امن اور ہم آہنگی کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں - نائب صدر وینکیا نائیڈو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-11-13

امن اور ہم آہنگی کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں - نائب صدر وینکیا نائیڈو

امن اور ہم آہنگی کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں: وینکیا نائیڈو
’اہنسا وشوا بھارتی‘ کی یوم تاسیس تقریب سے نائب صدر کا خطاب
نئی دہلی
یو این آئی
نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو نے معاشرے میں امن اور ہم آہنگی قائم کرنے کے لئے باہمی مذاکرات اور عدم تشدد پر زور دیتے ہوئے آج کہا کہ ان اقدار کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ نائیڈو نے یہاں اہنسا وشوا بھارتی کے12ویں یوم تاسیس کے موقع پر دارالحکومت کے وگیان بھون میں منعقدہ ایک تقریب مین یہ اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ یوم عدم تشدد کا اہتمام اسی لئے اتنا اہم ہے کہ عدم تشدد کے فقدان سے معاشرے میں امن اور ہم آہنگی نہیں ہے۔ ترقی کے لئے معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کا ماحول ضروری ہے ۔ اس موقع پر اہنسا وشو بھارتی کے بانی ڈاکٹر لوکیش منی، ان ڈیا ٹی وی کے سربراہ رجت شرما اور سینئر سٹیزن کیسری کلب کی چیئر پرسن کرن چوپڑا بھی موجو د تھے۔ انہوں نے کہا کہ عدم تشدد کا دن اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ تشدد سے کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ہے ۔ تشدد سے تشدد بڑھتا ہے ۔ ہر مسئلہ کو بات چیت، مذاکرات اور عدم تشدد کے نظریے سے حل کیاجاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پچھلے دنوں اعلان کیا ہے کہ کشمیر میں امن و شانتی کے لئے بات چیت کا وسیلہ اختیار کیاجائے گا۔ وینکیا نائیڈو نے کہا کہ ملک میں مہا ویر اور گوتم بودھ جیسے عظیم ہستیوں نے عدم تشدد پر بہت زور دیا ہے ۔ گاندھی جی نے ہندوستان کو عدم تشدد کے ہتھیار سے ہی آزاد کرایا تھاعدم تشدد کا مطلب بزدلی نہیں ہے ۔ عدم تشدد ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ایک صحت مند معاشرہ پیدا کیاجاسکتا ہے۔ اس راستے سے ہی عالمی امن او ر فلاح و بہبود ممکن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی معاشرہ کثیر ثقافتی ہے ۔ کثرت میں وحدت اس کی بنیادی خصوصیت ہے ۔ تمام مذاہب کے ساتھ ہم آہنگی کا بنیادی عنصر ہے ۔ یہیں سے عدم تشدد امن اور ہم آہنگی کا آغاز ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب ترقی چاہتے ہیں ، استحکام چاہتے ہیں ۔ سماجی زندگی میں امن، رواداری، محبت ، عدم تشدد اور منصفانہ ترقی کے حق میں ہیں ۔ ترقی اور امن کے درمیان گہرا رشتہ ہے ۔ مذہبی پیشوا ، سیاستداں اور معاشرے کے مختلف شعبوں کے نمائندے جب ایک اسٹیج سے ہی عدم تشدد ، امن و شانتی اور ہم آہنگی کا پیغام دیں گے تو یقینی طور پر اس کا اثر پڑے گا ۔ نائب صدر نے کہا کہ آچاریہ ڈاکٹر لوکیش منی نے گزشتہ بارہ سالوں میں انسانی اقدار کے فروغ کے لئے دنیا بھر میں اہم کوششیں کی ہیں۔ لہذا حکومت نے انہیں2010کے قومی سماجی ہم آہنگی ایوارڈ سے نوازا ہے ۔
No development without peace and harmony - Vice President Venkaiah Naidu

کشمیر پر خصوصی نمائندہ کے ایجنڈے کی وضاحت ضروری: ڈاکٹر فاروق عبداللہ
سری نگر
پی ٹی آئی
جموں و کشمیر کے سینئر سیاست داں فارو ق عبداللہ نے آج کہا کہ مرکز کے خصوصی نمائندے برائے کشمیر کی کوششیں اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہیں جب ونیشور شرما اپنی حتمی رپورٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بحث کے لئے پیش کریں۔ جموں و کشمیر کی اصل اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر و سابق چیف منسٹر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے زور دے کر کہا کہ مرکز اس بات کی وضاحت کرے کہ کن مقاصد کی تکمیل کے لئے دنیشور شرما کو خصوصی نمائندہ کی حیثیت سے تقرر کیا گیا ہے ۔ دنیشور شرما کی جانب سے بات چیت شروع کرنے سے قبل ہی حکمراں طبقہ کی جانب سے مختلف بیان جاری کئے گئے ہیں جس سے ان کی کوششوں کی حیثیت صفر ہوگئی ہ یں۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ وہ کبھی بھی بات چیت کے مخالف نہیں رہے ہیں لیکن واضح صورتحال نہ ہونے کے باعث مرکز کے اقدام سے دھوکہ دہی احساس پایاجاتا ہے ۔ سابق چیف منسٹر نے کہا کہ دنیشور شرما کے وادی کشمیر کے دورہ سے قبل ہی مختلف و متضاد بیانات جاری کئے گئے ۔ جس میں مرکزی وزیر برائے دفتر وزیر اعظم جتیندر سنگھ نے کہا کہ دنیشور شرما مصالحت کار نہیں ہیں۔ رکن لوک سبھا ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پی ٹی آئی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دنیشور شرما کے مقاصد وادی کشمیر میں غیر واضح ہیں۔ اس لئے ہم الجھن کا شکار ہیں، کہ شرما کا ایجنڈا کیا ہے، اور کیا کرنے آئے ہیں۔ اس سوال پر کہ آپ دنیشور شرما سے ملاقات کیوں نہیں کرتے ، جو چار روزہ دورہ پر گزشتہ ہفتہ کشمیر آئے ہوئے ہیں اسپر ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ ان سے ملاقات کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک مرکزی حکومت یہ واضح نہیں کرتی کہ آیا شرما کو کچھ اختیارات دئیے گئے ہیں اور جو کچھ بھی وہ حتمی طور پر رپورٹ پیش کریں گے اسے پارلیمنٹ میں پیش کیاجائے گا۔ یہی بات ہے جس آگے بڑھائی جاسکتی ہے ۔ فاروق عبداللہ نے شرما سے قبل کئے گئے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماضی سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کئی اقدامات سنجیدگی سے نہیں کئے گئے تھے ۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آیا کوئی دلیپ پڈکونڈ کر رادھا کمار اور ایم ایم انصاری اور ان کی ٹیموں کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ پر اب کوئی بات کرتا ہے ۔ کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت نے سال2010میں سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ جس نے2012ء میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں ریاست کے لئے با معنی خود مختاری کی تائید کی گئی تھی ۔ جس وقت یہ رپورٹ پیش کی گئی تھی اس وقت سے اب تک یہ ر پورٹ دن کی روشنی مین نظر نہیں آئی۔ یہ رپورٹ وزارت داخلہ میں گرد کی نظر ہوگئی ۔ فاروق عبداللہ نے کہا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کی رپورٹس کو پارلیمنٹ میں پیش کیاجائے۔ داکٹر عبداللہ کے نزدیک دنیشور شرما کے مشن کی کامیابی غیر یقینی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں شرما کی اس وقت تک کامیابی نظر نہیں آتی جب تک مرکزی حکومت واضح ذہن کے ساتھ انہیں اختیارات تفویض کرے ۔ ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی کسی بھی کوشش میں پاکستان کو بھی شامل کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ جب میں مسئلہ کشمیر کہتا ہوں تو اس میں سارا کشمیر ، بشمول جموں اور لداخ شامل ہیں۔ یہ نہ صرف ترقی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیاسی مسئلہ بھی ہے اور یہ سیاسی مسئلہ پاکستان کی شمولیت کا متقاضی ہے کیونکہ بطور ریاست جموں و کشمیر اس میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ جب تک پاکستان کو اس بات چیت میں شامل نہیں کیا جاتا جو کچھ بھی ہم دہلی کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں وہ بے وقعت ہوگا۔دونوں ممالک کے درمیان کشمکش کے باعث ہی ریاست میں اموات اور تباہی ہورہی ہے ۔ اسے روکنے کی ضرورت ہے ۔ اس مسئلہ کے بہتر حل کے لئے ریاست کو خود مختاری دی جانی چاہئے جس کی دستور ہند صراحت کی گئی ہے ۔ جہاں تک خود مختاری کا تعلق ہے ، اس سلسلہ میں کئی مسائل بھی ہیں۔

ہائی کورٹ کے ججوں کے لئے چالیس ناموں پر سپریم کورٹ کے کالجیم کا غور
نئی دہلی
پی ٹی آئی
سپریم کورٹ کا کالجیم9عدالتوں کے لئے40نئے ججوں کے تقررات کا جائزہ لے گا۔ ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ اس سال دستوری عدالتوں کے لئے اگرچہ106ججوں کا تقرر کیا گیا ہے تاہم وزارت قانون نے نو ہائی کورٹس کے لئے چالیس ججوں کا تقرر کرنے کی سفارش سپریم کورٹ کے کالجیم کو روانہ کی ہے ۔ جن ریاستوں کے ہائی کورٹس کے لئے ججوں کے تقرر کی سفارش کی گئی ہے ان میں کرناٹک، جھار کھنڈ، گجرات، مدراس اور تریپورہ شامل ہیں۔ وزارت قانون کے ڈاٹا کے م طابق یکم اکتوبر کو24عدالتوں میں ججوں کی تعداد1079تھی جب کہ413عہدے مخلوعہ تھے ۔ ججوں کے تقررات کے سلسلہ میں متعین طریقہ کار کے مطابق ہائی کورٹ کا کالجیم ایک نام کی سفارش سپریم کورٹ کالجیم کو روانہ کرتا ہے یہ سفارش پہلے وزارت قانون کو بھیجی جاتی ہے جو امید وار کے ریکارڈ پر مشمل آئی بی کی رپورٹ کے ساتھ یہ سفارش کو سپریم کورٹ کے کالجیم کے پاس روانہ کردی ہے تاکہ کالجیم قطعی فیصلہ کرے ۔ کالجیم نے حال ہی میں کہا تھا کہ عدلیہ کے لئے کون سے جج بہتر ہوں گے ، اس کا فیصلہ انٹلی جنس بیورو نہیں بلکہ عدلیہ زیادہ بہتر انداز میں کرسکتی ہے ۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ججوں کے تقرر کے سلسلہ میں کہا ہے کہ2016میں126 ججوں کا تقرر کیا گیا جو1989کے بعد سے ایک ریکارڈ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سالانہ اوسط82ججوں کا تقرر کیا گیا۔2017ء میں بھی تا حال106ججوں کا تقر ر کیاجاچکا ہے اور ہم31دسمبر تک126کے عدد سے آگے بڑھ جائیں گے ۔ پرساد نے گزشتہ جمعرات کو ایک تقریب میں یہ بات کہی تھی جس میں چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا بھی موجود تھے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں