غسلیات - انشائیہ از کرشن چندر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-25

غسلیات - انشائیہ از کرشن چندر

shower-bath
بہت سے بچوں کا نفسی تجزیہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ نہانے کی رسم پتھر کے زمانے بلکہ اس سے بھی بہت پہلے زمانے کی یادگار ہے ، جب کہ اس کرہ ارض پر صرف پانی ہی پانی تھا ۔ آہستہ آہستہ اس پانی میں مچھلیاں ، مینڈک، گھڑیال اور مگر مچھ پیدا ہوئے اور تخلیق حیات کے مختلف منازل طے کرتے ہوئے مختلف انواع ارتقائی درجوں کے بعد انسان کی موجودہ صورت کو پہنچے۔ چنانچہ آج بھی بیسویں صدی کا بچہ جب "ٹب میں پڑے پڑے چلا اٹھتا ہے تو یقینا پانی کے ٹھنڈا ہونے کی شکایت نہیں کرتا بلکہ اس آبی زمانے کی وحشی رسم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے جس کے نام سے ڈارون کا نام ہمیشہ کے لئے وابستہ ہے ۔

اس زمانے میں بہت سی پرانی وحشیانہ رسمیں متروک ہوچکی ہیں ، مگر نہانے کے متعلق ابھی کچھ عرصہ اور جہاد کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ میرے بہت سے احباب جو اس قابل نفریں رسم کے خلاف جہاد کرتے کرتے تنگ آچکے ہیں اور کچھ بہت پر امید نہیں ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک پنجاب میں پانچ دریا بہتے رہیں گے انسان بدستور ان میں نہاتے اور گھڑیال ، مگر مچھ اور خوفناک بھنوروں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ یہاں میں ان لوگوں کا تفصیل سے ذکر کرنا نہیں چاہتا جو غسلخانوں میں نہاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ چنانچہ اندازہ لگایاگیا ہے کہ پنجاب میں جہاں متوسط طبقہ کے لوگ کافی تعداد میں ہین۔ ہر دو ہزا ر افراد کے لئے صرف ایک غسلخانہ دستیاب ہوسکتا ہے اور بعض اضلاع میں تو تناسب کا یہ فرق بہت بڑھ جاتا ہے ۔ چنانچہ محکمہ دیہات سدھار کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ضلع ہوشیار پور میں ایک بھی غسلخانہ نہیں ۔
لیکن میں اپنے احباب کے نکتہ نگاہ کو درست نہیں سمجھتا، میں مستقبل کے متعلق اس قدر نا امید نہیں ہوں ۔ ہوسکتا ہے کہ میرا عقیدہ محض ایک نام نہاد رسمی رجائیت کے فلسفہ پر مبنی ہو ۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ دنیا میں یاسیت اور تذبذب میں پڑے ہوئے دلوں نے آج تک کچھ نہیں کیا ۔ اور پھر میرے پاس تو پر امید ہونے کے لئے بہت سی وجہیں ہیں ۔ انہیں یہ تفصیل بیان کردینا چاہتا ہوں ۔

(1) اس سیاسی خلفشار کے زمانہ میں لوگوں کو غسل سے وہ دلچسپی نہیں رہی جو پہلے تھی ، نہانا ایک انفرادی فعل ہے اور فسطائیت یا اشتراکیت ہر دو مقبول عمومی فلسفے انفرادیت کو مٹادینے پر تلے ہوئے ہیں۔

(2) جوں جوں "تہذیب" بڑھتی چلی جارہی ہے انسان کو پانی سے نفرت ہوتی جارہی ہے اور نہانا تو محض اب نچلے درجوں کی پسماندہ جماعتوں کے لئے ر گیا ہے ۔ ورنہ شائستہ مہذب لوگ تو صرف ڈرائی کلین ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ کنویں پر نہاتے نہاتے ایک پوربئے کا دوسرے پوربئے سے کہنا" ارے یار، تو نے لٹیا ہی ڈبو دی۔" ذرا خیال کیجئے کتنا یتیم، غریب، افلاس زدہ فرقہ ہے ، خود اس بلند حوصلی اور تہذیب سے قطعاً عاری ہیں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی مجھے یہ بتادے کہ وہ دن کے کئے بجے نہاتا ہے تو میں یہ وثوق سے بتا سکتا ہوں کہ مکمل تہذیب یافتہ ہونے کے لئے ابھی اسے کتنے مدارج اور طے کرنے ہیں۔

(3) مثال کے طور پر
صبح چار بجے کون نہاتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ پوربیا، بنیا۔ میونسپلٹی کی سڑکوں پر پانی چھڑکنے والا مہتر!
صبح چھ بجے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکیہ، دفتر کا بابو، پولیس کا سپاہی
آٹھ بجے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروفیسر، کالج کا لڑکا۔
دس بجے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب بہادر، لیڈر
بارہ بجے۔۔۔۔ منسٹر، مجسٹریٹ، رئیس اعظم
اس کے علاوہ جوں جوں آپ یہ مدارج طے کرتے جائیں گے ، آپ دیکھیں گے کہ نہانے میں وقت بتدریج کم صرف ہورہا ہے۔ اگر آپ پہلے غسل کرتے وقت آدھ، پون گھنٹہ صرف کرتے تھے تو اب صرف دو منٹ پر آجائیں گے ۔ اگر پہلے سارے جسم کو پانی میں باربار ڈبوتے تھے تو اب صرف چہرہ، ہاتھ، اور پاؤں کو تر کرکے "نہاتے" اور یقینا جس طرح ایک روز ہندوستان کو سوراج حاصل ہوگا اسی طرح وہ دن بھی ضرور آنے والا ہے جب کہ نہانے کی رسم اس ہندوستان جنت نشان سے قطعاً ہٹ جائے گی ۔ صرف کہیں کہیں جس طرح آج کل بعض راسخ الاعتقاد ہندو، سنیچر وار کو تیل کی پیالی میں پیسہ ڈال کر اپنا منہ دیکھ لیتے ہیں۔ بعض پرانی وضع کے بزرگوار چلتے چلتے ہفتہ کے روز پانی کی پیالی میں چہرہ دیکھ لیا کریں گے ۔اور نہایت غرور سے کہا کریں گے "آج ہم نے تو غسل کرلیا۔ کتنی مدت کے بعد آج پانی میں منہ دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ خدا غارت کرے اس نئے زمانے کو آج کل لوگ نہاتے بھی نہیں۔ جب ہم چھوٹے سے تھے تو ہماری اماں ہفتہ میں ایک دن ہمارے سارے جسم کو پانی سے تر کردیا کرتی تھیں اور پتہ نہیں یہ کہاں تک سچ ہے مگر ہمارے دادا جان ذکر کیا کرتے تھے کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ جب لوگ ہر روز اپنے جسموں کو پانی سے بھگو لیاکرتے تھے۔ (ایک جھر ی جھری لے کر )واہ، واہ اس نہانے میں کیا مزہ ہوگا!

غسل کے نقصانات جتانے کی ضرورت نہیں، وہ پرانا عقیدہ کہ غسل کرنے سے مسام کھلتے ہیں، بدن صاف رہتا ہے اور جی ہلکا پھلکا رہتا ہے ۔ کبھی کا اپنی موت آپ مرچکا، میں خود اپنی پچیس سالہ تجرباتی زندگی کی بنا ء پر کہہ سکتا ہوں کہ راوی میں نہانے سے مسام کھلتے نہیں بلکہ جوکھلے ہیں وہ بھی اکثر بند ہوجاتے ہیں اور جی کے ہلکے پھلکے رہنے کے متعلق صرف یہ عرض ہے کہ اگر غلطی سے راوی کا دو گھونٹ پانی اندر چلاجائے تو ہیضہ ہوجانے کا احتمال رہتا ہے ۔ غالباً دریا کے کنارے شمشان بھومی بنانے کی غرض و غایت یہی تھی۔
پھر اکثر یہ کہاجاتا ہے کہ نہانے سے بدن چست ہوتا ہے اور رنگ نکھرتا ہے تو سائینٹفک نکتہ نگاہ سے اسے بھی غلط سمجھنا چاہئے ۔ نہانے کے فی الفور بعد بدن چست نہیں ہوتا بلکہ سکڑتا ہے ۔ باقی رہا رنگ کا نکھرنا ، اگر نہانے سے رنگ نکھرتا تو جنوبی ہندوستان کے باشندے کب سے"گورے" بن چکے ہوتے اور سمندر کی ہر ایک مچھلی کا رنگ سفید ہوتا ۔ مگر اس کے متعلق ایک کہانی عرض کرنا چاہتا ہوں۔
دریائے تاپتی کے کنارے سات بھائی رہتے تھے ۔ وہ بہت لمبے اور نحیف الجسم تھے ۔ ان کے جسم اس قدر کمزور تھے کہ وہ اکثر ڈر کے مارے اپنے گھروں سے باہر نہ نکلتے ۔ مبادا ہوا کہ کوئی تیز و تند جھونکا انہیں اڑا کر لے جائے۔ وہ ہر صبح اٹھ کر اپنے پھونس کے جسموں کو دیکھتے اور قدرت کی کاریگری پر حیران ہوتے ۔ جس نے ان کو ابھی تک زندہ رکھا ہوا تھا ۔ کوئی بھر کلائی پکرے ہوئے نبض ٹٹولتا رہتا ، کوئی اپنے پتلے، کاغذی جسم پر بار بار ہاتھ پھیرتا اور سوچتا یا الٰہی اس جسد خاکی میں سانس کہاں اٹکا ہوا ہے ؟
ان کی سات بیویاں تھیں ۔ موٹی، بانجھ اور بد صورت بیویاں ، وہ سب کی سب اس قدر کریہہ النظر تھیں کہ ہر ایک بھائی یہ سوچ کر دل میں کڑھتا رہتا
" ہو نہ ہو میرے اس بھائی کی عورت میری بیوی سے قدرے اچھی ہے ، اگر "وہ" مجھے مل جاتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔"

سات بھائیوں کے گھر میں نہانے کی رسم قطعاً متروک ہوچکی تھی۔ بھائی تو اس خیال سے نہیں نہاتے تھے کہ چونکہ پانی میں تحلیل کرنے کی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کہیں وہ نہاتے نہاتے پانی میں بالکل حل ہی نہ ہوجائیں ۔ اور بیویوں کو اس خیال سے نہانے نہیں دیتے تھے کہ دریائے تاپتی میں گھڑیال بہت رہتے ہیں، جو یقینا موٹے جسموں والی عورتوں کو بہت پسند کریں گے ۔
ایک دن تیسرے بھائی کی بیوی کے دل میں شیطان نے یہ خیال ابھارا کہ اسے ضرور نہانا چاہئے۔ چنانچہ وہ بیوی دوپہر کے وقت جب سب گھڑیال دریا کے کنارے ریت پر پڑے سوتے تھے، دریا پر گئی اور نہا کر گھر لوٹ آئی ، جب وہ نہاکر لوٹی تو اس نے اپنے سیاہ بال پیٹھ پر پھیلائے ہوئے تھے ، اس کے چہرے پر ایک عجیب چمک تھی اور اس کے پاؤں زمین پرنہ پڑتے تھے۔ جب بھائیوں نے اسے دیکھا تو بیتاب ہوگئے۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے ۔ یہ میری بیوی ہے۔ نہیں یہ میری بیوی بنے گی ۔ اسے میں لوں گا۔ اسے میں لوں گا ، گالی گلوچ سے نوبت دھول دھپا تک پہنچ ۔ طمانچوں کا لگنا تھا کہ سارے بھائی چند لمحوں میں جاں بحق ہوگئے اور بیویاں بیوائیں بن گئیں اور جب گھڑیالوں کویہ خبر لگی تو تاپتی کے کنارے سے رینگ رینگ کر آئے اور ساتوں بیواؤں کو زندہ نگل گئے۔
آج دریائے تاپتی کے کنارے صرف ایک پھونس کا بڑا سا جھونپڑا ہے جس میں آدھی رات کے وقت کبھی کبھی یہ ہولناک صدائیں بلند ہوتی ہیں۔" اسے میں نہ دوں گا، اسے میں نہ دوں گا، یہ میری ہے!
نتیجہ: نہانا اخلاقی جرم ہے ۔

آخر میں آپ استفسار کریں گے تو یہ سولہ آنہ درست کہ نہانا ایک قبیح رسم ہے ، اسے ملیا میٹ کردینا بہتر ہوگا ۔ اس کے خلاف پرزو رپروپیگنڈہ کیاجانا چاہئے ، مگر صاحب ی تو سب وقتی، رسمی، ہنگامی باتیں ہیں ، آخر آپ کا"پروگرام " کیا ہے بغیر پروگرام کے آج کل کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوتی۔
لگے ہاتھوں وہ بھی سن لیجئے ۔
(1) جو امیر شخص نہائے اسے سماج سے باہر نکال دیاجائے ۔
(2) دفعہ144 الف میں یہ الفاظ ایزاد کئے جائیں۔
"ہر گاہ کہ ہمارے نوٹس میں آیا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ جو غریب شخص بلوہ کرتا ہو یا نہاتا ہوا پکڑا جائے گا اسے فی الفور گولی سے ہلاک کر دیاجائے گا۔۔۔
میں ابھی یہاں تک لکھنے پایا تھا کہ گنگو میرے سامنے میز کا کنارہ پکڑ کر کھڑا ہوگیا اور بولا:
" بابو جی، غسلخانے میں پانی دیر سے دھرا ہے۔ آپ جلد سے نہالیں ، ورنہ پانی ٹھنڈا ہوجائے گا۔"
میں قلم چھوڑ کر میز کی دراز سے ایک تولیہ نکال کر یہ شعر گنگناتا ہوا غسلخانے کی طرف بھاگ گیا۔
نہاؤ گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

ماخوذ:
مجلہ "نقوش" (طنز و مزاح نمبر)
شمارہ 71-72 (جنوری-فروری 1959)
ناشر: ادارہ فروغ اردو ، لاہور (پاکستان)

Ghuslyaat. Humorous Essay by: Krishan Chander

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں