بنارسی کاریگروں کا تیار کردہ غلاف کعبہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-14

بنارسی کاریگروں کا تیار کردہ غلاف کعبہ

ghilaaf-e-kaaba
زیر نظر مضمون مولانا علی شبیر حیدرآبادی صدر منتظم ہائیکورٹ حیدرآباد کی تالیف "تاریخ غلاف کعبہ" کی چودہویں فصل ص 77 تا ص 84 سے ملخص ہے، موصوف کی یہ کتاب پہلی بار 1923ء میں ماہنامہ لسان الملک حیدرآباد میں شائع ہوئی، اہل علم نے اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور سلطان عبد العزیز ثانی کے حکم سے اس کا ترجمہ عربی میں کیا گیا اور اس کے اقتباسات 1346ھ کے منعقدہ اجلاس مکہ مکرمہ میں پڑھے گئے،مصنف 1344ھ اور 1345ھ میں مکہ میں موجود تھے،آپ نے چشم دید واقعات کا کتاب میں اضافہ کیا، اور اسے دوبارہ 1349ھ میں مسعود دکن پریس گلزار حوض کالی کمان حیدرآباد سے شائع کیا، اس کتاب کے علاوہ موصوف تاریخ مزارات حرمین شریفین،تاریخ حجر اسود وغیرہ کے مصنف ہیں۔

سن 1343ھ میں اللہ نے سلطان عبد العزیز ابن عبد الرحمان آل فیصل ابن سعود کی قیادت میں اہل نجد کو حرمین شریفین کی پاسبانی کا شرف بخشا، آپ نے ہر قسم کی بد امنی، ظلم و ستم اور بدووں کی لوٹ مار کا خاتمہ کر دیا، مکہ اور مدینہ کی شاہراہ کو حاجیوں کے لیے مکمل محفوظ کردیااور جمادی الثانی 1344ھ میں سلطان کے ملک حجاز ہونے کا اعلان بھی کردیا گیا۔اسی درمیان غلاف کعبہ سے متعلق دو ناخوش گوار واقعات پیش آئے،قدیم روایات کے مطابق مصر سے محمل (1) آیا تو خوش عقیدہ محمل پرستوں کا ہجوم امنڈ پڑا ،اس پر نذرو نیاز چڑھانے، منتیں مانگنے اور بوسہ دینے کے لیے لوگ دھکا مکی کرنے لگے، نجدی فوجیوں کے لیے محمل پرستی کا یہ منظر ناقابل برداشت تھا، انھوں نے سلطان سے شکایت کی،آپ نے مصری امیر الحج کوسمجھا بجھا کر یہ خرافات بند کروائی۔
دوسرا واقعہ 8/ ذی الحجہ 1344ھ کو پیش آیا، محمل کا گزر عرفات سے ہوا تو مصری فوجیوں اور نجدی سپاہیوں میں تصادم ہوگیا، مصریوں کے پاس آتشیں ہتھیار تھے، انھوں نے مشین گن سے گولیاں چلا دیں، پچیس نجدی سپاہی موقع ہی پر ڈھیر ہوگئے، مصری فوج کی تعداد چار سو تھی اور نجدی ساٹھ ہزار کے قریب، نجدیوں میں بڑا جوش پھیل گیا، مگر سلطان نے بہت تحمل سے کام لیا، ان کے صاحب زادوں نے بڑی مشکل سے معاملہ رفع دفع کیا،سلطان کو گمان تھا کہ بات آگے نہیں بڑھے گی اور اگلے سال مصر سے غلاف کی روانگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،1345ھ میں سلطان نے مصر کے سفیر کو محمل لانے کی اجازت اس شرط پر دی کہ حاجیوں کا قافلہ اور فوج آسکتی ہے، لیکن توپیں اور اور مشین گن وغیرہ نہ لائی جائیں اور نہ باجا گاجا آئے۔مصری حکومت اس پر رضامند ہوگئی اور محمل بھیجنے کا یقین دلایا، لیکن یکم ڈی الحجہ کو سفیر مصر نے اطلاع دی کہ آپ کی شرائط پر حکومت مصر نے محمل بھیجنا پسند نہیں کیا، ایام حج میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا تھا،حکومت مصر کا خیال تھا کہ اس مختصر سی مدت میں نجدی حکومت کے لیے غلاف تیار کرانا ناممکن ہے، اس لیے مجبور ہوکر مصر کی شرائط سلطان قبول کریں گے یا پوری دنیا سے آئے ہوئے حاجیوں کے سامنے خفت اٹھائیں گے، سلطان نے صبر واستقلال کے ساتھ حکومت مصر کے فیصلے کو سنا اور سات دنوں کے اندر سیاہ بانات کا غلاف، طلائی حزام(2) اور باب کعبہ کے زریں پردے کے ساتھ تیار کرا کے حسب سابق 10/ ذی الحجہ 1345ھ کو کعبہ پر ڈال دیا، یہ ایک حیرت انگیز کارنامہ تھا جس کا تصور حکومت مصر نہیں کرسکتی تھی، تنگئ وقت اور عجلت کی وجہ سے یہ غلاف اعلی فنکاری اور حسین نقاشی کا نمونہ تو نہیں تھا، لیکن خوش نمائی میں بے جوڑ تھا۔
دسویں ذی الحجہ کو منی سے حاجی طواف زیارت کے لئے آئے تو دیکھا کہ کچھ نا معلوم لوگ نیچے سے جہاں تک ہاتھ پہنچا ، تقریبا دوگز ہر طرف سے چاقو اور قینچی سے غلاف کاٹ لے گئے، یہ گھٹیا کام جن لوگوں نے بھی کیا وہ یقینا سلطان اور نجدی حکومت سے خار کھاتے تھے، سلطان کو جوں ہی پتہ چلا آپ نے دوسرا کپڑا اس میں سلوا کر اس طرح مکمل کروادیا کہ بہت سے لوگوں کو خبر بھی نہیں ہوئی کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تھا۔
سلطان کی خواہش تھی کہ آیندہ سے غلاف حجاز ہی میں تیار ہو، مصر یا کسی اور ملک سے غلاف منگوانے کی ضرورت نہ پڑے، انھوں نے اس بات کا ذکر اپنے دوست مولانا اسمعیل غزنوی سے کیا(3)انھیں دنوں بنارس سے ایک صاحب حاجی کریم بخش بنارسی حج کے لیے گئے تھے، مولانا نے مکہ میں ان سے غلاف کا ایک نمونہ تیار کرا کے سلطان کے حضور میں پیش کیا، سلطان کو نمونہ پسند آگیا انھوں نے مولانا ممدوح کو حکم دیا کہ وہ ہندوستان جا کر کاریگر، ریشم، مقیش اور اوزار بھجوائیں تاکہ غلاف کعبہ اور اس طرح کے دوسرے کپڑے حجازمیں بھی تیار کرائے جائیں۔
چنانچہ وہ اوائل 1346ھ میں ہندوستان آئے ،بمبئی سے ریشم خریدا اور بنارس سے کاریگر وں کا انتخاب کیا اور انھیں مکہ معظمہ روانہ کیا، یہ لوگ حاجی حافظ رحمت اللہ صاحب کے خاندان کے تھے جو محلہ ہنومان پھاٹک کے قریب علوی پورہ کے رھنے والے تھے اور مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی کے ہمسائیگان اور عقیدت مند تھے، ان میں کچھ اہم کاریگروں کے نام صبغة اللہ، صفی اللہ اور مسیح اللہ تھے، کل ساٹھ مرد، بیس عورتیں اور نو بچے روانہ کیے گئے، عورتیں ریشم کھولنے کے لیے گئیں، مردوں کی تنخواہیں چالیس روپئے سے سو روپئے ماہوار تک اور عورتوں کی تنخواہ بیس روپئے سے تیس روپئے تک علاوہ خوراک کے قرار پائ، صبغة اللہ ان سب کے منیجر مقرر ہوئے، ان لوگوں کو دو دو تنخواہیں پیشگی دی گئیں اور اخراجات سفر سلطان کے ذمہ رہے، ان سے تین سال کا اقرار نامہ لیا گیا، ان میں سے بعض مع اہل و عیال گئے اور بعض تنہا، بمبئی سے انیس ہزار کا ریشم خریدا گیا اور سترہ سو روپئے کا لکڑی کا سامان اور اوزار خریدے گئے، غلاف کعبہ کے زریں حصوں کا انتظام اس وقت مکہ میں ہونا دشوار تھا، اس لئے حزام اور برقع کعبہ کی تیاری کا ٹھیکہ حاجی حافظ بشیر الدین ساکن محلہ مسجد فتحپوری واقع دہلی کو تخمینا چھ ہزار روپئے میں دیا، گیارہ کاریگر بمبئی سےاور باقی کراچی سے سوار کرائے گئے۔
بنارسی کاریگروں نے مکہ معظمہ میں غلاف کعبہ کا کپڑا بن کر تیار ٖکیا، جس پر مصری غلاف کی طرح کلمہ کی بنائی کی گئی، طلائی کام والے حصے دہلی سے تیار ہو کر آگئے، اس خوشی میں 6/ ذی الحجہ 1346ھ کو مکہ میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا اور اس میں مولانا اسماعیل غزنوی نے زبردست عالمانہ تقریر کی،1347ھ سے غلاف کعبہ کے طلائی اور زرین حصوں کا کام بھی مکہ معظمہ میں ہونے لگا، اس کی تکمیل کے لیے کلکتہ سے تین ماہر کاریگر بلائے گئے۔
(1) محمل لکڑی کے اس کھٹولے یاکجاوہ کوکہتے ہیں جو اونٹ کی پشت پر بیٹھنے کے لیے باندھا جاتا ہے، عورتوں کے بیٹھنے کے لیے اس پر پردہ یا کوئی کپڑا ڈال دیا جاتا ہے، غلاف کعبہ کے ساتھ محمل بھیجنے کارواج ساتویں صدی ہجری میں ہوا، سب سے پہلے 670 ھ میں ملک الظاہر رکن الدین بیبرس نے حاجیوں کے کارواں کے ساتھ محمل بھی بھیجا، بعض مورخین کا کہنا ہے کہ نجم الدین ایوب کی ملکہ فاطمہ شجر الدرر حج کرنے گئی تو ایک آراستہ و پیراستہ محمل پر بیٹھ کر گئی، اس کے بعد کئی سالوں تک اس کے نام سے خالی محمل حاجیوں کے قافلہ کے ساتھ جاتا رہا، بہر حال یہ بات طے ہے کہ محمل کی ایجاد ساتویں صدی ہجری کے وسط میں سلاطین مصر میں سے کسی ایک نے کی، اس کے بعد ہر بادشاہ نے اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لیے حجاج کے قافلہ اور غلاف کعبہ کے ساتھ محمل بھیجنے کا معمول بنالیا، محمل کے ڈھانچے کو بنانے میں مصری کاریگر اپنی ہنر مندی کا سارا زور صرف کر دیتے، غلاف کعبہ کے تھان صندوقوں میں رکھ کر دوسرے اونٹوں پر لادا جاتا، محمل میں ایک مصحف لٹکا دیا جاتا، حج میں لوگ اسے مقدس سمجھ کر بوسہ دیتے اور منتیں مانگتے اور وہ تمام خرافات کرتے جو مزاروں پر کرتے ہیں۔
(2) حزام کے معنی بند یا پٹی کے ہیں، یہ ڈھائی فٹ چوڑی سنہرے کام کی بنی ہوئی پٹی ہوتی ہے جو زمین سے تقریبا 32 فٹ اوپر کعبے کے ارد گرد غلاف میں لگی رہتی ہے، دیواروں پر جہاں جہاں دو ٹکڑوں کا جوڑ ملتا ہے وہاں سلائی کو چھپانے کے لیے حزام آجاتی ہے حزام کے آٹھ ٹکڑے ہوتے ہیں ہر دیوار میں دو دو ٹکڑے آتے ہیں ، ان پر سونے سے آیات قرانی کی کڑھائی رہتی ہے۔
(3)غزنوی خاندان سے سلطانی خاندان کی دوستی قدیم تھی، مولانا اسماعیل غزنوی کا تعلق اسی خانوادے سے تھا، آپ مولانا عبد الواحد غزنوی کے صاحب زادے تھے، بڑے قابل، دیندار اور ذی ہوش تھے، سلطان نے انھیں خادم حجاج کا منصب سپرد کر دیا تھا، یہ منصب وزیر کے مساوی ہوتا ہے، قاضی سلیمان سلمان منصور پوری رحمہ اللہ کا بحری جہاز میں 1930 میں انتقال ہوا تو آپ ہی نے نماز جنازہ پڑھائی، سلطان کی شخصیت اور نجد کی تاریخ پر کئی کتابیں آپ نے لکھیں، 1960 میں پاکستان میں انتقال ہوا
(4)برقع باب کعبہ کے پردہ کو کہتے ہیں ساتویں صدی میں ملک صالح نجم الدین ایوب سلطان مصر کی ملکہ فاطمہ نے جس کا خطاب شجر الدر تھا باب کعبہ کے لیے غلاف کعبہ میں ایک خوش نما پردہ کا اضافہ کیا جسے برقع کہتے ہیں۔
The Kiswah of kaaba by Craftsmen of Banaras. Article: M. A. Farooqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں