سحری اور افطار کے مسائل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-01

سحری اور افطار کے مسائل

ramzan-sahar-iftar
سحری کے مسائل (سلسلہ رمضانی دروس حدیث)
عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً»
[صحيح البخاري،رقم 1923]۔
صحابی رسول انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سحری کیا کرو کیونکہ سحری میں‌ برکت ہے ۔

سحری کی برکت:
اس حدیث‌ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کو برکت قرار دیا ہے ، ایک دوسری حدیث‌ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے "الغداء المبارك" بابرکت کھانا کہا ہے۔
[أبو داود2344 حسن]
ایک اور حدیث‌ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
إِنَّهَا بَرَكَةٌ أَعْطَاكُمُ اللَّهُ إِيَّاهَا فَلَا تَدَعُوهُ،
یہ سحری برکت ہے ،تمارے رب کی طرف سے عطیہ ہے اس لئے اسے نہ چھوڑو
[النسائي 2162 وصححہ الالبانی]۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس برکت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
1: اس میں سنت کی پیروی ہے۔
2:اہل کتاب کی مخالفت ہے۔
3: اس سے عبادت پر قوت حاصل ہوتی ہے۔
4: چستی میں اضافہ ہوتا ہے۔
5: بھوک کی وجہ سے متوقع بدخلقی سے نجات مل جاتی ہے۔
6:اگر سحری کے وقت کوئی سائل آجائے تو صدقہ کرنے کا موقع مل جاتاہے۔
7:قبولت دعاء کے اوقات میں ذکرودعاء کا موقع مل جاتاہے،
8: شام کو کوئی روزہ کی نیت کرنا بھول گیا تو اسے نیت کرنے کا موقع مل جاتاہے۔
[فتح الباري لابن حجر 4/ 140]

سحری کی فضیلت:
سحری یہ امت محمدیہ کی خصوصیت ہے ، پہلی امتوں پر روزے توفرض تھے مگر انہیں سحری کی سہولت میسر نہیں تھی ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ، أَكْلَةُ السَّحَرِ"
"یعنی ہمارے روزوں اوراہل کتاب کے روزوں میں فرق سہری کھانا ہے"
[صحیح مسلم ،رقم 1096]۔

بعض روایت میں آتا ہے کہ سحری کرنے والے پر اللہ اپنی رحمتیں نازل کرتاہے اورفرشتے دعائیں کرتے ہیں ، لیکن یہ روایت ضیعف ہے
(مسنداحمد وغیرہ‌)۔

سحری کا حکم :
سحری کھانا مستحب ہے ، واجب نہیں ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے "باب بركة السحور من غير إيجاب؛ لأنّ النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه واصلوا، ولم يذكروا السحور"
یعنی "سحری کھانا باعث برکت اورمستحب ہے واجب نہیں کیونکہ نبی کریم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے پے درپے روزے رکھے اور ان میں سحری کا ذکر نہیں ہے"
[صحیح البخاري، قبل الرقم 1922]۔
صحابی رسول قيس بن صرمة الأنصاري رضی اللہ عنہ نے رمضان میں بغیرافطارو سحری کے دوسرے دن کا روزہ رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ ہوا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء کا حکم نہیں دیا
[صحیح البخاري،رقم 1915]۔
امام نووی فرماتے ہیں:
"وَأَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى اسْتِحْبَابِهِ وَأَنَّهُ لَيْسَ بِوَاجِبٍ"
"یعنی اس بات پر اجماع ہے کہ سحری واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے"
[شرح النووي على مسلم 7/ 206]

سحری کا مستحب وقت:
سحری تاخیر سے کرنی چاہئے ،زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
«تسحرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قام إلى الصلاة»، قلت: كم كان بين الأذان والسحور؟ " قال: «قدر خمسين آية»
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں (پڑھنے) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا"
[صحیح البخاري، رقم1921]

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں‌:
"فِيهِ الْحَثُّ عَلَى تَأْخِيرِ السُّحُورِ إِلَى قُبَيْلِ الْفَجْرِ"
"اس حدیث‌ میں‌ تاکید ہے کہ سحری کو مؤخر کرکے فجر سے کچھ وقت قبل کھانا چاہئے"
[شرح النووي على مسلم 7/ 208]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں‌ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إنا معشر الأنبياء أمرنا أن نؤخر سحورنا، ونعجل فطرنا، وأن نمسك بأيماننا على شمائلنا في صلاتنا"
یعنی ہم انبیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم سحری دیر سے کریں‌ اور افطار میں جلدی کریں اور نماز میں دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑیں رہیں۔
[صحيح ابن حبان 5/ 67 ،رقم 1770]۔

تنبیہ:
اگردیر سے سحری کرتے ہوئے کبھی کبھار اذان شروع ہوجائے تو کھانا فورا چھوڑنے کے بجائے اسے ختم کرکے اٹھنا چاہئے۔
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا سمع أحدكم النداء والإناء على يده، فلا يضعه حتى يقضي حاجته منه»
یعنی تم میں سے جب کوئی (فجر) کی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہوتو اسے رکھے نہیں بلکہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔
[سنن أبي داود 2350 وصححہ الالبانی]
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کے احتیاط کے نام پر تمام لوگوں کو پانچ دس منٹ پہلے ہی سحری سے روکنا غلط ہے ۔

سحری میں کھانے کی چیزیں:
سحری میں کھجور کھانا مستحب ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"نعم سحور المؤمن التمر"
[أبو داود، رقم 2345 وصححہ الالبانی]۔
اس کے علاوہ جو بھی حلال رزق میسر ہو کھا سکتے ہیں ، اگر کچھ بھی مہیا نہ ہوسکے تو ایک گھونٹ پانی ہی لینا چاہے، صحابی عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تسحروا ولو بجرعة من ماء"
"سحری کرو خواہ ایک گھونٹ پانی ہی سے کیوں نہ ہو"
[صحيح ابن حبان 3476]

تنبیہ:
اگرباجماعت نماز پڑھنے والے حضرات سحری تاخیر سے کریں تو اس میں کچی پیاز اور کچا لہسن استعمال نہ کریں کیونکہ جماعت کے لئے مسجد جانا ہوگا اورمسجد میں یہ چیزیں کھا کر آنا منع ہے ۔
کچھ لوگ تمباکو نوشی کے عادی ہوتے ہیں ، یہ چیز تو تمام اوقات میں ناجائز ہے لیکن سحری میں اس کے استعمال سے اس کی قباحت اوربڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کی بدبو پیاز اورلہسن کی بدبو سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہے۔

افطار کے مسائل (سلسلہ رمضانی دروس حدیث)
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطْرَ»
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری امت کے لوگوں میں اس وقت تک خیر باقی رہے گی، جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔
[ صحیح البخاري،رقم 1957]۔

افطار کا حکم :

افطار کرنا مستحب ہے واجب نہیں ، صحابی رسول قيس بن صرمة الأنصاري رضی اللہ عنہ نے رمضان میں بغیر افطار و سحری کے دوسرے دن کا روزہ رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ ہوا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء کا حکم نہیں دیا اورنہ اسے غلط کہا
[صحیح البخاري،رقم 1915]۔

افطار میں جلدی کرنا:
پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوا کہ افطار میں‌ جلدی کرنا چاہے ، لہٰذا جو لوگ احتیاط کے نام پر تاخیر کرتے ہیں درست نہیں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی افطار میں جلدی کرتے تھے
[صحيح مسلم ،رقم 1099]۔

صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عَجِّلُوا الْفِطْرَ؛ فَإِنَّ الْيَهُودَ يُؤَخِّرُونَ"
"افطار میں جلدی کرو کیونکہ یہودی افطار میں تاخیر کرتے ہیں"
[ابن ماجه1698 ،حسن]۔

افطار کی دعاء (ذکر):
بسم اللہ کہہ کرافطار کرنا چاہئے ، اس موقع پر پڑھے جانے والے کلمات :
"اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ"
[سنن أبي داود2358]
اوراس جیسے دیگر اذکار و کلمات ثابت نہیں ہیں۔

سامان افطار:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں‌ کہ :
«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ عَلَى رُطَبَاتٍ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ، فَعَلَى تَمَرَاتٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ»
"اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تازہ کجھوروں سے افطار کرتے تھے اگر یہ میسرنہ ہوتیں تو چھوہاروں سے افطار کرتے یہ بھی نہ ہوتی تو پانی کے چند گھونٹ پی لیا کرتے تھے"
[سنن أبي داود، رقم 2356 ، صحیح]

مخلوط پانی یعنی شربت وغیرہ کا استعمال بھی درست ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے :
"يُفْطِرُ بِمَا تَيَسَّرَ مِنَ المَاءِ، أَوْ غَيْرِهِ"
"پانی وغیرہ جو چیز بھی پاس ہو اس سے روزہ افطار کر لینا چاہئے"
[صحیح البخاري، قبل الرقم 1956]

پھر اس کے تحت ایک حدیث‌ ذکر کی جس میں ہے :
«انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا»
"یعنی سواری سے اترو اور ہمارے (افطار) کے لئے ستو گھولو"
[صحیح البخاري،1956]

جن چیزوں سے افطار ثابت نہیں :
1) نمک سے افطار کرنا ثابت نہیں ، کسی بھی روایت میں اس کا ذکر نہیں ۔
2) دودھ سے افطار کرنا بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں اوررہی یہ روایت :
"كان يستحب إذا أفطر أن يفطر على لبن، فإن لم يجد فتمر، فإن لم يجد حسا حسوات من ماء"
[رواه ابن عساكر (2/ 381/ 1) ، والضياء في "المختارة" (1/ 495)]۔
تو یہ ضعیف ہے دیکھئے:الضعيفة رقم 4269۔
3) آگ سے پکی ہوئی چیزوں سے افطار میں پرہیز ثابت نہیں ، اور رہی یہ روایت:
"عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يُحِبُّ أَنْ يُفْطِرَ عَلَى ثَلَاثِ تَمَرَاتٍ أَوْ شَيْءٍ لَمْ تُصِبْهُ النَّارُ"
[مسند أبي يعلى الموصلي 6/ 59]۔
تو یہ روایت سخت ضعیف ہے دیکھئے الضعیفہ رقم 996 ۔

تنبیہ:
باجماعت نماز پڑھنے والے حضرات افطار میں کچی پیاز اور کچا لہسن استعمال نہ کریں کیونکہ جماعت کے لئے مسجد جانا ہوگا اور مسجد میں یہ چیزیں کھا کرآنا منع ہے ۔
کچھ لوگ تمباکو نوشی کے عادی ہوتے ہیں ، یہ چیز توتمام اوقات میں ناجائز ہے لیکن افطار میں اس کے استعمال سے اس کی قباحت اوربڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کی بدبو پیاز اورلہسن کی بدبو سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہے۔

غیر مسلم کی طرف سے افطار:
اگرغیرمسلم حلال اورپاک چیز افطارکے لئے بھیجے تو جس طرح اس کی عام دعوت قبول کرنا جائز ہے اسی طرح اس کی افطار کی دعوت بھی قبول کرنا جائز ہے لیکن سیاسی افطار پارٹیوں کا معاملہ الگ ہے اس میں بڑی قباحتیں ہیں اس لئے اس سے پرہیز ہی بہترہے خواہ یہ نام نہاد مسلمانوں ہی کی طرف سے کیوں نہ ہو۔

افطار کے بعد ذکر :
افطار کے بعد درج ذیل کلمات پڑھنا چاہئے :
«ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ»
"پیاس بجھ گئی ، رگیں تر ہوگئی ، اوراللہ نے چاہا تو اجربھی ثابت ہو گیا"
[سنن أبي داود2357 ، صحیح]

The issues of Sahar and Iftar. Article: Kifayatullah Sanabili

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں