شادی کے مسائل کا حل - ایک مجوزہ ماڈل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-20

شادی کے مسائل کا حل - ایک مجوزہ ماڈل

muslim-marriage-proposals
سوال کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو ہم آئیڈیئلائز کرتے ہیں، ہمیں ان کی اتباع کا حکم ہے لیکن انہیں دین کے معاملے میں جو سہولیات حاصل تھیں، وہ ہمیں حاصل نہیں ہیں لیکن ہم سے دین کے تقاضے ویسے ہی ہیں جیسا کہ ان سے تھے۔ مثلا انہیں عرصہ دراز تک متعہ یعنی وقتی نکاح کی سہولیت میسر رہی۔ پھر انہیں لونڈیوں کی سہولت حاصل تھی جو ہمیں حاصل نہیں ہے۔ تو آج جبکہ معاشرہ ان کے معاشرے سے حد درجہ خراب ہے تو ایسے میں ایک نوجوان سے تقاضا ویسا ہی ہے کہ اپنے آپ کو زنا اور بے حیائی کے کاموں سے بچائے لیکن سہولت ان جیسی میسر نہیں ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ماحول بہت خراب ہو چکا ہے، معاشرہ اخلاقی زوال کی انتہاء کو پہنچ چکا۔ تعلیمی اداروں کی صورت حال یہ ہے کہ 80 فی صد لڑکا اور لڑکی آپس میں کسی نہ کسی درجہ میں انوالو ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق لاہور کے کالجز اور یونیورسٹیز میں 57 فی صد بچہ ڈرگ ایڈکشن میں مبتلا ہے اور زیادہ الارمنگ سچوئیشن یہ ہے کہ ان میں 43 فی صد لڑکیاں ہیں۔ لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی کے ذمہ دار نے بتلایا کہ ان کی ریسرچ اس موضوع پر تھی کہ وین ڈرائیورز اور گھر کے ملازمین کس طرح بچوں اور بچیوں کو غلط رستے پر لے جاتے ہیں اور نتائج حیران کن حد تک خطرناک ہیں۔

دوسری طرف والدین کی بے حسی دیکھیں تو میرے پاس ایسے اسٹوڈنٹ آتے ہیں کہ گھر میں چار چار گاڑیاں کھڑی ہیں اور والد سے اصرار کر رہے ہیں کہ ہماری شادی کر دو اور وہ نہیں کر رہے کہ ابھی شادی کی عمر نہیں ہے۔ بھئی، اگر اس کی شادی کی عمر نہیں ہے تو اس عمر میں بالغ کیسے ہو گیا؟ بلوغت بتلا رہی ہے کہ اب اس کی شادی کی عمر ہو گئی ہے، ذرا اس طرف بھی توجہ کرو۔ تو کرنے کے دو کام ہیں؛ ایک تو اول عمر میں نکاح کیا جائے، 16 اور 18 سال کی عمر میں کہ کم عمر میں جو ریلیشن شپ قائم ہوتا ہے، وہ زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ دوسرا نکاح کو آسان کیا جائے۔ جہیز اور دیگر رسومات کی لعنت کو ختم کیا جائے۔ مسجد میں سادگی سے نکاح ہو کہ لڑکی والوں پر کھانے کا بوجھ نہ آئے اور اگلے دن سادگی سے ولیمہ ہو جائے۔

اگر آج کے نوجوان کو زنا اور بدکاری سے بچانا چاہتے ہیں تو حل یہی ہے کہ لڑکا یا لڑکی جب یونیورسٹی جوائن کریں تو ان کا نکاح ہو چکا ہو۔ اس معاشرے میں والدین کو اس عمر میں شادی پر راضی کرنا تقریبا ناممکن ہے لہذا پہلے مرحلے میں نکاح کر لیا جائے اور رخصتی کو گریجویشن کے بعد تک کے لیے موخر کر دیا جائے۔ اور یہ نکاح چوری چھپے کا نہ ہو بلکہ اس کا اعلان عام لازم ہو۔ اب چار سالہ تعلیم کے دوران وہ کم از کم یکسو تو رہیں گے کہ ہم ایک دوسرے کے ہیں۔ ابھی تو صورت حال یہ ہے کہ سب اس کی ہیں اور وہ سب کا ہے۔ تو نوجوان کم از کم نکاح کے لیے اپنے والدین کو راضی کر لیں، یہ اس کے لیے نسبتا آسان ہدف ہے۔

نکاح کے بعد اگر وہ چٹ چیٹ کرتے ہیں تو بھئی، اس زمانے اور ماحول میں اگر یہ بھی نہ کریں گے تو ذہنی مریض بن جائیں گے۔ اسی کے لیے تو یہ حل تجویز کیا ہے کہ ان کی تنہائی دور ہو۔ البتہ اس میں یہ شرط لگائی جا سکتی ہے کہ بچے اگر تمہاری گریجویشن سے پہلے لڑکی پریگنینٹ ہو گئی تو اس دن سے اس کا نان نفقہ بھی تم پر لازم ہو جائے گا اور اس کی رخصتی بھی۔ اور قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق [ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ] ترجمہ: اس کی اجازت تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے کہ جو مشقت میں پڑ جانے کے اندیشے میں مبتلا ہوں۔ ایسے نکاح کی صورت میں دونوں کو رخصتی سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد بھی ملے گی۔

فیس بک کے بالا مضمون پر ایک کرم فرما ڈاکٹر محی الدین غازی کی تاثراتی تحریر بھی ارسال کی گئی ہے۔ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
محبت ہو جائے تو کیا کریں؟؟
از قلم: محی الدین غازی

جب اسکولوں میں تعلیم اتنی مخلوط نہیں ہوتی تھی، اور سماج میں بے پردگی اس قدر عام نہیں تھی، تب بھی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے معاشقہ کے واقعات پیش آیا کرتے تھے، البتہ اس زمانے میں معاشقہ کرنے کے لئے بڑے جوکھم اٹھانے پڑتے تھے، اور شادی آسانی سے ہوجایا کرتی تھی۔ اب تو معاشقہ کرنا بہت آسان ہوگیا ہے اور شادی کرنا ایک پہاڑ جیسا کام لگتا ہے۔ پہلے محبت رچانے کے کبھی کبھی واقعات پیش آتے تھے، مگر اب تو خاص طور سے تعلیمی اداروں کا پورا ماحول اسی رنگ میں ڈھلتا جارہا ہے۔

ایسے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ نئے زمانے کے نوجوانوں سے اس موضوع پر کھل کر سنجیدہ گفتگو کی جائے۔

اس میں شک نہیں کہ اسلام کی نظر میں مثالی اور قابل رشک نوجوان تو وہی ہے جس کی جوانی بے داغ ہو، جس کی شخصیت کی عمارت کی کرسی اتنی اونچی ہو کہ گندگی کا سیلاب کتنا ہی طلاطم خیز ہو مگر اس کی چوکھٹ تک نہ پہونچ سکے، اور اس کی دیواروں میں ایمان کی ایسی مضبوطی ہو کہ شیطان اس میں رخنہ اندازی نہ کرسکے۔ جس کی نگاہ نیچی رہے اور ذوق نگاہ بہت اونچا ہو، جو اپنی جوانی اس طرح گزارے کہ گویا قیامت کے دن عرش کے سائے میں جگہ ڈھونڈ رہا ہو، اور جس کی سیرت اتنی پاکیزہ ہو کہ جنت کی پاک حوریں اس کا بیتابی سے انتظار کریں۔

تاہم اگر کوئی نوجوان غفلت کے نتیجہ میں کسی معاشقہ میں پھنس جائے، تو اس کے سامنے تین راستے ہوتے ہیں، یا تو وہ اسی راستے پر آگے بڑھتا چلا جائے، ایسی صورت میں اس کا ہر قدم اللہ کو ناراض کرنے والا ہوگا، یہاں تک کہ وہ گناہوں کی گہری کھائی میں جاگرے گا۔ اور گناہوں کی لذت اسے اللہ کے غضب سے قریب کرتی رہے گی۔ اور جو ایک بار شیطان کے بہکاوے میں آجاتا ہے، وہ پھر بہکتا ہی چلا جاتا ہے، اور کبھی تو اس دنیا ہی میں بڑے دردناک انجام سے دوچار ہوتا ہے۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھال لے، کسی کی محبت نے اگر دل میں گھر کرلیا ہے، تو اس احساس کو دل میں ہی رہنے دے، اور اس راہ میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھائے، اور اللہ سے دعا کرے کہ اس کے دل میں جو محبت آ بسی ہے، وہ ایک پاکیزہ رشتے میں تبدیل ہوجائے۔ دراصل محبت کا ایک تو دل میں بس جانا ہے، اس پر تو انسان کا زیادہ اختیار نہیں ہوتا ہے، اور ایک محبت کے اعمال وافعال کا ظاہر ہونا ہے، یہ انسان کے بس میں ہوتا ہے، اور انسان جب چاہے اپنے آپ کو اس سے روک سکتا ہے۔ یہ کام ذرا مشکل تو ہوتا ہے، لیکن اللہ کی ناراضگی سے بچنے کے لئے مشکل کام بھی تو کرنا پڑتے ہیں۔

تیسرا راستہ یہ ہے کہ معاشقہ کو فورا نکاح کے پاکیزہ رشتے میں تبدیل کردیا جائے، یہ توبہ کرنے کا اور گناہوں سے بچنے کا ایک مناسب طریقہ ہے۔ لیکن یہ مشورہ بہت سے لوگوں کو عجیب سا لگتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایسے لڑکے کی شادی کیسے ہوسکتی ہے جو ابھی پڑھ رہا ہے، اور کمانے کی عمر سے برسوں کی دوری پر ہے، جو خود اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوا وہ خاندان کا سربراہ کیسے بنے گا؟؟؟ لیکن یہ سارے خدشات اس بڑے نقصان کے مقابلے میں ہیچ ہوجاتے ہیں، جو گناہوں کے راستے پر چلنے میں ہے۔ افسوس کہ بڑے لوگ شادی کرنے کے لئے ہزار شرطوں اور معیاروں کا خیال کرتے ہیں، جبکہ بچے معاشقہ کرتے وقت کسی بات کا خیال نہیں کرتے۔

سرپرستوں کو اس مرحلے میں آگے بڑھ کراپنی اولاد کی مدد کرنا چاہئے۔ یہ سوچنے کے بجائے کہ اولاد نے کس کو پسند کیا، ان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ ان کی اولاد تباہی کے کنارے جا کھڑی ہوئی ہے، اور ذرا سی دیر ہونے کی صورت میں وہ اور ان کی اولاد خدا کی نظر میں ناپسندیدہ نہ ہوجائیں۔ والدین کی پسند اور ناپسند کی اہمیت اس وقت تک ہے جب تک اولاد نے خود کچھ نہ پسند کیا ہو، لیکن جب اولاد پسند کے مرحلے سے آگے بڑھ جائے تو والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کے افسانہ محبت کو جلد از جلد شادی کے خوب صورت انجام تک پہونچادیں، اس سے پہلے کہ ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور والدین اپنے تساہل کی وجہ سے شریک گناہ قرار پاجائیں۔

اگر وہ یہ نہیں چاہتے کہ باقاعدہ ازدواجی زندگی اس طالب علمانہ عمر میں شروع کی جائے تو وہ صرف شرعی نکاح پر اکتفا کرسکتے ہیں، اور رخصتی کے لئے کسی مناسب وقت کو طے کرسکتے ہیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس نکاح کے بعد ان کا اظہار محبت شریعت کی رو سے حلال ہوجائے گا، اور جو کام اب تک گناہ تھا وہ عبادت اور کار ثواب بن جائے گا۔ یہ فائدہ بھی بہت بڑا فائدہ ہے۔

یمن کے مشہور عالم شیخ عبدالمجید زندانی تقریبا دس سال پہلے یوروپ کے دورہ پر گئےتھے، لوگوں نے وہاں کے مسلمان طلبہ وطالبات کے بگاڑ اور حالت زار کا ذکر کیا، انہوں نے خاصے غوروخوض کے بعد یہ تجویز دی کہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی بہترین ایمانی تربیت کی ذمہ داری قبول کریں، اس کے باوجود اگر ایسا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو جن لڑکوں اور لڑکیوں میں معاشقہ ہوگیا ہے ان دونوں کے سرپرست حضرات مل کر ان کا شرعی نکاح کرادیں، رخصتی کو مناسب وقت کے لئے موخر کردیں، اور ایک خاص عمر تک کفالت کی ذمہ داری لڑکے پر ڈالنے کے بجائے دونوں کے سرپرست نباہ لیں۔

مغربی لائف اسٹائل نے جس طرح ہمارے ملک کے تہذیبی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے، میں سمجھتا ہوں یہ تجویز یہاں بھی قابل عمل ہوسکتی ہے، نئی نسل کو گناہوں سے بچانے کے لئے۔ اس سلسلے میں عام معاشرہ کو بھی معاون ومددگار بننا ہوگا۔ ہمارے معاشرہ میں جو معاشقہ میں پڑنے کے بعد شادی کرلیتا ہے وہ زیادہ بڑا گناہ گار سمجھا جاتا ہے، اور جو معاشقہ کے نام پر لڑکی کو دھوکہ دیتا ہے اور مطلب براری کے بعد فرار ہوجاتا ہے اسے لوگ نظر انداز کردیتے ہیں۔

(اس موضوع سے جڑے ہوئے اور بھی پیچیدہ سوالات ہیں جن پر آئندہ گفتگو کی جائے گی۔)

***
اسسٹنٹ پروفیسر، کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور
mzubair[@]ciitlahore.edu.pk
فیس بک : Hm Zubair
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

The solution to marriage problems, a proposed model. Article: Dr. Hafiz Md. Zubair

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں