مسلم معاشروں میں اساطیری روایات کا غلبہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-24

مسلم معاشروں میں اساطیری روایات کا غلبہ

archaeological-traditions-muslim-societies
اسلام دین فطرت ہے اور اس کی پاکیزہ تعلیمات کے باعث جو معاشرہ یا سماج وجود میں آتا ہے ، اس کے رسوم و رواج ، عادات و روایات اور آداب و اطوار میں بھی ایک خاص قسم کی پاکیزگی، عمدگی ، نفاست اور مقصدیت پائی جاتی ہے ۔ اس کے برعکس دنیا میں درجنوں ارضی و سماوی مذاہب ہین جن کے پیروکاروں میں جاہلانہ رسم و رواجات کا چلن عام پایاجاتا ہے ۔ ان کے خود ساختہ مذہبی اعتقادات کے باعث ان میں توہما ت او ر طلسمات کا غلبہ دکھائی دیتا ہے ۔ ان کی اساطیری اور مذہبی روایات نے ان میں ضعیف الاعتقادیوں کا ایک ایسا جال بن رکھا ہے جس کے باعث ان کی معاشرتی زندگی میں بہت سی اخلاقی اور ایمانی کمزوریاں داخل ہوچکی ہیں۔ بد قسمتی سے مسلمان ملکوں اور معاشروں میں بھی ان غیر اسلامی تصورات ، اساطیری روایات اور جاہلانہ رسومات کا چال چلن عام ہوگیا ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے انوار نے سب سے پہلے حجاز کی سر زمین کو منور کیا۔ حجاز کی سر زمین بھی شرک و بدعات سے لتھڑی ہوئی تھی ۔ ان کے عقائد میں توہمات اور بت پرستی کا زور دکھائی دیتا تھا۔ بچوں کی پیدائش، شادی بیاہ کی رسومات اور مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے معاملات بھی جاہلانہ رسومات سے اٹے دکھائی دیتے تھے ۔ قمار بازی، میلوں ٹھیلوں میں فحاشی ، فال گیری ، شہوت رانی اور بہت سے دوسرے خبائث و رذائل ان میں پرورش پاچکے تھے مگر اسلامی عقائد کی روشنی میں ان کا کلچر کثافت سے نفاست میں بدلتا چلا گیا ۔ زندگی اور اس کے طورواطوار کو ایک نئی اور پاکیزہ صورت ملی اور شرم و حیا کے تصورات پیدا ہوئے۔ عورتوں کی عفت و عصمت کی حفاظت کا سامان پیدا ہوا ۔ پیدائش ، نکاح اور وفات کی جاہلانہ رسوم تبدیل ہوگئیں۔ کھیل اور تفریح کے آداب بدل گئے ۔ تہواروں میں تبدیلی پیدا ہوئی اور انہیں با مقصد بنا دیا گیا البتہ قدیم تہذیب و ثقافت کے صالح اور پاکیزہ عناصر کو عرف کے بطور برقرار رکھا گیا۔ اسی طرح دوسری اقوام کی ثقافتی اور معاشرتی اقدار جو اسلامی عقائد سے کوئی تصادم یا مغائرت نہیں رکھتی تھی۔ انہیں بھی قبول کیا گیا اور یوں حجاز کی ثقافت ایک عالمی تہذیب و تمدن کا نقشہ اختیار کرنے لگی جس کے اثرات چودہ صدیوں کے گزرنے کے باوجود ٓج بھی عالم اسلام میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں حتی کہ بعض غیر مسلم اقوام اور ممالک نے بھی ان کے اثرات کو محسوس اور قبول کیا مگر افسوس کہ مسلمان ممالک اور معاشروں نے الحادی تہذیبوں اور غیر مسلم معاشروں کی جاہلانہ رسومات اور رواجات کو قبول کیا اور یہ عجمی اثرات ابھی تک ہمارے ہاں نمایاں طور پر دیکھنے میں آتے ہیں۔
اسلام کے الہامی اور انقلابی افکار نے پہلی صدی ہجری کے اختتام پر دنیا کے تین بر اعظموں کے ایک بڑے حصے پر اپنے اثرات مرتب کئے۔ بر صغیر اور وسط ایشیا بھی ان علاقوں میں شامل ہیں جہاں اسلامی تہذیب و ثقافت نے اپنے نقوش پیدا کئے ۔ بر صغیر میں اسلام عہد فاروقی میں موجودہ بلو چستان کے علاقے مکران میں صحابہ کرام کی کوششوں سے پہنچا اور بہت سے صحابہ کرامؓ یہاں پر مستقلا مقیم ہوگئے جن کی قبور کی وجہ سے پنج گور نامی قصبہ آباد ہوا ۔711ء میں محمد بن قاسم نے سندھ کو باب الاسلام بنادیا اور پھر دیبل سے ملتان تک ایک مستحکم اسلامی ریاست قائم ہوگئی ۔ غزنویوں ،غوریوں، خلجیوں، خاندان غلاماں اور مغل بادشاہوں نے وسط ایشیائی تہذیب اور ایرانی اور افغانی ثقافت کے اثرات کو بھی بر صغیر میں داخل کیا جہاں اسلام کی آمد سے پہلے بدھ دھرم ، جین دھرم اور ویدک دھرم کے اثرات عروج پر تھے ۔ یوں بر صغیر کی گنگا، جمنی تہذیب و ثقافت میں حجازی ثقافت کی تیز رو اپنے لو میں وسط ایشیائی اور ایرانی اثرات کو لئے داخل ہوئی ۔ بر صغیر میں رسوم و رواج کے اس تاریخی مطالعے کے لئے البیرونی نے کتاب الہند موسیو لیبان نے تمدن ہند ڈاکٹر تارا چند نے ہندوستانی کلچر پر اسلام کے اثرات اور ڈاکٹر محمد عمر نے ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر جیسی تحقیقی کتابیں لکھیں۔
14؍اگست1947ء کو بر صغیر برطانوی استعمار کے چنگل سے آزاد ہوا تو پاکستان اور ہندوستان کی دو الگ ریاستوں میں منقسم ہوگیا مگر گزشتہ بارہ صدیوں میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے امتزاجی اثرات ہر کہیں موجود تھے ۔ بالخصوص پنجاب میں تمام مذاہب اور تہذیبوں کے اثرات سب سے زیادہ نمایاں تھے ۔ اس خطے کی ٓبادی میں مختلف ممالک اور خطوں کے لوگ گزشتہ پانچ ہزار سال سے داخل ہوتے رہے ۔ اس طرح موجودہ پاکستان کے جغرافیے میں بر صغیر کے تمام علاقوں کے افراد و قبائل بھی ہجرت کے باعث یہاں پر منتقل ہوئے۔ بر صغیر کے تمام مذاہب کے لوگ بھی کسی نہ کسی تعداد میں یہاں مقیم ہیں اس لئے اس خطے میں سماجی عادات اور علاقائی روایات کے مطالعے کے لئے ایک محقق یا دانش ورکوڈیموگرافی کے سماجیاتی بشریاتی اور عمرانیاتی پہلووؑں سے کما حقہ آگاہی حاصل ہوجاتی ہے ۔
پاکستان کے مختلف حصوں میں سماجی عادات اور علاقائی روایات کا مطالعہ کیاجائے تو پیدائش ، شادی اور وفات کے حوالے سے بہت عجیب و غریب صورت دکھائی دیتی ہے۔ بعض روایات اور رسومات وہ ہیں جو مذہب کے حوالے سے ہمارے ہاں موجود ہیں۔ کچھ تہوار ایسے ہیں جو علاقائی ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں مگر ان میں جہاں خالص تفریحٰ لوازم ہیں وہاں کچھ جاہلانہ رواج بھی ملتے ہیں ۔ کچھ رسوم و رواج مختلف پیشوں اور مہارتوں کے حوالے سے دکھائی دیتے ہیں ۔ خالص مذہبی تہواروں جیسے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ ہیں ان میں بھی بہت لہوولعب کی کیفیت شامل ہوگئی ہے ۔ بلو چستان میں بعض بلوچ افراد نے ذکری مذہب کے نام پر تربت کے کوہ مراد میں ننگے بدن حج کرنے کی رسم قبیح شروع کررکھی ہے جو اگرچہ محدود ہے اوربتدریج کم ہورہی ہے مگر اس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں ۔ بزرگان دین کے مزاروں پر عرس کی صورت میں بھنگڑے دھمالیں ، مجذوبیت کے نام پر عریانی ، منشیات کا کھلے بندوں رواج اور دیگر نا گفتہ رسومات جاری ہیں بلکہ اکثر حکومتی اور ابلاغیاتی وسائل سے ان کی سرپرستی بھی ہورہی ہے ۔ ہندووؑں کے ہاں اگر مذہبی سطح پر ہولی، دیوالی اور دسہرہ وغیرہ کے تہوار اور جشن جلوس نکالے جاتے ہیں تو مسلمانوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی کچھ مواقع پر مذہبی جلوس ترتیب دینا شروع کردئیے ہیں جن میں بعض کاوجود پورے بر صغیر میں1935ء سے قبل کہیں مذکور نہیں ۔ مغرب کی ثقافتی یلغار نے بھی کچھ روایات کو جنم دیا ہے جن کا اسلامی تعلیمات یا اس کی روح سے دور کا تعلق بھی نہیں ۔ ویلنٹائن ڈے ، اپریل فول، ہنی مون کلبوں کی عیاشیاں، تھیٹر، میراتھن اور درجنوں قسم کی بیہودگیوں کو رواج دیاجارہا ہ ۔ اسلامی سال یکم محرم کو شروع ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں یکم جنوری کو تہنیتی کارڈ اور خصوصی شبینہ مجالس کا انعقاد ہوتا ہے جس میں ابلیسی کلچر اپنے پورے عروج پر دکھائی دیتا ہے ۔ ان پر جو ناروا اور ناجائز اخراجات کئے جاتے ہیں ، وہ بلا شبہ قرآنی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر کی ذیل میں آتے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت، تعلیم سے محرومی اور مافوق الفطرت قوتوں پر یقین نے ضعیف الاعتقادیوں کا ایسا جال بن رکھا ہے کہ جس میں بھلے چنگے لوگ بھی گرفتار دکھائی دیتے ہیں ۔جادو ٹونا ، تعویذات ، فال گیری، زائچے کا نکالنا، طوطوں سے قسمت کی پرچیاں نکلوانا مختلف حاجات کے لئے غیر شرعی اور جاہلانہ طور طریقے اختیار کرنا ۔ جعلی پیروں فقیروں کے ہتھے چڑھ کر خرافات کا شکار ہونا اور جن بھوت پریت، پری کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے عاملوں اور مالو کے ہتھکنڈوں کو آزمانا جیسی روایات اور رسومات بھی موجود ہیں ، جن کے ازالے کے لئے ریاست اور معاشرے کے ذمہ داروں کو خصوصی اور بھرپور توجہ دینا چاہئے ۔
پاکستانی معاشرے میں کس نوعیت کی سماجی اور علاقائی عادات روایات ابھی تک موجود ہیں ان کے بارے میں اختصار اور اجمال سے کچھ معلومات فراہم کی جاتی ہیں ۔ وہ حضرات جو ان کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہیں تو اس سلسلے میں بہت سی تحقیقی کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جارہی ہیں ۔ پیش نظر رہے کہ پاکستان کی70فیصد ٓبادی دیہاتوں اور گوٹھوں میں مقیم ہیں ۔ آبادی کاایک محدود حصہ خانہ بدوشوں کی صورت میں سارا سال نقل مکانی کرتا رہتا ہے ، اور خیموں اور جھونپڑیوں میں زندگی گزارتا ہے۔ یہ لوگ تعلیم، تہذیب اور اسلامی اقدار و روایات سے بہت دور ہیں۔ یہ توہمات اور جاہلانہ رسوم و رواجات اگرچہ شہری زندگی میں بھی ہیں مگر دیہات تو ان کے جال میں بہت برے طریقے سے جکڑے دکھائی دیتے ہیں ۔
جہاں تک ان علاقوں میں جاہلانہ اور مشرکانہ رسوم و رواجات کا تعلق ہے ، منگل اور بدھ کے رو ز شمال کی طرف سفرکو اچھا نہیں سمجھا جاتا جب کہ پیر اور جمعہ کے دن اسے موزوں خیال کیاجاتا ہے ۔ جمعرات کے دن جنوب کی جانب نکلنا درست نہیں سمجھتے ۔ بدھ کے روز جو بھی کام کیاجائے وہ درست اور مفید ہوتا ہے ۔ کاشت کاروں کے ہاں منگل کو فصل کاٹنا بدھ کو بونا برکت تصور کیاجاتا ہے۔ پرندوں میں الو کو ویرانی کی علامت سمجھتے ہیں۔ کوا منڈیر پر کائیں کائین تو کسی مہمان کی آمد متوقع ہوتی ہے ۔ کالی کھانسی والے بچوں کو علاج کے لئے ریچھ پر سوار کرایاجاتا ہے ۔ چڑیاں دیواروں کے ساتھ لگ کر چہچہائیں تو بارش کی نوید ہوتی ہے ۔ کسی کے ہاں تین بچوں کے بعد چوتھا بچہ پیدا ہو تو اسے ترکھل کہاجاتا ہے اور اسے نحوست سے تعبیر کیاجاتا ہے لہذا اسے چھلنی کو پھاڑ کر اس میں سے گزارتے ہیں ۔ بچے کی پیدائش کے موقع پر کانٹے دار جھاڑیوں کو چھت پر رکھتے ہیں تاکہ کوئی بیمار بلی یا کتا نہ گزرے جس سے بچ کی پیدائش پر اثر پڑ تاہے۔ حاملہ عورت کے کمرے میں چار پائی کے نیچے لوہے کا چاقو رکھتے ہیں اور گھر کے قفل کھول دئیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ مرگی کا مریض ہو تو اس کو جوتی سنگھائی جاتی ہے ۔ اسی طرح لوگ طرح طرح کے شگون پربھی یقین رکھتے ہیں ۔ جو ہر طرح سے ایک غیراسلامی سوچ ہے ۔ اگر کوئی کتا رات کے وقت روئے تو اسے موت کا شگون سمجھاجاتا ہے ۔ کسی مرغ کا دن کے وقت بانگ دینا نحوست تصور کیاجاتا ہے۔ اگربلی راست کاٹ دے تو مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔ا گر آتا گوندھتے ہوئے اس کا کچھ حصہ باہر گر جائے تو یہ شگون ہے کہ مہمان آنے والے ہیں ۔ علی ہذاالقیاس ہزاروں شگون ہیں کہ انہوں نے لوگوں کے ذہنوں میں ضعیف الاعتقادیان پیدا کررکھی ہیں ۔
پاکستان میں ہر جگہ مزاروں کی کثرت ہے ، بر صغیر میں بزرگان دین اور مشائخ عظام کی خدمات سے کون واقف نہیں مگر ان حضرات کے مزاروں پر جو کچھ ہورہا ہے اس کا اسلام اور اس کی تعلیمات سے کہیں دور کا بھی تعلق نہیں ۔ لاہور میں باغ جناح میں جہاں راقم کو بائیس سال تک ڈائریکٹوریٹ آف پبلک لائبریریز میں خدمات انجام دینے کا موقع ملا ، یہاں پر ترنت پیر نامی ایک مزار ہے جس کے بارے میں مشہور کیا گیا ہے کہ یہاں جوبھی تمنا کی جائے ترنت(فوراً) پوری ہوجاتی ہے ۔ بعض مزارات پر عورتیں اولاد نرینہ کی خواہش میں کیا کچھ کر گزرتی ہیں، اس کا تصور ہی ہولناک ہے ۔ ان مزارات سے ایسی ایسی باتیں منسوب ہیں کہ جن کا نہ تو حقیقت سے کوئی تعلق ہے اور نہ دین و شریعت میں ایسی حرکات کے لئے کوئی گنجائش موجود ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت سے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے تو ایسے لوگ جہالت اور اسلامی تعلیم کا شعور نہ ہونے کے باعث کن کن مشرکانہ رسوم اور جاہلانہ اطوار سے گزرتے ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ حاملہ کی چار پائی کے نیچے گڑ اور لوہے کی کوئی چیز رکھی جاتی ہے ۔

ماخوذ از:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ)۔ دینی سپلیمنٹ "روشنی" (21/نومبر 2008)

The dominance of Archaeological traditions in muslim societies. Article: Prof Abdul Majid Shakir

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں