قطب سرشار - کچھ فن و شخصیت کے بارے میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-22

قطب سرشار - کچھ فن و شخصیت کے بارے میں

qutb-sarshaar
قطب سرشار میرے بہت ہی اچھے، قدیم اور پیارے دوست ہیں۔ عمر میں مجھ سے چار سال، چار ماہ اور گیارہ دن چھوٹے ہیں۔ یہ تفاوت کچھ اتنا زیادہ نہیں(یعنی خوردی و بزرگی کے لحاظ سے) لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں جب انھوں نے اپنی کتاب جو تلگو شاعر وی۔آر۔ودیارتھی کی شاعری کا اردو ترجمہ بعنوان ''آسماں کا لمس'' ہے، عنایت کی تو یہ القاب لکھ دیئے:
''جدید لب و لہجے کے بزرگ شاعر و ادیب، مخلص دوست جناب رؤف خلش کی نذر، نہایت خلوص کے ساتھ''۔
مجھے لفظ بزرگ پر حیرت ہوئی۔ اس لفظ کو سنجیدگی پر محمول کیا جائے تو ظاہر ہے کہ اس کے معنی بڑا، عمر رسیدہ، بالغ سیانا، سرپرست وغیرہ کے ہو سکتے ہیں اور اگر طنزاً لیا جائے تو شریر اور برے کے بھی ہوسکتے ہیں۔ بول چال میں ''ذاتِ بزرگ'' کی ترکیب یہیں سے لی گئی ہے۔ خیر، یہ تو ایک جملہء معترضہ تھا۔ قدیم دوستوں کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ ایسے خطاب سے نوازیں۔
قطب سرشار میں اور مجھ میں دو ایک باتیں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاًایک تو یہ کہ وہ بھی سادات ہیں اور میں بھی سادات۔ دوسرے یہ کہ گفتگو ہو یا اظہارِ خیال ہو ،ہم دونوں حد درجہ محتاط واقع ہوئے ہیں ۔اور بھی کئی باتیں ہونگیں لیکن ان کی اور میری دوستی ''دانت کاٹے کی روٹی'' تک نہیں پہنچی کیوں کہ کیونکہ وہ رہتے ہیں ضلع محبوب نگر میں اور میں حیدرآباد میں، پھر بھی ان کا ربط و ضبط حیدرآباد سے بہت گہرا رہا ہے۔ میں حیدرآباد لٹریری فورم کا بانی رکن رہا ہوں تو وہ اردو تلگو لٹریری فورم کے بانی و صدر ہیں۔ خیر سے وہ جامعہ عثمانیہ کے ایم۔اے، پی۔ایچ۔ڈی ہیںاور میری لائن آرکٹکچرکی ہے۔بہرحال جن دنوں وہ صدر شعبہ اردو، گورنمنٹ ڈگری کالج، حکومت آندھرا پردیش تھے اس زمانے میں بھی اور بعد میں بھی ایک طرح سے اردو شعر و ادب ان کا اوڑھنا بچھونا رہا ہے۔ مستزاد یہ کہ وہ ضلع کے ماحول کے اعتبار سے تلگو میں بھی اتنی دسترس رکھتے ہیں کہ تلگو کے نامور شعرأ، پروفیسر سی۔ نارائن ریڈی، سری لتا، وی۔ آر۔ ودیارتھی اور ڈاکٹر شکھامنی کی تخلیقات کو اردو کے قالب میں اس انداز سے ڈھالا کہ طبع زاد معلوم ہوتی ہیں۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں بلکہ اہلِ دانش کی نظر میں فی الواقعی ا یسا ہی ہے۔
ضلع اور شہر کی بات پر یاد آیا کہ قدیم عرب زمانے میں زبان عموماً شہر کے مضافات اور دیہاتوں میں خالص ہوا کرتی تھی جب کہ شہر میں مختلف زبانوں کے بولنے والوں نے وہاں کی زبان کو خالص نہ ہونے دیا۔ لیکن آجکل، خصوصاً ہندوستان میں معاملہ الٹا ہے۔شہر والوں کی زبان کو شستہ اور مضافات و دیہاتوں کی زبان کو بلحاظ لب و لہجہ کم تر گردانا جاتا ہے۔ تاہم قطب سرشار کی زبان ، نشست و برخاست شہر کی ہی ہے حالانکہ وہ رہتے ہیںضلع میں ۔
پی۔ایچ۔ڈی کا تحقیقی مقالہ انھوں نے ''ڈاکٹر خلیق انجم کی شخصیت اور ادبی خدمات'' کے عنوان سے مکمل کیا تھا۔ جو زیر طبع ہے۔ ان کے علمی و ادبی مشاغل میں ریڈیو، ٹی۔وی اور فلم کے لئے مکالمہ نگاری بھی شامل ہیں۔ بڑے بڑے کل ہند پیمانے کے مشاعروں مین کلام خوانی کے علاوہ اردو کا کوئی ادبی و علمی رسالہ ایسا نہیں جس میں ان کا کلام شائع نہ ہوا ہو۔
میرا اور قطب سرشار کا ساتھ ان دنوں سے رہا ہے جب 1960ء کی دہائی میں اعظم راہی اپنا ادبی ماہنامہ ''پیکر'' حیدرآباد سے نکالتے تھے۔ اس سے قبل کہ بات آگے بڑھاؤں، ایک تلخ حقیقت گوش گذار کر دوں کہ ہم میں سے اکثر (میری مراد ''ادبی برادری'' سے ہے) نہایت ہی درشت، ناقدرشناس، چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے اور ماضی کی تاریخ ساز گھڑیوں کو بھلا دینے والے لوگ ہیں۔ ان میں اتنی جرأت نہیں کہ جدیدیت کے آغاز میں ادب جس کشمکش سے گذرا ہے اس کا دیانت داری سے جائزہ لے سکیں۔ ''پیکر'' نے ''بت شکن'' کے قلم سے ''ہمارے اصنام ادب'' کے زیر عنوان جائزے کا ایک سلسلہ شروع کیا اور نئے لکھنے والوں کی طرف سے اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ بقول شخصے اس تنقیدی رویے سے ''ادبی دیو زادوں'' نے محسوس کرلیا کہ ادب کے جسمِ ناتوں میں نئے خون کی شمولیت ازحد ضروری ہے۔
اعظم راہی کے رفقائے کار کی فہرست خاصی طویل ہے چند اہم ناموں میں ساجد اعظم، محمود انصاری، رؤف خلش، حسن فرخ، رفعت صدیقی، احمد جلیس، غیاث متین، مسعود عابد وغیرہ ہیں۔ قطب سرشار بھی ہماری سرگرمیوں میں شامل رہا کرتے تھے۔ 1960ء کا یہ دور روایت شکنی اور جدید طرز اظہار کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 1966ء میں شمس الرحمٰن فاروقی نے الہ آباد سے ''شبِ خون'' کا اجرأ کیا جو (40) سال تک مسلسل نکلتا رہا۔ بعد میں وہی حشر ہوا جو دیگر اردو رسالوں کا ہوتا ہے۔
ان تلخ حقیقتوں سے قطع نظرلکھنے والے لکھتے رہے ہیں اس طرح اہلِ جنونِ ادب کا شعری سفر تاحال جاری و ساری اور امید کیا یقین ہے کہ آئندہ بھی رواں دواں رہے گا۔ البتہ سچے فنکاروں اور کچے فنکاروں میں ایک فرق ہے جس کو قطب سرشار نے اپنے ایک شعر میں خوب بیان کیا ہے:
ٹیلے پہ ایک ریت کے تن کر کھڑے ہوئے
بونے سمجھ رہے ہیں کہ ہم بھی بلند ہیں
قطب سرشار کی نظر میں خود انہی کے کہنے کے مطابق وہ ادب کو دیگر فنون لطیفہ کی طرح ادیب کی ذات، نفسیات، جبلتوں اور کردار سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ ان کے خیال میں صالح نفسیات، صحت مند جبلت اور نمایاں کردار کی مٹی سے صحت مند ادب کا خمیر اٹھتا ہے۔کم و بیش یہی وہ احساسات ہیں جو جدیدیت کے حامی فنکاروں کے ہیں لہذا بلا شبہ قطب سرشار انہی میں سے ایک ہیں۔دنیا کی بے ثباتی پر قطب سرشار کے کتنے عجیب و غریب شعر ہیں:
دنیا تو جیسے ایک کفن کی دوکان ہے
اس در پہ آج تک کوئی تالا نہیں رہا
تمام لوگ جسے زندگی سمجھتے ہیں
میں سانس لینے کی تکرار کا عذاب کہوں!
ان اشعار کے مطالعہ کے بعد مجھے ہندی کا ایک دوہا یاد آگیا:
ماٹی کہے کمہار سے ، تو کیا روندے موئے
اک دن ایسا آوت ہے ، میں روندونگی توئے
آخر میں اتنا کہنا ہے کہ قطب سرشار کی شاعری فلسفہ غم سے عبارت ہے جس سے جذبہ غم خواری پیدا ہوتا ہے اور یہی غم زدگی شاعری کی اصل ہے۔

غزل
دھند کی راہ گذر میں آئے
یعنی آلودہ سفر میں آئے
حکمت و نور قلم ، سوز یقین
ہر صفت حرف و ہنر میں آئے
ظلمتوں کا رہا ہے خواب غلط
رات کا رنگ سحر میں آئے
ظرف شہرت چھلک اٹھا ایسے
ہے خبر لوگ خیر میں آئے
ابر نیساں کو تاکتے ہیں صدف
آب اک دیدہ تر میں آئے
بے حسی اوڑھی ہوئی تیرہ صدی
لمحہ زود و اثر میں آئے
سبز موسم ہے اگا صحرا میں
تاکہ ویرانی سی گھر میں آئے

بشکریہ:
روزنامہ "منصف" (حیدرآباد)۔ آئینہ ادب سپلیمنٹ۔ بتاریخ: 22/مارچ 2018

***
webmaster[@]raoofkhalish.com
موبائل : 09000228305
داؤد منزل ، 544-8-16 ، نیو ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500024۔
رؤف خلش

Qutb Sarshaar, a prominent Urdu poet from mahboobnagar, Telangana. Article: Raoof Khalish

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں