ابن صفی صاحب سے ایک ملاقات - از بلویندر سنگھ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-27

ابن صفی صاحب سے ایک ملاقات - از بلویندر سنگھ

ibne-safi-balwinder-singh
مضمون نگار بلویندر سنگھ (بھوپال) اردو سے نابلد ہیں۔ انہوں نے اپنا یہ مضمون ایک ہندی فیس بک گروپ کے لیے تحریر کیا تھا۔ میری خواہش پر انھوں نے اس مضمون کو اردو میں ترجمہ کر کے اردو داں قارئینِ ابن صفی کے لیے پیش کرنے کی اجازت دی تھی۔ کچھ ضروری تبدیلیوں کے ساتھ اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ ایسا منفرد مضمون اب تک آپ کی نظروں سے نہیں گزرا ہوگا۔
افسوس کہ بلویندر سنگھ صاحب جمعرات 24/جنوری 2019 کو خدا کو پیارے ہو گئے۔ ان کی فیس بک ٹائم لائن پر یہ رہی ان کے انتقال کی خبر۔
(سید اسد عادل)

دوستو۔۔۔۔!
یہ مختصر کہانی ابن صفی صاحب کے لئے میرا خراج عقیدت ہے، ابن صفی صاحب کا یوم پیدائش/ یوم وفات کی ایک ہی تاریخ یعنی 26 جولائی ہے۔

میرے پیارے اور بہت عزیز دوستو! کل رات ایک بڑا عجیب واقعہ ظہور پذیر ہوا۔۔۔۔ ابن صفی صاحب میرے خواب میں آئے اور کافی دیر تک میرے ساتھ رہے، ان کے ساتھ ایک شخص اور تھا جو خاموش تھا اور خاصا سنجیدہ طبیعت معلوم ہو رہا تھا۔

میرے کمرے میں میرے ناولوں کی الماری پر ایک اچٹتی نظر ڈالتے ہوئے ابن صفی صاحب کہنے لگے:
"مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے مادر وطن ہندوستان میں ایک شخص ہے جو مجھ سے اور میری کہانیوں سے انتہائی محبت کرتا ہے "
پھر میری طرف اشارہ کر کے اپنے ساتھی شخص کو مخاطب کرتے ہوئے بولے:
"انہوں نے میری تحریریں، میرے مضامین اور کہانیوں کی کتابیں بڑی دیکھ بھال کے ساتھ رکھی ہیں" پھر ہلکا سا مسکرائے اور مجھے ایک خوبصورت قلم دیا۔ کچھ دیر خاموشی سے کچھ سوچتے رہے پھر بولے :
"یہ آپ کے لئے تحفہ ہے"۔
میں نے قلم کو بڑے ادب سے قبول کیا، اس کے ساتھ ہی ان سے بیٹھنے کی درخواست کی، وہ ہولے ہولے مسکراتے ہوئے بیٹھ گئے، ہماری کافی دیر تک بات چیت ہوتی رہی، ان کی باتوں نے مجھے ان کے اندر پوشیدہ بہت سے درد، اور تکالیف سے باخبر کروایا۔۔۔۔ وہ بولے:
"مصنف بن کر کچھ لوگوں نے میرے بنائے کرداروں کے ساتھ عجیب کھلواڑ کیا ہے، انھوں نے صرف اس ملک کا، جہاں میں رہتا ہوں، مجھے اور میرے کرداروں کو باشندہ بتلایا ہے، ساتھ ہی ہندوستان کی مخالفت میں کام کرتے ہوئے دكھلايا ہے۔ مجھے دلی افسوس ہے، میں نے اپنے کرداروں کو کبھی تقسیم نہیں کیا اور نہ ہی میں نے کبھی اپنی جنم بھومی ہندوستان کو دو ٹکڑوں میں دیکھا، میرے تصور میں میرے کردار ہمیشہ اس طرح ابھرے کہ میرے عزیز پڑھنے والوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوا جس سے لگتا کہ میں نے اپنے کرداروں کو ملکی سرحد کی طرح تقسیم کیا ہو، وہ سبھی ان کرداروں کے ملک سے بخوبی واقف ہیں، چاہے وہ یہاں ہو یا وہاں ہو۔"

کچھ دیر کے لیے وہ سانس لینے کے ٹھہرے پھر سلسلہ کلام آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے :
"میرا سب سے بڑا اور اہم خواب میرے تصور کی تعبیر 'زیرو لینڈ' جس کو لے کر میں نے کرنل ونود (فریدی) سے دعویٰ کروایا تھا کہ 'ایک دن میں دنیا کو بتاؤں گا کہ زیرولینڈ کہاں ہے؟' وہ راز اب بھی نامکمل ہے، یہ اور اس جیسے بیسوں راز اس ڈائری میں چھپے ہیں۔"
اور پھر انہوں نے ایک سیاہ جلد والی ڈائری میری طرف بڑھائی، وہ ڈائری میرے ہاتھ میں آتے ہی 'كنلے کی ڈیجیٹل کتاب' میں تبدیل ہو گئی، میں نے اس ڈائری کو عقیدت سے چوم کر سینے سے لگا لیا۔

ابن صفی صاحب کچھ دیر خاموشی سے مجھے دیکھتے رہے پھر ڈائری کی طرف اشارہ کر کے کہا:
"اسے پڑھو اور میرے ادھورے کام کو آگے بڑھاؤ۔۔۔۔"
میں اس ڈائری کو کھول کر ورق گردانی کرنے لگا، ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرا ذہن ہوا میں اڑا جا رہا ہو، میرا تصور مجھے ایک نئی دنیا کی طرف ڈھکیل رہا تھا، پھر اچانک میرے تمام خیالات غائب ہوگئے، میں نے خود کو ہواؤں کے دوش پر اڑتے ہوئے محسوس کیا، اب نہ وہ کمرہ تھا اور نہ ابن صفی صاحب، کچھ ہی دیر میں اپنے آپ کو میں نے ایک ایسی جگہ پایا جو اس تصویر کی طرح تھی جس میں برف کو دور تلک پھیلا دیا گیا ہو۔
میں نے اونچی اونچی برف پوش پہاڑیوں پر دور تلک دیکھا، اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیں لیکن ابن صفی صاحب نظر نہیں آئے، مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ان کے کسی ناول کے منظر کا حصہ بن گیا ہوں۔ چاروں طرف برف ہی برف پھیلی ہوئی تھی، سرد ہواؤں سے میرا بدن کانپ رہا تھا، برفانی پرندے ایک طرف سے دوسری طرف اڑتے پھر رہے تھے۔ میری آنکھوں نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا، میں خود کو ابن صفی صاحب کا کوئی کردار محسوس کرنے لگا۔۔۔۔ لیکن ابن صفی صاحب کہاں گئے، یہ میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا تھا، اکیلے پن کا احساس مجھے مارے ڈال رہا تھا۔
اس لق و دق برف کے سمندر میں، میں بالکل تنہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کہاں آ گیا؟ تبھی اچانک مجھے دور سے کوئی تیز قدموں سے اپنی طرف آتا نظر آیا، اس کی چال ڈھال بالکل کسی ملٹری آفیسر کی طرح رعب دار تھی، انداز سے تمکنت اور وقار جھلک رہا تھا۔ وہ ایک دراز قد اور وجیہہ انسان تھا، اس کے جسم پر برف باری سے بچاؤ کے لئے گہرے سیاہ رنگ کا لمبا سا کوٹ تھا جو اس کے گھٹنوں تک پہونچ رہا تھا۔ اس نے کوٹ کے کالر سردی سے بچنے کے لئے کانوں تک کھڑے کئے ہوئے تھے، گلے میں سياه رنگ کا مفلر لپٹا ہوا تھا اور سر پر ایک سياه رنگ کی فلیٹ ہیٹ تھی جو اس کی پیشانی پر اس طرح جھکی ہوئی تھی کہ اس کا چہرہ ٹھیک سے نظر نہیں آ رہا تھا، اس پراسرار انسان کے داہنے ہاتھ کی انگلیوں میں ایک موٹا سا سگار دبا ہوا تھا جسے وہ بار بار ہونٹوں کی طرف لے جاتا اور ایک گہرا کش لے کر دھویں کو فضا میں اڑا دیتا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس سے یہ حرکت کسی مشینی عمل کے تحت سرزد ہو رہی ہو، سگار سے نکلنے والا دھواں اس کے چہرے کا طواف کرتا اور پھر اس کے چہرے سے لپٹ کر چلنے والی سرد ہواؤں میں مدغم ہو جاتا۔

مجھے اندر سے کچھ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی میرے کانوں میں پھسپھسا کے کہہ رہا ہو :
کرنل فریدی۔۔۔۔ کرنل فریدی۔۔۔۔ کرنل فریدی۔۔۔۔
تجسس کے مارے میری حالت خراب تھی، کرنل فریدی، یعنی ایشیاء کا عظیم جاسوس میرے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔ لیکن اچانک میرا ذہن دوسری طرف چلا گیا، تو کیا اسے ابن صفی صاحب نے بھیجا ہے؟ لگتا ہے آج مجھے سب راز معلوم ہو جائیں گے۔ 'زیرو لینڈ' کیا ہے اور کہاں ہے؟ برازیل والا اڈہ تو 'زمین کے بادل' والے کیس میں تباہ ہو گیا تھا، ممکن ہے زیرو لینڈ کسی دوسرے سیارے پر ہو، سپارسیا؟ مریخ؟ برازیل؟
نہیں نہیں وہ یقیناً 'ایش ٹرے ہاؤز' والے جزیرے پر ہوگا، دست قضاء (نیلے ہاتھ) والا کیس، لیکن یہ سب تو سمندر میں موجود جزیرے ہی تو تھے؟ زیرو۔۔۔۔؟ زیرو کا مطلب صفر یعنی کچھ نہیں، تو کیا زیرو لینڈ کچھ نہیں؟ یا ہے؟ لیکن اگر ہے تو کہاں؟ زمین پر تو نہیں، اسپیس میں بھی نہیں۔۔۔۔ پھر پھر اسے کہاں تلاش کیا جائے۔۔۔ کیا واقعی زیرو لینڈ کا کوئی وجود ہے؟
میں نے گھوم کر سوالیہ نظروں سے کرنل فریدی کی طرف دیکھا، لیکن وہ بھی خاموش کھڑا تھا جیسے اسے خود بھی زیرو لینڈ کی تلاش ہو اور جسے وہ تباہ کر دینے کی غرض سے ادھر آ نکلا ہو، میرے ذہن نے مجھے جھنجھوڑا۔۔۔۔ زیرولینڈ تو ابن صفی صاحب کا تصوراتی خیال تھا، جو ان کے دماغ سے نکل کر صفحہ قرطاس پر منتقل ہو گیا اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کے ذہن میں ایک زندہ زمین کی سی حیثیت میں نقش ہو گیا۔
میرے ذہن نے اپنی سوچ کے گھوڑے دوبارہ دوڑانا شروع کر دئے، سوالوں کا ایک لا متناہی سلسلہ تھا جو میرے ذہن میں چل رہا تھا، زیرو یعنی صفر سے سپارسیا تو نہیں، جسے تھریسیا نے اپنا ٹھکانہ بتلایا تھا، پر وہ تو کسی سیارے پر تھا، لیکن وہ بھلا زیرو لینڈ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ تو تباہ و برباد ہو گیا تھا۔۔۔
ابھی میں اتنا ہی سوچ سکا تھا کہ ایک تیز قسم کی سیٹی سے میرا ذہن جھنجھنا اٹھا اور میں نیند سے چونک پڑا۔

میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں، سامنے میری بیوی کھڑی مجھے قہر آلود نظروں سے گھور رہی تھی، میں جلدی سے اٹھ بیٹھا اور اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا جو غصیلی آواز میں مجھ سے پوچھ رہی تھی۔
"یہ کون کرنل ہے؟ کیا آپ کا کوئی نیا دوست؟ پوری رات آپ کرنل کا کلمہ پڑھتے رہے ہیں، ویسے ابھی آپ کا پرانا اسٹاک (ملٹری کینٹین والی شراب) ختم نہیں ہوا جو آپ کسی کرنل کو یاد کر رہے ہیں جو آکر آپ کے لیے نئے اسٹاک کا انتظام کردے؟ ساری رات کرنل کرنل کی رٹ لگا کر آپ نے مجھے سونے نہیں دیا اور صبح صبح بھی کرنل کرنل کا ورد جاری ہے، صبح صبح آدمی خدا کا نام لیتا ہے اور آپ خواب میں کرنل کو پکار رہے ہیں، لیجئے چائے پیجئے"
اس نے میری طرف چائے کی پیالی بڑھا دی اور پھر کچن کی طرف بھاگی۔
کچن میں پریشر کوکر کی سیٹی پھر زور سے بجی۔

بشکریہ فیس بک گروپ: دی گریٹ ابن صفی فینز کلب

A meeting with Ibn-e-Safi. Article: Balwinder Singh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں