مطالعہ - اہمیت طریقہ کار اور تقاضے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-14

مطالعہ - اہمیت طریقہ کار اور تقاضے

study
لیکچر: ثناءاللہ صادق تیمی
جمع و ترتیب : آصف تنویر تیمی مدنی

جامعہ امام ابن تیمیہ کے طلبا و طالبات کے سامنے دیے گئے ثناءاللہ صادق تیمی کے لیکچر کو مقالہ نگار کے رفیق درس اور عزیز دوست مولانا آصف تنویر تیمی مدنی نے اپنی یادداشت سے تحریری شکل دے دی ہے۔ کہیں کہیں بطور خاص کتابوں کے ذکر میں انہوں نے اضافہ سے بھی کام لیا ہے۔

مطالعہ کی اہمیت یوں سمجھیں کہ ایک بچہ جب اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولتا ہے تو اسے ہر پل اپنی ماں کے سہارے،مناسب غذا خاص طور سے شروع کے کچھ مہینوں میں وہی غذا دی جاتی ہے جو آسانی سے ہضم ہوجائے،ایسی غذا سے مائیں اپنے بچوں کو بچاتی ہیں جو بجائے فائدے کے نقصان کا باعث ہوں، یا بچے کو سرے سے غذا ہی نہ دی جائے مائیں دیکھ ریکھ چھوڑ دیں تو بچہ اپنی جان دے بیٹھے گا۔ایک اور مثال لیں مچھلی،لوگ کہتے ہیں مچھلی جل کی رانی ہے۔مچھلی کی زندگی پانی پر منحصر ہوتی ہے۔اگر مچھلی کو خشکی پر رکھ دیا جائے تو بے چاری مچھلی چند گھنٹوں کی مزاحمت کے بعد دم توڑ دے گی۔آخری مثال لیں ہوا کی،ہوا ہر انسان کی بنیادی اور فطری ضرورت ہے۔کوئی بلا ہوا کے زندہ نہیں رہ سکتا۔اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ ایسا شخص جسے ہوا نہیں ملتی یا ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں ہوا کا گزر نہیں ہوتا تو اس شخص کا دم گھٹنے اور سانس پھولنے لگتا ہے بالاخر وہ موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔

سابقہ مثالوں میں آپ نے دیکھا کہ بچہ بلا دودھ کے،مچھلی بلا پانی کے اور آدمی بلا ہوا کے رہ نہیں سکا۔ بعینہ یہی حال مطالعہ کا ہے۔ایک اچھا عالم،ایک بڑا اسکالر اس وقت تک بنا نہیں جاسکتا جب تک کہ مطالعہ نہ کیا جائے۔مطالعے کو عادت ثانیہ نہ بنالیا جائے۔ ایک بات اور یاد رکھیں کہ جس کو مطالعہ کی عادت یا اس کی لت پڑجاتی ہے وہ آسانی سے جاتی بھی نہیں ہے بلکہ بسا اوقات وہ کھانے پینے اور بال بچوں سے بھی زیادہ مطالعہ کو اہمیت دینے لگتا ہے۔اور یہی عمل اس کی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔اس کو رفعت وبلندی عطا کرتا ہے۔اس کو دوسروں سے ممتاز اور یگانہ روزگار بناتا ہے۔
مطالعے کا طریقہء کار کیا ہو۔کس نہج پر ہم مطالعہ کریں تاکہ ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو، یہ امر نہایت اہم ہے۔

جب ہم مطالعہ کہتے،بولتے یا اس پر کچھ لکھتے ہیں تو عام طور سے اس میں دو چیز داخل ہوتی ہے۔درسی کتابوں کا مطالعہ، غیر درسی کتابوں کا مطالعہ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ درسی کتابیں غیر درسی کتابوں سے کئی گنا اہم ہوتی ہیں۔ ایک موضوع کی سیکڑوں کتابوں میں سے کوئی ایک خوش نصیب کتاب ہوتی ہے جسے بڑے ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ حضرات اسے نصاب کے لئے منتخب کرتے ہیں۔لہذا طلبہ کے لئے از حد ضروری ہے کہ پہلے وہ درسی کتابوں میں محنت کریں،ان کتابوں کا پیشگی اور بعد از درس خوب اچھی طرح مراجعہ کریں۔اس لئے کہ یہی درسی کتابیں طالب کے مستقبل اور آگے کی زندگی کا سمت متعین کرتی ہیں-اس لئے بھی کہ اگر بنیاد کمزور تو ہوا کا ایک جھونکا عمارت کو آسانی سے منہدم کرسکتا ہے۔اس لئے سب سے پہلے طلبہ خارجی مطالعے کی بجائے درسی کتابوں میں کڑی محنت کریں تاکہ اندر سے وہ مضبوط ہوجائیں، اگر دیوار مضبوط نہیں ہوگی،بنیاد مستحکم نہیں ہوگی تو چھت کے اندر پائیداری یا استحکام نہیں ہوگا۔آپ یوں سمجھیں درسیات روٹی اور چاول کے مثل ہیں اور خارجی مطالعہ چٹنی اور سلاد کی طرح۔اور کوئی ایسا نہیں جو صرف چٹنی اور سلاد پر اکتفا کرلے اسے چاول اور روٹی کی ضرورت نہ ہو۔بلکہ بہت ممکن ہے کہ اگر آپ صرف چٹنی،سلاد یا پاپڑ کھائیں تو آپ بیمار پڑجائیں لیکن اگر چاول اور روٹی کے بعد ان چیزوں کو کھائیں گے تو فائدہ ہوگا۔کچھ ایسی ہی صورت درسی اور غیر درسی کتابوں کے مطالعے کی ہے۔

بعض طلبہ بھول بھلیوں میں ہوتے ہیں۔ غیر درسی کتابوں کو درسی کتابوں پر ترجیح یا مطالعہ کے نام پر نصابی کتابوں کی ناقدری کرتے ہیں۔در اصل ایسے طلبہ اپنا مستقبل تاریک کرتے ہیں اس لئے کہ نصابی کتابیں اصل اور غیر نصابی کتابیں فرع ہیں بلکہ مطالعہ کا عمل نصابی کتابوں سے ہی ہوکر جاتا ہے۔خلاصہ یہ کہ پہلے آپ اپنے آپ کو مضبوط کریں،درسی کتابوں میں کمال پیدا کریں پھر دیگر کتابوں کے مطالعے کی طرف رخ کریں۔
غیر درسی کتابوں کے مطالعہ کا بھی طریقہ ہے۔ایسا نہیں کہ بس جیسے تیسے پڑھتے جائیں۔ کتاب کے نام پر جو بھی رطب ویابس ہاتھ لگے پڑھنا شروع کردیں۔نہیں بلکہ جس طرح بچے کو مناسب وقت پر مناسب غذا دی جاتی ہے اور وہ غذا بچے کے جسم میں قوت وتوانائی پیدا کرتی ہے کم وبیش یہی طریقہ مطالعے کے لئے بھی اپنانا سود مند ہوگا۔

اردو ہی کو لیں جو ہماری مادری زبان ہے ہمیں بہت دقت یا دشواری اس زبان کے سیکھنے یا سمجھنے میں نہیں اٹھانی پڑتی۔ہم گھر میں اپنے لوگوں سے سن کر آسانی سے یہ زبان سیکھ جاتے ہیں۔تاہم اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اردو کو بطور زبان استعمال کریں،اس میں اچھی گفتگو یا کوئی مضمون لکھیں تو اس کے لئے تھوڑی توجہ ہمیں دینی ہوگی۔ ہم نے بارہا یہ محسوس کیا ہےکہ بعض طلبہ اردو میں بھی ایسی ایسی غلطی کرتے ہیں جن پر بڑی آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔اکثر دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہم مدارس کے فارغیں بہت کم اردو کو اس طرح قواعد کے ساتھ پڑھتے ہیں جیسے عربی یا انگریزی کو پڑھتے ہیں ۔اس لئے عام طور پے قواعد کی خامیاں ہماری گفتگو یا تحریروں میں نظر آتی ہیں۔اگر کوئی طالب علم مولوی عبد الحق کی"قواعد اردو"ایک آدھ بار پڑھ لے تو شاید پھر وہ غلطیاں نہ ہوں۔
اس کے بعد ایسی کتابوں کا انتخاب ہونا چاہئے جو آسان ہوں ، شیر خوار بچے کی ہلکی خوراک کی طرح۔ یکبارگی اگر بوجھ لاد دیا جائے تو اس کا کوئی متحمل نہیں ہوسکتا۔ بتدریج اگر کام کیا جائے تو ان شاء اللہ کام بھی ہوجائے گا اور شاق بھی نہیں گزرے گا۔

ایک سوال یہ ہے کہ کیسے معلوم ہو کہ کون سی کتاب آسان اور کون سی کتابیں مشکل ہیں یقینا ایسے وقت میں اساتذہ کی رہنمائی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ استاد کا مشورہ یا ان کے تجربے سے طالب علم کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔مثال کے طور پر ہم اردو کے چھوٹے بچوں کو یہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ آپ اردو سیکھنے کے لئے مائل خیر آبادی،ابن الفرید،اسماعیل میرٹھی یا حفیظ میرٹھی وغیرہ کی کتابیں پڑھیں۔ اس لئے کہ وہ آسان اور شستہ زبان لکھتے ہیں۔اس کے بعد شبلی نعمانی،سید سلیمان ندوی،ابو الکلام آزاد،ڈپٹی نذیر احمد،عبد الماجد دریابادی وغیرہ کی متعدد کتابیں پڑھی جائیں۔ساتھ ہی یاد کی جانے والی عبارتیں،اقتباسات،استعارے اور تلمیحات از بر کرلی جائیں۔کتابوں پر تبصرہ کیا جائے،اپنی فکر اگر دوران مطالعہ پیدا ہو تو اسے لکھا جائے۔ روزنامچے تحریر کیے جائیں اور اپنی ڈائری تیار کی جائے اس سے دو فائدہ ہوگا ایک طرف آپ کا مطالعہ بھی ہوگا ساتھ ہی آپ مصنف اور قلم کار بھی بن جائیں گے الگ سے محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

عربی کتابوں کے مطالعہ کا بھی یہی طریقہ ہے پہلے آسان کتابوں کا انتخاب کیا جائے جیسے کامل کیلانی کی مجموعہ القصص،ابوالحسن علی ندوی کی قصص النبیین،القراءة الراشدة ، اسی طرح مصر سے چھپی القراءة الرشيدة وغيره سے آغاز کیا جائے۔اور پھر محمد الحسنی ،طہ حسین، محمود عباس عقاد،لفطی منفلوطی، محمدصادق رافعی،احمد حسن زیات، کی کتابوں کو پڑھاجائے اور یہاں بھی اچھے اقتباسات وغیرہ ازبر کئے جائیں، تحریری تبصرہ کرنے سے گریز نہ کیا جائے،اور خوب خوب بولنے کی پریکٹس کی جائے،اکیلے میں زور زور سے عبارت خوانی بھی کی جائے تاکہ زبان میں روانی آئے اور جھجھک دور ہو۔
یاد رکھیں ایک ہوتا ہے زبان کا سیکھنا دوسرا ہے کسی موضوع سے متعلق معلومات فراہم کرنا، اور ان دونوں چیزوں میں زبان کے علم کو ترجیح حاصل ہے- اگر آپ زبان ہی نہ سمجھیں گے تو موضوع سے متعلق کیا جان سکیں گے، اس لئے پہلے زبان سیکھیں اور اس کا طریقہ وہی ہے جو ابھی بتلایا گیا۔

جہاں تک کسی خاص موضوع سے متعلق مطالعے کا سوال ہے تو اس کا سود مند طریقہ یہ ہے کہ پہلے آپ اس موضوع سے متعلق کسی مستقل کتاب کا انتخاب کریں جيسے پردہ کے اوپر بالتفصیل مطالعہ کرنا ہو تو مودودی صاحب کی "پردہ" از اول تا آخر ایک بار پڑھ جائیں،اسی طرح سود سے متعلق مطالعہ کرنا ہو تو مودودی ہی صاحب کی"سود"بالاستیعاب پڑھیں۔ساتھ ہی ان موضوعات پر مل سکیں تو دیگر کتابوں کا مطالعہ بھی کریں۔
پھر ان کتابوں میں آئی آیتوں اور احادیث کی تفسیر اور تشریح کے لئے مفصل کتابیں الٹیں۔اس کے لئے اگر ابن حجر کی "فتح الباری"،امام نووی کی "المنہاج"،شوکانی کی "نیل الاوطار"،عبد الرحمن مبارک پوری کی "تحفة الاخوذي"،شمس الحق عظيم آبادی کی "عون المعبود" ۔۔۔
یا کتب تفاسیر میں تفسیر طبری،تفسیر قرطبی،تفسیر بغوی،تفسیر ابن کثیر،ےتفسیر فتح القدیر، تفسیرجلالین اور عامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کی تفسیر "تیسیر الرحمن" کے ساتھ "احسن البیان" وغیرہ بھی دیکھنے کی ضرورت پڑے تو ہم ضرور دیکھیں۔
ان شاء اللہ اس کا اتنا بڑا فائدہ ہوگا جس کا تصور بھی آپ ابھی نہیں کرسکتے۔ آپ اس موضوع کے متخصص ہوجائیں گے۔ اس موضوع پر لکھنا اور بولنا آپ کے لئے آسان ہی نہیں بلکہ بچوں کا کھیل ہوگا۔ہمارے طلبہ مذکورہ کتابوں سے درسیات میں بھی مدد لے کر اپنی معلومات میں غیر معمولی اضافہ کرسکتے ہیں جیسا کہ ہمارے پرانے علماء کیا کرتے تھے۔ وہ تو درس میں حاضر ہونے سے قبل متعلقہ درسی کتابوں کی شروحات اور حواشی تک پڑھتے تھے تاکہ درس سمجھنے میں آسانی ہو۔افسوس کہ یہ خوبیاں اب ہمارے طلبہ میں بہت کم پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے علم میں وہ پختگی نہیں ہوتی جو پرانے چراغوں میں تھی۔اور جو طلبہ یہ طریقہ اپناتے ہیں وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں۔

ہمارے موضوع کا آخری عنصر مطالعہ کے تقاضے ہیں۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ ہر چیز کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جب تک ان تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے اس چیز میں کامیابی ممکن نہیں ہوتی؛اس کے لئے آپ ایک کسان کی مثال لے سکتے ہیں جب تک وہ فصل کے لئے زمین کو ہموار نہیں کرے گا،بیج نہیں ڈالے گا،سینچائی نہیں کرے گا حسب ضرورت اس کے کھاد پانی کا انتظام نہیں کرے گا ساتھ ہی محنت ومشقت برداشت نہیں کرے گا تو فصل کٹائی کے وقت اس کے گھر دانا نہیں آئے گا،جب دیگر کسانوں کے گھر اناج سے بھرے ہوں گے یہ بے چارہ کسان سوائے افسوس اور حسرت وندامت کے کچھ نہیں کرسکتا۔
بالکل ایسے ہی مطالعے کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں جیسے؛ طلبہ درسی وغیر درسی کتابوں کے پڑھنے میں دلچسپی لیں،خوب محنت کریں،اگر ضرورت پڑے تو جسمانی تکالیف بھی برداشت کریں،کلاس میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں،غیر ضروری تبصروں سے بچیں،کم سونے کی عادت ڈالیں،لوگوں سے اپنے روابط کم رکھیں موبائل اور انٹر نیٹ کی دنیا سے لگاو نسبتا کم ہو اور کتابوں واساتذہ کرام سے تعلقات زیادہ ہوں۔مطالعہ میں وقت لگائیں بلا وقت لگائے اور استاد کی رہنمائی کے حصول علم مشکل ہے۔اور اتنا ذہن میں بیٹھا لیں کہ دنیا میں آج تک یہ حادثہ رونما نہیں ہوا کہ بلا تگ ودو اور جانفشانی اور عرق ریزی کے کسی نے بلندی ورفعت تک رسائی حاصل کی ہو۔یقین نہ ہو تو تاریخ،سیرت،رجال پر لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھیں خاص طور سے امام ذہبی کی "تذکرة الحفاظ"،"سير اعلام النبلاء"،"العبر في تاريخ من غبر"۔ابن كثير كی"البدایہ والنھایہ"،ابن حجر کی"تھذیب التہذیب"اور "تقریب التہذیب" اور کچھ اور وقت ہو تو امام مزی کی"تھذیب الکمال"۔ان شاء اللہ ان کتابوں سے آپ سیکھیں گے بھی اور اپنی زندگی میں کچھ کرنے کا حوصلہ بھی ملے گا۔
اور جس نے عزم کرلیا اس کے لئے کوئی بھی راہ مشکل نہیں۔

The Study, it's importance, procedure and requirements. Article: SanaUllah Sadiq Taimi

1 تبصرہ: