چاپلوسی - انشائیہ از ابن صفی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-31

چاپلوسی - انشائیہ از ابن صفی

chaaplusi
یقین مانیے ڈاکڑیٹ کی ڈگری ملتے ہی میں نے صدر شعبۂ اردو ، عربی و فارسی کی موت کی دعائیں مانگنی شروع کر دی تھیں ۔ یوں تو میں نے انگریزی اور عربی دونوں مضامین میں ایم۔ اے کیا تھا لیکن ریسرچ کے لیے عربی ہی کو منتخب کیا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ عربک ڈپارٹمنٹ کے صدر تقریبا لب گور ہو چکے تھے اور کہیں سے بھی یہ امید نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایک سال سے زیادہ چلیں گے۔ ان کی موت کے بعد ڈپارٹمنٹ میں ایک لیکچرار کی جگہ خالی ہونی چاہئے تھی ۔ لہٰذا اپنی لیکچرار شپ کے خواب دیکھتے ہوئے میں نے عربک میں ریسرچ شروع کر دی ۔ قدرت میرا ساتھ دے رہی تھی، ادھر مجھے ڈاکٹریٹ ملی اُدھر صدر صاحب پر فالج گرا۔ تقریباً ایک ماہ تک میری لیکچرار شپ حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا رہی ، پھر وہی ہوا جس کے لیے میں دو سال تک باقائدہ قسم کا نمازی بنا رہا تھا۔
اخبار میں یونیورسٹی کے شعبۂ عربی و فارسی کے لیے ایک لیکچرار کی مانگ شروع ہوتے ہی میں نے وہ عرضی روانہ کر دی جو میں نے صدر صاحب کی زندگی میں ہی لکھ کر رکھ چھوڑی تھی۔ شعبے کے نئے صدر نے مجھ سے حتمی وعدہ کیا تھا کہ وہ میٹنگ میں میرے ہی لیے رائے دیں گے۔ مگر اب کیا کیا جائے کے دوسرے اُمیدوار کے چچا زاد بھائی پارلیمنٹری سیکریٹری ، دادا زاد بھائی منسڑ اور نانا زاد پُھوپھا ایم این اے تھے۔
یہ تو اپنی اپنی لیاقت کی بات ہے، میں ٹھہرا گھامڑ آدمی ۔ میں آج تک کوئی ایسا رشتہ پیدا کرنے میں کامیاب ہی نہیں ہوا جو اس قسم کے نازک موقع پر میری مدد کر سکے۔ بہرحال، کمند اُس وقت ٹوٹی جب نقب زنی کے امکانات بھی ختم ہو چکے تھے۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے مجھ جیسے لوگ اپنے ہوئی قلعوں کی کتنی شاندار پبلیسٹی کرتے ہیں۔ لہٰذا اسی پبلیسٹی کے نتیجے میں دو تین دن تک تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ ان میں تقریباً سبھی کو میری ناکامی پر افسوس ہوا تھا۔ کیونکہ یہ سب میری قابلیت کے معترف تھے۔ ان سب کی گفتگو سے میں نے جو نتیجہ نکالا وہ یہ تھا کہ میں انتہائی قابل ہوں ۔ اس شہر یا اس ملک تو کیا ساری دینا میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ دوسرا اُمیدوار زندگی بھر پڑھے تب بھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ میں لیکچرر نہ ہو سکا محض اس لیے کہ میں انتہائی خوبیوں کے باوجود چاپلوسی نہیں کر سکتا۔ وغیرہ وغیرہ ۔

میرے ایک دوست نے تو نفسیاتی نکتہ نظر سے یہ تک ثابت کر دیا کہ زمانے کے اعتبار سے میرا چاپلوس نہ ہونا میری شخصیت کی سب سے بڑی خامی ہے۔ میں ان کی اس رائے پر ہفتوں غور کرتا رہا۔ آخر مجھے اس سے متفق ہونا پڑا اور میں نے باقائدہ طور پر چاپلوس بننے کی مہم شروع کر دی۔ مگر خدا کی قسم ایک فیصدی بھی تو کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ آپ ہی انصاف فرمائیے جسے یہ بھی نہ معلوم کہ چاپلوسی کسے کہتے ہیں۔ وہ اس میں کامیاب کیونکر ہو سکتا ہے؟

ایک دن راہ میں ان صاحب سے اتفاقیہ ملاقات ہو گئی جنہوں نے یہ ثابت کیا تھا کہ میرا چاپلوس نہ ہونا میری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ میں نے ان سے چاپلوسی کرنے کا طریقہ پوچھا۔ پہلے تو بڑی دیر تک میری سادہ لوحی پر قہقہے لگاتے رہے، پھر بولے۔
" ارے بھئی، چاپلوسی نہیں جانتے۔ بھئی چاپلوسی یعنی کہ چاپلوسی کیسے کی جاتی ہے۔ میں یہ سمجھ لوں کہ ہاں میں ہاں ملانے کو چاپلوسی کہتے ہیں۔ ہر شخص کی ہاں میں ہاں ملاؤ۔ چاپلوسی خود بخود آ جائے گی۔"
"کس طرح ہاں میں ہاں ملائی جائے۔ کوئی مثال دے کر سمجھاؤ۔" میں نے درجہ اوّل کے کسی طالب علم کی طرح بے بسی سے کہا۔
" تم بھی رہے گھامڑ کے گھامڑ ۔ مرد آدمی ، ہاں میں ہاں ملانا بھی نہیں جانتے۔ خیر سنو ، فرض کرو کہ تم اپنے کسی عزیز کی موت پر تعزیت کے لیے جاتے ہو، وہاں مرحوم کا کوئی عزیز اس کے اوصافِ حمیدہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہیکہ مرحوم کے چہرے پر مرنے کے بعد بلا کی رونق تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سو رہے ہوں۔ اس وقت تمہیں چاہیے کہ فوراً اس کی ہاں میں ہاں ملاؤ اور مرحوم ک بزرگی کا کوئی فرضی قصّہ گھڑ کر سنادو۔ مثلاً کہو سبحان اللہ مرحوم کی بزرگی کا کیا کہنا۔ ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک رات اپنا گدھا تلاش کرتے کرتے قبرستان کی طرف جا نکلا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ مرحوم ایک درخت کے نیچے ننگ دھڑنگ بیٹھے عبادت میں مشغول ہیں۔ اور دو شیر، تین بھیڑئیے، چار اود بلاؤ، اور پانچ عدد بجّو مرحوم کے ارد گرد حلقہ کیے بیٹھے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ کیا سمجھے۔"
" بلکل سمجھ گیا۔ " میں نے اپنے دوست کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے جوش سے کہا۔
" دوست! زندگی بھر تمہارا احسان نہیں بھولوں گا۔ ہاں، ہاں بھئی دعوت بھی دونگا۔ مجھے مکمل قسم کا چاپلوس تو بن جانے دو، مانتا ہوں استاد۔"

دن بھر ہاں میں ہاں ملانے کے مواقع تلاش کرتا رہا مگر مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ شام کو شکستہ دل ہو کر اخبار اٹھانے ہی جا رہا تھا کہ ایک صاحب کی موت کی اطلاع ملی۔ مارے خوشی کے ناچ اٹھا۔ قدرت کچھ مہربان نظر آ رہی تھی۔ آخر موقع نصیب ہو ہی گیا۔ سوچا کہ اسی وقت جاؤں مگر پھر خیال آیا کہ شاید اس وقت ہاں میں ہاں ملانے کا موقع نہ مل سکے کیونکہ مرحوم کے اعزا تجہیز و تکفین کے انتظام میں مشغول ہوں گے۔
دوسرے دن انتہائی مسمسی صورت بنائے ہوئے میں ان کے گھر پہنچا اور راستے میں مرگی کا دورہ پڑ جانے کی بنا پر جنازے میں شرکت نہ کر سکنے کی معذرت کی۔ خود پر مرحوم کی بزرگانہ شفقتوں کا تذکرہ کرتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد مرحوم کے بڑے صاحب زادے نے مرحوم کی طویل علالت اور جان لیوا اذیتوں کی داستان چھیڑ دی ۔ میرا دل بہت زور سے دھڑکا کیونکہ ہاں میں ہاں ملانے کا یہی موقع تھا۔ میں نے کھولتے ہوئے پیٹ کو دبا کر کہنا شروع کیا۔
"ہاں صاحب خدا بخشے مرحوم نے بڑی تکلیفیں اٹھائیں ۔ بھیّا یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے۔ میں نے تو سنا ہے کہ مرحوم کے جسم کے ریشے ریشے میں کیڑے پڑ گئے تھے۔"
" جی۔" مرحوم کے صاحب زادے حیرت سے دیدے پھاڑ کر بولے ۔
" بہتان ہے صاحب، ہم لوگوں نے تیمارداری میں رات دن ایک کر دیے ۔ کیا مجال کہ بدن پر مکھی تک بیٹھ جاتی ، کیڑے، لاحو ل ولاقوۃ۔"
"واللہ علم بالصواب۔" میں وار خالی جاتے دیکھ کر مایوسی سے بول پڑا۔
" آپ یقین کیجئے۔" ان کے صاحب زادے بولے۔
" آپ ٹھیک کہتے ہوں گے۔" میں نے بے دلی سے کہا۔
" ارے جناب میں تو یہاں تک سنا ہے کہ جس وقت مرحوم غسل کے لیے بستر مرگ پر سے اُٹھائے جا رہے تھے ان کی ساری ہڈیاں سُکھی لکڑی کی طرح تڑاخ تڑاخ ٹوٹ گئی تھیں۔"
یہ سننا تھا کہ انکے صاحب زادے آگ بگولا ہو کر کھڑے ہوگئے۔ چیخ کر کہنے لگے۔
" کون حرام زادہ کہتا ہے، کس سے سنا ہے آپ نے؟"
" ارے صص ۔۔صاحب ۔ مم۔ مجھے یقین کب آیا تھا۔ بھلا ایسا ہو سکتا ہے۔ دو۔۔۔ دشمنوں کو کیا۔ جج ۔جو ۔چاہا۔ کہہ دیا۔"
" دیکھا رشید صاحب ۔" وہ ایک صاحب کی طرف مخاطب ہو کر بولے۔
" آپ بھی تو غسل کے وقت موجود تھے۔ (میری طرف مخاطب ہو کر) ذرا بتائیں تو کس نے کہا تھا آپ سے۔"
" ارے جانے بھی دیجئے۔" میں نے گھبرا کر کہا۔" دشمنوں کا کیا ہے، یونہی اپنا منہ کالا کرتے ہیں، بہرحال میں ان صاحب کی اچھی طرح خبر لوں گا۔"
نہ جانے کس طرح پیچھا چھڑا کر وہاں سے بھاگا، بسم اللہ ہی غلط نکلی تھی۔ مگر میں آسانی سے ہار ماننے والا نہیں تھا۔ ایک بار ناکام ہونے پر سپر ڈال دینا کوئی مردانگی نہیں ہے۔
میں مرتے دم تک جدّو جہد کرتے رہنے کا قائل ہوں۔ میری راہ میں اگر ہمالیہ حائل ہوا تو پروا نہیں کرتا۔ تقدیر کو ناکامیوں کا سبب نہیں سمجھتا۔ میرا خیال ہے کہ بعض عملی خامیاں ہی ناکامیوں کو جنم دیتی ہیں۔ میں دوسرے بہتر مواقع کا انتظار کرنے لگا۔

ایک دن پھر اک بزرگ کی موت کی خبر ملی ۔ احتیاطاً میں نے تعزیت کئی دنوں کے لیے ٹال دی اور اس دوران میں مختلف قسم کے تعزیتی موضوعات پر مکالمے لکھ لکھ کر رٹتا رہا۔ بہرحال اچھی خاصی تیاری کے بعد وہاں پہنچا۔ کئی حضرات وہیں موجود تھے۔ مرحوم کے اوصاف حمیدہ گنوانے شروع کیے ۔ میں نے کئی بار ہاں میں ہاں ملانے کی کوشش کی لیکن وہ طوفان ایکسپریس کی رفتار سے جا رہے تھے۔ خدا خدا کر کے رکے بھی اس جملے پر :
"مرحوم کی خوبیاں کہاں تک بیان کی جائیں وہ بچوں میں بچے ، جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں بوڑھے تھے۔"
گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ میں مجھے یاد نہ رہ سکا کہ وہ اس سے پہلے کیا کہہ چکے ہیں۔ حالانکہ اسے یاد رکھنا ضروری تھا کیونکہ اس قسم کے جملے پر میں نے کو ئی تیاری نہ کی تھی۔ ایک سیکنڈ، دو سیکنڈ ، تین سیکنڈ ، کتنا اچھا موقع ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا ۔ اگر گفتگو کا موضوع بدل گیا تو کیا ہوگا، اس خیال نے بولنے پر اُکسا دیا۔
" ارے صاحب بچوں میں واقعی بچے تھے۔" میں نے آبدیدہ ہو کر کہا۔ "میرے بچھے کو بے حد عزیز رکھتے تھے۔ کیا کیا قلابازیاں کھاتے تھے اس کے ساتھ ۔ اُف جس وقت وہ سنے گا۔ ارے صاحب کیا بتاؤں کہ اسے کس قدر عزیز رکھتے تھے ۔ ایک دن بچھے نے ان سے کہا کہ گھوڑا بنو۔ آپ جھٹ اپنے پیچھے آزار بند کی دم لگاکر گھوڑا بن گئے۔ بچے نے داڑھی پکڑی اور ٹخ ٹخ کر کے دوڑایا۔۔۔۔۔۔۔ ہائے کیا بزرگ تھے۔"
میں کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ کئی حضرات کو ہنسی آ گئی ۔ میں نے مرحوم کے چھوٹے بھائی کی طرف دیکھا جو مجھے عجیب نظروں سے گھور رہے تھے۔ لو گوں کے قہقہے سن کرچونکے اور خود بھی کھسیانی ہنسی ہنس کر کہنے لگے۔ " صاحب کیا بتاؤں کتنے زندہ دل تھے۔"
ان کا یہ جملہ سن کر میرا دل خوشی سے بلیّوں اچھلنے لگا۔ تیر نشانے پر لگا تھا مگر شاید "نیم کش " چونکہ کافی حوصلہ افزائی ہو گئی تھی ، اس لیے میں نے فوراً ہی دوسرا جگر پار ہو جانے والا تیر چھوڑا۔
" ہائے وہ جوانوں کے جوان تھے۔" میں نے نتھنے پھلا کر آنسو نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
" کیا عرض کروں ۔۔۔ ہائے ، ایک دن منی بائی کے کوٹھے پر مرحوم سے اتفاقیہ ملاقات ہو گئی ۔ مجھے دیکھ کر ذرا برابر بھی نہ ہچکچائے۔ میں الٹے پاؤں لوٹنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ مجھے کھنچ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ مرحوم اس وقت شراب پی رہے تھے۔ کوئی اور گلاس موجود نہ تھا اپنا ہی گلاس میرے آگے کر دیا۔ ہائے اب ایسے لوگ کہاں ۔ اس بڑدھاپے میں بھی منّی بائی اُن پر کئی ہزار جان سے عاشق تھی ۔ اُف۔"
کھی کھی کی آوازیں دوبارہ بلند ہوئیں اور پھر ایک گرج سنائی دی ۔ دوسرے لمحے مرحوم کے چھوٹے بھائی کا ہاتھ میری گردن پر تھا اور میں خود سڑک پر۔۔۔۔

اس بار بھی غالباً کوئی خاص کمی رہ گئی تھی۔ خیر کوئی پرواہ نہیں کوئی بھی آرٹ جلدی سے نہیں آ جاتا، برسوں کے ریاض کے بعد مہارت نصیب ہوتی ہے۔ اسی شام کی بات ہے کہ میں کلب میں بیٹھا برج کھیل رہا تھا، قریب کی میز پر ایک خاتون جو خاصی مشہور قسم کی افسانہ نگار ہیں، خاکسارانہ انداز میں لوگوں سے اپنے افسانوں کی داد وصول کر رہی تھیں۔
"واقعی آپ غضب کا لکھتی ہیں ۔" ایک صاحب نے کہا۔
"بعض اوقات تو سچ مچ کمال کر دیتی ہیں۔" دوسرے صاحب نے کہا۔
" ارے میں کیا اور کیا میرے افسانے ۔"
محترمہ چہکیں: "یوں ہی ٹوٹا پھوٹا لکھ لیتی ہوں۔"
میں نے تاش کے پتے میز پر رکھ دیے اور پیشانی سے پسینہ پوچھنے لگا۔ میرا دل شدت سے دھڑک رہا تھا۔ موقع شناسی کی رگ پھڑک اٹھی تھی۔ قبل اسکے کہ وہ کچھ اور کہتیں میں بول پڑا۔
"واقعی آپ اتنا ٹوٹا پھوٹا لکھتی ہیں کہ بعض اوقات دو جملوں کا درمیانی فاصلہ ناپے بغیر قاری آگے بڑھ نہیں سکتا، ایک صاحب تو یہاں تک کہہ رہے تھے کہ اپ کا کوئی افسانہ مکمل ہی نہیں ہے۔"
" جی ۔" وہ صاحبہ ہونٹ بھنچ کر گرم لہجے میں بولیں:
" کیا آپ کسی افسانے کے بارے میں ثابت کر سکتے ہیں۔"
ان کے کڑے تیور دیکھ کر میں بوکھلا گیا۔ یوں بھی عورتوں سے خائف رہتا ہوں، خصوصاً جب عورت غصّے میں ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کہوں۔ بہرحال کچھ نہ کچھ کہنا ہی تھا، لہٰذا لڑکھڑاتی زبان کا چرخہ چل پڑا۔
" آپ غلط سمجھیں میں تو ۔ میں تو۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے افسانے بلکل لغو اور لچر۔ارے توبہ ۔لاحول ولاقوۃ۔ کہنے کا مطلب یہ کہ آپ بلکل ۔بل بل بل بلکل گدھی ۔ارے لاحول۔"
میں نے اپنا منہ دونوں ہاتھوں سے بھینچ لیا۔
شَٹ اَپ ۔ ان کی سُریلی آواز امریکن انجن کی کریہہ الصوت سیٹی کی طرح گونج اٹھی۔
بعد میں سنا ہے کہ وہ مجھ پر ہتک عزت کا دعوی کرنے والی ہیں۔

اس قدر حوصلہ شکنیوں کے بعد بھی میرے عزم و استقلال کا وہی حال تھا۔ اور یہی چیز مجھے اس بات کا یقین دلا رہی تھی کہ ایک نہ ایک دن مرکزی حکومت کے کسی شعبے میں کسی بڑے عہدے پر فائز ہونے کا موقع مل جائے گا۔ اچھا ہی ہوا جو میں لیکچرار نہ ہو سکا۔
اس سلسلہ میں اپنے تجربات کہان تک گنواؤں کیونکہ فہرست بہت طویل ہے۔ چلتے چلاتے ایک واقع اور بیان کروں گا تاکہ آپ بھی اس سے سبق حاصل کر سکیں۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ میں محض اس لیے لکھتا ہوں کہ بہتوں کا بھلا اس کے پڑھنے سے ہوگا۔
نہ تو میں شہرت کا بھوکا ہوں اور نہ مضامین کے معاوضے کا، کیوں کہ کیونکہ شہرت کھانے سے اکثر بد ہضمی ہو جاتی ہے اور معاوضہ ۔؟ یہ مغربی لعنت ہے۔ اس کا دستور صرف مغربی مملک میں ہے۔ اپنے یہاں بھی بعض جرائد لکھنے والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ہمیں ہر قسم کی مغربی لغویات سے باز آ جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہمارا ہر ادیب راک فیلر اور ہنری فورڈ ہو جائے گا۔ پھر رسائل کا جو انجام ہوگا، وہ ظاہر ہے۔
اس لیے ازراہ دُور اندیشی معاوضے قطعی بند ۔ لاحول ولاقوۃ۔ کہاں کی بات کہاں نکل آئی ۔ ہاں تو میں اپنا ایک بہت ہی ہمت شِکن اور صبر آزما تجربہ بیان کرنے جا رہا تھا۔ ہوا یہ کہ محلے کی ایک معمّر دوشیزہ ایک نابالغ لڑکے کو اغوا کر کے لے گئی۔ آپ جانتے ہی ہیں ایسے موقع پر کیا کچھ نہیں ہوتا۔ محلے میں کئی محاذ قائم ہو گئے۔ ہر محاذ پر ہر وقت دو چار مجاہد موجود رہتے اور کچھ اس قسم کی دل ہلا دینے والی گفتگو کرتے کہ ہر لحظہ آفتاب سوا نیزے پر آتا معلوم ہوتا۔
بھلا بتائیے کہ میرے لیے اس سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا تھا اور پھر مجھے دل کی بھڑاس بھی تو نکالنی تھی۔ آخر اس نامعقول عورت نے اس نیک کام کے لیے اُسی لڑکے کو کیوں منتخب کیا؟ کیا میں۔۔۔ خیر جانے دیجیے، آپ خود ستائی سمجھیں گے۔
بہرحال کہنے کا مطلب یہ کہ مجھے بھی اس جہاد میں حصہ لینے کی ٹھان کر گھر سے نکلنا پڑا۔ گلی کے موڑ پر پان والے کی دکان کے قریب تین چار مجاہد نظر آئے۔
" کچھ سنا آپ نے ؟" ایک صاحب مجھے دیکھ کر بولے ۔
" ہاں صاحب سنا؟"
میں نے اپنے چہرے پر زلزلے کے آثار پیدا کرتے ہوئے کہا۔ " قرب قیامت کی نشانیاں ہیں، جناب ۔"
" ارے صاحب دلّی لٹی ، لاہور برباد ہوا۔ اب اس شہر کی باری ہے۔" خان صاحب اپنی ابابیلی مونچھیں پھڑکاتے ہوئے بولے۔ " اس پر بھی قہر نازل ہوگا۔"
" دہلی کا بھی عجیب واقعہ ہے۔" ایک صاحب نے کہا۔ "سننے میں آیا ہے کہ جب دلّی لٹ چکی تو کچھ باایمان لوگ ایک بزرگ کے پاس گئے اور ان سے دلّی کی تباہی کی وجہ پوچھی ۔ انہوں نے جواب دیا۔
'فلاں محلے میں کل ہی ایک بچہ پیدا ہوا ہے، اس سے جا کر پوچھو تم کس کی اولاد دہو۔۔۔۔ ؟۔۔۔۔۔ تمہیں خود بخود دلّی کی تباہی کا راز معلوم ہو جائے گا۔'
چنانچہ لوگ بتائے ہوئے پتہ پر گئے۔ واقعی وہاں پر ایک بچہ پیدا ہوا تھا۔ ایک مرد صالح نے بزرگ کے سوال کو بچے کے سامنے دُہرایا ، بچہ بعد حمد و ثنا کے گویا ہوا کہ وہ اپنے سگے ماموں کی اولاد ہے۔ اب آپ خود خیال فرمائیے ۔ توبہ توبہ ۔ معاذ اللہ ۔
"دلّی کیوں نہ لٹتی ۔ خدا کا قہر کیوں نہ نازل ہوتا۔"
جُملہ حاضرین اس بیان پر انگشت بدنداں رہ گئے۔۔۔۔ اور میں تو جھوم اٹھا۔۔۔۔ دل نے کہا:
او ناہنجار اسے کہتے ہیں ہاں میں ہاں ملانا ۔ میں نے دل سے کہا ٹھہر جاؤ دوست، اگر اس سے زیادہ شاندار طریقے پر ہاں میں ہاں نہ ملائی تو کچھ نہ کیا۔
" ہاں میاں کلجگ ہے ،کلجگ ۔"
خان صاحب ٹھنڈی سانس لے کر بولے ۔ " جب تک ہمارے گھروں کا رکھ رکھاؤ ٹھیک نہ ہوگا۔ یہی سب کچھ ہوتا رہے گا۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت بہت ضروری ہے۔ میں تو جناب سختی سے کام لیتا ہوں ۔ بس یہ سمجھ لیجئے۔ کہ میری لڑکیاں اپنے خالہ زاد بھائیوں سے تک پردہ کرتی ہیں۔"
میں سمجھا تھا کہ ابھی کچھ اور کہیں گے مگر خان صاحب اسی جُملے پر رک گئے ۔ میں اچھی طرح تیار نہ ہو پایا تھا۔ اگر بو لنے سے پہلے سوچنے لگتا تو ممکن تھا کہ کوئی دوسرا اس زرّین موقع سے فائدہ اٹھا لیتا اس لیے میں بول پڑا۔
" ارے خان صاحب ، یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے ، بھلا آپ کے یہاں کی مستورات کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ میر جمن صاحب آپ سے کیا عرض کروں ، ابھی پرسوں کی ہی بات ہے کہ خان صاحب کی بڑی صاحب زادی کوٹھے پر کھڑی تھیں، میری نظر پڑ گئی چھوٹتے ہی آنکھ مار دی اور سینے پر ہاتھ مار کر دو چار عشقیہ اشعار بھی پڑھے۔ مگر واہ ۔ لڑکی ہو تو ایسی ہو، وہ دن ہے اور آج کا دن، پھر صاحبزادی کو ٹھے پر نظر نہیں آئیں۔ اور خان صاحب کی بہو کا واقعہ۔۔۔۔"
"ٹھک۔۔۔"
کان کے قریب آواز سنائی دی، سر چکرایا۔ اور پھر آنکھ کھلی تو میں خان صاحب سے دس گز کے فاصلے پر نالی میں پڑا ہوا تھا۔ اب سمجھا کہ معاملہ کیا تھا۔ مگر واہ ری ہمت میں نے یہ زرین موقعہ بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اور کنپٹی سہلاتا ہوا بولا۔
" واہ خان صاحب کیا مکا عنایت کیا ہے آپ نے، ارے اس وقت تو رستم کا پِتہ بھی پانی ہو جاتا۔"
اور ۔ پھر ۔ اس سے آگے کہنے کی نوبت نہیں آئی۔ کیونکہ ٹھک ۔ٹھک ۔ کی بے شمار آوازیں میرے کانوں میں گونج اٹھیں اور چالیس تک گننے کے بعد میں اچانک گنتی بھول گیا۔

اس وقت میں خیراتی اسپتال کے جنرل وارڈ کے ایک جَھلنگے پر چت لیٹا ہوا ببانگ دہل یہ اعلان کرتا ہوں کہ میری ہمت اب بھی پست نہیں ہوئی ۔ اب تو مجھے ضد سی ہو گئی ہے۔ اگر زندہ رہا (کیونکہ اس کے امکانات کم ہیں) تو یہاں سے چھٹکارا پاتے ہی چاپلوسی شروع کر دوں گا۔

اے میری عظیم ترین روح ، میں تجھے سلام کرتا ہوں۔

Chaaplusi. Humrous Essay by Ibn-e-Safi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں