جن چیزوں میں زکوۃ واجب ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-08

جن چیزوں میں زکوۃ واجب ہے

zakat
جن چیزوں میں زکوۃ واجب ہے، وہ پانچ ہیں:

1-
سونا اور چاندی: سونا اگر 7.5 تولے یا 85 گرام یا 20 دینار ہو تو اس پر 2.5 فی صد زکوۃ واجب ہے۔ اور اگر اس سے کم ہو یعنی سات تولے بھی ہے تو اس پر زکوۃ نہیں ہے۔ اسی طرح چاندی اگر 52.5 تولے یا 595 گرام یا 200 درہم ہو تو اس پر 2.5 فی صد زکوۃ واجب ہے۔ اور اگر اس سے کم ہے یعنی پچاس تولے بھی ہو تو اس پر زکوۃ نہیں ہے۔

پیپر کرنسی کو زکوۃ کے لیے سونے اور چاندی پر قیاس کیا گیا ہے لیکن علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ پیپر کرنسی کے لیے معیار چاندی کو بنائیں گے یا سونے کو۔ بعض علماء کے نزدیک پیپر کرنسی کی زکوۃ چاندی کے نصاب کے مطابق دیں گے۔ مثلا آج ایک تولہ چاندی کا ریٹ 765 روپے ہے تو جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر رقم یعنی 40 ہزار روپے ہوں گے اور اس پر ایک سال گزر چکا ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہو گی۔

بعض علماء کا کہنا یہ ہے کہ فی زمانہ اتنی رقم یعنی چالیس ہزار کا ہونا امارت کی نشانی نہیں ہے کہ ایک غریب آدمی اپنی موٹر سائیکل خریدنے یا کسی بچے کی شادی کرنے کے لیے اتنے کی کمیٹی ڈال لیتا ہے۔ اور زکوۃ امیروں پر فرض کی گئی ہے لہذا اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولے سونے کے برابر یعنی آج کے ریٹ کے مطابق 4 لاکھ اور 35 ہزار سال بھر پڑے رہیں تو اس پر زکوۃ ہے اور اس سے کم پر زکوۃ نہیں ہے۔

ہماری رائے میں بھی پیپر کرنسی میں زکوۃ کے لیے سونے کو نصاب بنایا جائے گا نہ کہ چاندی کو کہ چاندی کو نصاب بنانے کی صورت میں غریبوں پر زکوۃ فرض ہو جائے گی جو شریعت کے مقصد کے خلاف ہے۔ اسی طرح سونا، چاندی اور کرنسی الگ الگ نصاب کو پہنچیں گے تو ان پر زکوۃ ہے اور ان کو آپس میں ملایا نہیں جائے گا۔ اگر کسی کے پاس سات تولے سونا ہے اور پچاس تولے چاندی ہے تو اس پر زکوۃ نہیں ہے کیونکہ دونوں پر زکوۃ کے فرض ہونے کے لیے ان کا الگ الگ اپنے نصاب کو پہنچنا ضروری ہے ۔

2-
مال تجارت [business asset] پر بھی زکوۃ فرض ہے لیکن ہر مال تجارت پر زکوۃ فرض نہیں ہے بلکہ صرف اس مال تجارت پر زکوۃ فرض ہے جو نصاب کو پہنچ جائے۔ تو مال تجارت میں اکثر علماء کے نزدیک نصاب چاندی ہے جبکہ بعض کے نزدیک سونا ہے۔ ہماری رائے میں مال تجارت میں سونے کو نصاب بنایا جائے گا یعنی اگر کسی کی انویسٹمنٹ ساڑھے سات تولے سونے یا 4 لاکھ اور 35 ہزار کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو اس مال پر زکوۃ ہے اور اس سے کم پر نہیں ہے۔

مثال کے طور پر اگر کسی معذور شخص نے اپنے گھر کی بیٹھک میں ہی پچاس ہزار کا سامان ڈال کر کریانہ کی دوکان کھول رکھی ہے تو اب اس پر زکوۃ نہیں ہے کہ یہ انویسٹمنٹ سونے کے نصاب کے برابر نہیں ہے۔ اسی طرح عوامل پیداوار (means of production) میں اگر منافع سونے کے نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکوۃ ہے اور اگر کم ہو تو زکوۃ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی بیوہ خاتون نے اپنے گھر کا ایک پورشن ماہانہ دس ہزار کرائے پر دے رکھا ہے کہ جس کی مد میں اسے سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار آمدن ہو جاتی ہے تو اس پر زکوۃ نہیں ہے۔

3-
زرعی پیداوار [agricultural output] پر بھی زکوۃ ہے جبکہ اس کی کم از کم مقدار پانچ وسق یعنی 612 کلو گرام ہو جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ پانچ وسق تقریبا 15.3 مَن سے کم کھجور ہو تو اس پر زکوۃ نہیں ہے۔ تو اگر کسی غریب کسان کو آٹھ دس مَن کی فصل حاصل ہوتی ہے کہ جس سے اس کا بمشکل گزارا ہوتا ہو اس پر زکوۃ نہیں ہے۔ اور زرعی پیداوار کی زکوۃ عشر یعنی دس فی صد ہے جبکہ زمین بارانی ہو یعنی بارش کے پانی سے سیراب ہو۔ اور نصف عشر یعنی پانچ فی صد اس وقت ہے جبکہ زمین نہری پانی پر ہو یعنی جس کا آپ ٹیکس ادا کرتے ہوں۔

4-
مال مویشی [livestock] پر بھی زکوۃ فرض ہے جبکہ وہ جنگلی گھاس پھوس پر گزارا کرتے ہوں۔ اگر چالیس بکریاں یا بھیڑیں ہوں تو ان پر سال میں ایک بکری یا ایک بھیڑ زکوۃ ہے اور چالیس سے کم پر یعنی انتالیس پر بھی نہیں ہے۔ اور اگر تیس گائے یا بھینس ہوں تو ان پر ایک بچھڑا یا کٹا زکوۃ ہے اور ان سے کم یعنی انتیس پر بھی زکوۃ نہیں ہے۔ اور اگر پانچ اونٹ ہوں تو ان پر ایک بکری زکوۃ ہے اور چار اونٹ پر زکوۃ نہیں ہے۔ یہ تو ذاتی استعمال کے جانوروں کی بات ہو گئی اور اگر بکریاں، گائے اور بھینسوں وغیرہ کے فارمز ہوں یا ان کا دودھ کا کاروبار ہو تو پھر اب یہ مال تجارت [business asset] ہے اور اس میں نصاب مال تجارت کا نصاب شمار ہو گا۔

5-
دفینے اور معدنیات پر بھی زکوۃ ہے۔ دفینے سے مراد غیر مسلموں کے دفن کیے گئے خزانے جو کسی مسلمان کے ہاتھ لگ جائیں جیسا کہ پاکستان سے بہت سے ہندوؤں نے اس امید پر ہجرت کی کہ جلد ہی واپس آ جائیں گے اور اپنے گھروں میں اپنا مال ومتاع دفن کر کے چلے گئے جو بعد میں ان مسلمانوں کے ہاتھ آیا کہ جنہیں وہ مکانات سرکار کی طرف سے الاٹ ہوئے تھے یا انہوں نے خرید لیے تھے۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق دفینے میں پانچواں حصہ یعنی بیس فی صد زکوۃ ہے۔ اور معدنیات مثلا پٹرول، کوئلہ، تانبا، لوہا، پیتل اور سیسہ وغیرہ میں اڑھائی فی صد زکوۃ ہے۔

دوست کا سوال ہے کہ کیا پلاٹ پر زکوۃ ہے؟
جواب:
اگر تو پلاٹ اس نیت سے خریدا ہے کہ اس سے اپنا ذاتی گھر بنانا ہے تو اس پر زکوۃ نہیں ہے، چاہے جتنی مالیت کا بھی ہو۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ذاتی مکان پر کسی بھی عالم دین کے نزدیک زکوۃ واجب نہیں ہے۔ تو جب ذاتی مکان پر نہیں ہے تو اس کے لیے خریدے گئے پلاٹ پر کیسے واجب ہو سکتی ہے جبکہ ذاتی مکان پلاٹ خریدے بغیر تو بن نہیں سکتا ہے۔

اور اگر پلاٹ خریدنے کے لیے کچھ رقم جمع کر رکھی ہو یا کمیٹی ڈال رکھی ہو تو اس پر بعض علماء کے نزدیک زکوۃ واجب ہے لیکن ہماری نظر میں یہ رائے درست نہیں ہے کہ مقاصد شریعت کے خلاف ہے۔ اس رائے کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس دو کروڑ کا گھر ہے تو آپ زکوۃ ادا نہیں کریں گے لیکن اگر آپ کمیٹیاں ڈال کر دس لاکھ روپے اس لیے جمع کرتے ہیں کہ کوئی دو چار مرلے کا پلاٹ لے لیں اور پھر کچھ کمیٹیاں ڈال کر اس پر ایک دو کمرے تعمیر کروا لیں گے تو اب آپ پر اس لیے زکوۃ ہے کہ آپ کے پاس کرنسی ہے۔ بہت عجیب بات ہے کہ امیر کو زکوۃ سے مستثنی قرار دے دیا اور غریب پر فرض کر دی ہے۔

حاصل کلام یہی ہے کہ اگر آپ کے پاس ذاتی گھر ہو تو اس پر زکوۃ نہیں ہے۔ ذاتی گھر کے لیے پلاٹ خرید رکھا ہو تو اس پر زکوۃ نہیں ہے۔ اور اگر ذاتی گھر بنانے کے لیے کچھ رقم جمع کر رکھی ہو تو اس پر بھی زکوۃ فرض نہیں ہے۔ البتہ اگر پلاٹ تجارت کی نیت سے خریدا ہے کہ جب قیمت کچھ بہتر ہو جائے گی تو اس کو بیچ دوں گا تو اب یہ مال تجارت (business asset) ہے اور اس پر زکوۃ فرض ہے۔ البتہ سعودی علماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ اگر مال محفوظ (saving) کرنے کے لیے پلاٹ خرید لے تو بھی زکوۃ نہیں ہے۔ یہ بھی عجیب رائے معلوم ہوتی ہے کہ میرے پاس ایک کروڑ کرنسی میں موجود ہو تو زکوۃ ہے اور اگر میں اس کا پلاٹ خرید کر رکھ لوں تو زکوۃ نہیں ہے۔ اس رائے میں فکری جمود ہے کہ زکوۃ میں پیپر کرنسی کو اصل بنا لیا حالانکہ زکوۃ میں اصل مال ہونا ہے۔

تو ایسے پلاٹ پر بھی زکوۃ ہے جو مال محفوظ کرنے (saving) کی نیت سے خریدا ہو۔ صرف اس پلاٹ پر زکوۃ نہیں ہے جو ذاتی استعمال کے لیے ہے۔ اگر کوئی پلاٹ خریدتے وقت کوئی نیت کی ہی نہیں تھی تو اب اس کی نیت کر لے۔ اگر گھر بنانے کی ہے تو زکوۃ سے مستثنی ہے اور اگر سیونگ یا تجارت کی نیت ہے تو ہر سال پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق زکوۃ واجب ہے۔ اور اگر پلاٹ خرید کر گھر بنا لیا اور اسے کرائے پر دے دیا تو اس پر بعض سعودی علماء نے کہا ہے کہ زکوۃ نہیں ہے لیکن یہ بھی عجیب رائے ہے۔ کرائے کا مکان مال تجارت ہے لہذا اس پر زکوۃ ہے۔ اور عوامل پیداوار (means of production) کے بارے قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ خود ان پر زکوۃ نہیں ہے بلکہ ان سے حاصل ہونے والی آمدن پر اڑھائی فی صد زکوۃ ہے تو کرائے کے مکان پر نہیں بلکہ اس سے حاصل ہونے والے کرایہ پر اڑھائی فی صد سالانہ زکوۃ ہے۔

***
اسسٹنٹ پروفیسر، کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور
mzubair[@]ciitlahore.edu.pk
فیس بک : Hm Zubair
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

Assets which are subjected to Zakat. Article: Dr. Hafiz Md. Zubair

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں