بہت مدت سے چرچے تھے تیرے باریک بینوں میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-04

بہت مدت سے چرچے تھے تیرے باریک بینوں میں

muslim-women-march-mumbai
شہر ممبئی کی مسلم خواتین نے بقول علامہ:
نمایاں ہو کے دکھلا دیا
۔۔۔ اور وہ بھی کچھ اس طرح کہ انسان کجا ماہ و مہر و انجم بھی انکے دیدار کو ترستے رہ گئے۔ الغرض ان خواتین نے لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر پر امن احتجاج درج کیا اور اپنی دینی حمیت و غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ہندوستان کی سرکار کو باور کرایا کہ مسلم خواتین کے نام پر شریعت محمدی سے کھیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، اور یہ بھی کہ مسلم پرسنل لا میں دخل اندازی انہیں قابل قبول نہیں، اور نہ ہی انکے حقوق کے تحفظ کے لئے یکساں سول کوڈ کی کوئی ضرورت ہے۔
13 مارچ سن 2018 اس لئے بھی تاریخی دن ہے کہ مسلم خواتین نے کئی مثالیں قائم کیں اور جن میں سب سے اول مکمل نظم و ضبط کے تحت پر امن احتجاج درج کر اسلامی اقدار اور جمہوری اقدار میں مناسبت کو آشکار کرایا، اور مسلک و مذہب سے بڑھ کر قوم و ملت کے اتحاد کا ایک ایسا مظاہرہ کیا جسے دیکھنے کے لئے صدیوں سے آسمان بے قرار تھا۔ ان مسلم خواتین نے بلا کسی چیخ پکار اور سینہ کوبی کے یہ بھی بتایا کہ اسلام نے خواتین کو بے بس و مجبور نہیں کر رکھا ہے اور نہ ہی انہیں پردے میں قید کر کے رکھا گیا ہے، انہیں اسلام نے احتجاج کرنے کی مکمل آزادی دے رکھی ہے اور کوئی مرد کجا کوئی حکومت بھی انہیں اس سے روک نہیں سکتی۔

خواتین کا مذکورہ اجتماع ممبئی میں جمیت العلماء ہند کے توسط سے عمل میں آیا تھا جنہوں نے اتحاد و اتفاق کی مثال قائم کر قوم و ملت کو یہ احساس بھی دلایا کہ:
نہ رہ اپنوں سے بے پرواہ، اسی میں خیر ہے تیری۔
گر چہ جمیت العلماء ہند اور مسلم پرسنل بورڈ کو ابھی قوم و ملت کے لئے بہت کچھ کرنا باقی ہے ، جس میں اولا تو جدید علوم اور ٹیکنالوجی پر دسترس رکھنے والے عالم اور دانشور خواتین و حضرات کو اپنے ادارے میں جگہ دینی ہوگی، اور دوم یہ کہ ذرا ئع ابلاغ کے موثر استعمال کی حکمت عملی بنانی ہونگی۔
جہاں تک ٹیکنالوجی کے استعمال کی بات ہے تو راقم الحروف نے ایک جامع اور قابل نفاذ کمپیوٹر پروگرام کا مسودہ بہ زیر عنوان:
(Indian Muslim Contact Management System)
منتظمین اعلی کی خدمت میں پیش بھی کیا تھا لیکن کسی وجہ سے اب تک عمل درآمد نہ کیا جا سکا ۔ اس پروگرام کی خاصیت یہ تھی کہ جمیت العلماء ہند اور پرسنل بورڈ کے زیر نگرانی کروڑوں مسلمانوں کے رابطہ کو ایک مرکز کے تحت لاکر دینی، سماجی، معاشی، سیاسی مسائل پیش کئے جاسکتے تھے۔ بلکہ وقتا فوقتا کروڑوں روپیوں کی امداد کے حصول کو شفافیت کے ساتھ آسان بنایا جاسکتا ہے۔ خاصکر جبکہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد مسلمانوں کے رابطہ کی تفصیل حالیہ دنوں میں حاصل بھی کی جا چکی ہے، اور جسکی قیمت و اہمیت مذکورہ مسودہ میں درج کی گئی ہے۔

الغرض ایسے ہی کئی پروگرام ہیں جنہیں ان موقر اداروں میں متعارف کرانے کی بے حد ضرورت ہے۔ مسلم اہل فکر و قلم اور اہل خبر و نظر کو ایسے مواقعوں پر حکمت عملی کے ساتھ تعاون کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔
نام نہاد "مین اسٹریم میڈیا" ایسے واقعات کو ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں کیا گوشوں میں بھی جگہ نہیں دیتا ۔ مذکورہ واقعہ سے ہندوستانی میڈیا خاصکر "مین اسٹریم میڈیا" نے جس طرح سے نظریں چرائی ہیں محسوس ہوتا ہے انہیں آزادی نسواں، حقوق نسواں اور جمہوری اقدار کی اسقدر پرواہ نہیں ہے جتنا وہ عوام کو جتاتے ہیں، یا شاید مسلم خواتین کے اس عظیم الشان پر امن احتجاج سے سرمایہ داری، صارفیت اور مادیت پرستی کو کوئی فایدہ ہوتا نظر نہیں آیا انہیں ، اور نہ ہی ٹی وی میڈیا کی ٹی آر پی ریٹنگ کو۔
"مین اسٹریم میڈیا" کو ویسے تو بڑا دعوی ہے سچائی کو تلاش کر کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ، اور انسانی حقوق ہو یا حقوق نسواں و حیواں سب کے لئے بے دریغ کود پڑ نے کا ۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ انہیں صرف ان خواتین کے حقوق کا احساس ہے جو ماڈرن کہلاتی ہیں اور گریباں چاک کر احتجاج درج کرسکتی ہیں تاکہ انکی ٹی آر پی ریٹنگ کو رفتار دے سکے۔
بے چاری ٹی وی صحافت۔۔۔ سچائی برہنہ کرنے چلی تھی۔۔۔ صحافت خود بھی ننگی ہو گئی – یا اگر کسی سازش کے تحت مسلمانوں کے احتجاج میں پولیس کے ساتھ مڈ بھیڑ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہو تو "مین اسٹریم میڈیا" بے حد فعال نظر آتاہے ۔

الغرض مسلمانوں کے ایسے پر امن احتجاج اور نظم و نسق کے پابند جلسوں اور جلوسوں کو موثر طریقہ سے عوام الناس اور حکومتوں تک پہنچانا بے حد ضروری واقع ہوا ہے، خاصکر موجودہ حالات کے تناظر میں ۔ اب ایسے مواقعوں پر کچھ بات اہل فکر و قلم و ادب کی بھی کہ : آج کچھ درد سا اس دل میں سوا ہوتا ہے۔
پتا نہیں ان حضرات کی اکثریت یوں تو ملا اور مولویوں کی کوتاہیوں پر خوب خامہ فرسائی کرتی رہتی ہے، اور خواتین کے حقوق پر لب کشائی بھی بطور فرض کفایہ ادا کرتی رہتی ہے، لیکن مذکورہ واقعات پر قلم اٹھانے سے گریز پا ہے ، ورنہ اپنے مرحوم اکابرین کی بے سر و پا باتوں پر قصیدہ خوانی اور جھوٹی عقیدت کی فاتحہ خوانی کے لئے ان حضرات کا قلم ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ ان میں جو دین بیزار ہیں انکی مجبوری تو پھر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ بے چارے عہد طفلی سے ہی پابندیوں کی مخالفت میں باغی ہو گئے تھے، اور عمر دراز ہوتے ہوتے آزاد خیالی میں یوں قید ہو ئے کہ اب موت ہی انہیں اس ذہنی قید سے آزادی دلا سکتی ہے ، اور بلآخر دیندار ملا کے ہاتھوں ہی انکی تجہیر و تکفین ممکن ہوگی، لیکن خود کو ، سمجھدار، روادار، دیندار اور خبردار کہلانے والوں کو کیا ہوا ہے ۔ اب انکے متعلق کیا کہیے گا جو خواتین کے اس پر امن احتجاج میں کیڑے نکالنے اور شریعت اور اسلام کے متعلق بے تکی دلیلیں پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔
شریعت کے قانون کو کسی فلم کی "اسکرپٹ" سمجھ کر تبصرہ و تنقید کرنے کے لئے کمر کس کر اپنے پرائے اکھاڑوں میں کود پڑتے ہیں۔ انہیں حکومت کی نیت میں کوئی فتور نظر نہیں آتا ، مسلمانوں کے خلاف اقدامات میں کوئی سازش نظر نہیں آتی ، جبکہ کیا اہل دانش، اور کیا اہل فکر و قلم اور کیا اہل خبر و نظر، کیا غریب و امیر اور کیا تعلیم یافتہ اور جاہل، آج ہر کوئی موجودہ سرکاروں اور اہل اقتدار کے ہاتھوں بے بس و مجبور اور پریشان حال نظر آتا ہے۔

***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

Muslim women march in mumbai. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں