قطب الدین ایبک - قوت اسلام مسجد اور قطب مینار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-24

قطب الدین ایبک - قوت اسلام مسجد اور قطب مینار

quwwatul-islam-masjid-qutbminar-qutbaldin-aibak
مسلمانان ہند کی عظمت کا نشانِ عالیشان اور پایۂ تختِ ہندوستاں دہلی ایک ایسی عظیم یادگار کا حامل ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کے زریں دور کی امین ہے بلکہ ان کے زوال کا مظہر بھی عہد خاندان غلاماں کی عظیم یادگار مسجد قوت اسلام جس کا "قطب مینار" آج بھی دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ یہ فتح ہندوستان کے بعد خدائے واحد و برتر کی عبادت کے لیے دہلی میں بندگان خدا کی تعمیر کردہ پہلی مسجد تھی۔ عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دی گئی یہ عظیم مسجد آج کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہے۔ 238 فٹ بلند قطب مینار آج بھی اینٹوں کی مدد سے تیار کردہ دنیا کا سب سے بلند مینار ہے۔ مسجد کے قریب شمس الدین التتمش کا مزار بھی واقع ہے۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنے مجموعۂ کلام "ضرب کلیم" میں ایک نظم "قوت اسلام مسجد" کے عنوان سے لکھی ہے:

ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی
لا الہ’ مردہ و افسردہ و بے ذوقِ نمود
چشمِ فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو
کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقامِ محمود
کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے
کہ غلامی سے ہوا مثلِ زُجاج اس کا وجود
ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز
جس کی تکبیر میں ہر معرکۂ بود و نبود
اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت، وہ گداز
بے تب و تابِ دروں میری صلوٰۃ و درود
ہے مری بانگِ اذاں میں نہ بلندی، نہ شکوہ
کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟

قوت اسلام مسجد اور قطب مینار
قوت اسلام مسجد ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں عہد خاندان غلاماں کی ایک عظیم یادگار ہے جس کا "قطب مینار" عالمی شہرت کا حامل ہے۔ یہ قطب الدین ایبک کے دور کی تعمیرات میں سب سے اعلٰی مقام رکھتی ہے۔ یہ ہندوستان کی فتح کے بعد دہلی میں تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد تھی۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1190ء کی دہائی میں ہوا۔
13 ویں صدی میں التمش کے دور حکومت میں اس میں توسیع کر کے حجم میں تین گنا اضافہ کیا گیا۔ بعد ازاں اس میں مزید تین گنا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور عظیم مینار تعمیر کیا گیا۔

اس کے بعد مشہور قطب مینار کی تعمیر کا آغاز 1199ء میں ہوا تھا۔ اور بعد ازاں آنے والے حکمران اس میں مزید منزلوں کا اضافہ کرتے گئے اور بالآخر 1368ء میں یہ مینار 72 اعشاریہ 5 میٹر (238 فٹ) تک بلند ہو گیا۔ اس طرح یہ مینار آج بھی اینٹوں کی مدد سے تعمیر کردہ دنیا کا سب سے بلند مینار ہے اور ہندی-اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ بنیاد پر اس کا قطر 14 اعشاریہ 3 جبکہ بلند ترین منزل پر 2 اعشاریہ 7 میٹر ہے۔ یہ مینار اور اس سے ملحقہ عمارات اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔
مسجد میں خط کوفی میں خطاطی کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ مسجد کے مغرب میں التمش کا مزار ہے جو 1235ء میں تعمیر کیا گیا۔ مسجد کی موجودہ صورتحال کھنڈرات جیسی ہی ہے۔

قطب مینار
ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں واقع یہ72.5 میٹر لمبے مینار کی تعمیر، در حقیقت ایک اجتمائی تعمیر ہے، جس میں مینار، مسجد اور دیگر تعمیرات ہیں، اس مجمع کو "قطب کامپیکس" کہتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر ہندو اور جین مندروں کو ڈھا کر کی گئی ہے۔ اس کی تعمیر قطب الدین ایبک کے زیر احتمام 1193 میں شروع ہوئی۔
قطب مینار ایک لمبا مینار ہے جو سرخ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے اندر 379 سیڑھیاں ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ مینار دنیا کا واحد "آزادانہ مینار" ہے، یعنی اس مینار کو کسی اور عمارت یا سہارے کے بغیر کھڑا کیا گیا ہے۔
افغانستان کے جامی مینار سے متاثر ہوکر قطب الدین ایبک نے اس مینار کی تعمیر کے لئے حکم نامہ جاری کیا۔ قطب الدین ایبک کے دور میں اس کی تعمیر شروع کی گئی، لیکن اس کے دور میں یہ صرف بنیادی منزل کا کام مکمل ہوسکا۔ ایبک کے جانشین التتمش نے اسکے مزید تین منازل تعمیر کروائے۔ بعد میں فیروزشاہ تغلق نے پانچویں اور آخری منزل کی تعمیر کروائی۔

قطب الدین ایبک پہلا مسلمان سلطان ہے جس نے مرکزی حکومت کا ڈھانچہ دیا جسے اس کے غلام اور داماد سلطان شمس الدین التمش نے مضبوط بنایا۔ سلطان علوم و فنون کا دلدادہ تھا دہلی کا مدرسہ ناصریہ اور قطب مینار اس کی علم دوستی کا واضح ثبوت ہیں۔
قطب مینار محض ایک مینارہ نہیں ہے، بلکہ دراصل شمالی ہندوستانی سرزمین پر قائم ہونے والی سب سے پہلی مسجد کا مینارہ ہے جو اسلام کی شان و شوکت کا عظیم مظہر اور سرزمینِ ہند پر اللہ و رسول کا کلمہ بلند کرنے کی ایک اہم نشانی ہے۔ اس کا ثبوت اس مسجد کے درودیوار اور خود قطب مینار کے چاروں طرف خط زخارف میں کندہ کی ہوئی وہ عربی و فارسی تحریریں ہیں جو امتدادِزمانہ اور حوادث دہر کے باوجود محو نہیں ہو سکی ہیں۔ قطب مینار کے پہلے دروازہ پر پہونچتے ہی آپ کو اس کے دروازہ پر جو تحریر منقش دکھائی دے گی وہ اللہ کے رسولؐ کی مشہور حدیث ہے ’’من بنی للہ مسجدا بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ‘‘۔ اس مسجدومینارہ کی بنیاد سلطنتِ دہلی کے اولین مسلم بانی سلطان شمس الدین التمش نے رکھی تھی اور اس کی تکمیل اس کے نائب سلطان قطب الدین ایبک کے ہاتھوں ہوئی۔

قطب الدین ایبک
قطب الدین ایبک ہندوستان میں ایک مستقل سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ برصغیر پاک و ہند کا یہ پہلا فرمانروا ترکی الاصل تھا۔
بچپن میں حاکم نیش پور قاضی فخر الدین عبدالعزیز کوفی نے اسے خریدا اور اسکے زیر سایہ قطب الدین نے تعلیم و تربیت کے علاوہ شہسواری اور تیر اندازی کی تربیت حاصل کی ۔ قاضی فخر الدین کی وفات کے بعد اسکے بیٹوں نے قطب الدین کو فروخت کر دیا۔ چنانچہ وہ غزنی میں سلطان شہاب الدین محمود غوری کے ہاتھ فروخت ہوا۔ محمد غوری کی ترینہ اولاد نہ تھی۔ وہ اپنے ترکی غلاموں کو اولاد کی طرح پالتا اور انہیں تعلیم و تربیت سے بہرہ ور کرتا اور جو صاحب کمال نظر آتے اسے اہم منصب پر فائز کرتا۔ قطب الدین ایبک نے کئی مہموں میں اپنی بہادری اور دلیری کے جوہر دکھائے۔ چنانچہ ترائن کی دوسری جنگ(1192ئ)میں پرتھوی راج چوہان کی شکست کے بعد سلطان نے قطب الدین ایبک کو اپنا نائب سلطنت مقرر کر کے بر صغیر میں مزید فتوحات پر مامور کر کے خود غزنی واپس چلا گیا۔

1192ء اور 1194ء کے درمیان قطب الدین نے ہانسی ، میرٹھ ، بلند شہر، دہلی، کوئل(علی گڑھ) قنوج اور بنارس فتح کیے اور متعدد سرکش راجاﺅں پر قابو پایا 1196ءاور 1197ءمیں گجرات، انہلواڑہ اور رنتھمبور کے اہم قلعوں قبضہ کر کے 1202ءتک شمالی ہندوستان کے فاتح کی حیثیت اختیار کی۔ 1206ءمیں سلطان محمد غوری کی وفات کے بعد قطب الدین لاہور پہنچا۔ جہاں اس کی تاجپوشی کا جشن منایا گیا۔سلاطین دہلی کے لیے وسط ایشیا کیطرف سے ہر وقت خطرہ رہا کرتا تھا ۔چنانچہ تاج الدین یلدوز قطب الدین سے شکست کھانے کے باوجود خطرہ بنا رہا۔ اس سے تعلقات استوار کرنے کی خاطر قطب الدین نے تاج الدین یلدوز کی بیٹی سے شادی کر لی۔ نیز اپنی ایک بیٹی کی شادی ناصر الدین قباچہ حاکم ملتان و سندھ سے کردی۔ اور دوسری بیٹی شمس الدین سے بیاہ دی۔ اس رشتوں کیوجہ سے قطب الدین ایبک کی سلطنت بہت مستحکم ہوگئی۔ لیکن قدرت نے اسے نظام حکومت کے میدان میں تنظیمی قابلیت اور فہم و فراست کے جوہر دکھانے کے موقع نہ دیا۔ اسکا نظام حکومت فوجی نوعیت کا تھا ۔ اہم صوبوں اور شہروں میں فوج متعین تھی۔ انتظام و انصرام کے لیے عموماًفوجی افسر مقرر ہوئے تھے۔ عدل و انصاف کے لیے ہر صوبہ میں قاضی مقرر تھے۔ جرائم کی سزائیں سخت تھیں۔ اس لیے اسکے عہد میں مکمل امن و امان رہا۔ احکام شریعت کے پابند ہونے کیوجہ سے لگان اراضی جو پہلے پیداوار کا پانچواں حصہ تھی قطب الدین کے عہد میں دسواں حصہ مقرر کی گئی جس سے رعایا خوش حال اور فارغ البال ہو گئی۔

اس زمانے میں امراء میں چوگان کا کھیل بڑا مقبول تھا اور قطب الدین کو بھی چوگان کا بڑا شوق تھا۔ یہی شوق اسکی موت کا باعث ہوا۔ چنانچہ1210ءمیں لاہور میں چوگان کھیلتے ہوئے گرا اور اپنے گھوڑے کے نیچے دب گیا۔ گھوڑے کی زین کا پیش کوہہ سلطان کے سینے میں پیوست ہو گیا۔ اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اس کے جانشین سلطان شمس الدین التمش نے 1217ءمیں ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کرایا۔ تا ہم رنجیت سنگھ کے عہد میں اسے مسمار کرا دیا گیا۔ برٹش دور میں لاہور میں آبادی کا اضافہ ہوا تو مقبرہ آبادی میں گھر گیا۔ پاکستان بننے کے بعد محکمہ آثار قدیمہ نے قبر سے متصلہ تمام مکانات کو خرید کر قبر کے احاطہ کو واگذار کرایا اور 1927ءمیں مقبرہ کی تعمیر شروع ہوئی۔ انار کلی بازار سے میو ہسپتال کی طرف جانے والی گلی میں یہ مقبرہ مرجع خلائق ہے۔ سلطان قطب الدین کو علوم و فنون کے علاوہ فن تعمیر سے بھی خاص لگائر تھا۔ 1193ءمیں دہلی کی فتح کی یادگار میں مسجف قبتہ الاسلام یا مسجد قوة الاسلام تعمیر کرائی۔ قطب الدین مینار کی بنیاد رکھی جو بعد میں سلطان التمش نے مکمل کروایا۔

Quwwat-ul-Islam Mosque, Qutb Minar and Qutb-al-Din-Aibak

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں