یوسف روش - حیدرآباد کا قلندر شاعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-01-16

یوسف روش - حیدرآباد کا قلندر شاعر

yousuf-rawish
یوسف روش کا اجمالی تعارف:
اصل نام: سید یوسف
قلمی نام: یوسف روشؔ
پیدائش:6/جنوری1943ء
تعلیم: ایم ٹیک (عثمانیہ)
پیشہ: موظف آفیسر IDPL S.P.E

کتابیں:
  • پیمانہ روش (نظمیں) 
  • پہلی پھوار (مجموعہ کلام)
  • دوسری پھوار (مجموعہ کلام)
  • تیسری پھوار (مجموعہ کلام)
  • کعبۂ عشق (نعتیہ کلام)
  • گلدستہ سخن (مجموعہ کلام)
  • ادراک و احساس (انٹرویو، ادبی تذکرے، خاکے، تبصرے)
  • لن ترانی (مضامین)
  • مہکتی باتیں (دینی تقاریر کا خلاصہ)
  • شعر و سخن کی باتیں(مضامین)
  • قدم قدم منزل (نادر المسدوسی کے فکروفن پر لکھے گئے مضامین)
  • مشاعرے ہی مشاعرے (مشاعروں کی تفصیلات)
  • اردو شاعری میں مروج منفرد اور مرکب بحریں

انعامات و اعزازات:
بزم انوار ادب سلون رائے بریلی ، کل ہند مرکزی بزم محمدی ورنگل، بزم طاہر بیابانی، بزم کہکہشاں، مولانا آزاد ایجوکیشنل سوسائٹی، تنظیم تحفظ اردو سے انعامات و اعزازات۔

یوسف روشؔ نہ صرف کہنہ مشق شاعر و ادیب ، ماہر تہنیت اور تاریخ گو شاعر ہیں بلکہ سادگی کا پیکر، اخلاص کا جیتا جاگتا نمونہ، دل کا آئینہ شفاف جس میں بغض و حسد کا ایک بال بھی نہیں۔ تکبر ان کے قریب آنے سے خوف کھاتا ہے ۔ اعلیٰ ظرفی اور انکسار کا یہ عالم ہے کہ بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی خود کو اوسط درجہ کا شاعر سمجھتے ہیں، قلندرانہ مزاج ہے۔
یوسف روش نہ صرف اچھے اور سچے شاعر ہیں بلکہ نثر نگاری میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھا چکے ہیں ۔ تاریخ گوئی جیسے مشکل ترین فن میں بھی طبع آزمائی کرچکے ہیں۔ بے شمار شاعروں، ادیبوں ، پروفیسروں، سماجی شخصیات کی شان میں تہنیتی نظمیں اور قطعات لکھ کر دلوں کو خوش کرنے کا ہنر دکھا چکے ہیں۔ ہر فنکار کی قدر کرتے ہیں، ہر ایک کی دعاؤں میں شامل رہتے ہیں۔ شہرت سے بے نیاز مسلسل شعر و ادب کی آبیاری کر رہے ہیں ۔ شاعری میں وارداتِ قلبی کو سمویا ہے۔ سادگی اور سلاست سے مزین ان کی شاعری میں خلوص اور محبت کے رنگ بھرے ہوئے ہیں۔

منتخب اشعار
خود کو بڑا سمجھنے کا سارا فساد ہے
اپنے خلاف جنگ ہی اصلی جہاد ہے
--
رقم کرتا ہوں میں سچائیوں کو
قلم سے شاعری جب پھوٹتی ہے
--
کسی بھی بات پہ برہم کبھی نہیں ہوتا
جو اہل ظرف ہے غصہ چھپائے رکھتا ہے
--
دل تاریک میں غم کا اجالا کرلیا میں نے
بھرے زخموں کو اپنے پھر سے تازہ کرلیا میں نے
--
دکھائی دے اگر انجام دل دکھانے کا
ارادہ چھوڑ دے کوئی ہنسی اڑانے کا
--
تمام عمر گزاری غموں میں جس نے روشؔ
روانہ آج وہ دنیا سے مسکرا کے ہوا

قطعات
دکھائی نہیں دیتی کہیں تہذیب پہلی سی
فضا ہی آج کی کچھ ایسی ویسی ہوگئی صاحب
نہیں ملتی نہیں ملتی کہیں بھی اب نہیں ملتی
ہمارے شہر کی تہذیب چوری ہو گئی صاحب
--
شدت غم میں بھی جذبات پہ قابو ہے روشؔ
ضبط کا پردہ اٹھا لوں یہ ضروری تو نہیں
اس نے پگڑی تو اچھالی ہے مری محفل میں
اس کی پگڑی میں اچھالوں یہ ضروری تو نہیں

غزل
گل میں نہیں ہے خوشبو غزل کہہ کے کیا کروں
غم ہے کوئی نہ آنسو غزل کہہ کے کیا کروں
دل پر نہیں ہے قابو غزل کہہ کے کیا کروں
آباد کب ہے پہلو غزل کہہ کے کیا کروں
بھرتا رہا اڑان سخن کی فضاؤں میں
شل ہو گئے ہیں بازو غزل کہہ کے کیا کروں
ویران ہو گئی ہیں سبھی محفلیں یہاں
اب رقص ہے نہ گھنگرو غزل کہہ کے کیا کروں
راتیں اندھیری چاند بھی نکلا نہیں روشؔ
گم ہوگئے ہیں جگنو غزل کہہ کے کیا کروں

Yousuf Rawish, a notable Urdu poet from Hyderabad. Article: Dr. Farooq Shakeel

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں