بچوں کے اردو رسائل و اخبارات - ایک اجمالی جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-18

بچوں کے اردو رسائل و اخبارات - ایک اجمالی جائزہ

children-urdu-mags
زبان کوئی بھی ہو، اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے اور علاقے سے ہو، اد ب کے حوالے سے ہر زبان کی گود میں بچوں کے لئے قصے کہانیوں کی ایک دنیا آباد ہے اور اس دنیا میں شاعری کا بھی ایک خزانہ موجود ہے جو کتابی شکل میں بھی ہے ، اخبارات و رسائل کی صورت میں بھی اور کامکس وغیرہ ے روپ میں بھی۔اگر ہم رسائل اور اخبارات کی بات کریں تو اردو کا دامن اس سے خالی نہیں ہے ۔ ہر چند کے بچوں کے لئے لکھنے والے اردو میں نایاب نہیں، کمیاب ضرور ہوتے جارہے ہیں ، جو بچوں کے لئے مسلسل لکھتے رہے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر کو اللہ میاں نے اپنے پاس بلا لیا ہے ۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ بچوں کے لئے لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے لیکن پھر بھی لوگوں نے اس مشکل کھیل کو کھیلا اور خوب کھیلا جس کی پذیرائی بھی ایک زمانے میں خوب ہوئی مگر بچوں کی حصہ داری اردو ادب میں کم ہورہی ہے ، اس کا دائرہ دن بدن سمٹتا سکڑتا جارہا ہے، جو ادارے یا افراد خاص بچوں کے لئے رسائل اور میگزینس نکال رہے ہیں، ان کو پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں اور جو بچوں کے لئے لکھ رہے ہیں ان کو شکایت ہے کہ پڑھنے والے کم ہورہے ہیں ۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے یا تو بچوں کے کئی رسالے بند ہوگئے یا ان اکی اشاعت بتدریج کم ہورہی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ یونس دہلوی کا کھلونا ، بچوں کا دل بہلاتا تھا۔ وہ بے رحم وقت کے ہاتھوں ٹوٹ گیا ۔ اس کی بڑی وجہ اردو زبان کی زبوں حالی ہے ۔ ہماری پوری ایک نسل اردو کے حوالے سے گونگی ہوتی جارہی ہے ۔
شمالی ہند تو اردو کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ یوں ہی نہیں ہوگیا ۔ غیروں سے زیادہ اردو کا دم بھرنے والوں کے ہاتھوں ہی اردو بے دم ہورہی ہے ۔ اس بات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے ، زمینی حقیقت یہی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شہر در شہر مشاعروں کی دھوم ہے اور سمینار بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن ان میں کتنے سمینار ایسے ہیں جن میں بچوں کے ادب، شاعری اور صحافت پر گفتگو ہوتی ہو؟ یہی نہیں، ہم اپنے بچوں کے لئے اردو کی تعلیم کا کتنا بندوبست کرتے ہیں ، ان کو اردو کی تعلیم ملے ، اس کی ہم کو کتنی فکر ہے ، یہ آپ اور ہم بخوبی جانتے ہیں ۔ کہنے کو تو ہندوستان کے دل دلی میں چلڈرنس بک ٹرسٹ ہے ۔ یہ ٹرسٹ تیس سے زیادہ زبانوں میں بچوں کے لئے کتابی شائع کرتا ہے ۔ یہ نہیں معلوم کہ اس ٹرسٹ سے اردو میں کتنی کتابیں شائع ہوئی ہیں ۔ اردو میں بچوں کی صحافت کی اگر بات کریں تو مولوی محبوب عالم نے2مئی1899ء کو اپنا مشہور روزنامہ اخبار پیسہ لاہور کا ایڈیشن بند کرنے کے بعد بچوں کا اخبار کے نام سے اردو اںکار نکالا اور صحافت میں بچوں کو جگہ دی تھی ۔ یہ تحقیق طلب ہے کہ اس سے پہلے بھی اردو صحافت میں بچوں کے ادب کو جگہ ملتی تھی کہ نہیں۔ 2013ء میں راقم الحروف پاکستان گیا تھا تو لاہور کے پاک ٹی ہاؤس میں جانا رہا۔ وہاں اردو کی کئی نامور شخصیات سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ ایک صاحب ہی شبیر میواتی ۔ یہ صاحب چلتی پھرتی لائبریری ہیں اور پاکستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں عزت و احترام سے دیکھے جاتے ہیں ۔ ایک صاحب ڈاکٹر رفاقت علی شاہد ہیں جو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اردو کے پروفیسر ہیں اور پاکستان کے علمی ادبی مجلہ مباحث کے معاون مدیر ہیں۔ یہ مجلہ اردو کے ممتاز ادیب اور نقاد ڈاکٹر تحسین فراقی کی ادارت میں لاہور سے شائع ہوتا ہے ۔ ان دو حضرات کے ذریعہ لاہور میں کئی علمی ادبی شخصیات تک رسائی حاصل ہوئی اور ہندو پاک میں اردو کے حوالے سے گفتگو رہی ۔ بات بچوں کے ادب کی بھی آئی تو معلوم ہوا کہ بچوں کے حوالے سے پاکستان میں کافی کام کیا گیا ہے اور کیاجارہا ہے ۔ اسلام آباد میں الدعوہ اکیڈمی کے نام سے ایک اسلامی یونیورسٹی ہے جس میں بچوں کے ادب کا ایک پورا شعبہ قائم ہے اور ڈاکٹر محمد افتخار کھوکر اس کے نگراں ہیں۔ اس شعبے سے اردو صحافت میں بچوں کے لئے کافی تحقیقی کام ہوا ہے ، خاص طور پر بچوں کی اسلامی تربیت اور ذہن سازی کے لئے نکالے گئے رسائل کے حوالے سے بچوں کے اخبارات اور رسائل کی ایک خاص لائبریری لاہور کے نزدیکی شہر گوجرانوالہ میں عبدالحمید کھوکر کے نام پر ہے ، جس میں بر صغیر سے شائع ہونے والے بچوں کے رسائل اور اخبارات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے اور عبدالحمید کھوکر کے صاحبزادے ضیاء اللہ کھوکر نے اردو میں بچوں کی صحافت کے سو سال کے نام سے عبدالحمید کھوکر لائبریری میں موجود دو سو کے قریب رسائل اور اخبارات کی فہرست شائع کی ہے جن میں ہندو پاک کے1902ء سے2002ء تک کے رسائل اور اخبارات کے نا م ایڈیٹر کا نام اور سنہ اشاعت دیا گیا ہے ، خاص بات یہ ہے کہ ہندوستان کے ممتاز ادبی رسالے، شاعر ممبئی نے جون2003ء میں بچوں کے ادب پر ایک خاص نمبر نکالا تھا ، جس میں ضیاء اللہ کھوکر کا مضمون بطور خاص شامل تھاجس میں ہندوستان کے30کے قریب بچوں کے رسائل اور اخبارات بھی شامل ہیں۔ جب بھی بچوں کے رسائل اور اخبارات کا ذکر کیاجاتا ہے یا اردو میں بچوں کی صحافت کی بات آتی ہے اس فہرست کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اگر سنہ اشاعت کی ترتیب سے دیکھیں تو منشی مولوی محبوب عالم کا بچوں کا اخبار لاہور1902ء میں پہلا اخبار ہے جو1912ء تک شائع ہوتا رہا۔
اس کے علاوہ بنت، نذر الباقرکا ، پھول1909ء اکتوبر لاہور، مولوی فاضل محمد ، عبدالرب کوکب کا ماہنامہ ، اتالیق’1917ء حیدرآباد دکن، عزیز بی اے کا ہفت روزہ ‘غنچہ’ بجنور1922ء ، حکیم احمد شجاع کا ہفت روزہ نو نہال جولائی1922ء ، زیر سرپستی نوح ناروی ماہنامہ ‘گلدستہ’1922ء ماہنامہ ‘متعلم’1924ء ، خلیق احمد خلیق صدیقی سہارنپوری کا ماہنامہ ‘پیام تعلیم’، نئی دہلی اپریل1926، تا جور نجیب آبادی کا ہفت روزہ’پریم’ لاہور اپریل1926ء، بدیع الزماں اعظمی کا ماہنامہ ‘عزیز’ گورکھپور1930، کندن لال ایم اے کا ماہنامہ’رتن’جموں،1932، میاں عبدالحمید بھٹی کا ہفت روزہ’ہونہار’ لاہور جنوری1936، معین الدین انصاری کا ماہنامہ ‘سب رس’ حیدرآباد جنوری1938، اکرم بی اے کا ہفت روزہ ‘ہدایت’لاہور1938، یونس دہلوی ادریس دہلوی کا ‘کھلونا’ دہلی1948، ڈاکٹر عبدالوحید کا ماہنامہ ‘تعلیم و تربیت’ مارچ1941، ابو سلیم محمد عبدالحئی کا پندرہ روزہ’نور’ رامپور1952، حفیظ الرحمن انصاری کا ماہنامہ ‘اردو کومک’ مالیگاؤں جنوری1966، محمد فاروق دانش کا ماہنامہ’بھائی جان’ حیدرآباد ستمبر 1982ء، ان صاحب نے ایک اور ماہنامہ بچوں کا میگزین حیدرآباد بھی نکالا تھا جس کے مدیر اعزازی میں رفیق بھیا کا نام ہے ۔ اردو اکادمی دہلی کا ماہنامہ ‘امنگ’ نئی دہلی1987ء ، تنویر احمد کا”نرالی دنیا’ نئی دہلی1992، مولانا سراج الدین ندوی کا ماہنامہ’اچھا ساتھی’ بجنور نومبر1993، نوشابہ کلیم کا ماہنامہ” بچوں کی دنیا’گیا بہار نومبر1993، ایم اے کریمی کا ماہنامہ ‘اطفال ادب’ گیا بہور جنوری1998، نعیم احمد آکاش کا ماہنامہ تعلیم نو حیدرآباد اپریل2000کا ذکر ضیاء الدین کھوکر کی فہرست میں شامل ہے ۔ مولانا امداد صابری کی تاریخ صحافت اردو کی جلد سوم میں جہاں منشوی مولوی محبوب عالم کے بچوں کا اخبار کا ذکر ملتا ہے ، جلد پنجم میں مرزا احمد اللہ بیگ کے ادیب الاطفال حیدرآباد اگست1911اور ماہنامہ’ہمجولی’ اگست کا ذکر بھی ہے ۔ باقی جلدیں نہیں دیکھی ہیں ، اس لئے نہیں معلوم ان میں بچوں کے اور کتنے رسائل کا ذکر انہوں نے کیا ہے ۔ سعادت حسن منٹو نے بھی بچوں کا رسالہ ‘زخمہ’امرتسر سے نکالا تھا۔1947میں اس کا ہولی نمبر بھی نکلا تھا۔ اس کے راوی معروف قلمکار انور علی جامعی ایڈوکیٹ ہیں۔
حال فی الحال میں اردو کے جو روزنامے نکل رہے ہیں، خواہ وہ دہلی کے روزنامے ہوں یا ملک کی دوسری ریاستوں کے روزنامے ، ان سب روز ناموں میں ہفتہ واری ضمیموں میں بچوں کی شاعری، کہانیاں اور بچوں کی دلچسپی کی دوسری چیزیں کارٹون وغیرہ شائع کی جاتی ہیں ۔ اردو کے نامساعد حالات میں بھی ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ قصے کہانیوں اور شعروشاعری سے آگے اب بچوں کے کامکس وغیرہ بھی سامنے آرہے ہیں ۔
اردو میں بچوں کے لئے لکھنے والوں کی ایک کہکشاں ہے حجن کے قلم سے بچوں کے لئے نثری ادب میں جہاں کہانیاں اور قصے بے شمار لکھے گئے، شعری ادب میں بھی مالا مال رہا۔ بچوں کے لئے موضوعاتی نظمیں لکھی گئیں ۔ یہ سلسلہ کم و بیش آج بھی جاری ہے جس کے گواہ بچوں کے رسائل اور اخبارات کے علاوہ درسی اور غیر درسی کتابیں ہیں۔ بچوں کے لئے جنہوں نے لکھا ، ان کی ایک طویل فہرست ہے ۔ ان میں میروغالب اور اقبال کے علاوہ الطاف حسین حالی اور نظیر اکبرآبادی، اسماعیل میرٹھی ، منشی پریم چند ، ڈاکٹر ذاکر حسین، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، اختر شیرانی ، افسر میرٹھی، حامد اللہ افسر، اطہر پرویز، خواجہ مشتاق ، شفیع الدین نیر، رام لعل، پریم پال اشک، سراج انور، اظہار اثر اور ضمیر درویش کے علاوہ خواتین میں صالحہ عابد حسین، عصمت چغتائی ، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، قدسیہ زیدی، مسرور جہاں، اس طویل فہرست کے مشہور و معروف نام ہیں ، جن کے قلم سے رسائل و اخبارات کے علاقہ کتابوں میں بچوں کے لیے نثری اور شعری ادب کی قندیلیں روشن نظر آتی ہیں ۔ ہر چند کہ آج بچوں کے رسائل کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے لیکن اردو کی بحیثیت زبان موجودہ صورت حال جیسی بھی ہو ہمیں اس میں بچوں کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے ، اور بچوں کے لئے لکھنے والے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کرنی چاہئے تاکہ نئے لکھنے والے بھی سامنے آئیں اور اس حوالے سے گاہے بہ گاہے سیمنار بھی ہوتے رہیں اور ہر سال یہ جائزہ لیاجاتا رہے کہ ایک سال میں موضوع کے لحاظ سے کتنا اور کیسا بچوں کے لئے لکھا گیا ہے۔ بچوں کے ادب پر تحقیقی کام کہاں اور کیسا ہورہا ہے اور کس معیار کا ہے اور آج کے بدلتے حالات اور ڈیجیٹل ایج میں بچوں کی نفسیات کو ملحوظ رکھ کر دوسری زبانوں کے مقابلے کتنا ادب تخلیق ہورہا ہے ، اور اس کے امکانات کتنے روشن ہیں؟ لیکن یہ سب کام اسی وقت بہتر نتائج کا ضامن بن سکتا ہے جب اردو کی درس و تدریس کا معقول نظم ہو، اس کے بغیر زبانیں زندہ نہیں رہتیں ۔ سنسکرت کی مثال ہمارے سامنے ہے جو اب کلاسیکل زبان تو ہے، عوام سے اس کا کوئی رشتہ باقی نہیں رہا ۔ اردو سخت جان ہے ، ابھی تو جھیل رہی ہے اور اپنی زندگی کا ثبو ت دے رہی ہے لیکن اگر ایک دو نسلیں اردو کی درس و تدریس سے محروم رہیں تو اردو ہمارے ماحول میں بالکل اجنبی بن جائے گی اور جو حال فارسی زبان کا ہوا ہے، اردو کا بھی ہوجائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔

Children's Urdu Magazines and Newspapers - An Overview. Article: Shahid Zuberi

1 تبصرہ: