tag:blogger.com,1999:blog-58394110659759023372024-03-17T15:55:26.764+05:30Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.coman effort to build positive thinking and societyMukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.comBlogger23554125tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-84914286786507230832024-03-17T15:54:00.003+05:302024-03-17T15:54:39.784+05:30بالمشافہ : نامور ادیبوں ، شاعروں اور فن کاروں کے یادگار انٹرویوز<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh66yXU3AfN-J9ANlEsPZZveuhDlkajJvSgHotTOWt_moGXOAK5WWwR7ePVVgGkUy9inBbZ-41u_mYNteJM3CGow3PDjsibiNGmgb9_bv0JLRnHDGiYol4IwLHzEVLx-9Hc0McxLk0a2atJXPZ5nWa2cu7R39wLBjeEjtQgnhCw2LyykhrUdUZtK2iM4Eo/s1600/bilmushafa-masoom-muradabadi.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="bilmushafa-masoom-muradabadi" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh66yXU3AfN-J9ANlEsPZZveuhDlkajJvSgHotTOWt_moGXOAK5WWwR7ePVVgGkUy9inBbZ-41u_mYNteJM3CGow3PDjsibiNGmgb9_bv0JLRnHDGiYol4IwLHzEVLx-9Hc0McxLk0a2atJXPZ5nWa2cu7R39wLBjeEjtQgnhCw2LyykhrUdUZtK2iM4Eo/s1600/bilmushafa-masoom-muradabadi.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">تبصرہ / تجزیہ </span><span class="nmd-agency">شکیل رشید (ممبئی) </span></div>
<p>
معصوم مرادآبادی ایک معروف اور مقبول صحافی ہیں۔ صحافی ہیں اس لیے ان کا خاص موضوع صحافت ہی ہے۔ صحافت کے موضوع پر وہ کئی کتابیں لکھ بھی چکے ہیں۔ لیکن صحافت کے ساتھ ساتھ وہ مختلف ادبی اصناف میں بھی درک رکھتے ہیں ، مثلاً وہ ایک بہترین محقق ، تذکرہ نویس ، خاکہ نگار ، کالم نویس ، مترجم اور بہت اچھے انٹرویو نگار بھی ہیں۔
<br />
وہ انٹرویو لینے کے ہنر سے بھی خوب واقف ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ کسی وی وی آئی پی کا انٹرویو لیتے ہوئے اُسے کیسے باتوں کے جال میں باندھا جائے ، اور اُس کی زبان سے ایسی بات نکلوا لی جائے ، جو انٹرویو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موضوعِ گفتگو بنا دے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ؛ بالخصوص اس لیے کہ اہم شخصیات نہ آسانی کے ساتھ باتوں کے جال میں پھنستی ہیں ، اور نہ ہی آسانی کے ساتھ کھُلتی ہیں ، اُنہیں رام کرنے کے لیے ، یا اُن کی توجہ پانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُن کے بارے میں ، مثبت یا منفی ، ہر طرح کی واقفیت پاس ہو ، اور ایک اچھے صحافی کی حیثیت سے معصوم کے ترکش میں سارے تیر ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہیں آ رہا ہے تو ان کی کتاب ' بالمشافہ ' کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں ، جو ۲۲ نامور ادیبوں ، شاعروں اور فن کاروں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔
</p><br />
<p>
لیکن پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ ایک صحافی کو ، جس نے بہت سارے سیاست دانوں کے انٹرویو لیے ہیں ، اچانک ادیبوں اور فن کاروں سے ملاقات اور گفتگو کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اس تعلق سے کتاب کے ' پیش لفظ ' میں معصوم مرادآبادی لکھتے ہیں :
<br />
" اردو صحافت سے اپنی چالیس سالہ وابستگی کے دوران سینکڑوں شخصیات کے انٹرویو لیے ، جن میں زیادہ تر سیاسی لوگ تھے۔ اسی دوران مجھے یہ خیال ہوا کہ کیوں نہ اپنے عہد کے کچھ نامور شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں سے بھی مکالمہ کیا جائے۔ لہٰذا میں نے عام قاری کو ذہن میں رکھ کر شاعروں اور ادیبوں کے انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا جسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ "
<br />
معصوم مرادآبادی کی نظر میں۔۔۔
<br />
"انٹرویو نگاری صحافت کا سب سے مشکل کام ہے۔ انٹرویو نگار کا کام محض سوال قائم کرکے ان کے جوابات حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس راہ میں طرح طرح کے تجربات سے گزرتا ہے۔ جب لوگ تنازعہ کھڑا ہو جانے کے بعد اپنی ہی باتوں سے مُکرتے ہیں تو ایک عجیب و غریب صورتِ حال جنم لیتی ہے۔ یہ مرحلہ انٹرویو نگار کے لیے سخت آزمائش کا ہوتا ہے۔ اس لیے انٹرویو نگار کے کندھوں پر ذمہ داری کا دوہرا بوجھ ہوتا ہے۔"
<br />
جب آپ ' بالمشافہ ' کے انٹرویوز پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ انٹرویو نگار نے اس دوہری ذمے داری کو کس خوبی سے نبھایا ہے ! 'پیش لفظ' میں معصوم مرادآبادی نے کچھ اور اہم باتیں کہی ہیں جن سے واقفیت ان انٹرویوز کو پڑھنے سے پہلے ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ادبی شخصیات اور فن کاروں سے گفتگو کرتے ہوئے خود انہوں نے ان باتوں کا خیال رکھا ہے ، یا نہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
<br />
"میں نے سوالات کے دائرے کو محدود بھی رکھا ہے اور یہ کوشش بھی کی ہے کہ شاعروں یا ادیبوں سے ایسے سوالات کیے جائیں جو عام قاری کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ خشک سوالات اور مباحث سے پرہیز کیا گیا ہے "۔
</p><br />
<p>
<br />
کتاب میں پندرہ انٹرویو ادیبوں اور شاعروں سے ہیں ، جن میں ادبی صورتِ حال کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی بات کی گئی ہے ، جبکہ سات انٹرویو ایسے ہیں جن میں ' فرقہ واریت ' کو موضوع بنایا گیا ہے ، اس موضوع پر گفتگو کرنے والی شخصیات میں بھی ادیب اور شاعر شامل ہیں۔
<br />
جن ادیبوں اور شاعروں سے بات کی گئی ہے ان کے نام ہیں اخترالایمان ، کیف بھوپالی ، حبیب جالب ، علی سردار جعفری ، جوگندر پال ، احمد فراز ، بیکل اتساہی ، افتخار عارف ، مظفر وارثی ، بشیر بدر ، ملک زادہ منظور احمد ، عطاءالحق قاسمی ، صلاح الدین پرویز ، بھگوان گڈوانی اور احمد مرزا جمیل۔ دو انٹرویوز پر خاص طور سے بات کرنا چاہوں گا ، ایک علی سردار جعفری کے انٹرویو پر اور دوسرے بشیر بدر کے انٹرویو پر۔
<br />
جعفری صاحب مرحوم نے سوالوں کے جواب دیتے ہوے کچھ ایسی باتیں بتائی ہیں جن کا آج کے ہندوستان میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بتاتے ہیں :
<br />
" لکھنئو کے شمال میں ایک تعلقہ داری تھی بلرامپور۔ وہاں کے تعلقہ دار کو مہاراجہ کا خطاب ملا ہوا تھا ، جو کہ مذہباً ہندو تھے۔ اس زمانے کی فضا بہت اچھی تھی۔ ہمارا خاندان بہت مذہبی تھا ، لیکن دیوالی کے موقع پر ہمارے یہاں بھی چراغ جلتے تھے۔ مہاراجہ بلرامپور کے یہاں سے دیئے اور تیل آتا تھا اور وہی لوگ اسے آکر سجاتے تھے۔ محرم کے موقع پر مہاراجہ کے یہاں تعزیہ رکھا جاتا تھا ، جِسے ہمارے خاندان کے لوگ جاکر اٹھاتے تھے"۔ وہ مزید بتاتے ہیں :
<br />
" دوسری طرف ہمارے زمانے میں نوٹنکی ہوتی تھی ، جِسے ہم بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ ( نوٹنکیاں میں نے بھی خوب دیکھی ہیں ،اور شوق سے دیکھی ہیں ، اب نوٹنکیوں کی روایت خاتمے پر ہے۔ ش، ر۔ ) جس سے ہمیں رامائن وغیرہ کا علم ہوا اور اسی کے ساتھ اس زمانے میں مناظرے ہوتے تھے۔ جس میں آریہ سماجی عالم بھی آتے تھے اور مسلمان علماء بھی اور وہاں پر ہندو مسلمان سب بیٹھ کر چھ سات دن تک ان کے مناظرے سُنا کرتے تھے۔"
<br />
اب ایسے مناظرے ناممکن ہیں ، اگر کوئی اس کے کوشش کرے تو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ انٹرویو میں جعفری صاحب نے اپنی گرفتاری کا ، اس جرم میں کہ انہوں نے دوسری جنگِ عظیم کے خلاف نظمیں لکھی تھیں ، ذکر کیا ہے ، یہ بھی بتایا ہے کہ کمیونسٹ رہنما پی سی جوشی نے انہیں ممبئی آکر اردو اخبار نکالنے کی دعوت دی تھی اور یہ کہ اخبار پہلے ' قومی جنگ ' کے نام سے پھر ' نیا زمانہ ' کے نام سے نکلا بعد میں اس کا نام ' حیات ' ہو گیا۔
</p><br />
<p>
<br />
بشیر بدر سے گفتگو دلچسپ ہے۔ وہ بتاتے ہیں :
<br />
" میرا خیال ہے کہ میں نے لکھنا پڑھنا بعد میں سیکھا ہے اور بغیر جانے بوجھے کہ یہ غزل ہے میں نے گنگنانا شروع کر دیا لیکن بیچ بیچ میں مجھے مختلف طرح کے دورے پڑتے رہے۔ میرا سب سے پہلا شوق غزل ہے یا کرکٹ دونوں میں کوئی ایک تھا۔"
<br />
وہ انکشاف کرتے ہیں کہ " پہلا شعر تو واقعی سات آٹھ سال کی عمر میں کہہ لیا تھا۔"
<br />
ایک اور دلچسپ بات سُنیے : " جب غزل دوبارہ شروع کی تو پھر یہ سوچا کہ اچھا اب میرا معاملہ میرؔ اور غالبؔ سے ہوگا۔"
<br />
کتاب میں اس انٹرویو پر مقبول و معروف کالم نویس خامہ بگوش ( مشفق خواجہ ) کا بہت دلچسپ اور گدگدانے والا تبصرہ بھی شامل ہے۔ خامہ بگوش کا ایک جملہ ملاحظہ کریں :
<br />
" انہوں نے ( بشیر بدر نے ) حق گوئی و بے باکی کا ایسا مظاہرہ کیا ہے ، جس کی کسی دوسرے سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ فرمایا ' میرا معاملہ میرؔ اور غالبؔ سے ہے ، وہی میرے حریف ہیں اور میں انہیں اپنا حریف سمجھتا ہوں۔' ہمارا خیال ہے کہ بشیر بدر نے انکسار سے کام لیا ہے ورنہ میرؔ و غالبؔ کی حیثیت ہے ، جو ان کے منہ آئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بشیربدر جس مقام پر ہیں وہاں کسی دوسرے شاعر کا پہنچنا تو کیا وہاں سے واپس آنا بھی ناممکن ہے۔"
<br />
خامہ بگوش کے تبصرے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ معصوم مرادآبادی کا یہ انٹرویو کس قدر موٖضوعِ گفتگو بنا تھا۔
</p><br />
<p>
کتاب میں مظفر وارثی کا انٹرویو تو شامل ہے ہی ان کا ایک ردعمل بھی جو معصوم مرادآبادی کی قتیل شیفائی سے کی گئی گفتگو پر ہے شامل ہے ، جس میں قتیل صاحب نے مظفر وارثی کے بارے میں کچھ متنازعہ باتیں کہی تھیں۔
</p><br />
<p>
<br />
دو اہم انٹرویو بھگوان گڈوانی اور احمد مرزا جمیل کے ہیں۔ بھگوان گڈوانی کے والد ' ہندو مہاسبھا ' کے عہدیدار تھے۔ گڈوانی ایک سرکاری ملازم تھے ، انہوں نے انگریزی میں ایک ناول لکھا تھا ' دی سورڈ آف ٹیپو سلطان ' جس پر سنجے خان نے ایک سیریل بنایا تھا ، اور اس پر ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ گڈوانی بتاتے ہیں کہ انہیں ٹیپو سلطان پر ناول لکھنے کی تحریک ایک فرانسیسی نوجوان سے ملی جو میدانِ جنگ میں لڑتے ہوے مرنے والے بادشاہوں اور کنگ پر ریسرچ کر رہا تھا۔ بات کرتے ہوئے اس نے گڈوانی سے کہا:
<br />
' آپ کا ٹیپو سلطان واحد ایسا بادشاہ تھا جو میدانِ جنگ میں مرا تھا ، کتنا عظیم انسان تھا ، اس کی مثال نہیں ہے۔'
<br />
اس کے بعد گڈوانی نے ریسرچ کی ، انگریز مورخوں کے ذریعے ٹیپو سلطان کو ' ویلن ' بنا کر پیش کرنے کی تفصیلات حاصل کیں اور ناول مکمل کیا۔ یہ ایک اہم انٹرویو ہے اور آج کے ہندوستان میں ٹیپو سلطان کو انگریز مورخوں کی طرح ' ویلن ' بنا کر پیش کرنے کی ساری کوششوں کا ایک مدلل جواب بھی۔
</p><br />
<p>
احمد مرزا جمیل ' نوری نستعلیق ' ( کمپیوٹر سے کتابت ) کے موجد ہیں ، اس انٹرویو کے بعد ہی ہندوستان میں لوگوں کو پتا چلا کہ کمپیوٹر سے اردو کتابت ممکن ہے۔
</p><br />
<p>
دو باتوں کا مزید ذکر ؛ ایک تو ان سات انٹرویوز کا جن کا موضوع 'فرقہ واریت' ہے۔ معصوم مرادآبادی نے جن سات شخصیات سے اس موضوع پر گفتگو کی ہے ان کے نام ہیں بھیشم ساہنی ، حبیب تنویر ، جاوید اختر ، فہیم الدین ڈاگر ، سدھیر در ، سریندر شرما اور پرشوتم اگروال۔ یہ تمام انٹرویو لاجواب ہیں۔ میں صرف سدھیر در کے انٹرویو پر کچھ روشنی ڈالوں گا۔
<br />
در صاحب اپنے دور کے بہت مقبول و معروف کارٹونسٹ تھے۔ وہ فرقہ پرستی سے ممکنہ خطرات کا ذکر کرتے ہوے کہتے ہیں :
<br />
" ہندوستان ٹوٹ جائے گا۔ آپ اس کو کیسے بچائیں گے۔ آج ہم سب یہی سوچتے ہیں کہ اپنے بچوں کے لیے ہم کیسا ہندوستان چھوڑ کر جائیں گے۔ کیا یہ خون میں لپٹا ہوا ہندوستان ہوگا۔ میں تو ایسا نہیں ہونے دوں گا۔"
<br />
شاید آج کوئی در جیسا عزم کرنے والا نہیں ہے کہ ' میں تو ایسا نہیں ہونے دوں گا۔'
</p><br />
<p>
دوسری بات مرحوم شمیم حنفی کے ' دیباچہ ' پر ہے۔ شمیم صاحب لکھتے ہیں : " معصوم صاحب کا اپنا رویہ ایک مہذب انٹرویور کا ہے۔ وہ خود کم بولتے ہیں ، سامنے والے کو بولنے کا موقع زیادہ دیتے ہیں۔ اسی لیے ان کے انٹرویوز میں خود نمائی کا عنصر تقریباً مفقود ہے اور اس سے جواب دینے والے کی شخصیت زیادہ سے زیادہ واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری شخصیتیں ایک جیسی نہیں ہیں۔ چنانچہ اس کتاب کے ذریعے ہم ایک ٹکٹ پر کئی تماشے دیکھ سکتے ہیں۔"
</p><br />
<p>
یہ کتاب ہر طرح کے قاری کے لیے دلچسپ ہوگی۔ کتاب کے آخر میں اس کتاب کے پہلے ایڈیشن پر کیے گیے تبصرے بھی شامل ہیں۔ کتاب کے ناشر ' نعمانی کیئر فاؤنڈیشن ، لکھنؤ ' (موبائل نمبر : 9810780563 ) ہیں۔ کتاب شائع بھی ' نعمانی پرنٹنگ پریس ، لکھنؤ ' سے ہوئی ہے ، اور طباعت شاندار ہے۔ صفحات 232 اور قیمت 400 روپیے ہے۔
</p>
<div style="text-align:left;">***<br />
بشکریہ: <a target="_blank" href="https://www.facebook.com/shakeel.rasheed.5/">شکیل رشید فیس بک ٹائم لائن (ممبئی اردو نیوز، 17/مارچ 2024ء)</a><br />
khansh.rasheed[@]gmail.com<br />
</div><br />
<div class="tn-snippet">
Bil-Mushaafa, a book of literary sketches by Masoom Moradabadi
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-45455550969917381412024-02-21T14:52:00.017+05:302024-02-29T14:59:14.945+05:30ابوالکلام آزاد انسٹیٹیوٹ حیدرآباد میں اردو کتب میلہ کا انعقاد<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgJrJ-wGhqGIKQqP_1BFMJ1dfRPVsEbMU7z695LRyACz5rMvT5_ltNRCYu2ZeTug8tPTBHL9NrHM25NgTwENBlFtz0yjYVUlnGCkKPcBFF9jSKMSQhaJdJw1qRrMdbv4SNtLYhhVhhPqN6ckn-ltpvihkaslFUVL1GnrCpEqaKt75cxXzfLuNQvO2f4PzE/s2048/hyderabad-urdu-book-fair-abulkalam-azad-institute-1.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="I:\0SMN\hyd" border="0" width="600" data-original-height="1536" data-original-width="2048" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgJrJ-wGhqGIKQqP_1BFMJ1dfRPVsEbMU7z695LRyACz5rMvT5_ltNRCYu2ZeTug8tPTBHL9NrHM25NgTwENBlFtz0yjYVUlnGCkKPcBFF9jSKMSQhaJdJw1qRrMdbv4SNtLYhhVhhPqN6ckn-ltpvihkaslFUVL1GnrCpEqaKt75cxXzfLuNQvO2f4PzE/s600/hyderabad-urdu-book-fair-abulkalam-azad-institute-1.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">رپورٹ </span><span class="nmd-agency">عبدالرحمٰن پاشا (حیدرآباد) </span></div>
<p style="font-weight: bold; text-align: center;">
"کتابوں کی خریداری سے ہماری تہذیب اور زبان کی حفاظت ممکن"
<br />
ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ حیدرآباد میں شاندار اردو کتب میلہ کا انعقاد
<br />
علمی، ادبی، تاریخی و حوالہ جاتی کتابیں دستیاب، میلے میں 23 فروری تک توسیع
</p><br />
<p>
"کتابوں کی خریدای کے لیے لوگوں میں شعور بیداری کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی آمدنی میں سے کم از کم ایک فیصد کتابوں پر خرچ کریں، جس سے ہماری تہذیب اور زبان کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اگر زبان زندہ ہے تو انسان کا اپنے مذہب سے رشتہ برقرار رہے گا، ورنہ ہمارے گھروں سے تہذیب رخصت ہوجائے گی۔ ہم مایوس نہیں ہے، یہ ایک پہل اور شروعات ہے۔ آنے والوں دنوں میں لوگوں میں کتابیں خریدنے کا شوق پیدا ہوگا۔ اس کوشش کی کتنی بھی تعریف کی جائے، وہ کم ہے۔ ہر قلمکار اخلاقی طور پر دوسرے مصنفین کی کتابیں خریدیں"۔
<br />
ان خیالات کا اظہار معروف سینئر صحافی اور ہفت روزہ گواہ، حیدرآباد کے مدیر ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے حیدرآباد اردو کتب میلے کے افتتاح کے موقع پر کیا۔
</p><br />
<p>
ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ (باغ عامہ) پبلک گارڈن، نامپلی، متصل تلنگانہ ریاستی اسمبلی، حیدرآباد میں 18 فروری 2024 بروز اتوار کو مہمان خصوصی عامر علی خان (نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست، حیدرآباد) کے ہاتھوں باوقار اردو کتب میلہ کا انعقاد عمل میں آیا۔ عامر علی خان نے سہ روزہ کتب میلے کے انعقاد پر ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے تمام ذمہ داران کو مبارکباد پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ اردو زبان میں ادب، تاریخ اور تہذیب کا شاندار سرمایہ موجود ہے۔ جس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اور اس کو جدید دور کے ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے ہم نئی نسل تک پہنچا سکتے ہیں۔ اردو کتاب میلے میں خواتین قلم کاروں کا الگ سے گوشہ مختص کیا گیا ہے، میلے میں جن مصنفین کی کتابیں دستیاب ہیں؛ ان کے ناموں کو نمایاں طور پر تختی پر لکھا گیا ہے۔
</p><br />
<p>
انگریزی کے معروف صحافی جے ایس افتخار نے ڈاکٹر جاوید کمال (ریٹائرڈ اسسٹنٹ پروفیسر، گورنمنٹ ڈگری برائے اناث، حسینی علم و سکریٹری ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) کی اس پہل کی تعریف کی ہے۔ کتب میلے کا انعقاد بوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام عمل میں آیا۔ کتب میلے کے منتظم محبوب خان اصغر نے کہا کہ ہماری نئی نسل تک علمی و ادبی سرمایہ کی پہنچ کیسے ہو سکے، اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ آڈیو کی شکل میں بھی نئی نسل کو مواد فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ کہ نئی نسل کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہے، انھیں بطور ایک مضمون کے اردو پڑھائی جانی چاہیے۔ اگر وہ اردو سے واقفیت رکھیں تو مطالعہ بھی کریں گے۔ ہم مایوس تو نہیں پر امید ہیں۔
<br />
ڈاکٹر بی بی رضا خاتون شعبہ اردو مانو نے کہا کہ مجموعی طور پر کتاب میلے کا انعقاد بہت ہی خوش آئند ہے۔ جس سے طلبہ اور عام قارئین میں بھی مطالعہ کے ذوق کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ میلہ بھی نہایت کارگرد ثابت ہوگا۔
<br />
سماجی جہد کار و مصنفہ رفعیہ نوشین نے کہا کہ پہلے کتابوں سے عشق کیا جاتا تھا اور اس کے لمس کو محسوس کیا جاتا تھا۔ کتاب میلے کا انعقاد قابل ستائش اقدام ہے۔ حیدرآباد کے مصنفوں اور قلم کاروں کو کتاب میلے کے ذریعہ ایک پلیٹ فارم فراہم کیا گیا۔ کتاب میلے میں بہت سلیقہ اور خوبصورت انداز میں کتابوں کو ڈسپلے کیا گیا ہے۔
</p><br />
<p>
واضح رہے کہ سنہ 2015 میں آخری بار قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کی جانب سے قلی قطب شاہ اسٹیڈیم میں قومی اردو کتاب میلے کا انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اس کے بعد سے شہر حیدرآباد میں بڑے پیمانے پر کوئی اردو کتب میلہ منعقد نہیں ہوا۔
<br />
مذکورہ کتب میلے میں پروفیسر اشرف رفیع صدر ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ، غلام یزدانی سینئر ایڈووکیٹ (نائب صدر ادارہ)، پروفیسر ایس اے شکور (نائب صدر ادارہ) ، عزیز احمد جوائنٹ ایڈیٹر روزنامہ اعتماد،کنوینر ڈاکٹر جاوید کمال (ڈائریکٹر/سکریٹری ادارہ)، ممتاز خطاط عبدالغفار، محبوب خان اصغر (رکن ادارہ) لطیف الدین لطیف (رکن ادارہ)، ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، ڈاکٹر بی بی رضا خاتون شعبہ اردو مانو، ڈاکٹر محمد مصطفیٰ علی سروری شعبہ صحافت مانو، معروف مراسلہ نگار ابن غوری، سلطان شطاری اور مولانا مظفر علی صوفی کے علاوہ شہرحیدرآباد کی ممتاز علمی و ادبی شخصیات اور شعراء و ادباء نے شرکت کی۔
<br /></p>
<br />
<div class="eng-text" style="text-align: left;">
***
<br />
AbdurRahman Pasha, Musheerabad, Hyderabad.<br />
mrpasha1994[@]gmail.com<br />
موبائل : 09014430815<br />
</div>
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhAjrZfyBO_EFpQBfzEyTNn8wUzVb-01ShRrI7IkmPeng3mM3cRFUl1iusMKkXSmMoz0oS-YQLRtVM6MN3CIz-yG_cy_G_4aFcs6uR55HNqbf78166sLmII5sceRgWFSAjLRsfNlKWVgag/s100/abdur-rahman-pasha.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" data-original-height="100" data-original-width="100" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhAjrZfyBO_EFpQBfzEyTNn8wUzVb-01ShRrI7IkmPeng3mM3cRFUl1iusMKkXSmMoz0oS-YQLRtVM6MN3CIz-yG_cy_G_4aFcs6uR55HNqbf78166sLmII5sceRgWFSAjLRsfNlKWVgag/s100/abdur-rahman-pasha.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">محمد رحمٰن پاشا</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<div class="tn-snippet">Hyderabad Urdu Book Fair at AbulKalam Azad Institute, Nampally. Report: AbdurRahman Pasha<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-70266958584951223472024-02-11T16:15:00.003+05:302024-02-11T16:38:59.422+05:30بابری مسجد - رام مندر لوک سبھا مباحث میں اسدالدین اویسی کا دوٹوک بیان<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEigWV0HVbJA7xbuO2-VgKr8e4FNKaYZsbIhVogRPjKAUkLxW5b9h63Hmhgkw-mhimUYWf8zNwsYXgbKD-EwHuG9erTh6s_cKHS5pvN67dcSZXZ7o497AIsB6MyY8olhb6rNbouE19cQxPPe0pjwZs9zSCoCQoRKh5fn0onLrN9h2TH2oeGXHdBAa7FOIbE/s1600/asad-owaisi-speech-10feb-2024-loksabha.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="asad-owaisi-speech-10feb-2024-loksabha" border="0" data-original-height="350" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEigWV0HVbJA7xbuO2-VgKr8e4FNKaYZsbIhVogRPjKAUkLxW5b9h63Hmhgkw-mhimUYWf8zNwsYXgbKD-EwHuG9erTh6s_cKHS5pvN67dcSZXZ7o497AIsB6MyY8olhb6rNbouE19cQxPPe0pjwZs9zSCoCQoRKh5fn0onLrN9h2TH2oeGXHdBAa7FOIbE/s1600/asad-owaisi-speech-10feb-2024-loksabha.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">نئی دہلی </span><span class="nmd-agency">اعتماد نیوز / شجاع الدین افتخاری </span></div>
<p>
بیرسٹر اسد الدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے آج رام مندر پر مباحث کے دوران لوک سبھا میں بابری مسجد زندہ باد، بھارت زندہ باد، جئے ہند کے نعرے لگائے۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ مودی حکومت مسلمانوں کو یہ پیام دے رہی ہے کہ آیا وہ جان بچانا چاہتے ہیں یا انصاف چاہتے ہیں۔ صدر مجلس نے کہا کہ مسلمان بھیک نہیں مانگیں گے، سنکھی تعصب کو قبول نہیں کریں گے، دوسرے درجے کے شہری کے موقف کو قبول نہیں کریں گے ، اپنی شناخت کو مٹنے نہیں دیں گے ، جھوٹی اور دل غریب باتوں پر ہرگز بھروسہ نہیں کریں گے اور وہ کام نہیں کریں گے جو بی جے پی اور نام نہاد سیکولر پارٹیاں چاہتی ہیں۔ دستور کے دائرے میں رہ کر وہ کام کریں گے جو حکومت کو پسند نہیں ہے۔
<br />
ان کا یہ ماننا ہے کہ بحیثیت بھارت کے غیور مسلمان، بھارت کی جمہوریت کی روشنی آج بجھا دی گئی ہے اور ان کی فکر اور ایمان یہ کہتا ہے کہ جس جگہ مسجد تھی ، ہے اور رہے گی۔ بابری مسجد ہے اور رہے گی۔
</p><br />
<p>
بیرسٹر اسد الدین اویسی ایم پی صدر مجلس نے لوک سبھا میں رام مندر کے موضوع پر منعقدہ مباحث کی مخالفت کرتے ہوئے حبیب جالب کے اشعار پیش کئے اور کہا کہ کرسئ صدارت پر فائز صدرنشین اور وزیر قانون بھی اردو جانتے ہیں، اس لئے وہ یہ اشعار پیش کر رہے ہیں۔
<br />
حکمراں ہو گئے کمینے لوگ
<br />
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
<br />
ہر محب وطن ذلیل ہوا
<br />
رات کا فاصلہ طویل ہوا
<br />
آمروں کے جو گیت گاتے رہے
<br />
وہی کام و داد پاتے رہے
<br />
رہزنوں نے رہزنی کی تھی
<br />
رہبروں نے بھی کیا کمی کی تھی
</p><br />
<p>
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ ابھی وہ ایوان میں شیو سینا کے شنڈے گروپ کے رکن کی تقریر سن رہے تھے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ 6 دسمبر 1992ء کو جب بابری مسجد شہید کی جا رہی تھی تو اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ پوجا کر رہے تھے اور انھوں نے یہ ہدایت دی تھی کہ انھیں کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ صدر مجلس نے کہا کہ جس شخص نے ملک بھر میں پدیا ترا نکالی اور جس نے بابری مسجد کے انہدام کے موقع پر خاموشی اختیار کر لی، ان دونوں کو نریندر مودی حکومت نے اس ملک کا سب سے اعلیٰ ترین سیویلین ایوارڈ 'بھارت رتن' دے دیا۔ یہ ایوارڈ ان دونوں کو دینا یہ بتاتا ہے کہ انصاف زندہ ہے یا ظلم کو برقرار رکھا جا رہا ہے؟
<br />
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اس ایوان میں سیاسی جماعتیں آئیں گی اور چلے جائیں گی لیکن ایوان تو باقی رہے گا۔ لوک سبھا کو تو ایک آواز میں بولنا چاہئے لیکن لوک سبھا میں مختلف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ لوک سبھا دستور کے تابع ہے، 16 دسمبر 1992ء کو لوک سبھا میں یہ قرارداد منظور کی گئی تھی کہ یہ ایوان بابری مسجد کی ایودھیا میں تقدس کی پامالی اور انہدام کی مذمت کرتا ہے۔ ایوان کی جانب سے تمام نے مساوی طور پر مذمت کی تھی کہ بابری مسجد کی بے حرمتی کی گئی اور ایودھیا میں اسے منہدم کر دیا گیا۔
</p><br />
<p>
مسجد کے انہدام کے لیے جن طاقتوں نے اکسایا تھا ان میں وی ایچ پی ، آر ایس ایس اور بجرنگ دل شامل ہیں ، ان تنظیموں نے ملک بھر میں فساد برپا کیا۔ اس وقت نہ صرف سپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ مسجد کو تباہ کر دیا گیا۔ ملک کی سیکولر بنیادوں کو ہلا دیا گیا۔ ایوان نے اس حرکت پر برہمی ظاہر کی تھی اور ملک کے سیکولر و جمہوری روایات کی برقراری کے علاوہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی اپیل کی تھی۔ آج مودی حکومت 6 دسمبر کو جو ہوا تھا ، اس پر جشن منا رہی ہے۔
<br />
اس پر کرسئ صدارت پر فائز صدرنشین نے کہا کہ 6 دسمبر پر کوئی جشن نہیں ہو رہا ہے، جشن اس بات پر ہے کہ رام مندر میں جو مورتی نصب کی گئی ہے اس عمل کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر انجام دیا گیا ہے۔ رام مندر کا قیام سپریم کورٹ کے ذریعہ کیا گیا۔ صدر نشین نے کہا کہ مجلسی رکن قانون کے جانکار ہیں، وہ یہ جانتے ہیں لیکن پھر بھی انھیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ کسی دیگر دھرم کی جگہ پر اگر مسجد بنائی جائے تو اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ انھوں نے کہا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے بھی قبول کیا تھا کہ وہاں رام مندر موجود تھا۔ انھوں نے بیرسٹر اویسی سے خواہش کی کہ وہ موضوع پر بات کریں۔
</p><br />
<p>
بیرسٹر اویسی نے کرسی صدارت کو چیلنج کیا اور کہا کہ وہ انھیں غلط ثابت کر دیں گے۔ صدر مجلس نے کہا کہ وہ صدر نشین کی عزت کرتے ہیں اور عزت و احترام کے ساتھ یہ بتا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیراگراف 1222 میں موجود ہے کہ مسجد کی تباہی سپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی کر کے کی گئی۔ عدالت کو یہ تیقن دیا گیا تھا کہ بابری مسجد کو چھوا نہیں جائے گا۔ مسجد کی تباہی مجرمانہ حرکت تھی۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ صدر نشین نے یہ کہا کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیرا گراف کا حوالہ دیا جس میں یہ کہا گیا ، سپریم کورٹ نے اے ایس آئی کی رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ وہ ان تفصیلات پر مشتمل پیرا گرافس کو کرسی صدارت کے حوالے کر دیں گے ، آپ اسے آرام سے پڑھ لیں۔ بیرسٹر اویسی نے کرسی صدارت سے یہ پوچھنا چاہا کہ آیا مودی سرکار صرف ایک مذہب کی حکومت ہے یا ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی حکومت ہے؟ انھیں بتا دیا جائے۔ کیا مودی حکومت کو صرف ایک فکر ہے اور وہ ہندوتوا کی حکومت ہے؟ کیا اس ملک کا اور حکومت ہند کا ایک مذہب ہے؟ وطن عزیز سب مذاہب کو مانتا ہے۔
<br />
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ ان کا یہ مانتا ہے کہ اس ملک کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ آیا یہ حکومت 22 جنوری کے پیام کو پیش کر کے یہ بتانا چاہتی ہے کہ ایک مذہب کے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب پر غلبہ حاصل ہے؟ آیا آئین اس کی اجازت دیتا ہے؟ کیا حکومت اس ایوان کے ذریعہ یہ پیام دے رہی ہے، 17 کروڑ مسلمانوں کو کیا پیام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ یہ سوال وہ کرسی صدارت پر چھوڑتے ہیں۔
<br />
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ مسلمانوں کو 1959ء میں، 1986ء میں، 1992ء میں، 2019ء میں اور 2022 ء میں دھوکہ دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم اقلیت کو بھارت کا شہری برقرار رہنے کے لئے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ ہم پر الزام لگا دیا جاتا ہے۔
<br />
بیرسٹر اویسی نے سوال کیا کہ کیا وہ بابر ، جناح اور اورنگ زیب کے ترجمان ہیں؟ انھوں نے کہا کہ آخر ہمیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ صدر مجلس نے کہا کہ 6 دسمبر کے بعد ملک بھر میں فساد ہوا۔ نوجوانوں پر ٹاڈا جیسے قوانین کے تحت مقدمات درج کر دیئے گئے تو وہ بوڑھے ہو کر باہر نکلے۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ وہ مریادا پرشوتم رام کی عزت کرتے ہیں لیکن وہ ناتھو رام گوڈسے سے نفرت کرتے ہیں۔ ہماری نسلیں بھی نفرت کرتی رہیں گی۔ کیونکہ اس نے اس شخص کو گولی ماری جس کی زبان سے آخری الفاظ 'ہے رام' نکلے تھے۔
<br />
صدر مجلس نے کہا کہ 1987 ء میں ملیانہ اور ہاشم پورہ، 1983 ء میں دہلی فساد ہوا۔ 1944ء میں جموں میں نسل کشی کی گئی۔ ہلدوانی میں بھی قتل کئے گئے۔ اتنے دھوکے اسد الدین اویسی یعنی مسلمانوں کو دیئے گئے ، پھر بھی ہم سے یہ کہا جاتا ہے کہ: اویسی! تم وفاداری کو ثابت کرو۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ بھارت کے 17 کروڑ مسلمان آج خود کو اجنبی محسوس کر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں کنارے پر کر دیا گیا ہے۔ بہت بڑی نا انصافی کی جا رہی ہے۔ اس پر مرکزی وزیر نشی کانت دوبے نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ: اسپیکر صاحب، وہ اویسی صاحب سے صرف ایک سوال کا جواب مانگنا چاہتے ہیں کہ وہ بابر کو حملہ آور مانتے ہیں یا نہیں؟
<br />
اس پر بیرسٹر اویسی نے الٹا نشی کانت دوبے سے سوال کیا کہ وہ پشیا مترا سنگھا کو کیا مانتے ہیں؟ جموں و کشمیر کے ایک راجہ کو وہ کیا مانتے ہیں؟ جس کے پاس ایک فوج تھی جو صرف مندروں کو توڑنے کے لئے مختص تھی ، اس کا جواب دیا جائے۔
<br />
اس پر ایوان میں خاموشی چھا گئی۔
<br />
بیرسٹر اویسی نے نشی کانت دوبے سے کہا کہ 1947ء میں ہمیں آزادی ملی ، ہم سے بابر کی بات کیا پوچھ رہے ہو؟ انھوں نے کہا کہ اسد اویسی سے پوچھا جانا چاہیے گاندھی جی ، سبھاش چندر بوس ، جلیان والا باغ ، کالا پانی میں شہید مسلمانوں کے بارے میں، لیکن ہم سے بابر کی بات پوچھی جاتی ہے۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ نشی کانت دوبے نے ان کا وقت خراب کر دیا۔
<br />
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اس دیش کو کس کی ضرورت ہے؟ وہ بتانا چاہتے ہیں کیونکہ لوگ تاریخ کو نہیں پڑھتے۔ انھوں نے سوال کیا کہ مولانا امیر علی اور پجاری رام چرن داس کون تھے؟ دونوں کا تعلق ایودھیا سے تھا۔ دونوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی، گرفتار کر لئے گئے اور ایک ہی پیڑ پر مولانا امیر علی اور پجاری رام چرن داس کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ دیش کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔
<br />
انھوں نے کہا کہ شمھو پرساد، اچن خان جو راجہ دیوی سنگھ کی فوج کے تھے انھوں نے انگریزوں سے مقابلہ کیا تھا جس کے بعد مسلمان کی لاش کو جلا دیا گیا اور شمھو پرساد کو دفنا دیا گیا تھا، آج ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ دیش کو بابا مودی کی ضرورت نہیں ہے۔
<br />
بیرسٹر اویسی نے کہا کہ وہ کافی دیر سے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے بیانات کو سن رہے ہیں اور ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ قاضی صاحب جب گواہوں کو لے کر دلہن کے پاس جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم کو نکاح قبول ہے؟ تو دلہن شرما کر خاموش ہو جاتی ہے۔ یہاں اس ایوان میں ان نام نہاد جماعتوں کی خاموشی بھی رضا مندی کی علامت ہے۔
</p><br />
<p>
بیرسٹر اویسی نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے اختتام میں کہا کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے جواب چاہتے ہیں کہ کیا وہ بھارت کے 140 کروڑ عوام کے لئے جواب دیں گے؟ یا پھر صرف ہندو توا کی فکر رکھنے والوں کو جواب دیں گے؟ دیش ، دنیا اور مسلمان یہ سب دیکھ رہے ہیں۔
<br />
انھوں نے آخر میں بابری مسجد زندہ باد اور بھارت زندہ باد کے نعرے لگائے۔
</p>
<br /><div class="tn-snippet">
Ram Temple debate in Lok Sabha: Owaisi slams govt's alleged religious bias
<br />
</div>
TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-29748465822900623152024-01-21T23:30:00.002+05:302024-01-21T23:30:10.768+05:30میں نے بابری مسجد میں کیا دیکھا؟ کالم از معصوم مرادآبادی<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjSgWpjPb0dLL7k6Ef0VQdsHdAGZhfGIPbiGtS4jncjqj66BTyYFn7YYXQd5n1BGBCgVGOoe8U8xwsu4l7ZpfXVk79iAzmp8cSconT3A_26EWzY84ZRgc1mzW1YjV1wgzd8uR0bdWFt9vxvSgZYEHetQTbmcXTvh9_7RDvRAR6irM176cSPwgmkYn8NKuI/s720/what-did-i-see-in-babri-masjid-by-masoom-moradabadi.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="what-did-i-see-in-babri-masjid-by-masoom-moradabadi" border="0" width="600" data-original-height="535" data-original-width="720" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjSgWpjPb0dLL7k6Ef0VQdsHdAGZhfGIPbiGtS4jncjqj66BTyYFn7YYXQd5n1BGBCgVGOoe8U8xwsu4l7ZpfXVk79iAzmp8cSconT3A_26EWzY84ZRgc1mzW1YjV1wgzd8uR0bdWFt9vxvSgZYEHetQTbmcXTvh9_7RDvRAR6irM176cSPwgmkYn8NKuI/s600/what-did-i-see-in-babri-masjid-by-masoom-moradabadi.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">تجزیہ </span><span class="nmd-agency"><a href="/search?q=masoom.moradabadi">معصوم مرادآبادی</a> </span></div>
<p>
بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد ملک میں عجیب و غریب صورت حال تھی۔ مسجد میں پوجا پاٹ کے مناظر لوگوں کے مذہبی جذبات کو چھلنی کر رہے تھے۔ ہر کسی کی نظریں بابری مسجد پر مرکوزتھیں۔ میں نے بابری مسجد میں داخل ہوکر وہاں کے حالات جاننے کا فیصلہ کیا۔ یکم فروری 1987 کو جبکہ پورے ملک میں مسلمان بابری مسجد کی بے حرمتی کے خلاف اپنی دکانیں اور کاروبار بند رکھ کر احتجاج کر رہے تھے تو میں بابری مسجد کی اندرونی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وہاں موجود تھا۔ میں بابری مسجد میں بھیس بدل کر داخل ہوا تھا کیونکہ 1949 کے ایک ایگزیکیٹو آرڈر کے مطابق بابری مسجد کے آس پاس پانچ سو میٹر تک کسی بھی مسلمان کا داخلہ ممنوع تھا۔
</p><br />
<p>
بابری مسجد کے صدر دروازے تک جانے والی سڑک کے دونوں طرف بڑی بڑی مندر نما عمارتیں نظر آتی ہیں جنہیں مانس بھون کہا جاتا ہے۔یہ عمارتیں 1949میں مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد تعمیر ہوئی ہیں اور ان میں درشن کے لئے آنے والوں کے ٹھہرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔با بری مسجد کے تین جانب صرف شمال کو چھوڑ کر 7بیگھہ قبرستان کی اراضی ہے۔یہ عمارتیں بھی قبرستان پر ہی تعمیر ہوئی ہیں۔ان عمارتوں کے ختم ہونے کے بعد بائیں جانب اونچائی پر ایک چھوٹا راستہ بابری مسجد کے صدردروازہ تک جاتا ہے۔
</p><br />
<p>
اس راستہ کے بائیں جانب دوکانوں پر عقیدت مندوں کی دلچسپی کی اشیا فروخت ہوتی ہیں اور دائیں جانب پولیس چوکی قائم ہے۔ صدر دروازے سے متصل مٹھائی کی کئی دوکانیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ مٹھائی اصلی گھی اور ماوے سے تیار کی جاتی ہے۔ عقیدت مند اسے اندر لے جا کر چڑھاتے ہیں۔دوکانوں سے پہلے ہی ایک مقام پر جوتے اتارنے پڑتے ہیں۔ مسجد کے صدر دروازے پر ہندی میں "رام جنم بھومی" تحریر ہے اور یہیں سی آر پی کے تین مسلح جوان اندر جانے والوں کی تلاشی لیتے ہیں۔ صدر دروازہ کے اوپر ہی ہیڈ پجاری لال داس کی جانب سے ہندی میں یہ وارننگ تحریر ہے "فوٹو لینا سخت منع ہے"عقید ت مند لائن بنا کر ہاتھ جوڑتے ہوئے مسجد کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ صدر دروازہ پر دوجگہ لفظ "اللہ" نمایاں انداز میں کندہ ہے۔
<br />
صدر دروازے سے اندر داخل ہونے کے بعد بائیں ہاتھ کو تقریباً چھ فٹ اونچا ایک پختہ چبوترہ ہے جس کے مختلف گہرے خانوں میں پتھر کی چھوٹی چھوٹی مورتیاں نصب ہیں۔چبوترے کا حصہ 1949ء سے ہی تالا لگنے کے بعد مندر کے طورپر استعمال ہوتا رہا ہے اور عقیدت مند یہیں سے لوہے کی سلاخوں سے مسجد کے اندر رکھی مورتیوں کا درشن کرتے تھے۔
</p><br />
<p>
چبوترے پر اور اس کے آس پاس مختلف ناموں کے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے پتھر نصب ہیں۔ یہ ان دولت مند لوگوں کی طرف سے بطور یاد گار لگائے گئے ہیں جو 1949ء کے بعد یہاں درشن کرنے کے لئے آئے اور جنہوں نے مقدمہ لڑنے اور مندر بنانے کے لئے کثیر رقمیں فراہم کیں۔ چبوترے کے پیچھے کی جانب دیوار کے دونوں کونوں میں پتھر کی کئی مورتیاں نصب ہیں۔ لیکن عقیدت مندوں کی دلچسپی کا اصل مرکز مسجد کے اندرونی حصہ میں رکھی ہوئی مورتیاں ہیں اور وہیں درشن کرنے والوں کا تانتابندھارہتا ہے۔چبوترے اور دیوار پر نصب مورتیوں کا درشن لوگ کم ہی کرتے ہیں۔ اسی احاطہ میں صدر دروازے کی دیوار سے لگی لکڑی کی ایک لمبی کوٹھری ہے جس میں پجاریوں کا سامان اور گنگا جل رکھا رہتا ہے۔اسی احاطے کے دائیں جانب مسجد کے صحن سے متصل ایک اور مقام پر فریم کی ہوئی چند مورتیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اس مقام کو سیتا کی رسوئی کہا جاتا ہے اور یہاں پر مسجد میں داخلہ کے لئے ایک اور دروازہ ہے۔
<br />
مسجد کے صحن میں داخلہ کے اس دروازے پر بھی سی آر پی کا ایک مسلح جوان تعینات ہے۔
<br />
صحن میں داخل ہوتے ہی تین گنبدوں پر مشتمل مسجد کے اندرونی حصہ کی پیشانی پر عربی رسم الخط میں تین فارسی اشعار کندہ ہیں جن میں مسجد کی تعمیر کی تاریخ درج ہے۔ ان اشعار کے دونوں جانب ابھرے ہوئے الفاظ میں گول دائرے کے اندر لفظ "اللہ"کندہ ہے۔یہ تحریر خستہ حالت میں ہے۔صحن کے بائیں جانب گنبدوں تک پہنچنے کے لئے ایک خستہ حال زینہ ہے‘ جسے لکڑی کے تختے لگا کر بند کردیا گیا ہے۔مسجد کی پیشانی اور آگے کی دیوار بھی خستہ حالت میں ہے۔خستہ دیوار کے اندر سے اگنے والے پودوں نے جو عام طور پر قدیم عمارتوں پر اُگ آتے ہیں‘اب چھوٹے درختوں کی شکل اختیار کرلی ہے اور عمارت کو کمزور کررہے ہیں۔
</p>
<blockquote>
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
<br />
<a href="/2020/08/babri-masjid-memories.html">بابری مسجد - کچھ یادیں کچھ باتیں : معصوم مرادآبادی</a>
</blockquote>
<p>
تین گنبدوں پر مشتمل مسجد کے اندرونی حصہ میں تین صفیں ہیں اور اس کی ہر صف میں 120آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح مسجد کے صحن میں اتنی ہی بڑی چار صفیں ہیں۔ مسجد کے اندرونی حصے اور صحن میں مجموعی طورپر 700 افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔اندرونی حصہ میں سفید پتھر کی جا نمازیں بنی ہوئی ہیں۔درمیانی گنبدکے نیچے لکڑیوں کے اسٹیج نماتین فریم بنائے گئے ہیں جن میں پتھر کی صرف ایک مورتی رکھی ہوئی ہے اور باقی تصویریں شیشے کے فریموں میں رکھی ہیں۔ان میں رام چندر جی ہنومان جی، گنیش جی اور گرو گووندسنگھ کی وغیرہ کی تصویر ہیں۔ مسجد کے منبر کی اوپر والی سیڑھی پر بھی ہنومان جی کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔اس درمیانی گنبد کے اندرونی حصہ کو جس کے نیچے یہ تصویریں اور پتھر کی مورتیاں ہیں لال کپڑے سے ڈھک دیا گیا ہے۔
<br />
عقیدت مند سات فٹ کی دوری سے ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکا کر ان مورتیوں کے درشن کرتے ہیں۔حد بندی کے لئے لکڑی کا ایک حالہ بنا یا گیا ہے۔یہیں لکڑی کی تقریباًچار فٹ لمبی ایک گولک رکھی ہوئی ہے جس میں دان ڈالا جاتا ہے۔اس گولک کے دائیں جانب ایک پجاری بیٹھا ہوا ہے جو درشن کرنے والوں کو ایک چھوٹے سے چمچے میں گنگا جل دیتاہے جسے لوگ بڑی عقیدت سے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔ یہاں بھی سی آر پی کا ایک مسلح جوان تعینات ہے۔
</p><br />
<p>
درمیانی گنبد کے حصہ میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب دیوار پر ہنومان جی کی ایک تصویر پینٹ کی گئی ہے۔ اسی طرح بائیں گنبد کی دو دیواروں پر شہید بھگت سنگھ اور چندر شیکھر آزاد کی تصویریں پینٹ ہیں۔اندر ونی حصہ کی دیواروں پر کوئلے اورچاک سے کچھ لکھا گیا تھا جسے صاف کردیا گیا ہے۔دائیں جانب تیسرے گنبد کے نیچے بھی فریم کی ہوئی چند تصویریں رکھی ہیں۔مسجد کے صحن میں بندر آزادانہ اچھلتے کودتے نظر آتے ہیں۔
</p><br />
<p>
مسجد کے پیچھے کی دیوار بھی خستہ حالت میں ہے۔پیچھے کی جانب بھی دیواروں میں پودے اُگ آئے ہیں۔ مسجد کی پشت سے متصل ایک پرانی دیوار تعمیر ہے جس کے ارد گرد سی آرپی کے مسلح جوان پہرہ دیتے ہیں۔ہر چند کہ مسجد کے اندرونی حصہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے لیکن سالہاسال سے مرمت نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کی عمارت خستہ حالت میں ہے۔مسجد کے تین جانب صوبائی حکومت کی جانب سے ایک باؤنڈری بنائی جارہی ہے جو اس کام کی نگرانی کرنے والوں کے بقول مسجد کو کسی بھی امکانی حملے سے محفوظ رکھے گی۔عجیب وغریب بات یہ ہے کہ مسجد کی حفاظت کے لئے لاکھوں روپئے خرچ کرکے باؤنڈری تو بنائی جارہی ہے مگر خستہ مسجد کی مرمت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت نے اجودھیا کو خوبصورت بنانے اور اسے ہندوؤں کا سب سے مقدس مذہبی مقام بنانے کا پروگرام بنایا ہے اور اس کے لئے 50 کروڑ کی رقم مخصوص کی گئی ہے۔
</p><br />
<p>
با بری مسجد کو عملی طورپر مندر بنائے جانے کی سازش میں صوبائی حکومت کی شرکت کی بات روز اوّل سے کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں اجودھیا کے مسلمانوں نے ہمیں کئی اہم باتیں بتائیں۔ فیض آباد سے کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ نرمل کھتری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے علاقے کے ہندوؤں سے کھلے عام یہ کہا تھا کہ اگر وہ پارلیمنٹ کا الیکشن جیت گئے تو جنم بھومی کا تالا کھلوا دیں گے۔ اسی موضوع پر وہ کامیاب بھی ہوئے تھے۔نرمل کھتری کے والد نارائن داس کھتری بابری مسجد کے مقدمے میں سرکاری وکیل ہیں۔ان کا کردار بھی اس سلسلے میں واضح نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسٹر کھتری نے بظاہر امیش چند پانڈے کی اس درخواست کی مخالفت کی تھی جس پر عدالت نے بابری مسجد کا تالا کھولنے کا حکم دیا مگر بالواسطہ طور پر مسٹر کھتری نے امیش چند پانڈے کی درخواست کی تائید کی اور کیس کی صحیح نوعیت عدالت کے سامنے پیش نہیں کی۔بعض کاغذات جو اپنی درخواست کے ساتھ مسٹر پانڈے داخل نہیں کرسکے تھے‘وہ مسٹر کھتری نے سرکاری وکیل کی حیثیت سے داخل کئے جن کا مقصد امیش چند کی درخواست کی تردیدکرنا بتایا جبکہ ان کاغذات سے امیش چند کو فائد ہ پہنچا اور عدالت نے آسانی سے تالا کھولنے کا فیصلہ صادر کردیا۔
<br />
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وشو ہندو پریشد،بجرنگ دل،جنم بھومی مکتی سیوا سمیتی اور ریسیور کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ یہ کامیابی ہمیں کانگریس کی حمایت سے ملی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ شری پت مصرا نے اپنی اجودھیا آمد پر تالا کھولنے کی مانگ کرنے والوں سے اسٹیج سے یہ بات کہی تھی کہ کوئی چیز مانگنے سے نہیں ملتی۔ لینا ہے تو ہاتھ بڑھا کر لے لو۔ چنانچہ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کے وافر ثبوت موجود ہیں کہ وہ حکومت جو فی الوقت اس مسئلے کو عدالت کا معاملہ قرار دے کر اپنا دامن بچا رہی ہے‘تالا کھلوانے میں برابر کی شریک تھی۔
</p><br />
<p>
ہم نے اجودھیا کے محلہ قضیانہ میں رہائش پذیر 80سالہ حاجی عبدالغفارسے بھی ملا قات کی جنہوں نے 1930 سے 1949 تک بابری مسجد میں بحیثیت امام ذمہ داریاں انجام دی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1901سے 1930ء تک ان کے والد مولوی عبدالقادر نے بابری مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیئے تھے جبکہ اس سے پہلے 1870 سے 1900کے درمیان ان کے ماموں حاجی عبدالرشید بابری مسجد کے امام تھے۔حاجی عبدالغفار کی پیدائش اجودھیامیں ہی ہوئی۔ انہوں نے "گم گشتہ حالات اجودھیا اودھ"کے نام سے ایک کتاب بھی ترتیب دی ہے جس میں اجودھیا کے بزرگوں اور یہاں کی مسجدوں اور مقبروں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
<br />
محکمہ آثار قدیمہ نے 1978سے 1980 کے درمیان با بری مسجد کی بنیادوں اور اجودھیا کے دوسرے مقامات کی کھدائی کی تاکہ اسے زمین کے اندر سے رام چندر جی کے عہدکے کچھ آثار بر آمد ہوجائیں مگر اسے اس وقت سخت مایوسی ہوئی جب یہاں مسلمانوں کی قدیم ترین آبادی کے نشانات ملنے شروع ہوئے۔ان نشانات کو انتہائی خاموشی کے ساتھ غائب کردیا گیا۔
</p><br />
<p>
اس بات کے وافر ثبوت موجود ہیں کہ اجودھیا قدیم ترین زمانے سے مسلمانوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں درجنوں ایسے بزرگ آسودہ خواب ہیں جنہوں نے تبلیغ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ یہاں حضرت آدم ؑکے بیٹے حضرت شیث ؑ کی قبر بھی ہے۔ اسی طرح حضرت نوحؑ کے زمانے کی ایک اور قبر بھی اجودھیا میں موجود ہے۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ مسئلہ محض ایک مسجد کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی برسوں سال پرانی تاریخ و تہذیب اور ان کے تشخص کی بقا ء کا مسئلہ بھی ہے۔
</p><br />
<p style="text-align: left;">
(خاکسار کی کتاب "بابری مسجد: آنکھوں دیکھا حال" سے ماخوذ)
</p>
<br />
<div style="text-align: left;">***<br />
بشکریہ: <a href="https://www.facebook.com/masoom.moradabadi/" target="_blank">معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن</a><br />
masoom.moradabadi[@]gmail.com<br />
موبائل : 09810780563<br />
</div><table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrp1hoigH3csSvehg-g17iQfIdlDDdAYx7E1SMw8_fN5nQ1wG6jaxo9SC9ywHkA05ZwaOLGKbOFKXDgEO1PV3omhrV-TCvrSWn2kOee8PuR4LVcJ5zPFUaM18BaxU4hlwn5gVilXh9meY/s1600/masoom-moradabadi.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrp1hoigH3csSvehg-g17iQfIdlDDdAYx7E1SMw8_fN5nQ1wG6jaxo9SC9ywHkA05ZwaOLGKbOFKXDgEO1PV3omhrV-TCvrSWn2kOee8PuR4LVcJ5zPFUaM18BaxU4hlwn5gVilXh9meY/s1600/masoom-moradabadi.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">معصوم مرادآبادی</td></tr>
</tbody></table><br />
<div class="tn-snippet">What did I see in Babri Masjid? - Column: Masoom Moradabadi.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-74618669722726945182024-01-17T23:58:00.008+05:302024-01-18T00:10:30.008+05:30ممبئی قومی اردو کتاب میلہ : ایک جائزہ<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhkLsZTiMMbsxhEILwrIIPiK2xjW8fSV4eOeMLiBTwSHKu3mQly0qGZ8cspN92GQjNExIYjXQOJ_m-nTzQ3JK1122hIO56rDATwFwBaa2vTKF05iOoSAtDBgT7HJZlC5dzsbqFl0skULFEBV6kcn8x0OXZj_3078Sho2ummE_sY5o6FHdyN68pVujHfDnc/s1600/mumbai-urdu-book-fair-1.jpg" style="display: block; padding: 1em 0px; text-align: center;"><img alt="mumbai-urdu-book-fair" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhkLsZTiMMbsxhEILwrIIPiK2xjW8fSV4eOeMLiBTwSHKu3mQly0qGZ8cspN92GQjNExIYjXQOJ_m-nTzQ3JK1122hIO56rDATwFwBaa2vTKF05iOoSAtDBgT7HJZlC5dzsbqFl0skULFEBV6kcn8x0OXZj_3078Sho2ummE_sY5o6FHdyN68pVujHfDnc/s1600/mumbai-urdu-book-fair-1.jpg" /></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">نیوز اسٹوری </span><span class="nmd-agency">عبدالرحمٰن پاشا (حیدرآباد) </span></div>
<p style="font-weight: bold; text-align: center;">
ممبئی قومی اردو کتاب میلہ : نئی نسل کو اردو زبان سے قریب کرنے کا موثر ذریعہ
<br />
میلہ کامیاب یا ناکام : آنکھوں دیکھا حال
</p><br />
<p>
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) نئی دہلی اور تقریبا دیڑھ سو سالہ قدیم تعلیمی ادارہ انجمن اسلام، ممبئی کے اشتراک سے باندرہ کرلا کامپلیکس، آر۲ گراؤنڈ بالمقابل کینرا بینک، کرلا ممبئی میں ۶ جنوری تا ۱۴ جنوری ۲۰۲۴ یعنی نو روزہ ۲۶ واں قومی اردو کتاب میلہ کا شاندرا پیمانے پر انعقاد عمل میں آیا۔ یہ اب تک کی تاریخ کا سب سے بڑا اردو کتاب میلہ تھا، جس میں ۱۸۰سے زائد کتب فروش، ناشرین اور مکتبے موجود تھے۔ ممبئی قومی اردو کتاب میلے میں مختلف موضوعات (فکشن و نان فکشن) پر ساڑھے تین لاکھ سے زائد کتابیں براہ فروخت دستیاب تھیں۔ ان نو دنوں میں کتابوں کی فروخت کے علاوہ مختلف ثقافتی، علمی اور تفریحی پروگرام بھی منعقد کیے گئے۔ جس میں ورکنگ سائنس ماڈل مقابلہ، شام شعر و نغمہ۔ طلعت عزیز، سیمینار: آن لائن ٹیچنگ اور اردو ذریعہ تعلیم، علما کا اردو ادب، ممبئی اردو تھیٹر کالج (ڈرامہ نائٹ)، حب الوطنی گیت مقابلہ، ذرائع ابلاغ کے بدلتے وسائل اور اردو صحافت، سول سروسز اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کیسے کریں؟، اردو انفارمیشن ٹکنالوجی۔ جائزہ اور امکانات، اردو کی ادبی تحریکیں اور ممبئی، مقامی شاعروں کا مشاعرہ، غیر اردو داں حضرات میں اردو کی ترغیب، اردو افسانہ نئی صدی میں، مقابلہ بیت بازی، ٹیلنٹ ڈیبیٹ مقابلہ، اردو فارسی اور عربی تدریس کی صورتحال، غزل خوانی (انٹر کالیجیٹ)، اردو کا تانیثی ادب، شام نسواں، ممبئی کی اردو میونسپل اسکول کے بچوں کا مقابلہ مونو اداکاری، اردو ذریعہ تعلیم کا فروغ ایک اہم فریضہ، اردو اسٹینڈاپ کامیڈین، پینل ڈسکشن: ہندی فلموں کا اردو ادب اور مشاعرہ شامل ہے۔ جیسے ہی میں بی کے سی پہنچا دور سے ہی ایک بڑا ہورڈنگ بورڈ نظر آیا، جس سے پتہ چلا کہ میلہ اسی گراونڈ میں ہورہا ہے۔
<br />
میلے میں شریک ایم آر پبلی کیشنز (دہلی) کے مالک عبدالصمد دہلوی نے گفتگو کے دوران بتایا کہ این سی پل یو ایل سن دو ہزار سے کتابی میلہ منعقد کررہا ہے۔ یہ ۶۲ واں میلہ ہے۔ جس سے اردو کو فروغ حاصل ہوا اور لوگوں تک کتابیں پہنچی ہیں۔ میلے کا اصل مقصد عوام تک پہنچنا ہے۔ میلہ کی اچھی بات یہ ہے کہ لوگ ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہمیں شائقین تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ ممبئی کے اس میلے میں بچوں کی بڑی تعداد ہے، ظاہر سی بات ہے کہ اسکولی طلبہ کم قیمت والی کتابیں خریدتے ہیں۔ وہ اپنے جیب خرچ سے کتابیں خرید رہے ہیں، اردو کے جو بڑے ناشرین ہیں، ان کی ادبی و علمی کتابیں بچوں کے جیب خرچ سے باہر ہیں، جو دوچار ناشرین کم قیمت میں کتابیں شائع کرتے ہیں، ان کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ اردو کے عام قاری میلے میں نہیں پہنچ پائے۔ جس کی اہم وجہ مقام کا تعین ہے، جو کہ آبادی سے دور ہے۔ اس پر کئی لوگوں کو شکایت رہی۔
</p>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjkkQXRfZryzEbLDXqoCh1lpTXO5mFbLMDdAFQmC9FOGKO-9hMktxYQutPAxIt_uvulg1t3V01liAFKQU8PUFMVxK-OZQvI9XsZEtM8Gi3YK1Iv75Z-gGP6iRnmJ39KhjmiQ_4CrudvjSnW8RXLW4Fy19zvUZy86Kl2SRB4jk7EBVFSch_YPn7h_AaB280/s1600/mumbai-urdu-book-fair-2.jpg" style="display: block; padding: 1em 0px; text-align: center;"><img alt="mumbai-urdu-book-fair-2" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjkkQXRfZryzEbLDXqoCh1lpTXO5mFbLMDdAFQmC9FOGKO-9hMktxYQutPAxIt_uvulg1t3V01liAFKQU8PUFMVxK-OZQvI9XsZEtM8Gi3YK1Iv75Z-gGP6iRnmJ39KhjmiQ_4CrudvjSnW8RXLW4Fy19zvUZy86Kl2SRB4jk7EBVFSch_YPn7h_AaB280/s1600/mumbai-urdu-book-fair-2.jpg" /></a></div>
<blockquote>
کتاب کی مانگ میں اضافہ ہوا
</blockquote>
<p>
الکٹرانک میڈیا، آڈیو کتابیں اور پی ڈی ایف کے دور میں کتابوں کا مطالعہ اور مانگ کے بارے میں عبدالصمد دہلوی نے کہا کہ جیسا جیسا الکٹرانک میڈیا نے اپنا شکنجا بڑھایا ہے، اس کے نتیجہ میں مطبوعہ کتابوں کو فائدہ ہی ہوا ہے۔ پی ڈی ایف ہونے کے باوجود لوگ مطبوعہ کتاب کی مانگ کرتے ہیں، کیونکہ وہ پی ڈی ایف تھوڑے دن پڑھ کر اکتا جاتے ہیں۔ پی ڈی ایف کی شکل میں مکمل کتاب پڑھی نہیں جاتی۔ پی ڈی ایف کتاب آئی فرینڈلی (پڑھنے میں آسانی) نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ کتاب کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ آج بھی کتابوں کی مانگ گھٹی نہیں بلکہ بڑھی ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ زبان یا کتاب گھٹ رہی ہے، وہ نکتہ نظر سے پورا انصاف نہیں کررہے ہیں۔
<br />
ممبئی کے قدیم اور معروف کتب فروش مولانا عبدالسلام خاں قاسمی نے بات چیت کے دوران بتایا کہ این سی پی یو ایل نے میلے کو سجانے، سہولیات کی فراہمی، منڈپ اور دیگر کاموں کو بہت اچھی طریقہ سے انجام دیا ہے۔ لیکن جگہ کا انتخاب آبادی سے ذرہ فاصلے پر ہے۔ یہی میلہ آبادی کے اندر ہوتا تو صورتحال کچھ اور ہوتی۔ لیکن ان کی مجبوری تھی کہ ممبئی میں آبادی کے اندر اتنی بڑی جگہ دستیاب نہیں۔ اس کے باوجود بھی لوگوں نے دور دراز سے آکر کتابیں خریدی۔ مولانا عبدالسلام خاں قاسمی کا دعویٰ ہے کہ جس کتاب کو لوگ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جاتے ہیں وہ کتاب دیر سوار ہی سہی ان کے یہاں سے فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
</p>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgu4JHSfMIt1PBYmlBq48aRzmBl6mwVcRviL3r8WvXMAyYjFgS85auHpBbs_GmtpuKfLsL9FrHJoQZoKnzCvmp6HwU9jcwhnts6ryVh-kphOO343SO4HLibrRFh55C_WRIK3jwLaLw_47jGCGeOgyMoJDY6KNxzezPt1A4Q_5ZT6nEJpMTMlIL0l7UFziY/s1080/mumbai-urdu-book-fair-3.jpg" style="display: block; padding: 1em 0px; text-align: center;"><img alt="mumbai-urdu-book-fair-3" border="0" data-original-height="441" data-original-width="1080" height="261" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgu4JHSfMIt1PBYmlBq48aRzmBl6mwVcRviL3r8WvXMAyYjFgS85auHpBbs_GmtpuKfLsL9FrHJoQZoKnzCvmp6HwU9jcwhnts6ryVh-kphOO343SO4HLibrRFh55C_WRIK3jwLaLw_47jGCGeOgyMoJDY6KNxzezPt1A4Q_5ZT6nEJpMTMlIL0l7UFziY/w640-h261/mumbai-urdu-book-fair-3.jpg" width="640" /></a></div>
<blockquote>
کس طرح کی کتابیں فروخت ہوئیں؟
</blockquote>
<p>
ہدیٰ پبلی کیشنز، حیدرآباد کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبدالباسط شکیل نے کہا کہ صبح کے اوقات میں بچوں کی کافی گہما گہمی رہی۔ بچوں کا ادب، رسائل اور عام معلوماتی کتابوں کی کافی مانگ رہی، ان کتابوں کو بچوں نے شوق سے خریدا۔ دینی موضوعات پر لکھی گئی کتابیں بھی اچھی خاصی تعداد میں فروخت ہوئیں۔ عام قاری یا بڑی عمر کی لوگ اپنی نجی مصروفیات کی وجہ سے سہ پہر چار تا رات ساڑھے نو بجے تک میلے میں شریک رہے۔ اردو کے عام قارئین نے شاعروں کے کلیات، شعرا و ادبا کی سوانح عمری، آب بیتیاں اورمعلوماتی ادب اور مجموعہ مضامین پر مبنی کتابیں خریدیں۔
</p><br />
<blockquote>
اسکولی طلبہ کا ذوق و شوق
</blockquote>
<p>
کل ہند اردو کتاب میلہ، ممبئی کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ روزانہ کئی اسکول انتظامیہ نے حمل و نقل کے انتظامات کرکے طلبہ و طالبات کی میلے میں شرکت کو یقینی بنایا۔ جس کی وجہ سے پورے میلے میں طلبہ و طالبات کی زبردست چہل پہل رہی، تقریباً ہر اسٹال میں طلبہ بڑی تعداد میں نظر آئے۔ ان بچوں نے میلے میں شریک ہو کر کتابوں کے ساتھ تصاویر لیں، ایک دوسرے سے کتابوں کے بارے میں باتیں کیں۔ بچے کہہ رہے تھے کہ "دادا اس اسٹال پر سستی کتابیں مل رہی ہیں"۔ اس اسٹال پر قصہ کہانیوں کی کتابیں زیادہ ہیں۔ وہاں کارٹونس اور ڈرائنگ کی کتابیں مل رہیں ہیں۔ فلاں جگہ مہندی ڈیزائن اور کھانوں کی اقسام یعنی پکوان کی کتابیں دستیاب ہیں۔ بچے کہہ رہے تھے کہ علامہ اقبال، احمد فراز، فیض احمد فیض، حسرت موہانی، اکبر الہ آبادی، پروین شاکر وغیرہ کی شاعری اور مولانا آزاد کی کتابیں تو وہاں دستیاب ہیں۔ اس طرح بچوں کی سرگوشیاں سننے لائق تھی۔ شاید ان بچوں میں کتابیں خریدنے کی سکت نہ ہو، لیکن ان کی کتاب میلے میں شرکت علم سے محبت اور کتابوں کے مطالعے کا شوق پیدا کرنے کا موثر ذریعہ ثابت ہوگی۔ کل جب وہ زندگی کے مختلف میدانوں میں کامیابیاں حاصل کریں گے تو اس کتاب میلے میں شرکت کو یاد کریں گے۔
<br />
بچوں کے ادیب اور ماہنامہ گل بوٹے کے مدیر فاروق سید نے بتایا کہ این سی پی یو ایل اور انجمن اسلام نے گل بوٹے کو ذمہ داری دی کہ وہ تمام اسکولوں سے رابطہ کریں اور انھیں میلے میں مدعو کریں۔ جس دن میلہ کا افتتاح تھا، اس دن دس ہزار بچوں کو مدعو کیا گیا، افتتاحی پروگرام شاندار پیمانے پر منعقد ہوا اور روزانہ پندرہ سے بیس اسکولوں کے طلبہ میلے میں شریک رہے۔ جن بچوں نے میلے میں شرکت کی، ان میں زیادہ تر بچوں نے بچوں کے ادب، سائنس اور کہانیوں سے متعلق کتابیں خریدی۔ اسکول انتظامیہ نے بچوں کو انفرادی طور پر ٹارگٹ دے رکھا تھاکہ ہر طالب علم تین سو سے پانچ سو روپیے کی کتابیں خریدیں۔ بچوں نے نہایت ہی خوش دلی سے میلے میں شرکت کی اور کتابیں خریدیں۔ اساتذہ کو بھی ٹارگیٹ دیا گیا ہے کہ وہ کم از کم دو ہزار کی کتابیں خریدیں اور اسکولوں کی لائبریری کے لیے دس ہزار کی کتابوں کی خریداری کا ٹارگیٹ دیا گیا۔ فاروق سید نے بچوں کے ادب پر توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ بچوں کا ادب لکھا تو جارہا ہے لیکن وہ قارئین کی بڑی تعداد تک نہیں پہنچ پا رہا ہے۔ہمارے ملک میں بچوں کے ادیب اور شاعر ایسے ہیں، جن کی بچوں کے ادب پر کم از ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔
<br />
فاروق سید نے میلے کے مقام کے انعقاد کے بارے میں بتایا کہ شہر کے قلب میں اتنی بڑی جگہ میسر نہیں تھی کہ اتنے بڑے میلے کا انعقاد عمل میں لایا جاسکے، اسی لیے اس میلے کو بی کے سی گراونڈ میں منعقد کیا گیا۔ این سی پی یو ایل نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سو اسی کتب فروشوں نے میلے میں شرکت کی یقینی دہانی کراچکے تھے، اسی لیے مذکورہ مقام کا انتخاب عمل میں آیا۔
</p>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiVFmwYjpw-qh-FNV1Oyhr62jt13IZQ_yFm3J29VmxrJxT4citinxKiIKCiANJSDuCtl6GekQQumNI1ylp66yaeA0KNh2OF-cBVBoI_cZpwUtRVcUA1oqMkyzBqark0sfHGBiFoETihK9aaylRGtylrdfWPr1skPmQpm-7eyG_XSrQd9Uk5X99sZ8KAMik/s1040/mumbai-urdu-book-fair-4.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="mumbai-urdu-book-fair-4" border="0" width="600" data-original-height="449" data-original-width="1040" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiVFmwYjpw-qh-FNV1Oyhr62jt13IZQ_yFm3J29VmxrJxT4citinxKiIKCiANJSDuCtl6GekQQumNI1ylp66yaeA0KNh2OF-cBVBoI_cZpwUtRVcUA1oqMkyzBqark0sfHGBiFoETihK9aaylRGtylrdfWPr1skPmQpm-7eyG_XSrQd9Uk5X99sZ8KAMik/s600/mumbai-urdu-book-fair-4.jpg"/></a></div>
<blockquote>
کتاب میلہ : کامیاب یا ناکام؟
</blockquote>
<p>
بیشتر ناشرین کا یہ کہنا تھا کہ میلہ تو شاندار پیمانے پر منعقد ہوا، لیکن جس طرح کتابوں کی فروخت اورعام شائقین کی آمد کی توقعات کی جارہی تھیں؛ وہ پوری نہیں ہوئیں۔معروف صحافی سعید حمید نے روزنامہ انقلاب ممبئی ایڈیشن میں ۱۶جنوری ۲۰۲۴کی شائع شدہ خبر کے حوالے سے لکھا کہ " میلے میں ایک لاکھ کتابیں فروخت ہویں، جن کی مجموعی مالیت ۷۵لاکھ ہے۔ مطلب میلے میں اوسطا فی کتاب ۷۵روپیے کی خریداری پر خرچ کیا گیا۔ جب کہ غیر اردو داں ریاست تامل ناڈو میں گزشتہ سال اردو میلہ میں۵۲ لاکھ کی کتا بیں فروخت ہو گیں"۔ میلے میں ناشرین کے ناموں سے متعلق جو بڑا بورڈ لگا ہوا تھا، اس میں کونسا اسٹال کس نمبر پر ہے؛ اس کا ذکرہی نہیں تھا، جس کو شائقین کو اپنے پسند کے ناشرین تک پہنچنے میں مشکل پیش آئی۔
<br />
بھیونڈی کے یاسر انصاری نے بتایا کہ اگر یہی میلہ اردو آبادی کے درمیا ن ہوتا تو میلہ بڑے پیمانے پر منعقد ہوتا۔ آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے ایک تو ٹرانسپورٹ کا خرچ لگے گااور دوسرا وقت بھی ضائع ہوگا۔اردو آبادی کے درمیان میلہ ہوتا تو ان ہی پیسوں سے ایک دو کتابیں خریدی جاسکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ شائقین کو کتابوں کی خریدی کیلئے ناشرین کی جانب سے ڈسکاؤٹ کے باوجود این سی پی یو این کی جانب سے تمام ناشرین کی کتابوں پر دس یا پندرہ فیصد قیمت کی ادائیگی کی جائے تو کتابوں کی خریداری میں آسانی ہوگی۔ ایک اور بات جس کا میلے کے دوران مشاہدہ کیا گیا کہ میلے میں ثقافتی پروگراموں کی کثرت تھی۔ میلہ کا اصل مقصد کتابوں کی فروخت ہوتا ہے، جس پر شائد کم توجہ دی گئی ۔ بہرحال میلہ مجموعی طور پر اس اعتبار سے اہم رہا کہ بچوں نے بڑھ چڑھ کر کتابوں کاخریدی کی اور یہ میلہ نوجوان نسل کا اردو زبان سے قریب ہونے کا ایک موثر ترین ذریعہ ثابت ہوگا۔ جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
</p><br />
<br />
<div class="eng-text" style="text-align: left;">
***
<br />
AbdurRahman Pasha, Musheerabad, Hyderabad.<br />
mrpasha1994[@]gmail.com<br />
موبائل : 09014430815<br />
</div>
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhAjrZfyBO_EFpQBfzEyTNn8wUzVb-01ShRrI7IkmPeng3mM3cRFUl1iusMKkXSmMoz0oS-YQLRtVM6MN3CIz-yG_cy_G_4aFcs6uR55HNqbf78166sLmII5sceRgWFSAjLRsfNlKWVgag/s100/abdur-rahman-pasha.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" data-original-height="100" data-original-width="100" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhAjrZfyBO_EFpQBfzEyTNn8wUzVb-01ShRrI7IkmPeng3mM3cRFUl1iusMKkXSmMoz0oS-YQLRtVM6MN3CIz-yG_cy_G_4aFcs6uR55HNqbf78166sLmII5sceRgWFSAjLRsfNlKWVgag/s100/abdur-rahman-pasha.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">محمد رحمٰن پاشا</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<div class="tn-snippet">The 26th National Urdu Book Fair at BKC Bandra in Mumbai. Story: AbdurRahman Pasha<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-37743407449172649392024-01-16T23:56:00.003+05:302024-01-16T23:57:53.097+05:30رشید احمد صدیقی کی آپ بیتی - آشفتہ بیانی میری : ایک تاثر<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgXlwTleWb9QSJoTEP5OyEdCdgh7N-0Euadf2w-SUqjOycAyfj3Z9PPNAdGDqCapDE0iFSS88XXQyYVSGdutZ5wRg3t3HPCkj6nhWBhOqRpmr5Ki_cbrLaK20EcF_F04bKqCRl7eZGhOo8/s1600/aashufta-bayani-meri-rasheed-ahmad-siddiqui.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgXlwTleWb9QSJoTEP5OyEdCdgh7N-0Euadf2w-SUqjOycAyfj3Z9PPNAdGDqCapDE0iFSS88XXQyYVSGdutZ5wRg3t3HPCkj6nhWBhOqRpmr5Ki_cbrLaK20EcF_F04bKqCRl7eZGhOo8/s1600/aashufta-bayani-meri-rasheed-ahmad-siddiqui.jpg" alt="aashufta-bayani-meri-rasheed-ahmad-siddiqui" data-original-width="615" data-original-height="300" /></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">مضمون </span><span class="nmd-agency">شاہنواز صادق تیمی (جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ) </span></div>
<p>
"آشفتہ بیانی میری" رشید احمد صدیقی کی خود نوشت ہے۔ وہ یوپی کے ایک ضلع جونپور کے مڑیا گاؤں میں 1894ء میں پیدا ہوئے،میٹرک تک جونپور میں رہے، پھر اعلی تعلیم کی خاطر علی گڑھ آگئے، 1912ء میں کالج بنا تو آپ بحیثیت پروفیسر بحال ہوئے، جب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا، اس میں اردو ادبیات کا بھی شعبہ قائم ہوا تو آپ کو صدر شعبہ بنایا گیا، 1977ء میں آپ کا انتقال ہوا، آپ کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور پدم شری اعزاز برائے ادب و تعلیم سے بھی نوازا گیا۔آپ کی معروف تصانیف میں "خنداں" "گنج ہائے گرانمایہ" اور " طنزیات ومضحکات" ہیں۔
<br />
رشید احمد صدیقی کی خود نوشت "آشفتہ بیانی میری" دراصل آپ کی علی گڑھ یونیورسٹی( ایم- اے- او- کالج )کی ترجمان ہے، اس میں آپ نے اپنی زندگی کے مختلف شعبوں کو بھی بیان کیا ہے، تاہم علی گڑھ کی محبت اور اس کا ذکر دراز ان کی بقیہ حیات کو قاری کی نظر میں اس طرح سے نہیں چمکنے دیتااور محسوس ہوتا ہے کہ یہ خود نوشت جیسے علی گڑھ کے لیے ہی وقف ہے۔
<br />
اس آپ بیتی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ رشید احمد صدیقی نے اس میں مختلف شخصیات کا بھی تذکرہ کیا ہے،قاری اس آپ بیتی کو پڑھتے وقت تاریخ کی سیر، الفاظ و جمل کی شگفتگی،زبان کی شایستگی اشعار کے برجستہ استعمال کا ہنر اور کئی اچھی چیزوں کی وادی میں بیک وقت چلا جاتا ہے۔اس سے رشید صاحب کی علمی زندگی کے بو قلموں گوشوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔
<br />
رشید صاحب نے کتاب کے شروع میں "شکریہ" کے تحت ایک عنوان قائم کیا ہے اور شکریہ ادا کرنے کا کتنا ادیبانہ انداز اپنایا ہے،آپ بھی ملاحظہ کریں۔ "اس کتاب کو ان بزرگوں،دوستوں اور عزیزوں نے پسند فرمایا جو علی گڑھ سے براہ راست وابستہ تھے اور ان اصحاب نے بھی جو اس طرح تعلق نہیں رکھتے تھے۔ اول الذکر نے اس لیے کہ جو باتیں بیان کی گئی تھیں وہ غلط نہ تھیں۔ دوسروں نے شاید اس لیے کہ باتیں صحیح ہوں یا غلط افسانہ برا نہیں! میں دونوں کا شکر گزار ہوں۔موخرالذکر کا خاص طور پر۔"( آشفتہ بیانی میری ص 7)۔
<br />
رشید احمد صدیقی کے بارے میں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ ان کی تحریروں میں علی گڑھ کا عکس کچھ زیادہ ہی دکھتا ہے، یہ اعتراض حقیقت سے بہت دور بھی نہیں ہے، لیکن سچ یہی ہے کہ جو جس ماحول میں رہتا ہے اس پر اس کا عکس چھا جاتا ہے۔
<br />
آپ نے اس آپ بیتی میں اس اعتراض کا جواب بھی دینے کی کوشش کی ہے۔رشید صاحب اس کی شروعات اس شاندار شعر سے کرتے ہیں۔
</p><br />
<p>
جہاں جائیں وہاں تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں
<br />
کوئی محفل ہو تیرا رنگ محفل یاد آتا ہے
</p><br />
<p>
صفحہ نمبر 9 سے لے کر آگے کئی صفحات تک علی گڑھ کی محبت میں دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ آپ بھی دیکھیں۔
<br />
" علی گڑھ کی یہ خدمت بھی ہمیشہ فخر سے یاد رکھی جائے گی کہ اس نے اردو شعرو ادب کو بہت سی نامناسب پابندیوں سے نجات دلا کر زندگی اور زمانے کے نئے تقاضوں سے آشنامربوط و مستحکم کیا"۔(آشفتہ بیانی میری ص10)
<br />
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کو حساب (ریاضی) سے دلچسپی نہیں تھی بلکہ ان کے تمام دوست کے نمبر ملا کر بھی Pass Mark تک نہ پہنچ پاتے تھے، صفحہ نمبر 17 ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ رشید صاحب نے اس کا کیا پرلطف انداز میں ذکر کیاہے۔
<br />
تاہم انہیں ترقی دیگر مضامین میں بہت اچھے ہونے کی وجہ سے دے دی جاتی تھی،یہاں چند باتیں سمجھنے کی ہیں، ہر طالب علم ضروری نہیں کہ ہر سبجیکٹ میں اچھا ہو، والدین اور ادارے کو چاہیے کہ اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔
<br />
صفحہ نمبر 22 پہ اپنے من پسند مشغلہ کا ذکر ان خوبصورت الفاظ میں کرتے ہیں۔" طالب علمی کے زمانے میں میرا دل پسند مشغلہ بالخصوص برسات کے موسم میں جب میدان میں کوئی کھیل نہ کھیلا جاسکتا،اس کتب خانے میں جو دوسری منزل پر واقع تھا، کھڑکی سے متصل آرام کرسی پر دراز ہوکر اردو انگریزی افسانوں اور ناولوں کا مطالعہ تھا۔یہاں سے دریا کی طغیانی نظر آتی تھی۔"
<br />
کتاب کی ورق گردانی میں جیسے جیسے آپ آگے بڑھیں گے ویسے ویسے آپ جونپور شہر کی تاریخ، وہاں کے لوگوں کی شعر و ادب سے دلچسپی، جونپور کی جامع مسجد اور لائبریری وغیرہ کے بارے میں آپ کی معلومات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ آپ 1915ء میں علی گڑھ آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے، آپ نے یہاں کی علمی فضا، قابل اساتذہ اور روحانی ماحول سے استفادہ کر کے اپنے اندر بے پناہ صلاحیتیں پیدا کرلیں، بانئی درسگاہ سرسید کی تعظیم آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا برملا اعتراف بھی کیا، ایک جگہ آپ لکھتے ہیں۔
<br />
"وہ بڑے مخلص،ہمدرد،ذہین،دلیر،عالی حوصلہ، دور اندیش ،ان تھک اور نا قابل تسخیر تھے۔ ان میں جہاں داری اور جہاں بینی دونوں کی جھلک ملتی ہے جو کبھی ہمارے اسلاف کی صفات تھیں!"( آشفتہ بیانی میری ص 39)
<br />
میری نظر کتاب کے ان سطور پر جم کر رہ گئی۔ آپ بھی غور کی نظر ڈالیں۔
</p><br />
<p>
"میرا خیال ہے کہ کلاس کے نیک نہاد اور ذی استعداد طلبہ کا اثر اپنے ساتھیوں پر کلاس ٹیچر ( class teacher) سے زیاد ہ ہوتا ہے۔ ہر جماعت میں شریر اور بے راہ طالب علم بھی ہوتے ہیں جن پر مدرس کا پورا قابو نہیں ہوتا لیکن یہی طالب علم کلاس کے متذکرہ صدر صفات کے طالب علم کا احترام کرتے ہیں۔ وقت آنے پر پڑھائی میں ان سے مدد لیں گے اور کیسے ہی بیزار اور برافروختہ کیوں نہ ہوں ان کا کہنا مان لیں گے۔ اس بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم و تربیت کے معاملے میں ماہرین تعلیم کو چاہیے کہ کسی نہ کسی حد تک ہر کلاس کے اچھے طلبہ سے مدد لینے پر زور دیں۔ طالب علم پر بھروسہ کرنا قرین فطرت ہے۔"
<br />
(آشفتہ بیانی میری ص 29)
</p><br />
<p>
علم صرف کتابوں میں نہیں ہوتا ، راہ چلتے روڈ پر گرے کاغذ میں بھی بعض دفعہ بڑی قیمتی باتیں مل جاتی ہیں۔ رشید احمد صدیقی کی عادت تھی کہ وہ جہاں کوئی ورقہ زمین پہ دیکھتے اسے اٹھا کر دامن علم میں اضافہ کرتے۔ ایسا ہوبھی کیوں نہ آپ خود کہتے ہیں کہ وہ اس زمانے میں تھے جہاں کوئی ایسا گھر نہیں تھا جس میں پچاس،سو کتابیں نہ ہوں، اب تو کتابوں کا رواج اٹھ سا گیا ہے، نیز سوشل میڈیا کے دور میں روڈ پہ گرے کاغذ اور دیواروں پہ لکھے فقرے کی اہمیت لوگوں کی نگاہوں سے جیسے اوجھل ہی ہوگئی ہے۔ "آشفتہ بیانی میری" صرف ایک شخص کی آپ بیتی نہیں بلکہ تاریخ و واقعات بیان کرتی ہوئی ایک مکمل کتاب ہے۔
<br />
علی گڑھ کے بارے میں لکھتے ہیں 1875 میں کالج کی بنیاد پڑی اور 1885ء میں کانگرس کی ابتدا ہوئی، 1906ء میں مسلم لیگ وجود میں آئی، 1914ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی، 1915ء میں محمد علی اور شوکت علی کی نظربندی عمل میں آئی.
<br />
(آشفتہ بیانی میری صفحہ 34)
</p><br />
<p>
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس طرح کی کئی تاریخوں پر دوران مطالعہ آپ کی نگاہ جائے گی۔
<br />
علامہ اقبال سے ملاقات اور ان کے اردو لہجہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔
<br />
"علی گڑھ میں ہندوستان کے دور دراز گوشوں سے آئے ہوئے ساتھیوں کی اردو سننے میں آئی تو کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے اپنے دیار کے اشخاص کے علاوہ دوسرے لوگ غیر متمدن سے تھے۔ ظاہر ہے یہ تاثرات کلیتا احمقانہ تھے، لیکن بہت دنوں بعد جب میں خاصا کم احمق رہ گیا تھا ، سر اقبال مرحوم سے پہلے پہل شرف نیاز حاصل کرنے لاہور گیا ، تو مرحوم کا اردو کا لہجہ اور تلفظ سن کر ایک لمحے کے لیے دم بخود ہوگیا۔ تلفظ کے ناہموار ہونے سے زبان کتنی غیر معتبر معلوم ہونے لگتی ہے".
<br />
( آشفتہ بیانی میری ،ص 53-54)
</p><br />
<p>
جب آپ دین اور سیاست کی بات کرتے ہیں تو کیا کمال کی بات لکھتے ہیں.
<br />
" اقبال کا مشہور مصرع مجھے اکثر یاد آتا ہے
<br />
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی!
<br />
سوچتا ہوں کہ دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے پر جس چنگیزی کا سامنا ہوگا وہ قابل قبول ہے یا دین کو سیاست سے جوڑنے میں جس چنگیزی کا سابقہ ہوگا وہ قابل ترجیح ہے!"
<br />
( آشفتہ بیانی میری ص 60)
</p><br />
<p>
نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے اور ان میں خود اعتمادی کیسے پیدا کی جائے، اس بارے میں کتنی مفکرانہ بات کہی ہے۔
<br />
"گزشتہ زمانے میں نوجوانوں کو ریاضت کرنے اور نتیجے کا انتظار کرنے کی تلقین کی جاتی تھی اور اس پر عمل کیا جاتا تھا۔اس سے ان میں بے صبری اور بے اعتمادی یا غیر ذمے داری کے جذبات پیدا نہیں ہو پاتے تھے۔ نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے کا سب سے آسان اور زود اثر نسخہ یہ ہے کہ ان کو جارحانہ بلکہ مجرمانہ اقدام کی دعوت دی جائے۔ گزشتہ بیس پچیس سال سے ان کو یہی راستہ دکھایا گیا ہے۔اس میں اشتراکیت، مذہبیت،قومیت سب نے حسب توفیق حصہ لیا ہے۔ظاہر ہے جہاں انقلاب کو دعوت دینے اور بغاوت کرنے کا اذن عام ہو وہاں ریاضت اور انتظار کو کون قابل التفات سمجھے گا جہاں محاسبہ ختم ہوا مجادلہ شروع ہو جائے گا!"
<br />
(آشفتہ بیانی میری ص 75)
</p><br />
<p>
مشاعروں کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں۔
<br />
"مشاعروں کی روایت عرب سے ایران ہوتی ہوئی ہندوستان پہنچی۔ اس کو جتنی ترقی اور شہرت یہاں نصیب ہوئی شاید خود عرب و ایران میں نہ ہوئی ہو۔آج کل مشاعروں کا جو رنگ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے اس سے اکثر یہ بات دل میں آتی ہے کہ جس طرح شعر گوئی اور شعر خوانی عرب کے میلے اور بازاروں سے شروع ہو کر ایران اور ہندوستان کے سلاطین اور امرا کے درباروں تک پہنچی اس طرح وہ اب درباروں سے نکل کر بازاروں میں پہنچ گئی ہے۔"
<br />
( آشفتہ بیانی میری ص 96)
</p><br />
<p>
یہ اس زمانے کی بات ہے جب جعلی شاعرات اور گویا شاعروں کا مشاعروں پر قبضہ نہ تھا، سوچتا ہوں رشید صاحب آج ہوتے تو مشاعرے کو کیا نام دیتے جہاں ادب کے نام پہ ادب کی محفل میں ہر طرح کی بے ادبی کی جاتی ہے۔
<br />
رشید صاحب کے یہاں مزاح کا عنصر مضبوط ہے ، اس سے کتاب میں دلچسپی بھی باقی رہتی ہے اور انسان زیر لب مسکراتا ہوا فرحت و مسرت سے بھی شادکام ہوتا ہے۔
<br />
"ایک صاحب نے بتایا کہ "ان کی تحقیقات کی رو سے کالج کا کوئی طالب علم نہ تو شرعی گواہ ہو سکتا ہے نہ کسی الیکشن میں ووٹر (voter)اس لیے کہ جب تک کالج کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور ڈائننگ ہال کا کھانا کھاتا رہے گا نا عاقل ہو سکتا ہے نہ بالغ۔"
<br />
ایک صاحب دائمی قبض میں مبتلا تھے۔ان کے بارے میں تشخیص یہ ہوئی کہ "جب تک ڈائننگ ہال کا کھانا نہ چھوڑیں گے۔قبض ان کو نہ چھوڑے گا۔اس لیے کہ ان کا ہاضمہ اتنا قوی اور ڈائننگ ہال کا کھانا اتنا ضعیف ہوتا ہے کہ کھانے کا فضلہ بھی ان کا جزو بدن ہو جاتا ہے".
<br />
( آشفتہ بیانی میری ص 104- 105)
</p><br />
<p>
یہ سطریں پڑھتے ہوئے یکلخت مدرسہ کا مطعم یاد آجاتا ہے، ابھی اکثر مدرسوں کے ڈائننگ ہال کی حالت یہی ہے۔ مدرسہ کا کوئی طالب گواہ بن سکتا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ہم اہل نظر پر چھوڑتے ہیں !!!
<br />
اپنے ممدوح ڈاکٹر ذاکر حسین کے بارے میں لکھتے ہیں۔
<br />
"علی گڑھ کے وائس چانسلر کی حیثیت سے ذاکر صاحب نے جو خدمات انجام دیں ان کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے انہوں نے ایک درسگاہ کو نہیں بلکہ ایک تہذیب کو تباہ ہونے اور ایک روایت کو رسوا ہونے سے بچا لیا"
<br />
( آشفتہ بیانی میری ص 45) مزید آگے ص 48 پہ لکھتے ہیں"میں ذاکر صاحب کو نہ کوئی ولی سمجھتا ہوں، نہ فرشتہ، نہ امام شریعت،نہ پیر طریقت لیکن اتنا ضرور محسوس کرتا ہوں کہ بحیثیت مجموعی وہ فرزندان علی گڑھ میں بہت اونچے درجے پر فائز ہیں،بہت اونچے درجے پر!"
<br />
اس کتاب کے مطالعے سے جہاں ہمیں جونپور کی مختلف تاریخیں ملتی ہیں،وہیں علی گڑھ کی روایت، وہاں کے طلبہ کا لباس،وضع قطع، وقت کی پابندی،تہذیب اور سینیئر جونیئر کے احترام کی حسین روایت سے بھی آگاہی ہوجاتی ہے۔
<br />
صدیقی صاحب نے لگ بھگ سر سید سے لے کر ذاکر حسین تک ان تمام لوگوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کو علی گڑھ نے یا جنہوں نے علی گڑھ کو کچھ دیا ہے۔
<br />
کتاب کے خاتمہ سے قبل حالی،شبلی اور نذیر احمد کا مختصر مگر جامع ذکر خاتمہ بالخیر کو درشاتا ہے۔
</p><br />
<p>
رشید احمد صدیقی صاحب کی یہ آپ بیتی تعلیم وتعلم سے منسلک لوگوں کو ضرور پڑھنا چاہیے ، اس میں ان کے لیے سیکھنے کی بہت سی چيزيں ہیں۔ زبان و بیان اوربات کہنے کا اسلوب اس پر مستزاد۔
</p>
<div style="text-align: left;">***<br />
شاہنواز صادق تیمی (جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ)
<br />
ای-میل: shahnawasadique[@]gmail.com
<br />
</div>
<br />
<div class="tn-snippet">Rasheed Ahmad Siddiqui's book Aashufta Bayani Meri. A review by: Shahnawaz Sadique<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-28273047844147312062024-01-09T14:48:00.008+05:302024-01-17T00:04:10.229+05:30جمیل شیدائی کی علمی و ادبی خدمات : کتاب تعارف<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg8nTMQ3DilCXcHhUamgOkaYOO8PHD-xzFaq3FLnSt8zXF-kLV-kGfCIhGEZU0x-9ccraeKGlpa2kT8XOi73HMenh7g-KswX8DrDaxvx3mBLh85BVYJJe5-oYPETnO1V66Q8gux-YQRtmxsyxhRLGi9mlW45xj_JEEM7GyQ7ZLJYTzrUFczAff1Q8aouD8/s1600/jameel-shaidai-book.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="jameel-shaidai-book" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg8nTMQ3DilCXcHhUamgOkaYOO8PHD-xzFaq3FLnSt8zXF-kLV-kGfCIhGEZU0x-9ccraeKGlpa2kT8XOi73HMenh7g-KswX8DrDaxvx3mBLh85BVYJJe5-oYPETnO1V66Q8gux-YQRtmxsyxhRLGi9mlW45xj_JEEM7GyQ7ZLJYTzrUFczAff1Q8aouD8/s1600/jameel-shaidai-book.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">تعارف / جائزہ </span><span class="nmd-agency">مکرم نیاز (حیدرآباد) </span></div>
<p>
کتاب: <b>جمیل شیدائی کی علمی و ادبی خدمات</b>
<br />
مصنف: <u>ڈاکٹر محمد شفیع الدین ظفر</u> (نظام آباد، تلنگانہ)
<br />
صفحات: 322
<br />
ناشر: تعمیر پبلی کیشنز (حیدرآباد، تلنگانہ)
</p>
<blockquote>
آن لائن خریداری
<br />
<a href="https://www.amazon.com/dp/9358727640/" target="_blank">Amazon</a>
<br />
<a href="https://www.barnesandnoble.com/w/1144577970" target="_blank">Barnes & Noble</a>
<br />
<a href="https://www.walmart.com/ip/5325717503" target="_blank">Walmart</a>
</blockquote>
<p>
جمیل شیدائی (مرحوم) نہ صرف اردو دنیا کی بلکہ فیس بک کے ایک اردو ادبی گروپ "ادبی محاذ" (ایڈمن: پروفیسر سید فضل اللہ مکرم، صدر شعبۂ اردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد) کی ایک مہذب و محترم علمی و ادبی شخصیت رہی ہے۔ کسی زمانے میں جب یہ ادبی، لسانی و سماجی گروپ بہت فعال و متحرک ہوا کرتا تھا تب اس کی علمیت، فعالیت و شگفتہ آمیزی میں ایک بڑا حصہ جمیل شیدائی کا ہوا کرتا تھا۔ تقریباً اراکین ان کے تبصروں سے اس طرح محظوظ ہوتے اور جڑتے تھے گویا خاص انہی کے لیے کمنٹ کیا گیا ہو۔ ایسی دلچسپ علمی و ادبی شخصیت جب ایک دن (6/ اگست 2015ء) اچانک دنیائے فانی سے وداع ہو گئی تب کئی دنوں تک دل و دماغ اس سانحے کا یقین کرنے سے قاصر رہا۔ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں اعلیٰ درجات سے نوازے۔
<br />
ذاتی طور پر خود میں (مکرم نیاز) نے بھی جمیل شیدائی کی علمی و ادبی گفتگو سے خاصا فیض اٹھایا ہے۔ 2012ء کے اواخر میں جب راقم کے ویب پورٹل "تعمیرنیوز" کا آغاز ہوا تھا، انہوں نے ہی پورٹل کا انگریزی تعارف تحریر کرکے دیا تھا جو آج بھی ویب سائٹ کے (<a href="/p/about-us.html">About Us</a>) صفحہ پر جوں کا توں موجود ہے۔
<br />
نظام آباد (تلنگانہ) سے تعلق رکھنے والے قلمکار و استاد ڈاکٹر شفیع الدین ظفر قابل تحسین و ستائش ہیں کہ انہوں نے ایک اہم کام کا بیڑا اٹھایا اور جمیل شیدائی کے فن و شخصیت پر ایک مبسوط تحقیقی کتاب تصنیف کی۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ ان کی یہ کتاب اپنے اشاعتی ادارے "تعمیر پبلی کیشنز" کے توسط سے قومی و بین الاقوامی سطح پر کتابی شکل میں شائع کی ہے۔ امیزون اور دیگر معروف آن لائن عالمی بک اسٹورس پر آج یہ کتاب وارد ہو گئی ہے۔ اور ہندوستانی قارئین کے لیے مناسب قیمت پر جلد ہی یہ مصنف اور ڈاکٹر اسلم فاروقی کے ذریعے دستیاب ہو جائے گی۔ کتاب کا سرورق مجھ ناچیز نے ڈیزائن کیا ہے۔
</p><br />
<blockquote>
مصنف اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔
</blockquote>
<p>
جمیل شیدائی کی اسکولی تعلیم حیدرآباد میں ہوئی۔ ان کے والد نے انہیں انگریزی و فارسی سے روشناس کرایا تھا لہذا جمیل شیدائی نے طالب علمی کے زمانے میں اردو کو بطور زبان اول اختیار کیا اور انٹرمیڈیٹ میں اردو مضمون میں پوری ریاست آندھرا پردیش میں سرِفہرست رہے تھے۔ بعد میں انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی، انڈسٹریل کیمسٹری میں ڈپلوما کیا اور حیدرآباد (بالانگر) کی ایک مشہور کمیکل فرم میں کوالٹی کنٹرول کیمسٹ کی حیثیت سے وابستہ ہو گئے تھے۔
<br />
جمیل شیدائی کا پسندیدہ مشغلہ مطالعہ تھا اور ہمیشہ اردو اور انگریزی کتابوں کے مطالعے میں منہمک رہا کرتے تھے۔ اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے ساتھ دامن ادب کو وسیع کرنے کا فریضہ بھی انہوں نے نبھایا اور اہل اردو کو متعدد کتابیں اور بیش قیمت مضامین دئیے۔ انگریزی نظموں کا سلیس اور جامع ترجمہ انہیں ایک بہترین مترجم ٹھہراتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو چاہنے والے باپ تھے چنانچہ انہیں اچھی تعلیم اور اچھا ماحول عطا کرنے کی خاطر یاقوت پورہ کے امام باڑے کو خیرباد کہہ کر تارناکہ جیسے پوش مقام پر، جہاں جدید طرز تعلیم کے انگریزی میڈیم مدارس تھے، کرایہ کے گھر میں رہنا گوارا کیا۔ جمیل شیدائی کی اہلیہ ایک تعلیم یافتہ خاتون اور کالج لیکچرار رہی ہیں۔ ان کی چار لڑکیاں ہیں مگر جمیل شیدائی نے اولاد نرینہ سے محرومی کا شکوہ کبھی نہیں کیا۔ ان کی ایک دختر انجم اسپتال منیجمنٹ کی تعلیم کے بعد کناڈا میں مقیم ہیں، دوسری دختر منیزہ نے ایم۔کام کیا اور وہ بھی کناڈا میں قیام پذیر ہیں، تیسری دختر سیما بی۔فارما اور ایم۔ایس کے بعد ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں، چوتھی دختر نازیہ حیدرآباد کی گوگل برانچ میں ملازم ہیں۔
<br />
ملازمت سے سبکدوشی کے بعد جمیل شیدائی فیس بک کے مذکورہ گروپ "ادبی محاذ" میں شامل تو ہوئے مگر جب ان کی صحت کے مسائل پیدا ہوئے تو انہوں نے گروپ ایڈمن ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی آخری پوسٹ میں لکھا تھا:
</p>
<blockquote>
"محترم ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم صاحب، السلام علیکم۔ میں آپ کا ممنون ہوں کہ فیس بک سے آپ ہی نے مجھے متعارف کرایا تھا جس کی وجہ سے کئی مکرم و محترم شخصیتوں سے نیاز کا شرف حاصل رہا اور اس باہمی ربط سے مجھے اپنی معلومات میں اضافے کا زریں موقع بھی ملا۔ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ 'ادبی محاذ' اور 'میری بیاض' کے سارے ہی اراکین مہذب، شائستہ، قابل اور خوش مزاج ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں مصروفیت کی بنا پر اپنی حاضری سے معذور ہوں، اس لیے مجھے ان دونوں گروپس سے خارج سمجھا جائے۔"
</blockquote>
<p>
جمیل شیدائی کا ایک شعر ہے:
<br />
ایک ہی بار سہی بات کا پہلو نکلے
<br />
اجنبی تجھ سے ملاقات کا پہلو نکلے
</p><br />
<blockquote>
اور ان کی ایک مشہور نظم "سنو" یوں ہے:
</blockquote>
<p>
سنو!
<br />
لاشوں کا انبار لگائے
<br />
تم کیا ایسا سوچ رہے ہو
<br />
خونِ ناحق چھپ جائے گا
<br />
تم کو یہ معلوم نہیں ہے
<br />
لاشوں کے انبار تلے سے
<br />
خون ناحق بہہ نکلے گا
<br />
اور پھر ایک انبار لگے گا
<br />
جس میں تمہاری لاش بھی ہوگی!
</p><br />
<blockquote>
متذکرہ کتاب کے پس ورق کا متن ۔۔۔۔۔۔
</blockquote>
<p>
جمیل شیدائی (پیدائش: 1943ء ، وفات: 6/اگست 2015ء)
<br />
شہر حیدرآباد کی مادر علمیہ جامعہ عثمانیہ کے ایک ایسے فرزند رہے ہیں جو اپنی ذات میں ایک انجمن ، ادیب، شاعر، ناقد، صحافی، مترجم، ڈراما نگار اور انشائیہ نگار تھے۔ بنیادی طور پر وہ سائنس کے گرائجویٹ تھے۔ چونکہ ان کے والد کے زیرسایہ ان کی ادبی تربیت ہوئی تھی لہذا ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہرچند کہ شاعری سے ہوا لیکن مقبولیت انہیں اپنے ڈراموں سے حاصل ہوئی۔ ان کے ان گنت ڈرامے آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے نشر ہوئے اور پسند کیے گئے۔ "لبِ گفتار" اور "غالب خستہ کے بغیر" جمیل شیدائی کے ڈراموں کے مجموعے ہیں جنہیں اہل ادب نے سراہا ہے۔
<br />
جمیل شیدائی کو ترجمہ نگاری پر عبور تھا انہوں نے انگریزی ادب کے فن پاروں کو اردو میں اس انداز میں پیش کیا کہ ان کے تراجم تخلیق لگتے ہیں۔ جمیل شیدائی نے صحافتی خدمات بھی انجام دیں اور اپنے دوست پروفیسر رحمت یوسف زئی کے کہنے پر ڈاکٹر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی کے صحافتی ڈپلوما کورس کے لیے کتابیں ترتیب دیں۔ جمیل شیدائی کے فکر و فن پر ڈاکٹر مجید بیدار، ڈاکٹر قطب سرشار اور دیگر معاصرین نے مضامین لکھے ان کی یاد میں مجلہ 'عدسہ' کی جانب سے خاص نمبر شائع کیا گیا۔
<br />
نظام آباد (تلنگانہ) سے تعلق رکھنے والے قلمکار و استاد ڈاکٹر محمد شفیع الدین ظفر کی اس تحقیقی کتاب میں جمیل شیدائی کے حالاتِ زندگی اور ان کی علمی و ادبی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
</p>
<div style="text-align:left;">
***<br />
سید مکرم نیاز<br />
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔<br />
<span class="engtxt" dir="ltr">16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.<br />
taemeernews[@]gmail.com</span>
</div><br />
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjujzT3iqwB76YJiagtcKwmKi6-5N_cfs8o_I0VKctdvFspZeSnWZ2TTCZHhajVIEpAhPujURbmQcPWoQ5jqsK2lZXrO5Cit5gHfTytqjIWjEwh0RnVDtTd-vLInTxrBhMJbig7zUI8fEzj/s1600/syed-mukarram-niyaz.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img alt="syed mukarram niyaz" border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjujzT3iqwB76YJiagtcKwmKi6-5N_cfs8o_I0VKctdvFspZeSnWZ2TTCZHhajVIEpAhPujURbmQcPWoQ5jqsK2lZXrO5Cit5gHfTytqjIWjEwh0RnVDtTd-vLInTxrBhMJbig7zUI8fEzj/s1600/syed-mukarram-niyaz.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">Syed Mukarram Niyaz<br />
سید مکرم نیاز</td></tr>
</tbody></table>
<div class="tn-snippet">An introduction of book "Jameel Shaidai ki Elmi wo Adabi Khidmaat", a research work by Dr Mohammed Shafiuddin Zafar. Reviewer: Mukarram Niyaz<br />
</div>
TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-7402758289229666022024-01-08T15:55:00.001+05:302024-01-08T15:55:41.654+05:30تبصرہ کتاب - راستے خاموش ہیں از مکرم نیاز - مبصر زیبا خان
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgIiNZ22NIPnpmsEQqn7TIEzoTsBVTUCGeHdO67fj2VDiltNXUs_WrIzqYNt05EFAoCrZVQBQLz26dwYJLMX3T_7VRQo99O3pYoBgrK3z_g2HyVgLsoDPVGjEbNPXFS-xNRd37mtQZpO0tGuLIFl6yncRSOD5wwYPPMWsQ_kFg_3-RD7Uc6wy8Zx6-D/s1600/raaste-khamosh-hain-short-stories-by-mukarram-niyaz.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="raaste-khamosh-hain-short-stories-by-mukarram-niyaz" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgIiNZ22NIPnpmsEQqn7TIEzoTsBVTUCGeHdO67fj2VDiltNXUs_WrIzqYNt05EFAoCrZVQBQLz26dwYJLMX3T_7VRQo99O3pYoBgrK3z_g2HyVgLsoDPVGjEbNPXFS-xNRd37mtQZpO0tGuLIFl6yncRSOD5wwYPPMWsQ_kFg_3-RD7Uc6wy8Zx6-D/s1600/raaste-khamosh-hain-short-stories-by-mukarram-niyaz.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">تبصرہ / تجزیہ </span><span class="nmd-agency">زیبا خان (گوپامؤ ہردوئی، اترپردیش) </span></div>
<p>
دنیا جہان کے موضوعات سمیٹ کر انسان کو فرحت و انبساط کا سامان مہیا کرنے کی جو کوشش ادب میں جاری ہے اس میں فکشن نگاری کا عمل دخل دیگر اصناف سخن سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فکشن میں یکے بعد دیگرے نئے نئے تجربات ہوتے رہے ہیں۔ کبھی کرداروں کے بغیر کہانیاں لکھی گئیں تو کبھی تجریدی اور تمثیلی پیرائے بیانیہ کا استمعال ہو ہوا، تو کبھی تخلیقی بیانیے کے اظہار پر زور دیا گیا ۔ فکشن کی اس صدی میں یعنی اکیسویں صدی میں آج جو لکھا جا رہا ہے اس میں ' وجودیت' پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے ، انسان اجتماعی معاملات سے نکل کر اب انفرادی سطح پر اپنی درونی کشمکش پر بات کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی ذات کی تمام جکڑ بندیوں سے آزادی کا متلاشی ہے ۔ ادب کے اس حالیہ بدلتے ہوئے منظر نامے پر فکشن نے جو کروٹ بدلی ہے اور اس کا اثر جن چند فکشن نگاروں کے یہاں نظر آیا ان میں مکرم نیاز کا نام بھی شامل ہے۔ مکرم نیاز کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، وہ سالہا سال سے اردو ادب کی جس خاموشی سے خدمت کر رہے ہیں وہ نہ صرف لائق تحسین ہے بلکہ قابل صد افتخار بھی ہے۔
</p><br />
<p>
خاموش راستوں کے اس مسافر کا افسانوی مجموعہ " راستے خاموش ہیں" 2022ء میں تعمیر پبلیکیشنز حیدرآباد ( ناشر : فرح سعدیہ) سے شائع ہوکر منظر عام پر آیا جس نے ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل کی۔ کتاب کا سرورق انتہائی دیدہ زیب ہے ، جسے دیکھ کر ہی گمان گزرتا ہے کہ ہم فکشن کی دنیا میں قدم رکھنے والے ہیں ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سرورق کی ڈیزائن خود مکرم نیاز صاحب نے کی، ایک ایسا فکشن نگار جسے لفظوں کے سحر سے قاری کو باندھے رکھنا آتا ہو وہ سرورق کی فکشنی ڈیزائن سے ہی قاری کو اپنے سحر میں لے لے ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
</p><br />
<p>
مجموعے کی فہرست میں مکرم نیاز کے پیش لفظ ' جو کہا نہیں وہ سنا کرو' کے ساتھ علامہ اعجاز فرخ، محمد حمید شاہد ، نعیم بیگ، عشرت معین سیما، ڈاکٹر ارشد عبدالحمید کے افسانوی مجموعے پہ مشتمل تاثرات، قارئین کے تبصرے اور تیرہ افسانے شامل ہیں ۔ جو کچھ اس طرح ہیں " تیری تلاش میں، آگہی، خلیج، راستے خاموش ہیں، سوکھی باؤلی، شکست ناتمام، زمین، گلاب کانٹے اور کونپل، اداس رات کا چاند، بے حس، کرن، درد لادوا، ایک وائلن محبت کنارے "۔
<br />
ان تمام افسانوں میں دنیا کی بے ثباتیوں ، انسانی قدریں کھوتے ہوئے رشتوں، جذبات انسانی کو برانگیختہ کر دینے والی حقیقتوں ، تغیر پذیر زمانے میں نسل نو کی پرورش کی نازک صورتحال ، روایات سے امکانات کی طرف رجوع جیسے موضوعات کو مکرم نیاز نے اپنے مخصوص انداز میں نہ صرف برتا ہے بلکہ یہ تمام موضوعات ان کے افسانوں میں اس طرح سمائے ہوئے ہیں کہ افسانےاختتام پر پہنچتے پہنچتے قاری کے ذہن و دل پر گہری ضرب چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک ایسی ضرب جو رہ رہ کر کچوکے لگاتی ہے کہ آیا راوی ہی قاری ہے؟ یا قاری ہی راوی کے کردار میں اتر آیا ہے؟
</p><br />
<p>
یوں تو مجموعے کے کئی افسانے ہی اس کی بہترین مثال ہیں لیکن افسانہ ' تیری تلاش میں' قاری اور راوی کے درمیان کا یہ فرق ختم کرتا ہوا ایک بہترین افسانہ ہے۔ افسانے میں دنیا کی بے ثباتیوں کا ذکر راوی کی زبانی بیان ہوتا ہے جہاں ہر انسانی رشتہ محض دکھاوے کا ہے یہاں تک کہ انسان کا خود سے رشتہ بھی دکھاوا ہی ہے، انسان ہمیشہ خود غرضی میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ دوسروں سے خالص اور بے غرض محبت کا متلاشی ہے لیکن خود اس کا کتنا پابند ہے یہ افسانے کے اختتام پر معلوم ہوتا ہے جب وہ خالص محبت کی تلاش اپنے تمام خونی رشتوں میں کرتا ہے اور اسے وہ خالص محبت کہیں نہیں ملتی۔ لیکن جب اسے اپنے چھوٹے سے بچے کی آنکھوں میں وہ خالص اور بے غرض محبت کی چمک محسوس ہوتی ہے تو اگلے ہی پل اسے اپنا عکس بھی اس کی آنکھوں میں نظر آتا ہے جو اپنی تربیت اور چاہت کا اجر اس سے وصولنے کا تمنائی ہے۔ اور یہ انسانی فطرت کا وہ وصف ہے جو ہر انسان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
</p><br />
<p>
مکرم نیاز نے اپنے پیش لفظ میں فکشن کو مقصدیت کا حامل قرار دیتے ہوئے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ ' افسانہ نام ہی با مقصد تخلیق کا ہے'، اور اچھی بات یہ ہے کہ مکرم نیاز کے اس افسانوی مجموعے میں شامل تمام افسانے ان کے اس قول کی وضاحت بھی کر رہے ہیں۔ افسانہ زمین بھی ایک ایسی ہی با مقصد تخلیق ہے جس میں افسانہ نگار نے واردات قلبی اور ذہنی افکار کے ساتھ عام قاری کے فہم و ادراک کو سامنے رکھ کر انسانی رشتوں کی زمینی حقیقت سے روبرو کروایا ہے۔انسان جب بے روزگار ہو، اس کی تعلیمی صلاحیتوں کی کوئی قیمت نہ ہو ، ڈگریاں محض چند سکوں کے عوض حاصل ہونے لگیں اور ہر طرف سے ٹھوکریں کھا کھا کر مایوسی کے غار میں پناہ گزیں ہو جائے تو اس کے مزاج میں کٹھور پن آ جاتا ہے ۔ اس کی سوچ ملحدانہ ہو جاتی ہے، خدا اور خدا کے کارناموں سے بھروسہ اٹھ جاتا ہے اپنے پرائے سب زہر لگنے لگتے ہیں اور وہ سب سے دور بھاگنے کی کوشش کرنے لگتا ہے، پیسے کمانے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لئے اپنا ملک اپنی زمین اپنے ماں باپ چھوڑ دینے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے جب اس کے اپنے بچے بڑے ہوکر اسی طرح کی باغیانہ سرگرمیاں دکھاتے ہیں تب وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ، " ماں کی کوکھ میں نو ماہ نمو پا لینے کے بعد ایک علیحدہ وجود بن کر جب ہم الگ ہوتے ہیں تو بعد میں ہم کیوں یہ امر فراموش کر دیتے ہیں کہ ہمارا وجود خود ایک دوسرے وجود کی دین ہے۔ زمین اپنا حق طلب کرے یا نہ کرے لیکن اس کی ادائیگی تو بہرحال ہمارا فرض بنتا ہے۔" ( افسانہ ' زمین ' )
<br />
مکرم نیاز کی تخلیقی استعداد کی داد دینی پڑتی ہے جب افسانوں میں کئی جگہ اسی طرح کے جملے آتے ہیں۔ جو بالواسطہ یا بلاواسطہ افطرت انسانی کی اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں جسے اکثر اوقات انسان فراموشی کی دبیز چادروں تلے دفن کر دیتا ہے۔
<br />
" اور شہر ذات کے آئینے میں جھانکنے کی کوئی ہمت نہیں کرتا کہ کہیں خود بھی۔۔۔۔" ( افسانہ 'آگہی' )
<br />
" آدمی کا المیہ ہے کہ وہ اپنے باپ کا خود انتخاب نہیں کر سکتا۔ ورنہ میں ۔۔۔۔"( افسانہ ' خلیج' )
<br />
انسان کہاں ہے ؟ کہیں بھی تو نہیں ۔۔۔۔!( افسانہ ' زمین' )
</p><br />
<p>
یوں تو ادھورے چھوڑے گئے جملے اکثر اوقات ذہن کو کھٹکتے رہتے ہیں لیکن ان افسانوں میں مکرم نیاز کے ادھورے چھوڑے گئے جملے پورا افسانہ بنتے نظر آتے ہیں اور افسانہ نگار کی معراج اسی بات پر ہے کہ اس کے ادھورے چھوڑے گئے جملے قاری کے ذہن پر پوری طرح واضح ہوں یا نہ ہوں کم از کم قاری ان جملوں کو اپنی قوت استعداد کو بروئے کار لاکر ایک حد تک سمجھ سکے اور پورا کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہے۔
</p><br />
<p>
عورت کے بغیر کوئی کہانی مکمل نہیں ہوتی اور مکرم نیاز صاحب نے تو انتساب ہی ان تین خواتین کے نام کر رکھا ہے جن سے زندگی کے مختلف ادوار میں فیض حاصل کیا ، والدہ مرحومہ سیدہ عارفہ بیگم ، بڑی پھوپھو مرحومہ سیدہ حمیرا بانو اور رفیقہ حیات سیدہ فرح سعدیہ ۔ مکرم نیاز کے افسانوں کی عورتیں بے نام ہوکر بھی ہمیں یاد رہ جاتی ہیں ۔ چاہے وہ افسانہ خلیج کی طوائف لڑکی ہو یا سوکھی باؤلی کی دادی جان یا شکست ناتمام کی رجو یا افسانہ زمین کی 'ماں'، یا پھر اداس رات کا چاند کی لڑکی، یہ تمام عورتیں کسی نہ کسی روپ میں نہ صرف افسانوں میں موجود ہیں بلکہ ان کے بغیر یہ افسانے ادھورے ہیں۔
<br />
عورت ذات کی تکمیل سے لے کر اس کی تقدیر تک زمانے کی دقیانوسی سوچ کس طرح ان پر حاوی رہتی ہے یا پھر ماں کے روپ میں عورت کی قربانیاں جنہیں اکثر ہم فراموش کر دیتے ہیں مکرم نیاز کے اسلوبِ نگارش سے مزین ہوکر جب ہمارے ذہن کے پردوں سے ٹکراتی ہیں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ عورت کو اس طرح بھی مثبت انداز میں افسانوں کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
</p><br />
<p>
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ " راستے خاموش ہیں" کے افسانے صرف افسانے ہی نہیں بلکہ زمانے کی حقیقتوں کی جیتی جاگتی تصاویریں ہیں جو ایک ایک کر آنکھوں کے سامنے ریل بن کر چلتی رہتی ہیں اور قاری ان میں اپنی زندگی کے نشیب و فراز دیکھتا رہتا ہے۔
</p>
<div style="text-align: left;">***<br />
زیبا خان (گوپامؤ ہردوئی، اترپردیش)
<br />
ای-میل: kzeba1674[@]gmail.com
<br />
</div><br />
<div class="tn-snippet">A review on Raaste khamosh hain, a collection of short stories by Mukarram Niyaz. Reviewer: Zeba Khan<br />
</div>
TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-10043072228165287722024-01-01T22:03:00.005+05:302024-01-01T23:37:46.205+05:30سال 2023 کی بیس یادگار فلمیں<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiXYA7IcWzTRHiy3GQvQlZgNJ8VWf9DaVPoeV2SZ-YBPr0-fgpUgnQzPY0figFMqj0DAIO0orNzPdicCEM_MM88_O5RDhcRaglDECsrMok2Ho5sXqaRZ88SltYDNGIZ5wncm_cFZbSSOtYXiU0TxLY_Mmpwh45cQi_EzIZcvZgOSL2sf3-j3BqnzET_Lxo/s1280/2023-movies.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="2023 top movies" border="0" width="600" data-original-height="720" data-original-width="1280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiXYA7IcWzTRHiy3GQvQlZgNJ8VWf9DaVPoeV2SZ-YBPr0-fgpUgnQzPY0figFMqj0DAIO0orNzPdicCEM_MM88_O5RDhcRaglDECsrMok2Ho5sXqaRZ88SltYDNGIZ5wncm_cFZbSSOtYXiU0TxLY_Mmpwh45cQi_EzIZcvZgOSL2sf3-j3BqnzET_Lxo/s600/2023-movies.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">فلمی جائزہ </span><span class="nmd-agency">مکرم نیاز </span></div>
<p>
نئے سال کی آمد اور سوشل میڈیا کے ہندوستانی اردو منظرنامے پر کیا پڑھا، کیا لکھا، کیا سوچا ۔۔۔ جیسا علمی، ادبی، مذہبی، سماجی تبادلۂ خیال تو جاری ہے مگر "تفریحی" موضوع کی مناسبت سے کوئی آگے نہیں آیا تو اردو زبان کی موضوعاتی ترویج کی خاطر یہ فریضہ نبھانا مکرم نیاز کے حصے میں آیا ہے۔ جو قارئین فلمی تفریح کے قائل نہیں یا اسے وقت کا زیاں سمجھتے ہیں وہ ازراہ کرم اس تحریر کو نظرانداز فرمائیں۔
</p><br />
<p>
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ گذشتہ سال 2023ء فلموں کے حوالے سے کیسا رہا یا کیسا گزرا؟ ذیل میں گذشتہ برس کی ان بیس (20) فلموں کا مختصر تذکرہ کیا جا رہا ہے، جو سینما ہال میں دیکھی گئیں۔ ان فلموں نے کسی نہ کسی حوالے سے تفریحی فلمی دنیا میں اپنی مثبت/منفی شناخت بنائی اور ناظرین کی داد یا بےداد سمیٹی۔ اس فہرست میں تقریباً تمام فلمیں ہندی زبان کی ہیں سوائے دو انگریزی، ایک تلگو اور ایک تمل کے۔ اور ان بیس میں سے شاید صرف دو/چار فلمیں ہی ایسی ہیں جنہیں کسی قدر سنجیدہ یا 'کلاس' فلمیں قرار دیا جا سکے ورنہ باقی تمام کو عوامی طبقے کی 'ماس' فلمیں کہا جا سکتا ہے۔ چونکہ فلمی جائزے میں عموماً 'سہ ماہی' حوالے سے تقسیم برتی جاتی ہے لہذا اس تحریر میں بھی سال کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سال کی آخری سہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر) میں کچھ زیادہ فلموں نے
ہنگامہ مچایا اور بزنس کیا ہے لہذا آخری سہ ماہی تذکرے میں فلموں کی تعداد زیادہ ہے۔
</p><br />
<blockquote>
پہلی سہ ماہی (جنوری تا مارچ) (فلمیں: 4)
</blockquote>
<p>
-1-
<br />
پٹھان (25/جنوری) - Pathaan
<br />
اپنی فلم "زیرو" (2018) کے تقریباً چار سال بعد کنگ خان شاہ رخ خان کی یہ فلم اپنی ریلیز سے قبل ہی کئی تنازعات میں گرفتار تو ہوئی مگر جن سے اس فلم نے فائدہ بھی اٹھایا اور یہ باکس آفس پر تقریباً ہزار کروڑ کی کمائی کے ساتھ سال 2023ء کی دوسری زیادہ کمائی کرنے والی فلم قرار پائی۔ حالانکہ فلم میں شاہ رخ خان سے زیادہ بہتر اداکاری کا کریڈٹ ویلن کا رول نبھانے والے جان ابراہام کو گیا۔ مجموعی طور سے فلم کی کہانی اوسط درجہ کی رہی۔
</p><br />
<p>
-2-
<br />
سیلفی (24/فروری) - Selfiee
<br />
فلم تھی تو اکشے کمار کے مرکزی کردار پر مگر ان کے مساوی سطح پر حیران کن اداکاری کا کرشمہ دکھانے والے عمران ہاشمی نے اپنے منفرد مثبت رول کے ذریعے ناظرین کا دل جیتا۔ یہ فلم عمران ہاشمی کی جاندار اداکاری اور اکشے کمار کی طرف سے ایک فلم اسٹار کی مجبوریوں کو اجاگر کرنے والی جذباتی کردار نگاری کے باعث یاد رکھی جا سکتی ہے۔
</p><br />
<p>
-3-
<br />
تو جھوٹی میں مکار (8/مارچ) - Tu Jhoothi Main Makkaar
<br />
فلم کا موضوع جوائنٹ فیملی کے روایتی مسائل اور چپقلشوں کے درمیان رنبیر اور شردھا کپور کی لو اسٹوری پر مبنی تھا۔ ڈمپل کپاڈیہ نے ہیرو رنبیر کی ماں کا کردار دلچسپ طریقے سے ادا کیا۔ نئے زمانے کی ایک اچھی کہانی ہونے کے باوجود ہدایت کار لَو رنجن اس فلم کو صحیح طریقے سے پیش کرنے سے قاصر رہے۔
</p><br />
<p>
-4-
<br />
ژویگاٹو (17/مارچ) - Zwigato
<br />
آرٹ فلموں کی مشہور ہدایت کار نندیتا داس سے بھلا کون واقف نہیں۔ فوڈ ڈیلیوری بوائے کی روزمرہ کی زندگی سے جڑے مسائل کی سیدھی سادی عام سی کہانی کو نندیتا داس نے جس ہنرمندی سے فلمایا، بطور خاص ریاست اوڈیشہ کے علاقوں کی دیدہ زیب منظرکشی، وہ لاجواب اور قابل داد ہے۔ کپل شرما جیسے مشہور ٹی۔وی اینکر نے اپنی اداکاری سے جہاں ناظرین سے خوب داد بٹوری وہیں ان کی بیوی کے جذباتی کردار میں شاہانہ گوسوامی نے بھی متاثر کیا ہے۔ اسے 'کلاس' فلم کے زمرے میں رکھا جانا چاہیے۔
</p><br />
<p>
-دیگر-
<br />
(مشن مجنوں، شہزادہ، مسز چٹرجی ورسز ناروے، بھیڑ، بھولا)
<br />
سدھارتھ ملہوترہ کی 'مشن مجنوں' کا جس قدر مذاق پڑوسی ملک پاکستان کے فلم بینوں نے اڑایا، وہ بالکل بجا تھا۔ اس موضوع کی فلمیں بنانے سے قبل پتا نہیں مناسب ریسرچ ورک کیوں نہیں کیا جاتا؟ ایسے ناقص ریسرچ کی ایک اور نادر مثال "ٹائیگر 3" بھی ہے۔ نوجوان دلوں کی دھڑکن کارتک آریان سال 2023ء میں ایک تلگو ریمیک فلم "شہزادہ" کے ذریعے وارد ہوئے مگر نہ تو فلم کی کہانی متاثر کر پائی اور نہ ہیرو کی اداکاری۔ اجے دیوگن کی فلم "بھولا" کے ایکشن کا خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا مگر فلم بین متاثر نہیں ہوئے۔ راج کمار راؤ کی "بھیڑ" کووڈ زمانے میں عوام کی نقل مکانی کے مسائل کو اجاگر کرنے والی ایک سنجدہ فلم تھی اور جس کی تعریف بےشمار فلم ناقدین نے کی بھی مگر فلم عوام کے درمیان چل نہ سکی۔ اسی طرح رانی مکھرجی کی یادگار رول والی فلم "مسز چٹرجی ورسز ناروے" کا بھی حشر ہوا۔
</p><br />
<blockquote>
دوسری سہ ماہی (اپریل تا جون) (فلمیں: 3)
</blockquote>
<p>
-5-
<br />
کسی کا بھائی کسی کی جان (21/اپریل) - Kisi Ka Bhai Kisi Ki Jaan
<br />
فلم کی خصوصیت تلگو فلموں کے میگا اسٹار وینکٹیش کی برسوں بعد کسی ہندی فلم میں دوبارہ آمد تھی۔ کمزور کہانی کے باوجود سلمان خان اپنی فلم کو فلاپ ہونے سے بچا لے گئے۔ وینکٹیش کے ساتھ پوجا ہیگڑے کی دلچسپ اداکاری اور جنوبی ہند کے روایتی قدامت پسندانہ ماحول کی عکاسی فلم کا قابل ذکر پہلو رہے۔
</p><br />
<p>
-6-
<br />
ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے (2/جون) - Zara Hatke Zara Bachke
<br />
موجودہ دور کی نسل میں اچھی اداکاری کے حوالے سے جہاں ایوشمان کھرانہ اور راج کمار راؤ مشہور ہیں وہیں وکی کوشل کا نام بھی اسی لیول پر لیا جا سکتا ہے۔ جوائنٹ فیملی کے درمیان زندگی گزارنے والے اوسط سے کمتر معاشی سطح کے کفایت شعار نوجوان کا رول بےشک وکی کوشل نے بہترین طریقہ سے ادا کیا ہے۔ اپنا خود کا گھر خریدنے کی خواہش رکھنے والی بیوی کا کردار ادا کرتے ہوئے وکی کوشل کا ساتھ سارہ علی خان نے بھی خوب نبھایا۔
</p><br />
<p>
-7-
<br />
انڈیانا جونز 5 (30/جون) - Indiana Jones and the Dial of Destiny
<br />
ہالی ووڈ کے لیجنڈ اداکار ہیریسن فورڈ کو بھلا کون نہیں جانتا۔ ویسے بھی 'انڈیانا جونز' فرنچائز کی پہلی فلم "رائیڈرز آف دی لاسٹ آرک (1981)" کے ذریعے ہی فورڈ نے فلمی دنیا میں اپنی منفرد شناخت قائم کی تھی۔ انچالیس (39) سال کی عمر میں انڈیانا جونز سیریز کی پہلی فلم کی ریلیز کے 42 سال بعد 81 سال کی عمر میں بھی فورڈ کو اس سیریز کی پانچویں اور آخری فلم "ڈائل آف ڈیسٹنی" میں دیکھنا خوشگوار تجربہ رہا۔ آثار قدیمہ کی مہمانی تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے فلمی شائقین کو انڈیانا جونز سیریز کی تمام فلمیں لازمی دیکھنا چاہیے۔
</p><br />
<p>
-دیگر-
<br />
(افواہ، دی کیرالہ اسٹوری، ادی پرش، ستیہ پریم کی کتھا)
<br />
رامائن کے موضوع پر پین انڈیا اسٹار پربھاس کی فلم "ادی پرش" افسوس کہ بری طرح فلاپ رہی، حتی کہ راون کے کردار میں سیف علی خان کا بھی ازحد مذاق اڑایا گیا۔ 'دی کیرالہ اسٹوری' کو سیاسی اور سماجی سطح پر ایک مخصوص ذہنیت کے گروہ نے زہریلے پروپگنڈے کے سہارے باکس آفس کامیابی دلائی۔ جبکہ انوبھو سنہا جیسے مایہ ناز ہدایت کار کی زندہ حقائق پر مبنی "افواہ" ایک بہترین موضوعاتی فلم ہونے اور نواز الدین صدیقی کی یادگار اداکاری کے باوجود درکار کامیابی حاصل کرنے سے محروم رہی۔ کارتک آریان اور کائرا اڈوانی کی رومانٹک ڈرامہ فلم "ستیہ پریم کی کتھا" بھی کوئی خاص پہچان بنا نہیں پائی۔
</p><br />
<blockquote>
تیسری سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) (فلمیں: 4)
</blockquote>
<p>
-8-
<br />
مشن امپاسیبل 7 (14/جولائی) - Mission Impossible 7
<br />
ہالی ووڈ کے کنگ ٹام کروز کی مشن امپاسیبل فرنچائز کی پہلی فلم مئی 1996ء میں ریلیز ہوئی تھی اور 27 سال بعد اس سیریز کی ساتویں فلم (ڈیڈ ریکننگ: پارٹ ون) کا انتظار اس لیے بھی فلم بینوں نے شدت کے ساتھ کیا کہ ٹام کروز نے اس میں اپنی موٹربائک کے ساتھ ایک پہاڑی سے گھاٹیوں کے بیچ چھلانگ لگانے کا ہوشربا منظر فلمایا تھا جو سوشل میڈیا پر بےپناہ وائرل ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ فلم کے ٹرین حادثے کا منظر، ہندی فلم "پٹھان" میں بھی نقل کیا گیا۔ فلم گو ٹھیک ٹھاک ایکشن تھرلر فلم تھی مگر باکس آفس پر توقعات کے مطابق کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سیریز کی آٹھویں فلم 2025ء میں ریلیز ہوگی۔
</p><br />
<p>
-9-
<br />
راکی اور رانی کی پریم کہانی (28/جولائی) - Rocky Aur Rani Kii Prem Kahaani
<br />
رنویر سنگھ کی سال 2023ء میں ریلیز ہونے والی یہ واحد فلم تھی جس نے کمرشیل کامیابی حاصل کرتے ہوئے سال کی ساتویں زیادہ کمائی کرنے والی فلم کا اعزاز اپنے نام کیا۔ فلم کی خصوصیت دھرمیندر، جیا بہادری اور شبانہ اعظمی کے دلچسپ اور یادگار کردار اور چند پرانے گانوں کی دھنوں کی بازیافت تھی۔ مختلف طبقوں کے بیچ ہم آہنگی کا سماجی پیغام فلم کے ذریعے موثر طریقے سے پیش بھی کیا گیا۔
</p><br />
<p>
-10-
<br />
غدر 2 (11/اگست) - Gadar 2
<br />
سنی دیول اور امیشا پٹیل کی معرکۃ الآرا فلم "غدر : ایک پریم کتھا (2001)" کے بائیس سال بعد جب اس کا دوسرا حصہ "غدر:2" کے نام سے ریلیز ہوا تو اس نے پہلی فلم کی طرح کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور باکس آفس پر سال 2023ء کی چوتھی کامیاب فلم کا تمغہ اپنے نام حاصل کیا۔ فلم میں دونوں پڑوسی ممالک کے فلم بینوں کو بعض جذباتی مناظر کے سہارے مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلی فلم میں امیشا پٹیل اور امریش پوری نے بھی اپنے مضبوط کردار نگاری سے متاثر کیا تھا مگر اس دوسرے حصے میں فلم کا پورا بوجھ سنی دیول کے کاندھے پر دھرا رہا۔
</p><br />
<p>
-11-
<br />
جوان (7/ستمبر) - Jawan
<br />
شاہ رخ خان کی سال 2023ء میں ریلیز ہونے والی یہ دوسری فلم باکس آفس پر گیارہ سو کروڑ سے زائد کی کمائی کے ساتھ اس سال کی کامیاب ترین فلم قرار پائی ہے۔ کمزور کہانی اور غیرعقلی واقعات کے باوجود شاہ رخ کے خان کے ڈبل رول اور موجودہ دور کے سلگتے سماجی موضوعات کو اجاگر کرتے ہوئے ممکنہ حل بتانے کی کوشش کو عام و خاص فلم بین طبقے کے علاوہ ناقدین نے بھی سراہا ہے۔
</p><br />
<p>
-دیگر-
<br />
(ڈریم گرل 2، بوال، او مائی گاڈ 2، گھومر، ہڈی، فُکرے 3)
<br />
ایوشمان کھرانہ نے "ڈریم گرل" کے پہلے حصے میں اپنی منفرد اداکاری کا جادو جگایا تھا جس میں انوکپور نے بھی ہیرو کے باپ کا کردار نبھاتے ہوئے اپنی جاندار موجودگی کا احساس دلایا مگر ایسا جادو "ڈریم گرل 2" میں نظر نہ آ سکا۔ اسی طرح "فُکرے" کے پہلے دو حصوں میں کامیڈی پُرلطف تھی جو تیسرے حصے "فُکرے 3" میں مفقود رہی۔ "او مائی گاڈ" کے پہلے حصے نے جتنی ستائش وصول کی تھی وہ "او مائی گاڈ 2" وصول نہ کر پائی۔ فلم ناقدین نے ٹرانس جینڈر کے رول میں نواز الدین صدیقی کی "ہڈی" والی اداکاری کی خاصی تحسین کی، اسی طرح "گھومر" جیسی انسپائریشنل مووی میں ابھیشک بچن اور سیامی کھیر کی اداکاری کو سراہا گیا، ورون دھون اور جھانوی کپور اچھی اداکاری کے باوجود کمزور پلاٹ والی فلم "بوال" کو ناکام ہونے سے بچا نہیں پائے۔
</p><br />
<blockquote>
چوتھی سہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر) (فلمیں: 9)
</blockquote>
<p>
-12-
<br />
مشن رانی گنج (6/اکتوبر) - Mission Raniganj
<br />
غالباً گزرے برس اکشے کمار نے "سیلفی" کے بعد یہ دوسری ایسی فلم دی ہے جس میں ان کی سنجیدہ اداکاری قابلِ تعریف ہے۔ کان کنی کے ایک حقیقی واقعے (رانی گنج کول فیلڈ، مغربی بنگال) پر بنائی گئی یہ فلم اکشے کمار کی چند اچھی فلموں میں شمار کی جا سکتی ہے۔
</p><br />
<p>
-13-
<br />
دھک دھک (13/اکتوبر) - Dhak Dhak
<br />
صرف خواتین پر مبنی کوئی فلم چاہے کتنے بھی اچھے اور تحریکی موضوع پر اور عمدہ طریقے سے تخلیق کی جائے مگر ہمارے پدرشاہی معاشرے میں ایسی فلموں کو ریسپانس کم ہی ملتا رہا ہے جس کی ایک مثال یہ فلم بھی ہے، جو ممتاز اداکارہ رتنا پاٹھک شاہ، دیا مرزا اور فاطمہ ثنا شیخ کی موثر اداکاری سجی ہے۔ اپنے باطن میں پوشیدہ صلاحیتوں کی شناخت کی خاطر چار خواتین جب ایک طویل پہاڑی سفر پر نکلتی ہیں تو انہیں کیا اور کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ فلم انہیں بہترین انداز میں بیان کرتے ہوئے انسانیت نوازی کا سبق بھی دیتی ہے۔ اس فلم کو بھی 'کلاس' زمرے میں شامل کیا جانا چاہیے۔
</p><br />
<p>
-14-
<br />
لیو (18/اکتوبر) - Leo
<br />
جنوبی ہند کے مقبول عام سپراسٹار وجے تھلاپتی کی اس تمل فلم کی شوٹنگ سے قبل ہی بڑا شہرہ برپا ہوا تھا مگر ہندی ڈب میں ریلیز کیے جانے کے باوجود فلم صرف جنوبی ہند میں ہی زیادہ کمائی کر پائی۔ ہرچند کہ فلم میں سنجے دت نے پرقوت کردار نبھایا تھا۔
</p><br />
<p>
-15-
<br />
بارہویں فیل (27/اکتوبر) - 12th Fail
<br />
ودھو ونود چوپڑا کی اس فلم نے ملک و بیرون ملک کے ناظرین سے جہاں بہت داد سمیٹی وہیں ہر سطح کے فلم ناقدین نے بھی اس کی پذیرائی کی ہے۔ انوراگ پاٹھک کے اسی نام کے ناول پر بنائی گئی یہ فلم چمبل گھاٹی کے پسماندہ دیہات کے متوطن ایک نوجوان کی مسلسل جدوجہد کی کہانی کو بیان کرتی ہے کہ کس طرح قومی سطح کے مسابقتی امتحان میں پےدرپے ناکامی کے بعد بالآخر کامیابی حاصل کرتے ہوئے انڈین پولیس آفیسر کے عہدہ پر وہ فائز ہوا۔ فلم کی ایک خوبی دیہات کے مسائل اور مناظر کی موزوں پیشکش بھی رہی۔
</p><br />
<p>
-16-
<br />
ٹائیگر 3 (11/نومبر) - Tiger 3
<br />
سلمان خان کی ٹائیگر فرنچائز کی اس تیسری فلم نے کمزور پلاٹ کے باوجود باکس آفس پر سال کی پانچویں بڑی کمائی کرنے والی فلم کا رتبہ حاصل کیا ہے۔ فلم کے ایکشن مناظر ہالی ووڈ سے مستعار لگتے ہیں، اس پر مستزاد پٹھان (شاہ رخ خان) کے کیمیو نے عام فلم بین کے جوش و خروش کو ہوا دی ہے۔
</p><br />
<p>
-17-
<br />
انیمل (یکم/دسمبر) - Animal
<br />
فلم جوان اور پٹھان کے بعد حیرت انگیز طور پر تقریباً 900 کروڑ روپے کے باکس آفس کلکشن کے سہارے سال 2023ء کی تیسری بڑی فلم کا خطاب جیتتے ہوئے فلم ناقدین کے ساتھ ساتھ باشعور و سنجیدہ فلم بینوں کو بھی حیرت سے دوچار کیا ہے۔ کیونکہ فلم غیرضروری طور پر بےتحاشا تشدد سے بھرپور ہے۔ البتہ رنبیر کپور نے اپنے کردار کے مختلف پہلوؤں سے انصاف کیا ہے اور اسی طرح بابی دیول نے بھی قوت گویائی سے محروم منفی کردار کے ذریعے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا ہے۔
</p><br />
<p>
-18-
<br />
سام بہادر (یکم/دسمبر) - Sam Bahadur
<br />
میگھنا گلزار نے ہندوستان کے پہلے فیلڈ مارشل سام مانک شا کی سوانح پر جنگی پس منظر کی ڈراما فلم بنا کر اپنی خداداد صلاحیتوں کی بھرپور داد سمیٹی ہے۔ وکی کوشل نے بھی اپنی لاجواب کردار نگاری کے ذریعے اس فلم کو چار چاند لگائے ہیں۔
</p><br />
<p>
-19-
<br />
ڈنکی (21/دسمبر) - Dunki
<br />
اس سال ریلیز ہونے والی شاہ رخ خان کی اس تیسری فلم نے باکس آفس کلکشن کے حساب سے سال کا چھٹا مقام حاصل کیا ہے۔ ہر چند کہ فلم اپنے موضوع سے مکمل انصاف کرنے سے قاصر رہی مگر ایک سماجی پیغام پر انحصار کرنے کے ساتھ ساتھ وکی کوشل کی لازوال کردار نگاری اور تاپسی پنو کی دلچسپ اداکاری کے باعث فلم کلک کر گئی ہے۔
</p><br />
<p>
-20-
<br />
سالار (22/دسمبر) - Salaar
<br />
لیو اور انیمل کی طرح سالار بھی بےپناہ تشدد سے لبریز ہے۔ پربھاس کے پین انڈیا اسٹارڈم کی بدولت اور دیوقامت فلمی مناظر کے سہارے اس نے تلگو فلمی صنعت کے باکس آفس کے اول درجہ پر اپنا قبضہ جمایا ہے۔ جبکہ فلم کی فکشنل اسٹوری جہاں پیچیدہ ہے وہیں پربھاس کو صرف ایکشن مناظر تک محدود رکھا گیا ہے۔
</p><br />
<p>
-دیگر-
<br />
(گن پتھ، تیجاس، فَرّے)
<br />
امیتابھ بچن کی موجودگی، اپنے بہترین ایکشن، ڈانس اور ڈبل رول کے باوجود ٹائیگر شراف اس سال کی اپنی واحد فلم کو فلاپ ہونے سے بچا نہیں پائے۔ اسی طرح کنگنا رناوت کی اس سال کی واحد ہندی فلم "تیجاس" بھی باکس آفس پر بری طرح شکست سے دوچار ہوئی۔ دوسری طرف معمولی بجٹ کی فلم "فَرّے" بین الاقوامی مسابقتی امتحان میں نقل نویسی کے منفرد طریقوں کے موضوع کی وجہ سے نوٹ کی گئی، حالانکہ یہ تھائی لینڈ کی ایک پرانی فلم کا آفیشل ریمیک تھی۔
</p><br />
<div class="tn-snippet">
Top twenty movies of the year 2023
<br /></div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-54014559380884118902023-12-31T23:57:00.002+05:302024-01-01T00:01:27.964+05:30دارالسّرور سے دارالسلام تک : رودادِ سفر<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiWqz08XhSKe2JiBB0jZWJBZtbol0P48dNO5QM3uu3JTIIQKC0kE9fEyDT8BOKMZSad5j8y_ai8HJfN-6opNlJyOu3mqpw6x9Dk4ujFoFu_sqsVXycQRKp5hWdmufVcTOdKylvaP4tj6I2KuC0L6LZOuAELIWyIl2HeslvFtNKRiHvfKuo7zyLxxySJFzo/s1600/educational-tour-to-oomerabad.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="educational-tour-to-oomerabad" border="0" data-original-height="327" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiWqz08XhSKe2JiBB0jZWJBZtbol0P48dNO5QM3uu3JTIIQKC0kE9fEyDT8BOKMZSad5j8y_ai8HJfN-6opNlJyOu3mqpw6x9Dk4ujFoFu_sqsVXycQRKp5hWdmufVcTOdKylvaP4tj6I2KuC0L6LZOuAELIWyIl2HeslvFtNKRiHvfKuo7zyLxxySJFzo/s1600/educational-tour-to-oomerabad.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">رپورٹ </span><span class="nmd-agency">عبداللہ نادِر عمری </span></div>
<p>
یکسانیت سے بھرے صبح و شام، تھکا دینی والی مصروفیات، ہجوم افکار، ٹنشن اور ڈپریشن سے گرزتی زندگی کو پرسکون اور فرحت بخش بنانے کے لیے سیاحت اور تفریحی مقامات کی سیر اپنے آپ میں’انرجی بوسٹر‘ کا کام کرتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ سیر و سیاحت ذہنی تناؤ، بے چینی اور ڈپریشن کو ختم کرنے کا بہترین علاج ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بوجھل ذہنوں اور بیمار جسموں میں ’ڈوپامین ‘او ر ’سیروٹین‘ نامی ہارمونس کی افزائش کو فروغ ملتا ہے جو "ہپی ہارمونس" کہلاتے ہیں۔موجودہ دور میں سیر و سیاحت اور علمی و تفریحی مقامات کا سفر تعلیمی سرگرمیوں میں شامل ہے۔
<br />
البروج انٹرنیشنل اسکول جو شہرِ بنگلور کا معروف تعلیمی ادارہ ہے، یہاں کے اسلامک ڈیپارٹمنٹ سے علماء کرام اور حفاظِ قرآن کی بڑی ٹیم وابستہ ہے، دسمبر کے وسط میں سیر و سیاحت اور تعلیمی دورے کا منصوبہ طئے پایا، اس تعلیمی دورے کو یادگار، موثر اور مفید تر بنانے کے لیے ہماری نگاہِ انتخاب جنوبی ہند کا قدیم اور ہندوستان کا مایہ ناز ادارہ جامعہ دارالسلام پر جا ٹکی، جو عمرآباد کی حسین وادی میں موجود ہے۔
<br />
15/دسمبر، بروز جمعہ ساتویں تا دسویں جماعت کے طلباء تجربہ کار اساتذہ کرام کی قیادت میں رحلۃ تعلیمیۃ کے بینر تلے جمع ہوگئے، یہ قافلہ دوپہر ڈھائی بجے اسکول سے ریلوے اسٹیشن کی جانب گامزن ہوا، تقریباً بیس منٹ بعد ریلوے اسٹیشن نگاہوں کے سامنے ہے، برنداون ریل پہنچنے میں ابھی چالیس منٹ باقی ہیں، اس وقفے میں ذمہ دار اساتذہ اپنی اپنی ٹیم کے طلباء کو اکٹھا کرکے سفر کے متعلق ہدایات دے رہے ہیں اور اشیائے خورد و نوش کی تقسیم بھی ہورہی ہے۔ ریل گاڑی اپنے مقررہ وقت پر پلیٹ فارم پر پہنچی، سب اس کی گود میں سوار ہوئے، اپنی محفوظ نشستوں پر بیٹھے کوئی پردۂ ذہن پر منزل کی حسین اور خوبصورت تصویر ابھارنے کی کوشش کررہے ہیں، کوئی کھڑکی کے باہر قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بقول امجد اسلام امجد :
<br />
جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے
<br />
کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں
<br />
میرے لیے یہ سارے نظارے، کھیت کھلیان، پہاڑی سلسلے، سبزہ زار میدان دیکھے بھالے ہیں۔ ریل پٹریوں پر دندناتی دوڑ رہی ہے اور میں دروازے پر بیٹھے پٹریوں کی رگڑ سے اٹھنے والی آوازوں میں گم ہوں، ان آوازوں سے مجھے کبھی نفرت ہوتی تھی مگر اب یہ مانوس لگنے لگی ہیں، ماضی کے وہ دن بے اختیار پردۂ ذہن پر تصویر کی صورت رقص کرنے لگے ہیں جب عمرآباد میں زندگی کےخوش گوار اور بے حد خوبصورت پَل مجھے جینا نصیب ہوا تھا، ریل کئی راستوں، پُلوں اور منزلوں سے گزرتی ہوتی ہوئی آمبور اسٹیشن پہنچتی ہے۔
<br />
اسٹیشن سے بس اسٹانڈ کے درمیان مختصر فاضلہ ہے، مگر بنگلور سے چنئی جانے والی قومی شاہراہ پر فلائی اوور کا تعمیراتی کام چل رہاہے ،جس بناپرسارے راستے مسدود ہیں ، بچوں کی اتنی بڑی تعدادکو اس پار لے جانے میں دشواری کا اندیشہ ہے، مجھے دور سے ایک بیریکیڈ کھلا ہوانظر آرہاہے ،یہ امید کی ایک کرن تھی مگر قریب جانے کے بعد معلوم ہورہاہےکہ اس پار بھی راہیں مسدود ہیں لیکن بفضل للہ دورسے ایک تنگ راستہ نظر آرہاہے جسے دیکھ کر سب کی خوشی دیدنی ہے،ہم آخر کار بس اسٹانڈپہنچتے ہیں ، یہاں ایک بالکل خالی بس ہے جوسواریوں کے انتظار میں کھڑی ہے،یہ بس عمرآباد سےپہلے ہی گڑھ آمبور سے دائیں جانب نریم پیٹ جانے والی ہے ،ہمیں دیکھ کر ڈرائیور خوشی سے پھولے نہیں سمارہاہے،کہتاہےکہ یہ بس عمرآباد نہیں جاتی ہے مگر میں آپ لوگوں کو عمرآباد تک لے جاؤں گا۔
<br />
" اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں"، ساری بس میں ہم ہی ہم ہیں۔
<br />
خیر! یہاں سے ہم عمرآباد کا قصد کرتے ہیں۔ لبِ سڑک کئی عبادت گاہیں، دوکانیں موجود ہیں مگر بین الاقوامی شہرت یافتہ نئی پرانی چمڑے کی فیکٹریاں قابلِ ذکر ہیں جس سے آمبور جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ لوگوں کا ہجوم اور گاڑیوں کے شور سے سفر کی صعوبت کا احساس تازہ ہورہا ہے مگر تقریباً تیس منٹ کے بعد آب و ہوا تبدیل ہوجاتی ہے، فضاؤں میں خنکی، برودت اور شادابی پھیل جاتی ہے، یہ اشارہ ہے کہ ہم عمرآباد میں ہیں، بس رکی بھی تو کہاں؟ شہرِ آرزو کا حسین تاج محل، دل کش و دل آگیں، پُرشکوہ قدیم عمارت کے سامنے جو جامعہ دارالسلام کی پہچان اور عمرآباد کا Icon ہے۔ میری گھڑی میں ساڑھے سات بجے کا وقت ہے، معہد القرآن کے معصوم بچے اسکول کے طلباء کی اتنی بڑی تعداد کو بس اترتے ہوئے دیکھ کر قدرے تعجب اور پُرکیف احساس کا مظاہرہ کررہے ہیں. ہم طلباء کو کلیہ ہاسٹل کی طرف رہنمائی کرتے ہیں کیونکہ وہیں ہمارے قیام وطعام کا انتظام کیا گیا ہے۔
<br />
شام بھیگی بھیگی سی ہے، جامعہ کے مین گیٹ سے داخل ہوتے ہوئے دور سے ہی مسجد سلطان کا بلند و بالا، عالیشان مینار ہر آنے والے کو دعوتِ دیدار دے رہا ہے، راستے کے دونوں جانب قطار اندر قطار درختوں کا خوبصورت منظر اور درختوں کے پتوں پر ہلکی ہلکی شبنم کی پھوار، اس حسن کو دوبالا کرتی ہوئی یہ برقی قمقموں سے نکلتی مدھم سی روشنی، یہ پرسکون فضاؤں کی خاموشیاں، یہ روحانی ماحول کی دل انگیزیاں، یہ رشک و سرور میں ڈوبی محفلیں اور یہ علم و ایمان کی پرنور مجلسیں، اس روح پرور ماحول کو دیکھ کر میرا انگ انگ عمرآباد کے لیے جذبۂ عقیدت و محبت سے سرشار ہے اور یہی کیفیت مادر علمی کی آغوش میں ـ’ عمری ‘اور عمرآباد سے وابستہ ہر شخص کی ہوتی ہے۔
<br />
اب ہم سیدھے قیام گاہ کی اور بڑھتے ہیں، اس رحلۃ تعلیمیۃ کے منتظم مولانا ایاز احمد عمری صاحب (استادِ جامعہ) بڑی بے تابی سے ہماری راہ تک رہے ہیں۔ کلیہ ہاسٹل کے صدر دروازے پر مولاناسے ہماری ملاقات ہوتی ہے، آپ کے ہمراہ ہم سب قیام گاہ (ثانویہ مذاکرہ ہال) کا رخ کرتے ہیں، نمازِ عشاء کے بعد عشائیہ سے فارغ ہوکر حافظ جعفر پاشا عمری اور مولانا عبدالحسیب سلفی صاحبان (اساتذۂ البروج اسکول) بچوں کو کل کے پروگرام کی تفصیلات اور اس کے متعلق ہدایات دیتے ہوئے جلد سونے اور علی الصبح بیدار ہونے کی تاکید کرتے ہے۔
</p><br />
<p>
(دوسرے دن)
<br />
صبح چار بجے مولانا عبدالحسیب سلفی صاحب ہمیں تہجد کے لیے جاگا تے ہیں، اس سے قبل نہ جانے ہم میں سے کون کون آہِ سحر گاہی کی سکون آمیزی اور لذت آشنائی سے آخری بار کب شاد کام ہوئے تھے، مگر آج کی صبح ہمارے لیے کچھ مختلف ہے، اس کا آغاز ہی قربِ الٰہی کی آرزو میں ڈوبے جذبوں، سحر خیزیوں اور اشک ریزیوں سے ہورہا ہے.بالِ جبریل کا شعر گوشۂ دل پر ابھر رہا ہے :
<br />
مَیں نے پایا ہے اُسے اشکِ سحَر گاہی میں
<br />
جس دُرِّ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
</p><br />
<p>
علامہ اقبال امتِ مسلمہ کے کھوئے ہوئے سوز و ساز اور متاعِ دین و ایمان کی طرف اشارہ کررہے ہیں جو کبھی مسلمانوں کا خاصہ اور پہنچان تھی، اب اس کا حصول "بے آہِ سحر گاہی ممکن نہیں ہے۔
<br />
نمازِ فجر کے بعد ہم عمر لائبریری کا رخ کرتے ہیں، اس تذکیری اجلاس کے کنوینر استادِ جامعہ مولانا جعفر علی صدیقی عمری مدنی صاحب اسکول کے طلباء اور اساتذہ کا استقبال کرتے ہوئے جامعہ کا تعارف، اس کا پیغام اور اس تعلیمی دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ استقبالیہ نشست ایک کپ چائے کی لذت اور نشاط انگیزی کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔
<br />
اب سیر و تفریح کا وقت ہے، ہم طلباء کو جامعہ کے کیمپس میں موجود عمارتوں اور مختلف شعبوں کا تعارف کراتے ہوئے جامعہ کی قدیم عمارت کی طرف رواں دواں ہیں جو کبھی پورے دارالسلام کو سمیٹے ہوئے تھی مگر اب شعبۂ تحفیظ القرآن کے لیے مخصوص ہے۔یہاں مدیر معہد القرآن مولانا حافظ سراج الدین عمری صاحب کا طلباء سے قرآن مجید کی اہمیت و فضلیت پر خطاب ہوتا ہے، مولانا صاحب اسکول کے حفّاظ سے قرآن سنتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ہماری خواہش پر اپنے تین شاگردوں سے پڑھواتے ہیں، تینوں معصوم بچوں نے قرآن مجید کی تلاوت اتنی خوش اسلوبی اور خوش الحانی کے ساتھ کررہے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہورہے ہیں۔سننے والوں کے کانوں میں کلامِ خداوندی کی حلاوت اور شیرینی گھل رہی ہے۔بچوں کے نام میرے ذہن میں نہیں ہیں مگر ایک طالب علم جو قرآن مجید کی چند آیتیں قرات کے اصول و قواعد کے ساتھ بہترین اسلوب و لہجے میں پڑھ رہے ہیں وہ مولانا عبدالعظیم عمری مدنی حفظہ اللّٰہ کے فرزند ارجمند ہیں۔
<br />
میری گھڑی میں سوا آٹھ بج رہے ہیں، اب ہمارے ناشتے کا وقت ہے، جامعہ کی کھچڑی اور لذیذ دال کا ذائقہ کون بھول سکتا ہے، اس کے ساتھ انگریزی ڈیش مزیدار میکرونی بھی ہے۔
</p><br />
<p>
ٹھیک نو بجے تذکیری اجلاس کا انعقاد ہونے والا ہے، اسکول کے طالب علم محمد معظم کی قرات سے پروگرام کا آغاز ہوتا ہے۔
<br />
خطابات کا آغاز مولانا ڈاکٹر مفتی کلیم اللہ عمری حفظہ اللّٰہ کے اظہارِ خیال سے ہوتا ہے، آپ "وقت کی قدر و قیمت " اور اس کی اہمیت کو اسلاف کرام کی زندگیوں کی مثال سے اُجال رہے ہیں۔
<br />
"والدین کی اطاعت "کے عنوان پر مولانا جعفر علی صدیقی عمری صاحب بڑے موثر انداز اور دل انگیز لہجے میں خطاب فرمارہے ہیں۔
<br />
مولانا عبدالصبور حماد عمری مدنی صاحب "موبائل فون کے آداب "بتاتے ہوئے اس کے فوائد اور نقصانات پر مفید ترین گفتگو کررہے ہیں۔
<br />
مولانا دکتور الیاس اعظمی عمری صاحب نے"ایک مسلمان کی پہچان " کیسی ہونی چاہیے؟ اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ایک اچھا مسلمان وہ ہے جو اللہ اور رسول کے احکام کو جانتا ہے اور پھر اسے مانتا ہے۔ اور کہتے ہیں: ہمارا دین ہم سے پراکٹیس چاہتا ہے۔
<br />
مدیر ماہنامہ راہ اعتدال، محمد رفیع کلوری عمری صاحب کا موضوع سخن ہے :" دورِ حاضر کے چیلنجز"۔ آپ نے تقریباً پانچ چیلنجز کا ذکر اوراس کے مناسب تدابیر بیان فرمائے، آپ کا خطاب اسکول کے طلباء کے ذہنی سطح کے مطابق ہے، موثر اور مفید ترین ہے۔
<br />
ناظم جامعہ مولانا دکتور عبداللہ جولم حفظہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ"ایمان اور علم ایک جگہ جمع ہوجائیں تو اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا "اور طلبہ کو یہ نصیحت کررہے ہیں کہ "آپ یہاں سے دینی جذبہ لے کر جائیں"۔
<br />
مولانا حافظ ابراہیم عمری صاحب "تعمیرِ شخصیت اور کردار سازی" کے عنوان پر عالمانہ اور معلوماتی خطاب کرتے ہوئے یہ نصیحت کرتے ہیں کہ" آپ کا مقصد جتنا اونچا ہوگا، اسی قدر آپ کو محنت بھی کرنی چاہیے۔
</p><br />
<p>
اب یہ اس اجلاس کا آخری خطاب ہے جو اسکول طلباء کے لیے ان کے مستقبل کے حوالے سے نقطۂ تحول( ٹریننگ پوائنٹ) ہونے والا ہے، عنوان ہے "ایس ایس ایل سی کے بعد کیا کریں؟ "اس حوالے سے مولانا محمد زکریا عمری صاحب نے بہت واضح طورپر عصری علوم کے مختلف میدانوں میں قدم رکھنے کے لیے جو کچھ مفید اقدام ہوسکتے ہیں، تفصیل سے بیان فرمارہے ہیں۔
<br />
یہ اجلاس ٹھیک سوا بارہ بجے البروج انٹرنیشنل اسکول کے مدیر معہد الاسلامی حافظ عبدالقیوم عمری صاحب کے ہدیۂ تشکر و امتنان کے ساتھ اختتام پذیر ہورہا ہے۔
<br />
اب جامعہ کے کیمپس سے نکل کر بیرونی علاقے کی سیر کرتے ہیں، حافظ جعفر پاشا عمری سالارِ قافلہ ہیں، یہ جامعہ ہسپتال ہے، صرف عمرآباد کے باشندوں کے لیے نہیں ہے، یہاں سے اطراف و اکناف کے ہزاروں لوگ مستفید ہورہے ہیں، میں دیکھ رہا ہوں ابھی یہاں تعمیری و توسیعی کام چل رہا ہے، ہسپتال کے بالکل پیچھے دائیں جانب اقراء اسکول ہے اور اسی سڑک پر تھوڑی دوری پر دوسری اسکول ہے اور سڑک کے بائیں جانب گلی میں مدرسہ نسوان ہے جو برسوں سے نیک نامی اور کامیامی کے منزلیں طے کر رہا ہے۔ عمرآبادیہ چھوٹا سا گاؤں تعلیمی قلعوں اور دینی و علمی قندیلوں سے روشن ہے اور آگے بڑھیں گے تو جامعہ کا وسیع و عریض دامنِ کوہ تک پھیلا ہوا یہ کھیل کا میدان ہے، اور یہ دائیں جانب محمدیہ ہائی اسکول کی نئی عمارت ہے، اس کی قدیم اور تاریخی عمارت جامعہ کواٹرس کے سامنے ہے۔یہ عمرآباد کا بازار ہے، اس میں آپ کو ہر چیز مل جائے گی، یہاں کی چائے مولانا ابوالکلام آزاد کی چائے کی طرح لب دوز اور دل سوز ہوتی ہے۔
<br />
ابھی ظہر کی آذان ہورہی ہے، نماز کے بعد ہم جامعہ کے پرتکلف دسترخوان سے سیراب ہوتے ہیں۔ہم (اساتذۂ البروج اسکول) عبدالقیوم عمری، جعفر پاشا عمری، عبدالحسیب سلفی، عارف احمد عمری اور راقم الحروف عبداللہ نادر عمری کلیہ درس گاہ کا رخ کرتے ہیں، دفترِ نظامت میں ناظم جامعہ دکتور عبداللہ جولم عمری حفظہ اللّٰہ اور مولانا حافظ ابراہیم عمری حفظہ اللّٰہ کے ساتھ ہماری نشست ہوتی ہے، ناظم جامعہ چائے سے ہماری ضیافت کرتے ہیں۔کلیہ ہال میں مولانا عبدالصبور حماد عمری ، مولانا عبدالوکیل عمری ،مولانامحمد سیفی عمری، مولانااسید احمد شاکر عمری،مولانادکتور الیاس اعظمی عمری، مولاناعبدالقیوم عمری،مولاناحافظ سراج الدین عمری اورمولانا حافظ اسلم عمری حفظھم اللہ سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔
<br />
ادھردیگر اساتذۂ اسکول عتیق الرحمٰن عمری، حافظ جنید احمد عبیدی اور عبدالرحمٰن محمدی بچوں کو سامانِ سفر تازہ کرنے کو کہہ رہے ہیں، یہ عمر آباد میں ہمارے قیام کی آخری گھڑیاں ہیں۔صرف ایک شب و روز کا یہ تعلیمی دورہ نہایت خوش گوار نتائج کی امید اور سیر و سیاحت کی بھر پور لطف اندوزی کے ساتھ ختم ہورہا ہے، مولانا ایاز احمد عمری صاحب جو ابتدا سے آخر تک ہمارے ساتھ رہے، اب وداعی لمحوں میں مسکراتے ہوئے دعائیں دے رہے ہیں۔میں دیکھ رہاہوں کہ سب کے چہروں پر عمرآباد سے رخصتی کے آثار نمایاں ہیں اور لبوں پر دعائیں ہیں ۔
</p><br />
<p>
جبینِ دہر پہ فخرِ جہاں عمرآباد
<br />
زمین کی گود میں ایک آسماں عمرآباد
<br />
یہ اہلِ دانش و اربابِ فکروفن کی زمیں
<br />
نشانِ عظمتِ ہندوستاں عمرآباد
</p><br />
<p>
مضمون کی طوالت اگر آپ کی نفیس طبیعت پر گراں گزری ہو تو معذرت خواہ ہوں، جذبات نے قلم کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
<br />
اور یہ سچ ہے کہ :
<br />
صحرا کو شہر ، دشت کو دریا نہیں لکھا
<br />
دیدہ لکھا ہے ہم نے، شنیدہ نہیں لکھا
</p>
<br />
<div class="tn-snippet">Educational tour to Oomerabad<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-60844912222002097602023-12-24T23:33:00.011+05:302023-12-31T23:53:22.649+05:30انسانی اقدار اور حسین الحق کا فکشن - موضوعاتی ویبینار کا انعقاد<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgUKyNllWFenK-xJ7bBy8RJweEaLXip51ufDyMuQYihBaDAoBfVu2zKmVOnls59oEL7ynL-bjLZ59VPMzjLE1EjVxkSmQ4otvHjQGlClqMfCimDyuuknRXScJ5APJqpCq6cekEAg9w6OMM_kdnER8zIH6FaCVvGn51lM3-rqRkK3XZhiLAqiqDZyc8jfdc/s1600/husainulhaq-webinar-1.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="husainulhaq-webinar-1" border="0" data-original-height="417" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgUKyNllWFenK-xJ7bBy8RJweEaLXip51ufDyMuQYihBaDAoBfVu2zKmVOnls59oEL7ynL-bjLZ59VPMzjLE1EjVxkSmQ4otvHjQGlClqMfCimDyuuknRXScJ5APJqpCq6cekEAg9w6OMM_kdnER8zIH6FaCVvGn51lM3-rqRkK3XZhiLAqiqDZyc8jfdc/s1600/husainulhaq-webinar-1.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">رپورٹ </span><span class="nmd-agency">عینین علی حق (دہلی) </span></div>
<p style="text-align:center;font-weight:bold;">
حسین الحق کا فکشن انسانی اقدار کی بحالی کا خواہاں : مقررین
</p>
<br />
<p>
مولانا انوار ؒ الحق اردو لائبریری، گیابہار کے زیر اہتمام معروف فکشن نگاراور دائرہ شاہ حضرت وصی الحق کے سابق سجادہ نشین پروفیسر حسین الحق کے یوم وفات کی مناسبت سے ایک ویبینار بعنوان "انسانی اقدار اور حسین الحق کا فکشن" کا انعقاد کیا گیا۔ آن لائن پروگرام میں متعدد اہم شخصیات نے شرکت کی۔
<br />
پروگرام کی صدارت مرزا غالب کالج، گیابہارکے سابق صدر شعبہ انگریزی پروفیسر عین تابش نے کی جب کہ کلیدی خطبہ معروف ناقد اور افسانہ نگار پروفیسر صغیر افراہیم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے پیش کیا۔مہمان خصوصی کے طور پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ پروفیسر عبدالصمد نے حسین الحق کے حوالے سے پر مغز گفتگو کی۔پروگرام کا باضابطہ آغاز حسین الحق کے بڑے صاحبزادے شارع علی حق نے کیا جب کہ شافع انوار الحق نے پروفیسر حسین الحق کی شخصیت کے تعلق سے تعارفی کلمات پیش کیے۔
</p><br />
<p>
پروفیسر عبدالصمدنے کہاکہ حسین الحق ایک زندہ دل انسان تھے،وہ ہمارے اندر سے آج بھی ختم نہیں ہوسکے اور نہ کبھی ختم ہوں گے۔حسین الحق سے میرے دیرینہ تعلقات تھے۔حسین الحق نے مختلف موضوعات میں طبع آزمائی کی ہے اور ان پر گفتگو کرنے کے لیے ایک دو گھنٹے کافی نہیں ہیں بلکہ باضابطہ ایک سیمینار کی ضرورت ہے۔ اپنے ہم عصروں میں حسین الحق کئی جہتوں سے ممتاز تھے، وہ صرف افسانہ نگار نہیں تھے بلکہ ناول نگار،شاعر، تنقید نگار اور تجزیہ نگار بھی تھے۔ اپنے مذہب اور مسلک کے حوالے سے بھی کئی ان کی گراں قدر تحریریں موجود ہیں۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اردو ادب میں پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔ وہ اکثر اپنے ذریعہ کھینچی گئی لکیروں سے بھی باہر نکلنے کی کوشش کرتے تھے۔ اہم خصوصیت ان کی سلیس اور عام فہم زبان ہے، اسے دیکھ کر ان کے ہم جیسے ہم عصروں کو رشک آتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے فکشن میں انسانی اقدار کی بحالی پر زور دیا،وہ اقدار کو مذہب سے نہیں جوڑتے تھے، بلکہ اسے انسانی اقدار کا اہم حصہ تسلیم کرتے تھے۔ وہ بیمار رہنے تک لکھتے پڑھتے رہے، انہوں نے اپنے بیماری میں مجھے کہا تھا صمد میں نے ہار نہیں مانی ہے، میں ہار نہیں مانوں گا۔ یہ بات سن کر میں آب دیدہ ہوگیا کیوں کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔
</p><br />
<p>
پروفیسر صغیر افراہیم نے کہاکہ دراصل حسین الحق خانقاہی تھے، اور جو خانقاہی مزاج ہے وہاں کوئی تمیزو تخصیص نہیں ہوتی، نہ کسی مذہب کی، نہ ہی کسی مسلک کی، وہاں سب انسان برابر ہیں۔ حسین الحق کو سبھی پسند کرتے تھے، جس کی وجہ ان کا اخلاق تھا۔دیکھئے خانقاہوں میں صوفیاء کرام کی جو تعلیم ہوئی ہے، خواجہ معین الدین چشتی سے لیکر آج تک، کسی بھی سلسلے کی خانقاہیں ہوں، اس میں جو تعلیم اور تعظیم دی جاتی ہے، وہ انسانی اقدار ہے۔ خانقاہوں کا سب سے بڑا موضوع انسانیت ہے اور اس انسانیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہمیشہ فکشن رائٹر سرگردہ رہے ہیں۔حسین الحق کے ناول فرأت میں شبل اور وقار صاحب کا کردار دو آئیڈیل کردار ہیں۔ باب بیٹی کے کردار سے ماضی میں کیا کچھ ہوا ہے، اور1992تک کیا کچھ ہوا۔ انہوں نے یاان کے معاصرین نے اپنے فکشن میں ہندو مسلمان کی بات نہیں کی ہے، انہوں نے دلوں کے ٹوٹنے اور انسانی اقدار کے ٹوٹنے کی بات کی ہے۔ وہ ہم لوگوں کو تربیت دیتے تھے کہ جب اپنے بچوں سے گفتگو کرو تو انہیں یہ احساس نہ ہو کہ تم سب کچھ جانتے ہو، بلکہ بچے کو یہ احساس ہوتا رہے کہ وہ بھی جانتا ہے۔ یہ تربیت دینے والا وہ شخص وہ فنکار وہ استاذ ہم سے رخصت ہوگیا۔ وہ ہماری خاموشی سے اصلاح کرتے تھے اور کبھی محفل میں نہیں ٹوکتے تھے۔ ہم سے ہمارا آئیڈیل دوست، آئیڈیل کرم فرمااور آئیڈیل سرپرست ہم سے رخصت ہوگیا۔
</p><br />
<p>
اس موقع پراہم مقررین میں صحافی اور سماجی کارکن ٹی ایم ضیاء، نئی نسل کے نمائندہ افسانہ نگار ڈاکٹر نورین علی حق، پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر انجم پروین اور ایمن نشاط نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
<br />
پروفیسر عین تابش نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ مقررین کی گفتگو نے مجموعی طور پرپروفیسر حسین الحق کی شخصیت کے کمالات کوبحیثیت فکشن نگار، بحیثیت صوفی، بحیثیت نثر نگار اور بحیثیت انسان نمایاں کیا ہے۔ انہوں نے تمام شرکاء کا صمیم قلب سے شکریہ بھی ادا کیا۔ غور طلب ہے کہ پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹرسید عینین علی حق،دہلی نے انجام دیے۔
</p><br />
<p>
شرکاء میں پروفیسر حسین الحق کی اہلیہ محترمہ نشاط اسرار،ونوبا بھاوے یونیورسٹی،ہزاری باغ جھارکھنڈ کے استاذ اور سابق صدر شعبہئ اردو ڈاکٹر زین رامش،سید اختر،(سابق پرنسپل گیا ہائی اسکول)،محمد امان الحق،(سابق ایئرفورس)، مرزا غالب کالج میں کامرس کے استاذپرویز وہاب، ایما حسین، علی عدنان، انکت، مشکور عالم،شعار نازش، شعور نازش کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی آن لائن پروگرام میں شامل ہوئے۔
</p>
<br />
<div class="tn-snippet">Webinar on the fiction of Urdu laureate Hussain ul Haq<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-58464120866586795522023-12-08T14:49:00.011+05:302023-12-08T16:04:22.045+05:30اردو کے الفاظ : تھانہ یا تھانا؟ امریکہ کہ امریکا؟<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi0fglnZ8eWYlxpxxHknmIaQ5QqJ3njdciLypoPtNIsKlkJfJo2TvFN1U8vRpzw4Ge_KN_3vnYU53SQqvnuNKNJRWrjm73taEPVT7NQ5WQnsSMxHK5TOUSwaeissVe1sdBqAyMxHxVKyRUz2lDkamkUGjqBMxYkaF9YL_wf5fUbJpxf6DzFQ8IUj2Sm90s/s1600/urdu-hindi-words.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="urdu-hindi-words" border="0" data-original-height="415" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi0fglnZ8eWYlxpxxHknmIaQ5QqJ3njdciLypoPtNIsKlkJfJo2TvFN1U8vRpzw4Ge_KN_3vnYU53SQqvnuNKNJRWrjm73taEPVT7NQ5WQnsSMxHK5TOUSwaeissVe1sdBqAyMxHxVKyRUz2lDkamkUGjqBMxYkaF9YL_wf5fUbJpxf6DzFQ8IUj2Sm90s/s1600/urdu-hindi-words.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">مضمون </span><span class="nmd-agency">ظفر سید </span></div>
<p>
سب سے بڑے چینل والوں کہ نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے ایک معروف ڈائجسٹ کے مقبول مدیر کو اردو املا کی درستگی (معاف کیجیے گا درستی) کا کام سونپ دیا۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ بتایا، اگلوں نے کچھ سنا، ٹکر ٹائپ کرونے والوں نے کچھ سمجھا۔ دوسرے چینل والوں نے آدھی سنی / آدھی دیکھی باقی خود فرض کر لیا اور وہ اندھیر مچا کہ اب لفظ کو لفظ سجھائی نہیں دیتا۔ مذکورہ مقبول مدیر صاحب ایک ویڈیو میں شکوہ سنج ہیں کہ لوگ انڈا بھی ہ سے لکھتے ہیں حالانکہ انڈہ (ہ پر زور دے کر) نہیں ہوتا، انڈا ہوتا ہے۔
</p><br />
<p>
ویسے یہ خیال ان مدیر کا نہیں بلکہ خاصا پرانا ہے، لیکن عبدالستار صدیقی اور رشید حسن خاں کی رسائی الیکٹرانک میڈیا تک نہیں تھی اس لیے وہ اپنی جگہ پر رہے، یعنی موٹی موٹی کتابوں کے اندر بند۔ مگر میڈیائی اصلاح کاروں نے سستی رسائی کے استرے سے اردو املا کے بخیے ادھیڑ ڈالے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو حشر ہوا ہے وہ ایک مستقل کتاب کا متقاضی ہے، اس تحریر میں ہم صرف اس دھونس کا جائزہ لیں گے کہ مہینہ یا تھانہ جیسے الفاظ کے آخر میں ہ نہیں بلکہ الف آنا چاہیے کیونکہ یہ ہندی میں الف سے لکھے جاتے ہیں۔ درست املا دوپٹا ہے یا دوپٹہ ؟ پیسہ یا پیسا؟ تھانا یا تھانہ ؟ مہینا یا مہینہ؟ اسی طرح چھاپا، دھماکہ ، جھروکہ تولیہ، ڈاکیہ، بھروسہ، امریکہ، پانسہ ، ٹھیکہ الف سے لکھے جائیں یا ہ سے؟
</p><br />
<p>
اردو میں اس قبیل کے الفاظ صدیوں سے ہ سے لکھے جاتے رہے ہیں (اس ہ کا تکنیکی نام ہائے مختفی ہے، اس کی تفصیل آگے آئے گی)، لیکن لسانی مجتہدین فتوی جاری کرتے ہیں کہ چونکہ اصل میں یہ الفاظ ہندی کے ہیں اور ہندی میں انہیں ''الف'' سے لکھا جاتا ہے، اس لیے اردو میں بھی انہیں الف سے لکھا جائے۔
<br />
اس کی ایک دلچسپ مثال مولانا عرشی کے ہاں ملتی ہے جو غالب کے خطوط مرتب کرتے وقت رونا روتے ہیں کہ جن لفظوں کے آخر میں الف آنا چاہیے، غالب وہاں ہ لکھتے ہیں اور پھر ارشاد فرماتے ہیں کہ 'جن لفظوں کی اصل فارسی یا عربی نہیں ان میں مخفی ہ نہیں آ سكتی الف ہونا چاہیے'۔
</p><br />
<p>
یہ اعتراض نیا نہیں ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کے دور میں بھی لوگوں نے ایسی ہی شکایت کی تھی کہ لوگ بنگالہ جیسے الفاظ کو ہ سے لکھتے ہیں جو غلط ہے، اور جہانگیر نے اس بارے میں ایک فرمان بھی جاری کیا تھا لیکن ظاہر ہے کہ اس پر کسی نے کان نہیں دھرا اور وہ الفاظ صدی با صدی سے بدستور ہائے مختفی سے لکھے جاتے رہے۔ الف اور ہ کا اصول وضع کرنے والے ایک بنیادی اصول بھول گئے کہ دنیا کی ہر زندہ زبان روایت چلن اور رواج پر چلا کرتی ہے، نہ کہ چند افراد کے ایک کمرے میں بیٹھ کر احکامات صادر کرنے سے۔ سوال یہ ہے کہ جو لفظ اردو میں صدیوں سے استعمال ہوتا چلا آیا ہے، اسے ہم اب تک اچھوت اور غیر کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ لفظ اب اردو کا حصہ بن گیا ہے اس لیے ہم اسے ایسے بی لکھیں اور بولیں گے جیسے ہمارے ہاں مستعمل ہے؟ دوسری زبانیں اس ضمن میں کیسے کام کرتی ہیں، اس کی ایک مثال دیکھیے:
<br />
عربی کا لفظ ہے امیر البحر۔ اسے انگریزوں نے اپنایا تو سہی لیکن اپنے انداز میں اور اسے ایڈمرل بولنے لگے۔ اب ہم کسی انگریز سے جا کر کہیں کہ 'بھائی صاحب، یہ لفظ اصل میں امیرالبحر ہے اور آپ اسے غلط بول رہے ہیں' تو وہ کیا کہے گا؟
<br />
یہی نا کہ 'بھئی، بھلے یہ لفظ جہاں سے بھی آیا ہو، اب یہ ہماری زبان کا حصہ بن گیا ہے اور یہ فیصلہ صرف ہمی کریں گے کہ اسے کیسے بولا یا لکھا جائے، آپ کون ہوتے ہیں ہماری زبان میں ٹانگ اڑانے والے؟'
<br />
اسی طرح شیمپو / چمپی (shampoo)، بینگلو / بنگلہ (banglow ) ایواٹار / اوتار (avatar) ، کاکی / خاکی (khaki) اور دوسرے کئی الفاظ کی مثال دی جا سکتی ہے جو اردو سے انگریزی میں گئے اور انگریزوں نے انہیں اپنے طریقے اور اپنی شرائط پر اپنا لیا۔
</p><br />
<p>
اب آ جاتے ہیں ہندی کی طرف، مضمون کی ابتدا میں گنوائے گئے الفاظ ہندی میں واقعی الف کے قائم مقام حرف سے لکھے جاتے ہیں، نہ کہ ہ کے قائم مقام حرف سے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہندی میں صرف ایک ہ ہے، جب کہ اردو میں دو مختلف قسموں کی ہ پائی جاتی ہیں۔
</p><br />
<p>
<b>بائے ملفوظی</b>
<br />
وہ ہ جو بولنے میں ہ کی آواز دیتی ہے، جیسی راہ، شبیہ، گواہ، پناہ بادشاہ وغیرہ کے آخر میں۔ یہ لفظ کے شروع ( ہزار، ہولناک ) یا درمیان (الہام، کہانی) میں بھی آ سکتی ہے۔
</p><br />
<p>
<b>ہائے مختفی</b>
<br />
اس کے مقابلے پر ہائے مختفی مختلف چیز ہے جس میں ہ کی آواز نہیں بلکہ آدھے الف یا زبر کی آواز نکلتی ہے۔ یہ صرف لفظ کے آخر میں آ سکتی ہے۔ یہی ہ جامہ ، فاختہ، آئینہ، پیمانہ جیسے فارسی الفاظ میں آتی ہے، اور یہی حرف پیسہ تھانہ مہینہ اور پتہ جیسے الفاظ کے آخر میں لکھا جاتا رہا ہے۔ اسے بائے ملفوظی سے خلط ملط کرنا ناواقفی کی دلیل ہے۔
</p><br />
<p>
مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہمیں اردو لکھنے کے لیے اپنی روایت کو نظرانداز کر کے دوسری زبانوں کی لغات چھاننا پڑیں گی کہ انہیں وہاں کیسے لکھا جاتا ہے؟ اگر اسی اصول پر اصرار ہے تو پھر :
<br />
ہندی کے الفاظ پتی بمعنی شوبر ستی ، شکتی، مکتی، بھکتی، منتری وغیرہ کے بارے میں کیا ارشاد ہے کہ یہ الفاظ دیوناگری رسم الخط میں ی کے قائم مقام حرف پر نہیں بلکہ زیر کی ماترا پر ختم ہوتے ہیں؟ ہندی کے اصولوں کی پیروی کرنے کے فارمولے پر عمل کر کے ہمیں ان الفاظ کو علی الترتیب ستِ، شکتِ، مکتِ، بھکتِ، منترِ لکھنا پڑے گا؟
</p><br />
<p>
اردو میں سادھو، پربھو مدھو (مدھوبالا) وغیرہ کیسے لکھے جائیں گے کیوں کہ یہ دیوناگری میں و پر نہیں بلکہ پیش پر ختم ہوتے ہیں؟ تو کیا انہیں سادھُ، پربھُ، مدھُ لکھا جائے؟
<br />
پاؤں، گاؤں چھاؤں کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ ہندی والے تو انہیں علی الترتیب پانو گانو چھانو لکھتے ہیں؟ خود غالب نے پانو لکھا ہے اور یہ غزل ان کے دیوان میں واو کی پٹی میں موجود ہے۔
</p><br />
<p>
عربی میں مولٰی، بیولٰی، مصفیٰ الف مقصورہ سے لکھے جاتے ہیں، لیکن اردو والوں نے اپنی آسانی کی خاطر انہیں مولا، بیولا، مصفا کر دیا ہے۔ کیا یہ بھی غلط ہیں؟ پھر علیحدہ کے بارے میں کیا ارشاد ہے کیونکہ عربی میں تو علیٰ حدہ ہے؟ اور پھر 'علیحدگی' کیسے درست ہو سکتا ہے، عربی میں تو گ ہے ہی نہیں؟
<br />
اصلاح املا کے داعی کہتے ہیں کہ جگہوں کے نام بدستور ہائے مختفی سے لکھے جاتے رہیں، مثلاً کلکتہ، آگرہ، کوئٹہ، پٹنہ، مانسہرہ، وغیرہ۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ الفاظ ویسے ہی رواج پا گئے ہیں۔ اگر یہی اصول ہے تو پھر پیسہ روپیہ پسینہ وغیرہ جیسے الفاظ بھی تو صدیوں سے ایسے ہی مروج ہیں، انہیں بدہئیت بنانے کی کیا تک بنتی ہے؟
</p><br />
<p>
پشتو زبان میں ہائے مختفی مستعمل ہے اور اسے راوڑہ، کوٹہ، خواگہ جیسی غیر فارسی / عربی الفاظ لکھنے کے لیے صدیوں سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہاں کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ یہ غلط ہے۔
<br />
اگر اصل زبان کی پیروی کرنا بی لازمی ٹھہرا تو پھر الفاظ کے معانی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ عربی میں تفصیل کا مطلب ٹکڑے کرنا تحمل کا مطلب بوجھ اٹھانا، غریب کا مطلب پردیسی، احتجاج کا مطلب دلیل پیش کرنا، حریف کا مطلب ہم پیشہ، رقعہ کا مطلب پیوند ہے۔ تو کیا اردو میں ان الفاظ کے معانی بھی بدل دیے جائیں؟
</p><br />
<p>
آپ نے دیکھا کہ اپنی زبان کے اصول وضع کرنے کے لیے دوسری زبانوں سے رجوع کیا تو بات بہت دور تک چلی جائے گی اور اس کا نتیجہ خود اپنی زبان کا حلیہ خراب کرنے کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔
<br />
ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ پڑھتے وقت آنکھیں حروف کے ہجے نہیں کرتیں بلکہ پورا لفظ اکٹھا دیکھتی ہیں۔ اس لیے آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ لفظ 'غصہ' پڑھتے وقت ذہن کے پردے پر غصے کی تصویر بن جاتی ہے۔ اسی طرح لذیذ، بھیانک، خطرناک جیسے الفاظ پوری تصویر بناتے ہیں۔ یہی صورت دوسرے الفاظ کی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی مہم جو افریقا، ٹھیکا یا تھانا لکھتا ہے تو عجیب سی جھنجھلابٹ کا احساس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کھانا کھاتے وقت یکلخت دانتوں تلے کنکر آ جائے۔
</p><br />
<p>
میرے خیال سے ہمیں اردو کو ایک خودمختار، باوقار اور مستقل بالذات زبان تسلیم کر لینا چاہیے اور جو لفظ دوسری زبانوں سے آ کر اس کا حصہ بن گئے ہیں انہیں اردو کا لفظ ہی مان لینا چاہیے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دنیا کی دوسری بڑی زبانیں کرتی ہیں۔ ورنہ ہمارے ساتھ وہ معاملہ ہوگا کہ:
</p><p>
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
<br />
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
</p>
<br />
<div class="tn-snippet">The spelling of few words and hindi/urdu linguistic culture<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-88233465882120104242023-11-30T23:55:00.003+05:302023-12-01T00:10:30.740+05:30تو مری یاد سے آہستہ گزر - از علامہ اعجاز فرخ<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh6fmdkHVlDISZapJSBXGEI0YMGXBUPo7HHU3b-v_49OvRASIwYYXj7OkiIeDUTzSKyq1UuUhND6l1WlFZNgWabWHfXI-pNziEpoJzsgASPc76pFS6gsCImvtcHDYTFtS6E0Uw5BLidqUp2NKNOIFWpIa1i4WPdHyB-1SczVEpZ_N8ce24o6JU0i13s0to/s1600/alexander-the-great-romance.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="alexander-the-great-romance" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh6fmdkHVlDISZapJSBXGEI0YMGXBUPo7HHU3b-v_49OvRASIwYYXj7OkiIeDUTzSKyq1UuUhND6l1WlFZNgWabWHfXI-pNziEpoJzsgASPc76pFS6gsCImvtcHDYTFtS6E0Uw5BLidqUp2NKNOIFWpIa1i4WPdHyB-1SczVEpZ_N8ce24o6JU0i13s0to/s1600/alexander-the-great-romance.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">مضمون </span><span class="nmd-agency"><a href="/search?q=Aijaz+Farruq">علامہ اعجاز فرخ</a> </span></div>
<p>
کہانی کسی شخص کی نہیں ہوتی۔ بھلا اکیلے کی کوئی کہانی کیا! کہانی تو اس کے اطراف کے کرداروں سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ یہ کردار بھی سانس لیتے ہوئے جیتے جاگتے کردار جن کے اطراف پھر کہانیاں ہی کہانیاں، اس طرح ہر پل کی اپنی ایک کہانی ہے۔ پل بہت مختصر سہی لیکن ایک پل کی کہانی کبھی کبھی زندگی سے بھی طویل ہوکر کسی خوبصورت موڑ پریوں رُک جاتی ہے کہ پڑھنے والے کی سانس تھم جائے اور پھر بھی یوں محسوس ہو جیسے خواب کا لمس نرم ہونٹوں کو چھو گیا۔ کہانی پوری ہو جائے تو مرجاتی ہے۔ ادھوری رہ جائے تو اپنی تکمیل کی خاطر صدیوں کا سفر کرتی ہے کہ شاید اگلے کسی موڑ پر منزل مل جائے۔ کچھ کہانیاں انسان کے اندر کا آتش فشاں بھی اگلتا ہے۔ باہر سے بظاہر سر و نظر آنے والا یہ آتش فشاں اپنے وجود میں کتنا لاوا سمیٹے ہوئے ہے، اس کااندازہ تو اسی وقت ہوتا ہے، جب بستیاں خاکستر ہو جائیں۔
<br />
شاید یہ بھی درست ہے کہ ایک انسان کی انا ہزاروں معصوم کہانیوں کا قتل عام کرے اور کٹے ہوئے سروں کا مینار صرف اور صرف اس کی انا کی تسکین کا سامان ہو۔ فرعون نے بچوں کا قتل کروا کر بے شمار کہانیوں کو چند سانسوں کی مہلت بھی نہ دی،لیکن یہ بھی صرف ایک نسل کا قتل تھا۔ سب سے سفاک قاتل تو وہ ہے جو ذہانتوں کا قاتل ہے اور جس نے مسلسل نسلوں کاقتل عام کیا پھر بھی سرخرو رہا۔ اگر ان ذہانتوں کا مینار تعمیر کیا جائے تو دہلی کاقطب مینار اور فرانس کا ایفل ٹاور اپنی قامت پر شرمائے۔ لیکن سناٹوں کے درمیان خود سناٹے کی آواز اور صرف ایک کانٹے کی کسک ان انسانوں کے اندر کے بیابانوں کی سیر کرواتی ہے تب ان کے باہر کی انجمن اور ان کے اندر کے ہولناک ویرانے جو کہانی سناتے ہیں وہ دُنیا کی سب سے عجیب کہانی ہوتی ہے۔ مسلسل بھی، ادھوری بھی، ناتمام بھی، کبھی نہ ختم ہونے والی بھی۔ کبھی یہ دُنیا خود بھی ایک سناٹے میں تبدیل ہوجائے گی تب وقت کی منجمد دونوں سوئیوں کے درمیان کا فرق اس کہانی کی علامت کے طور پر اس خلش ناتمام اور اس کسک کی کہانی سناتا رہا ہے گا۔ شاید ہمیشہ، شایدابدتک، اگر بہت زیادہ قربتوں کا دوسرانام دوریاں ہو تو طویل ہجر بھی بدن سے ماورا ایک لذت وصل سے سرشار تو رکھتا ہے، جہاں مزاحمتیں، پابندیاں، انتظار کا کرب، سب کچھ بے نام ہوکر رہ جاتا ہے۔
</p><br />
<p>
مشہور تو یہی ہے کہ مقدونیہ کا بادشاہ جو زمینوں کی فتوحات کے بعد سکندر اعظم کہلایا۔ جب دُنیا سے گیا تو دونوں ہاتھ خالی تھے۔ صدیوں سے ان خالی ہاتھوں کے اطراف ایک ہی کہانی گردش کررہی ہے کہ دُنیا،دولت،شہرت،عزت،حشم،قدم سب دُنیا میں دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ ہاتھ جنازے کے باہر ہوں یا اندر حقیقت تو بدلنے والی نہیں۔ ہاں ایک نمود کا سامان ہو گیا۔ ویسے خالی ہاتھوں کی سونی لکیریں بھی اپنے اندر کچھ کہانیاں رکھتی ہیں،کسی سے نہاں کسی پر عیاں،کسی کے آگے چپ اور کسی سے سرگوشی۔
</p><br />
<p>
سکندر بچپن ہی سے ضدی تھا، اس کا باپ فلپ جب علاقے فتح کرکے واپس لوٹتا اور فتح کا جشن منایا جاتا تو وہ کبھی اپنے کمرے میں بند رہتا اور کبھی دور باغات میں جاکر تناور پیڑوں پر مکے برساتا۔ اسے غصہ اس بات پر تھا کہ اس کا باپ فتوحات پر فتوحات کرکے اپنی سلطنت کو وسعت دے رہا ہے اور سکندر کو فتح کرنے کے لئے اس کے حصہ میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ نو برس کی عمر میں سکندر کو فوجی تربیت کے لئے بھیج دیا گیا۔ سخت جسمانی مشقت،فنون سپہ گری،شہسواری،تلواروں کی جھنکاریں،نیزہ بازیاں،بدن پر لگنے والے گھاؤاور اس پر بے مزہ غذائیں،لیکن سخت گیرتربیت دینے والے ماہر جنگجو اور فلسفیانہ تعلیم دینے والے اتالیق نے سکندر کے مزاج میں ٹھہراؤ پیدا کردیا۔ ا س کے اندر کا ضدی بات بے بات مچلتا تو نہیں تھا،لیکن اس نے حساب سیکھ لیا تھا۔ دوسال بعد جب سکندر لوٹا تو اسے فوجی چھاؤنی ہی میں ٹھہرایا گیا۔ اسے اجازت نہیں تھی کہ وہ مقدونیہ کے شہری علاقہ میں داخل ہوتا۔ نہ اس نے شہر کی روشنیاں دیکھیں، نہ محلات،نہ باغات،نہ تفریح گاہیں،نہ زندگی کے عیش وطرب،تاجر جنگ کے ہتھیار،خود، زرہ بکتر،جانوروں کی کھال کے خیمے،عمدہ نسل کے تربیت یافتہ گھوڑے اور سامان حرب و ضرب لے کر آتے۔ سکندر اپنے باپ کے پہلو میں بیٹھ کر تلواروں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا پرکھتا اور الگ کرتا جاتا۔ نیزوں کی انی کو وہ انگوٹھے کی پور سے پرکھتا۔ شہسوار ایک ایک گھوڑے کو دوڑاتے،کنوتیوں اور کاٹ کو پرکھتے اور پھر فلپ کے آگے پیش کردیتے اور سکندر کی مرضی پاکر ہی فوج میں شامل کئے جاتے۔ اسی طرح ایک گھوڑوں کے تاجر نے اپنے گھوڑے پیش کئے،لیکن ایک گھوڑے کو سب سے الگ رکھا۔ چمکیلی سیاہ جلد،گردن پر خوبصورت ایال،پھڑکتی ہوئی کنوتیاں،سم کبھی ہوا میں بلند تو کبھی زمین کو روندتے ہوتے۔ لگتا تھا کہ بدن میں لہو نہیں پارہ دوڑ رہا ہے۔ فوج کے ایک سوار نے زین رکھنا چاہی تو سرکش گھوڑے نے چہرے پر ٹاپ ایسے مارے کہ صورت بگڑگئی۔ دوسرے نے اپنی مہارت دکھلانی چاہی تو اسے روند گیا۔
</p><br />
<p>
تاجر نے ادب سے کہا گھوڑا خوبصورت تو ہے، لیکن بڑا ہی سرکش ہے، آج تک قابو میں نہیں آیا، اسی لئے الگ رکھا۔ اس نے اس سے ہٹ کر پھر کسی گھوڑے پر سواری نہیں کی۔ اس کے بعد سات برس تک سکندر مسلسل میدانوں میں نبرد آزما رہا۔ دوتین مرتبہ مقدونیہ آیا بھی تو شہر کا رُخ نہیں کیا۔ پورے نوبرس بعد جب یہ خبر عام ہوئی کہ سکندر شہر مقدونیہ میں آنے والا ہے اور اپنی ماں ملکہ اولمپیا سے ملے گا تو شہر کی از سر نو تزئین و آرائش ہوئی۔ ہر درخت پر رنگ برنگی قندیلیں جگمگائی گئیں۔ راستے میں دورویہ لڑکیوں بالیوں،عورتوں اور بچوں نے پھول نچھاور کئے۔ نوجوان سکندر مردانہ وجاہت کاشاہکار کسی سنگتراش کے خوبصورت یونانی مجسمہ کی طرح اپنے پسندیدہ گھوڑے بیوی فالس پر سوار،جلو میں گھڑسوار دستہ، آگے آگے نقیب،پیچھے فوج کا ہر اول مقدونیہ کے راستوں سے گزرتا ہوا اولمپیا کے محل کی طرف رواں دواں تھا۔ اولمپیا عیش و طرب کی دلدادہ،تزئین و لطف اٹھانے کی خوگر۔ اسی کے نام سے آج تک اولمپک گیمس موسوم ہیں اور ایتنھز میں اولمپک مشعل جلا کر دُنیا بھر میں گشت کروائی جاتی ہے۔ اولمپیا نے سکندر کے استقبال کے لئے ایک محل محضوص کیا اور اس مخصوص محل میں مقدونیہ اور اس کے باہر سے مشہور مطرباؤں،رقاصاؤں کے ساتھ ساتھ دوشیزاؤں کو جمع کیا کہ سکندر کو لبھا سکیں، رجھا سکیں، لیکن کمبخت نہ جانے کس پتھر کا بناتھا کہ ٹس سے مس نہ ہوا اور صبح جب الٹے قدموں جیسا آیا تھا ویسے واپس نکل گیا تو اولمپیا نے صرف اس جرم میں کہ کوئی بھی شہزادے کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکی،سب کو قتل کروا دیا۔
<br />
سکندر واپس اپنی چھاؤنی میں لوٹ چکا تھا۔ کبھی شام کے وقت اپنے پسندیدہ گھوڑے پر دور دور تنہا نکل جاتا اور ہرے بھرے درختوں کے بیچ کھڑے ہوکر گہری سانسیں لیا کرتا۔ ایک عجیب قسم کی مہک جب اسے اپنے وجود میں محسوس ہوئی،جو اس نے اس سے پہلے نہیں محسوس کی تھی تو پھر گھوڑے کو ایڑ دے کر دور نکل جاتا کہ یہ مہک اسے پریشان کردیتی تھی۔ اس نے تو آج تک ہمیشہ جنگ کے میدانوں میں صرف خون کی بو سونگھی تھی اور تلواروں کی جھنکاریں سنی تھیں۔ نہ پھولوں کی مہک، نہ ہوا کی خوشبو،صرف پتتی دھوپ دیکھی تھی۔ پیڑوں کی نرم چھاؤں دیکھ کردہ یوں پریشان ہوجاتا، جیسے اس کا گھوڑا پہلی سواری سے پہلے۔ ایک شام وہ اپنے گھوڑے پر سوار اسی طرح سبزہ زاروں کے بیچ تھا کہ اسے سامنے ایک دیوارسی نظر آئی۔ اس نے گھوڑے کو کچھ پیچھے لے جاکر ایڑوی اور لمحہ بھر میں دیوار کے اس پار تھا۔ کچھ دور آگے بڑھا تھا کہ اس نے دیکھا بھرے درختوں کے بیچ ایک لڑکی ٹوکری میں چیری چن رہی ہے۔ نازک انگلیوں کے بیچ سرخ چیری کی رنگت کا عکس اس کے چہرے پر شفق کی طرح کھلا کھلا ساتھا۔ سنہری زلف، رخساروں پر یوں جھول رہی تھی،جیسے سفید صندل پر سنہری ناگن جھکی ہوئی،مخمور پلکیں۔ سکندر کو پہلی مرتبہ پیاس کا احساس ہوا،وہ اپنے گھوڑے پریوں ساکت تھا جیسے واقعی کوئی مجسمہ ہو اور گھوڑا بھی یوں کھڑا تھا، جیسے اس کے وجود ہی کا ایک حصہ ہو۔ اس لڑکی نے ایک مرتبہ نظر اٹھاکر سکندر کو دیکھا۔ جھکی ہوئی پلکیں یوں آہستہ آہستہ اٹھیں کہ کلی نے کھلنا کم کم ان آنکھوں سے سیکھا ہو۔ سکندر گھوڑے سے اترا قریب پہنچا۔ پوچھا
<br />
"تم کون ہو،یہاں کیا کررہی ہو؟"۔ اس نے معصومیت سے کہا ، چیریاں چن رہی ہوں اپنے مالک کے لئے۔
<br />
سکندر نے کہا: "کچھ دیر یہاں پیڑ کے نیچے بیٹھ جائیں!تم سے باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے"۔
</p><br />
<p>
باتیں تو کسی نے کی نہیں،وہ اسے تکتا رہا اور وہ چپ چاپ سرجھکائے نرم مٹی کریدتی رہی۔ جب شام کے سائے پھیلنے لگے تو اس نے کہا میں چلوں شام ہوگئی ہے، مجھے دورجانا ہے۔ سکندر نے کہا"چلو میں تمہیں چھوڑدوں"اس نے اپنے آگے گھوڑے پر بٹھالیا تو گھوڑا بھی اتنی سبک خرامی سے چل پڑا جیسے منزل بھی معلوم ہوا اور کب پہنچنا بھی۔ درختوں کے بیچ ایک خوبصورت شاہ بلوط کی لکڑی سے بنے کاٹیج سے کچھ دور اس نے سکندر کا ہاتھ تھا ما اوراتر پڑی۔ سکندر کو پہلی بار یوں لگا جیسے ہتھیلی میں سنسناہٹ سی ہے۔ اس نے پوچھا"کل پھر آؤ گی" اس نے پلکیں جھکالیں، لیکن کاٹیج میں جانے سے پہلے مڑ کر دیکھا۔ گویاوعدہ بھی اورا قرار بھی۔
</p><br />
<p>
دوتین دن دونوں اسی پیڑ تلے ملتے رہے۔ ایک شام جب سکندر اسے چھوڑنے پہنچا تو گھوڑے سے اتر کر وہ سکندر کاہاتھ تھامے رہی۔ سکندر کو لگااس کاہاتھ کپکپارہا ہے اور وہ کھلی کھلی آنکھوں سے سکندر کو تک رہی ہے، جیسے ڈوب جانا چاہتی ہو۔ نیلی آنکھوں کے سمندر میں،گہرائی میں ،اور گہرائی میں،گہرے پانیوں میں۔ سکندر نے بے ساختہ وہ جواہرات سے مرصع لاکٹ جو مقدونیہ میں آنے پر اسے پہنایا گیاتھا، اس کے گلے میں ڈال دیا۔ بس پہلی بار وہ کسی سینے سے لگی تھی۔ دوسرے دن جب سکندوہاں پہنچا تو پیڑ خاموش تھے اور کاٹیج ویران۔ کئی دن وہ اسے تلاش کرتا رہا۔ پوچھتا رہا، کسی نے کہا"نہیں معلوم کہاں سے آئی تھی، کون تھی۔ " کسی نے کہا"شام کو پریاں بھی جنگل میں آنکلتی ہیں۔ " اسے نہ ملنا تھا نہ ملی۔ سکندر کا لشکر کوچ کے لئے تیار تھا۔ بگل بجنے سے پہلے سکندر بیوی فالس کو دوڑاتا ہوا دور نکل گیا۔ فوج ٹھہری رہی۔ اس پیڑ کے پاس پہنچ کر جہاں وہ پہلی بار ملی تھی، اس نے جھک کر دیکھا، اس کے ناخن سے کریدی ہوئی مٹی ابھی نرم بھی تھی،کچھ گیلی بھی۔ سکندر نے بڑی احتیاط سے وہ مٹی محفوظ کرلی اور پھر واپس آکر لشکر کے ساتھ کوچ کرگیا۔ تین سال تک وہ لشکر کشی کرتا رہا۔ ایک مرتبہ مقدونیہ کے اطراف میں بغاوت ہوگئی۔ سکندر بھی باپ کی مدد کے لئے پہنچ گیا۔ ایک دن گھمسان کا رن پڑا،فوج ہر طرف لڑرہی تھی۔ سکندر بڑی جی داری سے لڑتے لڑتے دشمن کی فوج میں دھنستا چلا گیا اور پھر شام سے پہلے کسی کی کچھ خبر نہ تھی۔
</p><br />
<p>
سکندر کی جب آنکھ کھلی تو اس نے خود کو لکڑی کے ایک کاٹیج میں پایا اور وہ ابھی کراہ ہی رہاتھا کہ اسے لگاکوئی اس کے سرہانے سے اٹھ کر تیزی سے باہر نکل گیا۔ کچھ ہی دیر میں ایک شخص اندر آیا اور بڑے تپاک سے کہنے لگا۔ "شکر ہے تمہیں ہوش آگیا، لو یہ تھوڑی سے یخنی پی لو، خون بہت بہہ گیا ہے۔ زخم تو ٹھیک ہوجائیں گے،لیکن یخنی سے قوت محسوس کرو گے۔ "سکندر ابھی یخنی پی ہی رہاتھا کہ باہر سے شور سنائی دیا۔ وہ شخص باہر نکلا تو سپاہیوں نے اسے جکڑ لیا اور سکندر کے پاس لے آئے اور چیخ کر کہنے لگے۔ "سکندر یہاں ہے" فلپ خود دستے کی کمان کررہاتھا، وہ بھی پہنچ گیا۔ پتہ چلا کہ سکندر کے حملے کے بعد مقابل تو ہار گیا تھا اور تین دن سے فوج اسے ڈھونڈ رہی تھی۔ بیوی فالس کو یہاں بندھا دیکھ کر وہ یہاں تک پہنچے۔ اس شخص نے بیان کیا کہ بیوی فالس زخمی سکندر کو لے کر قریب کے تالاب تک پہنچا۔ اس نے سکندر کو وہاں چھوڑ کر ان کی کاٹیج کے دروازے کو ہلایا اور جب وہ شخص برآمد ہوا تو اس نے تالاب تک رہنمائی کی۔ وہ اسی گھوڑے پر ڈال کر گھر لایا۔ اس کے زخموں کو صاف کیا۔ سکندر کو شدید بخار تھا، ابھی ابھی ہوش آیا ہے۔
<br />
فلپ نے کہا"اسے چھوڑ دو" اور اس سے کہا "تم کل مقدونیہ آجانا،منہ مانگا انعام پاؤ گے۔ "
<br />
جانے سے پہلے سکندر نے اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے تین دن خدمت کی زحمت اٹھائی، تواس نے کہا
<br />
"میں نے کیا کیا،تمہاری تیمارداری تو میری بیوی نے کی، وہ تین دن تین رات مسلسل جاگتی رہی۔ اس نے پلک تک نہیں جھپکائی اور اب جب تمہیں ہوش آیا تو اسی نے مجھے اطلاع دی۔ "
<br />
سکندر نے پوچھا۔ "تمہاری بیوی نے میری تیمار داری کی؟"۔
<br />
اس نے کہا"ہاں" اور گھر میں جاکر جب لوٹا تواس کی گود میں ڈیڑھ دو سال کا بچہ تھا۔ سکندر نے اسے آغوش میں لیا تو دھک سے رہ گیا۔ اس کے گلے میں وہی لاکٹ تھا، جو اس نے آخری ملاقات پر کسی کے گلے میں ڈال دیاتھا۔ سکندر جب بوجھل قدموں سے باہر نکل رہاتھا تو فلپ نے سوچا شاید بدن پر زخموں کا اثر ہے، لیکن جب وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا تو باپ نے دیکھا وہ اسی شان سے گھوڑے پربیٹھا ہے، جیسے سارے زخم سوکھ گئے ہوں۔ لیکن سکندر کو لگاکہ اندر کے گھاؤ کے سارے ٹانکے ٹوٹ چکے ہیں اور زخم سے خون یوں بہہ رہا ہے، جیسے ابھی لگا ہے۔ گہرا، بہت گہرا،نیلے گہرے سمندراتنا گہرا۔
</p><br />
<p>
سکندر نے زندگی میں بہت فتوحات حاصل کیں،وہ سکندر اعظم کہلایا۔ ہندوستان میں اس نے پورس کے ایک جملے پر کہ جب اس نے پوچھا تھا کہ"تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے"
<br />
تو پورس نے کہاتھا"وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے"
<br />
سکندر نے اس کی سلطنت واپس کردی۔ ہندوستان سے واپسی پر دریائے سندھ میں طغیانی تھی۔ گھوڑا اسے داغ مفارقت دے گیا، اس کا ساتھی اس کا راز داں بیوی فالس اس سے چھوٹ گیا۔ اس نے اپنے گھوڑے کی یاد میں ایک شہر آباد کیا۔ ابھی وہ جوان تھا کہ بیمار ہوا۔ کسی موذی مرض سے نہیں، صرف ملیریا سے اور اسی مرض میں وہ مرگیا۔ جس سکندر اعظم کو دُنیا کی فوج اور ہتھیار نہ مارسکی، اسے صرف ایک مچھر نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سنتے ہیں کہ آخری وقت اس نے اپنے بازوسے کوئی تعویذ نما چھوٹی سی ڈبیا کھولی۔ اس میں مٹی سی تھی۔ بہت دیر وہ اسے سونگھتا رہا، پھر ہتھیلیوں میں مل کر اسے اپنے سینے سے لگالیا اور وصیت کردی کہ میرے ہاتھ جنازے کے باہر رکھ دیئے جائیں۔ جانے ہاتھ باہر تھے یا بانہیں کھلی تھیں۔ لیکن ہوا کہتی ہے کہ وہ آخر وقت کچھ کہہ رہا تھا۔ ہوا ہی کے دامن میں یہ بھی تحریر ہے کہ وہ لفظ کچھ یوں تھے:
<br />
اب وہ چہرہ نہ سنائی دے گا
<br />
اب وہ آواز نہ آئے گی نظر
<br />
تو مری یاد سے آہستہ گزر
</p>
<div class="engtxt" style="text-align: left;">***<br />
afarruq[@]gmail.com<br />
18-8-450/4, Silver Oak, Edi Bbazar, Near Sravani Hospital, Hyderabad - 500023<br />
Mob.: +919848080612</div><table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEib4VxtWd3WJyODwfncuVwVDbo5FegGm82u-lxWx_eKxKvjE7IFE292TnPXekPxV-4v4N-KThEuVwoluYgFqUo1acR5LoMmgEpOt6nSJzG2UbgC6LkoniQObbH8W7On_pvt4UKY30qU8tfb/s1600/allama-aijaz-farruq.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEib4VxtWd3WJyODwfncuVwVDbo5FegGm82u-lxWx_eKxKvjE7IFE292TnPXekPxV-4v4N-KThEuVwoluYgFqUo1acR5LoMmgEpOt6nSJzG2UbgC6LkoniQObbH8W7On_pvt4UKY30qU8tfb/s1600/allama-aijaz-farruq.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">علامہ اعجاز فرخ</td></tr>
</tbody></table><br />
<div class="tn-snippet">Tu meri yaad se ahista guzar. Essay: Aijaz Farruq</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-76294711563488813942023-11-29T23:54:00.005+05:302023-11-29T23:58:28.877+05:30بے رحم وحشی کا خواب - کالم از ودود ساجد<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjTxtAmpCnZyYmzJHnoz6pTbenlaQKB_OiY9bQ-dqBoUh-_fc234CCEhn99EUI38gPfNqfknGT_VJT56h-zneSd9SNtVqgy182CrZO_1hJctnWkolj3GAPkKIG5oGIFk44jUPi_9DGdPD5QWB2QuluXk9uIqJfeRIRFttxjGwkugghYaVvMVogaF7L4GsA/s1600/wadood-sajid-column.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="wadood-sajid-column" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjTxtAmpCnZyYmzJHnoz6pTbenlaQKB_OiY9bQ-dqBoUh-_fc234CCEhn99EUI38gPfNqfknGT_VJT56h-zneSd9SNtVqgy182CrZO_1hJctnWkolj3GAPkKIG5oGIFk44jUPi_9DGdPD5QWB2QuluXk9uIqJfeRIRFttxjGwkugghYaVvMVogaF7L4GsA/s1600/wadood-sajid-column.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">نقطہ نظر </span><span class="nmd-agency"><a href="/search?q=Wadood+Sajid">ایم ودود ساجد</a> </span></div>
<p>
40 ہزار ٹن سے زیادہ بم برسانے کے بعد آخر کار اسرائیل چار روزہ جنگ بندی پر راضی ہوگیا۔ اسرائیل سے آنے والے سرکاری بیانات کے لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر وہ اپنے یرغمال شہریوں کی رہائی کو یقینی بنانے کیلئے اس عارضی جنگ بندی پر راضی ہوا ہے اور فلسطین کے بے قصور شہریوں کی اسے اب بھی کوئی پروا نہیں ہے۔ جنگ بندی کے عملی نفاذمیں ایک دن کی تاخیر بھی ہوئی اور اس دوران اسرائیل کے درندہ صفت فوجیوں نے مزید شدت کے ساتھ معصوم بچوں اور عورتوں پر بم بھی برسائے۔
</p><br />
<p>
اس موضوع سے متعلق مختلف رپورٹوں اور تجزیوں کا سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ اسرائیل کو جنگ بندی پر 'مجبور' کرنے کے اور بھی کئی اسباب وعوامل ہیں۔ان میں حماس کے ذریعہ برسائے جانے والے راکٹوں کی غیر معمولی تعداد اور خود اسرائیل کی اقتصادیات کو پہنچنے والے غیر معمولی نقصان کو دو سب سے بڑے اسباب قرار دیا گیاہے۔
</p><br />
<p>
جنیوا میں قائم حقوق انسانی پر نظر رکھنے والی تنظیم (یورو-میڈمانیٹر) نے دعوی کیا ہے کہ خود اسرائیل کے اعترافی بیان کے مطابق وہ دو نومبر تک غزہ میں 12 ہزار بم برساچکا تھا۔ اس بمباری کی زد میں آنے والے فلسطینیوں کی تعداد کی رو سے یہ حساب بھی لگایا گیا ہے کہ اسرائیل نے فی کس فلسطینی کے سر پر دس کلو گرام سے زیادہ بارود برسایا ہے۔
</p><br />
<p>
اگست 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر امریکہ نے جاپان کے شہر' ہیروشیما اور ناگاساکی' پر جو بارود برسایا تھا اس کا وزن 15ہزار کلو گرام کے قریب تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں تین ہیروشیما اور ناگاساکی کے برابر تباہی مچائی ہے۔ بمباری کے وقت ہیروشیما اور ناگاساکی کا رقبہ 900 مربع کلومیٹر تھا جبکہ غزہ محض 360 مربع کلو میٹر رقبہ پر مشتمل ہے۔ یہ فرق بھی ملحوظ رہے کہ اب سے 77-78سال پہلے وہ عسکری ٹکنالوجی نہیں تھی جو آج ہے۔ لہذا تباہی وبربادی کی جوشدت ہیروشیما اور ناگاساکی میں ریکارڈ کی گئی تھی' غزہ میں اس سے کئی گنا واقع ہوئی ہوگی۔ابھی اس کا تجزیہ کیا جانا باقی ہے کہ غزہ میں اس تباہی کے کیا دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
</p><br />
<p>
رپورٹس کے مطابق اسرائیل بھاری تباہی مچانے والے بم استعمال کرتا ہے۔اس کے پاس 150کلو سے لے کر ایک ہزار کلو تک کے بم ہیں۔ اسرائیل کے وزیر دفاع (جنگ) یووا گالانت نے بتایا ہے کہ اسرائیل نے دس ہزار بم تو صرف غزہ شہر پر ہی برسائے ہیں۔ حقوق انسانی پر نظر رکھنے والی مذکورہ تنظیم نے اور بھی کئی خوفناک حقائق کو دستاویزی شکل دی ہے۔مثال کے طور پر اس نے بتایا ہے کہ اسرائیل نے عالمی سطح پر ممنوع ہتھیار بھی اہل غزہ پر استعمال کئے ہیں۔ان میں کلسٹر بم اور فاسفورس بم شامل ہیں۔ان سے جو آکسیجن پیدا ہوتی ہے وہ تین گنا جلن کا احساس کراتی ہے۔
</p><br />
<p>
رپورٹ کی جزئیات بہت بھیانک ہیں۔ اسرائیل ایک طرف جہاں بڑی تعداد میں اہل غزہ کو مارنا چاہتا ہے وہیں وہ غزہ کی فضا میں ایسے زہریلے کیمکل گھولنا چاہتا ہے کہ زندہ رہ جانے والے فلسطینی موت کی خواہش کریں۔ زیر بحث 48 روزہ جنگ میں اس نے یہی سب کیا ہے۔اس کے باوجود وہ نہ صرف حماس کے بلکہ عام فلسطینیوں کے حوصلے توڑنے میں ناکام رہا۔جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی قید سے چھوٹ کر 39 فلسطینیوں کا جو پہلا گروپ آیا اس کے استقبال کیلئے پورا غزہ سڑکوں پر نکل آیا۔جس غزہ میں 13ہزار سے زیادہ شہداء کے کفن کا خون ابھی اجتماعی قبروں کی مٹی میں خشک بھی نہیں ہوا' وہاں39 فلسطینیوں کی رہائی پر ایسا جشن اس امر کا غماز ہے کہ وحشی درندہ کا 40 ہزار ٹن بارود اہل فلسطین کوان کے اصل مقصد سے نہیں بھٹکا سکا ہے۔۔۔
</p><br />
<p>
اسرائیل اپنی زندگی کے بدترین دور میں ہے۔اس جنگ نے اسے عدیم المثال اور غیر معمولی نفسیاتی'ذہنی' مالی' عسکری' اقتصادی' سیاسی اور سفارتی نقصان پہنچایا ہے۔ 40 ہزار ٹن بارود ہوا میں تیار نہیں ہوجاتا۔ اسرائیل نے اس بارود کو زیادہ سے زیادہ خطرناک اور مضرت رساں بنانے کیلئے اپنے دفاعی بجٹ کا کتنا حصہ خرچ کیا ہوگا اس کا اندازہ اسرائیل کے ریزروبنک کی تشویشات سے لگایا جاسکتا ہے۔رپورٹس کے مطابق اسرائیل کا عوامی فلاحی بجٹ افراتفری کا شکار ہو گیا ہے' اس کی گھریلو شرح نمو گرگئی ہے اوراس کی کرنسی 'شیکل' کی قیمت بہت نیچے آگئی ہے۔
</p><br />
<p>
ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ جنگ کا ماحول ختم ہوتے ہی اقتصادی احوال میں بہتری شروع ہوجائے گی لیکن عسکری امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ2007 کے بعد اسرائیل کوحماس کے ساتھ چار جنگوں کے مقابلہ میں اس بار زیادہ بڑی جنگ کا سامنا ہے۔غزہ اور اسرائیل میں عارضی جنگ بندی کے بعد کے عوامی مناظر بتاتے ہیں کہ یہ جنگ برابری کی سطح پر بھلے ہی نہ لڑی گئی ہو لیکن جنگ کا خاتمہ جب بھی ہوگا نہ صرف برابری کی سطح پر ہوگا بلکہ بعض امور میں اسرائیل کو زیادہ بڑی ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔
</p><br />
<p>
ستمبر 2023 میں نتن یاہونے کہا تھا کہ مشرق وسطی میں اب ایک نئے' پُر امن اور ترقی و خوشحالی کے دور کا آغاز ہونے والا ہے کیونکہ اب خطہ کے ممالک میں اس کی 'قبولیت' بڑھتی جارہی ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ ایک طرف جہاں متحدہ عرب امارات جیسے ملک نے اسرائیل سے مراسم قائم کرلئے ہیں وہیں حکومت سعودی عرب نے بھی یہ انکشاف کیا تھا کہ دونوں ممالک ہر دن ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔
</p><br />
<p>
یہ درست ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے واضح طور پر کہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا حل' اسرائیل سے تعلقات کی استواری کا محور ہوگا۔ لیکن دوسرے ملکوں نے مسئلہ فلسطین کاذکر ہی چھوڑ دیا تھا۔ اسرائیل نے بھی کبھی ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ اب جبکہ عرب دنیا میں اس کی 'قبولیت' میں اضافہ ہورہا ہے تو وہ فلسطین کے مسئلہ کو اولیت کے ساتھ حل کرنے کی نیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اہل فلسطین کو محسوس ہوا کہ ہرچند کہ عرب چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین حل ہو لیکن اسرائیل ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ 7 اکتوبر کو حماس کے غیر متوقع حملہ نے پوری بساط ہی الٹ دی اور جواسرائیل' خطہ میں اپنی روز افزوں قبولیت کے سہارے پورے خطہ کی غیر معمولی ترقی کی ضمانت لے رہا تھا آج وہ خود اپنی اقتصادی بدحالی کے بھنور میں ہے۔۔۔
</p><br />
<p>
یہودی قلم کار 'امی ٹائی بیل' نے لکھا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ کے چارہفتوں میں ہی اسرائیل کے خواب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔ 3 لاکھ 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو محاذ جنگ پر بلانے اور خطرہ کے پیش نظر ڈھائی لاکھ شہریوں سے ان کے مکانات خالی کرانے کے سبب بڑے پیمانے پر کاروبار بند ہوگئے ہیں' مال اور اسٹور خالی پڑے ہیں' بہت سی ایئر لائنز نے اسرائیل کو آنے والی سینکڑوں پروازیں منسوخ کردی ہیں' ہزاروں سیاحوں نے اسرائیل آنے کا منصوبہ ترک کردیا ہے' قدرتی گیس کا کلیدی 'فیلڈ' بند کردیا گیا ہے' زرعی مزدوروں کی عدم دستیابی کے سبب بڑے پیمانے پر فصلوں کو ضائع کردیا گیا ہے اور صنعت کاروں نے دسیوں ہزار نوکروں کوعارضی چھٹی پربھیج دیا ہے۔۔۔
</p><br />
<p>
اسرائیل کو جنگ کے بعد سنبھلنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ 300 بڑے صنعت کاروں نے نتن یاہو اور وزیر خزانہ کوہوش میں آنے کیلئے للکاراہے۔ وزارت خزانہ نے پریشان حال صنعتکاروں کو ایک بلین ڈالر کی مدد کا پروپوزل پیش کیاہے۔ناقدین نے بہت سے گھریلو پروجیکٹس کو منسوخ کرکے اس کا پیسہ اقتصادیات کو پٹری پر واپس لانے کیلئے مختص کرنے کو کہا ہے۔ان پروجیکٹس میں نوآباد کاری کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اسرائیل کے نزدیک نوآبادکاری کاشرارت آمیز منصوبہ بہت اہم ہے۔غزہ اور مغربی کنارہ سے متصل نوتعمیر بستیوں میں ایسے شرانگیز یہودیوں کو بسایا جاتا ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔
</p><br />
<p>
اسرائیل میں'تمار نیوچرل گیس فیلڈ' کا کام بھی روک دیا گیاہے۔ اینرجی ایکسپرٹ امت مور نے کہا ہے کہ اس فیلڈ کا کام روک دئے جانے سے ہر مہینہ 200 ملین ڈالر کا نقصان ہوگا۔ گھریلو انڈسٹری یا اسٹارٹ اپ میں 2021 میں27 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ 2022 میں وہ تقریباً نصف رہ گئی۔اس سال کے نصف اول میں سرمایہ کاری 68 فیصد گرگئی ہے۔عدلیہ کے پر کترنے کی نتن یاہو کی کوششوں کی بھی صنعتکاروں نے زبردست مخالفت کی ہے۔ نتن یاہو کی حکومت کہتی ہے کہ غیر منتخب عدلیہ کے پاس بہت زیادہ طاقت ہے۔لیکن عدلیہ کی آزادی کے حامی عدلیہ کی طاقت کو حکومت کو قابو رکھنے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں۔۔۔
</p><br />
<p>
اس جنگ کیلئے حماس ہی نہیں بلکہ بیشتر ممالک بھی امریکہ کو ہی ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ بیشترعرب ممالک میں اسی کے خلاف عوامی غصہ پھیلا ہوا ہے۔ صدر بائیڈن نے جس طرح نتن یاہو کو بمباری پر اکسایا اور جس طرح اس کی مادی اور عسکری مدد کی اسے مظلوم فلسطینی فراموش نہیں کرپائیں گے۔ امریکہ' اسرائیل کو ہر سال 3.8 بلین ڈالر دفاعی بجٹ میں مدد کیلئے دیتا ہے۔اس جنگ کیلئے بھی اس نے خطیر رقم کی مدد منظور کی ہے۔لیکن اس سب کے باوجود حماس نے جس پیمانے کا مقابلہ کیا ہے' اس نے اسرائیل کے ہوش اڑادئے ہیں۔۔۔
</p><br />
<p>
مختلف رپورٹوں کے مطابق اس وقت حماس کے پاس 30 تا 40 ہزار تربیت یافتہ اور 'مقصد کے تئیں مکمل طور پر وقف' جنگجو ہیں۔ اس جنگ کا حساب کتاب رکھنے والے ماہرین نے بتایا ہے کہ حماس نے ابھی تک اسرائیل پرسات ہزار راکٹ برسائے ہیں۔ان میں بہت سے راکٹ نشانوں پر گرے ہیں اور اندرون اسرائیل' یہاں تک کہ راجدھانی تل ابیب میں بھی ان راکٹوں نے بے نظیر نقصان پہنچایا ہے۔ان میں سے اکثر راکٹوں کو اسرائیل کے دفاعی سسٹم 'آئرن ڈوم' نے فضا میں ہی مار گرایا۔ایک راکٹ کو مار گرانے پر 60 ہزار ڈالر کا خرچ آتا ہے۔اسرائیل کب تک اتنی مہنگی جنگ لڑسکتا ہے؟ اس سوال پر خود اندرون اسرائیل' سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کے درمیان بڑی بے چینی ہے۔
</p><br />
<p>
ایک بڑا سوال اسرائیل اور اس کے حامیوں کے سامنے یہ ہے کہ حماس کو اس جنگ میں کتناجانی نقصان پہنچا؟ ان کیلئے اس کا جواب انتہائی مایوس کن ہے۔ابھی تک حماس کے کسی قابل ذکر لیڈر تک اسرائیل کی فورسز نہیں پہنچ سکی ہیں۔ کسی قابل ذکر لیڈر کے مارے جانے کی بھی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔ اس کے برخلاف بڑی تعداد میں اسرائیل کے فوجی مارے جاچکے ہیں' سو سے زائد قیمتی ٹینک اڑادئے گئے ہیں۔ ایک 'میرکافا' ٹینک کی قیمت 35 لاکھ ڈالر ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ کے میدان جنگ میں ہی حماس نے اسرائیل کو کتنا مالی نقصان پہنچادیا ہے۔
</p><br />
<p>
کرنل (ریٹائرڈ) راجیو اگروال نے لکھا ہے کہ حماس سے اسرائیل کی طاقت کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اگر حماس نے اسرائیل کو نفسیاتی' اقتصادی' سلامتی اور انٹلی جنس کے محاذ پر اتنی بڑی شکست دی ہے تو اسرائیل کے مستقبل کی صورت گری کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔۔۔۔
</p><br />
<p>
یہ مرحلہ عرب دنیا کیلئے بھی آسان نہیں ہے۔ عرب حکمرانوں نے پوری دنیا کے انصاف پسندوں کو مایوس کیا ہے۔وہ 57 ہوکر محض ایک کے سامنے کمزور اور بے بس ثابت ہوئے ہیں۔اگر یہ مرحلہ ان کیلئے ایک امتحان تھا تو اس امتحان میں بھی وہ ناکام ہوگئے ہیں۔
</p>
<div style="text-align: left;">***<br />
(بشکریہ: <a href="https://www.facebook.com/wadood.sajid.9/posts/" target="_blank">کالم ردعمل</a> / روزنامہ انقلاب / 26 نومبر 2023ء)
<br />
ایم ودود ساجد<br />
موبائل : 9810041211<br />
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative<br />
</div>
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhc0OnRLQ5FpMMGiNVqQTgCPBfhmfGaTeRtv3ibK9gAxOrWP5TGIZsrvmKWtBSi8hBlnSzBRrX7IvEo-LfjiERk3z0zHcG-6AI__OdIG577f_LYEx0QfvB-a6pQAPLEWjv0citQkjrWrKZoGuphwOtPBcNUVvpdd2IKurCUYqhyZbJtSLFeSsA1NWzr/s1600/wadood-sajid.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 0; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhc0OnRLQ5FpMMGiNVqQTgCPBfhmfGaTeRtv3ibK9gAxOrWP5TGIZsrvmKWtBSi8hBlnSzBRrX7IvEo-LfjiERk3z0zHcG-6AI__OdIG577f_LYEx0QfvB-a6pQAPLEWjv0citQkjrWrKZoGuphwOtPBcNUVvpdd2IKurCUYqhyZbJtSLFeSsA1NWzr/s1600/wadood-sajid.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">ایم ودود ساجد</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<div class="tn-snippet">
The dream of the merciless barbarian. - Column: M. Wadood Sajid.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-81301480669382190842023-11-09T10:00:00.001+05:302023-11-09T10:00:27.472+05:30سخت ارزاں ہے گرانی میری : کالم از محمد ہاشم خان<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgU5eNdOr1FNoEnwWCcX503zFU14jSLyn4dsHoAoKsYi-pmNeiEsNdjq5j8z721addXs6w-FG20R3VT8oom-9ZG7qLMQKV7Ee_4mP5EF1wykRMzW8esG3ZT_sdbE5r5DQA5CL0gUqOw-E6DZwtCWk68Gdu_iiUD2HJ-hbrmjqd2_D5UOVpzVOhpmWLgfJw/s1600/palestine-israel-conflict-sub-continent-muslims-dilemma.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="palestine-israel-conflict-sub-continent-muslims-dilemma" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgU5eNdOr1FNoEnwWCcX503zFU14jSLyn4dsHoAoKsYi-pmNeiEsNdjq5j8z721addXs6w-FG20R3VT8oom-9ZG7qLMQKV7Ee_4mP5EF1wykRMzW8esG3ZT_sdbE5r5DQA5CL0gUqOw-E6DZwtCWk68Gdu_iiUD2HJ-hbrmjqd2_D5UOVpzVOhpmWLgfJw/s1600/palestine-israel-conflict-sub-continent-muslims-dilemma.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">مضمون </span><span class="nmd-agency">محمد ہاشم خان، ممبئی </span></div>
<p>
گذشتہ کچھ ایام کوئی تبدیلی لائے بغیر بہت تیزی سے گزرے ہیں۔رات دن گردش میں رہے ضرور لیکن ہوا کچھ نہیں۔ معصوم فلسطینی بچوں کے قتل کا ابھی ٹھیک سے ماتم بھی نہیں کر پائے تھے، ملبوں سے لاشوں کو نکالنے کا سلسلہ ابھی بند نہیں ہوا تھا کہ شکیرا نے ہُمُک ہُمُک کر، تھرک تھرک کر، یوں کولہے مٹکائے کہ ہمارے، اخوانیوں، رافضیوں اور فلسطینیوں سب کے مسائل چشم زدن میں حل ہوگئے، ترسے ہوئے عابدوں کے ایمان تازہ ہوگئے، بادیہ نشینوں کے کمہلائے ہوئے زرد گھوڑے ہنہنانے لگے، مُردگانِ خاک غیرت سے جی اٹھے، آتش پرستوں کی بانچھیں کھل اٹھیں، مردِ بیمار کے بھوکے معتقدین کو نئی کمک مل گئی، جہانِ سراب میں سرگرداں ساربانوں کو سمت مل گئی، اب اُن کی ہفوات و مخافات کا محور اسرائیل کے بجائے عرب کے شتربان تھے۔ ایران، ترکی، مصر اور پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کہاں اٹھ بیٹھ رہے ہیں، کہاں ہگ موت رہے ہیں، اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ آہوانِ حرم اپنے ختن میں چلے گئے سو ہم بھی وطن عزیر کی خاک آلود تعفن آمیز گلیوں میں لوٹ آئے جہاں ہر سو اور ہر قسم کی مفلسی پسری ہوئی ہے۔اب اگر فلسطینی مرتے ہیں تو مرنے دیں، کیا فرق پڑتا ہے، کوئی آج سے مر رہے ہیں؟ گزشتہ ستر سال سے مر رہے ہیں، کوئی ہم سے پوچھ کر مر رہے ہیں؟ اپنی مرضی سے مر رہے ہیں سو ہمیں ان کی مرضی کا احترام کرنا ہے۔ ہمارے اوپر ان کا ایسا کوئی احسان نہیں ہے کہ ان کے غم میں اپنے شب و روز تباہ کر لیں، ہمارے اپنے غم کون سے کم ہیں کہ ایک اور غم کو دل سے لگائے پھریں؟ ہمارے اپنے اندر بھی کئی فلسطین آباد ہیں، روز مرتے ہیں، روز جیتے ہیں، روز کچھ نہ کچھ مسمار ہوتا ہے، روز ایک آدھ خشت کم ہوتی ہے، ایک آدھ بالشت دیوار روز گرتی ہے، دھول اڑتی ہے، اڑ کر وہیں بیٹھ جاتی ہے، ہمسائے کو کچھ خبر نہیں، دوست احباب کو ضرورت نہیں۔ ہمارا فلسطین بھی مرتا ہے ایسے ہی جیسے فلسطینی مرتے ہیں۔ بس ایک فرق ہے۔ ہمارے مرنے کا کوئی غم نہیں ہوتا کیوں کہ ہم مرنے کی طرح نہیں مرتے، ہم گھٹ گھٹ کر مرتے ہیں، کُڑھ کُڑھ کر مرتے ہیں اور وہ یوں مرتے ہیں کہ سر زمین خلیل اللہ کو لالہ زار کردیتے ہیں سو ہمیں فلسطینیوں کے مرنے کا نہیں اپنے رائگاں جانے کا غم ہونا چاہئے اور ہمیں اپنے مرنے کا غم کبھی نہیں ہوگا کیونکہ ہم حقیقت سے پرے، سراب میں جینے والے وہ بے چہرہ ہجوم ہیں جو اپنی خیالی دنیا سے کبھی باہر نہیں نکلتا، اس بے وقعت ہجوم کے اندر اپنی ترجیحات متعین کرنے کا شعور نہیں ہے، خود کو طاقت میں تبدیل کرنے کی فراست نہیں ہے، ہر جگہ ناصیہ فرسا ہے، ہر سو ذلیل و خوار پھرتا ہے، ہجومی تشدد میں ایک آدمی مرتا ہے تو پتلون گیلی کر بیٹھتا ہے، اور بات کرتا ہے غیرت کی، حمیت کی، عزت و ناموس کی، احتجاج کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن فلسطین کو اسرائیل کے سوئے استبداد سے ضرور آزاد کرائے گا۔ اسے جذبۂ خیر نہیں ہذیانی جہالت کہتے ہیں۔ اور پھر ہجومی تشدد میں مرنے والے کی شان بھی ملاحظہ فرمائیں؛ دیکھیں کہ اس کی موت کس قدر قابل دید اور قابل عبرت و نصیحت ہوتی ہے۔ وہ گڑگڑاتا ہے، پاؤں پڑتا ہے اور بالآخر ایک ذلت بھری موت مر جاتا ہے، وہ پیرہنِ خاک ہوتا ہے، ہم انا للہ پڑھتے ہیں، المسلم اخوالمسلم کا حق ادا کرتے ہیں اور اپنی خساست و روباہی میں مگن ہو جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اس قابل نفریں موت پر سو بار لعنت بھیجیں، یہ راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے، مسلمان خطرے میں ہے۔ اسلام نہ کبھی خطرے میں تھا اور نہ قیامت تک خطرے میں رہے گا، لیکن ہاں اس قسم کا مسلمان ہر پل خطرے میں رہے گا اور دوسروں کے لیے بوجھ بنا رہے گا۔ایک آزاد ملک میں بیس کروڑ مسلمان اگر خطرے میں ہے تو یہ50 لاکھ فلسطینیوں کی مدد کیسے کرے گا؟ یہ ہے وہ بنیادی حقیقت جسے ہندوستان کے جملہ مسلمانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور جس دن وہ اس حقیقت کو سمجھ جائے گا وہ عزت سے اپنے جینے کا سامان بھی فراہم کرلے گا اور دوسروں کے کام بھی آ جائے گا۔
</p><p>
فلسطین کے حوالے سے میرا موقف بہت واضح ہے اور وہ یہ کہ یہ مسئلہ طاقت نے پیدا کیا تھا اور طاقت ہی اسے حل کرے گی۔ باقی سارے فلسفے غیر مطمئن ضمیر کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ فی الحال اس مسئلے کے حل کا کوئی اور امکان موجود نہیں ہے۔ مغربی استعمار کے پاس طاقت تھی سو انہوں نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نام کی میخ ٹھونک دی اب اگر آپ کے اندر طاقت ہے تو آپ ایران توران کرنے کے بجائے اسے اکھاڑ پھینک دیں۔ اب آپ کہیں گے کہ دنیا کا موجودہ نظام جس جیو پولیٹکس کے تحت چل رہا ہے اس میں ہر ملک کی اپنی ایک سرحد متعین ہے، اس کی خلاف ورزی اس ملک پر حملہ متصور ہوگا تو اس کا بس ایک ہی جواب ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت ہے تو سارے اصول آپ کے ہیں اور اگر طاقت نہیں ہے تو پھر سارے اصول آپ کے لیے ہیں۔ ویت نام، افغانستان، عراق اور لیبیا وغیرہ پر امریکی حملے اس کی بین مثالیں ہیں۔ لہٰذا ہذیان
</p><p>
بکنے سے کہیں بہتر ہے کہ ساری توانائی خود کو ایک گرانقدر سرمائے میں تبدیل کرنے پر صرف کریں۔ جذباتی ہونا بذات خود ایک مسئلہ ہے اس وقت تک جب تک کہ آپ کے اندر اُسے بطور ہنر استعمال کرنے کا فن نہیں پیدا ہوتا اور یہ فن اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آتا۔ لہٰذا جذبات کو طاقت میں تجسیم کرنے کے مراحل کو سمجھنا ہوگا اور یہ بات پدرم سلطان بود کے سائے میں جنما ہوا مسلمان نہیں سمجھے گا۔ مسئلے کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ممبئی کے مضافات میں واقع ایک مسلم اکثریتی علاقہ ممبرا کو لے لیں اور اسے دنیا میں ہر اس جگہ پر منطبق کر دیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ 2012 میں ممبرا کی کل آبادی 9 لاکھ تھی، اب 2023 میں یہ آبادی کم از کم 16 لاکھ ہوگئی ہوگی۔ مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن آج تک کوئی مسلم یہاں کا ایم ایل اے نہیں ہو سکا۔ جس دن آپ کو اس کی وجہ سمجھ میں آ جائے گی آپ یقیناً فلسطینیوں کی مدد کرنے کے قابل ہو جائیں گے؛ تب تک صرف 'لا مساس لا مساس' کہیں۔
</p>
<div style="text-align: left;">***<br />
محمد ہاشم خان، ممبئی
</div>
<br />
<div class="tn-snippet">The Palestine Israel bloody conflict and the dilemma of sub-continent Muslims<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-20118997652122975452023-10-15T19:59:00.003+05:302023-10-15T19:59:22.462+05:30خواتین کیرالا کی بحیثیت اساتذہ اردو میں اہم خدمات : تجزیہ و تذکرہ<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgP3YxIqedJcw9M1uUH9JCmePauoagXoLAgdSiQ-xd-vVUqemQuFoY1nikO_6t7Pwe6LyQdJTwu8NX2lrBlnnxwwxHxYeF4slbuh7_tyqnFbv9jGvVhBCxbvEJg-_LBGg6D4njJcj8n-isfCVKkZuvm1emS70SsTt2ZOu0eWqUFSFRZc4R8XyGDhytGMiM/s1600/women-teachers-kerala.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="women-teachers-kerala" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgP3YxIqedJcw9M1uUH9JCmePauoagXoLAgdSiQ-xd-vVUqemQuFoY1nikO_6t7Pwe6LyQdJTwu8NX2lrBlnnxwwxHxYeF4slbuh7_tyqnFbv9jGvVhBCxbvEJg-_LBGg6D4njJcj8n-isfCVKkZuvm1emS70SsTt2ZOu0eWqUFSFRZc4R8XyGDhytGMiM/s1600/women-teachers-kerala.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">مضمون </span><span class="nmd-agency">محمد مستقیم احمد اشرفی (استاذ فقہ و افتاء، جامعہ دارالہدی، کیرالا) </span></div>
<p>
سماج میں اساتذہ کا کردار ہمیشہ قابل تعریف اور اہم مانا جاتا ہے اس کے بغیر معاشرہ کی بہترین تشکیل ممکن نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ "ماں کا گہوارہ" بچہ کا پہلا مدرسہ یا اسکول ہوتا ہے جس سے اس کو سمجھنے اور سیکھنے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ ماں جتنی عمدہ کردار کی ہوگی بچوں میں اسی طرح کا اثر وقوع پذیر ہوگا گویا یہ کہنا درست ہوگا کہ ایک بچے کو جتنا بہتر ایک عورت سمجھ اور سمجھا سکتی ہے اتنا دوسرا نہیں سمجھ سکتا ہے مگر چونکہ تعلیمی و تدریسی پیشہ عموما مرد ہی اختیار کرتے تھے لہذا عورتوں کا پیشہ وارنہ طور پر تدریسی خدمات سے جڑنا سماج میں عام نہیں تھا یعنی ایک زمانہ تک تعلیم و تدریسی خدمات مردوں تک محدود تھا یا محدود سمجھا جاتا تھا مگر وقت کے ساتھ لوگوں کی ان دقیانوسی فکروں میں تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہر میدان میں عورتیں مرد کے مساوی کھڑی ہیں خاص طور سے تعلیم کے میدان میں بہ حیثیت استاد مردوں کے بہ نسبت خواتین کی اچھی خاصی تعداد اس پیشہ جڑ چکی ہیں اور مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کو استاد کی حیثیت سے ترجیح بھی دی جا رہی ہے۔ جبکہ یہی چیزیں کچھ زمانہ قبل معیو ب سمجھی جاتی تھیں۔
</p><br />
<p>
چنانچہ جب 1970ء کے بعد کیرالا میں اردو کی تعلیم کے لیے سازگار ماحول تیار ہوا تو مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی اردو کی تعلیم و تدریس میں وافر حصہ لیا، چونکہ اردو کی تدریسی میدان میں خواتین کے لئے مستقبل میں بہترین امکانات روشن تھے اس لئے کیر ا لا کی بہت سی خواتین نے اولا اردو میں بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کی جس طرح دوسر ی عنوانات میں بی اے۔ پی چی۔ ایم فل۔ پی ایچ ڈی وغیرہ کے حصول کی سنجیدہ کوشش ہوئی اسی طرح اردو سبجیکٹ کو خواتین کیرالا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو کی تعلیم یافتہ خواتین کی ایک جمعیت تیارہوگئی جس نے کیرالا کی اسکولوں کالجو ں اوریونیورسٹیوں میں بہ حیثیت ٹیچرس لکچررس اورپروفیسر س کے اپنی وجود کا لوہامنوایا اور آج جگہ بہ جگہ پرائمری سے ہائی ایجوکیشن تک عورتیں بہ حیثیت استاد موجود ہیں۔ خواتین میں سے چند مشہور و معروف کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
</p><br />
<p>
ڈاکٹر صفیہ بی صاحبہ۔ خواتین کیرالا کی پہلی اعلی تعلیم یافتہ خاتون صفیہ بی ہیں انہوں نے کالی کٹ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ڈاکٹر صفیہ بی بن گئیں۔ انہوں نے اپنی تدریسی خدمات کی ابتدا انجمن اردو کالج تلششیری سے کیا بعدازاں فاروق کالج کالی کٹ میں لکچرر کی حیثیت سے تقریبا 32 سال تک خدمات انجام دیں۔ پھر 1996ء میں شری شنکر آچاریہ سنسکرت یونیور سٹی کوئیلانڈ ی ریجنل سینٹر میں صدرشعبۂ اردو کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا اور 2010ءمیں وہ وظیفہ یاب ہوگئی۔ محترمہ صفیہ بی۔ کاشمار ایک عمدہ محققین میں ہوتا ہے جس وقت یہ شری شنکراچاریہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی صدر تھیں ان کے تحت کیرالا کے بہت سے اعلی تعلیم یافتہ شخصات نے پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریاں مکمل کی ہیں۔
<br />
جیسے ڈاکٹر "کے پی شکیلہ"صدرشعبہ اردو، ملاپور م کالج۔ ڈاکٹر "ضیاء الرحمن مدنی" استاد شانتا پورم۔ ایم کے ڈاکٹرمحمدسلیم، ڈاکٹر قمرالنساء وغیرہ۔ آج بھی وہ اردو محققین کی گاہے بگاہے رہنمائی کرتی ہیں۔ ان کی رہنمائی میں ڈاکٹریٹ حاصل کرنے والے طلباء اردوکی تعلیم وتدریس میں اعلی مقام پر فائز ہوکر کیرالا کے مختلف مقا ما ت میں اردوکی ترقی وترویج کے لئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ محترمہ صفیہ صاحبہ نے اردو کی بہت گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ ایک اچھی شاعرہ ،ادیبہ ہونے کے ساتھ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں ان کے علاوہ وقتا فوقتا سیمناروں اور رسالوں میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے اور عوام سے داد وتحسین بٹورتے رہتے ہیں۔
</p><br />
<p>
ڈاکٹر کے پی شکیلہ صاحبہ۔ اردو میں اعلی تعلیم یافتہ خواتین کیرالا میں ایک نام محترمہ شکیلہ کے ،پی، کا ہے جوگورنمنٹ کالج ملاپورم میں صدرشعبۂ اردو کی حیثیت سے اردوکی خدمات انجام دے رہی ہیں صدارت کے ساتھ اردو لائبریری کی ذمہ داری بھی سنبھالتی ہیں اور یقینا یہ دونوں ذمہ دار یاں محترمہ بہ حسن وخوبی سے نبھارہی ہیں حسب ضرورت بچوں کے لئے مواد تلاش کر انہیں امتحانات کے موقعہ پرمعاونت بھی کرتی ہیں جس سے بچوں میں ان کی ایک ممتاز حیثیت ہے۔ اب تک ان کے سینکڑوں شاگرد ہوچکے ہیں جو کیرالا کے مختلف مقامات پر اردو کی ترقی میں معاو ن ثابت ہورہے ہیں۔ موصوفہ شکیلہ صاحبہ نے ڈاکٹر صفیہ صاحبہ کی نگرانی میں شری شنکرآچاریہ یونیورسٹی سے کیرالا کی مشہورناول نگار زلیخا حسین کی ناول نگاری پر" پی ایچ ڈی" کی ہے اور یہ بھی ان کی خصوصیت ہے کہ زلیخاحسین کی تقریبا ساری ناولیں انہیں کے پاس موجود ہیں جس میں راقم کی ڈاکٹر شکیلہ صاحب نے بھرپور مدد کی ہے اور ہر طریقے سے انہوں نے کیرالا کے متعلق محررہ مختلف مقالات کو مہیاکرایا ہے میں ان کا تہہ دل سے ممنون مشکورہوں کہ انہوں نے کیرالا میں اردوکی تحقیق میں اخلاص وخندہ پیشانی سے معاونت کی۔ ان جیسی منکسر المزاج کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو اعلی عہد ہ پر فائز ہونے کے بعد بھی ایک انجان آدمی کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیارہوں۔
</p><br />
<p>
ڈاکٹر سبیدہ موژکل صاحبہ۔ خواتین کیرالا میں اردو کی ترقی میں اہم رول اداکرنے والیوں میں ایک نام سبیدہ موژکل صاحبہ کا ہے انہوں نے تقریبا ۹ / سال تک ہندی ٹیچرکی حیثیت سے ایرنا کولم ےیوپی اسکول (Upper Primary) میں خدمت انجام دی پھر 2013ءمیں گورنمنٹ کالج ملاپورم میں لکچرر کی حیثیت سے تقرری ہوئی اردوکی ترقی کے کاموں میں ان کی شرکت رہی ہے شعبہ اردو کی تمام تقریبات میں شریک ہوتی ہیں اور اپنی طرف سے اردو کی بھرپور ترقی میں معاونت کرتی ہیں ان کے علاوہ (SCERT)کی کتابوں کی تیاری میں بھی ان کی شرکت رہتی ہے۔ سبیدہ صاحبہ کالج کے women cellکی رکن بھی ہیں جو خاص طورسے لڑکیوں کی ترقی کے لئے خدمات انجام دیتی ہیں۔ نیز Program Aditional skill Acquicition (ASAP) کی ایک ممبر بھی ہیں۔
</p><br />
<p>
سی ایچ ممتاز صاحبہ۔ خواتین کیرالا میں ایک نام ممتاز سی ایچ کا ہے جو وینگراvengraایچ ایس ایس میں ٹیچر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی تھی بعد ہ 2013ء میں گورنمنٹ کالج ملاپورم میں تقرری ہوئی اوریہاں اردوکی تر قی کے لئے سرگرداں ہیں۔
</p><br />
<p>
سمینہ صاحبہ۔ سمینا بی صاحبہ کا نام بھی اردوکی خدمات میں اہم ہے یہ تلشیری برنن کالج کے صدر شعبہ اردوکی حیثیت سے یہاں اردوکی تعلیمی و تدریسی کاموں مصروف ہیں جمیلہ صاحبہ۔
</p><br />
<p>
جمیلہ صاحبہ۔ یہ بھی اردوکی خدمات میں پیش پیش رہتی ہیں GHS EDAKKARA میں ٹیچر کی حیثیت سے تدریسی کام کی ابتدا کی پھر رفتہ رفتہ اردو کی ترقی سے وابستہ ہوگئیں 2006ءHSS میں کام کرتے وقت Punarppa UP School کے طلباء کے لئے جھلک نامی رسالہ میں بچوں کے لئے چھوٹی چھوٹی کہانیاں شائع کیں ان اسکولوں کے ماتحت ہر سال اردو کلب کی ماتحت میں پروگرام منعقد ہوتے ہیں جس میں SSLC PLUS 2کے طلباء میں اردو سے دل چسپی پیداکرنے کے لئے "غزل پروگرام" میگز ین ورکشاپ وغیرہ کا انقعاد کرایاجاتاہے جس میں جمیلہ صاحبہ کی معیت میں UP HSSکی ٹیچر س کی خدمات بھی قابل تعریف ہے۔
</p><br />
<p>
جولی سوفیاصاحبہ۔ جولی سوفیا ضلع ترشور میں ٹیچرکی حیثیت سے خدمات انجام دیتی ہیں۔ 1990ء میں ارپورہائی اسکول میں ٹیچرکی حیثیت سے کام کرتی تھی اور گھر پر "ادیب فاضل" کی سلبس کے تحت اردو کلاس بھی لیتی تھی SRG DRGکی حیثیت سے ITکے طلباکو بھی پڑھا تی ہیں وہیں ساتھ ہی اردوکی ترقی کے لئے بھی اپنی خدمات انجام دیتی ہیں۔
</p><br />
<p>
حسینہ صاحبہ۔ خواتین کیرالا میں ایک خاتون حسینہ صاحبہ ہیں جو 1998ء میں کاسرکوڈ کےUPاسکول میں بحیثیت ٹیچر خدمات انجام دیتی تھی بعد ازاں 1999ء میں HSA میں تبادلہ ہوا انہوں نے مختلف شعبہ میں کام کرتے ہوئے SRG DRGکے لحاظ سے اردوکے لئے بھی کوشش کی ہے 2010ء میں گورنمنٹ برنن کالج میں اردوداں حضرات کے لئے آئی ٹی اور نفسیات میں بھی کلاس لیتی تھیں۔
</p><br />
<p>
انہی جیسی کاسرکوڈ میں اردوٹیچر کے طور پر کام کرنیوالی "سجادہ صا حبہ"۔ ضلع کنورسے" حفصہ لتا صاحبہ"ضلع کالی کٹ سے زلیخا صاحبہ، شکیلت بی بی، مکم کے" سروجنی" تانور سے کے بی بی، ماہی سے کے سفرت، وڈولی کی رقیہ، اشا، پانکاڈ کے" سمگلا دیوی، وغیرہ کیرالا وہ خواتین ہیں جو اردو کی ترقی میں کچھ نہ کچھ خدمات انجام دیتی رہتی ہیں اور اردو کی ترقی کے لئے ذاتی طور سے تھوڑی بہت کوشش کرتی رہتی ہیں۔
</p><br />
<p>
اردوکے امتحانی بیاضات کی چیکنگ paper valuation میں 22 اساتذہ شامل ہوئے جن میں 8 خواتین تھیں۔
<br />
نفیسہ صاحبہ۔ کا تعلق ترشورسے ہے یہ بھی اردو ٹیچرکے طور خدمات انجام دیتی ہیں SCERTکے ورک شاب میں بھی شامل رہتی ہیں آبشار نامی رسالہ میں طلباکے فنی قسموں کو شائع کیا تھا ترشور میں ان کے کافی شاگرد ہیں۔ کیرالا کی خواتین کا اردوکی ترقی میں مختلف طریقے سے معاونت رہتی ہے بہت سی عورتیں باقاعدہ اسکولوں کالجوں میں اردو زبان کی تعلیم دیتی ہیں اور بہت سی خواتین اردو سے متعلق ورکشاب میں حصہ لیتی ہیں وہیں بہت سی خواتین اردو میں منعقد پروگرام کی حصہ رہتی ہیں بعض اسکولوں کالجوں میں اردو کے متعلمین کچھ میگزین رسالہ تیارکرتے ہیں ان میں خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔
</p><br />
<p>
بہر صور ت اردوکی ترقی میں خواتین کیرالا کہیں سیدھے طور سے اور کہیں کسی وسائل سے شامل رہتی ہیں۔ ان میں بہت سے خواتین ایسی ہیں جن کا کہیں کوئی اردو کا اعلی تعلیم یافتہ شاگر د تذکرہ کردیتا ہے اور کہیں کوئی چھوڑ دیتا ہے البتہ جو کسی بڑے عہد ے پر اردو کی خدمات میں پہنچ جاتی ہیں ان کا ذکر تو عام ہوجاتا ہے اور جو اعلی عہد ے پر نہیں پہنچ پاتی ہیں وہ ذاتی طو ر پراردوکی ترقی میں کافی کوشاں ہوتی ہیں پر ان کانام عوام میں مشہور نہیں ہوپاتاہے۔
</p><br />
<p>
ان حالات میں جب ہم کیرالا کے مختلف ضلعوں کا اردوکی ترقی میں خواتین کیرالا کی حصہ داری کا مطالعہ کرتے ہیں توہم پاتے ہیں جہاں جہاں اردو کا چلن ہے وہاں وہاں بلا تفریق مذہب وملت عورت ومرد دونوں حضرات کا اردوکی ترویج وترقی میں اہم رول رہاہے بس کوئی شہرت کی اچائی کو پالیتاہے اور کوئی بھول بھولیاکی نذر ہوجاتاہے۔ مختصر طور سے ان میں سے کچھ کا نام پیش کیا جارہا ہے۔ UP اسکولی سطح پر، سودہ ،، پالاکاڈ، رمابائی ، زینب ، آمنہ ،تانور۔ مریم ،پروینا۔ پیرندل منا۔ سودہ ،ملاپورم۔ جمیلہ منجیری۔ آمنہ ،کنور۔ نفیسہ ترشور۔ جولی کٹی تومس،جولی سوفیا، ترشور۔ حسینہ، سجادہ، کاسرکوڈ۔ قمرالنساء کالی کٹ۔ اعلی تعلیم یافتہ خواتین جنہوں نے مختلف عنوانا ت پر اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ شانو پروین (راجیندرسنگھ بیدی کے افسانوں میں عورت کاتصور ) قمرالنساء (کرشن چند ر کے افسانو ں میں سماجی مسائل )مبینہ بی ،(پت جھڑ کی آواز )شکیلہ کے پی۔ (زلیخاحسین کی ناول روح کے بندھن کا تجزیاتی مطالعہ )ودیاپی ، (جوگیندرپال کے افسانوی مجموعے کھودو بابا کا مقبرہ: ایک تجزیاتی مطالعہ) شمیہ بانو، (مشتاق احمدیوسفی بہ حیثیت مزاح نگار) سمیہ،او، (مولانا ابوالکلا م آزاد حیات اور خد ما ت ) وغیرہ نے سری شنکراچاریہ یونیورسٹی سے ایم فل وغیرہ کی ڈگری پانے والی خواتین ہیں۔
</p>
<div style="text-align: left;">***<br />
محمد مستقیم احمد اشرفی
<br />
Darul Huda Islamic university, Malappuram, Kerala
<br />
ای-میل: Faizyma[@]gmail.com
</div>
<br />
<div class="tn-snippet">Women teachers in Urdu teaching in Kerala. By: Mohd Mustaqeem Ahmad Ashrafi<br />
</div>
TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-10816522711924530592023-10-10T17:37:00.004+05:302024-01-08T15:54:43.384+05:30ریاست تلنگانہ کے دس مسلم اکثریتی اسمبلی حلقے<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZDz7GSoPNvn2A5Xc-jzcx9iPMoLXuNKCxEm5W8YWX_-AFLun7fI_umYPoDTcJkAZlJct3LdNiAjOJnsPZ3rqI38OokG0FyXPFukkelq65sptaC0dP_ZR2kQXfgHLdkhE34OBkk48nHQ3rJw-xtaHyrmjhnd9-VYQcx3Kqo93EMIs1ItTcrePTxQiJy4g/s1280/telangana-muslims.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="telangana-muslims-majority-assembly-constituencies" border="0" width="600" data-original-height="720" data-original-width="1280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZDz7GSoPNvn2A5Xc-jzcx9iPMoLXuNKCxEm5W8YWX_-AFLun7fI_umYPoDTcJkAZlJct3LdNiAjOJnsPZ3rqI38OokG0FyXPFukkelq65sptaC0dP_ZR2kQXfgHLdkhE34OBkk48nHQ3rJw-xtaHyrmjhnd9-VYQcx3Kqo93EMIs1ItTcrePTxQiJy4g/s600/telangana-muslims.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">رپورٹ </span><span class="nmd-agency">مکرم نیاز </span></div>
<p>
جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ کا قیام سابقہ متحدہ ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم کے نتیجے میں 2/جون/2014ء کو عمل میں آیا تھا۔
<br />
تلنگانہ کے تیسرے ریاستی انتخابات (پہلا الیکشن: 2014ء میں اور دوسرا الیکشن: 2018ء میں) کا اعلان ہو چکا ہے۔ 7/نومبر/2023ء کو رائے دہی ہوگی اور نتائج کا اعلان 3/دسمبر/2023ء کو کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ریاست تلنگانہ جملہ 119 اسمبلی نشستوں اور 17 پارلیمانی نشستوں پر مشتمل ہے۔
<br />
متحدہ ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم (جون 2014ء) کے بعد، دس اضلاع کے سہارے نئی ریاست "تلنگانہ" کو قائم کیا گیا تھا۔ دو سال بعد یعنی اکتوبر 2016ء میں متذکرہ دس اضلاع کو تقسیم کرتے ہوئے <a href="/2018/07/list-of-districts-in-telangana.html">جملہ 31 اضلاع</a> بنائے گئے، بعد ازاں فروری 2019ء میں کچھ ضلعوں کی مزید تقسیم کے بعد دو نئے ضلعے (ملوگو اور نرائن پیٹ) قائم کیے گئے۔ اس لحاظ سے موجودہ تلنگانہ جملہ 33 اضلاع پر مشتمل ہے۔ اس تحریر کے ساتھ 33 اضلاع پر مشتمل تازہ ترین نقشہ منسلک ہے۔
</p><br />
<p>
33 اضلاع میں دس ضلعے ایسے ہیں جہاں ہندوستان کے سب سے بڑے اقلیتی طبقہ 'مسلمان' کی آبادی دس فیصد سے زائد ہے۔ انہی دس اضلاع کا تعارف منسلک نقشے میں دیا گیا ہے۔
</p><br />
<p>
1: حیدرآباد - Hyderabad
<br />
اسمبلی حلقے: 15، پارلیمانی حلقے: 2، منڈل: 16، مسلم آبادی فیصد: 43.45، شرح خواندگی: 83.25، رکن پارلیمان: اسد الدین اویسی (حیدرآباد) اور جی۔ کشن ریڈی (سکندرآباد)
</p><br />
<p>
2: نظام آباد - Nizamabad
<br />
اسمبلی حلقے: 6، پارلیمانی حلقے: 1، منڈل: 29، مسلم آبادی فیصد: 18.52، شرح خواندگی: 77.22، رکن پارلیمان: دھرم پوری اروند (بی جے پی)
</p><br />
<p>
3: سنگاریڈی - Sangareddy
<br />
اسمبلی حلقے: 5، پارلیمانی حلقے: صفر، منڈل: 28، مسلم آبادی فیصد: 16.15، شرح خواندگی: 64.08
</p><br />
<p>
4: نرمل - Nirmal
<br />
اسمبلی حلقے: 3، پارلیمانی حلقے: صفر، منڈل: 19، مسلم آبادی فیصد: 14.04، شرح خواندگی: 57.77
</p><br />
<p>
5: رنگاریڈی - Rangareddy
<br />
اسمبلی حلقے: 8، پارلیمانی حلقے: صفر، منڈل: 27، مسلم آبادی فیصد: 13.62، شرح خواندگی: 75.87
</p><br />
<p>
6: وقارآباد - Vikarabad
<br />
اسمبلی حلقے: 4، پارلیمانی حلقے: 1، منڈل: 20، مسلم آبادی فیصد: 12.94، شرح خواندگی: 64، رکن پارلیمان: ڈاکٹر جی۔ رنجیت ریڈی (بی آر ایس)
</p><br />
<p>
7: عادل آباد - Adilabad
<br />
اسمبلی حلقے: 7، پارلیمانی حلقے: 1، منڈل: 18، مسلم آبادی فیصد: 12.58، شرح خواندگی: 63.46، رکن پارلیمان: سویام باپو راؤ (بی جے پی)
</p><br />
<p>
8: ہنوماکنڈہ - Hanumakonda
<br />
اسمبلی حلقے: 3، پارلیمانی حلقے: صفر، منڈل: 14، مسلم آبادی فیصد: 10.77
</p><br />
<p>
9: محبوب نگر - Mahbubnagar
<br />
اسمبلی حلقے: 3، پارلیمانی حلقے: 1، منڈل: 16، مسلم آبادی فیصد: 10.23، شرح خواندگی: 55.04، رکن پارلیمان: مانے سرینواس ریڈی (بی آر ایس)
</p><br />
<p>
10: کاماریڈی - Kamareddy
<br />
اسمبلی حلقے: 4، پارلیمانی حلقے: 1، منڈل: 23، مسلم آبادی فیصد: 10.22، شرح خواندگی: 48.49، رکن پارلیمان: بی۔ بی۔ پاٹل (بی آر ایس)
</p>
<div style="text-align:left;">
***<br />
سید مکرم نیاز<br />
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔
</div><br />
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjujzT3iqwB76YJiagtcKwmKi6-5N_cfs8o_I0VKctdvFspZeSnWZ2TTCZHhajVIEpAhPujURbmQcPWoQ5jqsK2lZXrO5Cit5gHfTytqjIWjEwh0RnVDtTd-vLInTxrBhMJbig7zUI8fEzj/s1600/syed-mukarram-niyaz.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img alt="syed mukarram niyaz" border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjujzT3iqwB76YJiagtcKwmKi6-5N_cfs8o_I0VKctdvFspZeSnWZ2TTCZHhajVIEpAhPujURbmQcPWoQ5jqsK2lZXrO5Cit5gHfTytqjIWjEwh0RnVDtTd-vLInTxrBhMJbig7zUI8fEzj/s1600/syed-mukarram-niyaz.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">Syed Mukarram Niyaz<br />
سید مکرم نیاز</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<div class="tn-snippet">The top 10 assembly constituencies of Telangana with most Muslim population<br />
</div>
TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-26031293123070060962023-10-02T15:31:00.005+05:302023-10-08T15:56:02.444+05:30فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم : ایمنسٹی انٹرنیشنل کی چشم کشا رپورٹ<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiSZrR86AtEe7xEGqnhxCx6mUK4ZmXiOu6zCBE_rIzHJFoAXlyX1uaj_MRrdCXSQTDIomkzOLv5AmVKbsdgg0oPrnLE-i-YVuD1Z8vbcMh9EfOEUp6iFdif27RChzQSKWuzpwY748NMaClZpDhKKyWyRVOHmhwD7HgwD-xB0nQAUHuvjGr6zWvV7jIgOV4/s1600/israeli-palestinian-conflict.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="israeli-palestinian-conflict" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiSZrR86AtEe7xEGqnhxCx6mUK4ZmXiOu6zCBE_rIzHJFoAXlyX1uaj_MRrdCXSQTDIomkzOLv5AmVKbsdgg0oPrnLE-i-YVuD1Z8vbcMh9EfOEUp6iFdif27RChzQSKWuzpwY748NMaClZpDhKKyWyRVOHmhwD7HgwD-xB0nQAUHuvjGr6zWvV7jIgOV4/s1600/israeli-palestinian-conflict.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">تجزیاتی کالم </span><span class="nmd-agency">منصور ندیم </span></div>
<p>
ایمنسٹی انٹرنیشل Amnesty International انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہے، جس کی ٹرانسپیرنسی کی تقریباً پوری دنیا قائل ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پچھلے ہفتے ایک تازہ رپورٹ جو تقریبا چار برسوں میں مرتب ہوئی ہے، اور یہ رپورٹ 278 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ Human Rights Watch اور اسرائیل میں کام کرنے والی دو مقامی اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں "بتسلیم" B’Tselem اور "ييش دين" Yesh Din بھی اسرائیل کے نسل پرست اقدامات میں فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف اسرائیل کے خلاف کھڑی نظر آرہی ہیں۔ اسرائیل میں انسانی حقوق پر کام کرنے والے مقامی اسرائیلی یہودی بھی فلسطینیوں پر مظالم کے قائل ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو اب تک اسرائیل کے مظالم ککے خلاف اب تک ہونے والی تمام آوازوں میں ایک سنگ میل Milestone کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اسرائیل کے پاس اس رپورٹ کو ماسوائے جھنجھلاہٹ میں جھٹلانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بن رہا۔
</p><br />
<p>
یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل کے انسانیت کے خلاف جرائم میں فلسطین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ بھی ہے۔ ’اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی‘ Israel’s Apartheid against Palestinians کے عنوان پر مبنی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیسے اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف جبر اور تسلط کے نظام قائم کو کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے بھی رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ "اسرائیل کی فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والی خلاف ورزیوں، جرائم اور نسل پرستانہ پالیسیوں کے احتساب کو یقینی بنایا جائے۔"
</p><br />
<p>
ایمنسٹی انٹرنیشنل Amnesty International کی ویب سائٹ پر یہ رپورٹ موجود ہے، اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی: تسلط کا ظالمانہ نظام اور انسانیت کے خلاف جرم کے عنوان سے ایمنسٹی انٹرنیشنل Amnesty International نے اس نئی رپورٹ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی کے جرم کے ارتکاب کے لیے اسرائیلی حکام Israeli authorities کو جوابدہ ہونے کا کہا ہے اور تحقیقات میں اس بات کی وضاحت کی درخواست کی ہے کہ اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف جبر اور تسلط کا نظام نافذ کرتا ہے جہاں بھی ان کے حقوق پر اس کا کنٹرول ہے۔ اس میں اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں Occupied Palestinian Territories (OPT) میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں موجود بے گھر پناہ گزین بھی شامل ہیں۔
</p><br />
<p>
یہ ایک جامع رپورٹ Comprehensive Report ہے، جس میں اسرائیل کا فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی Cruel System، تسلط Domination اور انسانیت کے خلاف جرائم Crime Against Humanity کے ظالمانہ نظام کو مکمل واضح کیا ہے ، یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ کس طرح فلسطینیوں کی زمینوں اور املاک پر بڑے پیمانے پر قبضے، غیر قانونی قتل، زبردستی منتقلی، نقل و حرکت پر سخت پابندیاں، اور فلسطینیوں کی قومیت اور شہریت سے انکار سب کچھ ہے۔ ایک ایسے نظام کے اجزاء جو بین الاقوامی قانون کے تحت نسل پرستی کے مترادف ہیں۔ اس نظام کو ان خلاف ورزیوں کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نسل پرستی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا، ایمنسٹی انٹرنیشنل بین الاقوامی فوجداری عدالت International Criminal Court (ICC) سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں (OPT) میں اپنی موجودہ تحقیقات میں نسل پرستی کے جرم پر غور کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے اور تمام ریاستوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان لامحدود جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے عالمی دائرہ اختیار Universal Jurisdiction کا استعمال کریں۔
</p><br />
<p>
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل Agnès Callamard کا کہنا ہے کہ۔۔۔
<br />
"ہماری رپورٹ اسرائیل کی نسل پرست حکومت کی اصل عزائم کو واضح کررہی ہے کہ وہ کیسے غزہ، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے باقی تمام کے ساتھ موجودہ اسرائیلی علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ ایک انتہائی کمتر نسلی گروہ کے طور پر سلوک روا رکھتے ہیں اور فلسطینیوں کو منظم طریقے سے ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ وضح کرنے کے عمل میں اسرائیل کے زیر کنٹرول تمام علاقوں میں علیحدگی، تصرف پسندی اور جبری بے دخلی کی ظالمانہ پالیسیاں و کو اضح طور پر نسل پرستی کے مترادف پایا ہے۔ اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا تدارک کریں۔ اس وقت فلسطینیوں کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT کے اندر اور باہر سفر کرنے کی دشواری ان فلسطینیوں کی بے بسی اور ایک مستقل اذیت ناک عمل ہے۔ ان کا ہر اقدام اسرائیلی فوج کی منظوری سے ہی مشروط ہے، حتی کہ ان فلسطینیوں کے لئے روزمرہ کے معمولات کے لئے گھروں سے نکلنے کا مطلب ہے کہ انہیں انہیں ان پرتشدد چیک پوسٹ یا معاملات سے سامنا کرنا پڑے گا۔ نسل پرستی apartheid کے خلاف بین الاقوامی دنیا کا ردعمل International Response کو اب صرف مذمت اور بے بنیاد الفاظ تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ جب تک ہم اس کی بنیادی وجوہات سے نمٹ نہیں لیتے، فلسطینی اور اسرائیلی تشدد کے معاملے میں جکڑے ہی رہیں گے جس نے اب تک بہت سی انسانی زندگیوں کو تباہ کردیا ہے۔"
</p><br />
<blockquote>
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے چند چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں
</blockquote>
<p>
اسرائیل کی جانب سے بنائے گئے باقاعدہ ادارہ جاتی institutionalized اور تسلسل سے نسل پرستانہ جبر Racist Oppression کے ایسے نظام کا اسرائیل کے پاس یقیناً کوئی جواز نہیں۔ ہے جو انہوں نے لاکھوں فلسطینیوں پر جبر کے تحت مسلط کیا ہوا ہے۔ اس دنیا میں نسل پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہے، اور جو چند ممالک جو اسرائیل کے لیے اس موقع پر نرم گوشی رکھیں گے یقیناً آنے والے وقت میں وہ خود کو تاریخ کے غلط رخ پر پائیں گے۔ وہ حکومتیں جو اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ میں اسے جوابدہی سے بچا رہی ہیں، اصلا ًوہ سب نسل پرستی کے نظام کی حمایت کر رہی ہیں، بین الاقوامی قانونی نظام کو نقصان پہنچا رہی ہیں، اور فلسطینی عوام کے مصائب کو بڑھا رہی ہیں۔ بین الاقوامی برادری کو اسرائیل کی نسل پرستی کی حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے، اور انصاف کے لیے ایسے بہت سے راستوں کی اختیار کرنا چاہیے جو شرمناک طور آج تک اوجھل تگے یا رکھے جاتے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کے نتائج فلسطینی، اسرائیلی اور بین الاقوامی این جی اوز کے کام پر منحصر ہوگا، جنہوں نے اسرائیل Israel Territory اور Occupied Palestine territory کے خطوں میں نسل پرستی کے عمل کو دیکھا ہے ۔
</p><br />
<blockquote>
نسل پرستی کی نشاندہی کرنا
<br />
Identifying apartheid
</blockquote>
<p>
اسرائیل کی جانب سے نسل پرستی کا نظام ایک نسلی گروہ کے طور پر دوسرے پر جبر اور تسلط کا باقاعدہ Institutionalized نظام ہے۔ یہ انسانی حقوق Human Rights کی سنگین خلاف ورزی ہے جو عوامی بین الاقوامی قانون Public International Law میں ممنوع ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی وسیع تحقیق Extensive Research اور قانونی تجزیہ Legal Analysis، جو بیرونی غیر جانبدار ماہرین کی مشاورت سے کیا گیا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف قوانین، پالیسیوں اور عملی طریقوں کے ذریعے ایسا نظام نافذ کرتا ہے جو ان کے ساتھ طویل تسلسل کے ساتھ ظالمانہ امتیازی سلوک Cruel Discriminatory Treatment کو یقینی بنارہا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری قوانین International Criminal Law میں ایسی تمام مخصوص غیر قانونی کارروائیاں جو جبر اور تسلط کے نظام کے اندر اس کو برقرار رکھنے کی نیت سے کی جاتی ہیں، نسل پرستی اور انسانیت کے خلاف جرم کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ کارروائیاں نسل پرستانہ کنونشن Apartheid Convention سمجھی جاتی ہیں جن میں غیر قانونی قتل، تشدد، زبردستی منتقلی،Unlawful killing, torture, forcible transfer, اور بنیادی حقوق اور بنیادی آزادی سے انکار شامل ہیں۔
</p><br />
<p>
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کے زیر انتظام تمام علاقوں Israel Controls Area میں نسل پرستی کے کنونشن میں ممنوعہ کارروائیوں Proscribed Acts کو دستاویزی documented شکل دی ہے، جہاں اسرائیل کی نسبت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں زیادہ تسلسل سے پرتشدد واقعات ہوتے ہیں۔ اسرائیلی حکام فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق اور آزادیوں سے دانستہ طور پر دور رکھنے کے لیے متعدد اقدامات کرتے ہیں، بشمول مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT میں نقل و حرکت پر سخت پابندیاں، اسرائیل میں فلسطینی آبادیوں میں دائمی امتیازی کم سرمایہ کاری، اور پناہ گزینوں کی واپسی کے حق سے انکار وغیرہ وغیرہ ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں دونوں میں فلسطینیوں کی زبردستی منتقلی، انتظامی حراست، تشدد، اور غیر قانونی قتل کو بھی دستاویز کیا گیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ کارروائیاں فلسطینی آبادی کے خلاف منظم اور وسیع پیمانے پر کیے جانے والے حملوں کا حصہ ہیں (Systematic and widespread attack directed against the Palestinian population) اور تسلسل سے جبر اور تسلط کے نظام کو برقرار رکھنے کے ارادے سے ہیں۔ اس لیے وہ نسل پرستی کے اس عمل کا انسانیت کے خلاف اپنے قانونی اور نظام سے مدد لیتے ہیں۔
</p><br />
<p>
فلسطینی مظاہرین کا غیر قانونی قتل شاید اس بات کی سب سے واضح مثال ہے کہ کس طرح اسرائیلی حکام جمود کو برقرار رکھنے کے لیے ممنوعہ کارروائیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ سنہء 2018 میں جب غزہ میں فلسطینیوں نے اسرائیل کے ساتھ سرحدوں پر ہفتہ وار احتجاج کرنا شروع کیا، جس میں پناہ گزینوں کی واپسی کے حق اور ناکہ بندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا تو احتجاج شروع ہونے سے پہلے ہی سینئر اسرائیلی حکام نے خبردار کیا کہ دیوار کے قریب آنے والے فلسطینیوں کو گولی مار دی جائے گی۔ سنہء 2019 کے آخر تک اسرائیلی فورسز نے 46 بچوں سمیت 214 فلسطینی شہریوں کو قتل کیا ہے۔
</p><br />
<blockquote>
فلسطینیوں کی آبادیات کا خطرہ سمجھا جانا
<br />
Palestinians treated as a demographic threat
</blockquote>
<p>
سنہء 1948 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی اسرائیل یہودی آبادی کی اکثریت کو قائم کرنے اور پھر اسے برقرار رکھنے، اور یہودی اسرائیلیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے زمین اور وسائل پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سنہء 1967 میں اسرائیل نے اس پالیسی کو مغربی کنارے West Bank اور غزہ کی پٹی Gaza Strp تک بڑھا دیا۔ آج اسرائیل کے زیر کنٹرول تمام علاقوں میں اسرائیلی انتظامی نظم و نسق کا مقصد یہودی اسرائیلیوں فایدہ پہنچانا اور فلسطینیوں کو نقصان پہنچانا ہے، اسی بنیاد پر فلسطینی پناہ گزینوں کو ان جگہوں سے باہر رکھا جا رہا ہے۔
</p>
<p>
ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی رپورٹ میں یہ کہتی ہے کہ بظاہر دنیا کے سامنے یہودی، فلسطینیوں کی طرح، حق خود ارادیت کا دعویٰ کرتے ہیں، اور اسرائیل کی "یہودی ریاست" Jewish Estate کی خواہش کو چیلنج نہیں کر,رہے مگر اس طرح کے عمل سے اسرائیل اپنے آپ کو "یہودی ریاست" کا لیبل لگا کر اپنے ظلم اور جبری تسلط کے ارادے کی نشاندہی کررہا ہے۔ یکے بعد دیگرے ہر اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کو آبادیاتی خطرہ سمجھا، اور اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ان کی موجودگی اور زمین تک رسائی کو کنٹرول اور کم کرنے کے لیے اقدامات نافذ کیے ہیں۔ یہ آبادیاتی اہداف مشرقی یروشلم East Jerusalem سمیت اسرائیل اور مغربی کنارے West Bank کے علاقوں کو "یہودی بنانے" (Judaize areas) کے سرکاری منصوبوں سے اچھی طرح سے واضح ہیں، جو ہزاروں فلسطینیوں کو زبردستی منتقلی کے خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
</p>
<blockquote>
سرحدوں کے بغیر ظلم
<br />
Oppression without border
</blockquote>
<p>
سنہء 1947 تا سنہء 1949 اور سنہء 1967 کی جنگوں نے اسرائیل کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاری فوجی حکمرانی اور علاقے کے اندر علیحدہ قانونی اور انتظامی حکومتوں کی تشکیل نے فلسطینی برادریوں کو الگ الگ کر دیا ہے اور انہیں یہودی اسرائیلیوں سے بھی الگ کر دیا ہے۔ فلسطینیوں کو جغرافیائی اور سیاسی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہے، اور وہ اپنی حیثیت اور جہاں رہتے ہیں اس کے لحاظ سے مختلف درجوں میں آج امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں۔
</p><br />
<p>
اسرائیل کے زیر انتظام مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے فلسطینی شہری کسی درجے میں غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کی نسبت کچھ بہت حالات میں ہیں، لیکن بالمجموع ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تمام فلسطینی ایک ہی اعلیٰ نظام کے تابع ہیں۔ تمام علاقوں میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا سلوک ایک ہی مقصد کے تحت ہے: زمین اور وسائل کی تقسیم میں یہودی اسرائیلیوں کو مراعات دینا، اور فلسطینیوں کی موجودگی کو کم ازکم کرنا اور زمین تک ان کی رسائی کو کم سے کم کرنا۔ اسرائیلی حکام فلسطینیوں کے ساتھ ایک کمتر نسلی گروہ کے طور پر برتاؤ کرتے ہیں جہاں انہیں غیر یہودی عرب Non-Jewish, Arab status حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ نسلی امتیاز ان قوانین میں شامل ہے جو پورے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں کو متاثر کرتے ہیں۔
</p><br />
<p>
مثال کے طور پر اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کو قومیت سے محروم کر دیا جاتا ہے، جہاں وہ یہودی اسرائیلیوں سے قانونی طور پر برابر شہری نہیں ہوتے، مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیل نے سنہء 1967 سے آبادی کی رجسٹری کو کنٹرول کیا ہوا ہے، وہاں پر پیدا ہونے والے فلسطینیوں کے پاس کوئی شہریت نہیں ہے اور زیادہ تر کو بے وطن Stateless ہی سمجھا جاتا ہے، جہاں اصلاً اسرائیلی حکومت ہے تو وہاں کے فلسطینیوں کے پاس کوئی شہریت نہیں جہاں اسرائیلی شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔
</p><br />
<p>
فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی اولادوں کو جو سنہء 1947 اور سنہء 1949 یا سنہء 1967 کی جنگوں کے تنازعات میں اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے تھے، ان فلسطینیوں کو ان کی سابقہ رہائش گاہوں پر واپس جانے کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ وہاں کے پناہ گزینوں کو اسرائیل سے زبردستی انخلاء حقیقتا ًبین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جس نے لاکھوں افراد کو جبری طور پر بے گھر ہونے کے دائمی عذاب میں رکھا ہوا ہے۔ الحاق شدہ مشرقی یروشلم Annexed East Jerusalem میں فلسطینیوں کو شہریت کے بجائے صرف مستقل رہائش دی جاتی ہے اور یہ حیثیت بھی صرف نام کی ہے۔ سنہء 1967 سے لے کر اب تک اسرائیلی وزارت داخلہ Ministry of the Interior کی جانب سے 14,000 سے زیادہ فلسطینیوں کی رہائش گاہیں منسوخ ہو چکی ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی زبردستی شہر سے باہر منتقلی ہوئی ہے۔
</p><br />
<blockquote>
کم شہری
<br />
Lesser citizens
</blockquote>
<p>
اسرائیل کے فلسطینی شہری جو کہ مجموعی آبادی کا تقریباً 19 فیصد ہیں انہیں اسرائیل حکام کی جانب سے کئی طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ سنہء 2018 میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو باقاعدہ ایک آئینی قانون میں ڈھالا، جس نے پہلی بار اسرائیل کو خصوصی طور پر "یہودی لوگوں کی قومی ریاست" (Nation state of the Jewish people) طور پر شامل کیا۔ یہ قانون یہودی بستیوں کی تعمیر کو بھی فروغ دیتا ہے اور سرکاری زبان کے طور پر عربی کی حیثیت کو گھٹاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام کس طرح نسل پرستانہ زمینوں پر قبضے اور زمین کی تقسیم، منصوبہ بندی اور زوننگ پر امتیازی قوانین کے جال کے نتیجے میں فلسطینیوں کو اسرائیل کی 80 فیصد سرکاری اراضی لیز پر دینے سے مؤثر طریقے سے روک دیا گیا ہے۔
</p><br />
<p>
جنوبی اسرائیل کے Negev/Naqab علاقے، جسے "بدو النقب" بھی کہا جاتا ہے اس کی صورتحال اس بات کی ایک اہم مثال ہے کہ کس طرح اسرائیل کی منصوبہ بندی اور تعمیراتی پالیسیاں جان بوجھ کر فلسطینیوں کو اپنے آبائی علاقوں سے بے دخل کرتی ہیں۔ سنہء 1948 کے بعد سے اسرائیلی حکام نے فلسطینی قبائلی علاقے "بدو النقب" کو "یہودی بنانے" کے لیے مختلف پالیسیاں اپنائی ہیں، جن میں بڑے علاقوں کو قدرتی ذخائر یا فوجی فائرنگ زوں کے علاقوں کے طور پر نامزد کرنا، اور یہودی آبادی کو بڑھانے کے لیے اہداف کا تعین کرنا شامل ہے۔ اس خطے "بدو النقب" میں 35 فلسطینی بدو قبائل دیہات آباد تھے، جن کی تعداد تقریباً 68,000 افراد پر مشتمل ہے، اس وقت اسرائیل کی طرف سے یہ تمام لوگ "ناقابل شناخت" ہیں، صدیوں سے بسنے والی یہ ہزارہا لوگ جنہیں اسرائیلی ریاست قبول نہیں کرہی تو یہ افراد بجلی اور پانی کی سپلائی سے منقطع ہیں اور ان کے گھروں کو بار بار مسمار کرنے کے لئے نشانہ بنایاجاتا ہے۔ چونکہ دیہات کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے، اس لیے ان کے مکینوں کو بھی سیاسی شرکت پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ صحت کی رسائی اور تعلیم کے حصول تک رسائی نہیں رکھتے۔ ان حالات نے وہاں کے بہت سے مقامی لوگوں کو اپنے گھر اور گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے، جو کہ زبردستی منتقلی forcible transfer کے مترادف ہے۔اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے ساتھ کئی دہائیوں کے دانستہ طور پر غیر مساوی سلوک نے انہیں یہودی اسرائیلیوں کے مقابلے میں مسلسل معاشی طور پر پسماندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ ریاستی وسائل کی صریح امتیازی تقسیم سے بڑھتا ہے: ایک حالیہ مثال حکومت کا کوویڈ 19 بحالی پیکیج ہے، جس میں سے صرف 1.7 فیصد فلسطینی مقامی حکام کو دیا گیا۔
</p><br />
<blockquote>
تصرف
<br />
Dispossession
</blockquote>
<p>
فلسطینیوں کی ان کے گھروں سے بے دخلی اور بے گھر کرنا اسرائیل کے نسل پرستانہ نظام Apartheid System کا ایک اہم ستون ہے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر اور ظالمانہ طریقوں سے فلسطینیوں کی اراضی پر قبضے کیے ہیں، اور فلسطینیوں کو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں رہنے پر مجبور کرنے کے لیے بے شمار قوانین اور پالیسیوں کا نفاذ جاری رکھا ہوا ہے۔ سنہء 1948 کے بعد سے اسرائیل نے اپنے دائرہ اختیار اور موثر کنٹرول کے تحت تمام علاقوں میں لاکھوں فلسطینیوں کے مکانات اور دیگر املاک کو مسمار کیا ہے، بدو النقب کی طرح، مشرقی یروشلم اور مقبوضہ فلسطینی علاقے OPT کے "علاقے سی" (Area C) میں مقامی فلسطینی شہری مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں رہتے ہیں۔ فلسطینی حکام ان علاقوں میں فلسطینیوں کو تعمیراتی اجازت نامے دینے سے انکار کرتے ہیں اور انہیں غیر قانونی تعمیرات پر مجبور کرتے ہیں جنہیں بار بار گرایا جاتا ہے۔ فلسطینی مقبوضہ علاقے OPT میں، غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کی مسلسل توسیع صورتحال کو مزید خراب کرتی ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر سنہء 1967 سے حکومت کی پالیسی رہی ہے۔ اور آج ان اسرائیلی بستیوں میں مغربی کنارے West Bank کی 10% اراضی شامل ہوچکی ہے، اور مشرقی یروشلم East Jerusalem میں فلسطینیوں کی تقریباً 38% اراضی شامل ہوچکی ہے، جو سنہء 1967 اور پھر سنہء 2017 کے درمیان ضبط کی گئی تھی۔
</p><br />
<p>
مشرقی یروشلم میں فلسطینی محلوں کو اکثر اسرائیلی آبادکار تنظیموں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے جو اسرائیلی حکومت کی مکمل حمایت کے ساتھ فلسطینی خاندانوں کو بے گھر کرنے اور ان کے گھر آباد کاروں کے حوالے کرنے کے لیے کام کرتی ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ شیخ جراح بستی کا جو ، مئی سنہء 2021 سے متواتر مظاہروں کا مقام رہا ہے کیونکہ وہاں مقامی فلسطینی خاندان اپنے گھروں کو آباد رکھنے کے لئے مقدمات لڑ رہے ہیں۔
</p><br />
<blockquote>
مزاحمتی تحریک کی پابندیاں
<br />
Draconian movement restrictions
</blockquote>
<p>
سنہء 1990 کی دہائی کے وسط سے اسرائیلی حکام نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT میں فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر تیزی سے سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ فوجی چوکیوں، روڈ بلاکس، باڑ اور دیگر ڈھانچے کا ایک مکمل جال ان مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT کے اندر فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرتا ہے، اور اسرائیل یا بیرون ملک ان فلسطینیوں کے سفر پر پابندی لگاتا ہے۔ جہاں پر ایک 700 کلومیٹر کی باڑ ہے، جسے اسرائیل ابھی تک بڑھا رہا ہے، جہاں پر فلسطینی برادریوں کو "فوجی علاقوں" کے اندر الگ تھلگ کر دیا گیا ہے، وہاں کے مقامی فلسطینی جب بھی اپنے گھروں میں داخل ہوتے ہیں یا باہر جاتے ہیں تو انہیں متعدد خصوصی اجازت نامے حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ غزہ پٹی Gaza Strip میں اس وقت 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی اسرائیلی ناکہ بندی کے نیچے رہتے ہیں جس نے ایک شدید انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔ غزہ کے فلسطینیوں کے لیے بیرون ملک یا مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT کے باقی حصوں میں سفر کرنا تقریباً ناممکن ہے، اور وہ مکمل طور پر باقی دنیا سے الگ ہیں۔
</p><br />
<p>
فلسطینی مقبوضہ علاقوں OPT میں اجازت نامے حاصل کرنے کا نظام فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے ڈھٹائی سے زیادہ امتیازی سلوک کی علامت ہے۔ کیونکہ فلسطینی تو ناکہ بندی میں بند ہیں، چوکیوں پر گھنٹوں پھنسے رہتے ہیں،انہیں ہر روز گھر سے نکلنے کے لئے اجازت ناموں کی ضرورت ہے، جبکہ اسرائیلی شہری اور آباد کار اپنی مرضی کے مطابق ادھر اُدھر گھوم سکتے ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان تمام اسرائیلی سیکورٹی جوازات کا جائزہ لیا جسے اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اسرائیل کی کچھ پالیسیاں جائز سیکورٹی مقاصد کی تکمیل کے لیے بنائی گئی ہیں، لیکن ان کا نفاذ انتہائی غیر متناسب اور امتیازی طریقے سے کیا گیا ہے جو بین الاقوامی قانون کی تعمیل کرنے میں ناکام ہے۔ دیگر پالیسیوں کی سیکورٹی کی بھی قطعی طور پر کوئی معقول بنیاد نہیں ہے، اور واضح طور پر جبر اور غلبے کے ارادے سے ہی تشکیل دی گئی ہیں۔
</p><br />
<p>
ایمنسٹی انٹرنیشنل متعدد مخصوص سفارشات Numerous Specific recommendations فراہم کرتا ہے کہ کس طرح اسرائیلی حکام نسل پرستی کے نظام اور امتیازی سلوک، علیحدگی اور جبر کو ختم کر سکتے ہیں جو اسے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل پہلے اقدام کے طور پر فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے اور جبری بے دخلی کے ظالمانہ عمل کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے کہ اسرائیل کو بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT میں تمام فلسطینیوں کو مساوی حقوق دینے چاہئیں۔ اسے فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی اولاد کے اپنے گھروں کو واپس جانے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے جہاں وہ یا ان کے خاندان کبھی رہتے تھے، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے متاثرین کو مکمل معاوضہ فراہم کرنا چاہیے۔
</p><br />
<p>
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ درج خلاف ورزیوں کے پیمانے اور سنگینی اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے بحران کے بارے میں بین الاقوامی برادری International Community’s کے نقطہ نظر میں زبردست تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ تمام ریاستیں بین الاقوامی قانون Universal Jurisdiction کے تحت نسل پرستی کے جرم کے ارتکاب کا معقول طور پر مشتبہ افراد پر عالمگیر دائرہ اختیار استعمال کر سکتی ہیں، اور وہ ریاستیں جو نسل پرستی کے کنونشن کی فریق ہیں ان پر ایسا کرنے کی ذمہ داری ہے۔اسرائیل کو نسل پرستی کے نظام کو ختم کرنا چاہیے اور فلسطینیوں کے ساتھ مساوی حقوق اور وقار کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کرنا شروع کرنا چاہیے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، امن اور سلامتی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے یکساں طور پر کبھی قائم نہیں ہوسکے گی۔
</p>
<div style="text-align: left;">***<br />
بشکریہ: مکالمہ ویب سائٹ
<br />
<a href="https://www.mukaalma.com/143552/" target="_blank">ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اسرائیلی مظالم پر رپورٹ ۔۔ منصور ندیم</a>
</div>
<br />
<div class="tn-snippet">Israeli atrocities against Palestinians: Amnesty International's eye-opening report<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-86507702477139033922023-09-24T13:38:00.003+05:302023-09-24T13:38:33.922+05:30محمد بن سلمان کی جرات مندی - کالم از ودود ساجد<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhM5p1VGZC2-RKAdDle8IB4ANQl7nX2J2UQjNLCP4-Qre6VObDUgrr9pqkY40evdosCu2z5WIBsmK8f_MWbwnZMKzDl3r6uNf8YvI0u5nGZazztXIdFWZSXUbvXAcC6yMl3KMugQUVhtxTEP9-CofguEDS7aSXtdSaJCHEfd1XAXtcCqKdgphX_x-EIyBA/s1600/courage-of-mohammed-bin-salman.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="courage-of-mohammed-bin-salman" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhM5p1VGZC2-RKAdDle8IB4ANQl7nX2J2UQjNLCP4-Qre6VObDUgrr9pqkY40evdosCu2z5WIBsmK8f_MWbwnZMKzDl3r6uNf8YvI0u5nGZazztXIdFWZSXUbvXAcC6yMl3KMugQUVhtxTEP9-CofguEDS7aSXtdSaJCHEfd1XAXtcCqKdgphX_x-EIyBA/s1600/courage-of-mohammed-bin-salman.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">نقطہ نظر </span><span class="nmd-agency"><a href="/search?q=Wadood+Sajid">ایم ودود ساجد</a> </span></div>
<p>
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ 'اسرائیل کے ساتھ معاملات قائم کرنے میں فلسطین کے مسئلہ کو حل کیا جانا اہم ہے۔'
<br />
بظاہر یہ ایک امید افزا پیش رفت معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے مذکورہ خیال ایک امریکی ٹیلیویزن چینل 'فاکس نیوز' کو انٹرویو دیتے ہوئے ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے لئے مسئلہ فلسطین آج بھی سب سے اہم ہے۔
<br />
اس سلسلہ میں متعدد رپورٹوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کو محور بنا کر اسرائیل سے رشتوں کی استواری کی کوششیں کافی آگے بڑھ چکی ہیں۔ خود محمد بن سلمان نے اپنے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ 'سعودی عرب' اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف مستقل آگے بڑھ رہا ہے۔
<br />
اسی انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ 'ہم ہر روز ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔' گزشتہ روز ہی اقوام متحدہ میں اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے بھی کہا ہے کہ 'ہم سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدے کے بالکل قریب ہیں'۔
<br />
<br />
اسرائیل سے مراسم قائم کرنے کا سعودی عرب کا فیصلہ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح اس ملک کے اقتدار اعلی کا اپنا فیصلہ ہے۔ لیکن مسئلہ فلسطین کے تناظر میں دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ مراسم کی حساسیت اس لئے اہم ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان حرمین شریفین کے حوالہ سے سعودی عرب سے ایک خصوصی جذباتی تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ماضی میں جب بھی اس طرح کی خبریں آئیں کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان خاموش اور خفیہ تعلقات ہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں نے اور خاص طور پر برصغیر کے مسلمانوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
<br />
حکومت سعودی عرب کی طرف سے ایسی خبروں کی سرکاری طور پر کبھی نہ تصدیق کی گئی اور نہ تردید۔گزشتہ تین دہائیوں کی صحافت کے سفر کے دوران میں نے متعدد مرتبہ یہ جائزہ لینے کی کوشش کی کہ آخر وہ کون سے راستے یا پگڈنڈیاں ہیں جن پر سعودی عرب اور اسرائیل رات کی تاریکی میں خاموشی سے آکر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ مجھے اس طرح کے مراسم کا کوئی سراغ بہر حال نہیں ملا۔ اس تناظر میں ولی عہد محمد بن سلمان کا متذکرہ بالا انکشاف انتہائی اہم ہوگیاہے۔
</p><br />
<p>
سعودی عرب ان مسلم ممالک کی صف اول میں سب سے اوپر رہا ہے جو اہل فلسطین کو نہ صرف اخلاقی بلکہ مادی تعاون بھی دیتے رہے ہیں۔ 2016 میں سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے راحت رسانی (فلسطین) کی معرفت اہل فلسطین کو 148ملین ڈالر کی مدد دی تھی۔
<br />
عالمی پیمانے پر بھی اس سلسلہ میں سعوی عرب دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر امریکہ ہے جس نے 2016 میں 368 ملین ڈالر دئے تھے۔ 2016 میں ہی شاہ سلمان نے ایک طرف جہاں پوری دنیا سے ایک ہزار ممتاز افراد کو شاہی دعوت پر سفر حج کرایا تھا وہیں فلسطین سے بھی ایک ہزار عام فلسطینیوں کو شاہی دعوت پر حج کرایا تھا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
<br />
سعودی عرب میں ہزاروں فلسطینی کام کر رہے ہیں۔ جبکہ 16 جون 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق وہاں ایک لاکھ 29 ہزار 900 فلسطینی پناہ گزین پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ مئی 2023 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 59 لاکھ فلسطینی پناہ گزیں پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
<br />
2021 میں فلسطین کو دی جانے والی سعودی امداد روک دی گئی تھی۔ وال اسٹریٹ جنرل کی ایک رپورٹ کے مطابق 19 مئی 2023 کو جدہ میں عرب سربراہ کانفرنس کے موقع پر محمد بن سلمان نے فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات کے دوران سعودی امداد دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش کی ہے۔ لیکن یہ پیشکش غیر مشروط نہیں ہے۔
</p><br />
<p>
محمد بن سلمان کے کام کرنے کے طریقہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنے ان عزائم اور منصوبوں کو چھپاتے نہیں ہیں جنہیں روایتی طور پر ظاہر کرنے میں تکلف کیا جاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی چینل 'فاکس نیوز' کو دیا گیا وہ انٹرویو پیش کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے اسرائیل سے روز افزوں قربت آمیز گفتگو کا ذکر کیا ہے۔ لیکن انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اسرائیل سے مراسم کی استواری، مسئلہ فلسطین کے خوشگوار حل سے مشروط ہے۔
<br />
یعنی اگر اہل فلسطین کیلئے کوئی باوقار زندگی گزارنے کا معقول اور قابل قبول حل نکلتا ہے تو سعودی عرب کو اسرائیل سے مراسم کی استواری میں کوئی تکلف نہیں ہے۔ اسی لئے انہوں نے فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو بھی مشروط مالی مدد کی پیشکش کی ہے۔ شرط یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے حالات کو معمول پر لانے کا کوئی معاہدہ کرلے۔ کہا جاتا ہے کہ فلسطینی حکام اب اس پیشکش پر سنجیدگی اور سرعت کے ساتھ غور و خوض کر رہے ہیں اور سینئر حکام اور وزراء پر مشتمل ایک فلسطینی وفد سعودی عرب کا دورہ بھی کرچکا ہے۔
<br />
مختلف رپورٹوں اور تجزیوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ اپنے ملک کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کیلئے محمد بن سلمان نے جو 'وژن 2030' ترتیب دیا ہے اس میں مسئلہ فلسطین کا حل بھی شامل ہے۔ اس وژن کے تحت پورے ملک میں،ہرشعبہ زندگی میں جنگی پیمانے پر کام ہورہا ہے۔
</p><br />
<p>
فاکس نیوزکے جس صحافی 'بریٹ بیئر' نے محمد بن سلمان کا مذکورہ بالا انٹرویو کیا ہے اس نے سعودی عرب میں رہ کر سرکاری حکام اور وزراء کے انٹرویو بھی کئے ہیں۔ اس نے اپنے چینل کو اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ" میں نے سعودی عرب میں ایسی تیز رفتار، ایسی شدت اور بڑے پیمانے کی بنیادی مثبت تبدیلیاں دیکھی ہیں جو ماڈرن عہد کے کسی ملک نے نہیں دیکھی ہوں گی۔" بریٹ بیئر کا یہ تبصرہ یہ سمجھنے کیلئے کافی ہے کہ اس وقت سعوی عرب میں 'وژن 2030' کوحقیقت کا جامہ پہنانے کیلئے کس پیمانے پر کام ہورہا ہے۔
</p><br />
<p>
یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ایک تھوڑے سے وقفہ کیلئے حکومت سعودی عرب نے فلسطین کی مالی مدد روک کر شکوک و شبہات قائم کردئے تھے۔ مبصرین نے اس سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ سعودی عرب نے اپنی دہائیوں پرانی پالیسی کو تبدیل کرلیا ہے اور اس نے فلسطین کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ اب شایدمحمد بن سلمان نے مذکورہ بیانات اور اقدامات سے ناقدین کو جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ 'اسرائیل کے ساتھ معاملات قائم کرنے میں فلسطین کے مسئلہ کو حل کیا جانا اہم ہے' بجائے خود بہت اہم ہے۔
<br />
ہمیں یہ نتیجہ نکالنے کی عجلت نہیں ہے کہ سعودی عرب، اسرائیل سے تعلقات کی استواری محض مسئلہ فلسطین کی وجہ سے کرنا چاہتا ہے، تاہم یہ نتیجہ نکالنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ اس سمت میں سعودی عرب کے اقدامات جرات مندانہ اور تاریخی ہیں۔ کوئی ان اقدامات سے متفق ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات تو اہم ہے کہ مسئلہ فلسطین کے کسی پائیدار حل کیلئے کوئی ملک اپنی معتبریت کو دائو پر لگا رہا ہے۔
<br />
اس سلسلہ کی رپورٹوں کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ مذکورہ کوشش میں محمد بن سلمان یا سعودی عرب تنہا نہیں ہے۔ اس میں تین بڑے ممالک،امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل تو شامل ہیں ہی، خود فلسطین کو بھی اس میں شامل رکھا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی حل فلسطینی عوام کی خواہشات اور امنگوں کے خلاف جاکر نہیں کیا جاسکتا۔
</p><br />
<p>
سچی بات تو یہ ہے کہ فلسطینی عوام دوہرے ظلم کی چکی میں اتنے پس چکے ہیں کہ اب ان کے اندر خواہشوں اور امنگوں جیسے جذبات سلامت نہیں رہے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ حل کے نام پر انہیں اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ مکار اور شرپسند یہودی آبادکار اور شیطان صفت اسرائیلی فورسز مسلسل مظلوم فلسطینی عوام کی زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہیں۔ فوری طور پر انہیں اس جبر و استبداد والی زندگی سے محفوظ کرنا ضروری ہے۔
</p><br />
<p>
اب شاید ان جذباتی اور غیر حقیقی نعروں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی ہے کہ 'اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹاکر ہی دم لیں گے۔' اسرائیل دہائیوں سے عربوں کے درمیان گھرا ہونے کے باوجود ہر میدان میں ترقی کرتا جارہا ہے اور اس کی دیوار سے ملے ہوئے فلسطین میں لوگ قابل رحم حالت میں پہنچ چکے ہیں۔ پچاس سے زائد عرب اور مسلم ممالک اسرائیل کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے ہیں۔ دوسری طرف فلسطینیوں کو بھی وہ کوئی تحفظ فراہم نہیں کراسکے ہیں۔ ایسے میں سوال یہی ہے کہ آخر کب تک ان مظلوموں کی زندگی اسرائیل کے صفحہ ہستی سے مٹنے کا انتظار کرتی رہے گی؟
<br />
<br />
محمد بن سلمان کی اس کوشش میں جو بائیڈن بھی پوری دلچسپی لے رہے ہیں۔ خود اسرائیل کے انتہا پسند وزیر اعظم کا لہجہ نرمی کی طرف مائل ہے۔ اگست 2023 میں سیاشل سے تل ابیب جانے والے ایک اسرائیلی طیارہ میں اچانک خرابی آگئی تھی۔ اس میں 128 اسرائیلی سوار تھے۔پائلٹ نے رابطہ کیا تو اسے جدہ ایرپورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کرنے کی اجازت دیدی گئی۔ اسرائیلی مسافروں نے پوری رات ایرپورٹ کے ہوٹل میں گزاری اور اگلی صبح وہ تل ابیب پہنچے۔
</p><br />
<p>
29 اگست 2023 کو اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے ہبرو (عبرانی) زبان میں ایک ویڈیو ریکارڈ کرکے حکومت سعودی عرب کی اس خیرسگالی کا شکریہ ادا کیا۔ اس ویڈیو کے سب ٹائٹل میں عربی میں بھی ترجمہ دیا گیا تھا۔ نتن یاہو نے کہاکہ 'ایسے وقت میں جب ان کا جہاز مشکل میں تھا میں اسرائیلی مسافروں کے ساتھ سعودی حکام کے گرم جوشی والے رویہ کی ستائش کرتا ہوں'۔انہوں نے اپنے پیچھے لٹکے ہوئے سعودی عرب کے نقشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ 'ہمارا اچھا پڑوسی قابل ستائش ہے'۔
</p><br />
<p>
رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ اس 'فضائی خیرسگالی' کی ابتدا در اصل جولائی 2022 میں اس وقت ہوگئی تھی جب جوبائیڈن کے دورہ سعودی عرب کے دوران حکومت سعودی عرب نے اپنی فضائوں سے اسرائیل کے مسافر بردار طیاروں کے گزرنے پر عاید پابندی کو اٹھالیا تھا۔
<br />
ان 128 مسافروں کا مجموعی ردعمل بھی اہم ہے جنہوں نے تل ابیب کے بن گورین انٹرنیشنل ایرپورٹ پر پہنچ کر کہاکہ 'جدہ میں ہمیں ایک خوشگوارخیر مقدم کا احساس ہوا' یہاں تک کہ 'بعض سعودیوں نے "ہبرو" زبان میں ہمارا استقبال کیا'۔ روزنامہ 'ٹائمز آف اسرائیل' نے ایمانوئیل اربل نامی ایک یہودی مسافر کا یہ ردعمل نقل کیا کہ "سعودیوں کی طرف سے ہمارا خیر مقدم حیران کن تھا، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کا خیر مقدم ہے، سچی بات یہ ہے کہ ہمیں ان سے اس شاندار رویہ کی امید نہیں تھی۔"
</p><br />
<p>
ان سطور میں اس موضوع کے دوسرے پہلوئوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم بیشتر عالمی مبصرین کی رائے ہے کہ سفارتی مراسم نہ ہونے کے باوجود اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان قربت بڑھنے کا سبب ان دونوں کی وہ مشترکہ تشویش ہے جو ایران کے اس خطہ میں روز افزوں اثر کے سبب پیدا ہوئی تھی۔
<br />
یہ محمد بن سلمان کی مقناطیسی شخصیت کا ہی اثر تھا کہ ایران کی ہی وجہ سے اسرائیل سے اتنی قربت کے باوجود سعودی عرب' ایران سے سفارتی اور تجارتی مراسم کی تجدید میں کامیاب رہا۔ اب دونوں ممالک نے تہران اور ریاض میں اپنے اپنے سفارتخانے کھول کر کام بھی شروع کردیا ہے۔ محمد بن سلمان نے اپنے مذکورہ انٹرویو میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر ایران نے نیوکلیر قوت حاصل کی تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ اس عمل میں ان کا ساتھ جو بائیڈن بھی دے رہے ہیں اور شاید اب نتن یاہو بھی ان کا ساتھ دیں۔
</p><br />
<p>
بہرحال، ابھی تو ہماری دلچسپی مسئلہ فلسطین کے حل میں ہے۔ محمد بن سلمان نے اپنے طرز عمل سے ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاسی قوت ارادی کے حامل مضبوط اعصاب والے حکمراں ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ ان کی یہ جرات مندی اہل فلسطین کو کرب و بلا سے آزاد کرانے میں کب کامیاب ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
</p>
<div style="text-align: left;">***<br />
(بشکریہ: <a href="https://www.facebook.com/wadood.sajid.9/posts/pfbid02iAEJMGBBojRHPBPwQTiRmZaECftNT9oDFYHamUERi1m3AAmKD2QCJqPbBskH8rqNl" target="_blank">کالم ردعمل</a> / روزنامہ انقلاب / 24 ستمبر 2023ء)
<br />
ایم ودود ساجد<br />
موبائل : 9810041211<br />
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative<br />
</div>
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhc0OnRLQ5FpMMGiNVqQTgCPBfhmfGaTeRtv3ibK9gAxOrWP5TGIZsrvmKWtBSi8hBlnSzBRrX7IvEo-LfjiERk3z0zHcG-6AI__OdIG577f_LYEx0QfvB-a6pQAPLEWjv0citQkjrWrKZoGuphwOtPBcNUVvpdd2IKurCUYqhyZbJtSLFeSsA1NWzr/s1600/wadood-sajid.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 0; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhc0OnRLQ5FpMMGiNVqQTgCPBfhmfGaTeRtv3ibK9gAxOrWP5TGIZsrvmKWtBSi8hBlnSzBRrX7IvEo-LfjiERk3z0zHcG-6AI__OdIG577f_LYEx0QfvB-a6pQAPLEWjv0citQkjrWrKZoGuphwOtPBcNUVvpdd2IKurCUYqhyZbJtSLFeSsA1NWzr/s1600/wadood-sajid.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">ایم ودود ساجد</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<div class="tn-snippet">
The courage of Mohammed bin Salman. - Column: M. Wadood Sajid.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-11604825981646012502023-09-23T14:43:00.000+05:302023-09-24T14:44:07.376+05:30فرقہ واریت سے ترقی پسند آفاقی اور معاشرتی انصاف پر مبنی اسلام کی جنگ<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjntuWZkIDYUNzhNZNx5wnjh66l-KPVuISvCH9jeMPcIJjvnR26Ebzpi48B_JAkffL-iiBwVgxbACf3kzeSYOS6Yv6BEnyjSU3I4iRgO-EsZGfDtSsTxbmYQgovxOILL-2ve9wzQQF6jVf57RIj4L-z--0UKE1S1zXBd-1CtjaFuYuIhgDPkuhckcjHstg/s1600/how-progressive-cosmopolitan-and-social-justice-oriented-islam-can-help-overcome-sectarianism.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="how-progressive-cosmopolitan-and-social-justice-oriented-islam-can-help-overcome-sectarianism" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjntuWZkIDYUNzhNZNx5wnjh66l-KPVuISvCH9jeMPcIJjvnR26Ebzpi48B_JAkffL-iiBwVgxbACf3kzeSYOS6Yv6BEnyjSU3I4iRgO-EsZGfDtSsTxbmYQgovxOILL-2ve9wzQQF6jVf57RIj4L-z--0UKE1S1zXBd-1CtjaFuYuIhgDPkuhckcjHstg/s1600/how-progressive-cosmopolitan-and-social-justice-oriented-islam-can-help-overcome-sectarianism.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">مضمون </span><span class="nmd-agency">ڈاکٹر سعد احمد، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی </span></div>
<p>
گذشتہ دہائی میں مسلم فرقہ راویت میں اضافے کو دیکھتے ہوئے، خصوصا مشرق وسطی میں،کوئی شخص اگر یہ سوال کرتا ہے کہ کیا مسلمانوں کا تاریخی اور شیعہ،سنی جیسے مذہبی خیال سے بالاتر کوئی تصور آج ممکن ہے تو یقینا ایسے شخص کو درگذر کردیا جائےگا۔
<br />
فرقہ وارانہ یا مذہبی تشدد کے متعدد حالیہ واقعات اور دیگر مسلمانوں کی طرف سے مسلمانوں پر جاری جبر (مسلم اکثریتی دنیا کے بہت سے حصوں میں فرقہ وارانہ تقسیم کے اندر) جس کے نتیجے میں بہت سی جانیں ضائع ہوئی ہیں ، شکوک و شبہات اور اس سلسلے میں قلت جواز اور مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔
<br />
تاہم ، اس طرح کی سنگین صورتحال کہیں ہماری کوششوں کو نہ روک دے۔ دوسرے الفاظ میں ، موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے کا متبادل آج بہت سے مسلمانوں کے لیے اخلاقی اور مذہبی/نظریاتی دونوں بنیادوں پر قابل قبول نہیں ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ مسلم فرقہ واریت سےمبرا ہونے کے لیے دانشورانہ اور زندہ حقیقت پر مبنی مباحث پہلےہی سے ایسی شکل میں موجود ہیں جسے میں ترقی پسند اسلام کا نظریہ کہتا ہوں ( کسی بھی ہم خیال کے لئے یہ حد درجہ مطلوب ہے)۔
</p><br />
<blockquote>
مسلمانوں میں آفاقیت کا بحران:
</blockquote><p>
مختلف مذہبی روایات (بین مذہبی) کے درمیان آفاقیت کی طرف توجہ میں اضافہ ہوا ہے اور ناقابل تلافی مذہبی تکثیریت نے گو کہ نظریاتی طور پر ہی اس کی اہمیت کو قبول کیا ہے۔
<br />
میں، یہ ایک ایسے شخص حیثیت سے کہہ رہا ہوں ہوں (بنیادی طور سے دین ابراہیمی کے درمیان) جو تقریبا 20 سال سےبین المذاہب مکالمے میں سرگرم رہا ہے اور ساتھ ہی اس موضوع میں علمی دلچسپی بھی رکھتا ہے۔ بہرحال ان ترقیوں کے باوجود، مسلمانوں کے درمیان آفاقی جذبہ اپنی رفتار میں کسی قدر سست رو واقع ہوتا جارہا ہے اور چند استثناء کے ساتھ جیسے کہ پیغام عمان (2006) ، اداریاتی طور شاید ہی ایسی کوششیں ہوئی ہوں جن کا اس طور کا کوئی تعمیری مقصد ہو۔
</p><br />
<p>
بہت سے سماجی و سیاسی اور معاشی چیلنجز جن کی وجہ سے مسلم دنیا فرقہ واریت کا شکار ہوتی ہے، کم از کم جزوی طور پر ہی ان کی ناکامی اس حقیقت میں اپنی جڑیں رکھتی ہیں کہ اسلام اور اسلام کی فکری روایت نئے طریقے سے سوچنے کی متحمل نہیں۔۔۔یعنی وہ طریقے جو اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ تاریخی (مذہبی۔نظریاتی) بندر بانٹ اور شیعہ سنی کے درمیان اسلام کی شروعات سے ہی رنجش اور عداوت سے بالاتر ہوسکیں۔مسلمانوں کو اسلامی تصور کی خاطر متبادل نظریہ تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جو ان فرقہ وارانہ بیانیوں کو جنہوں نے تاریخی طور سے شیعہ سنی نزاع کو غذا بخشی؛ کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔یہی وہ مقام ہے جہاں ترقی پسند اسلام یا ترقی پسند مسلم فکرو نظر منظرِعام پر آتی ہے۔
<br />
میری علمی دلچسپیوں میں ترقی پسند اسلام کا نظریہ سنی( خالد ابولفضل، عبد اللہ سعید، کیشیا علی، حسن حنفی،سعدیہ شیخ، ابراہیم موسی، محمد الجابری) اور شیعہ(زیبا میر حسینی، عبد العزیز سچیدینا، محسن کادیوار، عشقواری، عبد الکریم سروش ) دونوں طرح کے مفکرین کے کاموں سے اثرات کشید کرتی ہے اور اسلامی مفکرین اور ان کی تہذیبی تراث کی اس انداز میں نظریہ سازی کرتی ہے جو مذہبی اور اعتقادی عناصر جن کی وجہ سے سنی اور شیعہ آرتھوڈاکسی کی وہ شکل جو ہمارے سامنے ہے، اسے کم سے کم حاشیہ میں ہی سہی ایک مقام عطا کرسکے۔
</p>
<p>
اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرانا بہت ضروری ہے کہ ترقی پسند اسلام کے "ستونوں" میں سے کوئی بھی ان مسائل اور عقائد سے منسلک نہیں ہے جو سنی اور شیعہ کے درمیان روایتی نزاع پر منحصر ہیں ، یعنی مذہبی استناد کی نوعیت اور مقام ، نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی (اجتماعی) صداقت اور اس کے بعد کے سیاسی دینیات (امامت اور خلافت) جو اپنے سنی اور شیعہ دونوں شکلوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ ، اوپر بیان کردہ خاص طور پر سنی اور شیعہ عقائد میں سے کوئی بھی جو اسلام کے اندر ان روایات میں سے ہر ایک کے لیے بنیادی ہیں، نظریہ ترقی پسند اسلام کے عینک سے کسی طور بھی معیاری نہیں ہیں۔
<br />
میں سنی اور شیعہ قدامت پسندوں کو اس طرح سمجھتا ہوں جیسا کہ مذکورہ عمان پیغام میں ذکر کیا گیا ہے ، یعنی اسلام کی آٹھ ایسی شکلیں ہیں جو "خاص طور پر سنی ، شیعہ اور عبادی اسلام کے تمام مذاہب (فقہی مدارس) کی صداقت کو تسلیم کرتی ہیں ؛ اسلامی صوفیت کے روایتی اسلامی الہیات (اشعریہ) اور حقیقی سلفی فکر کی ، اور مسلم کون ہے اس کی مختصرا تعریف پیش کی ہے"۔ یہ آرتھوڈاکسی یا قدامت پسندی کی بنیاد اسلامی کیلنڈر کی پانچویں صدی کے آس پاس رکھی گئی تھی اور آج تک جاری ہے۔
</p><br />
<blockquote>
ترقی پسند اسلام کے ستون اور اسلامی فرقہ واریت:
</blockquote><p>
ترقی پسند اسلام مخصوص سنی اور شیعہ عقائد سے وابستہ کسی بھی نظریے اور عقائد کو معیار نہیں مانتا ، بلکہ خالصتا تاریخی تصور کرتا ہے۔ اور خود کی اپنی تعریف کے سلسلے میں ترقی پسند اسلام کی وضاحتی خصوصیات ان پیمانوں سے بالاتر ہیں جن کے اندر سنی اور شیعہ روایت پسند دونوں علمی ، تفسیری اور منھجی لحاظ سے کام کرتے ہیں۔ لہذا ، ترقی پسند اسلام نہ صرف اس لحاظ سے سنی/شیعہ قدامت پسندوں کی حدود سے بالاتر ہے ، بلکہ یہ اپنے کسی بھی بنیادی مقدموں/ستون پر سمجھوتہ کیے بغیر ایسا کرتا ہے۔
</p><br />
<blockquote>
معرفتی وسعت اور منھجی روانی پر مبنی تخلیقی ، تنقیدی اور اختراعی فکر:
</blockquote><p>
ترقی پسند اسلام کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے حامی روایت پسندی بمقابلہ جدیدیت ، سیکولرازم بمقابلہ مذہب ، یا جدیدیت جیسی سادہ عمومی روایات کو مغربی یا یہودی-عیسائی دانشورانہ/تہذیبی روایات کے برابر نہیں مانتے۔ لہذا ، ترقی پسند اسلام کے نظریاتی معمار دیگر ثقافتوں کے ترقی پسند ایجنڈوں کے ساتھ مستقل مکالمے میں مصروف ہیں، جو لبریشن تھیولاجی، حقوق نسواں اور سیکولر انسانیت جیسی تحریکوں سے متاثر ہیں۔
<br />
ترقی پسند مسلم فکر کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سنی اور شیعہ روایت پسندوں کے مقدس ترین ماضی کی تشریحات سے بچنے کے قابل بناتا ہے جو ان کے ہم عصر متعلقہ مسلمانوں پر مسلسل سنی یا شیعہ ہونے کے معنی سے متعلق گفت و شنید کے عناصر کے طور پر مسلط کیے جا رہے ہیں۔ ترقی پسند مسلم فکر ان میں سے کسی بھی طریقے سے یا بالکل بھی 'مقدس ماضی' کو ترجیحی استحقاق نہیں دیتی۔ یہ وراثت میں ملنے والے دانشورانہ اور ثقافتی ورثے (تراث) کے نئے خیالات اور ازسر نوتفکیر و تفہیم کے لیے یکسر کھلا ہے کہ وہ تخلیقی طور پر اس میں ضم ہو سکتے ہیں اور اس اہم طریقے سے تبدیل ہو سکتے ہیں۔
</p><br />
<blockquote>
اسلامی الہیات اور عقائد کے بارے میں تاریخی نقطہ نظر:
</blockquote><p>
ترقی پسند مسلم باحثین اسلامی الہیات کے لیے تاریخی اور خاص سیاق و سباق کے نقطہ نظر سے اپنے اجتہاد ی کوششوں پر اپنی تعمیرات کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ (وحی/تنزیل) کے قرآنی استدلال اور اس کے طریقہ کار (منہج) کے تصور سے متعلق ہیں اور اس کے بعد اسلامی الہیات ، عقائد اور فرقہ وارانہ تصور نجات کی مختلف شکلوں کی نشو نما سے متعلق ہیں۔ ان سب کی تاریخی عمل کو ضمنی پیداوار کےطور پر دیکھا جاتا ہے جو مذہبی اور سیاسی دونوں طرح کے مختلف اسٹیک ہولڈرز اور محرکات کے ذریعہ دوبارہ موضوع بحث بنائے جاتے ہیں۔ لہذا ، اسلامی عقیدے کے ان تمام پہلوؤں ، خاص طور پر وہ جو سنی اور شیعہ قدامت پسندوں کی فرقہ وارانہ تصور نجات سے وابستہ ہیں، کو 'حتمی' نہیں سمجھا جاتا ہے ، بلکہ ان پر نظر ثانی اور تنقید کی جاتی ہے۔
</p><br />
<p>
اس کے علاوہ، ترقی پسند مسلم الہیات کا عمل الہیات کے مختلف باحثین جیسے کہ سی ایچ ہارتھشارن، جے کاب،ڈی آر گریفن سے وابستگی بھی رہی ہے اور ایک طرح کی اسلامی عمل الہیات ہے جو کہ خدا کہ بارے میں وحدانیت کے کلاسیکی نقطہ نظر ، اور خدا کا کائنات اور تمام مخلوق سے تعلق سے کسی قدر دور بھی ہے۔ اس حساب سے اسلامی علم الہیات وحی کے نظریات اور مذہبی تجربات پر مبنی ہے جس پر اسلامی باحثین نے خاص طور سے توجہ دی ہے جیسے کہ ابن عربی، محمد اقبال، نصر ابو زید، اور عبد الکریم سروش جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کیسے مذہبی تجربے کی اہمیت اور مرکزیت اور عمل الہیات کے نظریات عارضی اور متحرک ہیں۔
</p><br />
<blockquote>
اسلامی روایت کے لیے انسانی حقوق پر مبنی نقطہ نظر:
</blockquote><p>
پہلے ذکر کیاجا چکا ہے کہ سنی اور شیعہ کی دینیاتی تشکیل اور مستند علم کے تعلق سے ان کا طریقہ تفہیم دونوں ہی ماقبل جدیدہیں جیسا کہ وہ تصور تراث کے ضمن میں پیش کرتے ہیں اور خدا کی ماہیت، کائنات اور دیگر مخلوق کے ساتھ خدا کےتعلقات ان کے دینیاتی نظریئے ہیں۔معرفتی اعتبار سے ماقبل جدید ہونے کی وجہ سے معاصر حقوق انسانی کے لائحہ عمل اور روایت پسندی کے درمیان بشمول اس کے کہ کیسے انسانی وقار اور حقوق انسانی کا تصور کیا گیا ہے۔
<br />
انسان کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کے سلسلے میں سنی اور شیعہ دونوں اخلاقی اور قانونی حقوق اور ذمہ داریوں کا ایک مجموعہ رکھتے ہیں جو افراد کو ان کے دینی تعلق (صنف اور سماجی طبقے کے علاوہ) کی بنیاد پر ممتاز کرتے ہیں ، مزید یہ کہ ان کے اپنے اپنے آئیڈیل اسلام سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح ، جیسا کہ عبد العزیز سچدینا اور عبد اللہ احمد النعیم جیسے اسکالرز نے استدلال کیا ہے ، وہ جدید انسانی حقوق کی اسکیموں کے نمونوں سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔
<br />
دوسری طرف ترقی پسند مسلم فکر ، اس لحاظ سے کہ یہ تراث کے قریب کیسے پہنچتی ہے ،معرفتی طور پر (مابعد جدید) ہے اور اس پر مبنی ہے جسے شہلا بن حبیب مابعد جدیدیت کی ایک کمزور شکل قرار دیتی ہیں۔ اوپر بیان کردہ ان کے تاریخی اور سیاق و سباق کے نقطہ نظر کے مطابق ، ترقی پسند مسلم اسکالرز جیسے سچدینا اور النعیم، مطابقت کے مسئلے یا جدید انسانی حقوق کی گفتگو اور اسلامی روایت کے درمیان تعلقات کو ”تاریخی“ تناظر میں رکھتے ہیں (تاکہ تطبیق میں آسانی ہو)۔
<br />
یہ تاریخی طریقہ کار جزوی طور پر الہیاتی آنٹولوجی کے ایک خاص تصور پر مبنی ہے جس کے اہم ترین اصول عدل اور رحم ہیں۔ ان اقدار کو آفاقی اخلاقی اقدار کا منبع سمجھا جاتا ہے جنہیں مذہب یا جنس سے قطع نظر تمام انسانیت پر یکساں طور پر لاگو کیا جانا چاہیے۔ یہ دلیل ، عوض میں ، اس بنیاد پر مبنی ہے جس پر ترقی پسند مسلم فکر اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ہر انسان کو خدا کی ایک منفرد تخلیق سمجھا جاتا ہے جس میں ان کے مذہبی تعلق سے قطع نظر یکساں وقار ، اخلاقی قدر اور اخلاقی ایجنسی ہوتی ہے۔ لہذا ، ہر فرد اور جماعت جو ان افراد پر مشتمل ہیں ، بشمول سیاسی ، یکساں ناقابل تنسیخ حقوق سے محظوظ ہونے کے حقدار ہیں۔ انسانی حقوق کے بارے میں اس نقطہ نظر کی بنیاد پر ، ترقی پسند مسلم اسکالرز مسلم اکثریتی معاشروں کے مذہبی ، سماجی اور ثقافتی تانے بانے میں انسانی حقوق کی جدید گفتگو کی اخلاقیات اور ثقافت کو باندھنے کے عمل کے لیے ابتدائی نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے کے قابل ہیں اور اس طرح اس سلسلے میں سنی اور شیعہ روایت پسندوں کی حدود کو عبور کرتے ہیں جسمیں خواتین اور اقلیتی حقوق کے شعبے بھی شامل ہیں۔
</p><br />
<blockquote>
اسلامی الہیاتِ حریت:
</blockquote><p>
حسن حنفی ، اصغر علی ، فرید اسحاق اور شبیر اختر جیسے ترقی پسند مسلم مفکرین کے لیے وحی کا تصور بنیادی طور پر مذہبی( تھیوسینٹرک) نہیں بلکہ بشری (اینتھروپوسینٹرک) تصور ہے جو مطالعہ کے موضوع کے طور پر خدا کے بجائے انسانیت کو مکمل تاریخی روشنی (یا تاریخ کی روشنی) میں لاتا ہے۔ اس کے علاوہ ، اسلام کے نام نہاد پانچ ستونوں کو ان کی شکل میں مذہبی لیکن سیاسی نوعیت کا سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کے مواد سے آزادی رائے ، عمل کرنے کی آزادی ، کسی کے اعمال کی ذمہ داری اور اس وجہ سے انصاف قائم کرنے اور نا انصافی کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور توحید کا تصور (جسے عام طور پر ایک مذہبی تصور کے طور پر سمجھا جاتا ہے جو 'الہیاتی اتحاد' کو اسلامی الہیات کے مرکزی اصول کے طور پر بیان کرتا ہے) ایک عمل پر مبنی عقیدہ سمجھا جاتا ہے جو پوری انسانیت کے نجات بخش اور آزادانہ طریقوں کی تصدیق کرتا ہے اور جبر ، ظلم اور نا انصافی کے خلاف مزاحمت بھی کرتا ہے۔ ترقی پسند اسلامی الہیات ، سنی کے برعکس اور ، کچھ حد تک شیعہ روایت پسندی برعکس بھی، قدامت پسندی پر آرتھوپراکسس یعنی صحیح عمل کو ترجیح دیتی ہے۔ اس طرح کی دینیات دوسرے لفظوں میں اگر سمجھیں تو عقائد اوراس سے سختی سے وابستگی کے بجائےانسان اور انسانی صورتحال کواس قسم کی الہیات کا مرکز سمجھتی ہیں۔
</p><br />
<blockquote>
مذہبی تکثیریت کی توثیق:
</blockquote><p>
، بالآخر،ترقی پسند مسلم الہیات تکثیریت ، تنوع اور جو اس سب کے لیے بنیادی ہے یعنی غیر یقینی صورتحال کوقبول کرتی ہے بلکہ اسی میں نشو نما بھی پاتی ہے۔ مرکزی صف میں شامل سنی اور شیعہ روایت پسند دونوں بنیادی طور پر نجات کو( ایک خاص نقطہ نظر سے) صرف مسلمانوں تک محدود رکھتے ہیں ۔ ترقی پسند مسلم اسکالرز جیسے دوسری طرف عبد الکریم سروش اور فرید اسحاق کئی سطحوں پر مذہبی تکثیریت اور تکثیری تصور نجات کے معیاری جواز کے نظریہ کی تائیداور تصدیق کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، وہ علمی و معرفتی سطح پر تکثیریت کو تسلیم کرتے ہیں اور 'مذہب' کے درمیان فرق کو ایک تجریدی تصور اور مذہبی علم کے درمیان فرق کو ایک ٹھوس، غیر منظم اور تاریخی تصور کے طور پر اجاگر کرتے ہیں۔ وہ مذہبی متون کو سمجھنے (اصول تفسیر۔صحیفاتی تعقل) کی سطح پر تکثیریت کو قبول کرتے ہیں۔ آخر میں ، ترقی پسند مسلم اسکالرز مذہبی تجربات کی سطح پر تکثیریت کو تسلیم کرتے ہیں جسے عارضی اور متحرک سمجھا جاتا ہے۔
<br />
اس خیال کی تائید کہ متعدد مذہبی روایات نجات کی طرف لے جانے والی رہنمائی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ، اسے مجموعی طور پر ترقی پسند مسلم فکر میں اہم کام سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ، یہ تصدیق بتاتی ہے کہ کس طرح ترقی پسند مسلم فکر انسانی اخلاقی ذمہ داری کے تصور کو منصفانہ اور شائستہ بناتی ہے۔ مذہبی اور نجات بخش تکثیریت کو فلسفیانہ طور پر بھی پیشگی شرائط کے طور پر دیکھا جاتا ہے ،اور یہ شرائط انسانی حالت کے حقیقی معنی کو آنٹولوجیکل یا ماہیاتی طور پر سمجھنے کے لیے بھی اہم ہے جو سنی اور شیعہ روایتندوں کے معیارسے بہت آگے ہے جس کی بنیاد 'ایک مومن کی کافر' پر برتری کی منطق پر رکھی گئی ہے۔
</p><br />
<blockquote>
ایک اہم بنیادی تعمیر:
</blockquote><p>
نظریہ سے بالاتر ، میں یہ بھی مانتا ہوں کہ باشعورمسلمانوں کی ایک ایسی جماعت موجود ہے جو کریٹیکل ماس کی حیثیت رکھتی ہے اورایک بنیاد کھڑی کرنے کے لئے پہلی سیڑھی، جن کے لیے وہ تاریخی عمل جو آج سنی اور شیعہ اسلام کے نام سے جانا جاتا ہے ،وہ کسی طور سے بھی بنیادی سوال نہیں کہ وہ خود کو مسلمان کے طور پر کس طرح دیکھتے ہیں یا اس سے جڑے ہیں۔
<br />
اس کے بجائے ، ان کے مسلمان ہونے کے احساس کو اس عقیدے کے نقطہ نظر سے تقویت ملتی ہے جس کا میں نے خاکہ پیش کیا ہے جو ترقی پسند اسلام کی خصوصیت رکھتا ہے؛ وہ (سیاسی) الہیات کے بارے میں کم ہے اور ایک آفاقی ہمہ جہت، سماجی انصاف پر مبنی اسلام کی ترقی کے بارے میں زیادہ ہے جس میں اسلام کی حدود کے اندر بلکہ مذہبی فرق سے باہر بھی ایک مضبوط اتحاد کی روح بستی ہے۔
<br />
یہ میرا پختہ یقین ہے کہ اسلام کے بارے میں اس طرح کے نقطہ نظر کی توثیق اور تائید آج مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے لیے یکساں طور پر متعدد وجوہات کی بنا پر انتہائی ضروری ہے جس میں مسلم فرقہ واریت کا مسئلہ اور اس کے ماوراء مسائل بھی شامل ہیں۔
</p>
<div style="text-align: left;">***<br />
<a href="https://melbourneasiareview.edu.au/how-progressive-cosmopolitan-and-social-justice-oriented-islam-can-help-overcome-sectarianism" target="_blank">انگریزی مقالہ</a>: پروفیسر عدیس ددریجا، گرفتھ یونیورسٹی، آسٹریلیا۔
<br />
اردو ترجمہ: ڈاکٹر سعد احمد، جامعہ ملیہ اسلامیہ۔
<br />
اسسٹنٹ پروفیسر، نیلسن منڈیلا مرکز برائے امن، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
<br />
ای-میل: saadfarouqee[@]gmail.com
</div>
<br />
<div class="tn-snippet">How progressive, cosmopolitan and social justice-oriented Islam can help overcome sectarianism. By: Dr Adis Duderija<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-90631065463564508152023-09-22T15:36:00.002+05:302023-09-24T15:38:02.628+05:30سچ کو سلیوٹ : آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کاراباع علاقہ تنازع<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgAZGlDvxcsJGXOR5jyFcmlSBNL1PoNLvfTx-bxu2eWeG9RIvpV5Jug5wM04-vOaKmjYVWEbEEx9qaBuHMZSUJ1wkAQsi6r-pK8ZcB3-UTheQDOw8kiiE3aO0jKKFH1J2aqJG7uqe6jGfz5dn0iu_2nLj29xyFGgHyEiE61z1qYRH2F8LU0qzneqvS4tAU/s1600/nagorno-karabakh-conflict-between-azerbaijan-armenia.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="nagorno-karabakh-conflict-between-azerbaijan-armenia" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgAZGlDvxcsJGXOR5jyFcmlSBNL1PoNLvfTx-bxu2eWeG9RIvpV5Jug5wM04-vOaKmjYVWEbEEx9qaBuHMZSUJ1wkAQsi6r-pK8ZcB3-UTheQDOw8kiiE3aO0jKKFH1J2aqJG7uqe6jGfz5dn0iu_2nLj29xyFGgHyEiE61z1qYRH2F8LU0qzneqvS4tAU/s1600/nagorno-karabakh-conflict-between-azerbaijan-armenia.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">مضمون </span><span class="nmd-agency">طاہرے گونیش (ترکی) </span></div>
<p>
سچ آخر تک سچ رہتا ہے اور جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے۔ لہذا سچ کبھی مٹتا نہیں ،جھوٹ کبھی چلتا نہیں۔
<br />
اور انسان کی عظمت، عاجزی اور اپنی غلطی تسلیم کر لینے میں ہے۔ یوں تو جب آپ کسی شعبے سے وابستہ نہ ہوں تو آپ کو اس شعبے کی اونچ نیچ اور معلومات نہیں ہوتی ہیں۔ ترجمے کی ڈگری کے دوران ہمارے دو میجر مضامین ہوا کرتے تھے جنھیں Translation of Language of Press (صحافتی زبان کا ترجمہ) کہا جاتا تھا۔ یوں ہمیں روز ڈھیروں تازہ اخبارات کا مطالعہ کرنا پڑتا تھا کہ خبر کی نوعیت کیا ہے اس کی زبان وغیرہ کس قسم کی ہے اور اسے ترجمہ کس انداز سے کرنا ہے۔
<br />
پریس کی لینگویج یا صحافتی زبان سب سے زیادہ Updated زبان ہوتی ہے۔ اس لئے اخبارات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ خیر، چند ایسے میڈیا ہاؤسز ہیں جن کا تعصب اور نامہ نگاروں کی کم علمی خبر کی نوعیت کا حشر نشر کر دیتی ہے۔ اس ضمن میں چند میڈیا ہاوسز جو ترک دنیاکے بارے میں مثبت رپورٹنگ نہیں کرتے ان میں ڈی ڈبلیو اور انڈیپنڈنٹ اور وی او اے سر فہرست ہیں کیونکہ ان کی حکومتوں کی ترک حکومتوں سے بنتی نہیں۔ خاص کر جمہوریہ ترکیا سے۔ مگر چند دوست نما میڈیا ہاوسز ایسے بھی ہیں جو بظاہر دوست ہیں ہمدرد ہیں مگر ترکی کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے ان کی فاش اغلاط ان کی قلعی کھول دیتی ہے۔ طرہ یہ کہ وہ اپنی غلطی، نشاندہی کرنے پر بھی نہیں مانتے۔ جیسے رجب طیب اردوان اردو نام کا ایک ادارہ ، اس معاملے میں، مجھ سے گستاخی سے پیش آتا رہا ہے چاہے وہ اس بات کو کتنا ہی اگنور کرتا رہے۔ میں ایک ذمہ دار پوزیشن پر موجود خاتون ہوں اور خارجہ امور اور بین الاقوامی تعلقات عامہ ، ترکیہ کا سیاسی و سماجی، تاریخی، جغرافیائی، ادبی منظرنامہ جتنا میرے مشاہدے میں ہے اتنا کسی بھی مذکورہ ادارے کے منتظمین یا نامہ نگاروں یا صحافیوں کا نہیں ہے۔
</p><br />
<p>
خیر، نگورنو کاراباع جو آذربائیجان کا وہ پہاڑی علاقہ تھا جو آج سے تیس برس قبل سویت یونین کے خاتمے کے ساتھ آذربائیجان کے ہاتھ سے لے کر آرمینیا کو تھما دیا گیا تھا اور وہاں سے آذربائیجانی مسلمانوں کو قتل عام کرکے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ اور وہاں غیر قانونی ، ناجائز آرمینی آبادکاری کی گئی تھی۔ اس ضمن میں آذربائیجان اور آرمینیا کی کئی جھڑپیں ہوئیں کئی بار بات ایک فل اسکیل وار تک پہنچی مگر پھر روس یا کوئی اور ثالثی کرنے پہنچ جاتا تھا۔
<br />
آذربائیجان اپنا مقدمہ لے کر اقوام متحدہ کی عدالت میں گیا۔ اور وہاں پر آذربائیجان کا موقف اس علاقے کی ملکیت کے حوالے سے تسلیم کر لیا گیا۔ اس ضمن میں ترکیا اور پاکستان نے سفارتی محاذ پر کھل کر آذربائیجان کے ناگورنو کاراباع کے موقف کی حمایت کی۔ اور آرمینیا کو سفارتی سطح پر تسلیم نہ کرنے کا اعادہ کیا۔ جو اب تک قائم ہے۔ نتیجتاً نہ تو پاکستان کا آرمینیا میں کوئی سفارتخانہ یا سفارتی تعلقات ہیں نہ ہی جمہوریہ ترکیہ کے۔
</p><br />
<p>
کئی برس سے چلا آ رہا یہ تنازعہ تب عروج کو پہنچا جب جولائی 2020 میں آرمینیا نے آذربائیجان کے اہم کمانڈر جنرل، پولاد ہاشموف کو شہید کر دیا۔ عوامی غیض وغضب کا یہ عالم تھا کہ( اس وقت میں خود باکو میں موجودگی کے دوران ان سب واقعات کی چشم دید گواہ ہوں) لوگ باکو میں قومی اسمبلی کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو کر حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ اگر اس بار آپ جنگ کا اعلان نہیں کریں گے تو ہم عوام خود اسلحہ لے کر آرمینیا کے خلاف اعلان جنگ کر دیں گے۔ صورتحال بے قابو ہوتے دیکھ کر آذربائیجان کے کمانڈر انچیف اور صدر الہام علیوف نے آرمینیا کے خلاف فل اسکیل وار کا اعلان کر دیا۔ اور جنرل موبلائزیشن بھی شروع ہوگئی۔ 44 روزہ اس جنگ میں آذربائیجان نے نگورنو کاراباع کے تقریبا تمام مقبوضہ علاقے واپس حاصل کر لئے جبکہ صرف خان کیندی جو ناگورنو کاراباع کا دارالحکومت تھا اس تک رسائی سے قبل روس کی ثالثی کے باعث جنگ بندی کر دی گئی۔
</p><br />
<p>
آذربائیجان نے اپنے واپس حاصل کردہ تمام علاقوں سے بارودی سرنگوں کی صفائی کا کام شروع کر دیا۔ مال غنیمت اٹھا کر باکو میں نمائش کے لئے پیش کر دیا اور ایک عظیم الشان فتح کا جشن منایا گیا جس کے مہمان خصوصی صدر اردوان تھے۔ میں خود اس جشن میں شریک تھی۔ اور میرے شوہر اس وقت ترک سفارتخانے کے قنصلیٹ کو ہیڈ کر رہے تھے۔ اس کے بعد ان مفتوحہ علاقوں میں تیز رفتار ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا۔ آذربائیجان کی وہ تاریخی مساجد جن میں آرمینیوں نے خنزیر باندھ رکھے تھے وہ پھر اذان کی صداؤں سے گونج اٹھے۔ اور ان میں تلاوت قرآن شروع ہوئی۔ فضولی میں ائیرپورٹ تعمیر ہوا۔ شوشہ میں ثقافتی رنگ واپس لوٹے، لاچن میں کاریڈور کی تعمیر شروع ہوئی۔ گنجہ، جبرئیل، قلبجار اور دیگر اہم علاقوں میں بھی تیز رفتار ترقی جاری رہی۔ اس دوران خان کیندی اور وہ علاقہ جہاں آذربائیجان نہیں پہنچ سکا تھا وہاں جنگ بندی معاہدے کے تحت peace keeping force روس کی جانب سے تعینات کر دی گئی۔ کیونکہ ثالثی کا فریق وہی تھا۔
<br />
پھر آرمینیا اس ہزیمت بھری شکست کا بدلہ لینے 2023 ستمبر میں دوبارہ آذربائیجان پر حملہ آور ہوا اور نخچیوان تا خان کیندی انھوں نے بلا اشتعال جھڑپوں کا آغاز کر دیا۔ خیر، اس بار پھر آذربائیجان کی بہادر سپاہ نے آرمینیا سے باقی ماندہ اپنا علاقہ بھی واپس حاصل کر لیا۔ اور یوں آزادی کا یہ تین دہائیوں پر مشتمل مشن مکمل تو ہوا۔ مگر اس کے پیچھے ہزاروں شہداء کا لہو اور ان کے گھر والوں کے آنسو اور بہادر فوج کی جستجو تھی۔
</p><br />
<p>
لیکن چند جاہل ایڈیٹرز اور صحافی اور دوسرے درجے کے ادیب دانشور جو اپنے خرچے پر ریل کے تیسرے درجے میں سفر کرنے کے لائق ہیں، وہ آذربائیجان کی جنگی قوت اور استعداد کا جتنا دل کرتا تھا روز ٹرول پوسٹس کے ذریعے مذاق اڑاتے تھے۔ چونکہ اس جنگ میں آرمینیا کو سارے مغربی ممالک اور امریکہ، روس کی حمایت حاصل تھی اس لئے ان نام نہاد دانشوروں نے بھی سوچا کہ پلڑا تو ان کا بھاری ہے اور جن کا بھاری ہو پلڑا یہ خود بھی سر کے بل اس میں گر جاتے ہیں۔ جبکہ آذربائیجان کی حمایت میں ترکیہ، پاکستان اور اسرائیل یہ سب کھڑے تھے۔
<br />
جمہوریہ ترکیہ نے آذربائیجان کو جدید ڈرون بایراقطار فراہم کئے جبکہ پاکستان اور اسرائیل نے سفارتی محاذ پر مدد فراہم کی۔
</p><br />
<p>
ان دانشوروں نے مجھے بھی برا بھلا کہا اور آذربائیجان کے شہداء کے لہو کا بھی باقاعدہ مذاق اڑایا۔ جس پر میں نے ان سے احتجاج کیا۔ تو انھوں نے مجھے بھی ٹرول کرنا شروع کر دیا حالانکہ اخلاقیات کے یہ بہت بڑے چیمپین وغیرہ بنتے ہیں بلکہ میری ذاتی زندگی اور کردار پر بھی کاری وار کئے۔
<br />
خیر، ان دانشوروں میں سے کوئی بھی کبھی آذربائیجان کے ان علاقوں سے نہ تو واقفیت رکھتا تھا نہ ہی کبھی گیا تھا۔ بس جہالت کے کرشمے دکھاتے لفظوں کے ہیر پھیر سے خود کو ٹرولنگ لیجنڈ ثابت کرنے والے ان ایڈیٹرز و صحافی و ادیب نما مخلوق کی صفوں کو آج خبر ہوگئی ہوگی کہ اپنی کم علمی اور کوتاہی اور غلطی پر اکڑ کر عزازیل کا خطاب پانے سے بہتر ہے کہ اس ایک خاتون صحافی سے سبق سیکھیں، جن کا نام ہے: مدثرہ منظر صاحبہ۔
<br />
جنھوں نے وائس آف امریکہ کے پیج پر آذربائیجان کی تازہ ترین صورتحال کی ایک خبر نشر کی۔ مجھے اس خبر کی کچھ سطروں پر اعتراض تھا۔ نشاندہی کرنے پر انھوں نے فراخدلی سے نا صرف وہ سطریں نکال دیں بلکہ درست سطور لکھ کر خبر کی صداقت اور قدر و قیمت میں اضافہ کیا بلکہ اپنا قامت بھی بلند کیا۔ اسے کہتے ہیں اعلی صحافتی اقدار۔ کہ کسی غلطی کی نشاندہی اور تصحیح کو انا کا مسئلہ نہیں بنا لیتے نہ ہی تصحیح و نشاندہی کرنے والے کو ذلیل کرتے ہیں۔ نا ہی خود کو عقل کل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ انسان خطا کا پتلا ہے کے تحت اپنی غلطی مان کر درست کرتے ہیں۔ میری نظر میں تو محترمہ مدثرہ منظرکی قامت بلند ہوئی سو ہوئی مگر یہ خبر میں آذربائیجانی پریس اور ان کی حکومت تک پہنچاؤں گی تو ان کی نظر میں بھی ان کا وقار بڑھے گا۔
</p><br />
<blockquote>
<b>متنازعہ سرخی:</b>
<br />
آذربائیجان نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ایک فوجی آپریشن کے نتیجے میں اس نے نگورنو کاراباخ پر قبضہ کر لیا ہے۔
<br />
<b>تصحیح شدہ سرخی:</b>
<br />
آذربائیجان نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ایک فوجی آپریشن کے نتیجے میں اس نے نگورنو کاراباخ پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
</blockquote>
<br />
<p>
خدا ہم سب کو جعلی دانشوروں اور ایڈیٹرز کے نرغے سے بچائے جو بنام صحافت اپنی انا بیچتے ہیں اور دوسروں کی کلاہ مٹی میں رولتے ہیں۔
</p>
<div style="text-align:left;">***<br />
بشکریہ و بہ اجازت: <a href="https://www.facebook.com/tahiracengiz" target="_blank">طاہرے گونیش</a> فیس بک ٹائم لائن
<br />
طاہرے گونیش، اردو کی قلمکار ہونے کے ساتھ معروف ترک مصفنہ و مترجم ہیں اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں زیرتعلیم رہی ہیں۔ ان کے خاوند ایک ترک سفارت کار ہیں۔
</div>
<br />
<div class="tn-snippet">Nagorno-Karabakh conflict between Armenia and Azerbaijan. Analysis: Tahire Gunes<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-28107885544497894502023-09-18T14:19:00.008+05:302023-09-18T15:20:01.693+05:30تعدادِ الفاظ کی قید والی کہانیاں - از مکرم نیاز<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZETcTvVCyy8jsEPP3Kg3rde3v70ErDsVkfj26L2FQEbnZS0FH-vWrBCd4xOLxlPkVjGv-Y9YAfuZfOU_vsBWeZvpKS5NVVeJOLIYBk8ib-001E9aK40ApNbWjSUrMxjOtBw-mvt6Zoq8izeMdcGeqmyFi9SNRL6n6GCzMwZXv8dmEwZ2uQB7ZkIzRt9U/s1280/short-story-specific-number-of-words.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="short-story-specific-number-of-words" border="0" width="600" data-original-height="720" data-original-width="1280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZETcTvVCyy8jsEPP3Kg3rde3v70ErDsVkfj26L2FQEbnZS0FH-vWrBCd4xOLxlPkVjGv-Y9YAfuZfOU_vsBWeZvpKS5NVVeJOLIYBk8ib-001E9aK40ApNbWjSUrMxjOtBw-mvt6Zoq8izeMdcGeqmyFi9SNRL6n6GCzMwZXv8dmEwZ2uQB7ZkIzRt9U/s600/short-story-specific-number-of-words.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">مضمون </span><span class="nmd-agency"><a href="/search/label/smn">مکرم نیاز </a> </span></div>
<p>
دستیاب معلومات کے مطابق پہلی مرتبہ انگریزی فکشن میں تعدادِ الفاظ کی قید والی مخصوص صنف کا آغاز بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی (سنہ 1980ء) میں اس وقت ہوا جب برمنگھم یونیورسٹی کی سائنس فکشن سوسائٹی نے سو (100) الفاظ پر مبنی کہانی کو ڈریبل (Drabble) کا نام دیا۔ اسی طرح 1987ء میں مشہور اخبار نیویارک ٹائمز نے دنیا بھر کے ادیبوں کو 55 الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی، یہ سلسلہ بعد میں "پچپن (55) فکشن" کے نام سے مشہور ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے مبشر علی زیدی نے اس صنف میں (سنہ 2013ء میں) طبع آزمائی کی، اس لحاظ سے تعدادِ الفاظ کی قید والی اردو کہانیوں کا انہیں موجد قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس صنف سے متعلق دیگر دلچسپ تفصیلات مبشر زیدی کی کتاب "سو لفظوں کی کہانی" کے علاوہ ریحان کوثر کی کتاب "سو لفظوں کی سو کہانیاں" کے مقدمے میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ مبشر زیدی نے ایک اہم بات یہ کہی ہے کہ ڈریبل یعنی سو لفظوں کی کہانیاں لکھنے والے کے لیے سب سے بڑی پابندی لفظوں کی حد ہوتی ہے۔ مغرب کا کہانی کار یہ طے کر کے لکھتا ہے کہ اسے پوری کہانی کتنے الفاظ میں مکمل کرنی ہے۔ اگر خود سے پچپن لفظوں کا وعدہ کیا ہے تو یہ وعدہ پورا کیا جاتا ہے، یہ نہیں کہ الفاظ کچھ بڑھ گئے تو اسے کھینچ تان کے ڈریبل بنا دیا۔
</p><br />
<p>
کیا فکشن میں اس طرح کی روایت، یعنی الفاظ مقرر کر کے کہانی لکھنا درست یا اہم ہے؟ تخلیق کے فطری پن پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ اس موضوع پر گفتگو آگے ہوگی۔ اس صنف "تعدادِ لفظی کہانی" کی اساسیات کے حوالے سے فیس بک پر مکالمہ کرتے ہوئے ایک جگہ یہ سوال اٹھا کہ:
<br />
سو/پچاس لفظی کہانی کے کون کون سے قواعد، اصول و ضوابط مقرر کئے گئے ہیں؟ تعدادِ لفظی کہانیوں میں کیا ایک ایک لفظ شمار ہوگا؟ چاہے فعل ہو یا معاون فعل یا صفت۔ کیونکہ فعل کو لفظ کی ہی قسم مانا جاتا ہے، لہذا "کہہ رہا تھا" ایک فعل ہے، تو کیا اسے "ایک لفظ" مانا جائے گا یا "تین الفاظ" ؟؟
</p><br />
<p>
تعدادِ الفاظ کی قید والی اردو کہانیوں کے بانی مبشر علی زیدی سے بذریعہ فیس بک رابطہ، کوئی جواب نہیں مل پایا۔ لہذا اس میدان کے دیگر ماہرین سے گفتگو کے ذریعے متذکرہ سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان دس معتبر مصنفین اور ممتاز ادبی شخصیات میں شامل ہیں: ابن آس (کراچی)، سلیم فاروقی (کراچی)، پرویز بلگرامی (کراچی)، اقبال خورشید (کراچی)، ارشد عبدالحمید (راجستھان)، جاوید نہال حشمی (کولکاتا)، ریحان کوثر (ممبئی)، محمود شاہد (آندھرا پردیش)، ڈاکٹر ریاض توحیدی (کشمیر) اور نادر خان سرگروہ (مکہ/ممبئی)۔ ایک بات واضح رہے کہ سوائے ڈاکٹر ارشد عبدالحمید اور نادر خان سرگروہ کے، باقی تمام اس صنف میں اپنی تخلیقات کے حوالے سے خاصے مشہور بھی ہیں۔ بالخصوص ممبئی کے ریحان کوثر کی ایک تصنیف تو ان کی 100 عدد "سو لفظی" کہانیوں پر مبنی ہے۔ اسی طرح محمود شاہد نے ابھی حال میں صرف افسانچوں پر مختص سہ ماہی رسالہ "افسانہ نما" کا اجرا کیا ہے۔ نادر خان سرگروہ، سوشل میڈیا پر اردو ذخیرۂ الفاظ کی ترویج و توسیع میں جس تندہی سے مصروف بہ کار ہیں وہ کسی بھی اردوداں سے پوشیدہ نہیں۔ اور فیس بک پر ہی لسانیات سے متعلق جب کوئی مکالمہ یا مباحثہ ہو تو ڈاکٹر ارشد عبدالحمید اور سلیم فاروقی کے علم و فن سے استفادہ کرنا، ادب کے ہر طالب علم و قاری کے لیے باعثِ فخر ہے۔
</p><br />
<blockquote>(1) ڈاکٹر ارشد عبدالحمید کہتے ہیں:</blockquote>
<p>
"کہہ رہا تھا" تین الفاظ ہی شمار ہوں گے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ فعل مصدر سے بنتا ہے۔ مثلأ جانا سے گیا، اگر یہ کہا جائے کہ "وہ اسکول گیا ہے"، تو گیا فعل ہے اور "ہے" معاون فعل یعنی helping verb ، اگر یہ فعل میں شامل ہوتا تو اس کا نام الگ نہیں ہوتا۔ فعل میں معاون فعل ملانے سے فعل نہیں ، زمانہ طے ہوتا ہے۔ لہذا میری ناقص رائے میں فعل اور معاون فعل الگ الگ الفاظ ہیں۔
</p><br />
<blockquote>(2) سلیم فاروقی وضاحت کرتے ہیں کہ:</blockquote>
<p>
سو یا پچاس لفظی کہانی میں ہر مفرد و مرکب لفظ شمار ہوتا ہے اس سے قطع نظر کہ وہ اسم، ضمیر، صفت، فعل غرض کسی بھی نوع سے تعلق رکھتا ہو۔ مختصراً یوں کہہ لیں ہر وہ لفظ جو لغت میں بطور لفظ موجود ہے وہ شمار ہوگا۔ ہاں البتہ علامات و اوقاف وغیرہ شمار نہیں ہوں گے۔ یقیناً یہ فقرہ "کہہ رہا تھا" تین الفاظ پر مبنی ہے۔
</p><br />
<blockquote>(3) جاوید نہال حشمی لکھتے ہیں:</blockquote>
<p>
ہر لفظ ہمیشہ ہر جگہ کاؤنٹ ہوتا ہے! "کہہ رہا تھا" صریحاً تین لفظ ہیں۔ انگریزی کے اس جملے کو دیکھیں:
<br />
He is saying. (وہ کہہ رہا تھا)
<br />
انگریزی میں یہ تین لفظی جملہ ہے جس میں He فاعل (Subject) ہے اور جملے کا باقی حصہ Predicate کہلاتا ہے جو دو افعال (verbs) پر مشتمل ہے، ایک معاون فعل 'اِز' (is) ہے جبکہ دوسرا 'سےاِنگ' (saying) مین ورب (main verb) ہے۔ دوسری طرف Predicates ایک لفظی بھی ہو سکتے ہیں اور کئی لفظی بھی، جیسے، یہ دو جملے دیکھیں:
<p style="direction:ltr; text-align:right;">
1) He plays.
<br />
2) He has been playing cricket in the ground with his friends in the evening.
</p><p>
دونوں ہی جملوں میں ایک subject اور ایک predicate ہیں۔ مگر پہلے جملے کا پریڈیکیٹ صرف ایک لفظ (صرف فعل) plays پر مشتمل ہے جب کہ دوسرے جملے کا پریڈیکیٹ طویل ہے اور 13 الفاظ پر مشتمل ہے۔
</p><br />
<blockquote>(4) ابن آس نے لکھا ہے کہ:</blockquote>
<p>
"کہہ رہا تھا" تین لفظ ہیں۔ لفظ شمار کرنے والی کہانیوں کا اصول یہ ہے کہ ہر لفظ الگ شمار کیا جائے گا۔ اور جو لفظ ملا کر لکھے جانے کی روش عام ہو گئی ہے وہ بھی دو شمار ہوں گے۔ جیسے دلچسپ ، دلگی ، دلدار ، دلنواز ، حیرت، چونکہ ،چنانچہ ، انگیز ۔۔۔ یعنی تراکیب اور مرکب کے بھی الگ الگ لفظ شمار ہوں گے۔
</p><br />
<blockquote>(5) پرویز بلگرامی لکھتے ہیں:</blockquote>
<p>
ابن آس کا موقف درست ہے۔ سو لفظی کہانی میں الفاظ گنے جاتے ہیں۔ کیونکہ سو لفظی کہانی انگریزی سے آئی ہے اس لیے ہنڈریڈ ورڈز کے قواعد لاگو ہوتے ہیں۔ البتہ افسانچہ میں الفاظ کو شمار نہیں کیا جاتا، بس کم سے کم الفاظ میں کہانی مکمل ہو مگر اختتام چونکانے والا ہو۔ گو کہ ہندوستانی افسانچہ نگاروں میں سے ایک بڑی تعداد بغیر کہانی کے افسانچہ لکھ رہی ہے۔ جب کہ ہمارا خیال ہے کہ افسانچہ میں کہانیت بھی ہو اور پنچ لائین بھی۔ کیونکہ افسانچہ کا کینوس وہی ہے جو شیخ سعدی کی گلستان بوستان میں ہے، جاتک کتھا میں ہے۔
</p><br />
<blockquote>(6) اقبال خورشید اپنے آڈیو پیغام میں کہتے ہیں:</blockquote>
<p>
پاکستان میں مبشر علی زیدی نے اس صنف کا آغاز کیا اس لیے ظاہر سی بات ہے کہ ان کے اصولوں کی تقلید کی گئی۔ پھر انہوں نے اس صنف میں اپنی پہلی کتاب جب شائع کی تو ان کے بیان کردہ اصول سوشل میڈیا سے اوپر اٹھ کر ایک معنوں میں شرائط بھی بن گئے۔ بعد ازاں مبشر زیدی کی اس صنف کو بہت سے قلمکاروں نے فالو کیا۔ کسی نے سو (100) لفظی تو کسی نے تیس لفظ کی اور کسی نے بیس لفظوں کی کہانی لکھی۔ اس صنف کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کہانی کا عنوان، اس کی ٹیگ لائن اور مصنف کا نام ہٹا کر جو متن لکھا جائے گا وہ شروع لفظ سے آخر لفظ تک شمار ہوگا۔ لفظوں کی کاؤنٹنگ کا طریقہ یہ ہے کہ جو تعداد ہم کو ان پیج یا ورڈ کی فائل بتائے گی اسی پر لفظوں کا تعین ہوگا۔ اس طرح لفظوں کو گنا نہیں جاتا بلکہ ورڈ یا ان-پیج سافٹ وئر خودکار طور پر گن دیتے ہیں۔ تو یوں لفظوں کو شمار کرنے کا یہ بنیادی طریقہ ہے۔ یہ کہنا کہ: فعل تو لفظ کی ہی قسم ہے لہذا "کہہ رہا تھا" ایک فعل یعنی ایک لفظ ہے ۔۔۔ غیر منطقی بات ہے۔
</p><br />
<blockquote>(7) محمود شاہد بتاتے ہیں کہ:</blockquote>
<p>
متذکرہ جملہ " کہہ رہا تھا " تین الفاظ پر مشتمل ہے۔ کہہ ۔۔۔ ایک لفظ، رہا ۔۔۔ ایک لفظ، تھا ۔۔۔ ایک لفظ۔۔۔ یہ ہوئے جملہ تین الفاظ۔ الفاظ گننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان-پیج سافٹ وئر میں ایک آپشن ہے utilities کا۔ اس میں الفاظ شماری (Words Count) کی سہولت موجود ہے۔ الفاظ کو منتخب (select) کر کے ان کی تعداد معلوم کی جا سکتی ہے۔ یہ بات ہر کسی کو پتا ہے۔
</p><br />
<blockquote>(8) ریحان کوثر کہتے ہیں:</blockquote>
<p>
میرے نزدیک "کہہ رہا تھا" تین الفاظ گنے جائیں گے کیونکہ میں ہر لفظ کو ایک ہی شمار کرتا ہوں۔ ہر لفظ خواہ وہ کوئی بھی ہو، میں، جاوید نہال حشمی اور دیگر قلمکار اسے ایک ہی گنتے ہیں۔
</p><br />
<blockquote>(9) نادر خان سرگروہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ:</blockquote>
<p>
یہ فقرہ "کہہ رہا تھا" تین لفظوں پر مبنی ہے۔
</p><br />
<blockquote>(10) ڈاکٹر ریاض توحیدی بھی اقرار کرتے ہیں کہ:</blockquote>
<p>
فقرہ "کہہ رہا تھا" میں تین لفظ شامل ہیں۔
</p><br />
<p>
تو اس طرح ماہرینِ فن کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں یہ بات جب ثابت ہو جاتی ہے کہ تعدادِ الفاظ کی قید کے ساتھ لکھی جانے والی کہانی میں ہر لفظ اپنی جگہ علیحدہ شمار ہوگا تو اس حقیقت کو کھلے دل سے قبول کیا جانا چاہیے۔ بصورت دیگر علمی و ادبی تحقیقی دنیا میں ضد یا ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں ہے۔
<br />
اب آئیے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہیں کہ ۔۔۔ الفاظ مقرر کر کے کہانی لکھنا کتنا درست یا اہم ہے؟ چونکہ مغرب میں یہ صنف قبولیت عامہ کا درجہ حاصل کرتے ہوئے اپنا ایک منفرد مقام بنا چکی ہے لہذا اسے سرے سے رد کرنا کچھ مناسب نہیں لگتا۔ البتہ اس صنف پر جو تحفظات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں انہیں سامنے لانا ضروری ہے۔ مثلاً ڈاکٹر ارشد عبدالحمید کہتے ہیں:
<br />
یہ بات عجیب لگتی ہے کہ الفاظ مقرر کر کے افسانہ لکھا جائے۔ شاعری میں خاص طور پر غزل میں بحر مقرر ہوتی ہے تو الفاظ کی تعداد اپنے آپ محدود ہو جاتی ہے چنانچہ وہاں رمز و ایما کی فطری ضرورت ہوتی ہے لیکن نثر میں پہلے سے تعداد مقرر کرنے کے معنی ہیں کہ لکھنے والا زبردستی الفاظ کو یا تو گھٹائے گے یا بڑھائے گا جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ بیانیہ کی فطری طور پر جتنی ڈیمانڈ ہو ، اتنے ہی الفاظ کا استعمال کیا جائے۔
<br />
اسی ضمن میں ڈاکٹر ریاض توحیدی کا یہ کہنا بھی عین بجا ہے کہ : یک سطری، بیس لفظی، دس لفظی سطور میں محض ایک خیال پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں فکشن بھلا کہاں ہوتا ہے؟
<br />
مدیر سہ ماہی "اثبات" اشعر نجمی کے بقول وہ لفظوں کو گننے سے زیادہ تولنے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا شکوہ ہے کہ وہ آج تک دس لفظی، بیس لفظی، پچاس لفظی کہانیوں کا مطلب ہی نہیں سمجھ پائے۔ وہ کہتے ہیں کہ: دراصل سوشل میڈیا کے شاعر نما کہانی کاروں کی اس میں بہت دلچسپی ہے چونکہ شعر کی طرح اس میں امیڈیٹ رسپانس مل جاتا ہے۔ آپ اپنا ایک طویل افسانہ لیں اور اس کی دو دو فکر انگیز سطروں کو پچاس لفظی، بیس لفظی وغیرہ کے ٹکڑوں میں بانٹ دیں۔ آپ کے پاس ہزاروں ایسے تراشے ہو جائیں گے۔
</p><br />
<p>
بدقسمتی سے راقم الحروف بھی اس نظریے کا قائل ہے کہ الفاظ کی قید کے ساتھ کہانی کے بیانیہ کے فطری بہاؤ پر عمل نہایت مشکل کام ہے۔ یہ ہر قلمکار کے بس کی بات نہیں۔ یہی سبب ہے کہ پچھلے دنوں راقم نے ایک افسانچہ بعنوان "<a href="https://urduhyd.blogspot.com/2023/09/aakhri-fiction-flash-fiction.html" target="_blank">آخری فکشن</a>" تحریر کیا تو بین السطور میں طنز کیا تھا کہ: تخلیق کوئی ترکاری بھاجی گوشت تھوڑی ہے کہ مطلوبہ مقدار سے کم زیادہ نہ خریدی جائے۔ مگر اس "طنز" کی تہ تک بہت ہی کم قاری پہنچ پائے یا پھر بقول جاوید نہال حشمی: مزاح میں لپٹا طنز بہتوں کو سمجھ میں نہیں آتا۔ اشعر نجمی کا کہنا صحیح ہے کہ کسی افسانے کے کسی پیراگراف کو تعدادِ لفظی کہانی کے بطور پیش کیا جا سکتا ہے۔ ویسے فیس بک نے ایک سہولت یہ بھی دے رکھی ہے کہ اپنی تحریر کو رنگین پس منظر کے ساتھ 130 حروف کی قید کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس کا میں نے بارہا استعمال کیا ہے۔ اردو میں 130 حروف کے کم و بیش 20 یا 25 لفظ بنتے ہیں ۔۔۔ تو یوں اگر کلر بیک گراؤنڈ والی اپنی پوسٹوں کو بیس/پچیس لفظی کہانی کا کوئی چونکانے والا عنوان دے کر پیش کروں تو فیس بک پر ڈھیروں داد، لائکس اور کمنٹس بٹور سکتا ہوں مگر مجھے معلوم ہے کہ اس طرح علمی و ادبی دنیا میں میرے قلم کی شناخت بری طرح مجروح ہوگی۔
<br />
یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ جب کسی صنف پر ایسے تحفظات لاحق ہیں تو علمی دلائل کے ساتھ اس کا رد کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کا آسان سا جواب بس اتنا ہے کہ فیصلہ افراد نہیں کرتے بلکہ وقت فیصلہ کر دیتا ہے۔۔۔ ع
<br />
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا !
</p><br />
<p>
تقریباً نصف صدی سے اردو پڑھتے/لکھتے آنے کے باوجود ہم آج بھی خود کو طالب علم سمجھتے ہیں اور ادب و لسانیات کے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کرنے اور ان کی علمیت سے استفادہ کو لازمی گردانتے ہیں۔ لیکن کیا یہ حقیقت آج کی نوجوان نسل سمجھتی ہے؟ شاید اسی لیے اشعر نجمی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ:
<br />
"جس جنریشن سے میرا اور آپ کا واسطہ پڑا ہے، وہ اسمارٹ فون، چیٹ روم، فیس بک، ٹوئٹر اور اسی طرح کی دوسری سرگرمیوں میں ملوث ہے جہاں انھیں امیڈیٹ ریسپونس ملتا ہے، غور و فکر کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی لمحہ محفوظ نہیں اور نہ ہی انھیں اس کی ضرورت ہے۔ میں اس جنریشن پر کوئی الزام نہیں لگا رہا ہوں بلکہ میں تو اسے ایسی مظلوم نسل سے تعبیر کرتا ہوں جس کا ٹکنالوجی نے چوہے دان میں اپنی نت نئی پیشکش کو پنیر کے ٹکڑے کی طرح استعمال کر کے شکار کیا ہے"۔
<br />
ہم اس نسل کو بس یہی بتا سکتے ہیں کہ ۔۔۔ اپنی کسی تحریر کے ذریعے سوشل میڈیا پر داد سمیٹنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں، بلکہ اہم بات یہ جاننا ہے کہ مشرقی تہذیب میں ماہرین فن کے آگے عجز و انکساری سے زانوئے تلمذ تہ کرکے اکتسابِ علم کیا جاتا ہے نہ کہ ان کی عمر، مطالعے و تجربے کو نظرانداز کر کے برابری کی سطح پر ان سے تیز و تند لہجے کا مکالمہ کیا جائے!!
</p>
<div style="text-align:left;">
***<br />
سید مکرم نیاز<br />
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔<br />
<span class="engtxt" dir="ltr">16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.<br />
taemeernews[@]gmail.com</span>
</div><br />
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjujzT3iqwB76YJiagtcKwmKi6-5N_cfs8o_I0VKctdvFspZeSnWZ2TTCZHhajVIEpAhPujURbmQcPWoQ5jqsK2lZXrO5Cit5gHfTytqjIWjEwh0RnVDtTd-vLInTxrBhMJbig7zUI8fEzj/s1600/syed-mukarram-niyaz.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img alt="syed mukarram niyaz" border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjujzT3iqwB76YJiagtcKwmKi6-5N_cfs8o_I0VKctdvFspZeSnWZ2TTCZHhajVIEpAhPujURbmQcPWoQ5jqsK2lZXrO5Cit5gHfTytqjIWjEwh0RnVDtTd-vLInTxrBhMJbig7zUI8fEzj/s1600/syed-mukarram-niyaz.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">Syed Mukarram Niyaz<br />
سید مکرم نیاز</td></tr>
</tbody></table>
<br /><div class="tn-snippet">The rules of short stories limited to specific number of words, Essay: Mukarram Niyaz<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-49616252703792063132023-09-14T11:54:00.004+05:302023-09-14T11:54:33.098+05:30مکتبہ جامعہ کو بچائیے - کالم از معصوم مرادآبادی<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEixR3doEWrXPdIGZ6C3GUhjI2-dKlfY4AKTZ09PGb6Bpj1cEYiqyvCUn8zTZy-CHgCIyLZM7UlTBAybavlngkjVPhZqRjUd1sWEstYwynRTnxmOXapJeoj6lzoE8gd4a8snbpwbNFziKeyrBDWdsJydCusTqU0ezOMk2ckc9QjQxjCU5OfRFDBxIA3zoPY/s1600/maktaba-jamia-ltd.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEixR3doEWrXPdIGZ6C3GUhjI2-dKlfY4AKTZ09PGb6Bpj1cEYiqyvCUn8zTZy-CHgCIyLZM7UlTBAybavlngkjVPhZqRjUd1sWEstYwynRTnxmOXapJeoj6lzoE8gd4a8snbpwbNFziKeyrBDWdsJydCusTqU0ezOMk2ckc9QjQxjCU5OfRFDBxIA3zoPY/s1600/maktaba-jamia-ltd.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">تجزیہ </span><span class="nmd-agency"><a href="/search?q=masoom.moradabadi">معصوم مرادآبادی</a> </span></div>
<p>
مکتبہ جامعہ کی اردو بازار شاخ کے دوبارہ کھلنے سے اردو حلقوں میں خوشی کی لہر ہے۔ یوں تومکتبہ جامعہ کی دہلی کے علاوہ ممبئی اورعلی گڑھ میں بھی شاخیں موجود ہیں، لیکن اپنی معنویت اور محل وقوع کے اعتبار سے دہلی کی اردو بازار شاخ سب سے اہم ہے۔ اسی لیے اس کے بند ہونے کا تمام ہی محبان اردو پر گہرا اثر تھا۔
<br />
ہوا یوں کہ گزشتہ 31 اگست کو اچانک یہاں کے انچارج علی خسرو زیدی کورخصت کرکے اردو بازارشاخ میں تالا ڈال دیا گیا، جس سے محبان اردو کو سخت تکلیف پہنچی۔ اس شاخ کے بند ہونے کے بعد راقم الحروف نے ایک پوسٹ لکھی اور اپنے درد میں دوسروں کو بھی شریک کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ نہ صرف اردو اخبارات نے اس طرف توجہ دی بلکہ انگریزی کے سب سے بڑے اخبار 'ٹائمز آف انڈیا' نے بھی اس پر خبر شائع کی۔ اتنا ہی نہیں 'دی وائر' کی انگریزی اور ہندی ویب ساٹٹ نے بھی اس مسئلہ کی جڑتک پہنچنے کی کوشش کی۔ اردو اخبارات میں روزنامہ 'انقلاب(نارتھ)' اور 'ممبئی اردو نیوز'نے اس مسئلہ میں غیرمعمولی دلچسپی لی اور یہ معاملہ پورے ملک میں پھیل گیا۔
</p><br />
<p>
مجھے خوشی ہے کہ میری چھوٹی سی پوسٹ کا اتنا بڑا اثر قبول کیا گیا۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔ دراصل مکتبہ جامعہ مجموعی اعتبار سے پچھلے کئی برسوں سے بستر مرگ پر ہے۔ یہ دراصل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ماتحت ہے اور جامعہ ہی اس کے 92فیصد شیئرز کا مالک ہے، لیکن جامعہ کی موجودہ انتظامیہ کا رویہ خود اپنے ہی مکتبہ کے ساتھ ناقابل فہم ہے۔ موجودہ وائس چانسلر محترمہ نجمہ اختر نے جب سے ذمہ داریاں سنبھالی ہیں، مکتبہ کی تمام ہی سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہیں۔
<br />
پچھلے پانچ سال سے نہ تو مکتبہ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی نئی کتاب شائع ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ مکتبہ کے ملازمین کو پچھلے 22 مہینوں سے تنخواہیں بھی نہیں ملی ہیں اور وہ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ پچھلے وائس چانسلر نجیب جنگ کے زمانے میں مکتبہ کی حالت کافی بہتر تھی اور ان ہی کے دور میں مکتبہ کی سیکڑوں قیمتی کتابیں قومی اردو کونسل کے اشتراک سے شائع ہوئی تھیں۔ اس وقت مکتبہ کے منیجنگ ڈائریکٹر پروفیسر خالد محمود تھے اوراس میں ان کی کوششوں کو بھی کافی دخل تھا، لیکن نجیب جنگ کے بعد نہ تو مکتبہ میں کوئی نئی کتاب شائع ہوئی اور نہ ہی 'کتاب نما' اور'پیام تعلیم'جیسے قیمتی جریدوں کی اشاعت عمل میں آسکی۔ اگر موجودہ وائس چانسلر چاہتیں تو جامعہ کے امتحانات کے پرچے، اسٹیشنری اور فاصلاتی تعلیم کاکام مکتبہ کو دے کر اس کی مالی حالت سدھار سکتی تھیں۔ لیکن یہ سب کام بھی باہر سے کروائے جارہے ہیں اور وائس چانسلر مکتبہ سے قطعی لاتعلق ہیں۔
</p><br />
<p>
مکتبہ جامعہ 1922 میں ڈاکٹر ذاکر حسین نے قایم کیا تھا۔ یہ محض کوئی کاروباری اشاعت گھر نہیں تھا بلکہ اس نے قیمتی کتابیں نہایت ارزاں قیمت میں شائع کیں اور لاکھوں لوگوں کے ذہن وشعور کو سیراب کیا۔ مکتبہ جامعہ نے خلاق ذہنوں کی اہم تصنیفات کے علاوہ طلباء کی نصابی ضرورتوں کے مطابق درسی کتابیں بھی شائع کیں۔ 'معیاری سیریز' کے عنوان سے مختصر مگر جامع کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اہل علم ودانش اور طلباء مکتبہ جامعہ کی مطبوعات سے استفادہ کرتے ہیں۔
</p><br />
<p>
جو لوگ کتابوں کی دنیا کے شیدائی ہیں، انھیں مکتبہ جامعہ کے حوالے سے ایک نام ضرور یاد ہوگا، جس نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے اس ادارے کو بام عروج تک پہنچایا۔ یہ شخصیت تھی مرحوم شاہد علی خاں کی جو کسی زمانے میں مکتبہ جامعہ کے منیجر ہوا کرتا تھے اور مکتبہ کے دفتر میں واقع ان کی چھوٹی سی میز پر ہر مشکل کو آسان کرنے کا نسخہ موجود تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مکتبہ جامعہ کا دفتر تکونہ پارک کے نزدیک اسی گل مہر روڈ کی شاہراہ پر ہوا کرتا تھا جہاں کسی زمانے میں ڈاکٹرذاکر حسین، ڈاکٹر عابدحسین، خواجہ غلام السیدین اور جامعہ کے دیگر اکابرین کی قیام گاہیں تھیں۔
<br />
مکتبہ جامعہ کی عمارت کی تعمیر کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ جس زمانے میں ٹیچرزٹریننگ کالج کی عمارت بن رہی تھی تو مکتبہ جامعہ کے لئے بھی ایک مستقل عمارت کی ضرورت محسوس کی گئی۔ لیکن اس وقت جامعہ کے پاس فنڈ کی قلت تھی۔ ٹیچرز ٹریننگ کالج کے معمار رائے پرتھوی راج نے تجویز پیش کی کہ اگر جامعہ تیار ہو تو وہ ٹیچرز ٹریننگ کالج کی عمارت کی تعمیر سے بچے ہوئے سامان سے مکتبہ جامعہ کی عمارت تعمیر کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے صرف جامعہ کو مزدوری کے پیسے ادا کرنا ہوں گے۔ یہ تجویز منظور ہوئی اور اس طرح مکتبہ جامعہ کو ایک مستقل عمارت مل گئی۔
<br />
<br />
مکتبہ جامعہ پر پہلا ستم پروفیسر مشیرالحسن کے دور میں ہوا۔ یعنی مکتبہ کی اس عمارت پر بلڈوزر چلا کر اسے جامعہ کالج کے پیچھے جھونپڑیوں میں منتقل کر دیا گیا اور اس کی جگہ ارجن سنگھ کے نام پر فاصلاتی تعلیم کا ایک ادارہ قائم کردیا گیا۔ اسی دور میں مکتبہ جامعہ سے شاہد علی خاں کی علیحدگی کا تکلیف دہ کام بھی انجام پایا۔ ان کے جانے کے بعد مکتبہ جامعہ کے دونوں جریدوں 'کتاب نما' اور 'پیام تعلیم'کی بھی حالت دگر گوں ہو گئی۔ شاہد علی خاں کے بعد اس تاریخ ساز اشاعتی ادارے کی باگ ڈور جن لوگو ں کو سونپی گئی، وہ اس کے اعزازی ذمہ دار تھے اور اشاعتی صنعت سے ان کا دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ بہرحال مکتبہ جامعہ کی عمارت جن جھونپڑوں میں منتقل ہوئی تھی وہاں ان قیمتی کتابوں کو بری حالت میں دیکھا گیا۔ اس کے بعد مکتبہ انصاری ہیلتھ سینٹر کی عمارت میں منتقل ہوا اور اس طرح وہ ایک یتیم بچے کی طرح ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ آج ہزاروں قیمتی کتابیں شائع کرنے والا یہ تاریخ ساز ادارہ اپنی حالت پر ماتم کناں ہے۔
</p><br />
<p>
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عروج و زوال دنیا کا دستور ہے اور آج اردو اشاعتی صنعت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ لوگوں میں کتابیں خریدنے اور انھیں اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا رواج دم توڑ رہا ہے۔ لیکن وہ ادارے ضرور ترقی کررہے ہیں جن کی وابستگی مستحکم اور مضبوط اداروں کے ساتھ ہے۔ مکتبہ جامعہ ایک ایسا ہی ادارہ ہے جس کی وابستگی جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی مرکزی دانش گاہ کے ساتھ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے مکتبہ جامعہ کو نئی زندگی دینے کے لئے جامعہ کو ایک ٹھوس منصوبہ بنانا چاہئے۔ مکتبہ جامعہ کی اردو بازارشاخ اور دیگر شاخوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے مکتبہ کی ذمہ داری کسی ایسے شخص کے سپرد کی جائے جو اشاعتی صنعت کا تجربہ رکھتا ہو۔ مکتبہ جامعہ کی بیکار پڑی ہوئی جائیدادوں کا بھی بہتر بندوبست ہونا چاہئے۔ ان میں پٹودی ہاؤس میں برسوں سے بند پڑا 'لبرٹی آرٹ پریس' بھی شامل ہے۔ اگر فوری طور پر مکتبہ جامعہ کی صحت و تندرستی پر توجہ نہیں دی گئی توایک صدی تک لوگوں کے ذہنوں کو منور کرنے والا یہ تاریخی ادارہ دم توڑ دے گا اور اس کا سب سے بڑا نقصان علم و دانش کو پہنچے گا۔
</p>
<br />
<div style="text-align: left;">***<br />
بشکریہ: <a href="https://www.facebook.com/masoom.moradabadi/posts/pfbid0GHndNjpLch29K4fn3qmcxENYwtaU4dhS8fJm69dBxDpf9d9FPR6gHtAdaQwkvHfbl" target="_blank">معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن</a><br />
masoom.moradabadi[@]gmail.com<br />
موبائل : 09810780563<br />
</div><table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrp1hoigH3csSvehg-g17iQfIdlDDdAYx7E1SMw8_fN5nQ1wG6jaxo9SC9ywHkA05ZwaOLGKbOFKXDgEO1PV3omhrV-TCvrSWn2kOee8PuR4LVcJ5zPFUaM18BaxU4hlwn5gVilXh9meY/s1600/masoom-moradabadi.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrp1hoigH3csSvehg-g17iQfIdlDDdAYx7E1SMw8_fN5nQ1wG6jaxo9SC9ywHkA05ZwaOLGKbOFKXDgEO1PV3omhrV-TCvrSWn2kOee8PuR4LVcJ5zPFUaM18BaxU4hlwn5gVilXh9meY/s1600/masoom-moradabadi.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">معصوم مرادآبادی</td></tr>
</tbody></table><br />
<div class="tn-snippet">Save the Maktaba Jamia Ltd. Delhi - Column: Masoom Moradabadi.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-12892441974897155062023-09-13T13:00:00.000+05:302023-09-14T13:00:47.594+05:30حضرت خواجہ زین الدین شیرازی کی قرآن فہمی<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiddVERN2KCiDqKU5eLdBL9P0TLs9_1YGlLxipURAZGxeMztvrbeL5C7l_s9gD7jxF2wkqMF1q7ksmmLxTqBl96HX3iGS03RvpAit0LpraogI-RFuWXHXP9YAbVismFe7w2pWY3CG-z2KMXL595sZOBDKs1vOTByd2MGVWUoIgIzyk3Dq1xzzeGl4Steik/s1600/hazrat-khwaja-syed-zainuddin-shirazi.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="hazrat-khwaja-syed-zainuddin-shirazi" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiddVERN2KCiDqKU5eLdBL9P0TLs9_1YGlLxipURAZGxeMztvrbeL5C7l_s9gD7jxF2wkqMF1q7ksmmLxTqBl96HX3iGS03RvpAit0LpraogI-RFuWXHXP9YAbVismFe7w2pWY3CG-z2KMXL595sZOBDKs1vOTByd2MGVWUoIgIzyk3Dq1xzzeGl4Steik/s1600/hazrat-khwaja-syed-zainuddin-shirazi.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">مضمون </span><span class="nmd-agency">ڈاکٹر عبدالصمد ندوی (بیڑ) </span></div>
<p>
حضرت خواجہ زین الدین داؤد حسین شیرازی قدس اللہ سرہ العزیز، حضرت خواجہ برہان الدین غریب ہانسی قدس اللہ سرۂ وفات 13/صفر 738 مطابق 10/ ڈسمبر 1337ء کے جانشین رہے ہیں۔
<br />
دونوں کے مزار خلد آباد (اورنگ آباد) میں آمنے سامنے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر (وفات 28 / ذی قعدہ 1185 ھ مطابق 2/ مارچ 1707) کو ان کی وصییت کے مطابق حضرت زین الدین شیرازی کے قدموں میں دفن کیا گیا۔
</p><br />
<p>
حضرت خواجہ زین الدین شیرازی علم و فضل کے زیور سے آراستہ تھے، تفسیر حدیث، فقہ اور علوم معقول میں کامل دستگاہ رکھتے تھے اور اپنے زمانے کے ممتاز عالم دین تھے۔ زین الدین شیرازی کا اصل نام داؤد ہے۔ خواجہ برہان الدین غریب نے زین الدین کے لقب سے انہیں نوازا۔ یہ محمد تغلق کے زمانے میں دولت آباد آئے۔ آپ کے والد خواجہ حسینؒ اور چچا خواجہ عمرؒ بھی ان کے ساتھ دولت آباد آئے اور ان دونوں کا بھی یہیں انتقال ہوا۔
<br />
آپ کی ولادت باسعادت 701 ھ مطابق 1301ء میں شیراز ہی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم آپ کے والد کی نگرانی میں شیرازی میں ہوئی پھر دہلی میں قیام کے دوران مولانا کمال الدین اور دوسرے علماء سے آپ نے علمی استفادہ کیا۔ علوم دینیہ سے فارغ ہونے پر ایک مسجد میں تفسیر ، حدیث ، فقہ وغیرہ کا درس دینے لگے۔
</p><br />
<p>
دولت آباد آنے پر خواجہ غریب سے بیعت ہوئے۔ محمد شاہ بہمنی (مدت حکومت 759ھ مطابق مطابق 1358ء تا 776ھ مطابق 1375ء) نے آپ کی تجویز پر دکن میں قوانین شریعت کا نفاذ کیا۔ اس نے اپنے دور میں شراب کشید، رہزنی ، جوا اور دوسرے جوائم پر سختی سے پابندی لگا دی تھی۔ آپ نے تجرد کی زندگی بسر کی اور 70/ سال کی عمر میں آپ نے انتقال فرمایا۔ اتوار کے دن 25/ ربیع الاول 771ھ مطابق 28 / اکتوبر 1669ء کو عصر کی نماز ادا کرتے ہوئے حالت سجدہ میں آپ کی روح قفصِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
<br />
آپ نے ترکے میں دنیاوی ساز و سامان کچھ بھی نہ چھوڑ البتہ ایک کتب خانہ تھا جس کو اپنی زندگی ہی میں وقف کردیا تھا۔ امیر حسن دہلویِؒ نے آپ کی اجازت سے آپ کے ملفوظات جمع کئے تھے جس کا نام ہدایت القلوب رکھا جو کمیاب ہے البتہ اس کا اُردو ترجمہ رسالہ منادی میں کسی زمانے میں شائع ہوا تھا ان ملفوظات ،کے مطالعے سے آپ کے قرآن فہمی خاص ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ اپنی مجلسوں میں وہ آیات قرآنی کا برمحل حوالہ دیتے تھے۔
</p><br />
<blockquote>
حضرت زین الدین شیرازیؒ کی قرآن فہمی:
</blockquote>
<p>
(1) ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ وقت کی قدر کرواسے ضائع نہ کرو آپ کے مرید امیر حسن نے عرض کیا کہ میں گھر بار چھوڑ کر کسی مسجد میں گوشہ نشین ہونا چاہتا ہوں۔ حضرت نے اسکی تائید نہیں کی اور فرمایا اصلِ کار یا دحق ہے کوئی مسجد میں رہ کر بھی ذکر اللہ سے غافل رہ سکتا ہے۔ اور کوئی تجارت کے دہندے میں رہتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولتا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔
<br />
رجال لا تلھیھم تجاۃ ولا بیع عن ذکر اللہ، ( النور آیت 271)
<br />
ترجمہ :۔ یہ لوگ ایسے ہیں جنہیں تجارت اور خرید فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی
</p><br />
<p>
(2) فرمایا اللہ نے انسان کو رنج اور سختی میں پیدا کیا ہے۔ لقد خلقنا الانسان فی کبد(البلد:4) ہم نے انسان کو رنج اور سختی میں پیدا کیا ہے۔ فرمایا جب تک آدمی عالم بشریت میں ہے خواہشوں میں گرفتار ہے۔ رنج اور سختی سے نجات ممکن نہیں ریاضت اور مجاہدے اُسے عالم بشریت سے نکال لیتے ہیں اور اسے رنج ومحنت سے نجات مل جاتی ہے۔
</p><br />
<p>
(3) ایک دن امیر حسن دہلویؒ نے کہا جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں خود کو مسلمان پاتا ہوں یہاں سے باہر نکلتا ہوں اور کسی دوسرے شخص سے ملتا ہوں تو اس کے افعال اور اقوال کا اثر محسوس ہونے لگتا ہے اور دل دنیا کی طرف مائل ہونے لگتا ہے فرمایا وہ ابری نفسی ان الفنس لا مارۃ بالسوء ( یوسف :53) میں اپنے آپ کو گناہوں سے پاک رہوں گا ایسا نہیں سمجھتا کیونکہ نفس تو برائیوں پر اکسانے والا ہے۔ جب دو نفسِ امارہ ہوجائیں تو ایکدوسرے کی خواہش کی ابتاع کرنے لگتے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے۔
<br />
ان تطع اکثر من فی الارض، یضلوک عن سبیل اللہ( الانعام ، آیت 116) اگر تم روئے زمین پر بسنے والوں کی اکثریت کا کہنا ماننے لگو تو وہ سب تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکادیں گے۔
<br />
دوسر ں کے لئے بدرجہ اولیٰ امکان ہے کہ وہ اطاعت حق سے پھر جائیں۔
</p><br />
<p>
(4) ایک مجلس میں آپ نے یہ آیت پڑھی۔
<br />
لقد خلقنا الا نسان فی احسن تقویم۔ ثم رددنا ہ اسفل سافلین۔(التین آیت:5)
<br />
ہم نے انسان کی بہترین ساخت میں تخلیق کی ہے پھر اسے اسفل سافلین کی طرف لوٹا دیا۔ فرمایا : انسان کی روح کو اعلیٰ علیین سے اسفل سافلین کی طرف لایا گیا ہے اور اسے بشریت کے قفس میں بند کردیا گیا ہے۔ وہ روح ہر لحظہ تنگی محسوس کرتی ہے اور باہر نکلنا چاہتی ہے جیسے کوئی پرندہ پنجرے میں بند ہو اور چاروں ٹکر مار کر باہر نکلنے راہ تلاش کرتا ہو مگر راستہ نہ پاتا ہوا البتہ جس نے اسے پنجرے میں کیا ہے وہ نکلنے کا راستہ جانتا ہے۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ باہر نکال سکتا ہے۔
</p><br />
<p>
(5) فرمایا جو بھی آفت یہ تکلیف انسان کو پیش آتی ہے وہ آرزوؤں کے سبب سے ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی اگر یہ آرزو کرے اچھا لباس پہنوں تو لا محالہ وہ حرام وحلال میں پڑے گا اور گدڑی پر قناعت نہیں کرے گا۔ اسی پر دوسری آرزوؤں کو قیاس کرنا چاہئے۔ شیطان کے لشکر میں شہوات ولذات شامل ہیں کوئی پیغمبر بھی اس کے ہاتھ سے بچ کر نکلا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی۔
<br />
وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیۃ :(الحج آیت 52)
<br />
اور اے محمد تم سے پہلے ہم نے کوئی رسول ایسا بھیجا نہ نبی جس کے ساتھ یہ معاملہ نہ پیش آیا ہو کہ جب اس نے تمنا کی شیطان اس کی تمنا میں خلل انداز ہو گیا اس طرح جو کچھ بھی شیطان خلل اندازیاں کرتا ہے اللہ انکو مٹا دیتا ہے اپنی آیات کو پختہ کردیتا ہے اللہ علیم اور حکیم ہے۔
</p><br />
<p>
(6) ایک محفل میں حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ظاہری حسن تو یہ ہے کہ جسم کے سب اعضاء متناسب ہوں باطنی حسن میں اخلاق حمیدہ کا توازن دیکھا جاتا ہے۔
<br />
اب جو جمال باطن میں حصہ چاہتا ہو وہ پیغمبر ؐ کی پیروی کرے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرمایا ہے : قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم ذنو بکم ( آل عمران آیت 31)
<br />
اے پیغمبر کہہ دیجے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہوتو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔
</p><br />
<p>
(7) فرمایا جب اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا علم حاصل ہوجائے وہ اللہ والا بن جاتا ہے اللہ کے علم سے جان لیتا ہے کہ کیا کرنا چاہئے اور ایسی باتیں کہتا ہے اور ایسے کام کرتا ہے کہ مخلوق حیران رہ جاتی ہے جب اس کے قول وفعل مخلوق کے علم وعقل میں نہیں سماتے تو وہ اسے گمراہ کہتے لگتے ہیں۔ کافر بتاتے ہیں جہالت اور حماقت سے منسوب کرتے ہیں اس بات تصدیق حضرت یعقوبؑ کے قصہ سے ہوتی ہے۔
<br />
ولما فصلت العیر قال ابوھم انی لا جدریع یوسف لولا ان تفندون( سورۂ یوسف آیت :94) " جب قافلہ ادھر سے روانہ ہوا تو ادھر ان کے ابا نے کہا مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے اگر تم یہ نہ کہو کہ میں سٹھیا گیا ہوں، کارواں مصر سے باہر نکلا ہی تھا کہ حضرت یعقوب ؑ نے کنعان میں اسکی خبر دے دی۔ اس علم کا اللہ کی مخلوق کے علم اور عقل سے کیا تعلق ہے کسی بوڑھے آدمی سے یہ کیونکر ممکن ہے کہ اتنے فاصلے سے اس کی خوشبو سونگھ کر خبردے دے یہ بات ان کے علم اور عقل کے دائرے میں نہیں سماتی تو کہہ اٹھے : تا للہ انک فی ضلالک القدیم۔ خدا کی قسم آپ اپنی پرانی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
<br />
"اور جب خوشخبری دینے والا آیا اور قمیص کو ان کے چہرے پر ڈالا تو ان کی بینائی واپس آگئی اور کہنے لگے کیا میں نہیں کہتا تھا کہ مجھے اللہ سے وہ علم ملا ہے جو تمہیں حاصل نہیں" (یوسف آیت :96)
</p>
<div class="engtxt" style="text-align:left;">***<br />
Dr.Abdul Samad Nadvi
<br />
Head Dept of Arabic, Milliya Arts Science & Management Science College, Beed, M.S
</div>
<br />
<div class="tn-snippet">Hazrat Khwaja Syed Zainuddin Shirazi. Essay: Dr. Abdul Samad Nadvi<br />
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-73660368199578634702023-09-07T15:12:00.011+05:302023-09-07T15:35:24.196+05:30نصیر الدین ہاشمی - دکن کے نامور محقق اور مورخ - حیات و خدمات<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEir-712Vg63BY_3JCLj36hHJ_iEmg30w9lrC_gizDC3XfhX72KuJboOfSOJrDURtWh_e3uhBHXmYlRDD1speup51eyai1PhXf3U1RZ1a312iYCGgRicKHlrs8ryw3ZpalJKLJH_HvZ5U-y6nNVoX_-lMDOyt3vpD6MyGka9FMwNUKParvZA3-WLn8vb7EE/s1600/Naseeruddin-Hashmi.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="Naseeruddin-Hashmi a deccan historian" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEir-712Vg63BY_3JCLj36hHJ_iEmg30w9lrC_gizDC3XfhX72KuJboOfSOJrDURtWh_e3uhBHXmYlRDD1speup51eyai1PhXf3U1RZ1a312iYCGgRicKHlrs8ryw3ZpalJKLJH_HvZ5U-y6nNVoX_-lMDOyt3vpD6MyGka9FMwNUKParvZA3-WLn8vb7EE/s1600/Naseeruddin-Hashmi.jpg"/></a></div>
<div class="newsmetadata"><span class="nmd-area">مضمون </span><span class="nmd-agency">محمد عارف سومرو </span></div>
<p>
لکھنؤ اور دہلی کے ساتھ ہندوستان میں اگر کسی سر زمین نے اردو کو پروان چڑھایا اور اس کی آبیاری کی ہے تو وہ سر زمین دکن ہے۔ یہ مردم خیز سرزمین قدیم زمانے سے ہی اردو کا گہوارا رہا ہے۔ بہمنی، قطب شاہی ادوار میں اردو نے ارتقائی مراحل طے کیے تو سلطنت آصفیہ کے دور میں اردو زبان و ادب بامِ عروج تک پہنچ گیا تھا۔ والیِ ریاست میر محبوب علی خان نے اپنے دورِ حکمرانی میں ریاست کی سرکاری زبان فارسی سے اردو کر دی جس کی بدولت سرکاری محکموں میں اردو کا رواج عام ہوا۔ اس کے علاوہ مدارس، کالجوں اور تعلیمی اداروں میں بھی اردو پڑھائی جانے لگی ۔ آپ نے تقریباً 42 سال حکومت کی اور کالج، مدرسےاور دارالعلوم وغیرہ قائم کرکے جدید علوم اور اسلامی علوم کی ترویج میں کردار ادا کیا۔ ہندوستان کے لاتعداد تعلیمی اداروں کو وظائف عطا کیے۔ مدرسہ علی گڑھ اور پھر ایم اے او کالج کی سرپرستی بھی کی۔
<br />
29اگست1911ء کو میر محبوب علی خان کے بیٹے میر عثمان علی خان سلطنت آصفیہ کے آخری بادشاہ مقرر ہوئے۔ آپ کا عہد برصغیر اور حیدرآباد کا زریں عہد تھا۔میر عثمان علی خان کے دور میں جامعہ عثمانیہ اور دارا لترجمہ کا قیام عمل میں آیا۔ مختلف علوم و فنون کی سینکڑوں کتابوں کی اردو اشاعت ہوئی اور مغربی علوم کے اردو تراجم ہوئے۔ آپ نے جلیل مانک پوری، داغ دہلوی، نظم طباطبائی، جوش ملیح آبادی، عبدالحلیم شرر، علامہ شبلی نعمانی، مولوی عبد الحق، ڈاکٹر محی الدین قادری زور غرض مختلف علوم و فنون کے لاتعداد ستاروں کو اپنے دربار میں جگہ دی۔ نصیر الدین ہاشمی بھی ایسے ہی رجال میں شامل تھے جنہوں نے سرکار عالیہ حیدرآباد سے وابستگی اختیار کی۔ انہوں نے ساری زندگی دکنی ادبیات کی خدمت میں وقف کر دی۔ دکنی ادب و ثقافت کا شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہوگا جس پر نصیر الدین ہاشمی نے قلم نہ اُٹھایا ہو۔
</p><br />
<p>
نصیر الدین ہاشمی 17 رمضان 1312ھ مطابق 15 مارچ 1895ء کو ریاست حیدرآباد کے محلہ ترپ بازار میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق خاندانِ نوائط سے تھا۔ [1] اصل نام محمد نصیر الدین عبد الباری تھا، لیکن نصیر الدین ہاشمی کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ دو بہنوں اور پانچ بھائیوں میں وہ چوتھے نمبر پر تھے۔ ان کے والد مولوی عبد القادر عالم دین ہونے کے ساتھ ریاست حیدرآباد کے سرشتہ عدالت میں منصف اور رجسٹرار بلدہ تھے۔ والد کے انتقال کے وقت نصیر الدین کی عمر صرف بارہ برس تھی، تب تک گھر پر ہی تعلیم حاصل کی۔ ان کی قرآن، دینیات، اردو، فارسی، ریاضی اور خطاطی کی تعلیم کے لیے استاد مقرر کیے گئے تھے۔والد کے انتقال کے بعد نانا کے یہاں قیام رہا۔ تین برس بعد نانا بھی انتقال کر گئے۔ مزید تعلیم کے لیے مدرسہ دار العلوم میں داخلہ لیا اور منشی اور مولوی عالم کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ مدرسہ دار العلوم میں امجد حیدر آبادی کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان سے تاریخ، فلسفہ، ریاضی اور عربی کا درس لیا کرتے تھے۔ امجد حیدر آبادی سے ان کا تعلق ساری عمر قائم رہا۔ پھر خانگی طور سے مدراس یونیورسٹی سے منشی فاضل کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ پھر جامعہ عثمانیہ سے انگریزی کے ساتھ میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں ادبی سرگرمیوں سے بھی دلچسپی تھی، چنانچہ وہ 'انجمن ثمرة الادب' کے سیکریٹری کے فراض انجام دیا کرتے تھے۔
</p><br /><p>
انہیں بچپن ہی سے مطالعہ کابے حد شوق تھا۔ ناول، سفرنامے، تاریخ اور سوانح کی سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ملک میں قحط کے باعث تعلیم ترک کر دی اور عارضی ملازمت حاصل کی۔ انہوں تیس سال ملازمت کی۔ پہلے دس سال نان گزیٹڈ ملازم کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر دوسرے دس سال تک دفترِ دیوانی و مال (ریکارڈ آفس) میں نائب مددگار رہے اور گزیٹڈ ملازم ہو گئے۔ آخری دس سال سرشتہِ رجسٹریشن و اسٹامپ میں مددگار ناظم رہے۔ رجسٹرار بلدہ مقرر ہوئے اور ناظم رجسٹریشن کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ یہاں تاریخی کاغذات اور دستاویزات کو جو کہ منتشر اور لاپرواہی کے ساتھ رکھے ہوئے تھے انہیں یکجا کیا اور اُن کے مطالعہ سے خاصہ تاریخی مواد بھی اپنی تصانیف کے لیے اکٹھا کیا۔[2] یہ دفتر ہسٹاریکل ریکارڈ آفس کہلاتا تھا۔
</p><br /><p>
نصیر الدین ہاشمی کی تصنیف 'تاریخ عطیات آصفی' اسی زمانے کی یادگار ہے۔ ملازمت کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے نصیر الدین ہاشمی کی کتاب دکن میں اردو شائع ہوئی۔ جس کے بعد ایک سال کے لیے انہیں انگلستان روانہ کیا گیا تاکہ وہاں دکھنی ادب کا مزید مواد فراہم کر سکیں۔ انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور فرانس کے مختلف شہروں میں ایک سال قیام کیا اور وہاں سے دکھنی مواد اِکٹھا کر کے لانے اور ریکارڈ کے کام کا تجربہ بھی حاصل کیا۔ اب نصیر الدین ہاشمی گزیٹڈ افسر بن گئے اور دفتر کا اہم ترین صیغہ یعنی تصدیقِ اسناد ان کے ماتحت کر دیا گیا۔ انہیں اس صیغہ کی نگرانی کرتے ہوئے آٹھ سال ہو گئے تھے اور اس عرصہ میں زیادہ مشاہرہ والی نئی پوسٹ سرکار کی جانب سے منظور ہوئی۔ سنیارٹی اور کارگزاری کے لحاظ سے نصیر الدین ہاشمی اس پوسٹ کے زیادہ مستحق تھے مگر انہیں محروم کر دیا گیا۔ معتمد فنانس اور وزیر اعلیٰ نصیر الدین ہاشمی کی تائید میں تھے مگر ناظمِ سرشتہ ان کے مخالف ہوگئے اور دوسرے صاحب کی تائید کر دی، یوں نصیر الدین ہاشمی دل برداشتہ ہو گئے، دو ماہ کی رخصت لے لی اور جب واپس آئے تو ایک دوسرا صیغہ (محکمہ) ان کے ماتحت کر دیا گیا۔ غرض دفترِ دیوانی و مال (سینٹرل ریکارڈ آفس) کی بیس سالہ ملازمت کے بعد سرشتہِ رجسٹریشن و اسٹامپ میں ان کا تبادلہ ہو گیا۔ رجسٹرار بلدہ کی ذمہ داری نصیر الدین ہاشمی کے لیے ایک نیا کام تھا۔اس لیے ابتدائی چند دن اس نئے کام کی نوعیت سمجھنے میں گزر گئے۔ اس کے بعد انہیں صدر دفتر میں مددگار ناظمِ رجسٹریشن و اسٹامپ مقرر کر دیاگیا۔ جہاں انہوں نے پانچ برس خدمات انجام دیں۔ ناظمِ رجسٹریشن کے قائم مقام کی حیثیت سے انہیں مختلف مقامات کا دورہ کرنا پڑتا تھا۔
<br />
انہوں نے ریاست حیدر آباد کے تیرہ اضلاع اور ساٹھ پنسٹھ تعلقہ جات اور پندرہ سولہ جاگیرات کا دورہ کیا۔ دو ڈھائی ماہ کے بعد نئے متعین ناظم نے ان سے جائزہ حاصل کیا اور نصیر الدین ہاشمی ان کے ساتھ تقریباً چھ سات ماہ بحیثیت مددگار کام کرتے رہے۔ نئے ناظم سے اختلافات کی وجہ سے نصیر الدین ہاشمی نے سابقہ خدمت رجسٹرار بلدہ پر واپسی کی درخواست کی، اس طرح رجسٹرار بلدہ کی خدمت پر واپس آ گئے۔ مارچ 1950ء میں پچپن سالہ عمر اور اکتیس سالہ ملازمت کے بعد وہ پنشن حاصل کر کے ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔[3]
</p><br />
<p>
نصیر الدین ہاشمی کی شادی ان کی ماموں زاد سے 11 شوال 1341ھ کو ہوئی۔ ان سے ایک فرزند ڈاکٹر ظہیر الدین ہاشمی اور چار دختر پیدا ہوئیں۔[4]
</p><br />
<p>
نصیر الدین ہاشمی نے زیادہ تر تحقیقی کام کیا ہے۔ وضاحتی فہرستیں مرتب کیں۔ سوانح اور تواریخ مرتب کیں۔ دکن کی خواتین شعرا پر کتابیں لکھیں۔ قدیم شعراء کے حالات منظر عام پر لائے اور ان کی خدمات ادبی حلقوں میں متعارف کروائیں۔ نصیر الدین ہاشمی کا سب سے اہم کارنامہ 'مثنوی کدم راؤ پدم راؤ' متن کی دریافت ہے۔ مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا مخطوطہ جو دنیا بھر میں اس کتاب کا واحد نسخہ ہے، عمر یافعی کی ملکیت تھا اور 1949ء میں ان کے ذخیرہ کتب کے ساتھ انجمن ترقی اردو آ گیا تھا۔ یہ وہی نسخہ تھا جو ایک زمانے میں حیدرآباد دکن میں لطیف الدین ادریسی کے پاس تھا اور جس کا مطالعہ کر کے سب سے پہلے نصیر الدین ہاشمی نے اکتوبر 1932ء میں 'معارف' اعظم گڑھ میں ایک تعارفی مضمون 'بہمنی عہد کا ایک دکنی شاعر' کے عنوان سے قلمبند کیا تھا۔ بعد ازاں اسی نسخہ کی مدد سے ڈاکٹر جمیل جالبی نے مثنوی کدم راؤ پدم راؤ پر تحقیقی مقالہ لکھا اور جامعہ کراچی 1978ء میں انہیں ڈاکٹر آف لٹریچر (ڈی لٹ) کی ڈگری عطا کی۔
<br />
ان کی مطبوعہ کتابوں میں دکن میں اردو ، نجم الثاقب ، رہبر سفر یورپ ، یورپ میں دکھنی مخطوطات ، ذکر نبیؐ ، حضرت امجد کی شاعری ، خواتین عہد عثمانی ، خیابان نسواں ، مدراس میں اردو ، مقالات ہاشمی ، خوتین دکن کی اردو خدمات، فلم نما، تذکرہ دار العلوم ، تاریخ عطیات آصفی ، حیدر آباد کی نسوانی دنیا ، مکتوباتِ امجد ، تذکرہ مرتضٰی ، عہد آصفی کی قدیم تعلیم ، آج کا حیدر آباد ، تذکرہ حیات بخشی بیگم ، دکھنی ہندو اور اردو ، کتب خانہ سالار جنگ کی وضاحتی فہرست ، کتب خانہ آصفیہ اسٹیٹ سینٹرل لائبریری کے اردو مخطوطات (دو جلدیں)، دکھنی قدیم اردو کے چند تحقیقی مضامین ، دکھنی کلچر، مولوی عبد القادر شامل ہیں۔
<br />
اس کے علاوہ اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خان کی سوانح 'المحبوب' کے نام لکھی جو کہ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان کی پابندی کی وجہ سے اشاعت سے محروم رہ گئی تھی۔ نصیر الدین ہاشمی کے فرزند ڈاکٹر ظہیر الدین ہاشمی نے 1995ء میں شائع کرایا۔ اس کے علاوہ 'حالات بھونگیر' غیر مطبوعہ ہے جو کہ نصیر الدین ہاشمی کی ابتدائی نگارشات میں شامل ہے۔
</p><br />
<p>
نصیر الدین ہاشمی کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر 26 ستمبر 1964ء حیدرآباد، بھارت میں وفات کر گئے۔ وہ درگاہ حضرت سید احمد بادِپا [Dargah Hazrat Syed Ahmed Baad-e-Paa]، احمد نگر، بنجارہ ہلز، حیدرآباد میں مدفون ہیں۔[5]
</p><br />
<blockquote>
<b>حوالہ جات:</b>
<br />
1۔ ڈاکٹر افضل الدین اقبال، حالات زندگی مولوی نصیر الدین ہاشمی، مشمولہ: دکن میں اردو، مولف: نصیر الدین ہاشمی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، جولائی 2002ء، ص 22
<br />
2۔ واجدہ فرزانہ، نصیر الدین ہاشمی ایک مطالعہ ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد، ناشر: بزم تخلیق ادب پاکستان، 2011ء، ص 15
<br />
3۔ نصیر الدین ہاشمی ایک مطالعہ، ص 16
<br />
4۔ نصیر الدین ہاشمی ایک مطالعہ، ص 17
<br />
5۔ ڈاکٹر افضل الدین اقبال، حالات زندگی مولوی نصیر الدین ہاشمی، مشمولہ: دکن میں اردو، مولف: نصیر الدین ہاشمی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، جولائی 2002ء، ص 23
</blockquote>
<div style="text-align: left;">***<br />
محمد عارف سومرو<br />
موبائل/واٹس ایپ : 00923002936827<br />
</div>
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhOFcbtti0oFxPQ2xFNePvpkbWX3_Qg3PZ1Ocqu6KklkJR0oVXgiKm5cxJMo8TXDjVnLS8jzZdxkT65JiS-9KPrv2_GARHF7ivMaED3R6ZH_bZ3ETOYIPlVuWGasSk-illZ8BUFI8QA4YT-VVD7yXI8aEh3Zgf533NDuZg4K00zvsG34SdVq2zbZXvv6y4/s1600/Arif-Soomro.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 0; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhOFcbtti0oFxPQ2xFNePvpkbWX3_Qg3PZ1Ocqu6KklkJR0oVXgiKm5cxJMo8TXDjVnLS8jzZdxkT65JiS-9KPrv2_GARHF7ivMaED3R6ZH_bZ3ETOYIPlVuWGasSk-illZ8BUFI8QA4YT-VVD7yXI8aEh3Zgf533NDuZg4K00zvsG34SdVq2zbZXvv6y4/s1600/Arif-Soomro.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">محمد عارف سومرو</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<div class="tn-snippet">
Naseeruddin Hashmi, a legend historian and researcher of Deccan. - Essay: Muhammad Arif Soomro
</div>
TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0