موسم گرما - عبرت و موعظت کے چند پہلو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-09

موسم گرما - عبرت و موعظت کے چند پہلو

summer-season
موسمِ گرما کی آمد آمد ہے ، لوگ گرمی کی شدت اور تمازت سے بچاؤ کے لئے سامان کرنے لگے ہیں، ابتداء تو شدت گرمی اور تمازت کی صورت حال کچھ زیادہ اور بھیانک نہیں ہوتی، موسم آگے بڑھتا ہے تو دھوپ کی تمازت اور گرمی شدت اور اور لو اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اسکولوں کو تعطیلات دی جاتی ہیں، عین دوپہر کے وقت شہر کی سڑکیں خصوصا ویران وسنسان اور انسانوں کی چہل پہل سے عاری نظر آتی ہیں،لوگ بڑے محتاط ہو کر گھر سے نکلتے ہیں، اگر نکلتے بھی ہیں تو دھوپ کی تمازت اور چلچلاتی لو سے بچنے کے لئے ٹوپی ، رومال وغیرہ کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں،لوگوں کے لئے ہر جگہ پیاس بجھانے اور تشنگی کا سامان کیا جاتا ہے ، مختلف مشروبات کی مانگ زیادہ ہوجاتی ہے ، لیموں کا استعمال اس قدر زیادہ ہوجاتا ہے ، اس کے دام آسمان کو چھونے لگتے ہیں، ، دھو پ کی شدت سے پرندوں ، جانوروں کی بھی صورت حال اب تر ہوجاتی ہے ، لوگ پرندوں کے لئے پانی تشنگی کا سامان کرتے ہیں، گھروں میں ایسی اور کلر اور فریج وغیرہ کااستعمال اور برف کی کھپت زیادہ ہوجاتی ہے ، مٹی کے گھڑے اور سانک بھی بڑے پیمانے پر فروخت ہوتے ہیں،عجیب صورتحال ہوتی ہے ، انسان جب دھوپ کی تمازت بڑھ جاتی ہے تو بے چین وبے کل نظر آتے ہیں، ان کو کسی کروٹ چین نہیں آتا، ہر شخص کی زبان پر گرمی حدت اور شدت کا ذکر ہوتا ہے ، اسی طرح جانوروں کی صورت حال بھی قابل دید ہوتی ہے ، کھیت اور کھلیانوں میں بھی ویرانی کا سامان اور ہو کا منظر آتا ہے ، گرمی کی شدت اور حدت بڑھ جاتی ہے تو کئی لوگ لقمہ اجل بن ہوجاتے ہیں، جانوروں کے جان پر بھی بن آتی ہے ، وہ گرمی کی تمازت سے بچاؤ پانی میں غوطہ زن نظر آتے ہیں، جس کا نظارہ اور مشاہدہ اخباروں کی تصاویر وغیرہ سے کیا جاتا ہے، وہ بھی اس شدت گرمی کی وجہ سے موت کا لقمہ تر بن جاتے ہیں ۔
یہ دنیا کی گرمی کی صورتحال ہے ، جو صرف چار مہینے بلکہ اس سے بھی کم دن رہتی ہے ، لیکن انسان کو بڑا احساس دے جاتی ہے ، اس کے پیچھے انسان کی کئی یادیں رہ جاتی ہیں، اس گرمی کی تمازت او ر شدت کا جھیلنا انسان کے بس کے باہر ہوجاتا ہے ، تو اللہ عزوجل اس زندگی کے بعد والی زندگی میں جو گرمی کی شدت اور حدت کا ذکر جا بجا احادیث نبویہ وغیرہ میں کیا ہے ، اس کی صورتحال اور تمازت کا کیا حال ہوگا ( العیاذ باللہ)

موسم گرما ۔درس عبرت
گرمی کی اس شدت وحدت میں بھی اللہ عزو جل نے عبر ت وموعظت کے چند پہلو رکھے ہیں، یہ موسم گرما بھی اپنے اندر پیغام رکھتا ہے اور انسان کو ذاتِ خداوندی کی طرف متوجہ کرتا ہے ، موسموں کی تبدیلی میں بھی انسان کیلئے عبرت وموعظت کے عجیب پہلو پہناں ہیں، چاند وسورج کی قربت اور دوری موسموں کی تبدیلی کا وجہ بنتی ہے ، جب سورج کرہ ارضی سے دور ہوجاتا ہے ، سخت سردی پڑتی ہے اور جب یہ کرہ ارض سے قربت اختیار کرلیتا ہے ، گرمی کی حدت وتمازت ہوتی ہے ، یہی چاند وسورج جو کارگاہ حیات کے جزء لازم ہیں ، جس کی بعد وقربت سے گرمی کی شدت اور سردی کی بردوت پیدا کی جاتی ہے ، اس تبدیلی موسم میں بھی انسان کے لئے بڑا عبرت کا سامان موجود ہے ، جس طرح گرمی جہنم کا ایک حصہ ہے ، اسی طرح سردی بھی جہنم کا ایک حصہ ہے ۔
اسی کو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یوں فرمایا گیا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ایک مرتبہ جہنم کی آگ نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں شکایت کرتے ہوئے کہا کہ میرے ایک حصے نے دوسرے حصے کو کھالیا ہے اللہ نے اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دے دی ایک مرتبہ سردی میں اور ایک مرتبہ گرمی میں چنانچہ شدید ترین گرمی جہنم کی تپش کا ہی اثر ہوتی ہے اور اسی طرح شدید ترین سردی یہ بھی جنہم کی ٹھنڈک کا اثر ہو اکرتا ہے۔ ( مسلم: باب استحباب الإبراد بالظھر فی شدۃ الحر، حدیث: 716) اسی لئے ارشاد باری عز وجل ہے :”لا یرون فِیہا شمسا ولا زمہرِیرا”(سورۃ الإنسان: 13)انسان جنت میں نہ گرمی دیکھے گا اور نہ سردی ، اس کا مطلب مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ جنت میں نہ سورج ہوگا نہ چاند کہ جس کی وجہ سے گرمی اور سردی کا تصور ہو ، بلکہ معتدل اور خوشکوار ، طبیعت افزا موسم ہوگا ۔
جس طرح ہم دنیا میں گرمی کی حدت وتمازت اور سوزش سے بچاؤ کے لئے اپنی وسعت وطاقت بھر سامان کرتے ہیں، اسی طرح آخرت کی گرمی اور وہاں کی شدت تمازت اور حدت سے جس کا احادیث مبارکہ کے اندر تذکرہ آیا ہے ، انسان کو بچنے کی کوشش کرنا چاہئے۔

گرمی کے اسباب :
جیسا کہ مذکور ہو ا کہ شدت گرمی کی وجہ سورج کی قربت اور دوری اور چاند کی کشکش وغیرہ ہوا کرتی ہے ، اور شدت گرمی یا شدت بردوت یہ جہنم کے سانس لینے کا نتیجہ ہے ، اس کی وجہ سے گرمی کی شدت اور سرما کی بردوت کا احساس ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ عزوجل نے جنت میں جیسا کہ بعض مفسرین کا قول جنت میں سورج اور چاند کے وجود نہ ہونے کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے سردی اور گرمی کا وجود ہوتا ہے ، یہ تو ظاہری سبب اور باطنی سبب جیسا کہ حدیث میں مذکور ہوا جہنم نے اللہ عزوجل سے اپنی تنگی اور گھٹن کا ذکر کیا تو اسے سال میں دو دفعہ سانس لینے کی اجازت مرحمت کی گئی جس کی وجہ سے سردی اور گرمی جیسے موسم پیدا ہوتے ہیں(بخاری ومسلم)
اور ایک روایت میں موسم گرما میں ظہر کی نماز کو موخر کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا: ابوہریرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا جب گرمی زیادہ ہوجائے، تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو، اس لئے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہوتی ہے۔ (بخاری: باب الإبراد بالظھر فی شدۃ الحر، حدیث: 533)
اور ایک روایت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں: شیطان کے ایک سینگ یا دسینگوں کے درمیان سورج طلوع ہوتا ہے ، جب وہ ایک بانس کی بلندی پر ہوتا ہے تو جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، جب گرمی سخت ہوجاتی ہے تو جہنم کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔(مجمع الزوائد، باب وقت صلاۃ العصر، حدیث: 1704)

میدان حشر کی گرمی :
یہ دنیا کی گرمی اور اس کی حدت وتمازت ہے، میدان محشر میں جب لوگ بارگاہ خداوندی میں حساب وکتاب کے لئے کھڑے ہوں گے تو اس کے احوال کا ذکر احادیث مبارکہ کے اندر آیا ہے کہ سورج انسان سے بالکل قریب ہوجائے حتی کہ انسان اور سورج کے درمیان صرف ایک میل کا فاصلہ ہوگا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
سلیم بن عامر حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلیﷺسے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے دن سورج مخلوق سے اس قدر قریب ہوجائے گا یہاں تک کہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر ہوجائے گا ،سلیم بن عامر کہتے ہیں اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ میل سے کیا مراد ہے زمین کی مسافت کا میل مراد ہے یا سلائی جس سے آنکھوں میں سرمہ ڈالا جاتا ہے آپ نے فرمایا لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق تک پسینہ میں غرق ہوں گے اور ان میں سے کچھ لوگوں کے گھٹنوں تک پسینہ ہوگا اور ان میں سے کسی کی کمر تک اور ان میں سے کسی کے منہ میں پسینہ کی لگام ہوگی راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے ہاتھ مبارک سے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ کر کے بتایا۔ (صحیح مسلم : باب صفۃ یوم القیامۃ أعاننا اللہ علی أہوالھا، حدیث: 2864)

جہنم کی گرمی :
جب انسان دنیا کی معمولی سے گرمی کو نہیں برداشت کرسکتا ہے اور اس کے تاب نہ لا کر بے حال اور بد حال ہوجاتا ہے ، توپھر وہ گناہ پر جراء ت اور ہمت کیسے کرلیتا ہے جس سے وہ جہنم کی آگ کا مستحق ہوگا جس کی شدت کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: نبی کریم ﷺنے فرمایا تمہاری یہ آگ جسے بنی آدم جلاتے ہیں جہنم کی آگ کے ستر اجزا میں سے ایک جز ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ! واللہ یہ ایک جز بھی کافی ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا جہنم کی آگ اس سے 96 درجے زیادہ تیز ہے اور ان میں سے ہر درجہ اس کی حرارت کی مانند ہے۔ (مسند احمد، مسند أبی ہریرۃ ، حدیث: 1826) اور ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے جہنم کی شدت اور ہولناکی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
“جہنم کو ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو وہ سفید ہوگئی، پھر اس کو ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو وہ سرخ ہوگئی، پھر ایک ہزار سال تک دھوکا گیا تو وہ سیاہ ہوگئی، وہ اب رات کے مانند سیا ہ ہے “ (کتاب الزہد لعبد اللہ بن مبارک: باب صفۃ النار: 2؍88)

جہنم کا پانی :
موسم گرما کے آمد کے ساتھ ہی ٹھنڈے مشروبات ، کولڈرنکس اور دیگر پھل فروٹ کے مشروبات اور برف کی کھپت بڑھ جاتی ہے ، دنیا کی تھوڑی کی گرمی کے بچاؤ کے لئے اس قدر فرحت بخش اور روح افزا مشروبات اور ٹھنڈے کا انتظام کیا جاتا ہے تو پھر ہم نے جنت کے حصول کے لئے اور جہنم کی گرمی کے ساتھ اور اس کے گرم مشروبات کا کیا حال ہوگا اگر ہم گناہوں پر جراء ت اور ہمت کرتے ہیں:
قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے اللہ کے نافرمان بندوں کو جوپانی پلایا جائے گا اس کے حوالے سے ارشاد فرمایا: “ اس میں وہ نہ کسی ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ کسی پینے کے قابل چیز کا مزہ چکھیں گے ، سوائے گرم پانی اور پیپ اور لہو کے ،(النبأ: 24۔25) نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: “ اگر غساق کا ایک ڈول دنیا میں ڈال دیا جائے تو تمام دنیا والے تو تمام دنیا والے سڑجائیں(ترمذی، حدیث: 2566) اور ایک جگہ ارشاد باری عز وجل ہے : “ وسقواماء حمیما، فقطع أمعاھم” (محمد: 15) اور انہیں گرم پانی پلایا جائے گا، چنانچہ وہ ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔

جہنم کے دو منظر :
جہنم کی شدت گرمی اور حدت اور وہاں کے عذابات اور تکلیفوں کو محسوس کرنے کے لئے دنیا گرمی بڑی مثال ہے :
پہلا منظر:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا جب اللہ نے جنت کو پیدا کیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ جا کر اسے دیکھ آ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام گئے اور جنت اور اس میں مہیا کی گئی نعمتوں کو دیکھا اور واپس آکر بارگاہ الہی میں عرض کیا کہ آپ کی عزت کی قسم اس کے متعلق جو بھی سنے گا اس میں داخل ہونا چاہے گا اللہ کے حکم پر اسے ناپسندیدہ اور ناگوار چیزوں کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا ہے اللہ نے فرمایا اب جا کر اسے اور اس کی نعمتوں کو دیکھ کر آ چنانچہ وہ دوبارہ گئے اس مرتبہ وہ ناگوار امور سے ڈھانپ دی گئی تھی وہ واپس آکر عرض رسا ہوئے کہ آپ کی عزت کی قسم مجھے اندیشہ ہے کہ اب اس میں کوئی داخل ہی نہیں ہوسکے گا۔ اسی طرح جب اللہ نے جہنم کو پیدا کیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام ے فرمایا کہ اے جبرائیل جا کر جہنم اور اہل جہنم کے لئے تیار کردہ سزائیں دیکھ کر آ جب وہ وہاں پہنچے اور دیکھ کر واپس آکر کہنے لگے کہ آپ کی عزت کی قسم کوئی شخص بھی جو اس کے متعلق سنے گا اس میں داخل ہونا نہیں چاہے گا اللہ کے حکم پر اسے خواہشات سے ڈھانپ دیا گیا اس مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کہنے لگے کہ آپ کی عزت کی قسم مجھے تو اندیشہ ہے کہ اب کوئی آدمی اس سے بچ نہیں سکے گا۔

دوسرا منظر:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا قیامت کے دن جہنم والوں میں سے اس آدمی کو لایا جائے گا جو اہل دنیا میں سے بہت نعمتوں والا تھا ،پھر اس سے کہا جائے گا ،اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی بھلائی بھی دیکھی تھی کیا تجھے کبھی کوئی نعمت بھی ملی تھی وہ کہے گا: اے میرے رب اللہ کی قسم نہیں اور اہل جنت میں سے اس آدمی کو پیش کیا جائے گا جسے دنیا میں لوگوں سے سب سے زیادہ تکلیفیں آئی ہوں گی ،پھر اسے جنت میں ایک دفعہ غوطہ دے کو پوچھا جائے گا ،اے ابن آدم کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف بھی دیکھی کیا تجھ پر کبھی کوئی سختی بھی گزری وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار اللہ کی قسم نہیں کبھی کوئی تکلیف میرے پاس سے نہ گزری اور نہ ہی میں نے کبھی کوئی شدت و سختی دیکھی۔ (مسلم: باب صبغ أنعم أہل الدنیا فی النار، حدیث: 2807)

خلاصہ:
یہ کہ موسم گرما میں بھی عبرت وموعظت کے بے شمار پہلو موجود ہیں، دنیا کی یہ گرمی آخرت کی گرما کا ایک حصہ اور جزء ہے ، جو آخرت میں جہنم کی گرمی اور شدت اور اس آگ اور اس کے مشروبات وماکولات کا احساس دلاتی ہے، دنیا کی ذرہ سی گرمی انسان کو بے حال اور پیسنے میں شرابور کئے جاتی ہے تو پھر آخرت کی گرمی اور وہاں کی دھوپ کی تمازت اور جہنم کی گرمی آگ اور شدت اور ماکولات ومشروبات کا تو کس قدر بے حال اور پریشان ہونا پڑے گا، اس کے ذریعے عبرت لے کر آخرت کی تیاری اور جہنم سے بچاؤ کے لئے جدوجہد کریں ۔

***
رفیقِ تصنیف دار الدعوۃ والارشاد ، یوسف گوڑہ ، حیدرآباد
خادم تدریس دار العلوم دیودرگ
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی

Few lessons of Summer season. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں