امت کے علماء اور فضلاء - دینی مدارس سے فارغ التحصیل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-18

امت کے علماء اور فضلاء - دینی مدارس سے فارغ التحصیل

muslim-scholars-clerics
برصغیر پاکستان و ہند میں طویل عرصہ سے دو قسم کے نظام تعلیم جاری ہیں۔ ایک دینی نظام تعلیم جو علماء کے زیر انتظام اور سر پرستی میں چلتا ہے جب کہ دوسرا مروجہ نظام تعلیم ہے جس کو حکومت کی سر پرستی اور اس کے وسائل حاصل ہیں۔ دینی نظام تعلیم کا مقصد دین و شریعت کے اصول و فروع کا علم حاصل کرنا ہے اور مروجہ نظام تعلیم کا مقصد دنیوی امور، روزگار کا حصول، صنعت و حرفت اور کاروبار حکومت چلانا ہے ۔ دونوں نظام ہائے تعلیم اپنے اپنے مقاصد کے لئے کوشاں ہیں۔ دونوں میں فوائد کے پہلو موجود ہیں لیکن ان میں توازن مفقود ہے ۔
بدقسمتی سے جدید نظام تعلیم کو خدا پرستی سے بیگانہ کردیا گیا ہے اور اس کا مقصد محض دنیوی مفادات کا حصول قرار دیا گیا ہے ۔ تعلیم کا مقصد محض دنیوی زندگی اور عیش کوشی قرار دیا گیا اور اخلاقی اقدار سے اسے محروم کردیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا ظلم و فساد سے بھر گئی اور عدل و انصاف ناپید ہوتا گیا ۔ آج جسے ہم دینی تعلیم کہتے ہیں وہ انپے عروج کے زمانے میں علوم عقلیہ سے بھی بہرہ مند تھا اور دنیوی ضروریات کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاتا تھا ۔ اس نظام تعلیم میں دین و دنیا کا امتزاج موجود تھا۔ بر صغیر پاکستان و ہند میں دونوں نظام ہائے تعلیم گزشتہ تقریباً دو سو سال سے جاری ہیں۔ دینی نظام تعلیم اسلامی تاریخ کے آغاز سے چلا آرہا ہے ۔ اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ عہد نبوی ﷺ ، عہد صحابہؓ، عہد تابعینؒ ، عہد تبع تابعین ؒ اور فقہاء کے دور سے جاری ہے۔ قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم کی ابتداء مسجد نبوی ﷺ میں صفہ کی درسگاہ سے شروع ہوئی اور پھر محدثین اور فقہاء کی خدمات اس نظام تعلیم کو حاصل ہوئیں۔ آغاز میں قرآن، حدیث اور فقہی مسائل ہی اس نظام تعلیم کا خاصہ تھے لیکن امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ عجم کے غیر اسلامی نظریات سے سابقہ پیش آیا۔ معتزلہ اور خوارج اور دیگر بد عتی فرقوں نے اسلامی عقائد کے اندر کج روی پیدا کی، یونانی اور عقلی فلسفوں کا اوھم برپا ہوا ، قرآن کو مخلوق کہا گیا اور سنت کی حجیت کو تسلیم نہ کئے جانے کی وجہ سے محدثین اور فقہاء کو علمی دنیا میں ایک جہاد عظیم برپا کرنا پڑا ۔ اہل سنت کے مکاتب وجود میں آئے ، مالکی، حنفی، شافعی، اور حنبلی اور اہلحدیث کے علماء نے کتاب و سنت کو مرجع اور ماخذ قرار دیا۔ اگرچہ ان میں فروعی اختلافات باقی رہے لیکن اصولاً ان تمام مکاتب فکر کا مرجع کتاب و سنت ہی رہا ۔ اس چیز نے ملت مسلمہ میں اتحاد فکر و عمل کو قائم رکھا۔ فروعی اختلافات نے تفرقہ بازی کے بجائے علمی تحقیق کا دروازہ کھول دیا جس سے ہر زمانے کے لئے صحیح ہدایت او ر رہنمائی حاصل رہی۔ زمانے کی ہر کروٹ کے لئے کتاب و سنت کے طریق کار پر عمل کرنا آسان ہوگیا ۔ یہ شریعت کے توسع کے باعث ہوا ۔ آج ملت اسلامیہ کے لئے کتاب و سنت کی شاہراہ امت مسلمہ کو صراط مستقیم پر قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کے مقابلہ میں اہل مغرب کی غلامی کے دور میں دینی نظام تعلیم کے اندر مغربی نظریات اور سیکولر افکار کو رائج کیا گیا۔ اہل مغرب اسلامی تسلط کو قائم رکھنے کی کوشش میں لگ گئے ۔ کتاب و سنت کی گیرائی اور کشش کو محسوس کرکے مسلمانوں کو اپنی نظراتی اساس سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگے ۔ اس کے لئے انہوں نے عربی زبان کی اہمیت کو کم کیا اور انگریزی زبان کو مسلط کیا ۔ کتاب و سنت کی تعلیم کو دقیانوسی اور قدامت پسندانہ قرا ر دیا۔ مسلمانوں کے بنیادی عقائد سے انہیں ہٹانے کے لئے مغربی فلسفوں کو فروغ دیا اور لادینی اور سیکولر ازم کو دنیاوی عروج کا ذریعہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔ سیاسی اور معاشی تسلط کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر سے اپنے آلہ کار تلاش کئے اور مسلمانوں کو اسلامی عقائد، سیاست ، معیشت ، تہذیب اور معاشرتسے بیگانہ بنانے کے لئے ایک نیا نظام تعلیم مسلط کردیا۔
امت مسلمہ کو اپنے حقیقی محور پر قائم رکھنے کے لئے جن ہستیوں نے علم و فکر کے چراغ روشن کئے ان سب میں نمایاں حیثیت ائمہ اربعہ کو حاصل ہے ۔ انہوں نے اپنے مستقرکی جامع مساجد کو تعلیمی مراکز بنایا۔ امام مالک ؒ نے مسجد نبوی ، امام ابو حنیفہؒ نے کوفہ، امام شافعیؒ نے جامع فسطاط( مصر) اور امام احمد بن حنبلؒ نے بغداد کو اپنا تدریسی مرکز قرا ر دیا۔ اس کے بعد عالم اسلام کے تمام بڑے شہروں میں مدارس کھلتے چلے گئے ۔ ان مدارس میں علم وحی و کتاب و سنت کے علاوہ علوم عقلیہ، منطق، فلسفہ، فلکیات، طبیعات اور علم طب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ان مدارس سے امام غزالیؒ ، امام رازیؒ جیسے متکلمین اور آشنائے حقیقت اسلام پید اہوئے ۔ ابن جریرؒ ، طبریؒ، ابن اثیرؒ جیسے مورخین اور اہل علم پیدا ہوئے ۔ ابن سینا، ابن خلدون ، ابن خلقان، خوارزمی، البیرونی اور ابن بطوطہ جیسے افراد عالم بن کر نکلے۔ ابن تیمیہؒ، ابن قیمؒ مجددالف ثانیؒ اور شاہ ولی اللہ جیسے مجددین فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کے علاوہ صرف و نحو اور لغت کے ماہرین پیدا ہوئے ۔ عربی انشاء اور ادب کو فروغ حاصل ہوا۔
دینی درسگاہیں نظریہ پاکستان اور پاکستان کے استحکام کو اپنا ایمان سمجھتی ہیں اور دینی اقدار کے خلاف ہر فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہتی ہیں ۔ اگر اس ملک میں صالح اور اہل قیادت میسر آجائے تو پھر دینی مدارس اور مروجہ مدارس میں یکساں تعلیمی نظام نافذ کرنے کے علاوہ تعلیم کی تمام فیکلٹیوں میں دین کی روح دوڑائی جاسکتی ہے ۔ اسلام میڈیکل، انجینئرنگ ، کمپیوٹر اور کامرس کی تعلیم کو اعلی منازل تک پہنچانے کا داعیہ رکھتا ہے ۔ اسلام اپنی اخلاقی ، روحانی اور مادی قوت کے ذریعے ہی اپنے مقاصد حاصل کرسکتا ہے ۔ دینی نظام تعلیم کے ادارے آج صرف دینی تعلیم تک محدود نہیں بلکہ مروجہ تعلیم کے امتحانات، یعنی ایف اے ، بی اے اور ایم اے تک پرائیویٹ طور پر پاس کراتے ہیں اور وہاں کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جاتی ہے جب کہ وسائل حاصل ہونے پر دیگر فیکلٹیز کی تعلیم پر بھی سوچا جاسکتا ہے ۔ اس طرح دینی مدارس کی تعلیم مروجہ تعلیم سے زیادہ جامع صورت میں آگے بڑھ سکتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی تعلیم کے خلاف تعصبات کو ختم کیاجائے اور ان کے فروغ کے لئے مشترکہ جدو جہد کی جائے ۔
دینی مدارس کا مسئلہ آج کل بعض وجوہ سے بہت اہم ہوگیا ہے۔ جو لوگ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ان مدارس کی وجہ سے امت افتراق کا شکار ہوگئی ہے وہ یا تو غلط فہمی کا شکار ہیں یا دینی مدارس کے بارے میں نہایت معاندانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حقیقت میں دینی مدارس امت کے اندر اتفاق و اتحاد اور پاکستان کے اندر اس کے مقاصد کو بیدار کرنے کا نہایت موثر ذریعہ ہیں۔
ان مدارس کی اہمیت کو اس طرح سمجھاجاسکتا ہے کہ قائد اعظمؒ کی زندگی میں1940ء میں جب کہ ہندوستان میں مسلم لیگ کا طوطی بول رہا تھا ارباب لیگ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جس اسلامی حکومت اور پاکستان کا مطالبہ شدومد سے کیاجارہا ہے تو اس کا ایک نظام نامہ یا قانونی اسلامی اساس کو بھی خالص اسلامی بنایاجانا چاہئے ۔ اس موقع پر مسلم لیگ کی یوپی میں ایک چھوٹی سی مجلس ایسے ارکان کی مقرر کردی جو ان کے خیال میں شریعت کے ماہرین پر مشتمل تھی تاکہ وہ اسلامی نظام کا ایسا نقشہ مرتب کردے اور اسے مسلم لیگ کے سامنے پیش کرے ۔ اس مجلس کے نمایاں افراد میں مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ، مولانا سید سلیمان ندویؒ، مولانا عبدالماجد دریآبادیؒ او رمولانا محمد اسحاق سندیلویؒ شامل تھے ۔ یہ تمام حضرات ہندوستان کی مشہور دینی درسگاہوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان درسگاہوں کے اساتذہ اور طلبا نے پاکستان کے قیام کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بیشمار متوسلین نے بھی پاکستان کے حق میں اپنی آواز بلند کی ۔ ان کے علاوہ مختلف صوبوں کے مدارس سے بھی یہ آواز بلند ہوئی اور جمعیت علمائے ہند کے علماء جو کانگریس کے ہمنوا تھے ان کا پاکستان کے حامی علماء نے زوروشور کے ساتھ مقابلہ کیا اور آخر کار پاکستان کی تحریک کو کامیاب بنایا پھر پاکستان کے حامی علماء کا یہی وہ گروہ ہے جنہوں نے بڑے بڑے دارالعلوم قائم کئے اور اپنے طلبہ اور اساتذہ کے ذریعے آج تک تمام لا دینی نظریات کا مقابلہ کررہے ہیں۔ دینی مدارس کا مخالف ایک دوسرا طبقہ ہے جو تحریک پاکستان کے آغاز ہی سے روس سے آئی ہوئی افتراقی تحریک سے متاثر تھا۔ یہ تحریک ایک لا دینی اور غیر مذہبی تحریک تھی ۔ اس تحریک کے نزدیک خدا ، رسول، آخرت اور دینی نظریات بے معنی تھے ۔ یہ سرمایہ داروں اور مزدوروں کو آپس میں الجھا کر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی تھی ۔ اس کے نزدیک ظلم اور عدل کے کوئی اصول نہ تھے ۔ اس کے ہاں کوئی اخلاقی اقدار نہ تھی شرم و حیا اور عفت و عظمت کے اقدار سے عاری تھے ۔ ان لوگوں نے مسلمانوں میں سے بعض کو شکار کیا اور دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز کیا۔
ایک اور طبقہ جو دینی مدارس کے خلاف عناد میں مبتلا ہے وہ قادیانیوں کا ہے ۔ یہ لوگ غلبہ اسلام اور جہاد اور ختم نبوت کے منکر ہیں۔ یہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے ۔ یہ اس لئے بویا گیا تھا کہ وہ انگریزوں کا آلہ کار بن جائے اور اس استعمار کے قائم کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کا ذریعہ بن جائے اور اس لئے اس طبقے نے دینی مدارس کی کھل کر مخالفت کی، قرآن کو اپنے خصوصی معنی پہنائے اور جہاد کو حرام قرار دیا۔
مندرجہ بالا حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ دینی مدارس کے مخالف وہ طبقات ہیں جو نظریۂ پاکستان کے سراسر مخالف ہیں اور ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں ۔ آج کل کے دور میں مختلف اسلامی طب قات خواہ وہ سنی ہوں یا شیعہ ، بریلوی ہوں یا دیوبندی، اہل حدیث ہوں یا ظاہری سب کے سب اسلامی نظام کے قیام پر متفق ہیں ۔ ہر طبقے کے چوٹی کے علماء نے اس پر اتفاق کیا ہے۔ حکومت دینی مدارس کی مخالفت اس لئے کرتی ہے کہ وہ اسلامی نظام کو اس ملک میں نافذ نہیں کرنا چاہتی ۔ وہ مغربیت پر ایمان لاچکی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک کی تہذیب سے مرعو ب ہے اور اسلامی تہذیب کو اس ملک سے ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ ہمارے ملک کی تمام پالیسیوں میں امریکہ کی تقلید کی جاتی ہے اور اس کی حمایت میں ہراول دستہ قائم کررہی ہے ۔
یہ بات سو فیصد غلط ہے کہ دینی مدارس انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ کسی ایسے مدرسے کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی کہ جس میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جاتی ہو۔ ان مدارس نے عدل و انصاف ، کتاب و سنت کی پابندی اور امت مسلمہ کو شہادت حق اور امت مسلمہ کی سر بلندی کا درس دیا ہے ۔ دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں بعض تبدیلیاں نا گزیر ہیں اگرچہ بنیادی طور پر قرآن و حدیث اور فقہ اور عربی زبان کو تبدیل نہیں کیاجاسکتا البتہ ان کی بہتر سے بہتر تعلیم کے لئے عہد حاضر کے طریقہ تعلیم اور تحقیق سے استفادہ کیاجاسکتا ہے ۔ اگر وسائل اجازت دیں تو ان مدارس میں نئے مضامین مثلاً سیاسیات ، معاشیات ، قانون اور کمپیوٹر ، علم کیمیا ، طبعیات ، ریاضی اور علم طب وغیرہ مروج کئے جاسکتے ہیں اور یہ اس دور کی ناگزیر ضرورت بھی ہیں۔ ابتداء میں ان درسگاہوں میں دینی تعلیم کے علاوہ دیگر دنیاوی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے اور آج بھی پڑھائے جاسکتے ہیں اور موجودہ دور میں ان نئے مضامین کا دینی مدارس میں متعارف کرانا اور بھی ضروری ہے ۔

ماخوذ از:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ)۔ دینی سپلیمنٹ "روشنی" (21/نومبر 2008)

Scholars & Clerics of Muslim ummah, graduates of madrasas. Article: Maulana Fath Mohammad

1 تبصرہ:

  1. Recently, I happened to see one advertisement while browsing. To my surprise the text of the advertisement (about a congression) is the same as we see today as "Halaat-hazera" par Jalsa!

    جواب دیںحذف کریں