مولانا آزاد کی چینی چائے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-17

مولانا آزاد کی چینی چائے

غالباً 1946ء کی بات ہے، میں نان پارہ (سابق ریاست) کے سعادت انٹر کالج کے نویں درجہ میں پڑھتا تھا اخبار بینی کا شوق بچپن سے تھا اور اردو زبان و ادب سے دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ مقامی مکتب انجمن اسلامیہ نان پارہ میں درجہ چار کا طالب علم تھا لیکن مولانا صادق حسین سردھنوی اور مولانا عبدالحلیم شرر کی زیادہ تر ناولیں پڑھ چکا تھا اور طلسم ہوش ربا کے مطالعے میں مشغول تھا۔
اسی اخبار بینی کے شوق اور اردو زبان سے والہانہ لگاؤ کے باعث اس زمانے کے صدر کانگریس مولانا ابوالکلام آزاد کے مضامین سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملا اور مولانا کی مرغوب چینی چائے (وہائٹ جیسمین) مولانا کے لفظوں میں "گوری چنبیلی" کا تذکرہ بھی پڑھنے کو ملا۔ میں نے بلا تکلف مولانا کی خدمت میں ایک خط روانہ کیا کہ آپ کی پسند سے مجھے اتفاق ہو کہ نہ ہو لیکن اس کا غائبانہ عشق ضرور ہوگیا ہے مولانانے جواباً تحریر فرمایا:
"عزیزی! مجھے خوشی ہوئی کہ میری اس ہیچوں، ڈھیچوں چائے کا کوئی قدردان تو ملا، افسوس کہ میرے پاس اس کا تلچھٹ بھی نہیں۔ بہرحال جب بھی نیا ڈبہ آیا میں آپ کو ضرور بھیجوں گا۔"

1946ء سے 1957ء تک کا زمانہ بیت گیا اس دوران نہ تو مولانا کو چائے بھیجنے کا خیال آیا اور نہ میں نے ہی یاددہانی کا کوئی خط بھیجا لیکن اسمبلی کے کانگریسی امیدواروں کے سلسلے میں اپنے حلقے کی نمائندگی اور مسلم امیدوار کی نامزدگی کے سوال پر مولانا آزاد کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔
مولانا کی کوٹھی پر اس وقت مسلم اقلیت کے زیادہ تر امیدوار موجود تھے ان میں گوڑ گاؤں پارلیمانی حلقہ اسمبلی کے ایک امیدوار اور مجاہد آزادی مولوی محمد ابراہیم بھی موجود تھے۔ مولانا اس وقت اپنی کوٹھی پر موجود نہ تھے اور مجمع مولانا کے انتظار میں بے قرار تھا ۔ مولانا کے پرائیویٹ سیکریٹری مولوی اجمل خاں اپنی ممتاز خوش مزاجی کے ساتھ حاضرین سے نپٹ رہے تھے کہ مولوی محمد ابراہیم نے مولانا آزاد کی بابت دریافت کیا اور کہا کہ اجمل صاحب مولانا کہاں ہیں، انہوں نے حسب عادت مولوی صاحب کو جھڑکتے ہوئے کہا کہ آئیے میری جیب میں ہیں، اس پر مولوی ابراہیم صاحب خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔
ابھی تھوڑا ہی وقفہ گزرا تھا کہ ایک کالے رنگ کی کار پھاٹک سے دراتی ہوئی برآمدے میں آکر ٹھہری۔ کار کا دروازہ کھلا اور سرخ و سفید رنگ کی ایک پہلو دار شخصیت اس کار سے برآمد ہوئی۔(وہ مولانا آزاد تھے) ان کے ہمراہ دو صاحبان اور بھی کار سے نکلے۔ اور پھر یہ حضرات بھی برانڈے ہی میں دو کرسیوں پر مولانا آزاد کے سامنے بیٹھ گئے، مولانا ایک آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک مولانا کی نظر مولوی محمد ابراہیم پر پڑ گئی اور برجستہ فرمایا کہ میرے بھائی مولوی صاحب آپ کہاں تھے دہلی کے کنوؤں میں بانس ڈالا گیا لیکن آپ کا پتہ نہ چل سکا۔
مولوی ابراہیم تو اجمل خاں صاحب سے جلے بھنے بیٹھے موقع کی تاک میں تھے، فوراً بے باکی سے گویا ہوئے کہ حضرت میں تو بڑی دیر سے یہاں حاضری دے رہا ہوں، لیکن آپ نے ایسے گستاخ دربان پال رکھے ہیں (اجمل خان کی طرف اشارہ) کہ آپ کو صحیح اطلاع نہیں دیتے۔
مولانا نے سنی ان سنی کرتے ہوئے فرمایا کہ خیر میرے بھائی یہ بتائیے کہ آپ کی تعلیم کہاں تک ہے، مولوی ابراہیم نے کہا مولانا میں تو صرف "درس نظامی" کا فاضل ہوں۔ مولانا آزاد پھر مخاطب ہوئے اور دریافت کیاکہ میرے بھائی کس مدرسے سے سند حاصل کی ہے؟ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ مدرسہ امینیہ حسینہ دہلی سے ۔ مولانا اس وقت آرام کرسی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے فوراً سیدھے ہو گئے اور فرمایا کہ میرے بھائی حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب کے مدرسے سے!
مولوی ابراہیم نے کہا کہ جی ہاں!
اب مولانا اپنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے دو حضرات کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا کہ مسٹر مانگ لال (جو غالباً اس وقت راجستھان صوبہ کانگریس کے صدر تھے) آپ لوگ جس شخص کو جاہل بتا رہے ہیں، وہ آپ کو 25 برس سبق پڑھائے گا۔
اس جملے پر مولوی ابراہیم پھر گوایا ہوئے کہ حضرت ان لوگوں نے میرے خلاف راجستھان میں یہ پروپیگنڈہ کرکے کہ میں مقامی باشندوں کو پاکستان بھیجنے میں مدد کر رہا ہوں، اس طرح سے ایک جاسوس ہوں، میرا اسمبلی کا ٹکٹ کاٹ دیا، حالانکہ آپ خود واقف ہیں کہ میں نے کئی بار ملک کی آزادی کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ اور آج جب کہ یہ معاملہ کانگریس کے مرکزی پارلیمنٹری بورڈ کے سامنے پیش ہے تو یہ سمجھ کر کہ راجستھان والا پروپیگنڈہ آپ کے سامنے نہیں چل پائے گا، میری فائل پر یہ لکھ دیا کہ میں جاہل ہوں۔
مولانا آزاد نے مولوی محمد ابراہیم کی زبانی گفتگو سن کر فوراً فائل مانگی اور اس پر اپنا ٹِک لگا کر اجمل خاں صاحب سے مخاطب ہوئے کہ اسے دھیبر بھائی (جو اس زمانے میں صدر کانگریس تھے) کے پاس بھیج دیجئے اور پھر اپنی چھڑی اٹھائی اور برآمدے سے کمرے میں داخل ہونے لگے جو بھیڑ مولانا کی کوٹھی پر موجود تھی اس کی طرف دیکھے بغیر!
میں نے لپک کر مولانا کو سلام کیا اور کہا کہ حضور 1946ء سے میں اپنے خط کے جواب کے لئے ترس رہا ہوں ایک سیاسی ضرورت سے جناب والا کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا تو خیال آیا کہ اسی بہانے مذکورہ خط کا تذکرہ بھی آجائے گا ، مولانا نے ایک سرسری نظر میری طرف ڈالی اور فوراً اپنی کرسی پر بیٹھ گئے اور آواز دی کہ عبداللہ چائے لے آؤ!
تھوڑی دیر میں مولانا کی مخصوص چینی چائے آئی اور پھر وہ فنجانوں میں انڈیلی گئی ایک فنجان میرے حصے میں بھی آیا اور میں نے نہایت اشتیاق بھرے انداز میں اس خوددار چائے کا ایک گھونٹ اپنے حلق میں اتارا جس نے شکر اور دودھ کا کوئی لگاؤ بھی گوارانہ کیا تھا لیکن مجھے اس چائے کا کوئی لطف پہلے اور دوسرے گھونٹ میں نہیں ملا خاموش رہا ، جب چائے کے دو چار گھونٹ اور حلق سے اترے تو عجیب و غریب کیف و سرور حاصل ہوتا گیا۔
ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک صاحب مولانا آزاد کی خدمت میں آئے ، یہ صاحب تھے مولانا کے باورچی سرور صاحب پختہ رنگ کے مالک،کاکل دراز، میری صورت دیکھتے ہی کہا کہ میاں آداب!
بات دراصل یہ تھی کہ سرور صاحب شاہی رکاب دار تھے اور نواب صاحب رامپور کے یہاں ملازم تھے کسی بات پر تنک گئے تو بقول شخصے ( مرزا یگانہ چنگیزی)
"ہارے تو چلے نان پارے صاحب"
راجہ صاحب نان پارہ کے مطبخ میں داخل ہوئے وہاں میرے عزیزوں میں جناب محمود احمد خان سکون راجہ صاحب کے پرائیویٹ سکریٹری اور پیش کار کے عہدے پر تھے ان کی بدولت مجھ سے بھی سرور صاحب کی ملاقات ہو گئی۔ پہلی ہی ملاقات کے بعد احساس ہوا کہ سرور صاحب نہ صرف بے پناہ حافظے کے مالک ہیں بلکہ انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں کے ساتھ اردو زبان کی شیرینی کے بھی جیتے جاگتے نمونے ہیں اور انہیں ہر موضوع پر اردو کے متعقدمین سے لے کر متاخرین تک شعراء کے سینکڑوں شعر یاد تھے۔
انہیں دیکھتے ہی میری زبان سے بے ساختہ یہ جملہ نکل گیا کہ سرور صاحب آپ یہاں کیسے؟
میرے اس انداز پر مولانا نے دریافت کیا کہ آپ انہیں کیسے جانتے ہیں؟ تو میں نے سارا واقعہ بیان کردیا، خیر بات آئی گئی ہوگئی اور مولانا کی محفل بھی برخاست ہوگئی۔

تھوڑے دنوں کے بعد میرا انجمن ترقی اردو (ہند) کی سالانہ کانفرنس (15،16،17 فروری 1958ء) کے موقعے پر دہلی جانا ہوا تو اتفاقیہ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر سرور صاحب سے میری دوبارہ ملاقات ہوگئی وہ بڑے تپاک سے ملے اور کہنے لگے کہ میاں آپ نے مولانا کو میری دلچسپی سے آگاہ کر کے میرے لئے مصیبت کر دی، کہنے لگے کہ ایک دن میں باورچی خانے میں کوئی چیز پکا رہا تھا کہ مولانا دندناتے ہوئے آگئے اور کہنے لگے بھئی سرور صاحب آپ بھی بڑے ہی بدذوق معلوم ہوتے ہیں۔ ترشح ہو رہا ہے اور آپ موسم کا ساتھ نہیں دیتے۔ میرے بھائی اس موقع پر جلال لکھنوی نے کیا کہا ذرا یاد دلائیے، غرض یہ کہ مولانا اکثر و بیشتر مجھے چھیڑتے رہتے ہیں۔
میں نے سرور صاحب سے تعجب کے ساتھ ایک بات دریافت کی کہ بھئی ! آپ میٹھی چیز پکانے کے استاد ہیں جب کہ مولانا چائے میں بھی شکر کا استعمال برائے بیت کرتے ہیں تو آپ کو کس مقصد سے اپنے اسٹاف میں شامل کر رکھا ہے؟ سرور صاحب نے کہا کہ مجھے دوسرے مہمانوں کے لئے رکھ چھوڑا ہے ، جو آئے دن بڑی تعداد میں آتے رہتے ہیں ، ورنہ مولانا کی مرغوب غذا تو دوہری روٹی اور آلو پالک کی بھجیا ہے ۔

نوٹ :
بشکریہ: "ایوان اردو" دہلی۔ (اردو اکادمی دہلی کا ماہنامہ رسالہ۔ اشاعت ثانی۔ جلد:2 ، شمارہ:8۔ ادارۂ تحریر: سید شریف الحسن نقوی، مخمور سعیدی۔
یہ مضمون ماہنامہ "ایوان اردو" کے شمارے دسمبر-1988 سے ماخوذ ہے۔
مضمون نگار: راحت علی خان۔ کاشانۂ راحت۔ قلعۂ نان پارہ (بہرائچ)۔ اترپردیش۔

The forgotten inheritance of Maulana Azad, Chinese white jasmine tea

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں