ممبئی کا چور بازار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-01-20

ممبئی کا چور بازار

آزادیِ ہند سے قبل ملکہ برطانیہ کی آمد پر اس کے استقبال کیلیے گیٹ وے آف انڈیا بمبئی کے ساحل پر تعمیر کیا گیا جہاں اس کا جہاز لنگرانداز ہوا- ملکہ کو جہاز سے فوری طور پر محل لے جایا گیا- محل غالباً آج کا ہوٹل تاج تھا جو گیٹ وے آف انڈیا کے روبرو قائم ہے-
ملکہ کے ساتھ آئے سازوسامان میں ایک وائلن بھی تھا- جب ملکہ نے سمندر کی پرشور لہروں پر ایک نغمہ چھیڑنے کی غرض سے وائلن طلب کیا تو معلوم ہوا کہ وہ غائب ہے- گیٹ وے آف انڈیا سے محل کے درمیان میں وائلن غائب کردیا گیا تھا-
ایک غلام ملک کے غلام شہری نے آزادیِ کردار کا وہ مظاہرہ کیا کہ ایک فاتح ملکہ کو اس کی تفریح سے محروم کردیا- ملکہ جس کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا-
ملکہ برطانیہ کا وائلن چوری ہوجانا کوئی معمولی بات نہ تھی- سارا علاقہ چھان مارنے کے بعد وہ وائلن موجودہ مولانا شوکت علی روڈ پر فروخت ہوتا ہوا پایا گیا- ملکہ کو وائلن کی بازیابی کی اطلاع ملی تو اس نے اس بازار کو تھیف مارکیٹ یعنی "چور بازار" کہہ کر پکارا-
ایک اور روایت کا مطابق مولانا شوکت علی روڈ پر پرانے سامان فروخت ہوتے تھے اور علاقے میں بہت شور ہوتا تھا اس لیے اس کا نام "شور بازار" پڑ گیا- بازار میں آنے والوں کی اکثریت جہلاء کی ہوتی تھی- اس لیے شور بازار کثرتِ استعمال سے بگڑ کر "چور بازار" میں تبدیل ہوگیا-
دوسری روایت کچھ حد تک درست معلوم ہوتی ہے- کیونکہ انگریزوں کو دوسروں کو بدنام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا اسلیے انہوں نے شریفانِ اودھ کو پان کھاتے دیکھ کر کہا کہ یہاں تو ہر تیسرا آدمی تپِ دق کا مریض ہے اور خون تھوکتا پھرتا ہے-
جاہل اور تہذیبی قدروں سے نا آشنا لوگ۔۔۔۔۔!!
صدیوں کی تاریخ اور تمدّن کا یک روزہ مشاہدہ کرنے کیلیے چور بازار سے بہتر جگہ کہیں اور نہیں مل سکتی- برطانوی دور کی گھڑیاں ہوں رولز رائس کاریں، راجپوتوں کے زیوات ہوں یا ان کے لہو سے غسل کی ہوئی شمشیریں، ایران کے جھومر ہوں یا ان کے ہاتھ کی بنی قالینیں، ملکہ برطانیہ کی سہلیوں کے وائلن ہوں یا مغلوں پر گولہ باری کرچکی توپوں کے زیراکس، یہاں سب کچھ مل سکتا ہے- ستم یہ کہ دکاندار اس چیز کی قدر سے نابلد ہوتا ہے- اس دکاندار کیلیے تہذیب و تمدّن بس صرف یہی ہے کہ فی الوقت آپ کی جیبوں میں سبز نوٹ ہیں یا سرخ ۔۔۔۔۔ وہ سرخ انقلاب اور سبز انقلاب سے نا آشنا ہوتا ہے-
خود راقم نے ایک کتاب "پہاڑوں کا بیٹا" کی تلاش میں بک فیئرز کی شکل میں کتابوں کے کئی پہاڑ سر کیے لیکن ناکام ہی رہا- بالآخر اسی چور بازار سے اس حالت میں ملی کہ کتاب کا نصف حصّہ ایک بوسیدہ سے باردان پر اور نصف راستے پر تھا جس سے خلقت ہجوم در ہجوم گزر رہی تھی-
کتاب اٹھا کر بیس روپے کا نوٹ دکاندار کو دیا اور واپس پیسے نہیں مانگے- ریزگاری واپس نہ مانگنے والے خریدار سے دکاندار بہت خوش ہوتا ہے اور ادھر خریدار کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ نایاب شئے دینے والے دکاندار کا منہ چوم لینا چاہتا ہے لیکن اس کے (دکاندار کے) منہ میں بھری نسوار آڑے آجاتی ہے-
بالی ووڈ اور چور بازار کا بہت پرانا رشتہ ہے- فلموں میں بم سے اڑائی جانے والی گاڑیاں یہیں سے خریدی جاتی ہیں- پھر اس گاڑی کی سیاہ باڈی بھی یہی فروخت کی جاتی ہے- اس سیاہ باڈی کو پھر بالی ووڈ کی کسی ہارر مووی کے لیے یہیں سے دوبارہ خرید لیا جاتا ہے-
فلم "پی کے" میں عامر خان نے جس ٹرانزسٹر سے بمشکل اپنی ستر پوشی کی تھی وہ چور بازار سے محض 227 روپے کا خریدا گیا تھا- فلم کی ریلیز کے بعد اس ٹرانزسٹر کی قیمت دیڑھ کروڑ روپے تک لگائی گئی تھی-
فلم "تین پتّی" میں امیتابھ بچن نے چور بازار سے 150 روپے کی خریدی گئی گھڑی پہنی تھی-
چور بازار سے آپ مٹی کے مول سونا خرید سکتے ہیں-
ایک شخص نے پرانے کپڑوں کی دکان سے بوسیدہ سی ساڑی پچاس روپے میں خریدی- پھر اس ساڑی سے سونے کے تاروں کو نکال کر لاکھوں روپے کمائے-
ایک زنگ خوردہ کباٹ کی دراز سے طبع آزمائی کرنے کے بعد اس سے وہ جواہرات برآمد ہوئے جس سے آنکھیں خیرہ ہوگئیں-
یہ دن کا چور بازار تھا- اب آتے ہیں رات کے چور بازار کی جانب جہاں درحقیقت چوری کی اشیاء فروخت ہوتی ہیں-
جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب رات ایک بجے بھی یہاں چہل پہل ہوتی ہے- ایک سے ایک کیریکٹر نظر آتے ہیں- اس بازار میں جانے کیلیے خود کیریکٹر بننا لازمی ہے ورنہ شرفاء یہاں لٹ جاتے ہیں-
جب ہم یہاں جاتے ہیں تو ہماری دھج یہ ہوتی ہے کہ شرٹ کے دو بٹن کھلے ہوئے ہیں- آستینیں کہنیوں تک چڑھی ہوئی ہیں- پیشانی پر "رام جانے" اسٹائل میں سرخ رومال بندھا ہوتا ہے- ہونٹوں میں سگریٹ دبی ہوتی ہے- کل ملا کر مکمل لوفر نظر آتے ہیں کہ اس حالت میں قبلہ گاہی دیکھ لیں تو فرزند ارجمند کو پہچاننے سے انکار کردیں- بدقّت ہزار پہچان بھی لیں تو جائداد سے عاق کردیں-
یہاں آنے سے قبل اپنی ساری قیمتی چیزیں موبائل فون، گھڑی اور شکستہ دل گھر چھوڑنا لازمی ہوتا ہے- نوٹوں کے سائز کے کچھ سادہ کاغذ جینس کے ہپ پاکٹ میں رکھے ہوتے ہیں- اور اس پر ٹرک شاعری جیسی الّم غلم تحریریں لکھی ہوتی ہیں-
کچھ نوٹ پھر بھی جیب میں موجود ہوں تو انہیں اپنی مٹھی میں رکھتے ہیں یا جوتوں میں ڈال دیا جاتا ہے-
اوّل تو ہماری کرنسی پر "اسلامی جمہوریہ" یا "دولتِ اسلامیہ" درج نہیں ہوتا اور دوّم یہ کہ پیسہ قدموں کے نیچے رہے تو ہی ٹھیک ہے- جب یہ سروں پر سوار ہوجاتا ہے تو فتنوں کا پیامبر بن جاتا ہے- مہاتما گاندھی جوتوں میں جاتے ہوئے کچھ برا سا منہ بناتے ہیں لیکن انہیں تھپکیاں دی جاتی ہیں کہ آپ کی محبّت میں ہی تو یہ سب کررہے ہیں- پھر گاندھی مسکرا دیتے ہیں- گمان ہوتا ہے کہ کہہ رہے ہوں-
"چلو بچّہ ! معاف کیا-"
آیتہ الکرسی پڑھ کر چور بازار میں داخل ہوجاتے ہیں- موبائل ، گھڑیاں، آئی پوڈس، کیمرے، ہارڈ ڈسکس، مانیٹرس اور پاور بینکس بھانت بھانت کر دستیاب ہوتے ہیں- سب چوری شدہ آئٹمس ہوتے ہیں- اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نوآموز کسی شئے کو خرید کر آگے بڑھتا ہے تو ایک شخص ایک پولس والے کے سمیت اس سے مذکورہ شئے چھین کر اس کی رسید اسے بتاتے ہوئے "حق من محفوظ و موصول" کا نعرہ بلند کرتا ہے- وہ شخص نہ اس شئے کا مالک ہوتا ہے نہ اس کے ساتھ پولس اصلی ہوتی ہے- دونوں دکاندار کے گرگے ہوتے ہیں-
اس کا علاج یہ ہے کہ کسی بھی شئے کو خریدتے وقت اپنے ساتھی کو دور رکھا جائے- شئے خرید کر دوست کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے تھما دی جائے- پھر آپ کا دوست تیزی سے باہر نکل جائیگا اور دکاندار کے گرگے آپ کے پاس سے خریدی ہوئی شئے برآمد نہیں کرسکیں گے- پھر آپ کا حلیہ دیکھ کر مار پیٹ سے گریز بھی کرینگے کہ "جانے کس کا آدمی ہو-"
چور بازار میں تصویریں بنوانا یا سیلفیاں لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ اس بازار کے آداب و اصول و ضوابط سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے- پھر آپ کی کیفیت غنڈوں میں پھنسی رضیہ کی سی ہوجاتی ہے- یا روح افزاء کی اس بوتل کی حیثیت جو چہار جانب دیسی و افرنگی بوتلوں کے نرغے میں آگئی ہو-
پھر جناب فراز سے معذرت کے ساتھ۔۔۔۔۔ ع
خوب لٹتے ہیں شرابیں جو شرابوں میں ملیں
چور بازار میں کچھ لڑکیاں بھی ہوتی ہیں- جو گاہے گاہے آپ سے ٹکراتی رہتی ہیں- انہیں نظرانداز کیجیے یا لطف اٹھائیے کہ وہ آپ کے پاس سے ایک چونّی بھی نہیں حاصل کرسکتیں- ہپ پاکٹ میں موجود کاغذ جسے وہ نوٹ سمجھتی ہیں اسے نکالنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں جس پر ٹرک شاعری درج ہوتی ہے-
"پھر ملینگے ___ اگر خدا لایا"
"جل مت ___ مسکرا دے"
"پاس کر ___ یا برداشت کر"
یا پھر دعوتِ مبارزت ۔۔۔۔۔۔۔
"کل رات دس بجے ۔۔۔۔ مرین ڈرائیو پر ۔۔۔ اپنے بالوں میں سرخ گلاب لگا کر آنا کہ میں تمہیں پہچان سکوں ۔۔۔ لو یو"

The thieve's market of Mumbai. Article: Hifzur Rehman (Rehan Khan)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں