مختصر افسانے کی صنف اور ریڈیو کی پابندیاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-01-23

مختصر افسانے کی صنف اور ریڈیو کی پابندیاں

یہ بحث کہ مختصر افسانے کو کیسا ہونا چاہیے، اسی وقت سے چل رہی ہے جب سے یہ صنف ادب وجود میں آئی ہے ۔
اس کی طوالت کتنی ہو؟ اس کا مواد اور اس کے موضوعات کس نوع کے ہوں؟ اس کے پلاٹ، اس کی تکنیک ، اس کے بیان اور اس کی زبان کا انداز کیا ہو؟ یہ اور اسی نوعیت کے دیگر امور پر نقادوں کے درمیان بحثیں افسانے کی ابتداء ہی سے ہوتی آ رہی ہیں ۔ ان بحثوں کے نتیجے میں مختصر افسانے کے رنگ روپ کے مختلف پہلوؤں کے متعلق خواہ دو اور دو چار قسم کے حتمی اور قطعی فیصلے نہ ہو سکے ہوں، لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس صنف کی بنیادی خصوصیات کا تعین کافی حد تک ہوگیا اور افسانہ نگار، نقاد اور قاری خاصے واضح تصور کے ساتھ یہ سمجھنے لگے کہ افسانے کے ہر ہر پہلو کے اوصاف کی متعین حدیں کیا ہیں؟
مگر ریڈیو سے مختصر افسانوں کے نشر کئے جانے کے رواج نے آج کل ان حدوں کے تعین کو متزلزل کر کے رکھ دیا ہے ، اور ہمیں یہ سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا نشر ہونے اور سنے جانے والے افسانوں کی خصوصیات بھی وہی رہ سکتی ہیں جو چھپنے اور پڑھے جانے والے افسانوں کی بنیادی صفات سمجھی جاتی ہیں؟

ریڈیو ایک خاص قسم کا ذریعۂ ابلاغ ہے، جس کی اپنی مخصوص پابندیاں ہیں۔ اس ذریعہ ابلاغ کے توسط سے جو بھی چیزیں لوگوں تک پہنچائی جاتی ہیں، انہیں تخلیق کرتے وقت ان پابندیوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔ ریڈیو سے نشر کی جانے والی چیزوں میں مختلف قسم کی ادبی تخلیقات بھی شامل ہوتی ہیں، اور ان ادبی تخلیقات کے نثری نمونوں میں سب سے زیادہ مقبولیت ڈراموں، فیچروں اور مختصر افسانوں کو حاصل ہے۔
ان تینوں صنفوں کے ریڈیو پر مقبول ہونے کا اثر ان اصناف کے تمام پہلوؤں کی خصوصیات پر پڑا ہے ۔ ریڈیو کے لیے لکھے جانے والے ڈراموں اور فیچروں کا رنگ و آہنگ تو اس ذریعہ ابلاغ کی پابندی کے زیر اثر اتنا بدل گیا ہے کہ اب وہ عام ڈراموں اور فیچروں سے بالکل ہی مختلف چیز ہوکر رہ گئے ہیں اور ریڈیو ڈرامہ، اور ریڈیو فیچر کے نام سے انہیں علیحدہ اصناف کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے ۔
مختصر افسانے کو ابھی ریڈیو کے ذریعہ ابلاغ اور اس کی پابندیوں نے اتنا زیادہ متاثر نہیں کیا ہے کہ ریڈیو افسانہ جیسی کوئی الگ صنف وجود میں آ گئی ہو ، لیکن کچھ نہ کچھ اثرات تو اس صنف پر بھی مرقسم ہوئے ہیں، اور اس صورتحال کے پیش نظر کہ مرتبے اور ہر صنف کے افسانہ نگار ریڈیو کے لیے افسانے لکھنے کی رغبت رکھتے ہیں، ان اثرات کے مستقبل میں بیش از بیش ہوتے جانے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
آئیے ذرا دیکھیں کہ ریڈیو کے لیے جو افسانے لکھے جاتے ہیں، وہ کن پابندیوں سے دوچار ہوتے ہیں ، اور یہ پابندیاں مختصر افسانے کی صنف پر کس کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں، یا ہو سکتی ہیں؟

ریڈیو سے نشر ہونے والے افسانوں کی سب سے نمایاں پابندی وقت کی ہوتی ہے۔ عام طور پر ریڈیو پر افسانے پڑھنے کے لیے دس یا پندرہ منٹ کا وقت دیا جاتا ہے ۔ اگر کبھی کسی غیر معمولی پروگرام میں اس سے کچھ زیادہ وقت بھی مل جاتا ہے تو اس کا وقفہ پہلے سے متعین ہوتا ہے ۔ گویا کسی بھی حالت میں ریڈیو کے لیے افسانہ لکھنے والے فنکار کو اپنی مرضی کے مطابق افسانے کی طوالت کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، بلکہ اسے ہر حال میں ریڈیو کے مقرر کردہ وقفے کا پابند ہوکر اسی کی مناسبت سے اپنے افسانے کی طوالت کی حد بندی کرنی پڑتی ہے ۔ بالعموم ریڈیو والے چونکہ دس یا پندرہ منٹ ہی کا وقت دیتے ہیں اس لیے ریڈیو پر پڑھا جانے والا افسانہ عموماً بس اتنا ہی بڑا ہو سکتا ہے کہ اس وقفے میں پڑھ کر ختم کر دیا جائے۔
اس طرح مختصر افسانے کی طوالت کے یقین کے متعلق جو فیصلے نقادوں کی بحثوں کی روشنی میں ہوئے تھے ان کی حدوں کو ریڈیو کی پابندی وقت نے توڑ دیا ہے ۔ ریڈیو سے سنانے کیلیے جو افسانہ لکھا جاتا ہے اس کی طوالت پوری قطعیت کے ساتھ طے ہوتی ہے۔ یہ پابندی افسانہ نگار کے لیے ایک ایسی بندش ہے جو اس کے فن کے تمام گوشوں کو متاثر کر سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ افسانے کی جو ساخت وہ موضوع کے لحاظ سے مناسب سمجھتا ہو اسے محض وقت کی سخت پابندی کی وجہ سے نہ اختیار کر سکے ۔ اسی طرح ممکن ہے کہ پابندیٔ وقت کی جکڑ بند اس کی انداز بیان اور زبان کے معاملے میں بھی اپنی پسند کی روش نہ اپنانے دے۔

ریڈیو کی بعض پابندیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو افسانے کے موضوعات کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں بہت سے موضوعات ریڈیائی مقاصد کے تحت تحریر کئے جانے والے افسانوں کے دائرے سے خارج ہو جاتے ہیں ۔ اگر ریڈیو مکمل طور پر حکومت کے زیر اختیار ہو تو وہ سارے موضوعات افسانہ نگار کے لیے بالعموم شجر ممنوعہ ہوتے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہوں۔ ریڈیو کے حکومت کے قبضے سے آزاد ہونے کی صورت میں بھی کچھ موضوعات ان افسانوی تخلیقات کی بنیاد نہیں بنائے جا سکتے جنہیں ریڈیو سے نشر کیا جانا ہو، کیونکہ ریڈیو کے سامعین میں ہر ذہنی سطح کے افراد ہوتے ہیں ، اور بعض موضوعات کو صحیح طور پر سمجھنے اور ان سے مناسب اثرات قبول کرنے کی صلاحیت تمام لوگوں میں نہیں ہوتی جس کی بنا پر ان موضوعات پر مشتمل افسانوں کو ریڈیو سے نشر کرنا سماج کے حق مین بہتر نہیں ہوتا ۔
اس سلسلے میں صرف ایک مثال پیش کر دینا کافی سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ سعادت حسن منٹو نے تقسیم ہند کے زمانے کے فسادات پر جو افسانے لکھے ہیں انہیں ایسے معاشرے میں بھی براڈ کاسٹ کرنا مناسب نہیں سمجھا جا سکتا، جہاں ریڈیو کو مکمل خود مختاری اور آزادی حاصل ہو۔ گویا یہ کہ ریڈیو کی پابندیاں افسانے کے موضوعات کو محدود کرتی ہیں۔

ریڈیو کے سامعین میں ذہین اور تیز طرار دماغ کے لوگوں کے ساتھ ساتھ کم سمجھ بوجھ اور سست ذہن والے افراد کی موجودگی کے باعث ریڈیو کے لیے لکھے جانے والے افسانوں کو اس پابندی کا بھی شکار ہونا پڑتا ہے کہ ان کی تکنیک سیدھی سادی ہو، تاکہ معمولی فہم رکھنے والوں کے لیے بھی ان کی تفہیم میں دشواری نہ ہو ، کسی طرح کی پیچیدہ اور گنجلک تکنیک ریڈیو سے نشر ہونے والے افسانوں کے لیے موزوں نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ان میں تجریدی افسانوں کی تکنیک کا استعمال مناسب نہیں قرار دیا جا سکتا۔

ریڈیو کا کوئی بھی نشریہ سنتے وقت چونکہ سننے اور سمجھنے کا عمل ساتھ ساتھ چلتا ہے اور اس میں کسی جگہ کچھ دیر ٹھہر کر دماغ پر زور دینے یا کسی بات کو دوبارہ سن کر اس پر مزید غور کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے ریڈیو سے جو افسانے سنائے جاتے ہیں ان کے اندازِ بیان کا بھی سیدھا سادہ اور واضح ہونا لازمی ہوتا ہے ۔ ریڈیو کی یہ پابندی انداز بیان کی تہہ داری اور ایمائیت کو بھی بڑی حد تک افسانے کی حدود سے خارج کر دیتی ہے۔

ریڈیو سے نشر ہونے والی ہر چیز کی زبان کا آسان اور عام فہم ہونا ضروری ہے ۔ یہ ریڈیو کی ایک ایسی پابندی ہے جس سے کسی صورت میں بھی گریز نہیں کیا جا سکتا ، اور اس پابندی کی وجہ سے اس مخصوص ذریعہ ابلاغ کے لیے خصوصی طور پر لکھے جانے والے افسانوں کی زبان، عام ادبی افسانوں کی زبان سے مختلف ہو جاتی ہے ۔

ریڈیو کے لیے افسانے لکھنے کے سلسلے میں مندرجہ بالا پابندیوں کا لحاظ رکھنے کے نتیجے کے طور پر ایسے افسانوں کا عالم وجود میں آنا یقینی ہے ، جو ریڈیو کے مقاصد کے لیے کامیاب تخلیقات ثابت ہوں، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس خطرے کے سر اٹھانے کا بھی امکان ہے کہ کہیں ان پابندیوں کو نظر میں رکھ کر افسانے تحریر کرنے کی روش کے فروغ سے مختصر افسانے کی صنف کا ادبی وقار مجروح نہ ہو۔

نوٹ :
بشکریہ: ماہنامہ "انشاء ، کولکاتا"۔
تحریر: ڈاکٹر اختر بستوی۔
لکچرر شعبہ اردو، گورکھپور یونیورسٹی، گورکھپور (اترپردیش)

The restrictions of Urdu short story on radio. Article: Dr. Akhtar Bastavi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں