افرازول کے لئے کوئی ملک نہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-12-14

افرازول کے لئے کوئی ملک نہیں

Shambhulal Regar and Mohammed Afrazul
آج راجستھان کوئی دور افتادہ جگہ نہیں ہے لیکن جتنے شمبھولال ہیں سب جانتے ہیں کہ وہ قتل کر کے بچ سکتے ہیں
(سابقہ) منصوبہ بندی کمیشن کے ایک رکن کی حیثیت سے میں نے اپنے تین مختص ریاستوں میں سے ایک کے طور پر 10 سال کے لئے راجستھان کو دیکھا. پورا ملک گھومنے کے بعد، میں نے اپنے تجربات کو ریکارڈ کرنے کے لئے ایک کتاب بھی لکھی۔ کتاب کا عنوان تھا “خوبصورت ملک: ایک اور بھارت کی کہانیاں”۔ میں نے جو بھارت دیکھا وہ واقعی بہت خوبصورت تھا لیکن اسکا زیادہ تر حصہ منظر سے غائب تھا کیونکہ یہ میڈیا اور سیاحت کے ماتحت دائرے سے دور تھا. میں نے اسی طرح کے ایک مقام راجسمند کے بارے میں لکھا، جو دلکش کومبھل گڑھ قلعہ کے لئے کافی مشہور ہے جو دیوار چین کے بعد سب سے لمبی دیوار سے گھرا ہوا ہے. میں قلعہ کے ارد گرد وائلڈ لائف سینکچری یعنی جنگلی حیات کی پناہ گاہ کو دیکھنے لگی اور پھر میں نے راجسمند جھیل کے اطراف کا چکر لگایا. ایک قریبی گاؤں، خیلواڑا، مجھے گاؤں کی سیاحت کے لئے مثالی نظر آیا جہاں سیاح میواڑ کے طرز زندگی کا اچھا تجربہ کرسکتے ہیں۔ راجستھان کا میرا یہ باب امید کے ساتھ شروع ہوا کیونکہ میں نے دیکھا کہ یہ ریاست اپنے *بیمارو* ٹیگ کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گیا ہے۔
آج راجسمند کو ایک نیا ٹیگ ملا ہے. یہ عالمی وحشت کی تاریخ میں اتنی پستی میں گر گیا ہے جہاں ایک شخص کو مار کر زندہ جلا دیا جاتا ہے صرف اس جرم میں کہ وہ مسلمان تھا۔
افرازول خان مغربی بنگال کے مالدا ضلع کا ایک تارک وطن مزدور تھا جو پچھلی تین دہائیوں سے راجستھان میں موسمی کاموں میں بر سر روزگار تھا۔ جس شخص نے اس کو بے رحمی سے کاٹ کر جلا دیا وہ شمبھولال ریگر تھا جو اودی پور رینج کے آئی جی آنند شریواستو کے بیان کے مطابق سنگ مرمر کا ایک کامیاب تاجر ہے۔ ابتدائی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ وہ ویڈیو جو ابھی تک دنیا بھر میں دیکھا جارہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ شمبھولال اپنی موٹر سائیکل کے پیچھے بٹھا کر اسے کام بتانے لے جارہا تھا۔ افرازول الاسلام اپنے ساتھ جو اوزار لئے ہوئے تھا اس میں ایک کلہاڑی بھی تھی جو کچھ ثانیے میں ایک مہلک ہتھیار بن گئی اور اسی کے ذریعہ کاٹ کر اسے مار ڈالا گیا اور پھر اسکے جسم کو زندہ جلا دیا گیا۔
یہ واقعہ کیمرے میں قید کر لیا گیا پھر الفاظ ریکارڈ کئے گئے۔ قتل کے بعد جو ویڈیو بنائی گئی اس میں قاتل چلا چلا کر کہہ رہا ہے: لو جہاد، بابری مسجد، ہندو لڑکیاں، پدماوتی۔ وہ ان تمام لوگوں سے انتقام لینا چاہتا ہے جنہوں نے اس کی زمین کو پراگندہ کر رکھا ہے۔ یہ شمبھولال ایک 48 سالہ تارک وطن مزدور کو قتل کرنے کے بعد اسے جلا کر انصاف قائم کرے گا جو پوری قوم کے لئے ایک درس عبرت ہوگا۔ افرازول اپنے لوگوں کے گناہوں کی قیمت ادا کرے گا. یہ نفرت انگیز عمل، جسے دیکھنے سے بھی لوگ گھبراتے ہیں ریگر کا چودہ سالہ بھتیجہ اس واقعہ کا صرف عینی شاہد ہی نہیں بلکہ پورے واقعے کی فلم بناتا ہے اور دنیا کے لئے اپ لوڈ بھی کرتا ہے۔
کالج میں میں نے ڈبلیو بی ایٹس W B Yeats کی ایک نظم پڑھی تھی جسکا نام ہے (Sailing to Byzantium) جس کا مطلع کل سے ہی مجھے ستا رہا ہے۔ “یہاں پہ بوڑھوں کے لئے کوئی ملک نہیں ہے" ایٹس نے کسی محفوظ زمین کے لئے نکلنے سے پہلے لکھا تھا. میں خود کو اسی پوزیشن میں لاکر کہتی ہوں کہ یہاں مسلمانوں کے لئے کوئی ملک نہیں ہے. پھر بھی اگرچہ بہت سے راجسمند ہیں پر کوئی بازنطین نہیں ہے.
یہاں افرازول کی بیوی گل بہار کے لئے کوئی ملک ہے اور نہ ہی اسکی بیٹیوں جوشن آرا، ریجینا اور حبیبہ کے لئے. سچ کہوں تو یہاں مالدا کے 200 سے زائد تارکین وطن مزدوروں کے لئے کوئی ملک نہیں ہے جو یہاں مزدوری کرتے ہیں۔ قاتلوں کی سراہنا کرنے والے پیغامات گشت کر رہے ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ "لو جہادیو ہوشیار، شمبھولال جاگ اٹھا ہے، جے شری رام".
جس دن افرازول کے قتل کی رپورٹنگ ہوئی تھی، میڈیا مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جرائم کی رپورٹوں سے بھرا ہوا تھا. وڈوڈرا کارپوریٹر اور دابھوئی اسیمبلی سے بی جے پی امیدوار، شیلش مہتا کے بارے میں رپورٹ ہے کہ وہ ڈابھوئی سے ڈاڑھی اور ٹوپی والوں کی آبادی کو کم کرنا ضروری سمجھتا ہے کیونکہ ڈابھوئی میں دبئی کی آبادی نہیں ہونی چاہئیے۔ اس انتخابی مہم کی تقریر میں کیا پیش کیا جا رہا ہے؟ افرازول جیسوں کو قتل کرنے کے اپنے مشن کو جاری رکھنے کے لئے شمبھولالوں کو سرکاری منظوری مل رہی ہے۔ مالدا کے سیدپور کے خوفزدہ خاندان فون کر کے اپنے کمانے والوں کو راجسمند کی قتل گاہ چھوڑنے پر زور ڈال رہے ہیں۔
مسلمانوں سے نفرت اور مسلمانوں کے قتل کے واقعات تقریبا روزانہ پیش آ رہے ہیں۔ نیتا لوگ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ نقد رقوم کی خیرات بھی دیتے ہیں لیکن غنڈوں کو کھلے عام لائسنس دے کر ڈاڑھی ٹوپی والوں کو ٹارگیٹ کرنے کا موقعہ فراہم کرتے ہیں اور پولیس عام طور پر طاقتوروں کا ہی ساتھ دیتی ہے۔
باہمت مرد و عورت مظاہرے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں، مزدور کسان شکتی سنگٹھن، دلت سوشڑ مکتی منچ اور 30 دوسری راجستھانی تنظیمیں اپنے غصے کا اظہار کرنے کے لئے آگے آئی ہیں۔ دہلی اور دیگر ریاستوں کے سرگرم افراد نعرہ لگا رہے ہیں کہ مسلمانوں کی زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے۔
یہ المیہ بھی انتخابی نتائج کی کوکوفونی یعنی شور وغوغے میں عوام کے ذہنوں سے محو ہو جائے گا۔ پولیس اپنی پرانی روش پہ لوٹ جائے گی اور انہیں مجرموں کے ہتھے چڑھے کسی دوسری ڈاڑھی ٹوپی والے واقعہ سے جڑ جائے گی۔ کچھ سرگرم افراد، صحافی اور وکیل اس مسئلے کو زندہ رکھنے کے لئے جدوجہد کریں گے. لیکن ملک کا تانا بانا جو 1992 میں بابری مسجد کے ڈھانے کے ساتھ ہی بکھرنا شروع ہو گیا تھا اب پچیس سال بعد تار تار ہوچکا ہے۔ ایک شریک جرم ریاست یہ سب نظر انداز کرتی ہے اور آتشیں بیان بازی قانونی درجہ حاصل کرلیتی ہے۔
نفرت کے بیوپاریوں سے سوال ہے کہ: ہم مسلمانوں کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ ڈاڑھی ٹوپی کی یہ عظیم آبادی؟ یوں تو ہم سب کو قتل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ہمیں جلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہماری نسل کشی کی جاسکتی ہے۔ لیکن ہمیں مجبور کرکے پیٹا جاسکتا ہے لہذا نفرت پہ مبنی جرائم کی کھلی آزادی ہے۔ سارے شمبھولال جانتے ہیں کہ وہ رہا ہوجائیں گے، جنہوں نے مخالفین کے سر کاٹنے کی قیمتیں لگائی ہیں انکو اعزاز ملتا ہے، جلادوں کو ہار پہنائے جاتے ہیں اور قاتلوں کو قتل کرنے کا مستقل لائسنس دیا جاتا ہے۔
یہ تحریر لکھتے ہوئے میں راجمسند کے اپنے دورے کے بارے میں سوچتی ہوں اور میرا خواب سیاحتی سرکٹ کا حصہ بنتا ہے. راجسمند کے حیرت انگیز مقامات پر سیاحت کے بعد شام کے وقت میں ضلعے کے آفیسروں سے بات چیت کے بارے میں سوچتی ہوں۔
راجستھان کے لئے میں نے اپنے کتاب میں علامہ اقبال کے الفاظ میں ایک آرزو لکھی تھی:
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
آج 2017 میں یہ سب باتیں ایک سراب سی دکھائی دیتی ہیں جب مالدا کے کفن میں افرازول خان کی ہڈیاں جمع کی جاتی ہیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ راجسمند سے نفرت کا تحفہ آیا ہے۔
آج مسلمان اور وہ تمام افراد جو ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں انہیں فیض احمد فیض کو یاد کرنے کی ضرورت ہے:
یا خوف سے در گزریں یا جاں سے گزر جائیں
مرنا ہے کہ جینا ہے اک بات ٹھہر جائے !

بشکریہ 'انڈین ایکسپریس' کالم - No country for Afrazul

No country for Afrazul
Today Rajsamand is no faraway place. And the Shambhulals know they can get away with murder.
Article: Syeda Hameed
Urdu Translation: Riyazuddin Mubarak

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں