جے این یو کا ایک رنگ یہ بھی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-18

جے این یو کا ایک رنگ یہ بھی

jnu-delhi
ابھی کل عشائیہ تک ماحول بالکل معتدل تھا، میں کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں داخل ہوا، سرہانے سے تکیہ اٹھا کر بازو کے نیچے لگائی اور موبائل کی اسکرین پر انگلیاں دوڑانے لگا۔میں ابھی اس کشمکش میں مبتلا تھا کہ ماہ رمضان کا چاند نظر آیا یا نہیں؟ کہ اچانک میری نظر ایک پیغام پر پڑی جو کچھ اس طرح تھا:
”السلام علیکم۔ تمام بھائیوں کو رمضان مبارک، ماہی ہاسٹل میں تراویح کا وقت 9:45“
پیغام دیکھکر بے حد خوشی ہوئی، میں نے مزید تحقیق کرنی چاہی، تھوڑی ہی دیر میں رﺅیت ہلال کی مختلف کمیٹیوں کی جانب سے کئی لیٹر پیڈ بذریعہ واٹس اپ موصول ہو ئے جن میں چاند نظر آجانے کی تصدیق کی گئی تھی۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی ، ساڑ ھے نو بج رہے تھے،میرے پاس صرف پندرہ منٹ کا وقت تھا ، میں نے جلدی سے وضو کیا اور ماہی ہاسٹل کی طرف چل دیا، اس وقت میں یہی سوچ رہا تھا کہ مشکل سے آٹھ دس لوگ جماعت میں شریک ہونگے، یہ با ت بھی قابل غور تھی کہ ہاسٹل میں جماعت کیلئے کس جگہ کا تعین کیا جائیگا۔ آیا کسی کمرے کا یا باہردالان کا؟ لیکن جب میں ہاسٹل پہنچا تو وہاں کا منظر ہی کچھ اور تھا، دیکھتا کیا ہوں کہ ایک پورا ہال خالی کر دیا گیا ہے، جھاڑو پوچھا لگ جانے سے فرش چمک رہی ہے، شفاف دریاں بچھی ہوئیں ہیں، تقریباسات آٹھ صفیں بنی ہوئی ہیں، فضا پر امن اور ماحول اطمنان بخش ہے، نہ گانے کی گونج نہ ہنگامے کا گزر، کل تک جہاں شور و غل تھا وہیں آج سنجیدگی کا عالم ہے ، ایسا محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ یہ مسجد نہیں ہاسٹل ہے ، ہمارے لئے یہ باکل الگ منظر تھا، طبیعت خوش ہو گئی اور زبان سے بے ساختہ اصغر صاحب کا یہ شعر نکلا:
نقاب اس نے الٹ کر یہ حقیقت ہم پہ عریاں کی
یہیں پر ختم ہو جاتی ہیں بحثیں کفر و ایماں کی
میں جماعت میں شریک ہو گیا، عشاءکی نماز مکمل کرنے کے بعد جب امام نے سلام پھیرا تو میںنے پیچھے مڑکر دیکھا، ساری غلط فہمیاں دور ہو گئیں، لوگ آخری صف تک موجود تھے اور کچھ ابھی بھی چلے آ رہے تھے۔ایک حافظ تراویح پڑھانے کیلئے اور دوسرا لقمہ دینے کیلئے تیارتھا،تلاوت قرآن کی آواز آسانی سے لوگوں تک پہنچ جاے اسکے لئے مائک کا انتظام کیا گیا تھا ، ساتھ ہی ساتھ گرمی کی شدت سے بچنے کیلئے ایک دو کولر بھی لگے ہوئے تھے۔
تراویح کی نماز مکمل ہوئی، لوگ اپنے دوست و احباب کی خیریت معلوم کرنے لگے، کچھ کینٹین کی طرف چائے پینے نکل گئے اور کچھ اپنے اپنے کمروں کی طرف لوٹ گئے۔
میں نماز سے فارغ ہو کر اپنے چند احباب کے ساتھ باتیں کرنے لگا، باتوں کا سلسلہ کافی طویل اور دلچسپ رہا، وہیں معلوم ہوا کہ پورے جے این یو میں کئی ہاسٹلس میںتراویح ہو رہی ہے، اور باقاعدہ حفاظ کرام موجود ہیں۔ جے این یو جیسے ایک غیر مذہبی ادارے میں ایسا منظر یقینا حیران کن تھا۔
رات کافی دیر سے کمرے پہنچا، قریب دو بج رہے تھے، نیند اب بھی آنکھوں سے غائب تھی،ٹیبل پر خطوط غالب کا مجموعہ موجود تھا،پڑھنا شروع کیا تو وقت بجلی کی رفتارسے گزر گیا۔سحری کا الارم بجنا شروع ہوا ، میں برش کرکے میس میں پہنچا، یہاں کافی لوگ پہلے سے موجود تھے، کچھ طلبہ نظم و نسق سنبھال رہے تھے۔ سحری کیلئے بھگونے میں گرما گرم دودھ ، زردی مائل کیلے،ابلے ہوئے انڈے،اور بریڈ جام و غیرہ موجودتھے۔سحری کے بعد میس میں ہی باجماعت نماز ادا کی گئی اور لوگ اپنے اپنے کمروں میں واپس چلے گئے۔
سونے کے بعد میری آنکھ دن میں گیارہ بجے کھلی، منھ ہاتھ دھل کر میں نے اپنا بیگ تیار کیا اور لائبریری کیلئے نکل گیا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹا پڑھنے کے بعد ظہر کا وقت ہو گیا، میں غسل خانہ میں داخل ہوا، ابھی وضو بنا ہی رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی:” السلام علیکم، آپ نماز پڑھنے جا رہے ہیں؟“
وعلیکم السلام، جی ، نماز پڑھنے جا رہے ہیں (میں نے جواب دیا)
ٹھیک ہے پھر دو منٹ رکئے ،میں بھی وضو کرکے آتا ہوں‘
”جی بہتر ہے“
ابھی نماز کیلئے ہم لوگ کھڑے بھی نہیں ہوئے تھے کہ دو لوگ اور آگئے، چونکہ ہم لوگ اسکول آف لینگوئج والی عمارت میں تھے اسلئے سوال یہ تھا کی جماعت کہاں بنائی جائے،(ورنہ مرکزی لائبریری میںنماز کا باقاعدہ انتظام رہتا ہے) بالآخر دو طرفہ کمروں کے بیچ گلی میں ایک کنارے ہم لوگوں نے جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔وہاں دوسرے ڈپارٹمنٹ کے بہت سے طلبہ و طالبات آجا رہے تھے لیکن نماز پڑھتا دیکھکر وہ خاموشی سے گزر جاتے تھے۔
شام کو پانچ بجے کے بعد لائبریری سے واپسی ہوئی،اب تھکان کے آثار نمایاں تھے، تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد عصر کی نماز پڑھی اور تلاوت قرآن سے حلق تر کیا۔ اب افطار کا وقت قریب تھا، روم سے نکل کر میس میں پہنچا، ایک لمحے کیلئے ایسا لگا جیسے کسی پارٹی کی تیاریاں چل رہی ہیں، لوگ افطاری سجا رہے تھے، کوئی پکوڑیاں تقسیم کر رہا ہے کوئی فروٹ چاٹ، کسی کے ہاتھ میں شربت ہے تو کوئی کھجور اور دیگر اشیاءدستر خوان پر سجا رہا ہے۔ بڑا ہی دیدہ زیب منظر تھا ، ہر کوئی مہمان اور ہر کوئی میزبان ۔
تھا حاصل نظارہ فقط ایک تحیر
جلوے کو کہے کون کہ اب گم ہے نظر بھی (اصغر)
میں یہ دیکھ کر حیران تھا کہ میس کے کئی ورکر اور خود مینیجر بھی(جو غیر مسلم تھے) نظم و نسق میں پورے خلوص کے ساتھ شریک ہیں، طلبہ کی خوش اخلاقی بھی قابل تعریف کہ آس پاس موجود سبھی لوگوں کو دعوت دےرہے ہیں، یہاں تک کہ گارڈ کیلئے بھی تمام اشیاءخوردنی بھیج رہے ہیں، افطار کے بعد باجماعت نماز کا منظر نہایت دلکش تھا ،مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ ہر ہاسٹل میں ایک دن اسپیشل افطار کا انتظام کیا جاتا ہے جسمیںہندو مسلم تمام طلبہ کیلئے دعوت عام ہوتی ہے، اور تمام طلبہ ذوق و شوق کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔ یہ اخوت و بھائی چارگی کاوہ نمونہ ہے جو ہندوستان میں بہت کم جگہوں پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ میرے ذہن پر اس وقت جے این یو کی انفرادیت نمایاں تھی، اور اسکے سارے ثبوت میرے سامنے تھے؛

مری اک بے خودی میں سیکڑوں ہوش و خرد گم ہیں
یہاں کے ذرے ذرے میں ہے وسعت اک بیاباں کی
(اصغر)

***
فیضان الحق (جے۔این۔یو، دہلی)۔
ای-میل: faizanhaque631[@]gmail.com
فیضان الحق

Unity in diversity of JNU composite culture. Article: Faizan-ul-Haq, Delhi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں