سُر سرسوَتی - لتا منگیشکر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-12-13

سُر سرسوَتی - لتا منگیشکر

lata-mangeshkar
یہ سن سینتالیس کی ممبئی کی لوکل ٹرین ہے ۔ مشہور میوزک ڈائریکٹر انل بسو اس کے ساتھ ایک سانولی سی لڑکی چپ چاپ بیٹھی ہے۔ اگلے اسٹیشن پر ایک خوبصورت اور وجیہ نوجوان ڈبے میں داخل ہوتا ہے۔
" ارے انل دا۔۔کیسے ہیں آپ۔۔۔اور یہ کون ہے"
" یہ بہت اچھا گاتی ہے۔ میری فلم کے لئے گا رہی ہے"
" کہاں کی ہے؟" نوجوان نے پوچھا۔ لڑکی خاموش بیٹھی سن رہی ہے۔
" یہیں کی ہے۔ مراٹھی ہے"
" اور آپ اس سے اردو گانے گوائیں گے دادا؟" خوبرو نوجوان کے لہجے میں طنز چھپا ہوا تھا۔
" کیوں ! کیا حرج ہے؟"
" ارے دادا، یہ بھلا اردو کیسے گائے گی۔ اور ان مر اٹھوں کے گانوں سے تو دال بھات کی بو آتی ہے" نوجوان کا انداز تمسخرانہ تھا۔ لڑکی نے پہلو بدل کر زخمی نظروں سے نوجوان کو دیکھا اور گردن جھکا لی۔

اور اب تاریخ کے ہند سے بدل جاتے ہیں اور وقت بھی بدل جاتا ہے۔ وہ سن 47 تھا۔ اب سن 74 ہے۔

لندن کا رائل البرٹ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔آج ایک مشہور مغنیہ کا شو ہے۔ لوگ بے چینی سے مغنیہ کا انتظار کررہے ہیں ۔ لیکن اس سے پہلے وہی خوبرو نوجوان ، جو اب ایک شاندار شخصیت میں ڈھل چکا ہےمغنیہ کا تعارف کراتے ہوئے کہہ رہا ہے۔
" جس طرح پھول کی خوشبو کا، بچے کی مسکراہٹ کا کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا، اسی طرح لتا منگیشکر کی آواز قدرت کی تخلیق کا ایک کرشمہ ہے"
" یہ میری چھوٹی سی نازک سی بہن ہیں" نوجوان مغنیہ کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے۔

جی ہاں یہ نوجوان تھے لاکھوں دلوں کی دھڑکن " دلیپ کمار" اور جس مراٹھن کی آواز سے انہیں دال بھات کی بو آنے کا خدشہ تھا، آج اس کی آواز کو پھول کی خوشبو اور بچے کی مسکراہٹ سے تشبیہ دے رہے تھے۔
اور لتا کو دلیپ یا کسی اور کی سند کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ مالک نے وہ گلا، وہ آواز انہیں دی ہے جو سیدھی دل میں اترتی ہے۔ جس کے لئے تعریف کے سارے الفاظ ختم ہوجائیں لیکن بات پھر بھی نہ بنے۔
اور بات بنے بھی تو کیسے۔ دوچار، دس پندرہ، سو دوسو، ہزار دو ہزار گیت ہوں تو کوئی بات بھی کرے۔ یہاں تو تیس چالیس ، یا پچاس ہزار کے قریب گانے ہیں اور ایک بھی ایسا نہیں کہ جسے، ہلکا یا معمولی کہہ سکیں بھلا اس کی آواز اور گائیکی کے بارے میں کوئی کیا تبصرہ کرسکتا ہے۔ اور مجھ جیسا، جسے موسیقی کی ابجد کا بھی علم نہیں وہ لاکھ سر مارے ، لتا کی آواز کی تعریف کا حق ادا کرنے کے قابل ایک جملہ بھی نہیں کہہ سکتا۔
سر، تال، اور مٹھاس کی اس سر سوتی کی آواز تو بچپن سے کانوں میں آتی رہی لیکن اسے پہچانا بہت ہی بعد میں۔ اور آئیے میں بتاؤں کہ لتا کو کب اور کیسے پہچانا۔

اور یہ ان دنوں کی بات ہے کہ دنیا کو نیا نیا آنکھ کھول کر دیکھا تھا۔ گھر میں اشد ضروریات زندگی سے زیادہ کچھ نہیں تھا ۔ ریڈیو اس زمانے میں ایک عیاشی تھی اور کسی کسی گھر میں ہی ہوتا تھا یا پھر کسی ہوٹل ، چائے خانے یا درزی کی دکان میں ہوتا۔ لیکن آواز کی لہروں پر تو کوئی پابندی نہیں۔ ریڈیو سننے سے ہم محروم نہیں تھے۔
پھر ان دنوں ایک اور چیز تھی جو " رکارڈنگ" کہلاتی تھی۔ یعنی شادی بیاہ یا کسی اور خوشی کے موقعہ پر باآواز بلند ' ریکارڈ ' بجانا۔ یہ بھی تمبو قنات والے ہی مہیا کرتے تھے۔
کہیں شادی ہوتی اور ہمارے کانوں میں جہاں اور گانوں کی آوازیں آتیں وہیں ایک سریلی سی آواز میں یہ گیت بھی سنائی دیتے۔
" راجہ کی آئے گی برات، رنگیلی ہوگی رات، مگن میں ناچوں ھی"
" ہوا میں اڑتا جائے، میرا لال دوپٹہ ململ کا ہوجی، ہوجی۔"
" دغا دغا وئی وئی وئی، ہوگئی، تم سے محبت ہوگئی"

اور پھر یہ گیت تو بہت ہی سنائی دیتا
" پیار کیا تو ڈرنا کیا، جب پیار کیا تو ڈرنا کیا"

یہ سب گیت سنتے لیکن ان دنوں اتنی سمجھ کہاں کہ کون گا رہا ہے، ہمیں تو سارے گانے ایک ہی جیسے لگتے۔
سن باسٹھ میں ہندوستان جانا ہوا، جہاں ہم چھ ماہ رہے۔ رکارڈنگ کا رواج یہاں پاکستان سے بھی بڑھ کر تھا۔ جس قصبے میں ہم رہے، وہاں تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی تہوار، یا شادی بیاہ وغیرہ ہوتے رہتے تھے۔ سیاسی جلسے بھی بہت ہوتے تھے، شاید کوئی بلدیاتی انتخابات تھے۔ جلسوں کو گرمانے اور سامعین کو جمع کرنے کے لئے گانوں کا سہارا لیا جاتا۔ بہرحال تقریباً ہر روز ہی گانے سنائی دیتے۔
یہاں ان دنوں "جنگلی" گنگا جمنا " جس دیش میں گنگا بہتی ہے" اور جب پیار کسی سے ہوتا ہے" فلمیں چل رہی تھیں اور ریکارڈنگ میں ان ہی فلموں کے گیت زیادہ سنائی دیتے۔ انہی میں ایک مدھر اور سریلی آواز میں یہ گیت بھی سنائی دیتے۔
دو ہنسوں کا جوڑا بچھڑ گیو رے
ڈھونڈو ڈھونڈو رے ساجنا، مورے کان کا بالا
احسان ترا ہوگا مجھ پر دل چاہتا ہے مجھے کہنے دو
آو بسنتی پون پاگل نہ جارے نہ جا روکو کوئی

لیکن ہم اور گانوں کی طرح انہیں بھی سنتے۔ پاکستان واپسی ہوئی تو یہاں پر بھی یہی آواز سنائی دیتی۔ یہ سن چونسٹھ تک کا تذکرہ ہے۔
ان دنوں جو گانے سنائی دیتے ان میں ' جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا" پنکھ ہوتے تو اڑ آتی رے" گذرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ، حافظ خدا تمہارا' ، تیرا میرا پیار ہے امر" کہیں دیپ جلے کہیں دل" یہ سب گانے سنائی دیتے، کانوں کو بہت اچھے بھی لگتے، لیکن کون گا رہا ہے، یہ جاننے کی کبھی کوشش بھی نہیں کی، نہ ہی اس وقت عمر کچھ ایسی تھی کہ ان باتوں پر دھیان دیتے۔

پھر آیا سن پینسٹھ اور ہندوستان پاکستان میں جنگ چھڑ گئی۔ ادھر ایوب خان نے اپنی وہ یادگار تقریر کی جس نے سینے میں جوش بھر دیا، شکیل احمد نے اپنی گرج دار آواز میں ایوب خان کے الفاظ خبروں میں سنا کر شعلوں کو ہوا دی، اور خبروں کے بعد ایک نغمہ گونجا
" اللہ کے وعدے پہ مجاہد کو یقیں ہے، اب فتح مبیں، فتح مبیں ہے"
پھر یکے بعد دیگرے ایسے ہی نغمےسنائی دیتے
" اے پتر ہٹاں تے نئی وکدے"
میرا ماہی چھیل چھبیلا ہائی نی جرنیل نی جرنیل نی۔
میریاڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں۔

تو اب ہمیں معلوم ہونے لگا کہ فلاں نغمہ مہدی حسن نے گایا ہے اور فلاں ملکہ ترنم نورجہاں نے۔ پہلی بار گلوکاروں کے ناموں پر غور کیا۔۔
جنگ کے ایک ڈیڑھ سال تو خون کو گرما دینے والے جنگی اور قومی نغمے ہی فضاؤں میں گونجتے رہتے۔ ہندوستانی فلمیں آنا بند ہوگئی تھیں۔ ریڈیو پر بھی اب صرف پاکستانی گیت ہی بجتے۔ اب جو ہوش سنبھالا ہے اور کچھ کچھ گانوں اور گانے والوں کے نام کی سدھ بدھ ہوئی تو صرف مہدی حسن، احمد رشدی، مسعود رانا، سلیم رضا، نورجہاں، نسیم بیگم، مالا اور رونا لیلی کے ناموں سے ہی شناسائی تھی۔ ہندوستان اور ہندوستان سے متعلق کوئی بات سننے کے ہم روادار ہی نہیں تھے۔ ساتھ ہی ایک احساس تفاخر تھا کہ ہم نے بنیوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں اور
ہم ان سے برتر ہیں، یعنی ہماری ہر چیز ان سے بڑھ کر ہے۔ ہمارے گانے والے بھی ان سے اچھے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
پھر ہوا یوں کہ سن 68' 69 کے قریب ہمارے گھر میں ٹیپ ریکارڈ اور گراموفون وغیرہ آئے جو بحرین سے ہمارے چچا لائے تھے۔ ان میں بھارتی گیت تھے۔ گیت سننے میں تو بہت اچھے لگتے لیکن میں ان گلوکاروں کو اپنے گلوکاروں سے بڑھ کر ماننے کو تیار نہیں تھا۔ بھلا ہماری مادام نورجہاں اور مہدی حسن کا کیا مقابلہ۔۔۔
جادو لیکن سر چڑھ کر بولتا ہے۔ پہلے تو ریڈیو سیلون اور' بناکا گیت مالا 'سن سن کر ہندوستانی گانوں کی طرف مائل ہوئے۔ پھر اکہتر کی جنگ ہوئی لیکن اس بار جوش جلد ہی ٹھنڈا پڑ گیا۔ ایک دوسال بعد ہی ہمارے گلی کوچوں میں پھر سے ہندوستانی گیت سنائی دینے لگے۔ اور جب سے یہ گیت سنائی دئیے
موسم ہے عاشقانہ، اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا
انہی لوگوں نے ہے چھینا دوپٹہ میرا
یونہی کوئی مل گیا تھا سرراہ چلتے چلتے،
ٹھاڑے رہیو آو بانکے یار رے

اب میں آپ کو اپنے دل کی بات بتاؤں ۔ پہلی بار میں نے لتا منگیشکر کی آواز کو " سنجیدگی سے لیا" ۔ یہ آواز گویا دل میں اترتی چلی جاتی۔ میں لاکھ اپنے تعصب کے مارے اسے ناپسند کرنے کی کوشش کرتا لیکن ایسی سریلی ، میٹھی اور مدھ بھری آواز کوئی اور نہ لگتی۔
پھر جب سن پچھتر میں پردیس آگیا تو یہاں تو تقریباً ہر روز ہی ہندوستانی فلم دیکھتے۔ آہستہ آہستہ سارے ہندوستانی فنکار سمجھتے آتے چلے گئے۔۔۔ہم نے اپنے فنکاروں کو کیا سمجھا تھا، ہندوستانی اداکار اور گلوکار کیسے تھے یہ ایک الگ کہانی ہے۔ بس یوں جان لیجئے کہ ہم پاکستان میں سنتوش اور محمد علی کے مقابلے میں دلیپ کمار کو رکھتے تھے لیکن علم نہیں تھا کہ دلیپ کمار کیا چیز ہوتی ہے۔ اب یہاں آکر سمجھ میں آتا گیا کہ اسلم پرویز جنہیں پران کی مثال دی جاتی تھی، تو پران اور اسلم پرویز میں کیا فرق ہوتا ہے۔

خلیج کی ملازمت تھی، جیب میں چار پیسے بھی تھی۔ میوزک سسٹم بھی خرید لیا اور ہر دوسرے روز گانوں کی کیسیٹیں بھی آتی رہیں۔۔۔اور اب جب فرصت سے، اور جان کر کہ کون گلوکار ہے، سمجھ میں آنے لگا کہ کس کا کیا مقام ہے۔۔تب سے میری پہلی پسند محمد رفیع اور لتا منگیشکر رہے۔ مجھے سارے گلوکار پسند ہیں، ہر ایک کا اپنا مقام ہے، لیکن دلی سکون مجھے لتا منگیشکر اور محمد رفیع ( اور بہت حدتک طلعت محموداور مہدی حسن) کو سن کر ملتا ہے۔ انہیں میں گھنٹوں سن سکتا ہوں۔

خیر بات ہورہی تھی لتا منگیشکر کی۔ اب ان کے بارے میں ، میں آپ کو کیا بتاؤں۔ لتا کی زندگی، خاندان، اس کی آواز ، اس کے گیتوں کی ایسی کون سی نئی بات ہے جو آپ کو نہ معلوم ہو اور میں آپ کو بتاؤں۔
لتا کتنی بڑی گلوکارہ ہے یہ تو سب ہی جانتے ہیں لیکن جب آپ اس سے ملیں گے تو لگے گا کہ ایک بہت ہی معمولی سی عورت سے مل رہے ہیں۔ُاس قدر سادگی، تصنع سے پاک اور عاجزی بہت کم فنکاروں میں دیکھنے میں آتی ہے ورنہ ہم نے تو دیکھا کہ ایک گانا ہٹ ہوگیا تو گلوکار کی آنکھوں سے کالا چشمہ ہی نہیں ہٹتا اور چاہے جتنے بے سرے ہوں موسیقی کے مقابلوں میں جج بنے ، نئے گلوکاروں کا مذاق اڑانا ہی ان کی 'عظمت' ہے۔
دلیپ کمار شائد لتا کی اردو کے بارے میں بات کر کے بھول گئے لیکن لتا نے اسے چیلنج سمجھ کر باقاعدہ اردو سیکھی، نہ صرف سیکھی بلکہ میر وغالب کو پڑھا،اس مراٹھن کا تلفظ اور ادائیگی سنیں کر ہمارے غزل گانے والے استاد گلوکار شرما جائیں۔ 'ق' 'غ' اور خ جیسے مشکل حروف کو اتنی صفائی اور صحیح ادا کرتی ہیں کہ اہل زبان بھی رشک کریں۔ ( ہمارے غزل کے ایک بہت بڑے گلوکار جگر کی غزل " میرا جو حال ہو سو ہو، برق نظر گرائے جا" کو ' برکے نظر" ادا کرتے ہیں ).

اور دلیپ کمار ہی کیا، لتا کو کسی نے بھی شروع میں اہمیت نہیں دی۔ گلوکاری سے پہلے لتا منگیشکر اپنے والد دینا ناتھ منگیشکر کے ساتھ ان کے تھیٹر میں ادا کاری کرتی تھیں۔ لیکن گلوکاری کا بھی شوق تھا۔ یہ شوق اس قدر زیادہ تھا کہ پانچ سال کی عمر میں جب اسکول میں داخل ہوئیں تو اسکول کے بچوں کو گانا سکھانا شروع کردیا۔ ٹیچر نے یہ دیکھا تو انہیں گھر بھیج دیا۔
۱۹۴۵ میں لتا بمبئی آگئیں جہاں بھنڈی بازار میں استاد امان علی خان سے سنگیت کا پہلا درس لیا۔ تیرہ سال کی تھیں کہ والد کے انتقال کے بعد ان کے دوست ماسٹر ونائیک نے لتا کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور مراٹھی فلموں میں گیت گو آئے۔
ماسٹر ونائیک کے دیہانت کے بعد ماسٹر غلام حیدر نے لتا کو اپنی آغوش شفقت میں لے لیا اور لتا آج بھی ان کا نام بہت محبت اور عزت سے لیتی ہیں۔ ماسٹر جی انہیں موسیقار ششادھر مکرجی کے پاس لے گئے جنہوں نے لتا کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اس کی آواز بہت باریک ہے۔ ماسٹر جی طیش میں آگئے اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ آئے کہ " دیکھ لینا یہ لتا ہوگی اور موسیقار اور ہدایتکار اس کے قدموں میں جھکے ، ایک ایک گیت کے لئے بھیک مانگ رہے ہوں گے۔"
اور ماسٹر غلام حیدر ہی نے1948 میں فلم ' مجبور' میں " دل میرا توڑا، مجھے کہیں کا ناچھوڑا" گوا کر لتا کو شہرت، عزت اور احترام کی ایک ایسے سفر پر روانہ کردیا جس کی ابھی تک منزل نہیں آئی۔ اس کی آواز کا سونا آج بھی ویسا ہی کھرا ہے جیسا پہلے دن تھا۔
ان دنوں نورجہاں، ثریا، شمشاد بیگم، امیر بائی کرناٹکی اور راج کماری وغیرہ کی دھوم تھی۔ نورجہاں تو تھی ہی نورجہاں۔ لتا نے بھی ابتدا میں نورجہاں ہی کاانداز اپنایا۔ لیکن محل کے لازوال گیت " آئے گا آیے گا، آنیوالا آئے گا" نے لتا کو نہ صرف شہرت بخشی بلکہ لتا کا اپنا انداز بھی مشہور ہوتا چلآگیا۔
رومانی گیت ہوں، یا سنجیدہ شاعری، دکھ بھرے گیت ہوں یا شوخ وچنچل گانے، ہر گیت لتا نے ایسا گایا کہ وہ گائیں اور سنا کرے کوئی۔ مدھو بالا، نرگس، میناکماری، نوتن، وحیدہ رحمان، مالا سنہا، آشا پاریکھ، سادھنا، شرمیلا ٹیگور سے لے کر ریکھا، ہیما مالنی اور مادھوری ڈکشٹ وغیرہ وہ کون سی اداکارہ ہے جس نے لتا کی سنہری آواز کو استعمال نہ کیا ہو۔
تقریباً ہر گلوکار نے لتا کے ساتھ بے شمار یاد گار گیت گائے جن میں مکیش، مناڈے، کشور، طلعت، ہیمنت کمار سب شامل ہیں لیکن محمد رفیع کے ساتھ ان کے دوگانے یادگار ترین ہیں۔ اسی طرح وہ تمام موسیقاروں کی پسندیدہ گلوکارہ ہیں لیکن نوشاد صاحب کے ساتھ ان کے گانے کبھی نہیں بھلائے جاسکتے۔ دراصل یہ شکیل بدایونی، نوشاد، محمد رفیع اور لتا کی ٹیم تھی جس نے ہندوستانی فلمی صنعت کو بے شمار ناقابل فراموش گیت دئیے۔
لتا کی بات ان کے گانوں کے بغیر نامکمل ہے، لیکن کس میں ہمت ہے کہ ان کے مقبول ترین گانوں کی فہرست بنا سکے ۔ اگر میں ان کے سو مقبول ترین گانے لکھ دوں تو آپ اتنے ہی مقبول دوسو گانے مجھے بتادیں گے۔
لتا پر بات شروع تو کی جاسکتی ہے لیکن ختم کرنا آسان نہیں۔ سر اور سنگیت کی یہ سر سوتی ہمارے درمیان موجود ہے۔ اور ہم اور آپ خوش نصیب ہیں کہ ہم نے لتا کے دور میں جنم لیا۔
حبیب جالب نے قید کے دوران لتا پر کچھ شعر کہے تھے۔ سنئیے اور سر دھنیے۔
lata-mangeshkar-younger
تیرے مدھر گیتوں کے سہارے
بیتے ہیں دن رین ہمارے
تیری اگر آواز نہ ہوتی
بجھ جاتی جیون کی جیوتی
میرا تجھ میں آن بسی ہے
آنگ وہی ہے رنگ وہی ہے
جگ میں تیرے داس ہیں سارے
جتنے ہیں آکاش پہ تارے

سر، سنگیت اور مدھرتا کی اس سرسوَتی کو ہماری شبھ کامنائیں۔

نوٹ:
شکور پٹھان کی اس فیس بک تحریر پر قارئین کے کچھ دلچسپ، مفید اور معلوماتی تبصرے بھی ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

Munir Ahmad
Just yesterday iwas sitting with such maulana type personality --He told you are not in acoordance with my thoughts but despite it we are close -- i had quoted some actors names to a third person in that meeting
then he quoted Allama Iqbal verses about cinema in which Allama Iqbal has named cinemas as "Dozakh ki mitti "
Then i recalled that "oh same was being taught in our darsi books of year 1961

Khawaja Irfan Anwar
Hafeez Jalandhry Se Mua'zarat Ke Saath ....................
Hamein Ahle ZabaN Kab Mante Thhe
Bade ZoroN Se Manwaai Gai HuN

Shakoor Pathan
خواجہ صاحب آپ کا موسیقی اور شعر وادب سے قریبی تعلق ہے. آپ لتا کی گائیکی اور تلفظ کی ادائیگی کے بارے میں مجھ سے بہتر بتاسکیں گے.

Iqbal Hasan
اور یہ سفر نور جہاں کی بدولت ممکن ہوا جو اُس وقت بمبئی سے کچھ دور واقع کسی مقام پر فلم کی شوٹنگ کر رہی تھیں۔لتا اُس فلم میں ایکٹنگ کے لیے گئی تھیں کیونکہ گھریلو حالات بہت خراب تھے۔نور جہاں نے ان کی آواز سنی اور پیش گوئی کی یہ لڑکی بہت آگے جائے گی اور پھر اصرار کرکے پہلی مرتبہ لتا کو چانس دلوایا۔لتا کے بارے میں اُس وقت کے موسیقاروں کا خیال تھا کہ ان کی آواز باریک ہے لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ باریک آواز آنے والی کم و بیش پانچ دہائیوں تک ہندوستانی فلمی موسیقی پر راج کرے گی۔ایک عمدہ مضمون جس میں آپ نے دریا کو وہیں بند کیا جہاں بند کرنا نا ممکن ہے یعنی کوزے میں :)

Khawaja Irfan Anwar
Lata Ke Baare Mein Kuchh Bhi Kehna Chodhvein Ke Chaand Ke Baare Mein Kehne Ke Mutradif Hai. Lata Ke Gaae Huae Geet Aur Unki Gai Hui Ghalib Ki Ghair Filmi Ghazlein Sunker Unke PaaoN Choone Ko Ji Chahta Hai. Lata Ki Bareek Awaaz He Uske Amar Hone Ka Baaes Bani KyuN Ke Unki Awaaz Her Adakara Ki Awaaz Ban Gai Isi Liye Vo Paanch DahaiyoN Tek Her Adakara Ki Playback Ke Tor Per Her Mosiqaar Ki Pehli Pasand Ban Gaein.

Imran Ul Haq
Shakoor Pathan Sir
آپ کا تہہ دل سے شُکر گُزار ہوں کہ آپ اتنے اُساتذہ کو اپنی خوبصورت پوسٹ ٹیگ کرنے کے ساتھ اس طالب علم کو بھی یاد رکھتے ہیں، اتنی خوبصورت تحریر لتا جی کے بارے میں کہ گھر پُہنچنے کا بھی انتظار نہیں کیا راستے میں ہی پڑھ لی، آغاز سے لے کر اب تک کے سفر کا بُہت خوبصورت احاطہ کیا، اپنے فیورٹ مُحّمد رفیع صاحب سے تعصب کے باوجود بھی لتا کی آواز ہمیشہ سے پسندیدہ رہے، فلم ان پڑھ کا گیت
“ آپ کی نظروں نے سمجھا” مُحّمد رفیع صاحب کا بیجو باورا کا گیت “ او دنیا کے رکھوالے” میرے نزدیک اس صدی کے سب سے بہترین گیت ہیں۔
ڈھیڑوں دُعائیں ، سلامت رہیں۔

Shakoor Pathan
رفیع صاحب ہی کی وجہ سے میں لتا سے دور رہا. لیکن پھر یہاں کے ریڈیو پر اور کچھ اور انٹرویوز میں رفیع صاحب کے بارے میں لتا کے خیالات جان کر وہ دوری ختم.ہوگئی. رفیع صاحب سے ان کا جھگڑا موسیقی یا مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ "کاروباری "تھا. دلیپ کمار سے بھی تیرہ سال لتا کی بات چیت بند رہی. اب وہ ان کے راکھی بھائی ہیں.

Imran Ul Haq
بُہت شُکریہ سر یہ بات بتانے کے لیے اکثریت نے اسکو مذہب کا رنگ دیا تھا، ویسے لتا جی اور میڈم نور جہاں میں ایک بات مُشترک ہے کہ دونوں نے اپنے سامنے کسی اور کا چراغ جلنے نہ دیا، پسند اپنی اپنی انورادھا پوڈوال جیسی آواز بھی شاید ہی کوئ اور ہو لیکن اُنکو اپنی جگہ بنانے میں بُہت مُشکل پیش آئ۔

Shakoor Pathan
جی یہ بھی کاروباری وجوہات ہی تھیں. میں نے کچھ عرصہ قبل اس پر لتا کی تنقیص بھی کی تھی. اس معاملے میں.رفیع صاحب اپنے معین اختر کی طرح بڑے درویش صفت تھے

Imran Ul Haq
اُس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شُعلہ سا لپک جائے آواز تو دیکھو۔

Syed Moin Uddin Ahmed
بھائ شکور بہت خوب.موضوع اور مضمون دونون ہی کمال کے ہین.
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا

Abid Ali Baig
حسب معمول ایک اور لاجواب تحریر
(بھائی اب تو پذیرائی کے سارے اسلوب ختم ہوگئے)

Abdul Haq Alvi
Beautiful tribute to Lata Ji - no doubt she is great ! One may not like policies of Indian Govt but that is no reason for not acknowledging her contribution to Indian Cinéma and her status , perhaps ,greatest and most popular playback singer of subcontinent !

Naeem Baig
واہ بھئی شکور پٹھان صاحب ۔۔۔ لاجواب تحریر ۔۔۔ لتا کےبارے لکھا تو بہت کچھ جا سکتا ہے لیکن ایسے کون لکھے گا جیسے آپ نے لکھ دیا ۔۔۔ خوش رہیں لتا نے ہمیں زندہ رکھا ہے ۔۔۔۔

Amin Bhayani
ممکن ہے کہ میں غلط ہوں۔
میں نے یہ ٹرین والا واقعہ کشہور کمار کے ایک انٹرویو میں سُنا تھا اور انہوں نے بتایا تھا کہ اُن کی پہلی ملاقات بمبئی کی ٹرین میں ہوئی تھی۔

Shakoor Pathan
میں نے یہ لتا جی سے خود سنا ہے اور اسی کی بناء پر یہ مضمون لکھنے کی تحریک ہوئی کہ کہانی کا ایک دلچسپ آغاز ہوسکتا ہے.
یوٹیوب پر لتا جی کا کامران شاہد کو دئے گیے انٹرويو کو تلاش کیجیے. بہت اچھا انٹرویو ہے.

Khawaja Irfan Anwar
Uss Zamane Mein Tumaam Filimi LogoN Ki Mulaqat Train Station Ya Train Mein He Hua Karti Thi. Daal Bhaat Wali Baat Ka Ta'aluq Dilip ji Se He Hai... Kishore Bhi Lata Ko Railway Station Ya Train Mein He Mila Ho Ga....

Amin Bhayani
ایسی لیے میں نے کچھ کہنے سے قبل ہی عرض کر دیا تھا کہ
"ممکن ہے کہ میں غلط ہوں۔" :)

Shahana Jawaid
واہ بھئی گلوکارہ بھی وہ کوئل جس کے گلے میں کوکتی ہے، مجھے پاکیزہ کے گانے اور خاص طور سے چلتے چلتے ایک نشست میں سو دفعہ بھی سننا پڑے سن لوں گی، کیا خوب صورتی سے گایا ہے آپ نے پسند میں تعصب سے کام نہیں لیا

Rozi Raza
پاکیزہ کے گانے بہت مشہور ھوئے اور ھیں "موسم ھے عاشقانہ " بہت famous ھوا ایک بہت خوبصورت گیت ھے
"آج ھم اپنی دعاؤں کا اثر دیکھیں گے " ایسا گایا ھے کہ سنتے رھو

Shahana Jawaid
نہ جانے چلتے چلتے میں کیا سحر ہے سمجھ ہی نہیں آتا

Rozi Raza
ایسا محسوس ھوتا کوئی بہت حسین وادی ھے وھاں ہلکا آسمانی جھرنا بہہ رھا ھے

Amin Bhayani
اب مکمل مضمون پڑھا ہے۔
ماشاءاللہ، بہت خُوب۔

Shakoor Pathan
آپ کامران شاہد والا انٹرويو ضرور دیکھیے گا. بہت دلچسپ ہے نورجہاں کے حوالے سے بھی بڑی اچھی باتیں کہی هیں

Khawaja Irfan Anwar
Technically speaking Kamran doesn't know much about film music. IMHO he wasted a golden opportunity of asking Lata relevant questions about her singing.

Shakoor Pathan
Yes. There should be some experienced and knowledgeable guy. However Lata spoke freely and gave due importance to a novice like Kamran

Khawaja Irfan Anwar Just because it was her first TV interview for the Pakistani viewers.

Shakoor Pathan
There is one more interview to Wahahat Khan. No idea which one was the first.

Nadir Khan Sargiroh
یوں تو میں نے لتا کے کئی انٹرویوز دیکھے ہیں اور لائیو بھی سنا۔۔۔ جہاں وہ ہر گانے سے پہلے کچھ کہتی تھیں یا اس گیت کا پس منظر بیان کرتی تھیں۔ مگر کامران شاہد کے انٹریو میں پہلی مرتبہ انہیں اتنی اچھی اردو بولتے سنا اور دیکھا
میں اس بات سے متفق ہوں کہ کامران شاہد نے زیادہ تر غیر متعلق سوالات پوچھے۔ ایسا ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ لتا سے ملاقات اور ان سے گفتگو کے اس سنہری موقع کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھ رہے تھے۔ جذبات سے مغلوب ۔۔۔۔ ٹی وی کا نمائندہ یہ بھول چکا تھا کہ وہ کروڑوں شائقین/ناظرین کی ملاقات لتا سے کرا رہاہے۔

Shakoor Pathan
کامران کو ڈھنگ سے اردو بھی نہیں آتی نہ موسیقی کی سمجھ ہے. اس کا پس منظر بہرحال فلمی هے. اداکار شاہد کا بیٹا ہے. آپ نے درست کہا. وہ خوشی پر قابو نہیں پارہا تھا. لتا سے انٹرویو کسی اعلیٰ پائے کی شخصیت کو کرنا چاہیے تھا.

Shakoor Pathan
اس سے بہتر انٹرویو میں کرلیتا...ہاہاہاہا.
آپ نے میرا زبیرالدین والا انٹرویو پڑھا ہے؟

Shakoor Pathan
میری زندگی کا واحد انٹرويو ہے جو ان.ہی کی فرمائش پر کیا تھا.

Viçky Sóòmrô
سر ان کی سسٹر بھی ھیں اک آشا بھوسلے شاید آواز اور شکل سے ملتی جلتی ..

Shakoor Pathan
جی. آشا بھی عظیم فنکارہ ہیں اوشا بھی گاتی تھیں. لیکن کم.گائے. لتا کے بارے میں تو لوگ مجھ سے ذیادہ جانتےہیں. میں تو صرف اپنا بتا رہا ہوں کہ لتا کو کیسے جانا.

Masood Quazi
یہ ھمارے ھم عصروں کی خوش قسمتی ھے کہ انہوں نے اس دور میں آنکھ کھولی جب ایک سے ایک۔نابغہ روزگار لوگ اپنے اپنے فن کی معراج پر جلوہ گر تھے ۔۔
گلوکاری میں جہاں لتا ثریا شمشاد بیگم گیتا دت آشا بھونسلے ، سمن کلیان پور ، محمد رفیع مکیش طلعت محمود ، کشور ھیمنت مناڈے وغیرہ ھندوستان میں تھے ۔۔وھیں انکے فن کو چار چاند لگانے والے موسیقار نوشاد شنکر جیکشن، سی رامچندر ، ھیمنت کمار، مدن موھن ، ایس ڈی اور آر ڈی برمن حضرات ، روی، کلیان جی آنند جی ، لکشمی کانت پیارے لال ، خیام ، رام لعل، وغیرہ پیاری پیاری دھنیں بنا رھے تھے
وھیں انکو بہترین شاعری دینے والے شکیل بدایونی ، ساحرلدھیانوی، مجروح سلطان پوری راجندر کرشن ، آنند بخشی ، شیلندر ، قمر۔جلال آبادی ، ایس ایچ بیہاری ،اسد بھوپالی ، شیون رضوی ۔۔جو کہ پاکستان آکر بھی بہت کامیاب رھے ۔۔۔ اندیور ، نیرج ، شہریار ، اور ان جیسے لاتعداد نغمہ۔نگار تھے
اداکاروں کی فہرست میں دلیپ کمار ، دیوآنند راجکپور اور ان کے برادران
بعد میں دھرمیندر ، راجیش کھنہ نرگس میناکماری مدھوبالا گیتا بالی نوتن سادھنا وغیرہ ۔۔۔سے لیکر کئ قابل ذکر فنکار جن کی فہرست درج کرنے کی وقت اور جگہ کی گنجائش نہیں ۔۔۔
یہی حال پاکستان کے فنکاروں کا تھا
نورجہاں مہدی حسن قتیل شفائ ۔یعنی ایک سے ایک گلوکار نغمہ۔نگار اداکار ۔۔۔
جن میں ھر ایک کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاسکتا ھے کہ
ایسا کہاں سے لاؤں ۔۔کہ تجھ سا کہیں جسے
۔۔۔۔ان لوگوں نے۔ھمیں یادگار سنہرا ماضی دیا ۔۔۔
اسکے مقابلہ میں آجکل جوکچھ فن گلوکاری ،موسیقی اور اداکاری کے نام پر ھورھا ھے ۔۔۔اس کو دیکھ کر موجودہ اور آئندہ نسل پر ترس آتا ھے کہ وہ ایسےسنہرے دور محروم رہ رھے ھیں ۔۔۔۔
ھمارے زمانے میں آئ فون ۔۔۔اور صنعتی اور سائنسی ایجادات سے حاصل کردہ ۔۔۔دیگر آسائشیں نہ تھیں مگر ۔۔۔۔ جوکچھ بھی آج ھے وہ ھمارے دور کی نعمتوں کا قطعی نعم البدل نہیں ھوسکتا ۔۔۔
میں ایک بھی لمجہ اس دور کا آج کے سال کے بدلے میں نہ دوں ۔۔۔
کوئ لوٹا دے میرے بیتے ھوئے دن
ھے یہ وھی آسماں۔۔۔ اور ھے وہ ھی زمیں ۔۔۔پر میری تقدیر کا۔۔۔۔ اب وہ زمانا نہیں
۔۔۔گزرا ھوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ ۔۔حافظ خدا تمہارا۔۔۔
یہ۔ذندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ھونگے۔۔۔۔ افسوس ھم نہ ھونگے
۔۔۔۔۔ یا اللہ رحم ۔۔۔۔۔۔مسعود قاضی

Viçky Sóòmrô
لاجواب سر ! اگر آج کے لوگوں کی سوچ آپ جسی ھو جاۓ تو کچھ چیزیں اب بھی لوٹ کر آسکتی ھیں ..

Imran Ul Haq
Masood Quazi
سر بُہت معذرت کے ساتھ وہ ایک امیتابھ بچن نام کا بھی ناکام اداکار تھا ہندوستان کا ، میں گُستاخی بالکل نہ کرتا اگر دلیپ کمار، دیوآنند، راج کپور اور اُن کے برادران کے بعد دھرمیندر اور راجیش کھنّہ کا نام نا ہوتا۔

Masood Quazi
بالکل تھا بلکہ ابھی بھی ھے :-)

Yahiya Khan
جناب Masood Quazi صاحب آپ نغمہ نگاروں میں حسرت جئے پوری کو ھی بھول گئے
جن کے مقبول نغمے آج بھی سنائی دیتے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم مجھے یوں بھلا نہ پاوگے ،
کوئی مجھے جنگلی کہے
جانے کہاں گئے وہ دن
دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی
خدا بھی آسماں سے جب زمیں پر دیکھتا ھوگا
اپریل فول بنایا تو ان کو غصہ آیا
بے دردی بالماں تجھکو میرا من یاد کرتا ھے
بہارو پھول برساو میرا محبوب آیا ھے
سن سائبا سن پیار کی دُھن
زندگی ایک سفر ھے سہانا
غم اٹھانے کیلئے میں تو جئے جاونگا
دل کے جھروکے میں تجھ کو بٹھاکر
لال چھڑی میدان کھڑی ، کیا خوب لڑی
گمنام ھے کوئی ، بدنام ھے کوئی

Masood Quazi
ا یسے تو میں کیفی اعظمی، جانثار اختر، نخشب جارچوی ،گلزار اور نہ جانے کن کن کو بھول گیا ۔۔
اس ھی لئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو میری اعانت کے لئے مقرر کیا ھے۔ :-)

Masood Quazi
جناب ھماری معلومات میں مزید اضافہ فرمائیں ۔۔۔کیفی اعظمی صاحب کی فلمی گیت نگاری کے حوالہ سے
شکریہ
مجھے یقین ھے کہ۔ پاکستان کے عظیم موسیقار جناب خواجہ خورشید انور مرحوم کی معرفت سے جناب کی تحقیق معتبر ھوگی

Khawaja Irfan Anwar
Yahaan Kaifi Saheb Ke 108 Mukamal Geet Mil Jaaeinge
http://www.giitaayan.com/search.asp?PageNo=1&s=Kaifi%20Azmi&browse=Lyrics

Amjed Saleem Alvi
اب میں کیا کروں؟ ایک کتاب کے پروف پڑھ رہا ہوں، اسی سلسلے میں ایک کتاب تلاش کرنے کے لیے نیٹ لگایا۔ لتا پر شکور بھائی لکھیں تو لاجواب ہی لکھیں گے لیکن ابھی واققعی پڑھنے کا ٹائم نہیں۔ رات کو پڑھ کو سوؤں گا، ان شاء اللہ۔

Eqbal Hasan Azad
نہایت دلچسپ اور معلوماتی مضمون۔پڑھنا شروع کیا تو ایک ہی سانس میں پورا پڑھ گیا۔ سلامت رہیں اور لکھتے رہیں۔

Mehboob Khan
لتا منگیگشکر کے بارے میں بڑے غلام علی خان نے ایک بار کہا تھا کہ کمبخت کہیں سے بے سری نہیں ہوتی ۔
محمد رفی سے کوئ جھگڑھ نہیں تھا لتا گلوکاروں کی رائلٹی کی مانگ کر رہی تھیں رفی کا کہنا تھا کہ جب گانے کی ملکیت پرددیوسر کی ہۓ تو رائلٹی اسی کی ہۓ۔ دونوں برسوں الگ رہے۔
لتا کی آواز نے نۓ گلوکاروں کو ابھرنے نہ دیا بھولا بھٹکا کوئ موسیقار کسی نئ گلوکارھ کو لے لیتا تو اسے اسکا خمیازھ اٹھانا پڑتا۔ویسے تو لتا نے چھوٹے بڑے سبھی موسیقاروں کے ساتھ لافانی گیت دیۓ ہیں لیکن
لتا اور مدن موہن کی جوڑی نے بہت سریلے نغمے دیۓ ہیں ۔
لتا منگیشکر پر میرے دوست راجہ ایودھیا کے صاحب زادے یتیندر مشرا نے ہندی زبان میں 700 صفحات کی کتاب لکھی ہۓ جو اپنے آپ میں دستاویز ہۓ۔
لتا منگیشکر نے غالب کی غزلیں بھی خوب گائ ہیں جسکا ریکارڈ EMI نے غالب صدی کے موقع پر جاری کیا ۔

Shahid Paras
ساحِل فَخَر
دَلیپ کُمار صاحَب نے باقاعدہ لَتا جی کو نَصیحَت کی تھی کہ :
اَگَر بَمبَئی کی فِلموں میں کامیاب ہونا ہَے تو اُردُو سیکھیں

Amatullah Saeeda
لتا اچها گاتی هیں
مجهے ان کا ایک پرانا گیت پسند هے.میں نهی سنتی هوں گانے
وہ شاید ایسے هے
هم نے دیکهی هے ان آنکهوں کی مہکتی خوشبو

اور یاد نهی رها 😊
ایک مصرع هی یاد هے
اچها مضمون لکها آپ نے
پڑه کر اچها لگا

Amjed Saleem Alvi
شکور صاحب نے زیادتی کی، آپ کو گیت کے اگلے بول یاد نہیئں دلاۓ :) یہ فرض میں ادا کرتا ہوں :)
ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو، ہاتھ سے چھو کے اسے رشتوں کا الزام نہ دو
صرف احساس ہے یہ روح سے محسوس کرو، پیار کو پیار ہی رہنے دو کوئی نام نہ دو

Rozi Raza
ھم نے دیکھی ھے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو
ھاتھ سے چھوکے انہیں رشتے کا الزام نہ دو
صرف احساس ھے یہ روح سے محسوس کرو پیار کو پیار ھی رھنے دو کوئی نام نہ دو
بہت خوبصورت گایا ھے
لتا منگیشکر نے

Mehboob Khan
لتا منگیشکر کی نشود نمائ میں نوشاد کا بہت بڑا ہاتھ ہۓ۔ اردو کا تلفظ ۔لفظوں کی سہی ادائیگی سب کچھ انھیں کا سکھایا ہۓ۔ لتا کو ایک وسیع اندسٹری ملی اور بیشمار فلموں کے ہزاروں گیت گانے کا موقع ملا جبکہ فنکاری میں ان سے سینیر نورجہاں کے پاس پنجابی او محدود اردو فلمیں رہیں جس سے ان کے فن کی بھرپور پذیرائی نہ ہو سکی۔ لتا اور نور جہاں کا موازانہ نہیں کیا جاسکتا ۔ دونوں سر کی ملکہ ہیں۔

Shakoor Pathan
مقابلہ کسی بھی فنکار کا نہیں کیا جاسکتا. سب اپنا مقام رکھتےہیں. آشا بھوسلے کا بارے میں کیا خیال هے کیا وہ کسی سے کم.ہیں. بس یہ ایسا ہی یے کہ سچن ٹنڈولکر کے سامنے راہول ڈراویڈ کا چراغ نہ جلنے پایا حالانکہ وه بھی ایک عظیم کھلاڑی تھا.

Munir Ahmad
مقابلہ کسی بھی فنکار کا نہیں کیا جاسکتا. سب اپنا مقام رکھتےہیں

Masood Quazi
مجھے تو ایسا لگتا ھے کہ ثریا کا حسین ترین ھونا اسکی گلوکاری کے راستہ میں رکاوٹ بن گیا تھا ۔۔
اگر۔وہ۔خاتون اپنی گلوکاری ہر توجہ دیتیں تو وہ آواز کی شان و۔شوکت میں لتا سے کم نہ تھی ۔۔۔مگر کلاسیکی طور پر فن حاصل کرنے میں لتا اور آشا کا ریاض کار نمایاں ھے اسلئے محنت کا پھل بھی انہیں حاصل ھوا ۔۔۔یہ دونوں گلوکارائیں اداکاری اور دوسرے اظہار فن میں ناکامی کی۔بعد ھی گلوکاری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر۔بیٹھ گئ تھیں
جب کہ ثریا حسن و جمال کی دولت سے بھی مالامال تھی اور اداکاری میں بھی مقبول ترین فن کارہ ۔مانی جاتی تھیں ۔۔۔
انہوں نے لگتا ھے گلوکاری۔پر واجبی سی توجہ دی تھی ۔۔۔
نورجہاں بھی ثریا کی طرح حسن وجمال سے آراستہ۔ھونے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کے فن۔سے۔منسلک تھیں ۔۔۔مگر ھندوستان تک انکا بنیادی فن اظہار اداکاری َھی رھا ۔۔۔جبکہ انکے گائے ھوئے گانوں کی وجہ سے بہ۔نسبت اداکاری۔کے زیادہ۔مقبول تھیں
پاکستان۔آنے کے بعد نیند انتظار انارکلی وغیرہ کچھ فلموں تک انہوں نے اداکاری کا دامن نہیں چھوڑا بعد میں انہیں خود احساس ھوا کہ رنگ و روپ سے زیادہ سریلی آواز پائدار ھوتی۔ھے ۔۔۔
یہ پاکستان کے شائیقین کے لئے اور خود نورجہاں کے حق میں بہتر ھوا

MA Hafeez
Koe manay ya na manay mera lhiya hai ye
Lata bari bhan zaror hay magay ganay main choti bhan asha bhoslay 1 number hain dono ka 50,60, saal ka kia kaam samnay hain jitni variety asha k gano main hai lata main nahen lata agar azem hai to asha azemtar hai

Shahid Paras
لَتا جی کے فَن و شَخصیَت پر آپ ہی قَلَم اُٹھا سَکتے تھے ۔

اَور آپ نے اٹھایا اَور اَیسا اُٹھایا کے

اَب لَگتا ہَے کہ قَلَم ہی جَہان سے اُٹھ گَیا ہَے ۔

دِلّی مُبارَک باد قُبُول فَرمائیں ۔

Adil Hasan
بہت خوب انداز تحریر ہے اب تو آپ اپنا نام اور تعارف نہ بھی لکھیں تو ہم سمجھ جائیں گے کہ آپ کی تحریر ہے، سلامت رہیئے اور یوں لکھتے رہیئے۔

Shahid Paras
ایک بَھجَن ہَے لَتا جی کا

سُننے کی چیز ہَے :

باجے مُرَلیا باجے ۔

اَور ایک گانا

جا مَیں توسے ناہی بولُوں

Shakoor Pathan
جا میں تو سے ناہیں بولوں تو نورجہاں کا ہے. موسیقار فلم کا.

Shahid Paras
مَوسیقار کا گانا ہَے :

جا جا مَیں توسے ناہی بولُوں ۔

جَبکہ لَتا جی کے گانے کے بول ہیں :

جا میں تو سے ناہی بولُوں ۔
لاکھ جَتَن کر لے صَنَم ،
لاکھ جَتَن کر لے صَنَم
گُھنگٹا نَہیں کھولُوں ۔

اِس گانے کی خاص بات یہ بھی ہَے کہ اس گانے کے دَوران ، جو کہ مُجرا ہَے ، اِس پُورے مُجرے کے دَوران دو طَوائفیں ہاتھوں کی ، اُنگلِیؤں کی ، آنکھوں کی ، بَھنووں کی ، حَرکات و نِرت بھاؤ کا کَمال دِکھاتی ہیں ۔ سارے مُجرے میں بَیٹھ کر رَقص کِیا ہَے ، کَھڑے ہو کر ، گُھوم کر کوئی سٹیپ نَہیں لِیا ۔

Anwar Ahmad
شکور بھائی سلامت رہیں اور ایسی زندہ تحریریں ہمیں ملتی رہیں ۔ کس کمال سے آپ نے لتا کے بارے میں سب کہ دیا اور ساتھ ہی اپنی روئیداد بھی سنا ڈالی ۔۔۔۔ سوچا تھا کہ بعد میں پڑھونگا لیکن جب. شروع کیا تو رک ہی نہیں پایا اور بیگم کہتی رہیں نماز کا وقت جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔

Nadir Khan Sargiroh
بہت عمدہ
لتا منگیشکر کا ذکر ہو
اور ہم نہ رُکیں؟
۔
ایسا لگا کہ آپ میرے ہی دل کی باتیں کر رہے ہیں۔
۔
دل کی باتیں چرانے کو کیا کہیں گے؟
۔
یوں تو میں نے لتا کے کئی انٹرویوز دیکھے ہیں اور لائیو بھی سنا۔۔۔ جہاں وہ ہر گانے سے پہلے کچھ کہتی تھیں یا اس گیت کا پس منظر بیان کرتی تھیں۔ مگر کامران شاہد کے انٹریو میں پہلی مرتبہ انہیں اتنی اچھی اردو بولتے سنا اور دیکھا
میں اس بات سے متفق ہوں کہ کامران شاہد نے زیادہ تر غیر متعلق سوالات پوچھے۔ ایسا ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ لتا سے ملاقات اور ان سے گفتگو کے اس سنہری موقع کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھ رہے تھے۔ جذبات سے مغلوب ۔۔۔۔ ٹی وی کا نمائندہ یہ بھول چکا تھا کہ وہ کروڑوں شائقین/ناظرین کی ملاقات لتا سے کرا رہاہے۔
۔

Ashraf Madraswala
بہت کم الفاظ لگے لتا جی کے لیے. مگر بہت عمدہ تعرف . .
میں نے اگر دو ہزار کیسٹس خریدے تو آدهے کشور اور آدهے لتا کے.
میری خوش نصیبی کہ 1997 میں بمبئی جانا ہوا تو حاجی علی درگا پر پہنچا اور نذدیک ہی لتا جی کی بڑی سی کوٹهی . یعنی چوپاٹئ والے علاقے میں . منت سماجت کے بعد اور خود کو پاکستانی پرستار کہنے کے بعد دیکهنے کا موقعہ ملا . .
سادگی اور خاموش سی خاتون

Ishrat Moin Seema
شکور پٹھان بھائی کے ایک ایک لفظ میں لتا جی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئےفنِ گائیکی کی اہمیت اور ثقافت سے محبت کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ شاعری جہاں جزبات کی زبان ہے وہیں موسیقی جذبات کا اظہار اور جب یہ زبان و اظہار سُر و تال اور اُردو زبان کی شیرینی میں گھلے ہوں تو لتا جی ، مہدی حسن ، کشور کماراور محمد رفیع کا کی آواز دل میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ بہت عمدہ مضمون ہے۔ ڈھیروں داد و ستائش

Liaquat Ali Asim
دل کا دیا جلا کے گیا یہ کون مری تنہائی میں۔۔۔ میرا پسندیدہ ترین گیت جو لتا جی نے سرگوشی کے انداز میں گایا ہے اور چتر گپت جی نے مجروح صاحب کے خوب صورت بولوں کی دل میں اتر جانے والی دھن بنائ۔۔۔ آج ہی سنیے اور سر دھنیے

Tariq Moen
آپ نے لاکھوں نہیں کروڑوں یا شائید اربوں لوگوں کے دل میں بسی، گاتی، ناچتی، کودتی، پھاندتی ان کی محبوبہ کو بہت ہی خوبصورتی سے اُن کے سامنے پیش کیا ہے کیونکہ لوگ اپنی واجبی سی صورت والی محبوبہ کو بھی اتنی ہی چنچل، سنجیدہ اور مدُھر حسینہ سمجھنے لگتے ہیں جتنی خوبصورت کہ لتا جی کی آواز ہوتی ہے۔ اپنی آواز سے محبوباؤں کو حسن اور ہر عمر کے محبوبوں کو دل بخشنے والی لتا جی کی آواز جیسی خوبصورت، کھنکتی، اٹھلاتی، چنچل، اُڑتی، بہتی، رواں، دواں، مستی میں ڈوبی اور کانوں میں رس گھولتی تحریر پر آپکا بہت شکریہ شکور بھائ۔ الّلہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھیں۔ آمین۔

Rozi Raza
آپ کی بات پر ایک بہت خوبصورت گیت یاد آیا
پنچھی بنوں اڑتی پھروں مست گگن میں "

Naseer Akhter
لتا جی کی امر آواز کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے، کم ہے۔ یہ آواز لا تعداد دلوں کو سکون اور اضطراب کے ان دیکھے جزیروں میں لے جاتی ہے۔

Ramazan Baloch
شکور پٹھان صاحب کی عمدہ تحریر اور دلفریب انداز لتاجی کے بارے میں جن کی رسیلی اور مدہر آواز صدیوں تک کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔

Masood Quazi
مجھے تو ایسا لگتا ھے کہ ثریا کا حسین ترین ھونا اسکی گلوکاری کے راستہ میں رکاوٹ بن گیا تھا ۔۔
اگر۔وہ۔خاتون اپنی گلوکاری ہر توجہ دیتیں تو وہ آواز کی شان و۔شوکت میں لتا سے کم نہ تھی ۔۔۔مگر کلاسیکی طور پر فن حاصل کرنے میں لتا اور آشا کا ریاض کار نمایاں ھے اسلئے محنت کا پھل بھی انہیں حاصل ھوا ۔۔۔یہ دونوں گلوکارائیں اداکاری اور دوسرے اظہار فن میں ناکامی کی۔بعد ھی گلوکاری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر۔بیٹھ گئ تھیں
جب کہ ثریا حسن و جمال کی دولت سے بھی مالامال تھی اور اداکاری میں بھی مقبول ترین فن کارہ ۔مانی جاتی تھیں ۔۔۔
انہوں نے لگتا ھے گلوکاری۔پر واجبی سی توجہ دی تھی ۔۔۔
نورجہاں بھی ثریا کی طرح حسن وجمال سے آراستہ۔ھونے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کے فن۔سے۔منسلک تھیں ۔۔۔مگر ھندوستان تک انکا بنیادی فن اظہار اداکاری َھی رھا ۔۔۔جبکہ انکے گائے ھوئے گانوں کی وجہ سے بہ۔نسبت اداکاری۔کے زیادہ۔مقبول تھیں
پاکستان۔آنے کے بعد نیند انتظار انارکلی وغیرہ کچھ فلموں تک انہوں نے اداکاری کا دامن نہیں چھوڑا بعد میں انہیں خود احساس ھوا کہ رنگ و روپ سے زیادہ سریلی آواز پائدار ھوتی۔ھے ۔۔۔
یہ پاکستان کے شائیقین کے لئے اور خود نورجہاں کے حق میں بہتر ھوا
یا اللہ رحم ۔۔۔۔۔۔مسعود قاضی

Mehnaz Sohail
اتنے اچهے تبصروں کے سامنے کچه بولنا اچها نہیں لگتا مگر واقعی زبردست مضمون ہے

Samar Siddiqui
آپ نے اتنا لکھ دیا ..پر اس خداداد آواز پر جتنا بھی لکھا گیا ..اس آواز سے انصاف نہیں ہو سکا ..آسمان سے اتری آواز ہے..

Shakoor Pathan
اور یہی سچ ہماری نورجہاں صاحب کا بھی ہے..کیا عمدہ آواز ..عمدہ ترین

Mahjabeen Asif
یا سماعت ک بھرم ہے یا کسی نغمہ کی گونج
اک پہچانی ہوئ آواز آتی ہے مجھے . .واقعی دل کی آہٹ سے تری آواز آتی ہے کے مصداق آپکی تحریر نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ..بہت عمدہ آغاز سے انجام تک تحریر کی روانی پلکیں جھپکانے نہی دیتی ...لتا کی آواز سماں باندھ دیتی ہے .اک الہڑ کھنکتی.ہوئ آواز و سوز و ساز کا حسین امتزاج ہے ....بہت. عمدہ تحریر .وااااہ

Mehboob Khan
شکور بھائ ان دنوں آپ اندیا پر بہت لکھ رہے ہیں ۔ کیرالہ پھر لتا منگیشکر۔
اگلہ کون یوسف خان۔۔؟
آپکا سفر نامہ ھند کب منظر عام پر آرہا ہۓ۔؟

Shakoor Pathan
یوسف خان پر تو بہت پہلے لکھ چکا ہوں. محبوب بھائی. بات انڈیا پاکستان کی نہیں. جہاں جس سے متاثر ہوئےاس پر لکھ ڈالا...اچھے برے لوگ دونوں طرف ہیں.

Abbas Rizvi
لتا جی پر شکور پٹھان کا یہ خاکہ نُما بہت اچھا ہے لیکن خاکہ نگار کے لۓ ضروری ہے کہ وہ اپنے ممدوح کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوریوں پر بھی نظر رکھے کیونکہ اس کے بغیر خاکہ مکمل نہیں ہوتا ۔۔۔ اس سلسلے مین دو واقعات بیان کۓ جا سکتے ہین پہلا جب بنگا ل کی خوبصورت آواز سمن کلیان پور فلمی گائیکی کی دنیا میاں وارد ہوئی تو لتا نے ہر ممکن طریقے سے اُس کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور جسقدر ممکن تھا روکا ۔ ۔۔۔ سمن کلیان پور کے بارے مین ماہرین کا خیال ہے کہ وہ نہ صرف لتا جیسی آواز کی مالک تھی بلکہ وہ کوئی بھی گیت لتا جیسی مہارت سے گا سکتی تھی یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ اعلیٰ درجے کے انسان طلعت محمود کو بھی سُمن سے ہمدردی ہوئی اور انہوں نے اسے اپے ساتھ گانے کا موقع دیا مگر لتا کی مقبولیت اور اس کی مضبوط تعلقاتِ عامہ نے سمن کو آگے نہ بڑھنے دیا اور سمن کو زیادہ گیت نہ مل سکے ۔۔ لتا کے ضدی مزاج کا دوسرا واقعہ وہ ہے جب شادی کے بعد آشا بھونسلے بھی " دیدی " کے ساتھ نہ رہ سکی اس واقعے کی تفصیلات سبھی کو معلوم ہین ان باتوں کو یاد دلانے کا مقصد لتا کو برے روپ میں دکھانا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ انسانی کمزوریاں ہیں جو کسی بھی شخص میں پائی جاسکتی ہیں ۔۔۔۔۔ ایک اور بات جس کی کمی اس خاکہ نُما میں محسوس ہوئی وہ وہ ایک چھوٹا سا رومانی تعلق ہے جو ایک مختصر عرصے کے لۓ لتا اور ہیمنتا مکرجی ( ہیمنت کمار ) کے درمیان رہا ۔۔۔ لتا کے دو بے مثل گیتؤں کابھی تذکرہ ضروری ہے جو کم کم لوگوں کو یاد ہوں گے یعنی تم کیا جانو ۔۔۔۔ تمہاری یاد مین ہم کتنا روۓ ( فلم شن شناکی بُبلا بوُ ) اور ہاۓ رے وہ دن کیوں نہ آۓ ( فلم انو رادھا ) -- شکور پٹھان اپنی اس خوبصورت تحریر داد کا بھرپور استحقاق رکھتے ہیں سو میری طرف سے بھی بہت داد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Rozi Raza
دنیا میں کون ایسا انسان ھوگا جس میں کوئی خامی نہ ھو یا کون ھوگا ایسا جس سے کبھی کوئی غلطی نہیں ھوئی ھو لیکن جب خوبیاں خامی پر حاوی ھوں تو پھر درگذر کی گنجائش ضرور ھوتی ھے اور قلب ذھن کو یہ بھلا لگتا ھے کہ ھم مثبت رھیں

Mehboob Khan
کیدار شرما بہت بڑے دائریکٹر تھے ، راج کپور ان کے اسسٹنٹ تھے۔ کیدار شرمانے اپنی خود کی کم بجٹ کی فلمیں بھی بنایں ۔ ایک فلم میں لتا کو گانا تھا ۔ ان کے درایور کی بھی فیس مقرر تھی جو بزرگ کیدار شرما نے ادا کرنے سے منع کر دیا۔ ان کو ریکارڈنگ کے لیۓ تاریخ نہیں ملی ، ملی بھی تو لتا نہیں آئیں ۔ تھک ہار کر کیدار شرما نے اس گیت کو ایک گمنام گلوکارھ مبارک بیگم کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا اور وھ گیت تاریخ میں درج ہوگیا ۔
کبھی تنہائیوں میں ہماری یاد آۓ گی “

Saleem Rizvi
بہت خوب نقشہ کھینچا آپ نے سُر کی اس ملکہ کا۔ واقعی ''ہم اور آپ خوش قسمت ہیں کہ کانوں میں رس گھولتی مسحورکُن آواز سے محظوظ ہونے کے لیے لتا کے عہد میں زندہ ہیں۔''

Abbas Rizvi
ایک اور آختلافی مسئلہ لتا اور محمد رفیع کے درمیان 1960 کے اوائل میں سامنے آیا تھا جب لتا نے فلموں کے پروڈیوسرز سے اپنے ( اور رفیع صاحب کےساتھ گاۓ ہوۓ دو گانوں پر بھی ) رائلٹی کا مظالبہ کیا تھا مگر لتا جی کی توقعات کے بر عکس درویش صفت محمد رفیع نے اس مالی مطالبے پر لتا کی کی حمایت سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد کئی برس تک رفیع - سمن کلیان پور کے ساتھ اور لتا - مہندر کپورکے ساتھ دوگانے گاتی رہیں اس واقعے کی تفصیلات رفیع صاحب کی بہو یاسمین خالد کی کتاب کتاب " Mohammad Rafi _ My Abba_ A Memoir میں دیکھی جاسکتی ہیں

Shakoor Pathan
بڑی نوازش عباس صاحب. آپ کا مشورہ قابل قدر ہے. لتا کے بارے میں مذکورہ واقعات کی تفصیلات کا مجھے ہرگز علم.نہیں. مجھے ان کے اور رفیع صاحب کے درمیان رائلٹی کے معاملے پر اختلاف کا علم.تھا. لیکن اس کا یہاں کوئی محل نہ تھا.

Abrar Ahmed
لتا جی کی امر آواز کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے، کم ہے۔ یہ آواز لا تعداد دلوں کو سکون اور اضطراب کے ان دیکھے جزیروں میں لے جاتی ہے۔
بہت عمدہ شکور بھائ،،،

Osman Sohail
"میری آواز ہی پہچان ہے گر یاد رہے"۔
اسی گیت میں لتاجی کے لیے سب سے بڑا خراج تحسین ہے۔

Amjed Saleem Alvi
برادر، ایک بہترین پوسٹ پر تاخیر سے کمنٹ دینے کا نقصان معلوم ہے کیا ہوتا ہے؟ سارے کمنٹس بھی پڑھنے پڑتے ہیں، اس لیے کہ بہترین پوسٹ پر ہی معلومات سے لبریز بہترین کمنٹس پہڑھنے کو ملتے ہیں۔ اتنا کچھ پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یک لفظی تبصرہ "بہترین" لکھ دینا ہی کافی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے سب تعریف کرنے والوں کا ہم آواز سمجھیے۔
آپ نے لتا جی کے علاوہ بھی ہندوستان اور پاکستان کے گلوکاروں کا تذکرہ کیا ہے ۔ آپ کو رفیع صاحب کے سلسلے میں اپنے مسعود رانا صاحب کی "بڑ" تو یاد ہو گی۔ رفیع صاحب نے فلم دوستی کے لیے خوبصورت گیت گاۓ اور سارے گیت ہٹ ہوے۔ ہم نے دوستی کا چربہ "ہمراہی" کے نام سے بنائی اور اس کے گیت مسعود رانا صاحب نے گاۓ۔ گیت بجا طور پر ہٹ ہوے لیکن اپنے رانا صاحب آپے سے باہر ہو گئے اور خود کو رفیع صاحب سے بڑا گلوکار قرار دے دیا۔ بس تبھی سے ان کا زوال شروع ہوا۔
ایک یادگار پوسٹ، جس کے کمنٹس پڑھنے کا بھی اتنا ہی مزہ آیا جتنا اصل پوسٹ پڑھنے کا۔

Yahiya Khan
بہت ھی عمدہ اور بالکل انوکھے انداز والا مضمون جناب Shakoor Pathan صاحب ، اور ایسا مضمون صرف آپ ھی لکھ سکتے ھیں ۔

Haroon Ur Rashid
شکور پٹھان صاحب کی دل سے نکلی بات، لہکتا ہوا بے ساختہ لہجہ۔ داد کے وہ حق دار ہیں۔ سات عشرے پر پھیلی اتنی غیر معمولی زندگی پہ مگر سب پہلووں سے بات کرنی چاہیے۔ محض خراج تحسین کی اب اس جگمگاتی ہستی کو کیا ضرورت؟ ایسی خیرہ کن حیات کے پس منظر میں کارفرما سچاءیوں کو آشکار کرنا زیادہ اہم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بے پناہ عزم و ریاضت اور استقلال کی تفصیل کہ پڑھنے والے inspire ہوں۔ پھر کمزور پہلووں کا کچھ بیان۔ سطحی توازن کی آرزو میں نہیں بلکہ واضح کرنے کے لیے کہ غلطیوں کے باوجود کارنامے انجام دیے جاتے ہیں۔ سوانح نگاری میں تجزیے کا رخ بھی چاہیے مگر سلیقے سے۔ ایک زیریں لہر۔ جس طرح شیشے کے برتن سنبھالے جاتے ہیں۔بہرحال عصری معیار سے یہ ایک دلکش تحریر ہے۔ اکثر سے بہتر۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

Rozi Raza
آپ نے بہت خوبصورت پیرائے میں لتا منگیشکر کے بارے میں الفاظ کے پھول نچھاور کئے ھیں کہ جیسے انکے فن کا حق ادا کیا یوں محسوس ھوتا ھے کہ لتا منگیشکر ھمیشہ سے تھیں اور سدا رہیں گی بہت دلنشیں دلچسپ اور معلوماتی تحریر جو بارھا پڑھی جاسکتی ھے بہت شکریہ

Rozi Raza
خاموش ھے زمانہ چپ چاپ ھیں ستارے
آرام سے ھے دنیا بیکل ھیں دل کے مارے
ایسے میں کوئی آہٹ اسطرح آرہی ھے
جیسے کہ چل رھا ھو من میں کوئی ھمارے
یا دل دھڑک رھا ھے اس آس کے سہارے
آئے گا آئے گا آئے گا آنے والا آئے گا آئے گا
دیپک بغیر کیسے پروانے جل رھے ھیں
کوئی نہیں چلاتا اور تیر چل رھے ھیں
تڑپے گا کوئی کب تک بے آس بے سہارے
لیکن یہ کہہ رھے ھیں دل کہ میرے اشارے
آئے گا آئے گا آئے گا آنے والا

لتا منگیشکر نے یہ خوبصورت گیت 15 سال کی early age میں فلم " محل " کیلئے گایا
شاعر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نخشب

Khawaja Irfan Anwar
Lata Ne Ya Naghma 20 Saal Ki Umer Mein Gaya Thha (1929 - 1949).

Sanwerj Hashmi
جى منظور قاضی عشرت معين سيما وه صدى واقعى نابغان عصر اور فن كارون كا عهد رهى پهر باستشنائى چند قحط الرجال رها.

Muneer Sadiq
شکور صاحب میں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں کہ مذہبی تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوے آپ نے فقط اور خالص کسی کے فن کو تحریر کیا ۔۔۔ یہ کام اعلیٰ ظرف والے ہی کرسکتے ہیں ۔۔۔۔مجھے لتا کے بارے میں ۔۔بلکہ کسی گلوکار کے بارے میں کوئی علم نہیں لیکن آپ کی تحریر دیکھ کر سب کو جاننے کا ۔۔۔۔اشتیاق پیدا ہوا ۔۔۔۔

Khawaja Irfan Anwar
IMHO, Lata has sung most of her best songs in 1970s. In the 50s most of her best songs were those which she sang for Sajjad Hussain.

Moazzam Raaz
واااااہ، بہت خوب!!
لتا جی پر اوائل عمری سے بیسیوں سوانحی مضامین پڑھے، مختصر لیکن جامع الفاظ میں "فن" کے حوالے سے جو بھرپور روانی آپ کے اس مضمون میں ہے وہ قاری کو ابتداء تا انتہا اپنی گرفت میں لئے رکھتی ہے
صمیم قلب سے مبارکباد پیش ہے محبی شکور پٹھان بھائی!!
آپ نے درست لکھا ہیکہ:
"لتا کی بات ان کے گانوں کے بغیر نامکمل ہے، لیکن کس میں ہمت ہے کہ ان کے مقبول ترین گانوں کی فہرست بنا سکے ۔ اگر میں ان کے سو مقبول ترین گانے لکھ دوں تو آپ اتنے ہی مقبول دوسو گانے مجھے بتادیں گے۔"

اس خوبصورت مضمون کے اشتراک پر اظہار ممنونیت بہرحال اپنا فریضہ سمجھتا ہوں، کل شب دیر گئے ہی فرصت کے لمحات میں یہ مضمون ایک نشست میں مطالعہ میں آیا اور تبھی اپنے کئ واٹس ایپ گروپ میں بھی اشتراک کیا ہوں
مکرر مبارکباد پیش ہے 🌹

آپ کی اس پوسٹ پر لتا جی کے فن کی تعریف میں محترم عثمان سہیل صاحب نے سچ لکھا ہے کہ:
"میری آواز ہی پہچان ہے گر یاد رہے"۔
اسی گیت میں لتاجی کے لیے سب سے بڑا خراج تحسین ہے۔

Ahmed Iqbal
ہم نورجہاں کو کریڈٹ دے کر قومی و ملی خوشی ضرور حاصل کر سکتے ہیں لکن لتا کی آواز موسیقی کی دنیا کا طوفان نوح تھی جس کے آگے کچھ ٹہر نہں سکتا تھا ۔ اسے دلوں پر راج کرنا ہی تھا

Noor Mohammad Jamali
انڈین
تو ہمارے
مہدی حسن بارے کہتے تھے کہ
" ان کے گلے میں بھگوان
کی آواز ہے"
بشکریہ: فیس بک تحریر از- شکور پٹھان
***
شکور پٹھان
شارجہ، متحدہ عرب امارات
Shakoor Pathan, Sharjah
شکور پٹھان

Sur Saraswati Lata Mangeshkar, a Memoir by Shakoor Pathan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں