حیدرآباد - سلطنت سے جمہوریت تک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-12

حیدرآباد - سلطنت سے جمہوریت تک

hyderabad empire
میر قمر الدین خان نے 11 اکتوبر 1724ء میں جنگ شکر کھیڑا کے بعد اورنگ آباد میں آصفیہ سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ مغلوں کی عمل داری کا خاتمہ کیا۔ ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔ ان کا عہد زرین رہا۔ انگریز ان کے دربار میں باریابی کے لئے ہفتوں، مہینوں تک انتظار کیا کرتے تھے ۔ ان کی حیثیت معمولی سوداگروں کی تھی۔ مرہٹے سیاسی و عسکری غلبہ حاصل کررہے تھے ۔ وہ آصف جاہ سے سردیس مکھی وصول کرنے لگے تھے ۔ آصف جاہ اول کا وسال78سال کی عمر میں1748ء میں ہوا۔ ان کے بعد تخت نشینی کی رسہ کشی ہوئی ۔ بعد ازاں ان کے چوتھے صاحبزادے نظام علی خاں(1762-1803) تخت نشین ہوئے ۔ انہوں نے اپنے پائے تخت کو اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل کیا۔ قلی قطب شاہوں کا دارالخلافہ آصف جاہوں کا نیا صدر مقام بن گیا۔ نظام علی خان کے بعد یکے بعد دیگر کئی لائق فرمانروا حیدرآباد کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے ۔ نظام پنجم افضل الدولہ کے عہد میں 1857ء کا غدر ہوا ۔ اس کے اثرات حیدرآباد اور ریاست کے دیگر مقامات پر بھی مرتب ہوئے۔ مخالف سامراج جذبات کا اظہار کیاجانے لگا۔ مکہ مسجد میں تقریریں کی جانے لگیں۔17جولائی1857ء کو برٹش ریسیڈنسی پر ترے باز خان نے حملہ کیا۔ زبردست گولہ بارود کا تبادلہ ہوا ۔ بالآخر انگریزوں نے حملے کو پسپا کردیا۔ بظاہر بغاوت کو فرو کردیا گیا لیکن راکھ میں چنگاریاں باقی رہیں ۔ میر محبوب علی خاں(1869-1911) نظام ہشتم کا زمانہ تابناک رہا۔ سیاسی و سماجی امن و امان برقرار رہا ۔ قومی یکجہتی کا ستارہ چمکتا رہا ۔ مہاراجہ کشن پرشاد، بہادر ، یمین السلطنت کہلائے، وہ گیارہ برس تک مملکت آصفیہ کے وزیر اعظم رہے۔ غیر مسلموں کی اقتدار اعلی پر فائز رہنے کے روایت قطب شاہوں کے زمانے سے چلی آرہی ہے ۔ ساتویںقطب شاہی بادشاہ ابو الحسن کے دور میں اکناومادنا دونوں وزراء رہے۔ انک ے ہاتھوں زمان حکومت رہی۔ انہیں شاہی اختیارات تفویض کئے گئے ۔ یہ سلسلہ آصف جاہوں نے بھی قائم و دائم رکھا ۔ مہاراجہ چندولال، کشن پرشاد، سرفریدون ملک اسی روایت کا حسین تسلسل ہیں۔
محبوب علی پاشاہ کو اپنی رعایات سے غیر معمولی انسیت رہی ۔ جب1908ء میں موسی ندی میں طغیانی آئی اور سینکڑوں لوگ بے خانماں ہوئے تو انہوں نے اپنی شاہی حولی کے دروازے کھول دینے کا حکم دیا اور بے گھر افراد کو اس میں قیام و طعام کی سہولتیں مہیا کی گئیں۔1908ء کی رود موسی میں مشہور شاعر امجد حیدرآبادی کے خاندان کے افراد سیلاب میں بہہ گئے اور وہ بچ گئے ، ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے گا:
شب بھر رہے فوار ے میں، فوارے کے مانند
ہوتے ہی سحر ڈوب گئے تارے کے مانند
محبوب علی پاشاہ میں خلق خدا کے مصائب و آلام کو ختم کرنے کا بے پناہ جذبہ تھا ، اسی لئے وہ عوام الناس میں بے حد مقبول تھے۔ ہر شخص کے لب پر ان کی اقبال مندی اور درازی عمر کی دعائیں تھیں ۔ میرعثمان علی خاں، آصف سابع1911ء میں مسند نشین ہوئے ۔ آپ کی فراست، دانائی، تدبیر بے مثال تھا۔ آپ کے عہد میں حیدرآباد ترقی یافتہ شہر بنا۔ ترقیوں کا ایک ریلا تھا جو بہتا جارہا تھا ۔ عدالت عالیہ، عثمانیہ دواخانہ ، یونیورسٹی کا قیام لازوال کارنامے رہے۔ ایسے وقت جب کہ ملک کے طول و عرض میں انگریزی زبان اور کلچر کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس بڑھتے ہوئے مغربی اثرات کی پرواہ کئے بغیر اردو کا جامعہ عثمانیہ میں ذریعہ تعلیم بنایا گیا ۔ سماجی و سائنسی علوم اس مقامی زبان میں پڑھائے جانے لگے ۔ یہ عہد عثمانی کا ایک لافانی کارنامہ رہا۔ پچھلے سو ، دو سو سال میں اردو کو اس کا صحیح مقام اگر کہیں ملا ہے تو صرف حیدرآباد میں ملا ۔ اس کی مکمل سر پرستی کی گئی ، اسے نقطہ عروج پر پہنچایا گیا ۔ اردو صدیوں تک آصف سابع کی شکر گزار رہے گی ۔ یہ ان کے علمی تدبر کا جیتا جاگتا نمونہ ہے ۔ دکن کے آخری فرمانروا نے غیر مسلموں کے ساتھ ہمیشہ رواداری کا سلوک روا رکھا ۔ ان کا ایک تاریخی جملہ تو ابدی ہوگیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ’’ہندو اور مسلمان دونوں میری دو آنکھیں ہیں ، یہ خیال، یہ احساس حقیقت پر مبنی تھا۔
انہوں نے امتیازات کے پردے گرادئیے تھے۔ برہمنوں، کائستون، پارسیوں، عیسائیوں کا ریاستی نظم و نسق کے مختلف شعبوں میں کلیدی کردار رہا ہے ۔ مسجدوں کے ساتھ کلیسائیں ، منادر اور گرودوارے باغ و بہار رہے۔ عیدین کے ہمراہ دیوالی ، کرسمس جیسے تہوار بھی منائے جاتے رہے۔ مذہبی تقاریب پر کوئی پابندی نہیں تھی ۔ سارے مذاہب کے ماننے والے اپنے عقیدوں پر آزادانہ طور پر عمل پیرا رہے۔1919ء میں باب حکومت قائم کردیاگیا تھا ۔ وزراء ا پنے محکموں کے ذمے دار تھے ۔ عوامی شکایتوں کی شنوائی ہورہی تھی ۔ نا انصافیوں کے ازالہ کے لئے حکومتی مشنری سر گرم عمل تھی ۔ حضور نظام رعایا پرور تھے ۔ انہیں اپنے فرائض کا بخوبی احساس تھا ۔ وہ عہد وسطی کے مطلق العنان حکمراں جیسے نہیں تھے ۔ سزائے موت کا وجو دنہیں تھا۔ پھانسی کا چلن نہیں تھا۔ حسب دوام بھی شاذونادر رہا۔ تازیانے مارنے کا رواج نہیں تھا۔ غلامی کی رسم بیجا نہیں تھی۔ انسانی حقوق کا تحفظ تھا ۔ سرکاری عمال ظالم نہیں تھے ۔ وہ عوام کے ہمدرد، بہی خواہ اور غمگسار تھے ۔ چیچک، طاعون، ہیضہ وغیرہ کی وباؤں کے دوران عہد ہ دار عوام کی امداد کے لئے تیار رہا کرتے تھے ۔ ڈاکٹرس فرض شناس تھے ۔ وہ مریضوں کی انسانی بنیادوں پر خدمت انجام دیتے تھے ۔ مریضوں سے روپیہ پیسہ بٹورنے کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ شفا خانے عام تھے جہاں دوائیں مفت دی جاتی تھیں۔ لوگوں کو شفاف پینے کا پانی دستیاب تھا۔ سڑکیں صاف ستھری اور موریوں کی صاف صفائی کا انتظام تھا۔ انسانی اقدار کا پاس و لحاظ تھا۔ بڑوں کی تکریم اور چھوٹوں سے شفقت زندگی کا حصہ تھی ۔ طلباء اپنے اساتذہ کی دل سے عزت کیا کرتے تھے ۔ اساتذہ علم و آگہی کا پیکر ہوا کرتے اور اپنے علم کی روشنی سے شاگردوں کے سینوں کو منور کردیتے تھے ۔ آصفیہ سلطنت میں نظم و ضبط ، تہذیب و شائستگی عروج پر تھی ۔ سڑکوں پر بے حیائی مطلق نہیں تھی ۔ سرراہ لڑکوں اور لڑکیوں کا میل جول نہیں تھا ۔ لوگ محفلوں میں باآواز بلند گفتگو نہیں کرتے تھے ۔ اخلاص و محبت کا ماحول تھا۔ دیوان خانے علمی مراکز تھے۔ ہندو مسلم دونوں شیروشکر تھے۔ باہمی بھائی چارہ اور یگانگت تھی ۔ آصفیہ سلطنت ایک مثالی ریاست تھی لیکن اسے بھی نظر لگ گئی ۔ 17ستمبر1948ء میں اس شاندار سلطنت کا خاتمہ ہوا اور224سالہ سلطنت تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئی ۔ ایک نئے جمہوری دور کی شروعات ہوئی ۔ مارچ1952ء میں بی رام کشن راؤ کی سرگردی میں کابینہ تشکیل دی گئی ۔ آصف سابع تقریبا چھ برس تک راج پر مکھ کی حیثیت سے برقرار رہے ۔ یکم نومبر1956ء میں ایک نئی ریاست آندھر اپردیش کا قیام عمل میں آیا۔ ہم آصفیہ سلطنت اور میر عثمان علی خان کے کارہائے نمایاں کو فراموش نہیں کرسکتے ۔ وہ آفتاب کی طرح تابندہ رہیں گے ۔ آج ریاست میں کچھ گوشوں سے17ستمبر کو یوم آزادی کے طور پر منائے جانے کی بات کی جارہی ہے ۔ جب کہ26جنوری1950ء کو حیدرآباد کا انڈین یونین میں انضمام ہوا ۔ آزادی غیر ملکیوں یا ظالموں سے حاصل کی کجاتی ہے ۔ جب آصفیہ سلطنت مہربان عوام دوست اور منصفانہ تھی تو اس پر آزادی کا اطلاق کیسے کیاجاسکتا ہے ۔ اگر1948ء میں آزادی ملی تو پھر1969ء اور موجودہ تلنگانہ تحریک دوسری آزادی کی تلاش و جستجو محو سفر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ1956ء کی ریاستی تشکیل مکمل نہیں تھی، اسی لئے ایک نئی تلنگانہ ریاست کی مانگ کی جارہی ہے جو سابقہ حیدرآباد ہی کے اضلاع پر مشتمل ہوگی ۔ موجودہ تلنگانہ تحریک کے قائدین آصف جاہی سلطنت کی خوبیوں اور محاسن کے معترف ہیں ۔ ان کا سر عام اعتراف کرتے ہیں ۔ یہ جذبہ خیر سگالی اور اپنی نایاب و نادر وراثت کا احساس ہندو مسلم اتحاد کو پروان چڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔

Hyderabad - from the empire to democracy. Article: Dr. Masood Jaffri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں