کتابوں کے پی ڈی ایف کا بڑھتا چلن کیا واقعی خطرہ ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-13

کتابوں کے پی ڈی ایف کا بڑھتا چلن کیا واقعی خطرہ ہے؟

urdu pdf-books
کتب بینی کا ذوق و شوق زوال پذیر ہے ، لیکن کتابوں کے پی ڈی ایف کا زور بڑھ رہا ہے ، کیا حقیقتاً یہ کتابوں کا دشمن ہے یا پھر انہیں نئی دنیا سے روشناس کرانے کا ایک طریقہ؟ ہم نے ادبی رسائل کے مدیران سے اس سلسلے میں گفتگو، پڑھئے و ہ کیا کہتے ہیں۔

رفتار زمانہ ڈیجیٹل دور میں پہنچ جانے اور ہر ہاتھ میں موبائل آجانے کی وجہ سے گزشتہ کچھ برسوں سے یہ شور اٹھ رہا ہے کہ اب بہت سی قدیم چیزوں کا دور ختم ہوجائے گاجن میں کتاب جیسی مفید ترین شئے بھی شامل ہے ۔ یہ اندیشہ بے بنیاد نہیں قرار دیاجاسکتا کیونکہ کتابیں خرید کر پڑھنے کا چلن بہت کم ہوگیا ہے کیوں کہ اب پی ڈی ایف کے ذریعے موبائل پر ہی بہت سی کتابیں اور پڑھنے سے متعلق دیگر لوازمات دستیاب ہیں۔ پہلے کتاب مانگنے کا چلن تھا لیکن اب لوگ کتاب یا کہانی پڑھنے کے لئے پی ڈی ایف مانگ لیتے ہیں۔ وہاٹس ایپ اور دیگر میڈیم کے ذریعے اس کی ترسیل نہایت آسان ہے اس لئے یہ طریقہ بہت تیزی سے مقبول ہوتا جارہا ہے ۔ جہاں تک بات ہے اردو معاشرے کی تو یہاں ویسے بھی کتابیں خرید پر پڑھنے کا رواج بہت کم ہے لیکن اگر یہ روایت بھی پی ڈی ایف کے نذر ہونے لگے تو تشویش ہونا لازمی امر ہے ۔ہم نے اس سلسلے میں ادبی پرچوں کے مدیران سے گفتگو کی اور ان سے جاننا چاہا کہ کیا واقعی پی ڈی ایف کتب بینی کے لئے نقصاندہ ہے یا پھر یہ طریقہ مطالعہ کے نئے شوقین پیدا کرسکتا ہے ۔

اس بارے میں مشہور ادبی مجلے اردو چینل کے مدیر اور شاعر قمر صدیقی نے بتایا کہ دنیا بدلتی رہتی ہے اوراس کے طور ریقے بھی بدلتے رہتے ہیں ۔ کتاب کا خیال یا کانسیپٹ آج کا نہیں ہے یہ بہت قدیم ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہے گا لیکن ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی نے لوگوں کے پڑھنے لکھنے کے طو ر طریقوں کوبھی متاثر کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہی ای بک اور پی ڈی ایف کی طرف قارئین کا دھیان گیا ہے اور وہ اس میڈیم کے ذریعے بھی کچھ نہ کچھ پڑھ رہے ہیں۔ پی ڈی ایف سے بہت آسانی ہوئی ہے لیکن یہ کتاب کانعم البدل بالکل نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کی نسل جو جوان ہی ڈیجیٹل دور میں ہوتی ہے وہ کتاب کا لمس کم ہی جانتی ہے اور اسے ہر چیز ایسے ہی پی ڈی ایف اور دیگر فارمیٹ میں چاہئے ۔ ہمیں اس نسل کے بارے میں بھی غور کرنا ہوگا کیونکہ وہ پڑھنا چاہتی ہے اور اسے کس طرح راغب کیاجائے ہمیں اس پر دھیان دینا ہوگا۔ اگر وہ پی ڈی ایف پڑھنا چاہتی ہے تو اسے وہ مہیا کروایا جائے لیکن اسے کتاب کی اہمیت بھی بتانی ہوگی۔

جدت پسند ادبی مجلے تحریر نو کے مدیر ظہیر انصاری کہتے ہیں کہ ہم آج جس دور میں جی رہے ہیں وہ موبائل کا دور ہے ۔ اس موبائل پر ہم بہت کچھ پڑھ بھی لیتے ہیں جس میں اخبارات کے علاوہ کتابیں یا اقتباسات شامل ہیں ۔ اس طرح ہم اپنی ضرورت پوری کرلیتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے اخبارات اور کتابوں کی کھپت پر اثر پڑتا ہے مگر اس سے مفر نہیں کہ پی ڈی ایف جیسے فارمیٹ نے پڑھنے لکھنے کے طور طریقے ہی تبدیل کردئیے ہیں۔ اب پی ڈی ایف ضرور مانگا جاتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں سے کتنا پڑھاجاتا ہے وہ سوال ہے۔ ظہیر انصاری کے مطابق ہمیں مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق اپنا مال بیچنا ہوگا لیکن کتاب جیسی روایت سے ناطہ بھی نہ ٹوٹے اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک بات ہے ریوینیو کی تو ہم نے تقریباً سات برسوں تک ماہنامہ تحریر نو کونیٹ پر جاری رکھا لیکن کسی طرح کا کوئی ریوینیو نہیں ملا ، اس پر بہر حال غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اردو معاشرے کو ٹیکنالوجی کے شانہ بشانہ چلنے کی ضرورت توہے لیکن اس سے نقصان بھی نہ ہو یہ بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ پی ڈی ایف یا جے پی جی مہیا کرادینے سے اخبارات، رسائل اور کتب کی فروخت پر اثر پڑتا ہے اور سامنے والا خرید کر پڑھنے کی عادت سے بھی محروم ہوتاچلا جاتا ہے ۔

ماہنامہ اردو آنگن کے مدیر اعلیٰ مشیر احمد انصاری نے کتاب اور پی ڈی ایف کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل دور میں ہم اس سے فرار اختیار نہیں کرسکتے لیکن کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی اگر پی ڈی ایف مانگتا ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ وہ مطالعہ کا شوقین ہے اور ایسے فرد کی ضرورت کو پورا کرنا ہمارا فرض عین ہونا چاہئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج سچ پوچھو تو اس ہنگامہ زندگی میں وقت کی قلت ہر فرد کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ روزانہ کے معمولات کو نبھاتے ہوئے مطالعہ کے لئے کتابوں کا رخ کرنا کوئی آسان بات نہیں گو کہ قاری اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہے کہ کتابوں کا پڑھنا زیاد اہم چیز ہے ۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ ہمت افزا بات ہے کہ کئی گروپس قاری کو کتابوں کے مطالعہ کی طرف راغب کررہے ہیں۔ قاری آج پی ڈی ایف کتابوں کی سہولت میسر آنے کے سبب گروپ ایڈمن یا دیگر ممبران سے اپنے پسندیدہ موضوع پر یا پسندیدہ کتاب کی فرمائش کرلیتاہے اور جب یہ کتاب اسے میڈیا گروپ پر دستیاب ہوجاتی ہے تو وہ اسے پڑھ لیتا ہے ۔ پی ڈی ایف پر پڑھنے میں بہر حال تشنگی محسوس ہوتی ہے لیکن قاری کے ذوق کی کچھ نہ کچھ تسکین تو ہوجاتی ہے ۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا گروپس میں یا ذاتی طور پر بھی اگر کسی کے پاس پی ڈی ایف کتابوں کا ذخیرہ ہے تو وہ اسے دوسرے قارئین تک پہنچائے ۔

مشہور ادبی میگزین نیا ورق کے نوجوان مدیر شاداب رشید نے پی ڈی ایف کے بڑھتے چلن کو صرف ایک بلبلہ قرار دیا اور اسے رد کرتے ہوئے کہا کہ’’کتاب بھی تو لوگ کسی حد تک پڑھ لیتے تھے لیکن پی ڈی ایف مانگنے کا رواج تو بن رہا ہے لیکن اسے پڑھنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔‘‘شاداب کے مطابق نئی نسل نے کتاب نہیں دیکھی ہے ایسے میں وہ پی ڈی ایف بھی اسی وقت پڑھے گی جب اسے کتاب پڑھنے کی عادت ڈلوائی جائے گی۔ فی الحال ہوتا یہ ہے کہ لوگ کسی نایاب کتاب کا پی ڈی ایف مانگ لیتے ہیں اور اپنے موبائل اسپیس میں اسے جمع کرلیتے ہیں لیکن پڑھتے ہیں یا نہیں یہ تو وہی بہتر جانتے ہوں گے ۔ شاداب نے پی ڈی ایف پڑھنے میں آنے والی عملی دشواریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موبائل یا ٹیب کے اسکرین پر مسلسل نظر جمائے ہوئے پڑھنا بہت مشکل کام ہے ، ساتھ ہی اس میں ٹیکسٹ اتنی آسانی سے پڑھا نہیں جاسکتا جتنی آسانی سے آپ کتاب میں پڑھ سکتے ہو، پھر آپ نے پی ڈی ایف فائل کسی نام سے محفوظ کی ہے وہ اگر یاد ہے تو ٹھیک ورنہ وہ فائل آپ کے موبائل کے ’لاشعور‘ میں چلی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی کتاب پڑھنے والے کو اس کے لمس کا احساس بھی رہتا ہے جب کہ پی ڈی ایف میں ایسا ممکن نہیں ہے ۔

The challenge of promoting pdf files.
Article by: Mubasshir Akbar
qureshi.mubasshir[@]mid-day.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں