پرانے تجربہ کار استاد ہی اپنے شاگردوں کو سکھایا کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دور میں ہندوستان کی فلمی صنعت نے بہت ہنر مند اور ایسے فن کار اور ہنر مند پدیا کیے جن کی مثال آج بھی پیش نہیں کی جاسکی۔ ذرا غور کیجئے کہ محبوب خان، شانتا رام، بمل رائے ، گرودت، کمال امروہوی ، راج کپور، اے آر کار دار جیسے ہدایت کار آج کیوں نظر نہیں آتے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کسی اسکول یا کالج میں فلم کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں بیشتر لوگ وہ تھے جنہوں نے باقاعدہ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم تک حاصل نہیں کی ۔ انہیں قدرت نے خود تعلیم دی تھی۔ صلاحیتیں عطا کی تھیں اور انہیں اپنے اپنے فن میں کمال حاصل تھا۔ مثال کے طور پر محمود خان جیسے ہدایت کار گجراتی کے سوا کوئی اور زبان نہیں جانتے تھے۔ لیکن انہوں نے ہندوستان کی فلمی صنعت میں جو انوکھے تجربات کیے اور جوبے مثال فلمیں بنائیں انہیں دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ اردو فلمیں بنانے والا یہ عظیم ہدایت کار اردو زبان نہ پڑھ سکتا تھا اور نہ ہی لکھ سکتا تھا۔
اس زمانے میں جو بھی فلموں میں کام کرنا چاہتا تھا ٹکٹ کٹا کرسیدھا بمبئی کا راستہ لیتا تھا ۔ ان لوگوں کے پاس نہ پیسا ہوت اتھا نہ سفارش اور نہ ہی تجربہ مگر قسمت آزمائی کا شوق انہیں بمبئی لے جاتا تھا۔ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہزاروں نوجوان اداکار بننے کی تمنا لے کر اس شہر پہنچے تھے۔
ان میں سے اکثر خالی ہاتھ اور خالی جیب ہوتے تھے ۔ بمبئی جیسے بڑے وسیع شہر میں کسی انجانے کم عمر لڑکے کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کے لالے پڑ جاتے تھے ۔ عموماً ان کی جیبوں میں ایک روپیہ بھی نہیں ہوتا تھا ۔ اللہ پر توکل کی مثال اس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ بمبئی جیسے لاکھوں انسانوں کے سمندر میں یہ کود پڑتے تھے۔
محبوب خان اپنے گاوں سے چند روپے لے کر بمبئی گئے تھے۔ ان کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ تھی ۔ انہوں نے مسجدوں میں بسیرا کیا۔ راتوں کو بمبئی کی کشادہ سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر بغیر بستر کے سوئے ۔ درجنوں پھیرے لگانے کے بعد فلم اسٹوڈیو کے اندر داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تو وہاں مزدوروں، قلیوں اور سامان اٹھانے کا کام کرنے کو ملا ۔ قسمت نے یاوری کی کہ ایکسٹرا کے طور پر کام کرنے لگے۔ پھر قدرت نے مزید مواقع فراہم کئے، محبوب خان کی کہانی انوکھی نہیں ہے ۔ ہمارے فلم سازو ہدایت کار لقمان دہلی سے چند روپے لے کر بمبئی پہنچے۔ فلموں کا جنون تھا، اس وقت اس کی عمر پندرہ برس ہوگی۔ انہوں نے بھی بمبئی میں فلموں کے اسٹوڈیو کے اندر قدم رکھنے کے لئے بہت پاپڑ بیلے ۔ ان کی اور محبو ب خان کی کہانی معمولی سے فرق کے ساتھ ایک جیسی ہے ۔ فلم اسٹوڈیو کے اندر داخل ہونے کا موقع ملا تو انہوں نے بھی مزدوروں اور قلیوں جیسے کام کیے۔ پھر کس طرح قسمت نے مہربانی کی یہ کہانی آپ پہلے سن چکے ہیں۔ ان کی تعلیم بھی اردو لکھنے پڑھنے تک محدود تھی ۔ 1940ء کے بعد سے لے کر قیام پاکستان تک اور اس کے بعد کا دور انڈین فلم انڈسٹری میںعروج اور کامیابیوں کا دور تھا۔ یہ سب کارنامے ایسے ہی سر پھروں نے سر انجام دیے تھے ، آج ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔ ان کے بارے میں کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ انہیں انڈین فلموں کے عظیم ترین نام کہاجاتا ہے مگر ان میں سے کسی نے کسی فلم انسٹی ٹیوٹ میں قدم بھی نہیں رکھا۔ جو بھی سیکھا اپنے استادوں سے سیکھا جنہوں نے اپنے استادوں سے سیکھا تھا۔ یہی لوگ آج انڈین فلم انڈسٹری کے چاند سورج کہے جاتے ہیں جنہوں نے بے شمار چمکدار ستاروں کو روشنی دے کر صنعت کے آسمان پر جگمگادیا۔( ہندوستان اور پاکستان کے بھی) اکثر بڑے ممتاز، مشہور اور معروف لوگوں کی زندگیاں ایسے ہی واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔
آئیے آج آپ کو ایک ایسے ہی معروف اور ممتاز آدمی کی کہانی سناتے ہیں۔ جسے بر صغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے تھے ، اور کیسے کیسے امتحانوں اور آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا۔

یہ قصہ سنیل دت کا ہے جس کا بیٹا سنجے دت محض اس جرم میں پانچ سال کی سزا کاٹ رہا ہے کہ اس کے گھر سے ایک بغیر لائسنس کی بندوق برآمد ہوئی تھی ۔ اس سے پہلے بھی وہ اٹھارہ ماہ کی سزا کاٹ چکا ہے ۔ دراصل اس کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان اور ایسے ہندو باپ کا بیٹا ہے جو مذہبی تعصب کے خلاف ہندوستان بھر میں ریلیاں نکالتا رہا ہے ۔ سنجے دت کی ماں نرگس ایک مسلمان تھی ۔ اس کا باپ بھی ایک ہندو تھا جو مسلمان ہوچکا تھا۔ سنیل دت نے بھی ایک بار اپنے انٹر ویو میں کہا تھا کہ اس کا دادا مسلمان ہوگیا تھا ۔ سنیل دت ہندوستانی لوک سبھا کا رکن رہا، نرگس بھی لوک سبھا کی رکن رہی تھی ۔ ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ان کی بہت دوستی تھی ۔ اب نرگس رہیں نہ اندرا گاندھی ۔ سنیل دت بھی نہیں رہے ۔ اب ان کا بیٹا سنجے دت رہ گیا ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا رہتا ہے۔ آج کل وہ ایک جیل خانے میں عام قیدیوں کی طرح قیدہے ۔ تین ساڑھے تین سال بعد جب وہ جیل سے رہا ہوگا تو اس کی عمر پچاس سال سے زائد ہوگی ۔ پھر شاید وہ ہیرو کا کردار ادا نہ کرسکے گا ۔ لیکن ایسا پہلے بھی ہوچکا ہے ۔ اس سے پہلے جب وہ اٹھارہ ماہ بعد جیل سے باہر آیا تھا، جیل سے آنے کے بعد اس نے جس پہلی فلم میں کام کیا اس کا نام"کھلنائیک" تھا، اس فلم میں اس نے ایک مجرم اور قانون شکن کا کردار ادا کیا تھا۔ مادھوری ڈکشت اس فلم کی ہیروئن تھیں۔ یہ فلم سپرہٹ ہوئی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ جس فلم میں کام کرے وہ بھی سپر ہٹ ہوجائے۔ دیکھیے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ ہم تو آپ کو سنیل دت کی داستان سنا رہے تھے۔
سنیل دت نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ بمبئی پہنچے تو ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ یہ انٹر ویو بمبئی کی ایک فلمی صحافی لتا چندنی نے لیا تھا اور یہ سنیل دت کا آخری انٹر ویو تھا۔
سنیل دت جب بمبئی پہنچے تو ان کی جیب میں پندرہ بیس روپے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بمبئی میں در بدر پھرتے رہے ۔ سب سے پہلا مسئلہ تو سر چھپانے کا تھا۔ بمبئی میں سردی تو نہیں ہوتی لیکن بارش ہوتی رہتی ہے جو فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے لئے ایک مسئلہ ہوتا ہے ۔ بارش ہوجائے تو یا تو وہ سامنے کی عمارتوں کے برآمدے وغیرہ میں پناہ لیتے ہیں یا پھر فٹ پاتھوں پر ہی بھیگتے رہتے ہیں ۔

سوال: تو پھر آپ نے کیا کیا۔ کہاں رہے؟
جواب: رہنا کیا تھا۔ فٹ پاتھوں پر راتیں گزارتا رہا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ دن کے وقت فلم اسٹوڈیو ز کے چکر لگاتا رہا مگر اندر داخل ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ آخر مجھے کالا گھوڑا کے علاقے میں ایک عمارت میں ایک کمرا مل گیا ۔ مگر یہ کمرا تنہا میرا نہیں تھا۔ اس ایک کمرے میں آٹھ افراد رہتے تھے جن میں درزی، نائی ہر قسم کے لوگ رات گزارنے کے لئے رہتے تھے۔
میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ہر مہینے کچھ روپیا بھیجنا شروع کردیا۔ میں نے جے ہند کالج میں داخلہ لے لیا تاکہ کم از کم بی اے تو کرلوں ۔
میرا ہمیشہ عقیدہ رہا ہے کہ آپ خواہ ہندو ہوں ، مسلمان، سکھ ، عیسائی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں مگر ایک دوسرے سے محبت کریں ۔ ہر مذہب محبت اور پیار کرنا سکھاتا ہے ۔ لڑائی جھگڑا اور نفرت کرنا نہیں ۔ میں کالج میں پڑھنے کے ساتھ ہی بمبئی ٹرانسپورٹ کمپنی میں بھی کام کرتا تھا۔ میں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتا تھا اور گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔
ان دنوں بمبئی میں بہت سخت گرمی پڑ رہی تھی ۔ اتنی شدید گرمی میں ایک ہی کمرے میں آٹھ آدمی کیسے سو سکتے تھے ۔ گرمی کی وجہ سے ہمارا دم گھٹنے لگتا تھا تو ہم رات کو سونے کے لئے فٹ پاتھ پر چلے جاتے تھے ۔ یہ فٹ پاتھ ایک ایرانی ہوٹل کے سامنے تھا۔ ایرانی ہوٹل صبح ساڑھے پانچ بجے کھلتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ساڑھے پانچ بجے بیدار ہوجانا چاہئے تھا۔ ہوٹل کھلتے ہی ہماری آنکھ بھی کھل جاتی تھی ۔ ایرانی ہوٹل کا مالک ہمیں دیکھ کر مسکراتا اور چائے بنانے میں مصروف ہوجاتا ۔ ہم سب اٹھ کر اس کے چھوٹے سے ریستوران میں چلے جاتے اور گرم گرم چائے کی ایک پیالی پیتے ۔ اس طرح ہم ایرانی ہوٹل کے مالک کے سب سے پہلے گاہک ہوا کرتے تھے ۔ وہ ہم سے بہت محبت سے پیش آتا تھا اور اکثر ہماری حوصلہ افزائی کے لئے کہا کرتا تھا کہ فکر نہ کرو، اللہ نے چاہا توتم کسی دن بڑے آدمی بن جاؤ گے ۔ دیکھو جب بڑے آدمی بن جاؤ تو مجھے بھول نہ جانا، کبھی کبھی ایرانی چائے پینے اور مجھ سے ملنے کے لئے آجایا کرنا۔
دوسروں کا علم تو نہیں مگر میں کبھی کبھی جنوبی بمبئی میں اس سے ملنے اور ایک کپ ایرانی چائے پینے کے لئے چلاجاتاتھا۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خو ش ہوتا تھا ۔ میری ترقی پر وہ بہت خوش تھا۔
ایرانی چائے پینے کے بعد میں اپنی صبح کی کلاس کے لئے کالج چلاجاتا تھا۔ وہ بھی خوب دن تھے، اب یاد کرتا ہوں تو بہت لطف آتا ہے ۔
ان دنوں میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے ، اس لئے میں کم سے کم خرچ کرتا تھا اور کالج جانے کے لئے بھی سب سے سستا ٹکٹ خریدا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اسٹاپ سے پہلے ہی اتر کر پیدل کالج چلا جاتا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں دو اور ریستورانوں میں بھی جایا کرتا تھا۔ یہ خداداد سرکل میں تھے۔ یہ بھی ایرانی ہوٹل تھا۔ ایرانی کیفے کی چائے پینے اور وہاں کے بسکٹ کھانے کا ایک الگ ہی مزہ تھا۔ یہ ایرانی کیفے بہت غریب پرور ہوتے ہیں،ن سستے داموں مزیدار چائے اور ساتھ میں نمکین بسکٹ کھلاتے تھے۔
چرچ گیٹ اسٹیشن کے پاس بھی ایک کیفے تھا۔ ایرانی چائے کے ساتھ یہاں کھاری بھی ملتے تھے ۔ یہ بڑے کرے کرے بسکٹ ہوتے تھے۔ چائے کے ساتھ یہ کرکرے بسکٹ کھانے میں بہت مزہ آتا تھا۔
اس وقت ہماری جیب صرف ایرانی کیفے میں کھانے پینے کی ہی اجازت دیتی تھی ۔ آج کے نوجوان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جاکر لطف اٹھاتے ہیں مگر ان دنوں ایرانی کیفے ہی ہمارے لئے کھانے پینے اور گپ شپ کرنے کی بہترین جگہ تھی ۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ویٹر ایک کے اوپر ایک بارہ چائے کی پیالیاں رکھ کر کیسے چائے کی پیالیاں گاہکوں کو تقسیم کرتا تھا۔ ایسا تو کوئی سرکس کا جوکر ہی کرسکتا ہے۔ اس کا یہ تماشا بار بار دیکھنے کے لئے بار بار اس سے چائے منگواتا تھا حالانکہ بجٹ اجازت نہیں دیتا تھا ۔ وہ بھی خوش مزاج اور ہنس مکھ آدمی تھا۔ سبھی گاہکوں سے اس کی دوستی تھی ۔ وہ فارسی ملا کر اردو بولتا تھا تو بہت مزیدار لہجہ لگتا تھا ۔ وہ جب چائے کی بارہ پیالیاں ایک ساتھ اٹھا کر چلتا اور ایک ایک پیالی لوگوں کودیتا جاتا تھا تو کبھی ایسا نہیں کہ کوئی ایک پیالی گری ہو یہاں تک کہ چائے کی ایک بوند تک طشتری میں نہیں گرتی تھی۔ جب وہ چائے کی بارہ پیالیاں ایک کے اوپر رکھ کر چلتا تو میرے لئے یہ ایک دلچسپ تماشا ہوتا تھا اور جب تک وہ آخری پیالی گاہک کو نہ دے دیتا میں یہ تماشا دیکھتا رہتا تھا۔
ایرانی ہوٹل اس زمانے میں مجھ ایسے جدو جہد کرنے والے خالی جیب لوگوں کے لئے بہت بڑا سہارا ہوتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگربمبئی میں ایرانی ہوٹل نہ ہوتے تو میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ تو مر ہی جاتے۔ ان کی چائے بہت مزیدار بالائی والی ہوتی تھی ۔ ان کے بسکٹ بہت مزیدار ہوتے تھے اور بریڈ رول کا تو مزہ ہی الگ ہوتا تھا۔
شام کو جب ہم سب اپنے کاموں سے فارغ ہوجاتے تو ایرانی ہوٹل میں بیٹھ کر ہر ایک اس روز کے واقعات سناتا ۔ کبھی ہم اداس ہوجاتے اور کبھی ہنستے اور خوش ہوجاتے ۔ ان دنوں کی یادیں اب کتنی پر لطف اور دلچسپ لگتی ہیں۔
میں پچاس سال کے بعد اپنا آبائی گاؤں دیکھنے گیا جو کہ اب پاکستان میں ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے مجھے مدعو کیا تھا ۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میں اپنا آبائی گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت مہربان اور شفیق ہیں۔انہوں نے میرے لئے تمام انتظامات کرادئیے ۔ میرے گاؤں کا نام خورد ہے ۔ یہ جہلم شہر سے چودہ میل کے فاصلے پر ہے ۔میرا گاؤں دریائے جہلم کے کنارے پر ہے اور یہ بہت خوبصورت جگہ ہے ۔ گاؤں سے نکلتے ہی جہلم کے پانی کا بہتا ہوا نظارہ قابل دید ہے ۔
میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ پاکستان کے لوگ بہت پر خلوص اور محبت کرنے والے ہیں۔ ہمارے عام لوگوں کی طرح۔ میں جب اپنے گاؤں پہنچا تو سارا گاؤں مجھ سے ملنے کے لئے اکٹھا ہوگیا ۔ انہوں نے میری اور خاندان کی خیریت دریافت کی۔ کچھ بوڑھے لوگوں نے مجھے میرے بچپن کے واقعات سنائے اور بتایا کہ ہم سب اس زمانے میں مل کر کتنے خوش رہا کرتے تھے ۔ پہلے تو میں سمجھا کہ وہ مجھ سے ملنے کے لئے اسی لئے اکھٹے ہوگئے ہیں کہ میں ایک اداکار ہوں اور ان میں سے بہت سوں نے میری فلمیں دیکھی ہوں گی اور میرے بارے میں سنا اور پڑھا ہوگا لیکن کچھ دیر بہت میری یہ غلط فہمی دور ہوگئی۔ وہ اپنے ایک پرانے بچھڑے ہوئے ساتھی سے ملنے آئے تھے ، انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ میں نے ا پنے آبائی گاؤں کو یاد رکھا اور اتنی دور سے صر ف گاؤں دیکھنے اور گاؤں والوں سے ملنے آیا ۔ انہیں ایسا لگ رہ اتھا جیسے ایک بچھڑا ہوا رشتے دار آگیا ہے اور مجھے بھی ایسا ہی لگا جیسے میں کافی عرصے بعد اپنے رشتے داروں سے ملنے آیا ہوں ۔ ہم گاؤں کے لوگ بہت مخلص اور پیار کرنے والے ہوتے ہیں ۔
گاؤں کے نوجوانوں نے ہاتھوں میں کپڑے کا ایک بڑا بینر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا:
"سنیل دت ! ہمارے گاؤں خورد میں خوش آمدید"
بعد میں انہوں نے یہ بینر لپیٹ کر مجھے دے دیا۔
میرے گاؤں میں بہت جوش و خروش اور محبت ملی ۔ وہ سب لڑکے جو میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور ہم نے پرانی یادیں تازہ کیں۔ میں ان عورتوں سے بھی ملا جنہیں میں نے دس بارہ سال کی بچیاں دیکھا تھامگر اب وہ ساٹھ پینسٹھ سال کی بوڑھی عورتیں ہوچکی تھیں۔ اب وہ میرے ساتھ کھیلنے والی بچیاں نانی دادی بن چکی تھیں۔ انہوں نے بھی بچپن کے بہت سے دلچسپ واقعات اور شرارتوں کی یادیں تازہ کیں ۔ اس ماحول میں جاکر میں تازہ دم ہوگیا ۔ مجھے بمبئی میں اتنا مزہ نہیں آیا تھا جتنا کہ اس کھلی فضا اور پاس ہی دریا کے بہتے ہوئے پانی کو دیکھ کر آرہا تھا۔
سب میرے بھائی کو پیار سے سومو کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ گاؤں والوں نے مجھ سے سومو کے بارے میں دریافت کیا ۔ وہ کیسا ہے کیا کرتا ہے ۔ انہوں نے میری بہن رانی اور بیوی کلونتی کے بارے میں بھی پوچھا۔ اگر وہ مجھ سے اداکار کی حیثیت سے مل رہے تھے تو انہیں میرے گھر والوں سے کیا مطلب تھا ؟ مطلب نہیں یہ لگاؤ تھا جو سادہ دل گاؤں والوں میں ہوتا ہے ۔
جب میں نے انہیں بتایا کہ میرے والد اور والدہ فوت ہوچکے ہیں تو وہ سب غمگین ہونے لگے اور ان کی باتیں یاد کرنے لگے ۔ پنجاب میں یہ دستور ہے کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو عورتیں سینہ پیٹتی ہیں ۔ جب میں نے انہیں پتا جی اور ماتا جی کے مرنے کے بارے میں بتایا تو عورتوں نے سینہ پیٹنا شروع کردیا جیسے کہ ان کا اپنا کوئی رشتے دار مرگیا ہے ۔ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ دنیا میں ایسی بے لوث محبت کہاں نظر آتی ہے ۔
میرا خیال تھا کہ پچاس سال بعد لوگ، مجھے اور میرے گھر والوں کو بھول چکے ہوں گے مگر میرا خیال غلط تھا۔ پچاس سال میں تو بہت سے لوگ اپنے حقیقی رشتہ داروں کو بھی بھول جاتے ہیں ۔پھر وہ مجھے کھیتوں میں لے گئے۔

انہوں نے کہا" بالا یہ زمینیں تیری ہیں ، بچپن میں یار دوست مجھے بالا کہا کرتے تھے۔
میں نے کہا، نہیں یہ زمینیں تمہاری ہیں۔
انہوں نے کہا، نہیں تم یہاں آجاؤ، ہم تمہاری زمینیں تمہیں دے دیں گے ۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ محض زبانی باتیں نہیں تھیں ۔ وہ اپنے دل سے یہ کہہ رہے تھے ۔ ان کی باتوں میں پیار اور خلوص کی خوشبو تھی ۔ میں ایک ایکٹر اور ڈائریکٹر ہوں۔ چہروں سے دلوں کا اندازہ لگا سکتا ہوں۔ یہ جان لیتا ہوں کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے یا سچ ۔
میں نے پوچھا، آپ لوگ میرا اتنا احترا م کیوں کررہے ہیں؟
اس لئے کہ ہمارا مذہب یہی سکھاتا ہے ۔ ہمارے گاؤں کے پاس ایک درگاہ ہے ۔ ہم سب ان کی عزت کرتے ہیں۔ بڑے بڑے زمیندار بھی جب درگاہ کے پاس سے گزرتے ہین تو اپنے گھوڑوں سے اتر جاتے ہیں ۔ دراصل درگاہ میں سوئے ہوئے بزرگ کا احترام کرتے ہیں۔ درگاہ کے بزرگ نے ہمیں اتنی عزت دی ہے کہ ہم ان کی عزت کیوں نہ کریں ۔
میرے پتا جی مر گئے تھے جس وقت میں پانچ سال کا تھا، اس کے باوجود ہم اطمینان سے گاؤں میں رہا کرتے تھے ۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا ۔ اس گاؤں میں مسلمان زیادہ اور ہندو کم تھے ۔ قیام پاکستان کے وقت جو فسادات ہوئے ۔ ان دنوں میں مسلمانوں نے ہماری حفاظت کی اور ہماری جانیں بچائیں ۔ میرے والد کے مسلمان دوست کا نام یعقوب تھا۔ وہ ہمارے گاؤں سے ڈیڑھ میل دور رہتے تھے ۔ انہوں نے ہمیں جہلم شہر تک پ ہنچانے کے لئے بہت اچھا بندوبست کیا تھا اور بہت حفاظت سے ہمیں کیمپ میں پہنچایا تھا ۔ میں میٹرک پاس کرنے کے بعد پاکستان سے آگیاتھا۔
پاکستان سے جانے کے بعد میں کبھی لاہور نہیں آیا۔ کراچی تو آنا ہوا تھا۔ کراچی میں مجھے بے نظیر بھٹو کی شادی میں مدعو کیا گیا تھا ۔ میری بیوی نرگس میرا گاؤں دیکھنا چاہتی تھیں۔ میں بھی ا پنا گاؤں دیکھنا چاہتا تھا۔ پرانے دوستوں سے مل کر پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا ۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ میں کون سے اسکول میں پڑھتا تھا اور اسکول کس طرح جایا کرتا تھا۔ (میری بیوی کا انتقال1981ء میں ہوا تھا) دراصل میں نے انہیں اپنے بچپن اور گاؤں کی باتیں اتنی سنائی تھیں کہ انہیں وہاں جانے کی خواہش ہوگئی تھی مگر ایسا نہ ہوسکا۔
میںDAVاسکول میں پڑھتا تھا، اور چھٹی جماعت تک گھوڑے پر بیٹھ کر اسکول جاتا تھا، میرا اسکول اٹھ میل دور تھا۔ اسکول جانے کے لئے کوئی دوسرا ریعہ نہ تھا ۔ میرے پتا جی زمیندا رتھے ۔ ہمارے گھر میں بہت سے گھوڑے تھے ۔ مجھے اسکول جانے والا گھوڑا سب سے الگ رکھاجاتا تھا۔
راولپنڈی کے ڈی اے وی اسکول میں بھی میں نے ایک سال پڑھا تھا ۔
میر ا اسکول مری روڈ پر تھا۔ مری کچھ دور نہیں تھا، میں اسے کوہ مری کہاکرتا تھا۔ کوہ کا مطلب ہے پہاڑ۔ مری جانے کے لئے ہم بس کے ذریعے جایا کرتے تھے ۔
ہمارے اسکول کے راستے میں مشہور گارڈن کالج بھی تھا۔ ہم گارڈن کالج سے گزر کر اپنے اسکول جایا کرتے تھے ۔ گارڈن کالج بہت بڑے رقبے میں پھیلا ہوا تھا ۔
راولپنڈی میں ہمارے کچھ رشتے دار بھی رہتے تھے ۔ یہ علاقہ نیا محلہ کہلاتا تھا۔ میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ رہتا تھا۔ ہمیں اس زمانے میں فلمیں دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لئے ہم پوسٹر دیکھ کر دل خوش کرلیا کرتے تھے ۔
میری بیگم یہ سب کچھ دیکھنا اہتی تھیں مگر بدقسمتی سے بیماری نے انہیں موقع نہیں دیا اور وہ پاکستان جانے کی حسرت ہی لے کر چلی گئیں۔
میں دل سے سمجھتا ہوں کہ ہمارے دونوں ملکوں کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔ اگر ایسی کوئی تحریک چلائی جاتی ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ نفرت ختم ہونی چاہئے۔ ہم دوست بن کر کیوں نہیں رہ سکتے ۔ ویسے بھی میں اہنسا کا قائل ہوں ۔ یعنی امن اور سکون۔ الگ الگ مذہب ہونے کے باوجود ہم محبت پیار سے رہ سکتے ہیں ۔ مذہب جو بھی ہو ہم انسان بھی تو ہیں، دوستی ہوگی تو دونوں نملکوں کو معاشی فائدہ ہوگا ۔ میں اس سلسلے میں کچھ کام کرسکوں اور دو بچھڑے ہوئے ناراض دوستوں کو ملا سکوں۔
میری خواہش ہے کہ ہم دونوں ملک ترقی کریں خوشحال ہوں۔ ہماری معیشت پر دوسرے رشک کریں ۔بے روزگاری اور جرائم کا خاتمہ ہوجائے ۔ کچھ بھی ہو یہ نفرت اور بے اعتمادی اب ختم ہونی چاہئے ۔ اسلحہ پر خرچ ہونے والی رقم تعلیم، صحت اور لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے کے لئے استعمال ہو ۔ ہمارا مذہب کوئی بھی ہو، ہمارا میل جول اور محبت قائم رہنی چاہئے ۔
اگر ہمسائے کے ساتھ دوستی نہ ہو تو ہم ترقی نہیں کرسکتے ۔ امریکا اور کینیڈا کے تعلقات دیکھ لیجئے ۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے کام آئیں۔ اس بارے میں انہوں نے جو اقوال چھوڑے ہیں وہ پیش ہیں۔

نرگس ہر وقت میرے خیالوں میں رہتی ہیں
کشمیر میں اسلحہ بردار امن کے خواہاں ہیں
تشدد کانگریس کی پالیسی نہیں ہونی چاہئے
نوجوانوں کو عقل سے کام لینا چاہئے
نوجوانوں کو حقائق کا اندازہ کرنا چاہئے
نرگس اور سنیل دت کی محبت ایک سچی محبت ہے
سنجو بابا کو صحیح راستے پر دیکھنا تمنا ہے

سنیل دت کی مشہور فلمیں
مدر انڈیا، میرا سایہ ، وقت، سادھنا، سجاتا، پڑوسن، منا بھائی ایم بی بی ایس ، مجھے جینے دو ، ریشماں اور شیرا۔

سنیل دت نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی محنت مزدوری اور جدو جہد کے زمانے میں جاری رکھا تھا جو ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا ۔ بی اے کرنے کے بعد انہوں نے بہت سے چھوٹے موٹے کام کیے، فٹ پاتھوں پر سوئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں "ریڈیو سیلون" سے فلمی گانوں کا ایک پروگرام ہر روز پیش کیا جاتاتھا، جسے پاکستان اور ہندوستان میں موسیقی کے شو قین باقاعدگی سے سنا کرتے تھے۔ سیلون کا نام بعد میں سری لنکا ہوگیا۔ یہ دراصل ایک جزیرہ ہے جنوبی ہندوستان مین تامل ناڈو کے ساحل سے صرف 25میل کے فاصلے پر۔ انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں سارا ہندوستان ایک تھا اور سلطنت برطانیہ کے زمانے میں سیلون کو ہندوستان ہی کا حصہ سمجھا جاتا تھا، اب یہ سری لنکا ہوگیا۔
ریڈیو سیولون کو اپنا پروگرام پیش کرنے کے لئے ایک موزوں شخص کی ضرورت تھی جو بہترین نغمات پروڈدیوسرز سے حاصل بھی کرسکے ۔ سنیل دت نے بھی اس کے لئے درخواست دے دی ۔ صورت شکل اچھی تھی اور پنجابی ہونے کے باوجود ان کا اردو تلفظ و لب و لہجہ بہت اچھا تھا۔
اس طرح انہیں منتخب کرلیا گیا اور کافی عرصہ تک وہ ریڈیو سیلون سے گیتوں کی مالا پیش کرتے رہے ۔ یہ فلم سازوں کے لئے سستی پبلسٹی تھی اس لئے بھارتی فلم سازوں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اور کشمیرسے راس کماری تک ان کے فلمی نغمات گونجنے لگے ۔ جب نخشب صاحب پاکستان آئے اور انہوں نے فلم میخانہ بنائی تو اس فلم کے گانے ریڈیو سیلون سے پیش کیے گئے جس کی وجہ سے سننے والے بے چینی سے فلم کی نمائش کا انتظار کرتے رہے لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو بری طرح فلاپ ہوگئی حالانہ ناشاد صاحب نے اس فلم کے نغموں کی بہت اچھی دھنیں بنائی تھیں۔ یہ تو آپ کو یاد ہوگا کہ ناشاد کو موسیقار بنانے کا سہرا نخشب صاحب کے سر تھا ۔ ناشاد صاحب سازندوں میں شامل تھے اور بہت اچھا ہارمونیم اور طلبہ بجاتے تھے ۔ ان کا نام سید شوکت علی تھا۔
نخشب صاحب نے اپنی فلم کے لئے نوشاد صاحب سے رابطہ کیا لیکن وہ مصروفیت کے باعث وقت نہ دے سکے۔ نخشب صاحب بہت بڑ بولے اور شیخی خور ے تھے۔ انہوں نے نوشاد صاحب سے کہا کہ میں اپنی شاعری کے بل پر آپ جیسے کئی موسیقار بنا سکتا ہوں ۔ چنانچہ انہوں نے اپنی فلم کی موسیقی بنانے کے لیے شوکت علی کا انتخاب کیا اور ان کا فمی نام ناشاد رکھ دیا جس سے ان کا مقصد یہ بھی تھا کہ یہ معمولی سی تبدیلی عام لوگ محسوس نہیں کرپائیں گے ۔ نخشب صاحب کی فلم زندگی یا طوفان، کی موسیقی ناشاد صاحب نے بنائی تھی اور یہ فلم نہ صرف ہٹ ہوئی تھی بلکہ موسیقار کی حیثیت سے ناشاد کا نام بھی مشہور ہوا ۔ انہوں نے بعد میں اور بھی کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دی ۔ پاکستان آنے کے بعد بھی وہ ممتاز موسیقاروں میں شامل تھے۔ ان کی دھنیں سادہ اور راگ راگنیوں پر مشتمل ہوتی تھیں اس لئے بہت مقبول ہوئی تھیں۔ ناشاد کی موسیقی نا قابل فراموش ہے۔ وہ سیدھے سادے معصوم آدمی تھے ۔ اپنے کام سے کام رکھتے تھے انہوں نے ایک فلم بھی بنائی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی ۔ اس کے بعد انہوں نے فلم سازی کا ارادہ ہی ترک کردیا تھا۔

معافی چاہتا ہوں ۔ سنیل دت کے تذکرے سے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔
لاہور قیام پاکستان کے پہلے بھی ملک کا فلمی مرکز تھا ۔ ہندوستان کے گوشتے گوشے سے اہل علم و دانش اور فن کار لاہور کو اپنا بسیرا بناتے تھے ۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بمبئی کو اعلیٰ دماغوں اور فن کاروں سے سجانے کا سہرا بھی لاہور ہی کے سر ہے ۔ لاہور سارے پنجاب کا اعصابی مرکز تھا۔ یہاں تک کہ پشاور سے فن کار بننے کی خواہش لئے ہوئے بھی اہل فن لاہور ہی کا رخ کرتے تھے ۔ یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ علم و ادب میں نام پیدا کرتے تھے اور مختلف فنون کی تربیت حاصل کرتے تھے ۔

ماخوذ از:
ماہنامہ 'سرگزشت' (پاکستان)، مارچ 2014 ، قسط:225

Sunil Dutt, a versatile actor, from footpath to Bollywood superstar. Article: Ali Sufyaan Afaqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں