چھوٹی سی غلطی - انشائیہ از مبارک علی مبارکی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-14

چھوٹی سی غلطی - انشائیہ از مبارک علی مبارکی

husband-wife-quarrel
"یہ گوشت کیا بھگاڑ سے اُٹھا کر لائے ہو ؟" ناشتے کے برتن دھوتے ہوئے بیگم کی چنگھاڑ سُنائی دی ۔
کنفیوز ہونے کی ضرورت نہیں۔برتن میں ہی دھو رہا تھا۔ وہ تو حسبِ معمول ناشتہ کرنے کے بعد میرے لائے ہوئے سامان کا کوالیٹی ٹیسٹ کر رہی تھیں ۔
"بھگاڑ ؟ وہ کیا ہوتا ہے بیگم ؟" میں نے انجان بن کر پوچھا۔
"مجھے بیوقوف مت سمجھنا۔ مردہ جانوروں کا گوشت ملتا ہے بھگاڑ میں۔ میں نے ٹی وی پر سب دیکھ لیا ہے۔" بیگم نے طنزیہ فخر سے دہاڑتے ہوئے کہا۔
" ارے تو کیا زندہ جانور کا گوشت کٹوا کر لے آؤں؟ جانور ذبح ہونے کے بعد مرے گا تبھی تو گوشت کٹے گا نا !" میں نے معصوم بننے کی ناکام کوشش کی۔
" دیکھو مجھے غصّہ مت دلاؤ۔ ورنہ سارا گوشت کتّے کو ڈال دونگی۔" وہ سچ مچ کے کتّے کا ذکر کر رہی تھیں۔
میں نے ہمیشہ کی طرح دبنے میں ہی عافیت سمجھی کہ کہیں آج پھر کسی اور کتّے کے سامنے گوشت نہ ڈال دیا جائے۔
"جان، کیا ہوا گوشت کو ؟ اچھا خاصا تو ہے۔" میں نے منافقانہ لگاوٹ سے کہا۔
"ہاں ہاں ،تم تو اُس موئے قصائی کی ہی طرفداری کروگے نا۔ آدھے سے زیادہ ہڈّیاں بھر کر دے دی ہیں۔ لیکن وہاں تو ہونٹ سِل جاتے ہیں۔ زبان تو بس گھر پر ہی چلتی ہے_"
دنیا کے دیگر مظلوموں یعنی شوہروں کی طرح میرے لئے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، بلکہ روز کا معمول تھا۔
اُس روز بھی میں صبح صبح نیند سے جاگا، چائے بناکر حُسنِ خوابیدہ کو پیش کی، بیٹے کو اسکول کے لئے تیّار کیا، ٹِفن دیکر اسکول بس میں چڑھایا، پھر بازار سے ناشتہ اور پکانے کا سامان لایا، ناشتہ ڈائننگ ٹیبل پر لگا کر اپنی موت کو ۔۔۔۔ معاف کیجئے، بیگم کو ۔۔۔۔ آواز دی، "جان آجاؤ، ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔"
اور بیگم فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً حاضر ہوگئیں _
کل کے نکلے ہوئے برتن رات میں ہی دھو دیئے تھے اِس لئے بس ناشتے کے برتن ہی دھونے تھے _ شام کو ڈیوٹی سے آنے کے بعد برتن کچھ کم رہیں اِس لئے اسکول جانے سے پہلے ناشتے کے برتن دھو لیا کرتا تھا _
پہلے کپڑے بھی مجھے ہی دھونے پڑتے تھے _ لیکن ایک دن بیگم کو مجھ پر رحم آگیا۔ کہنے لگیں، "آپ بس برتن دھو دیا کریں، کپڑے میں خود ہی دھو لونگی۔"
یہ آٹومیٹِک واشنگ مشین آنے کے دوسرے دن کی بات ہے ۔
شام کو اسکول کے بعد میرے اکثر ساتھی کسی ہوٹل میں بیٹھ کر چائے کی چُسکیاں لیتے ہوئے عالمی سیاست سے مقامی معاشقوں تک پر عالمانہ گفتگو کیا کرتے تھے ۔ لیکن مجھے چونکہ اسکول کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر گھر پہنچنے کا حکم تھا۔ اِس لئے چاہتے ہوئے بھی کبھی اُن کا ساتھ نہ دے سکا ۔
دوست یار اتوار کو پکچر دیکھنے جاتے اور دوسرے دن کامن روم میں اس پر تبصرے ہوتے _ فلاں گیت کیا عمدہ تھا، فلاں ڈانس کیا زبردست تھا، وہ نئی ہیروئن تو غضب ڈھا رہی تھی، وغیرہ وغیرہ ۔ اور میں ہونّقوں کی طرح خجالت سے سب کے مُنہ تکا کرتا _
مُلک کو آزاد ہوئے ستّر سال ہوچکے تھے لیکن میرے گلے میں غلامی کا طوق اور پیروں میں محکومی کی زنجیر اب بھی پڑی ہوئی تھی _
میں اکثر اپنے جونیر ساتھی عمران کو اپنا دُکھڑا سنا کر غم ہلکا کیا کرتا تھا _ بیچارہ تھا تو ناتجربہ کار یعنی غیرشادی شدہ لیکن خود کو بڑا عقلمند سمجھتا تھا _ اور ہر معاملے میں مشورہ دینا اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا _
ایک دن کہنے لگا، "سر، آپ بھابھی کو کہیں باہر گُھمانے کیوں نہیں لے جاتے ؟ کہیں باہر جائینگی، ہوا پانی بدلے گا تو شاید مزاج میں بھی کچھ تبدیلی آجائے _"
"بھائی، ڈر لگتا ہے کہیں راستے میں ہی شروع ہوگئی تو عزّت کا فالودہ ہو جائے گا۔" میں نے دل کی بات کہدی _
"سر، آپ ایسا کریں اِس سال گرمی کی چُھٹّیوں میں اُنہیں کسی ہِل اسٹیشن پر لے جائیں۔ میرے خیال سے دارجیلِنگ ٹھیک رہے گا۔" ایکسپرٹ اوپینین آئی۔
"بھائی، دارجیلنگ ہی کیوں؟" میں نے بے دِلی سے پوچھا ۔
"سر، بڑی خوبصورت جگہ ہے۔ موسم بھی سرد رہتا ہے۔ ہری بھری پہاڑی پگڈنڈیوں پر بھابھی کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گھومینگے تو وہ لڑائی بِھڑائی سب بھول جائینگی۔" بیچارہ میری بیگم سے کبھی ملا نہیں تھا نا !
"لیکن سر، ایک بات کا خیال رکھئے گا۔ یہ پہاڑی راستے کبھی کبھی بڑے خطرناک ثابت ہوتے ہیں _ پچھلے سال ایک جوڑا وہاں گھوم رہا تھا۔ ذرا سی بے خیالی ہوئی اور بیوی پہاڑی سے گِر کر موقعے پر ہی ہلاک ہو گئی۔"
نہ جانے کیوں آج عمران کی بات میرے دل پر اثر کرگئی اور میں نے گھر پہنچتے ہی اعلان کر دیا کہ گرمی کی چُھٹّیوں میں ہم دونوں دس دنوں کے لئے دارجیلِنگ جا رہے ہیں۔
بیگم کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اُن کا کنجوس شوہر اِتنی بڑی فضول خرچی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ لیکن جب میں نے قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا تو اُن کو یقین کرنا ہی پڑا ۔
پندرہ دنوں کے بعد گرمی کی چُھٹّیاں شروع ہونے والی تھیں۔ محلّے میں ہی ظفر بھائی کی ٹراویل ایجینسی کا دفتر تھا۔ دوسرے دن صبح اسکول جاتے وقت نام پتہ، سفر کی تاریخ اور ٹکٹ کے پیسے وغیرہ دیکر ڈیوٹی پر چلا گیا _
ظفر بھائی نے شام کو ٹکٹ بنا کر دینے کا وعدہ کیا تھا۔
آج تو اسکول میں وقت ہی نہیں کٹ رہا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ وقت پر لگا کر اُڑ جائے، جلدی سے چُھٹّی ہو اور ٹکٹ ہاتھ میں آجائیں۔ لیکن اچانک ہیڈماسٹر کا نوٹس آیا کہ کلاسس ختم ہونے کے بعد اسٹاف کی ہنگامی میٹنگ رکھی گئی ہے۔ پھولن دیوی کو فون کر دیا کہ گھر لَوٹنے میں دیر ہوگی، ہیڈماسٹر نے میٹنگ بُلوائی ہے۔ جواب میں ہیڈماسٹر کی شان میں کچھ توصیفی کلمات ادا کئے گئے جو یہاں لکھنا مناسب نہیں ہوگا ۔
میٹنگ پانچ بجے شروع ہوئی اور چھ بجے تک چلی۔ ہم سب اسکول سے نکلے تو ساتھی اساتذہ ساتھ میں چائے پینے کے لئے اصرار کرنے لگے۔ میں نے منع کیا تو ظفر بھائی بولے، "یار کہدینا میٹنگ سات بجے تک چلی تھی۔"
خیر صاحب، دوستوں کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔ نام تو چائے کا تھا لیکن اچّھی خاصی ضیافت چل رہی تھی۔ آج میں بھی بڑے خوشگوار موڈ میں تھا اور میرے ہونٹوں پر بار بار 2014 کے الیکشن کا وہ گیت آرہا تھا کہ "اچّھے دن آنے والے ہیں، اچّھے دن آنے والے ہیں۔"
انسان کی زندگی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اچّھا وقت بڑی تیزی سے گزر جاتا ہے جبکہ شوہری وقت کا ایک ایک پل ایک ایک صدی معلوم ہوتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ ایک ڈیڑھ گھمٹہ کیسے گزر گیا پتہ ہی نہیں چلا ۔ اچانک خیال آیا کہیں ظفر بھائی دفتر بند کرکے گھر نہ چلے جائیں۔
دوستوں سے اجازت لیکر جلدی جلدی گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ محلّے میں داخل ہوا تو دیکھا ظفر بھائی واقعی دفتر بند کرکے گھر جاچکے تھے _
دل کچھ اداس سا ہو گیا کہ اب کل صبح سے پہلے ٹکٹوں کا دیدار نہ ہو سکے گا۔
بہرحال گھر میں داخل ہوا۔ سوچا بیگم بہت خوش ہونگی کہ دو ہفتے بعد دارجیلِنگ جا رہی ہیں۔
لیکن یہ کیا ؟ بیگم کی آنکھیں غصّے سے لال ہو رہی تھیں، ہاتھ میں بیلن تھا اور سامنے ٹی ٹیبل پر دارجیلنگ جانے اور واپس آنے کے ٹکٹ رکّھے ہوئے تھےجو شاید ظفر بھائی دفتر بند کرکے گھر جاتے ہوئے دے گئے تھے۔
مجھے دیکھتے ہی چیخ کر بولیں، " تو یہ مقصد تھا دارجیلنگ لے جانے کا ؟"
میں نے تھرتھر کانپتے ہوئے کہا، " لیکن بیگم ہُوا کیا ہے ؟"
"پوچھتا ہے ہُوا کیا ہے ؟" بیگم نے مزید چیختے ہوئے کہا، " جیسے کچھ جانتا ہی نہیں۔ جانے کے دو ٹکٹ اور واپسی کا ایک ! میرا واپسی کا ٹکٹ کہاں ہے؟"
آج دو ماہ بعد اسپتال سے نکلتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ کفایت شعاری ہمیشہ سودمند نہیں ہوتی۔ آخر واپسی کا ایک ٹکٹ واپس کرنے پر آدھے پیسے ہی تو کٹتے !
ایک چھوٹی سی غلطی کے سبب اچّھے دن آتے آتے رہ گئے _

***
"Hayat Rise", 4th Floor, 19, Alimuddin Street, Kolkata-700 016.
ای-میل: mubarak.mubarki[@]gmail.com
موبائل: 08961342505
فیس بک : Mubarak Ali Mubarki
مبارک علی مبارکی

Chhoti si ghalti. Humorous Article: Mubarak Ali Mubarki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں