طلاق ثلاثہ پر امتناع کے بل کو مرکزی کابینہ کی منظوری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-12-16

طلاق ثلاثہ پر امتناع کے بل کو مرکزی کابینہ کی منظوری

طلاق ثلاثہ پر امتناع کے بل کو مرکزی کابینہ کی منظوری
نئی دہلی
پی ٹی آئی
حکومت نے آج ایک مسودہ قانون کو منظوری دے دی جس کی رو سے وقت واحد میں تین طلاق دینا غیر قانونی قرار پائے گا اور شوہر کو تین سال کی جیل ہوگی۔ مسلم ویمن پروٹیکشن آف رائٹس آن میریج بل کے مسودہ پر مرکزی کابینہ نے غور کیا اور اسے منظوری دے دی ۔ مسودہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی سربراہی میں بین وزارتی گروپ نے تیار کیا تھا ۔ گروپ میں وزیر خارجہ سشما سوراج، وزیر فینانس ارون جیٹلی ، وزیر قانون روی شنکر پرساد اور ان کے جونیر پی پی چودھری شامل تھے۔ مجوزہ قانون ایک ہی نشست میں تین طلاق یا طلاق بدعت پر لاگو ہوگا ۔ متاثرہ خاتون کو اختیار ہوگا کہ وہ مجسٹریٹ سے رجوع ہو اور اپنے لئے اور اپنے نابالغ بچوں کے لئے گزارہ الاؤنس طلب کرے ۔ یو این آئی کے بموجب مرکزی کابینہ نے جمعہ کے دن ایک بل کو منظوری دے دی جس کے تحت مسلمانوں میں طلاق ثلاثۃ کا متنازعہ رواج ختم ہوجائے گا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر صدارت کابینی اجلاس میں بل کو منظوری دی گئی۔ توقع ہے کہ اب اسے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں پیش کیاجائے گا جو جمعہ سے شروع ہوا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اگست میں طلاق ثلاثہ وقت واحد میں کے رواج کو ممنوع قرار دیا تھا ۔ اس نے اسے غیر اسلامی اور غیر دستوری بتایا تھا۔ آئی اے این ایس کے بموجب خاتون کارکنوںنے جمعہ دن تمام سیاسی جماعتوں سے مد د کی درخواست کی تاکہ طلاق ثلاثہ بل پارلیمنٹ میں قانون بن سکے ۔ خاتون کارکنوں کا کہنا ہے کہ زبانی طلاق ثلاثہ کو ممنوع قرا ر دینے کا بل پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں قانون بن جائے گا تاکہ متاثرین کو انصاف ملے ۔ کارکن ذکیہ ثمن نے دعوی کیا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم فرقہ، مطلقہ خواتین کا مناسب خیال نہیں رکھ رہا ہے ۔ ایسی خواتین کو قانون کے ذریعہ انصاف ملنا چاہئے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ مسلم برادری اور بورڈ کی کارکردگی بہتر ہوگی تو طلاق ثلاثہ کی شکار خواتین ، حقوق نسواں کے لئے سرگرم تنظیموں سے کیوں رجوع ہوتیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا دستوری اور قانونی حق نہیں چھوڑیں گے ۔ ہم سبھی ایک جمہوری ملک کے شہری ہیں اور اکیس ویں صدی میں جی رہے ہیں ۔ ہم تعلیم یافتہ اور با اختیار ہیں۔ہم ملک کے قانون کے مطابق انصاف چاہتے ہیں ۔ ذکیہ ثمن نے کہا کہ وہ کانگریس قائد راہول گاندھی اور دیگر اپوزیشن قائدین بشمول چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی، سابق چیف منسٹر یوپی اکھلیش یادو اورسی پی آئی ایم کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری کو لکھ چکی ہیں کہ پارلیمنٹ میں بل کی تائید کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کانگریس یا کسی اور سیاسی جماعت کا معاملہ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ سبھی سیاسی جماعتوں ان کے نمائندوں اور ملک کی خواتین کی ذمہ داری ہے۔ خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم ایک اور کارکن حنا زبیر نے کہا کہ قرآن میں ایک ہی نشست میں طلاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے لہٰذا یہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے لئے وقار کا معاملہ نہیں بننا چاہئے کیونکہ بورڈ اس معاملہ میں ناکام ہوچکا ہیا ور اس پر کافی سیاست ہوئی ہے ۔ یو این آئی کے بموجب بل کا خیر مقدم کرتے ہوئے صدر نشین آل انڈیا مسل ویمنس پرسنل لا بورڈ( اے آئی ایم ڈبلیو پی ایل بی) شائستہ عنبر نے مطالبہ کیا کہ مسلم شادی کو دستور ہند کی دفعہ14کی بنیاد پر کوڈیفائی کرنا چاہئے۔ مسلم خواتین کے مفادات کے تحفظ کے لئے انہوں نے نکاح نامہ کو بھی رجسٹر کرانے کی تجویز پیش کی ۔ اسلامی امور کی ماہر نائش حسن نے کہا کہ طلاق ثلاثہ بل، مسلم خواتین کی طویل جدو جہد کا نتیجہ ہے ۔ مسلم خواتین نے سماجی نابرابری اور نا انصافی کے خلاف طویل جدو جہد کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سماجی انصاف کی بنیاد پر کسی بھی قانون کا خیر مقدم کریں گے ۔ انہوں ںے مسلم پرسنل لا کو کوڈیفائی کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قائد رومانہ صدیقی نے مجوزہ بل کا خیر مقدم کیا ۔
Cabinet clears bill on triple talaq making it a criminal offence

شریعت میں راست مداخلت : مسلم پرسنل لا بورڈ
نئی دہلی
آئی اے این ایس
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے آج طلاق ثلاثہ بل کو خلاف شریعت قرار دیا اور مرکز سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسا کوئیق انون بنانے سے قبل مسلم تنظیموں سے صلاح و مشورہ کرے۔ مجوزہ قانون کی مخالفت کرتے ہوئے بورڈ کے رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا جہاں تک مطلقہ خواتین کی باز آباد کاری کا سوال ہے ، مسلم برادری یہ کام کررہی ہے لہٰذا ہم بل کو ہمارے فرقہ کے مذہبی معاملات میں راست مداخلت سمجھتے ہیں ۔ یہ ہماری مذہبی آزادی پر حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلاق ثلاثۃ کے نام پر خواتین کو اذیت نہیں دی جارہی ہے ۔ مسلم خواتین کہہ چکی ہیں کہ وہ مسلم فرقہ کے پرسنل لاء میں تبدیلی نہیں چاہتیں ۔ اگر کچھ لوگ بے جا استعمال کررہے ہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ آپ اسے پوری طرح ختم کردیں۔ طلاق ثلاثہ ہماری شریعت کا حصہ ہے ۔ حکومت کو قانون سازی سے قبل کم از کم مسلم تنظیموں سے مشورہ کرلینا چاہئے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں