امیر خسرو اور ہندوستانی موسیقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-10

امیر خسرو اور ہندوستانی موسیقی

Amir Khusrow
اسلامی دور سے قبل کی ہندی موسیقی کے متعلق کچھ زیادہ معلومات حاصل نہیں ہو سکیں کیونکہ وہ تمام کی تمام سنسکرت کی کتابوں میں درج ہیں جن کا سمجھنا آسان نہیں ۔ صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ سام وید کے بھجن، مناجاتیں اور ترانے زیادہ تر رائج تھے اور اب بھی مندروں میں ان کا رواج عام ہے ۔

ابو ریحان البیرونی نے اپنی عمر کا بڑا حصہ ہندوستان میں صرف کیا۔ تذکرہ نویسوں کا بیان ہے کہ اس نے سر زمین ہند میں چالیس سال تک سیاحت کی اور ہندوستان کی ہر چیز کا بچشم خود نہایت غور سے مشاہدہ کیا ۔ سنسکرت زبان سیکھی اور ہندوؤں کے علوم و فنون، عقائد و رسوم اور معاشرت و اخلاق پر "کتاب الہند" کے نام سے ایک بے نظیر کتاب لکھی مگر اس وقت کے مروجہ علم موسیقی کا گوشہ چھوٹ گیا۔
پوری دو صدیاں گزر جانے کے بعد جب ہندو مسلمانوں کی اجنبیت کی خلیج پر ہو گئی اور دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے لگے تو ایک زبان نے دوسرے کی زبان تک رسائی حاصل کی ۔ ایک کی زبان کے الفاظ دوسرے کی زبان پر آنے لگے ۔ گویا اردو کی تخلیق کی بنیاد پڑی ۔ یہی وہ زمانہ ہے کہ جب ہندوستان میں امیر خسروؒ پیدا ہوئے ۔

امیر خسروؒ کی ولادت 1253ھ میں ضلع ایٹہ کے موضع پٹیالی میں ہوئی ۔ ان کے والد سیف الدین، 'شمس' کے لقب سے مشہور تھے ۔ شمس الدین التمش کے مقربان بارگاہ میں سے تھے۔ انہوں نے لاڈلے بیٹے کو خوب چاؤ چونچلوں سے پالا اور جب وہ اللہ کو پیارے ہو گئے تو امیر کے نانا عماد الملک نے انہیں اپنی سرپرستی میں لے لیا ۔ یہ عماد الملک غیاث الدین بلبن کے امراء کبار میں تھے اور بڑھاپے میں بھی جوانی کی آب و تاب دکھاتے تھے ۔ انہیں ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی سے شغف تھا۔ کھاتے پیتے آدمی تھے ۔ پھر اس پر زندہ دلی اور شگفتہ جبینی گویا سونے پر سہاگہ تھی۔ ان کے ہاں اکثر نشاط کی محفلیں برپا ہوتی تھیں۔ گائک، ساز نواز اور مطربان خوش نوا دور دور سے ان کا شہرہ سن کر آتے تھے ۔ یہیں امیر خسروؒ نے کلاسیکی سنگیت کے پیچ و خم اور تال سر کے نشیب و فراز سے آشنائی پیدا کی۔ اتفاق کی بات ہے کہ بلبن سے لے کر جلال الدین خلجی تک جتنے بادشاہ دہلی کی مسند جلال پر جلوہ افروز ہوئے ہیں کم و بیش سب کو موسیقی سے شغف رہا ہے اور ان سب سے امیر خسروؒ کے روابط مخلصانہ اور دوستانہ رہے ہیں۔

مسلمانوں کے عہد حکومت میں فن موسیقی نے بڑی ترقی کی اور بادشاہوں نے بھی ماہرین فن اور اہل کمال کی قدردانی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ۔ ہمیشہ علوم و فنون کی سرپرستی کرتے رہے۔ چنانچہ وہ اہل موسیقی جنہوں نے اپنی مترنم آواز یا آلات سرود و ساز کی بدولت شہرت پائی، جن کے نام تذکرہ نویس نسلاً بعد نسلاً لکھتے آئے ہیں ایسے استادان مسلم الثبوت میں سر فہرست امیر خسروؒ کا نام آتا ہے ۔

امیر خسروؒ عالم و فاضل اور شاعر تھے ہی مگر وہ ایک باکمال ماہر موسیقی بھی تھے۔ ایسے باکمال انسان کی نظیر دنیا میں مشکل سے ملتی ہے ۔ سینکڑوں سال کے بعد کہیں ایک دو ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر صرف شاعری ہی کو لیا جائے تو ان کی جامعیت پر تعجب ہوتا ہے ۔ انہیں صرف فارسی زبان پر ہی عبور نہ تھا بلکہ عربی میں بھی شعر کہا کرتے تھے اور برج بھاشا میں بھی۔ سنسکرت کے تو وہ بڑے ماہر تھے ۔
امیر خسروؒ نے یہاں کی موسیقی کو سیکھا اور حد کمال کو پہنچایا۔ انہوں نے ایرانی موسیقی میں بھی ایسا ہی کمال حاصل کیا تھا اور دونوں کی آمیزش و ترکیب سے ایک تیسری چیز نکالی جس سے موسیقی کے فن میں ایک تازہ روح پیدا ہو گئی اور جو زیادہ لطف انگیز ہو گئی ہے ۔

یوں تو امیر خسروؒ کو موسیقی سے دلچسپی تھی ہی لیکن جس چیز نے اس شراب کو دو آتشہ کر دیا وہ امیر کا حلقہ تصوف میں داخل ہونا ہے ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ 671ھ میں امیر باقاعدہ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے مرید ہو گئے اور پھر مرید کا پیر کے ساتھ رشتہ عقیدت ایسا استوار ہوا کہ ضرب المثل ہو گیا۔ غالباً مرید نے اپنے پیر کی محبت ہی سے متاثر ہو کر گانے کی وہ وضع ایجاد کی جسے "قوالی" کہتے ہیں ۔
قوالی کا مادہ قول ہے اور قول کی داستان دراز ہے ۔ حقیقت میں قول رباعی کا ایک نام ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رباعی پہلے گانے کے لئے مخصوص تھی ۔ جو لوگ رباعی گا کر سناتے تھے وہ قوال کہلاتے تھے ۔ ا س کی شان نزول کے متعلق روایتوں کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت نظام الدین اولیاءؒ بیمار ہوئے اور بیماری نے طول پکڑا ، تو امیر نے ان کا دل بہلانے کے لئے حمد اور نعت اور منقبت کے اشعار قوالی کے اسلوب میں انہیں گا کر سنائے۔ یوں سنگیت میں غنا کی ایک نئی وضع کا اضافہ ہوا ۔ یہ روایت افسانہ ہو یا حقیقت لیکن یہ تو بہرحال مسلم ہے کہ قوالی کا اسلوب بےحد مقبول ہوا ۔ ظاہر ہے کہ اصلاً قوالی حمد و نعت اور منقبت سے مخصوص ہوگی ۔ لیکن اب ہر قسم کی غزل قوالی کی دھنوں میں گائی جاتی ہے اور خوب بہار دکھاتی ہے ۔
قوالی کی سج دھج ، اس کا مکھڑا ، اس کا روپ سروپ واقعی عجیب چیز ہے ۔ قوال ہر راگ اور راگنی کا لہرا دے کر قوالی گاتے ہیں لیکن قوالی کا جو خاص اسلوب ہے وہ قائم رہتا ہے ۔ اس اسلوب میں مختلف ٹکڑوں کی تکرار ، مخصوص تال ، بولوں کی چلت پھرت اور تالی کا کھٹکا جو لطف پیدا کرتا ہے وہ سب پرروشن ہے۔ تذکرے اس قسم کے واقعات سے لبریز ہیں کہ ارباب حال و قال نے بعض اوقات قوالی کی محفلوں میں کوئی مصرع سن کر ایسا اثر قبول کیا ہے کہ وجد کی حالت میں ہی ان کا وصال ہو گیا ہے ۔

"راگ درپن " میں امیر خسروؒ کے ایجاد کردہ راگوں کی ایک فہرست ہے جسے مولانا شبلی نے امیر خسروؒ کے ذکر میں نقل کیا ہے ۔ اسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے ۔
  • مجیر = غار اور ایک فارسی راگ سے مرکب ہے
  • ساز گیری = پوربی، گورا، گن کلی اور ایک فارسی راگ
  • ایمن = ہنڈول اور نیریز
  • عشاق = سارنگ، بسنت اور نوا
  • موافق = نوزی و مالسری و حسینی
  • غنم (غازاں) = پوربی میں ذرا تغیر کردیاہے۔
  • زیلف = کھٹ راگ میں شہناز کو ملایا ہے
  • فرغنہ (فرغانہ) = کن کلی اور گورا میں فرغانہ کو ملایا ہے
  • سراپر دو(سرپردہ) = سارنگ ، بلاول اور راست کو ترکیب کیا ہے
  • باغزو یا باخرو = دیس کا ر میں ایک فارسی راگ ملادیا ہے
  • فردوست یا پردوست = کانہڑا، گوری ، پوربی اور ایک فارسی راگ سے مرکب ہے
  • صنم یا غنم = کلیان میں ایک فارسی راگ شامل کیا ہے
امیر خسروؒ نے پرانے طریقوں میں جو تراش خراش کی اور پرانی روایتوں کو توڑ کر جو نیا راستہ اختیار کیا ہے، یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اسے عام طور پر سراہا گیا ۔ قدیمی طرز کی موسیقی کے دلدادگان نے ہمیشہ ان اختراعات کو نظر انداز ہی کیے رکھا ۔ یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ راگوں میں سے جو امیر خسروؒ نے ہندی ایرانی راگوں کے ملاپ سے نئے راگ پیدا کیے، ان میں سے صرف چند ایک ہی باقی رہ گئے ہیں ۔ باقی کے ناموں سے بھی کوئی واقف نہیں۔ چنانچہ نواب واجد علی شاہ اپنی تصنیف "صوت المبارک" میں خسرو کو بجائے دھرپد کے، "نائک خیال" مانتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ امیر خسروؒ چھند، پند، قول، قلبانہ، نقش اور گل کے موجد ہیں۔

امیر کی موسیقی دانی ہی کے سلسلے میں سید ناصر نذیر فراق دہلوی نے دعوی کیا ہے کہ پکھاوج بھی ان ہی کی ایجاد ہے لیکن اس دعوے کی سند دستیاب نہیں ہو سکی۔
سنگیت کی اکثر کتابوں میں لکھا ہے کہ ستار بھی امیر خسروؒ کی ایجاد تھی ۔ لیکن اس کی سند دستیاب نہیں ہو سکی ۔ غالب خیال یہی ہے کہ ستار امیر خسروؒ کی ایجاد نہیں ہے ۔ اس خیال میں ڈاکٹر مرزا محمد وحید صاحب سے میر ا پورا اتفاق ہے ۔ بلکہ دسویں صدی عیسویں سے قبل بھی ستار کسی نہ کسی شکل میں ایشائے کوچک، ایران، آرمینیا ، اور ترکستان میں موجود تھی اور ان ہی ملکوں سے یہ ہندوستان میں پہنچی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس کا نام زیتھر یا گٹار دیا ہے لیکن یہ خود 'ستھارا' کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں ۔ "ستھارا" قدیم مصر کا ایک ساز تھا جو ستار کے بالکل ہم شکل ہے ۔

ستار کے ہم شکل جتنے ساز مشرق اور مغرب میں استعمال ہوتے تھے ان میں مصرف چار تار ہوا کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ امیر خسروؒ نے تین تار اور بڑھا دیے ہوں اور ان ساز کا نام "ستار" مشہور ہو گیا ہو۔ لہذا ستار کے متعلق اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی تصنیف میں اس کی ایجاد کا کہیں اشارہ بھی نہیں کیا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ وینا میں تاروں کے اضافے سے وہ سر اور راگ جو پہلے ادا نہ ہو سکتے تھے ، اس نئی ایجاد نے ان کو گرفت میں کر لیا ۔ پس ستار کی ایجاد ان کی طرف منسوب ہو گئی اور حقیقتاً یہ بھی ایک بڑا کمال ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ہندوستانی موسیقی کی ایک بڑی کمی کو پورا کر دیا ۔

مختصر یہ کہ کلاسیکی موسیقی کے رمز شناسوں میں امیر خسروؒ کا مقام اتنا بلند ہے کہ چار و ناچار پنڈتوں نے انہیں نائک گردانا اور گرنتھیوں نے انہیں جگت استاد جانا۔
امیر کو اپنے پیر حضرت نظام الدین اولیاءؒ سے بہت محبت تھی ۔ امیر کی موت سے بھی اس محبت کا سراغ ملتا ہے ۔ جب حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا وصال ہوا تو امیر اودھ میں تھے۔ یہ خبر ملی تو بے تابانہ دہلی پہنچے۔ مرقد پر گئے۔ جالی کو دیکھا اور بے حال ہو کر یہ دوہا پڑھا:
گوری سوئے سیج پر مکھ پہ ڈالے کیس
چل خسرو گھر آپنے رین بھئی سب دیس

یہ دوہا پڑھ کر امیر گھر لوٹے ۔ بیمار پڑے اور ایک مہینہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ 725ھ (1324ء) میں اپنے مرشد سے جا ملے اور انہیں کی پائینتی دفن ہوئے۔

***
ماخوذ از کتاب: "کیا صورتیں ہوں گی" (فنِ موسیقی پر معلومات افزا اور نایاب مضامین کا مجموعہ)
تالیف: پروفیسر شہباز علی
مضمون : برصغیر کی موسیقی کی ترقی و ترویج میں مسلمانوں کا کردار (مضمون نگار: ایم۔اے۔شیخ)

Amir Khusrow and Indian Music. Essay by: M.A.Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں