شیخ الحدیث مولانا عبدالسبحان اعظمی عمری رحمہ اللہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-01-22

شیخ الحدیث مولانا عبدالسبحان اعظمی عمری رحمہ اللہ

maulana-abdus-subhan-azmi
ابتدائی حالات:
مولاناعبدالسبحان اعظمی بن شیخ الحدیث محمدنعمان صاحب بن حاجی عبدالرحمن شہید، مؤناتھ بھنجن(یوپی) میں 1910ء میں پیداہوئے۔ ان کے والد شیخ الحدیث مولانا محمدنعمان صاحب بھی مؤناتھ بھنجن کے باشندے تھے۔ مدرسہ عالیہ عربیہ مؤ اور مدرسہ احمدیہ آرہ میں پڑھے ہوئے تھے۔ سیدنذیرحسین محدث دہلوی اورڈپٹی نذیراحمددہلوی کے فیض یافتہ تھے۔ کچھ مدت مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں مدرس رہے لیکن آب وہواراس نہ آئی چنانچہ 1928ء کے اواخر میں عمرآباد آکر جامعہ دارالسلام سے وابستہ ہوگئے۔ جس کاقیام 1924ء میں عمل میں آیاتھا۔ اورتقریباً ایک چوتھائی صدی تک دین وملت کی خدمت کرنے کے بعد مولانا محمدنعمان صاحب 1953ء کے اواخر میں عمرآباد ہی میں انتقال فرما گئے۔

تعلیم:
مولاناعبدالسبحان صاحب کی ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ مؤیوپی میں ہوئی۔ قرآن مجیدبھی وہیں پوراکیااوراردو،فارسی کی تعلیم بھی وہیں ہوئی۔ گلستان ،اخلاق محسنی، مفتاح القواعد وغیرہ مولاناعبدالاحد رحمہ اللہ سے پڑھیں۔ مدرسہ محمدیہ کھیدوپورہ، مؤ میں تقریباً دوسال تک اپنے ایک قرابت دار مولاناعبدالعلی رحمہ اللہ سے نحومیر،شرح مائۃ عامل، ہدایۃ النحو، پنج گنج، علم الصیغۃ،فصول اکبری اورشرح ملاجامی پڑھی، دوبارہ مدرسہ عالیہ مؤمیں داخلہ لے کر مولاناعبدالرحمن رحمہ اللہ سے شرح تہذیب پڑھی۔ 1928ء کے شوال میں مدرسہ رحمانیہ دہلی میں داخلہ ہوا، بہ مشکل ڈیڑھ دوماہ رہ کرسخت بیماری کی وجہ سے شیخ الحدیث مولاناعبیداللہ رحمانی مبارک پوری کے ساتھ گھرچلے آئے۔ شیخ الحدیث مولاناعبیداللہ رحمانی صاحب اس وقت رحمانیہ میں مدرس تھے، مولاناعبدالسبحان صاحب نے ان سے وہاں بلوغ المرام کے کچھ سبق پڑھے تھے۔ یہ 1929ء کے اوائل تک کی تعلیمی کیفیت ہے۔ اس کے بعداپنے والد کے ساتھ عمرآباد آگئے اورپانچویں سے آٹھویں تک چاربرس آپ نے جامعہ دارالسلام میں گزارا۔ 1932ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ ہرجماعت میں درجہ اول سے کامیاب ہوتے رہے۔ آپ کے ہم سبق چارطلباء تھے مولاناحبیب الرحمن خاں سروش ایم اے، مولانامحمدیوسف کوکن ایم اے،مولانامحمدعطاء اللہ سلفی، مولاناعبدالجبارشریف۔
ان دنوں جامعہ میں درجہ تکمیل بھی تھا۔جو اختیاری تھا۔ اورتین شعبوں ،دینیات ادبیات اورمعقولات میں تھا۔ مقصودیہ تھاکہ شوقین طلبہ اپنے رجحان کے مطابق کسی ایک فن میںدرک اورمہارت حاصل کرلیں۔ یہ سلسلہ ایک ہی سال رہایعنی 1933ء میں ختم کردیاگیا۔ مولانانے شعبہ معقولات میں داخلہ لیا،اس شعبہ میں آپ اکیلے ہی تھے، اس کے نصاب میں اشارات بوعلی سینا، قاضی مبارک،میرزاہد، ملاجلال، صدرا،شرح چغمینی اورالدروس الاولیۃ فی الفلسفۃ الطبعیۃ تھیں۔ مولانانے اس میں بھی کامیابی حاصل کرلی اوراسی سال آپ نے افضل العلماء بھی نکال لیا۔

اساتذہ عمرآباد:
1938ء میں منشی فاضل بھی پاس کرلیاتھااوراس وقت آپ کوجامعہ میں استاد ہوئے پانچ سال ہورہے تھے۔ آپ کے والدمولانامحمدنعمان اعظمی آپ کے عم محترم مولانامحمدعلی ابوالقاسم قدسی،مولاناعثمان خان شاہجہاں پوری، مولاناعبیداللہ عاقل رحمانی بہاری، مولاناغضنفر حسین شاکر نائطی مدراسی، مولاناحافظ محمدصاحب پنجابی وغیرہ دارالسلام میں آپ کے استاد تھے۔

عمرآباد میں آپ کی خدمات:
مولانافضل اللہ صاحب مدراسی ناظم جامعہ تھے جوجنگ آزادی، تحریک خلافت اورتحریک عدم تعاون وغیرہ سے وابستہ رہ چکے تھے۔ متبحر عالم ومقررتھے ان کی نظر انتخاب مولاناعبدالسبحان صاحب پرپڑی، 1933ء میں مولانادرجہ تکمیل کے طالب علم تھے کہ قاضی ارتضاء علی خاں کی تصریح المنطق کاایک سبق آپ کے ذمہ کردیاگیااوراگلے برس 1934ء میں آپ جامعہ کے باقاعدہ استا دمقررہوئے۔ ابتداء میں آپ کوصرف ونحو اورمنطق کی کتابیں دی گئیں پھربتدریج صحیح مسلم، سنن ابی داؤد،مقدمہ ابن خلدون، شرح عقائدنسفی، حجۃ اللہ البالغۃ، نورالانوار،مسلم الثبوت،ہدایۃ المجتھد،قطبی،افاضہ قدسیہ (فلسفہ)، نسیم الکلام(علم الکلام)، السراجی فی المیراث اوررشیدیہ( علم مناظرہ) وغیرہ آپ کے زیرتدریس آتی گئیں۔

انگریزی زبان میں مولانا کی مہارت:
مولاناانگریزی زبان میں بھی خاص مہارت رکھتے تھے۔ اورکئی انگریزی افسانوں کااردوترجمہ کرکے رسالوں میں بھیجااوروہ شائع ہوئے اورمولانانے یہ انگریزی جامعہ دارالسلام عمرآباد میں سیکھی تھی۔ واضح رہے کہ جامعہ دارالسلام عمرآباد نے عام نہج سے ہٹ کربھی بہت سارے کام کیے اوروہ بھی بالکل ابتدائی عہدمیں ،انگریزی نصاب میں رکھی، دارالتصنیف کی داغ بیل ڈالی، "مصحف" نامی اردورسالہ نکالا، مقلدین اورغیرمقلدین کوایک ادارہ میں جمع کیا،یونانی طب کوبھی نصاب میں جگہ دی۔

طب کی تعلیم:
مولانانے حکیم فضل الرحمن خان سواتی سے مدراس میں رمضان کی تعطیل میں طب پڑھااوریہ سلسلہ تقریباًدوماہ جاری رہا، کچھ مدت بعد حکیم صاحب عمرآباد سے قریب آمبورمیں منتقل ہوگئے یہاں مولانانے اس فن کی کتابیں افادہ کبیرہ اورشرح رباعیات طب یوسفی پڑھی۔ پھرچنددن بعدچھوٹے موٹے علاج شروع کردیے۔ مولاناہرجمعرات کومدرسہ ختم ہونے کے بعد دوپہرمیں حکیم صاحب کے مطب میں جاتے اورسنیچر دن صبح میں عمرآبادمیں آجاتے ،وہاں مولاناکاکام حکیم صاحب کی زیرہدایت دوائیں کوٹنا،پیسنااورگولیاں بناناتھا۔
1945ء سے 1985ء تک پورے چالیس برس جامعہ دارالسلام عمرآباد کے مطب کے معالج مولاناہی تھے۔ یہ سلسلہ کچھ مدت اورجاری رہتا مگرایک تومولاناکی علالت مانع تھی دوسرے عمرآباد میں جامعہ ہاسٹل قائم ہوجانے کی بناپرالگ سے معالج کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی ۔

تصنیفی خدمات:
جامعہ دارالسلام سے شائع ہونے والے مجلہ"مصحف" (اجراء اگست 1935ئ)کے مولانامستقبل مضمون نگارتھے۔ اس کے ایڈیٹرمولاناشاکرنائطی تھے۔اس میں آپ کے جومضامین چھپے وہ یہ تھے۔ "قسطنطنیہ پراسلامی یلغار"(متعددقسطوں میں) " محمدبن قاسم ہندوستان میں" (کئی قسطوں میں) "رہبانیت کی پردردداستان" "توہم پرستی" "انسانی مساوات" "خودداری" "انبیاء کرام کی بعثت" وغیرہ۔
مولاناکی تالیف کردہ چندکتابوں کے نام درج ذیل ہیں:(1)فضائل رمضان(2)آداب اسلامی( جامعہ میں داخل نصاب ہے) (3) خانقاہ الٰہیہ (4) صنف نازک اوراسلام (5)اصول اسلام (6)مسائل اوردعائیں (7)استعانت اولیاء کی تردید (8)آداب وحقوق
مولانانے جوکچھ لکھانثرمیں لکھاالبتہ شاعری سے بھی برائے نام شغف تھا۔ذاکرؔ تخلص رکھتے تھے۔

نائب ناظم جامعہ :
1950ء تک جامعہ کے ناظم مولاناشاکرنائطی تھے جب آپ کسی ضرورت پرکہیں تشریف لے جاتے توتمام امورکی نگرانی مولاناکے ذمہ کرجاتے ،1950ء میں مولاناعبدالواجدرحمانی کوناظم بنایاگیا۔ اس وقت تک جامعہ میں نائب ناظم کاعہدہ نہیں تھا۔ تاہم نئے ناظم کے تعاون کے لیے مولاناعبدالسبحان کوباضابطہ نائب ناظم مقررکیاگیا۔ اس وقت دونوں کی عمرتقریباً چالیس تھی اور تدریسی خدمت بھی یکساں، اس لیے کہ دونوں ہی 1933ء میں مامورہوئے تھے دونوں میں بہت الفت ومحبت تھی۔1956ء میں مولانامدراس یونیورسٹی کے مشرقی امتحانات (افضل العلماء ، منشی فاضل اورادیب فاضل) کے ممتحن ہوئے۔ 1966ء کے لیے بھی پیشکش ہوئی مگرسفرحج کے درپیش ہونے کی بناپر معذرت کردی۔ چونکہ مولانابھی ان اسٹاف میں سے تھے جومدراس یونیورسٹی سے ملحق ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی کے تنخواہ یافتہ تھے۔اس لیے ضابطہ کی روسے ساٹھ برس کی عمرمیں 1961ء میں ریٹائرہوئے اس وقت جامعہ سے وابستگی پرتقریباً38 برس گزرچکے تھے اورنائب ناظم ہوئے پورے بیس برس ہوگیے تھے ریٹائرہوئے مگراسباق وہی رہے۔ البتہ سرکارکی طرف سے معمولی وظیفہ بھی ملتاتھااوراب تنخواہ مدرسہ سے بھی جاری ہوگئی تھی۔ کاکا محمدعمرثانی مرحوم نے تگ ودو کرکے حافظ عبدالواجدرحمانی اورمولاناکی معمولی تنخواہ عرب سے جاری کرادی تھی۔ مگر کچھ مدت بعدیہ سلسلہ بندہوگیا۔

علالت:
1973ء میں دمہ کاعارضہ لاحق ہوااورشدیددورہ رہاکئی کئی راتیں بیٹھ کرگزاریں مسلسل چوبیس گھنٹہ دورہ رہاکرتا، دوڈھائی سال تک یہ حالت رہی۔ اس کے بعد اللہ کافضل ہوا۔ 1979ء میں باربار علالت کی بناپرتدریسی خدمت سے سبکدوشی حاصل کرلی۔ آپ کی تدریسی مدت کل 55/سال کی رہی۔ علالت کے دوران صرف دوکتابیں آپ کی ذمہ تھیں ایک ابوداود،اوردوسری مشکاۃ یابلوغ المرام تقریباًدس بارہ برس تک جامعہ دارالسلام میںجمعہ اورعیدین کے خطبے آپ نے ہی دئے ہیں اور سری اورجہری نمازوں کی امامت بھی کی ہے۔

حسن معاملت:
آپ کامطلب ایک چھوٹاموٹابینک بھی تھاجس میں طلبہ اپنی رقمیں رکھواتے، حساب کتاب صاف آئینہ کی طرح نوٹ بک میں درج رہتاتھاآپ کے حسن معاملت کی تعریف وہاں کے اساتذہ بھی کرتے تھے۔ نائب ناظم تھے مگرکبھی حاکم ہونے کاتاثر نہیں دیابلکہ آپ کی مشغولیت ،حرکات وسکنات اوررہن سہن سے جونتیجہ نکلتاتھاوہ یہ کہ آپ حاکم نہیں خادم ہیں۔ مزاج میں ملنساری بھی تھی اورتمکنت بھی۔
امام ابن بازرحمہ اللّٰہ سے ملاقات:
1966ء میں بانی جامعہ کے بڑے پوتے جناب کاکارشید احمدکے ساتھ سفرحج کیادونوں نے شیخ ابن بازرحمہ اللہ سے ملاقات کی اوران سے تحریری وعدہ لے آئے کہ جامعہ اسلامیہ ہرسال عمرآباد کے کم ازکم ایک طالب علم کوضرورداخلہ دیتارہے گا۔ یہ بیرون ملک مولاناکاپہلا اورآخری سفر تھا۔ کاکاخاندان سے مولاناکوبڑی محبت تھی۔

تربیت کا انداز:
مولاناحافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی برادر مولاناعبدالسبحان اعظمی کہتے ہیں کہ جب میں نے جماعت سوم میں مدرسہ کی تعلیم چھوڑ کرراہ بدلنے کے بارے میں آپ سے گفتگو کی توآپ نے ابتداء میں تونرمی سے سمجھایا، چونکہ میں بات ماننے کے موڈ میں نہیں تھااس لیے انکارکرتارہاتوآپ کے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیا،فہمائش کے الفاط واسلوب بدل گیے، اندازوآواز میں فرق آگیاتومیں کانپ کررہ گیااوربادل نخواستہ مدرسہ کی تعلیم جاری رکھنے پرمجبورہوگیااورالحمدللہ آج مولاناحفیظ الرحمن صاحب کی شخصیت علم وفن میں اپنی مثال آپ ہے۔

اوصاف و محاسن:
مولانامؤسے عمرآباد آئے تو18/سال کے تھے اوریہیں کے ہورہے۔ تقریباً62/برس یہاں گزرگئے لیکن بات چیت ،لب ولہجہ، مقولوں کے استعمال، اشعارکے اہتمام اورصحت زبان کاخیال رکھنے میں ذرافرق نہ آیا، تلفظ، محاورات اورضرب الامثال کی اصلاح کے لیے طلبہ آپ کارخ کرتے۔ مولانااخبارورسائل بڑی پابندی سے پڑھتے تھے۔ عام معلومات کادائرہ بڑا وسیع تھااورحافظہ بڑی قوی۔ خط وکتابت میں بڑے مستعد تھے۔ جواب ضروردیتے تھے۔ طلباء کی ہرممکن اصلاح کرتے اورنرمی کے ساتھ،اصول صحت کے پابند،سرشام تفریح، اورچہل قدمی کے عادی، البتہ پان اورزردے کااہتمام مدتوں رہامگربعد میں اسے مکمل ترک کردیا۔صحت بڑی اچھی تھی، بڑے متحرک اورمستعد تھے، مولانابڑے زندہ دل انسان تھے۔ ہرچھوٹی بڑی تقریب میں پارٹی کومستحب قراردیتے تھے(مثلاًکسی طالب علم نے اچھے نمبرات حاصل کرلیے، کوئی انعام پایا، کہیں اس کامضمون چھپا) مولانا بڑے مہمان نواز ،متواضع ہنس مکھ تھے۔ علم مستحضر تھا، حدیث ہوکہ علم کلام، منطق ہوکہ فلسفہ، سیرت ہوکہ تاریخ اورپڑھی ہوئی تمام باتیں خوب یادتھیں۔ علم فرائض کے اصول ،مسلمات اورمسائل انہیں ازبرتھے۔ مسلم شرح نووی کے گویاحافظ تھے۔ فرائض وسنن اوراذکار کے سخت پابندتھے۔ نماز کے اس قدر پابندکہ حضر میں جماعت شایدہی چھوٹی ہو، اذان کے وقت ہی مسجد میں پہونچنے کااہتمام کرتے اورپہلی صف میں بالکل امام کے پیچھے رہتے تھے۔

سراپا:
چھریرابدن ،ہلکے پھلکے، صاف ستھرے رہتے تھے،لباس وہی پاجامہ کرتا،کپڑے کی ٹوپی، ہاتھ میں عصا کے ساتھ دستی بھی، البتہ جمعہ اورعیدین کے موقع پرشیروانی زیب تن رہتی،صافہ بھی باندھ لیتے، کسی زمانے میں ترکی ٹوپی کامعمول تھا،مدتوں سے عینک کااستعمال تھا۔ ہمیشہ جوتاپہنتے تھے، صحت رہتی تومعاملات میں ذرا بھی فرق نہ آتاوہی چستی وہی حاضر دماغی۔

ازواج و اولاد:
1928ء کے اواخر یا1929ء کے اوائل میں مولاناکی شادی اپنے وطن ہی میں ہوئی ۔ اللہ نے چھ بیٹے دیے اورایک بیٹی۔ آپ نے اپنے تمام فرزندوں کوعالم دین بنایا۔ بیٹوں کے نام درج ذیل ہیں۔
(1)مولاناخلیل الرحمن اعظمی عمری
(2)مولاناضیاء الرحمن اعظمی عمری
(3)مولاناحافظ عبدالرحمن اعظمی عمری
(4)مولانا انیس الرحمن اعظمی عمری
(5)مولاناحافظ عبیدالرحمن اعظمی عمری رحمہ اللہ
(6)مولانامحمدنعمان اعظمی عمری مدنی رحمہ اللہ

وفات:
جمعرات کادن تھا27/دسمبر 1990ء کی صبح مولانانے ناشتہ کیا، تھوڑی ہی دیر میں کھانسی کی تکلیف شروع ہوگئی فوراً جامعہ ہسپتال پہونچے بڑے فرزندمولاناخلیل الرحمن اعظمی عمری ناظم جامعہ کوکہلابھیجاکہ جلدی آئیں۔ ابھی وہ آنے بھی نہ پائے تھے کہ مولانانے جان جان آفریں کے سپردکر دی۔
اناللہ واناالیہ راجعون
اسی دن بعد نماز عشاء ایک جم غفیر نے نماز جنازہ اداکی اور جسد خاکی کوآخری آرام گاہ میں رکھ دیا۔ عمر80/برس تھی نیکیوں سے معمور زندگی تھی۔
آسمان تیری لحد پرشبنم افشانی کرے
سبزۂ نور ستہ اس گھرکی نگرانی کرے

نوٹ :
یہ مضمون کاشف شکیل کی غیر مطبوعہ کتاب "تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند" کا حصہ ہے۔ اس میں صرف صحیح روایتوں ہی کو بیان کیا گیا ہے، البتہ حوالہ جات کتاب میں ہیں۔
(مدیر ماہنامہ الاتحاد کے شکریہ کے ساتھ)

فیس بک کی اسی پوسٹ پر کیے گئے دو اہم تبصرے قارئین کے مطالعے کے لیے ذیل میں پیش خدمت ہیں:

شیرخان جمیل احمد عمری مدنی صاحب
(بحوالہ جناب ہلال احمد مدیر الاتحاد)
آہ۔۔۔ استاد محترم مولانا عبدالسبحان صاحب اعظمی کو جنت الفردوس میں جگہ دے آمین۔ الله تعالى عزيزم كاشف شكيل سلفى کو جزائے خیر دے استاد محترم پر بہترین مضمون لکھ کر پرانی یادیں تازہ کرادیں ۔
استاد محترم مجھے بہت عزیز رکھتے تھے۔ تعلیمی سال کے اخیر میں مئوناتھ بھنجن کے اپنے عزیز و اقارب طلبہ کی اپنے گھر دعوت کرتے تو اس دعوت میں مجھے بھی بلاکر اعزاز بخشتے اگرچہ کہ میں مئو کا نہیں تھا۔ آپ میرے خاص مربیوں میں سے تھے۔سالانہ چھٹیوں میں گھر جاتا تو خط لکھتے خط کیا ہوتا اس میں نصائح کے ساتھ ذکر و اذکار کی ایک لمبی فہرست ہوتی اور ان کو پڑھنے کی تاکید فرماتے۔ مجھے آپ کی بیماری میں بھی کئی مرتبہ آپ کی خدمت کرنے کا موقعہ ملا۔ ایک مرتبہ دوران درس آپ کو شدید دمہ کا دورہ پڑا جامعہ کا سائیکل رکشہ چلانے والا غالبا اس کا نام “ ایسو “ تھا وہ موجود نہیں تھا اور شیخ کی حالت سخت بگڑ رہی تھی چنانچہ میں نے اپنے ایک کلاس فیلو مولوی عبد المقیت عمری سیونی کی مدد لیکر شیخ کو رکشہ میں بٹھایا اور خود رکشہ چلا کر ہسپتال لے گیا اور ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کے بعد فوری طور پر ایک انجیکشن لگایا آج بھی مجھے اس انجیکشن کا نام یاد ہے Deriphyllin . جیسے ہی یہ انجیکشن لگایا گیا شیخ کی حالت بحال ہونے لگی ۔آخری عمر تک نماز کے لئے مسجد میں سب سے پہلے آتے اور سب سے اخیر میں جاتے، جس کی وجہ سے پیر میں ورم ہوجاتا تھا جوتے میں پیر مشکل سے جاتا اس حقیر کو پچاسوں مرتبہ استاد محترم کو جوتا پہنانے کا موقعہ ملا اور ہر مرتبہ آپ کی زبان سے میرے لئے یہ دعا نکلتی اللهم فقهه فى الدين. جامعہ میں ذکر واذکار میں لا ثانی تھے۔ میں نے بہت سارے اوراد و وظائف بھی شیخ محترم سے ہی سیکھے تھے اور جب تک ثانویہ میں تھا مسجد میں آپ کے بغل ہی میں بیٹھتا کبھی تاخیر ہوجاتی تو یہ جگہ مولانا عبدالباسط عمری قطر (داماد مولانا عبد الرحمن ندوی) کے حصہ میں آجاتی۔ فجر میں بغل میں بیٹھے اونگتا تو شیخ کی گوش مالی سے نیند بھاگ جاتی اور پھر شیخ کے خمیرہ کا بھی مستحق ٹھرتا فرماتے کہ صبح ایک چمچہ کھایا کرو کمزوری دور ہوگی۔ آپ نے اصرار کے باوجود مجھ سےخمیرہ کی رقم کبھی نہیں لی۔ آپ محدث تھے ہی لیکن مجتھد بھی تھے۔ آپ نے کسی منکر کو دیکھ کر کبھی خاموشی اختیار نہیں کی۔قدیم اساتذہ کی زندگیاں بھی طلبہ کے لئے دروس کا کام دیتی تھیں بہرحال باتیں تو بہت ہیں لیکن یہ موقعہ نہیں ہے پھر کبھی ان شاءالله.
الله غريق رحمت کرے استاد محترم کو آپ کے اندر بہت خوبیاں تھیں۔آمین

ڈاکٹر وصی بختیاری عمری
1977 کے صحیفہ میں میرے دادا مولانا سید صبغت الله بختیاری علیہ الرحمۃ نے "جامعہ دار السلام میں میرے بیتے دن" میں مولانا عبد السبحان اعظمی عمری رحمه اللّه کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے- وہ ہمیشہ مولانا کے اوصافِ حمیدہ بیان کرتے تھے-
مولانا خلیل الرحمٰن اعظمی عمری رحمہ اللہ کی زبانی بھی میں نے انہیں اپنے والد ماجد کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے سنا-
عمرآباد میں میرے دادا اور مولانا عبد السبحان اعظمی دونوں کے مکان متصل تھے،... میری دادی رحمھا الله، ان کے اہلِ خانہ کی بلند اخلاقی کو ہمیشہ یاد کرتی رہتی تھیں،
اس اعظمی خانوادے کے علمی و دینی احسانات پورے جنوبی ہند میں محیط ہیں، بالخصوص تامل ناڈو میں تمام حلقوں میں ادب و احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے- الله تبارک و تعالٰی اس خاندان کو شرور و فتن سے محفوظ رکھے اور ان کی خدمات کو شرفِ قبول سے نوازے اور یہ سلسلہ آئندہ نسلوں میں بھی اسی طرح جاری و ساری رہے- آمین یا ربَ العالمین.

محمد کاشف بن شکیل احمد، جامعہ سلفیہ (بنارس)، جامعہ عالیہ (مئو)، جامعہ دارالسلام (عمرآباد، تمل ناڈو)، اترپردیش مدرسہ بورڈ کے فارغ التحصیل اور جامعۃ التوحید بھیونڈی میں بحیثیت استاذ فائز ہیں۔ آپ کا تعلق سانتھا، سنت کبیر نگر، اترپردیش سے ہے۔

***
Jamiatut Tawheed, Bhiwandi
ای-میل: kashifshakeelsalafi[@]gmail.com
موبائل: 07408150761
فیس بک : Kashif Shakeel
کاشف شکیل

Biography of Maulana Abdus Subhan Azmi Umri. Article: Kashif Shakeel

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں