ابن بطوطہ - نامور سفرنامہ نویس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-23

ابن بطوطہ - نامور سفرنامہ نویس

ibn-battuta-the-famous-traveler
جب ہم چھوٹے تھے تو ابن بطوطہ اور ملا دو پیازہ کو کامیڈی کیرکٹر سمجھتے تھے۔ چند سال بعد معلوم ہوا کہ ابن بطوطہ ایک سفر نامہ نویس تھا ، ہماری نصاب کی کتابوں میں بھی ابن بطوطہ کے بارے میں معلومات دی گئی تھیں۔
معلوم ہوا کہ ابن بطوطہ ایسا سیاح اور مورخ تھا جس نے زندگی دنیا بھر کے ملکوں کی سیروتفریح میں گزاردی۔ مگر وہ صرف سیاح ہی نہیں تھا۔ وہ ایک تاریخ نگار بھی تھا جس نے اپنے زمانے کے ملکوں کے رسم و رواج اور دہاں رہنے والوں کے بارے میں بہت کارآمد معلومات فراہم کیں۔ ہمارے ملک میں ایک سیاح ابن انشاء نے تو اپنی ایک کتاب کا نام ہی ابن بطوطہ رکھ لیا ۔ وہ بھی ملکوں ملکوں گھوما کرتے تھے اور وہاں کے عجیب و غریب قصے سنایا کرتے تھے ۔ ابن بطوطہ نے تو اپنی دلچسپی اور دنیا کو دیکھنے کے شوق میں سفر اختیار کیے تھے ۔ لیکن رفتہ رفتہ انہیں احساس ہوا کہ وہ محض داستان گو نہیں ہیں ۔ وہ اپنے عہد کی تاریخ لکھ رہے ہیں جو کہ ایک بہت بڑی ذمے داری تھی۔ ابن بطوطہ کے دلچسپ اور معلوماتی سفر نامے بھی شائع ہوئے جنہیں بہت پذیرائی حاصل ہوئی ۔ دنیا کی غالباً ہر زبان میں ان کے دلچسپ اور معلوماتی سفر نامے ترجمہ کر کے شائع کیے گئے ہیں۔ اردو میں پہلے یہ سفرنامے عجائب الاشر کے نا م سے شائع ہوئے لیکن بعد میں سفر نامہ ابن بطوطہ کے نام سے شائع ہوئے اور بے حد مقبول ہوئے ۔ یہ سفر نامے ایک طرح کی ہیں جو حقائق پر مبنی ہیں ۔ اس کے علاوہ جغرافیہ اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بھی یہ ایک انتہائی معلوماتی اور مفید ہیں۔ طلبا کو یہ سفر نامے ضرور پڑھنے چاہئیں تاکہ وہ پرانی تاریخ سے واقفیت حاصل کرسکیں۔
آئیے پہلے تو آپ کا تعارف ابن بطوطہ سے کراتے ہیں۔ یہ کوئی فرضی یا فلمی نام ہے۔ ان کا پورا نام محمد بن عبداللہ ابن بطوطہ بر بر تھا۔
وہ سن1304ء میں کینجز میں پیدا ہوئے تھے جو کہ مراکش میں واقع ایک شہر ہے اور آج بھی اسی نام سے موسوم ہے ۔ ان کا تعلق ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کے خاندان کو قاضیوں کا خاندان بھی کہاجاسکتا ہے کیونکہ ان کے خاندان کے کئی افراد قاضی کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ خود ابن بطوطہ نے بھی قانون کی تعلیم حاصل کی ہوگی اور اگر وہ دنیا کے سفر پر نہ نکل پڑتے تو ممکن ہے اپنے ملک میں وہ بھی کسی شہر کے قاضی ہوتے ۔ وہ اسلامی مسائل اور فقہ وغیرہ ر دسترس رکھتے تھے۔
وہ ایک شاعر بھی تھے۔ یوں کہنا چاہئے کہ ادب سے انہیں بہت دلچسپی تھی ۔ شعر گوئی تو وہ کرتے ہی تھے لیکن ان کے سفر نامے اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ ادیب اور اہل قلم بھی تھے ۔ دنیا کے مختلف ملکوں کا دورہ کرنے کے بعد اور وہاں کے واقعات سے دنیا بھر کو باخبر کرنے کے بعد ابن بطوطہ65سال کی عمر میں(سن1369) میں وفات پاگئے ۔
ابن بطوطہ نے اکیس سال کی عمر میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت ان کا ارادہ دنیا کی سیاحت کا نہ تھا۔ وہ حج کرنے کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے تھے۔ جب انہوں نے دنیا کو دیکھا تو پھر حج کرنے کے بعد واپس گھر جانے کے بجائے انہوں نے دنیا کا سفر کرنے کا ارادہ کرلیا اور پھر ساری زندگی سیروسیاحت ہی میں گزاردی۔ انہوں نے جن ملکوں کا سفر کیا ان مین(آج کے ناموں کے اعتبار سے )مصر، شام، اردن، لبنان، اسرائیل، فلسطین، عراق، یمن، امارات کے ملک، سعودی عرب ایران، ترکی، آذر بائیجان، جارجیا، روس، تاجکستان، ترکمانستان، آرمینیا، کرغستان، افغانستان، پاکستان، ہندوستان، مالدیپ، سری لنکا، تھائی لینڈ، برما، کمبوڈیا، ملائشیا، انڈونیشیا، چین، شمالی افریقہ کے ممالک، سوڈان، لیبیا، تیونس ،مراکش(جو کہ ان کا وطن تھا۔) نائیجیریا ، مالی ، اسپین، اور دوسرے ممالک شامل ہیں ۔ یہ اندازہ لگانا آسان نہیں ہے کہ چودھویں صدی کے قدیم زمانے میں جب ذرائع آمد و رفت کی آسانیاں حاصل نہیں تھیں۔ نہ ہوائی جہاز، نہ بس، ریل گاڑی تو کیا بیل گاڑیاں بھی اتنی عام نہیں تھیں۔ لوگ پیدل یا پھر اونٹوں ، گھوڑوں اورگدھوں پر سفر کیا کرتے تھے ۔ اس کے باوجود دنیا کے اتنے بہت سے ملکوں کا سفر کرنا وہاں قیام کرنا اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر معلوماتی سفر نامے لکھنا آسان نہیں، ایک ناممکن کام تھا۔ آج جب کہ سفر کی جدید اور تیز رفتار سہولتیں حاصل ہیں، کیا کوئی شخص اتنے ملکوں کا سفر کر کے اتنے معلوماتی اور مفصل سفر نامے لکھ سکتاہے؟
ابن بطوطہ جب ہندوستان پہنچا تو یہاں سلطان محمد تغلق کی حکومت تھی ۔ سلطان تغلق سن1325ء میں اپنے والد سلطان غیاث الدین تغلق کو قتل کراکے تخت نشین ہوا تھا ۔
ابن بطوطہ کی سلطان تغلق سے ملاقات ہوئی تو سلطان بہت عزت و احترام کے ساتھ پیش آیا۔ اسکو لاکھوں تنکہ( اس زمانے کا سکہ) عطاکرنے کے علاوہ اس کو دہلی کا قاضی بھی مقرر کردیا۔ابن بطوطہ نے سلطان تغلق کے بارے میں جن تاثرات کا اظہار کیا ہے وہ بہت دلچسپ اور معلومات ہیں ۔ ابن بطوطہ جب دریائے سندھ کے کنارے پہنچا تو اس نے لکھا کہ اس دریا کو پنج آپ کہتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پانچ دریاؤں کے ملاپ سے بنا ہے ۔
اس زمانے میں سندھ ایک علیحدہ ملک تھا۔ جس کا پایہ تخت ملتان تھا۔ موجودہ جنوبی پ نجاب کا بہت بڑا حصہ بھی اس سلطنت کا حصہ تھا لیکن سندھ کا والی بھی سلطان تغلق کو خراج ادا کرتا تھا ۔ ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ سندھ میں دریائی گھوڑے RHINO بہت کثرت تھے ۔ وہ جنگلوں میں آزادی سے گھومتے پھرتے تھے۔ ابن بطوطہ نے ہندوؤں کی رسم ستی کا تذکرہ کیاہے جس میں شوہر کے مرنے کے بعد اس کی بیوی کو بھی شوہر کی لاش کے ساتھ ہی زندہ جلادیا جاتا تھا۔ جب لوگوں سے یہ تنا تو ابن بطوطہ نے بذات خود ستی کی ایک رسم دیکھی اور تفصیل سے اس کا تذکرہ بھی کیا۔ اس نے لکھا ہے کہ یہ ایک روح فرسا منظر تھا جسے دیکھ کر جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے ۔ اس نے لکھا کہ کس طرح بیوہ کو سنگھار کر کے شمشان گھاٹ لایا جاتا ہے ۔ اس کو ایک جلوس کی شکل میں لے جاتے ہیں ۔ جلوس کے آگے آگے ڈھول بچانے والے ہوتے ہیں۔ ڈھولوں کی آواز اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دیتی۔ بیوہ شوہر کی لاش کے پاس پہنچائی جاتی ہے اس کے بعد لکڑیوں میں آگ لگا دی جاتی ہے۔ بیوہ اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ لیٹ جاتی ہے ۔
ہندو پنڈت اس موقعے پر اشلوک پڑھتے ہیں۔ بیوہ کے لیٹنے کے بعد مزید لکڑیاں اس کے اوپر رکھ دی جاتی ہیں اور ان میں آگ لگا دی جاتی ہے۔ پنڈت اشلوک پڑھتے ہوئے ان لکڑیوں پر گھی چھڑکتے رہتے ہیں تاکہ آگ اور تیز ہوجائے۔ ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ جب زندہ بیوہ کے جسم کو آگ لگتی ہے تو وہ بہت دلدوز انداز میں چیختی چلاتی ہے مگر ڈھول کے شور اور آس پاس جمع ہونے والے لوگوں کے نعروں کی وجہ سے اس کی آواز اس شور میں دب جاتی ہے اور ایک زندہ عورت جلا دی جاتی ہے۔ یہ منظر رونگٹے کھڑے کرنے والا تھا جسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا ۔ میرا ایک ساتھی یہ منظر دیکھ کر بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے اس کے اوپر ٹھنڈاپانی ڈالا تاکہ وہ ہوش میں آسکے ۔ کچھ دیر بعد وہ ہوش میں آیا اور پھر چیخ کر بے ہوش ہوگیا۔ یہاں تک کہ مجبوراًاسے وہاں سے اٹھا کر لے جانا پڑا۔
ابن بطوطہ کو تصوف سے بھی دلچسپی تھی اور ہندوستان میں اس کی کئی صوفیوں سے ملاقات ہوئی ۔ ایک صوفی سے اس کی ملاقات ہوئی جو طویل العمر تھا۔ 120سال کی عمرمیں بھی اس کی صحت بہت اچھی تھی۔ ابن بطوطہ کی ایک اور بہت مشہور صوفی سے ملاقات ہوئی، وہ افغانستان میں پنچ شیر کے علاقے میں رہتے تھے ۔ لوگ انہیں عطاء اولیاء کے نام سے یاد کرتے تھے اور ان کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ عطا اولیاء کا مطلب ہے اولیاؤں کا عطا کردہ۔ ابن بطوطہ نے ان کی کٹیا میں جاکر ان سے ملاقات کی جو کہ ایک پہاڑی پر واقع تھی ۔ ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی عمر تین سو سال سے زیادہ ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ان کی عمر350سال ہے۔ ابن بطوطہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ اب ان کے سیاہ بال نکلتے تھے ۔ کہاجاتا ہے کہ ایک سو سال کے بعد ان کے بال سیاہ اور دانت نئے ہوجاتے تھے ۔ دیکھنے میں وہ پچاس سال کے نظر آتے تھے ، خدا جانے اس بیان میں کتنی صداقت ہے کہ ان کی عمر350سال تھی۔
اچ کے مقام پر ابن بطوطہ کی ملاقات اس زمانے کے معروف بزرگ سید جلال الدین بخاری سے ہوئی۔۔ ابن بطوطہ ان کی نیکی اور علم سے بہت متاثر ہوا ( سید جلال الدین کو جہانیاں جہاں گشت بھی کہاجاتا تھا۔) ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں اچ ایک بڑا شہر تھا جہاں بڑی خوبصورت عمارتیں تھیں۔ شہر کے بازار بھی بہت پر رونق اور خوبصورت تھے ۔
سندھ کے دارالحکومت ملتان میں ابن بطوطہ کو وہاں کے گورنر نے اپنا مہمان رکھا۔ گورنر کا تعلق قریشی خاندان سے تھا جو بہاؤ الدین ذکریا ملتانی کے خاندان سے تھے ۔ ابن بطوطہ کے بقول قریشی کبھی کسی کو اپنا مہمان نہیں رکھتے تھے جب تک گورنر اجازت نہ دے۔
ابن بطوطہ نے ملتان میں بغاوت کا زمانہ بھی دیکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ بغاوت کودبانے کے لئے سلطان محمد تغلق بذات خود آیا تھا۔ ایک رات وہ خاموشی سے اپنے خیمے سے نکلا ۔ اس وقت باغی شاہی قلعے تک پہنچ گئے تھے۔ عماد الدین قریشی کو سلطان نے خود اپنے ہاتھوں سے قتل کردیا کیونکہ عماد الدین کی صورت شاہ سلطان سے تھی۔
سفر نامہ ابن بطوطہ میں اس نے لکھا ہے کہ ملتان کے صوفی رکن عالم قریشی نے تصدیق کی کہ اپ نے والد غیاث الدین تغلق کو قتل کرانے میں اس کے بیٹے سلطان محمد تغلق کا ہاتھ تھا ۔ رکن الدین عالم نے بتایا کہ سلطان غیاث الدین کا قتل ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔
ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ سلطان تغلق نے بہت سے عالم و فاضل لوگوں کو قتل کرایا تھا۔ ان میں بہت سے نیک اور پارسا لوک بھی شامل تھے ۔ سلطان جس کو قتل کرانا تھا اس کے لئے اپنے قاضی سے فتوی ضرور لیتا تھا۔ سلطان تغلق نے بہت سے نیک اور خدا ترس علماء کو قتل کرایا کیونکہ انہوں نے اس کی مرضی کے مطابق فتوے دینے سے انکار کردیا تھا۔
رکن عالم قریشی کے بعد سلطان نے حد قریشی کو ان کا جانشین بنوایا۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ اور ملتان میں پیری فقیری کا رواج تھا اور گدی نشینی کے لئے بہت جھگڑے ہوا کرتے تھے۔
کچھ عرصے بعد ملتان کے گورنر نے سلطان کو اطلاع دی شیخ حد قریشی اور ان کے اہل خاندان درگاہ سے ہونے والی آمدنی کو لنگر اور خانقاہ کے بجائے اپنے عیش و عشرت پر خرچ کررہے ہیں اور ان لوگوں نے بہت بڑی رقم اپنے پاس بھی جمع کررکھی ہے ۔
بخارا کے بارے میں ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ وہاں اکثر مساجد، مدرسے اور بازار بہت خستہ حالت میں ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب چنگیز خان اور ہلاکو نے حملہ کیا تو ہر چیز کو تباہ کردیا۔ شہر میں پڑھا لکھا عالم نظر نہیں آتا ۔ کسی نے اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ جگہ امام محمد اسماعیل بکاری کا مقام پیدائش ہے ۔ ابن بطوطہ کو حیرت اس لئے ہوئی کہ کسی زمانے میں یہ شہر علم و فن اور تہذیب کا مرکز تھا۔ صدیوں تک دور دور سے لوگ یہاں علم حاصل کرنے آتے تھے ۔ لیکن افسوس کہ تاتاریوں نے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔
دمشق و شام میں امام ابن تیمیہ کو دیکھا جہاں وہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے ۔ ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ ان کے خطبہ کے دوران میں امام تیمیہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہم سب سے اعلیٰ اور اونچا ہے جیسے کہ میں اس منبر کی اونچی سیڑھی پر کھڑا ہوکر بلند ہوگیا مگر اللہ کی عظمت اور بڑائی کا کوئی انسان مقابلے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
مسجد میں ایک الملکی عالم بھی موجود تھا۔ اس نے اپنے سینے پر اتنی زور زور سے ماتم کے انداز میں ہاتھ مارا کہ اس کی پگڑی سر سے گر گئی۔ قاضی حنبل نے اس شخص سے کہا کہ تم مسجد میں ٹوپی پہن کر کیوں نہیں آئے اور خطبہ کے دوران میں اس طرح ماتم کرکے نمازیوں کو پریشان کیوں کیا؟
بعد مین اس شخص کو مار پیٹ کر مسجد سے باہر نکال دیا ۔ ایک اور عالم نے اس طریقے پر اعتراض کیا کہ اس کے خلاف امیر اور سلطان کو شکایتی درخواست بھیجی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے امام تیمیہ کے خلاف قانونی کارروائی بھی شروع کردی ۔ درخواست میں لکھا تھا کہ ابن تیمیہ نے اپنے خطاب میں نازیبا الفاظ بھی استعمال کئے ۔ سلطان نے یہ شکایت پڑھنے کے بعد حکم دیا کہ امام تیمیہ کو مسجد میں بندکردیاجائے اور زندگی بھر یہ وہیں رہیں۔ یعنی انہیں سزائے عمر قید دے دی گئی۔
سلطان کے اس حکم کی وجہ سے سارے عالم اسلام میں ہلچل پیدا ہوگئی ۔ مورخین کا خیال ہے کہ اس قسم کی تفریق کی وجہ اسلام کو بہت نقصان پہنچا ۔ یہ فرقہ بندی آج تک موجود ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ فرقہ وارانہ اختلافات نے عالم اسلام کے لئے منگولوں کے حملوں سے زیادہ نقصان پہنچایا۔
جب وہ غزہ گیاتو وہاں ہیزے کے بیماری پھیلی ہوئی تھی ۔ اور تقریبا ایک ہزار افراد اس کی وجہ سے روازانہ ہلاک ہورہے تھے، دمشق میں روز2400افراد اس بیماری کا نشانہ بن رہے تھے ۔ یہ دبا یروشلم تک پھیل گئی تھی ۔ مصر کے شہر الیگزینڈریا میں روزانہ1800اور قاہرہ میں ہر روز2100افراد ہلاک ہورہے تھے ۔ یوں لگتا تھا جیسے اللہ کا قہر نازل ہوگیا ہے ۔ ابن بطوطہ نے اس زمانے کی اشیاء کی قیمتیں بھی لکھی ہیں ۔ بنگال میں چاول دس سے پندرہ روپے من تھے جو بے حد مہنگے تھے ۔ مزدور کو کام کاج کا معاوضہ بہت کم ملتا تھا ۔ لوگ مشکل سے زندگی بسر کرتے تھے ۔ بھینس کا دودھ تین روپے سیر تھا۔ ایک تندرست مرغی ڈیڑھ پیسے میں مل جاتی تھی۔ ایک صحت مند مرغی ڈیڑھ پیسے میں مل جاتی تھی ۔ ایک صحت مند بکری یا بھیڑڈیڑھ پیسے میں مل جاتی تھی۔دیسی گھی سوا روپے کا ایک کلو مل جاتا تھا ۔ چینی دو پیسا کی ایک سیر مل جاتی تھی ۔ ابن بطوطہ نے ایک صحت مند اور خوبصورت لڑکی ایک دینار میں نیلام میں خریدی تھی ۔ دینار کو آج کے آٹھ روپے کہہ سکتے ہیں۔
ابن بطوطہ نے سفر نامے میں ہندوستان کے بارے میں لکھا ہے کہ ساری دنیا ہندوستان کا رخ کرتی تھی اور یہاں سے دولت سمیٹ کر لے جاتی تھی ۔ مسلمان ملکوں سے بہت سے مسلمان بھکاری بن کر یہاں آتے تھے اور بھیک مانگ کر اچھی آمدنی کما لیتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان ہمیشہ سے بھکاریوں کی جنت رہا ہے اور یہاں کے لوگ بہت مخیر اور فیاض تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بھیک مانگنے کو آج بھی بہت اچھا بزنس سمجھا جاتا ہے ۔ ابن بطوطہ کے سفر نامے کے دوسرے واقعات پھر کبھی۔

ماخوذ از:
ماخوذ: ماہنامہ 'سرگزشت' (پاکستان)، مارچ 2014 ، قسط:225

Ibn Battuta, the famous traveler. Article: Ali Sufyaan Afaqi

1 تبصرہ:

  1. علی سفیان آفاقی کی تحریر بہت دلچسپ ہوتی ہیں، یہ مضموں بھی بہت دلچسپ اور معلوماتی ہے

    جواب دیںحذف کریں