یومِ مادری زبان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-23

یومِ مادری زبان

"اجی سُنتی ہو !" میں نے بستری چائے یعنی بیڈ ٹی کی چُسکیوں کے بیچ بیگم کو پُکارا۔
ویسے میں اُس وقت بستر پر نہیں تھا۔ بستر پر تو بیگم صاحبہ تھیں۔
میں تو آج بھی روزانہ کی طرح صبح صبح ہی اُٹھ گیا تھا۔ حسبِ معمول دو کپ چائے بنائی تھی۔ ایک پیالی اپنے لئے میزِ طعام یعنی ڈائننگ ٹیبل پر رکھی اور دوسری کپ "دستِ مبارک" میں لیکر بیگم کو جگایا۔
اُن کو چائے پیش کرکے کمرۂ طعام میں آکر چائے پیتے پیتے سامنے رکھا انگریزی اخبار پڑھنے لگا۔ پہلے ہی صفحے پر صدرِ مملکت، وزیرِاعظم اور دیگر بہت سارے رہنمایانِ قوم و ملّت کی جانب سے "عالمی یومِ مادری زبان" کے مبارک موقع پر دلی مبارکباد دینے کی خبر شائع ہوئی تھی۔
کسی زمانے میں میری بھی ایک ماں ہوا کرتی تھیں اور وہ اردو ہی بولتی تھیں۔ اِس لحاظ سے میں اردو کو ہی اپنی مادری زبان سمجھتا ہوں۔
ویسے میرے بچّوں کی ماں بھی اردو ہی بولتی ہے۔ لیکن جو اردو وہ میرے ساتھ بولتی ہے وہ ذرا مختلف قسم کی ہوتی ہے اِس لئے میں اُس اردو کو مادری زبان نہیں "بیگمی زبان" کہتا ہوں۔
جی کیا کہا ؟ میں اُن سے کس زبان میں بولتا ہوں ؟
بھائی، یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے ؟ مردوں کی مادری زبان چاہے کچھ بھی ہو اپنی بیگموں سے تو سبھی "شوہری زبان" میں ہی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ اِس زبان میں بات کرنا شوہروں کی صحت کے لئے بڑا مفید ثابت ہوتا ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں نے بالکل شوہرانہ انداز میں یعنی لگاوٹ بھرے لہجے میں بیگم کو پکارا "اجی، سُنتی ہو !"
جواباً بیگم نے حسبِ معمول "بیگمی اردو" میں چیختے ہوئے پوچھا، "کیا ہُوا ؟ کیوں چیخ رہے ہو ؟"
"بیگم دیکھو نا آج عالمی یومِ مادری زبان ہے۔" میں نے اپنے جذبات کو چُھپاتے ہوئے یعنی منمناتے ہوئے جواب دیا۔
"تو میں کیا کروں ؟ اُٹھ کر ناچنا شروع کر دوں ؟" بیگمی اردو میں پوچھا گیا۔
میں سمجھ گیا کہ اب شوہری زبان استعمال کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اِس لئے شوہری زبان میں جواب دینے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔ یعنی خاموشی اختیار کرلی۔
میں خاموش ضرور ہوا تھا لیکن آج یومِ مادری زبان کے موقع پر اپنی مادری زبان اردو کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ سرد نہیں پڑا تھا۔
"دی ٹائمز آف اِنڈیا" پڑھتے پڑھتے ایک انقلابی خیال ذہن میں آیا۔ کیوں نا آج اردو اخبار پڑھ کر اپنی مادری زبان کے ساتھ اظہارِ تعزیت ۔۔۔ معاف کیجئےگا ، اظہارِ عقیدت ۔۔۔ کیا جائے۔
یہ خیال آتے ہی میں دودھ لانے کے بہانے گھر سے نکل کر سیدھا ڈوما بھائی کی پان دکان پر پہنچ گیا_ ڈوما بھائی پان، سگریٹ، گُٹکا اور کچھ "دوسری چیزوں" کے ساتھ اخبار بھی فروخت کرتے تھے۔
دکان کے باہر ایک بینچ پر انگریزی، ہندی اور بنگلہ کے ساتھ کچھ اردو اخبارات بھی سجے ہوئے تھے۔
آج غور سے دیکھا تو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ ہمارے شہر سے اردو کے ایک دو نہیں بلکہ پورے چار چار اخبارات شائع ہوتے ہیں۔
میں نے ایک اردو اخبار اٹھایا، سرخیاں پڑھیں، ضرورتِ رشتہ کے اشتہار بھی پڑھے اور پھر دوسرا اخبار اُ ٹھالیا، پھر تیسرا اور اس کے بعد چوتھا اخبار اُٹھا کر اردو کی خدمت کرتا رہا۔
دل کو کسی قدر سکون اور روح کو طمانیت کا احساس ہوا کہ آج میں اپنی زبان کے لئے کچھ کر پایا۔ پھر میں وہاں سے ایک پاکٹ سگریٹ ، تھوڑا سا دِلی سکون اورتھوڑی سی روحانی طمانیت لیکر دودھ لینے چلا گیا۔ لیکن چاروں اخبار وہیں چھوڑ دیئے تاکہ دوسرے لوگ بھی اردو کی کچھ خدمت کر سکیں۔
گھر پہنچا تو بیگم بھری بیٹھی تھیں۔
"کہاں مرگئے تھے ؟" بیگمی زبان پورے عروج پر تھی۔
"وہ دودھ کی گاڑی آج ذرا دیر سے آئی ہے۔" سُنتے ہیں بیوی سے جھوٹ بولنا گناہ میں شمار نہیں ہوتا۔
"کچھ فکر ہے ؟ بیٹے کے اسکول کا گیٹ بند ہو جائیگا ۔ یہ تمہارا اردو اسکول نہیں ہے۔ انگریزی میڈیم اسکول ہے۔ " لہجے میں طنز اور فخر کی حسین آمیزش تھی، " چلو جلدی سے اپنی کھٹارا نکالو اور بچّے کو چھوڑ کر جلدی سے واپس آؤ۔ "
خیر صاحب ، جلدی سے اپنی کھٹارا یعنی اسکوٹر نکالی اور اپنے ننّھے فرشتے کو لیکر لِٹِل اینجلز اسکول کی طرف چل پڑا۔
میرا بیٹا ماشاءﷲ خاندان کا نام روشن کر رہا تھا۔
نہیں نہیں ، وہ ابھی نرسری میں ہی پڑھتا تھا۔ لیکن گھر میں آنے والے رشتے داروں کو گُڈ مارننگ ضرور بولتا تھا۔
ابھی کل شام ہی کی بات ہے بیگم کی ایک دور کے رشتے کی خالہ اپنی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ دینے آئیں۔
برخوردار ٹی وی پر کسی کے "من کی بات" سُن رہے تھے کیونکہ اب جناب نے کارٹون چینل دیکھنا بند کر دیا ہے۔
بیگم نے بیٹے کو آواز دی " بیٹا آنٹی کو گُڈ مارننگ بولو۔"
بیٹے نے ٹی وی اسکرین سے نظریں ہٹائے بغیر ہی بآوازِ بلند "گُڈ مارننگ آنٹی" کہا تو ماں کا سینہ پھول کر چھپّن اِنچ کا ہو گیا۔
ٹی وی پر من کی بات ختم ہوئی تو طوطے کو۔_ سَوری، بیٹے کو۔_ آنٹی کے حضور میں پیش کیا گیا۔

کالے اون والی بھیڑ سے لے کر چینی خور جانی تک اور جیک کے پہاڑی سے گرنے سے لیکر ملکۂ انگلستان کو خوف زدہ کر نے والی بلّی تک کا حال آنٹی کو سُنوایا گیا۔
وہ بیچاری انگریزی نہیں جانتی تھیں لیکن شاباشی دینے میں اُنہوں نے کوئی کنجوسی نہیں کی۔ اور پتہ نہیں کیوں مجھے وہ سامعین یاد آ گئے جو سڑکی مشاعروں میں میرے اشعار پر "جھوم جھوم کر" داد دیتے ہیں۔
لیجئے میں فخریہ جذبات کی رَو میں اصل قصّے سے سے ہی بھٹک گیا۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں نے مصمّم ارادہ کر لیا تھا کہ آج میں اپنی مادری زبان کے لئے کچھ نہ کچھ کر کے ہی رہونگا۔
بیٹے کو اسکول پہنچا کر اور اُس کی ٹیچر کو گڈمارننگ بول کر جلدی جلدی گھر واپس آیا۔ اور امورِ خانہ داری سے فراغت پا کر اپنے اسکول کے لئے نکل گیا۔
پہلے ہی پیریڈ میں دسویں جماعت کو اردو پڑھانی تھی۔ کلاس میں گیا، حاضری لی اور بچّوں سے کہہ دیا کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ پڑھا نہیں پاؤنگا۔ تم لوگ چپ چاپ کلاس میں بیٹھو۔ یہ کہہ کر کامن روم میں آ گیا۔
دراصل میرا ذہن اردو کی خدمت کرنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈ رہا تھا۔
دن بھر بیماری کا بہانہ کر کے اردو کی ایک بھی کلاس نہیں لی۔ اور دوسرا کوئی سبجکٹ میں پڑھاتا ہی نہیں تھا کیونکہ مجھے اردو کے علاوہ کچھ اور آتا ہی نہیں تھا۔
دماغ کام نہیں کر رہا تھا کہ آخر اردو کی خدمت کروں تو کیسے کروں ؟
ایک بار سوچا کیوں نا اردو کے نام پر جوتے پالِش کرنے بیٹھ جاؤں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ اگر بیگم کو پتہ چل گیا کہ میں سڑک پر بیٹھ کر جوتے پالِش کر رہا تھا تو فوراً چیخ چیخ کر ہمیشہ کے لئے مائیکے جانے کی دھمکیاں دینے لگینگی۔
ویسے اگر مجھے ذرا بھییقین ہوتا کہ وہ اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ بھی پہنائینگی تو میں کب کا بوٹ پالِش کا ڈبّہ لیکر چورنگی روڈ پر بیٹھ گیا ہوتا۔
بہرحال اردو کی ایک بھی کلاس لئے بغیر سارا دن گزر گیا۔ اور میں فیصلہ نہ کر سکا کہ اپنی مادری زبان کی خدمت کے لئے کون سا بے مثال کارنامہ انجام دوں۔
ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح آہستہ آہستہ بس اسٹاپ کی طرف بڑھ رہا تھا کیونکہ اچھے دنوں کی آمد کے بعد سے میں اسکوٹر کا استعمال صرف بیٹے کو "انگریزی میڈیم" اسکول پہنچانے کے لئے ہی کرتا ہوں۔
اچانک موبائیل کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف خارؔ گلاب پوری تھے۔
میرے سلام کا جواب دیئے بغیر ہی بولے " بھائی آج خدائی خدمتگارانِ اردو کے مشاعرے میں چل رہے ہیں نا ؟"
میں نے غصّے سے جواب دیا " ارے اُس خدمتگار کے بچّے نے جب مجھے مدعو ہی نہیں کیا تو میں کیوں جاؤں اُس کا مشاعرہ سُننے ؟ لفافہ دینے کی اوقات نہیں تھی تو کہدیتا۔ میں تو مفت میں پڑھنے کو بھی تیّار رہتا ہوں۔ مجھے نہیں جانا اُس بے ادب کے مشاعرے میں۔ "
خارؔ صاحب نے بڑے صبر کے ساتھ میری پوری بات سُنی اور بولے " بھائی آپ جیسے عظیم شاعر کو نظرانداز کرکے منتظمینِ مشاعرہ نے واقعی بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ لیکن مشاعرہ میں بحیثیت سامع شرکت کرنا بھی اردو کی خدمت بلکہ عین کارِ ثواب ہے۔ اور آج یومِ مادری زبان پر مشاعرہ سُننے کے ثواب کا تو آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔"
نہ جانے کیوں خارؔ صاحب کی باتیں میرے دل کو چُھو گئیں۔
رات کا کھانا کھا کر، برتن دھوئے بغیر،مشاعرہ شروع ہونے کے بعد مشاعرہ گاہ میں پہنچا اور پیچھے کی صف میں انجان لوگوں کے بیچ جا کر بیٹھ گیا۔ اور پھر صدارتی کلام شروع ہوتے ہی وہاں سے نکل گیا۔
ﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کسی شاعر یا شناسا کی نظر مجھ پر نہیں پڑی اور میں اردو کی بے مثال خدمت کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔

***
"Hayat Rise", 4th Floor, 19, Alimuddin Street, Kolkata-700 016.
ای-میل: mubarak.mubarki[@]gmail.com
موبائل: 08961342505
فیس بک : Mubarak Ali Mubarki
مبارک علی مبارکی

A satirical essay on Mother language Day. Humorous Article: Mubarak Ali Mubarki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں