مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے تین طلاق بل کی مخالفت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-12-25

مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے تین طلاق بل کی مخالفت

تین طلاق بل کی مخالفت ۔ حکومت پارلیمنٹ میں پیش نہ کرے
مسلم مردسے حق طلاق چھیننے کی سازش۔ نئے اعتدال پسند بل کی تیاری کے لئے مذہبی امور کے ماہرین سے مشاورت کرنے مسلم پرسنل لا بورڈ کا مطالبہ
لکھنو
یو این آئی
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے آج جس کا ہنگامی اجلاس یہاں منعقد ہوا ، حکومت پر زور دیا کہ وہ مجوزہ تین طلاق بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے گریز کرے ۔بورڈ نے تجویز پیش کی ہے کہ ایک تازہ اعتدال پسند بل کا مسودہ مرتب کرنے کے لئے مسلمانوں کے مذہبی امور میں شریک تمام شخصیتوں سے مشاورت کی جانی چاہئے ۔ بورڈ نے کہا ہے کہ نئے بل کے پس پشت سیاست کار فرماہوسکتی ہے ،کیونکہ اس بل کا مقصد مسلمانوں کے حق طلاق کو چھین لینا ہے جب کہ یہ حق شریعت اور پرسنل لا کا اٹوٹ حصہ ہے۔بورڈ کے ایمر جنسی اجلاس میں احساس ظاہر کیا گیا کہ مجوزہ بل کے نتائج، مسلمانوں کی بہبود کے خلاف ہوں گے ۔اور اس سے مسلم خواتین اور مسلم خاندانوں کو نقصان پہنچے گا ۔ کیونکہ یہ بل شریعت کے اصولوں کے مغائر ہے اور مسلم پرسنل لا میں مداخلت کے مترادف ہے ۔بورڈ نے مطالبہ کیا کہ حکومت پارلیمنٹ میں یہ بل پیش کرنے سے باز رہے کیونکہ یہ بل غیر ضڑوری ہے ۔ بورڈ کے سکریٹری ظفریاب جیلانی نے کہا کہ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ وزیر اعظم نریندر مودی پر زور دیں گے کہ وہ مذکورہ بل کو روک رکھیں اور اس بل سے دستبردار ہوجائیں۔علاوہ ازیں بورڈ کے ارکان تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر تنظیموں سے رجوع ہوں گے تاکہ اس بل کی پوری شدت سے مخالفت کی جائے ۔ بورڈ کی واحد رکن عاملہ محترمہ اسما زہرا نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ طلاق دینے پر یہ بل صرف مرد کو جیل بھیجے گا اور خواتین مصائب کا شکار ہوں گی کیونکہ خواتین اپنی زندگی گزارنے کے موقف میں نہیں ہوں گی کیونکہ نیا قانون ایسے خاتون کے شوہر کو طلاق دینے سے روکے گا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک عجیب و غریب صورتحال ہوگی جسمیں شوہر، بیوی اور بچے مصیبت سے دوچار ہوں گے۔ محترمہ اسما زہرا نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے حقوق پر سمجھوتہ ہوجائے گا ، اور اگر بل منظور ہوجائے تو خواتین مشکل حالات میں پھنس جائیں گی۔انہوںنے کہاکہ مجوزہ بل میں جو شرائط رکھی گئی ہیں وہ مسلمانوں کے لئے دستور میں دی گئی ضمانتوں کے مغائر ہیں۔ یہ بل سپریم کورٹ کے فیصلہ(مورخہ22اگست2017ء ) کے بھی مغائر ہے۔ بورڈ کے ہنگامی اجلاس کے بعد بورڈ کے ترجمان خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے پرزور انداز میں کہا کہ مذکورہ بل شریعت کے یکسر مغائر ہے اور حکومت مسلم خواتین کے تحت مسلم مردوں کو عطا کردہ حقوق کو چھین رہی ہے ۔ یہ بل دستور کی دفعہ25کے تحت دیئے گئے حق مساوات کے بھی منافی ہے ۔مسلم پرسنل لا بورڈ تمام سطحوں پر اس بل کی مخالفت کرے گا اور عوام الناس میں شعور بیدار کرے گا۔مولانا نعمانی نے الزام لگایا کہ یہ بل مسلم مرد طبقہ سے طلاق کا حق چھین لینے کی سازش ہے ۔ کیونکہ اس بل میں طلاق کو ایک فوجداری جرم قرار دیاگیاہے ۔ جس کے تحت تین سال کی جیل کی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ اب بل میں طلاق کی جو تشریح کی گئی ہے وہ ہر قسم کی طلاق پر مشتمل ہے ۔اس لئے مسلم مردوں کے حق طلاق کو واپس لیاجائے گا کیونکہ طلاق دینا ایک فوجداری جرم ہوگا۔ مولانا نعمانی نے کہا کہ مذکورہ بل کامسودہ تیار کرتے وقت قانون سازی کے پارلیمانی طریقہ کار کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ۔ نہ تو شراکت داروں، نہ تو متعلقہ فریقین اور نہ ہی خواتین کی انجمنوں سے مشاورت کی گئی ہے ۔ قانون کے صحیح موقف اور مجوزہ قانون کے منفی اثرا ت و نیز غیر موثر طلاق کے سبب خواتین اور بچوں کی بہبود پر ہونے والے اثرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے بل کے حقیقی موقف کو واضح انداز میں پیش کیاجانا چاہئے تھا۔ مولانا نعمانی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بموجب ایک غیر قانونی، غیر موثر کارروائی کو جو طلاق کو موثر بنانے کی طرف نہیں بڑھتیں، بلکہ سنگین فوجداری جرائم میں تبدیل کردیا گیا ہے ، جس سے خواتین اور بچوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کی نوبت آجائے گی۔ بورڈ نے یہ بھی احساس ظاہر کیا کہ مجوزہ بل کی دفعات، دیگر قانون سازیوں میں مصرحہ موجودہ قانونی دفعات کے بھی مغائر ہے اس لئے غیر ضڑوری ہیں۔ بچوں کی سر پرستی، گھریلو تشدد سے متعلق قانون اور ضابطہ فوجداری پہلے ہی سے موجود ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پریسنوٹ کے بموجب بورڈ کے عاملہ نے اعلان کیا کہ شادی شدہ مسلم خواتین کے حقوق سے متعلق حکومت ہند کا پیش کردہ بل، مسلمانانِ ہند کے لئے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے ۔اس لئے کہ یہ بل خود مسلم خواتین کے حقوق کے خلاف ہے اور ان کی الجھنوں، پریشانیوں، و نیز مشکلات میں اضافہ کا سبب ہے ۔ ایک طرف مذکورہ بل میں جہاں تین طلاق کے بھی عنصر اور باطل ہونے کی بھی بات کہی گئی ہے وہیں تین طلاق کو جرم قرار دے کر تین سال کی سزا اور جرمانے کی سزا بھی موجود ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب تین طلاق واقع ہی نہیں ہوگی تو اس پر سزا کیوں کردی جاسکتی ہے ۔ مجوزہ بل کی دفعات4,5,6اور7کو ملک میں پہلے سے موجود قوانین مثلاGuardian and wards actوغیرہ سے ٹکراتی ہے اور دستور ہند کی دفعہ14اور15کے خلاف ہیں۔ حیرا ن کن بات یہ ہے کہ جس فرقہ کے بارے میں یہ بل پیش کیا گیا ہے نہ اس کے ذمہ داروں اور قائدین سے مشورہ لیا گیا، اورنہ کسی مسلم تنظیم اور نہ ادارہ سے رابطہ قائم کیا گیا اور خواتین کے معتبر اداروں سے ربط قائم کیا گیا ۔ کیونکہ یہ بل شریعت اسلامی اور دستور ہند دونوں کے خلاف ہے ۔ ونیز مسلم خواتین کے حقوق کو متاثر کرنے والا ہے اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس کے سد باب کی کوششیں شروع کرچکا ہے اور آنے والے دنوں میں بھی ہر سطح پر بھرپور کوشش کرے گا۔ صدر ال آنڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ رابع حسنی ندوی، مسلمانانِ ہند کے احساسات سے وزیر اعظم ہند کو باخبرکریں گے۔

Triple Talaq Bill Violates Women's Rights, Says Muslim Law Board

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں