حجاب امتیاز علی - حیدرآباد دکن کی اولین فکشن نگار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-10-09

حجاب امتیاز علی - حیدرآباد دکن کی اولین فکشن نگار

hijab imtiaz ali
اردو فکشن میں حجاب امتیاز علی کو وہی اہمیت حاصل تھی، جو فوراً بعد کے دور میں عصمت چغتائی کو ملی اور یہ دونوں خواتین صاحبِ طرز اور منفرد وافسانہ نگار تھیں۔ گو دونوں کے یہاں زندگی کے رویہ ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد تھے، ایک کے یہاں موتیا کی ٹہنی پر گانے والی کوئل، کاؤنٹ لوث اور مادام زبیدہ تھیں، دوسری کے یہاں درانتی اور ہتھوڑا۔ ہندوستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ مرتب کرنے والوں کے لیے یہ دونوں خواتین دو اہم ادوار کی ترجمانی اور نمائندگی کرتی ہیں اور دونوں کے مطالعہ کے بغیر اردو فکشن کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی___ قرۃ العین حیدر
اردو زبان و ادب کا مرکزی شہرِحیدرآباد کے اہل قلم ہر دور میں اردو کی ترقی و تریج میں ہمیشہ بہترین خدمات انجام دیتے آئیں ہیں۔ عہد آصفی سے قبل عوام قدیم روایات کے پابند اور قدامت پسندتھیں۔ بالخصوص اس شہر کی خواتین کے لیے سخت گیر تھا۔ بیشتر گھرانے کی خواتین گھرکی چہار دیواری سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔ یہاں تک کہ کئی خواتین بیماری میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہو جاتی تھیں۔کیوں کہ طبیب سے رجوع ہونا بھی معیوب سمجھتی تھیں۔ ایسے روایتی پردہ کے ماحول سے نکل کر علوم و فنون حاصل کرنے مشکل عمل تھا۔ جس سے ترقی کرنے میں محروم تھی۔
اس عہد میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام گھر پرہی کیا کرتے تھے۔ایسے وقت میں نصیرالدین ہاشمی اپنی کتاب "خواتین عہد عثمانی " میں "اسباب بیداری "کے عنوان کے تحت لکھا۔اس قبل محب حسین نے تقریروں کے ذریعہ تعلیمِ نسواں کو فروغ دیتے رہیں۔علاوہ ازین ممتاز یار الدولہ ،ہمایوں مرزا اور خود اس وقت کے بادشاہ نظام سابع بھی خواتین کی ترقی و تریج میں معاون بنے۔ بالخصوص قابلِ ذکر فہرست کچھ اس طرح ہے صالحہ عابد حسین، رضیہ، سجاد، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر اور ان کی دیگر معاصر فکشن نگارخواتین کی عظمتِ قلم اور فکری بصیرتیں بلندیاں چھورہی تھیں۔ ان کے نقشِ قدم پر چلنے والی متعدد خواتین افسانہ نویس، مثلاً اآمنہ ابو الحسن، عفت موہانی، جمیلہ ہاشمی، واجدہ تبسم، رضیہ بٹ، رفیعہ منظور الامین وغیرہ کی تحریریں نئی سوچ اور سماج کی تعمیر کررہی تھیں۔ اس ماحول میں افسانوی دنیا کا ایک معتبر نام حجاب امتیاز علی بھی شہرتوں کی چوٹیوں پر تھا۔
زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ خواتین نے نہ صرف خود تعلیم حاصل کی بلکہ سماج میں روشن خیالی اور حصول علم کے رجحان کی تربیت کی۔ تمام موضوعات پر اپنے رشحات قلم کے ذریعہ بین الاقوامی سطح شہرت حاصل کی۔ شاعری ہویا افسانہ نگاری ناول نگاری ہویاتنقیدوتدریس ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا ہوہا منوایا۔ آزادی کے بعد حیدرآباد کی خاتون نثرنگار نے ناول نگاری ،افسانہ نگاری ،ادبی اور مزاحیہ مضامین نگاری میں اپنی تخلیقات کے ذریعہ نام پیدا کیا۔ موجودہ دور کی خواتین نے تقریباً تمام شعبوں میں مرد کے شانہ بہ شانہ ہیں۔بعض معاملات میں تو آگے ہیں۔
بیسویں صدی میں اردو افسانہ نے تیزی سے ترقی کی۔یہاں تک کہ دیگر نثر ی اصناف پر حاوی ہو گیا۔ اس عہد میں پریم چند نے 'پریم پچیسی' اور' پریم بتیسی' لکھ کر اول درجہ حاصل کر لیا۔اسی وقت اردو افسانہ نگاری کے میدان میں خواتین نے اس صنف میں اپنے قلم کے جادو سے افسانہ نگاری میں اپنے فن کا ہوہا منوایا۔اس سلسلے کی پہلی خاتون حجاب امتیاز علی ہے۔جو ایک جدید تعلیم یافتہ اور روشن خیال تھیں۔ ان کیافسانوی مجموعے'وہ بہاریں یہ خزائیں'،'میری ناتمام محبت'،'احتیاط عشق'،'ممی خانہ'،تحفے اور شگوفے' اور'صنوبر کے سائے اور دوسرے رومان' ہیں۔
ناولٹ میں میری نا تمام محبت اور دوسرے رومانی افسانے، لاش اور ہیبت ناک افسانے، خلوت کی انجمن، نغمات موت، ظالم محبت، وہ بہاریں یہ خزائیں، کالی حویلی اور تحفے کے نام شامل تھے۔ بالخصوص ان کے نیم رومانی اور نیم حقیقی افسانے کافی مقبول ہوئے۔ ناولوں میں اندھیرا خواب،ظالم محبت،وہ بہاریں یہ خزائیں، سیاح عورت، افسانوی مجموعے میری ناتمام محبت، ممی خانہ، تحفے اور شگوفے قابل ذکر ہیں۔ ڈراموں میں چچا بھتیجیاں، دعوت نامہ، پنجرہ ، وہ طریقہ تو بتا دو تمہیں چاہیں کیوں کر کی وجہ سے مشہور ہوئیں۔ بالخصوص ان کا آخری ناول' پاگل خانہ'کو آدم جی ادبی انعام سے نوازا گیا۔ اور پاکستان حکومت کی جانب سے آپ کی گرانقدر ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے ریڈیو سے نشر ہوئے۔ ان کے ڈراموں میں ہماری زندگی کے جیتے جاگتے کردار متحرک ہیں۔ آپ بیتیوں میں'تصویرِ بتاں'،'ڈائری' اور'لیل و نہار' ہے۔اور تراجم بھی کیے ہیں۔ اس لحاظ سے صنوبر کے سائے، مرد اور عورت، کونٹ الیاس کی موت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں مرد اور عورت کے جذبات کوبڑی ہنر مندی سے پیش کر کے ایک لاجواب فکشن نگار کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام رقم کروایا۔
اردو کی نامور افسانہ نگار حجاب امتیاز علی 4 نومبر 1908کو حیدراآباد ایک مقتدر اور مہذب گھرانے میں پیدا ہوئی۔ والد سید محمد اسماعیل نظام دکن کے فرسٹ سیکریٹری تھے۔ان دنوں میں جب حیدرآباد شہر میں پیلگ(طاعون) پھیلا تو انہوں اپنی بیگم اور دونوں لڑکیوں کو مدراس بھیج دیا۔وہیں حجاج کی تعلیم گھر پر ہوئی۔کیوں کہ حجاج کی ماں عباسی بیگم اپنے دور کی نامور اہل قلم خاتون تھیں۔حجاب امتیاز علی نے عربی، اردو اور موسیقی کی تعلیم وہیں حاصل کی۔اس ضمن میں ڈاکٹر عبدل العرفان نے اپنی تصنیف'انڈیا کی مشہور خواتین' میں ' بیگم حجاج امتیاز علی ( پہلی مسلم پائلٹ خاتون و ادیبہ) کے عنوان میں لکھا ہے۔
" حجاج نے 14۔13 سال کی عمر سے لکھنے کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ' میری نا تمام محبت' تھا۔ یہ افسانہ شاہکار کی حیثیت سے مشہور ہوا اور قارئین کو کافی متاثر کیا۔ یہ افسانہ 1933ء میں' نیرنگ خیال' لاہور میں شائع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی تہذیب نسواں میں بھی مضامین وغیرہ شائع ہونے لگے تھے۔ تہذیب نسواں کی ادارت مولانا ممتاز علی اورا ن کی بیگم محمدی بیگم کر رہے تھے۔ ان کی وفات کے بعد اس کی ادارت ان کے فرزند ارجمند امتیاز علی تاج کے ذمہ آئی۔ اس کا انتساب حجاج اسماعیل کے نام تھا ۔ 1934ء میں امتیاز علی تاج سے شادی ہوئی۔ ہم سفر بننے کے بعد1936ء میں فلائنگ کلب جوائن کرلیا اور جون 1936ء کو بہتر پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا۔اس طرح وہ ہندوستان کی پہلی پائلٹ خاتون بن گئی۔"(ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان، اندڈیا کی مشہور خواتین،کرسپس انٹرنیشنل۔ یو ایس اے۔،حیدرآباد۔2014۔ص55)
اور مختلف ادبی رسالوں میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ابتدا میں وہ حجاب اسماعیل کے نام سے لکھا کرتی تھیں۔ ان کی تحریریں زیادہ تر تہذیب نسواں میں شائع ہوتی تھیں۔جس کے مدیر امتیاز علی تاج تھے۔ 1929ء میں امتیاز علی تاج نے اپنا مشہور ڈرامہ انار کلی ان کے نام سے معنون کیا۔ 1934ء میں یہ دونوں ادبی شخصیات سجاد حیدر یلدرم کی معرفت رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ نکاح سے قبل حجاب کا نام حجاب اسماعیل تھا۔بعد میں حجاب امتیاز علی مشہور ہوگیا۔اس طرح وہ مستقلاً پاکستانی لا بن گئیں۔ 19 مارچ 1999ء کو ہندو پاک کی نامور فکشن نگار کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کرنے والی یہ ادیبہ رومانوی تحریروں میں اپنا نام درج کرواکر دنیائے فانی سے کوچ کر گئی۔
حجاب امتیاز علی کا ناول' زہرہ بیگم' اور فلسفیانہ مقالات کا مجموعہ' گل صحرا' قابل قدر یادگار ہیں۔ یہی اثرات سے حجاب نے بارہ برس کی عمر میں عشقیہ موضوع پر افسانہ 'میری ناتمام محبت' لکھی۔ یہی عنوان بعد میں ان کے افسانوی مجموعہ کا نام بن گیا۔ کیوں کہ اس کم سن ادیبہ کو والدہ کا قلمی تعاون تھا۔جس کا اعتراف کئی جگہ کیاہے۔ ان کی زندگی ادب کے ساتھ ساتھ ایک عام انسانوں کی طرح تھی۔ اکثر و بیشتر وہ ادبی ہو یا تقریبی محفلوں میں گزار تی تھی۔انھیں ہوا بازی یا کار ڈرائیونگ کرنے علاوہ جانور اور پریندے پالنے کا شوق بھی تھا۔ ان مصروفیات میں بھی ادبی اشتیاق تھا۔ اسی لیے انہوں نے تہذیب نسواں کی ادارتی ذمہ داری نبھائی۔ اس کے علاوہ ازیں انہیں دنیا کی پہلی ہوا باز خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔اس طرح انہیں ہوا بازی کا آغاز انگلینڈ میں کیا اوراکتوبر1936 میں ہوا بازی کا لائسنس حاصل کیا۔اسی سال ناردن لاہور فلائنگ کلب سے ہوا بازی کی سند حاصل کی۔ اور برٹش گورنمنٹ کی وہ پہلی خاتون پائلٹ کہلائیں۔ اسی برس "تہذیب نسواں" میں ان کی ہوا بازی کے متعلق ایک نظم بھی شائع ہوئی ۔حجاب امتیاز علی کے فکر و فن متعلق ڈاکٹر مجیب خاں نے لکھا ہے:
"حجاب بلا کی ذہین تھیں۔ ان کا مطالعہ وسیع، مشاہدہ اور تجربہ بھی بے حد تیز اور گہرا ہے، اس لیے وہ عوامی زندگی کی عکاسی تو کرتی ہیں، مگر انھیں عوامی زندگی سے کوئی خاص واسطہ نہیں ہے۔ اگرچہ انھوں نے بھرپور سماجی زندگی گزاری، مگر ان کے کرداروں میں زندگی کی یہ رمق نظر نہیں آتی۔ ان کے کردار زندگی کے مسئلے کو غور وفکر سے حل کرتے ہیں اور کبھی کبھی جذبات کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔ وہ شرافت اور سنجیدگی کا مجسمہ ہوتے ہیں۔ ان کے کردار ہر افسانہ وناول کے جانے پہچانے ہونے کے باوجود تخیلّی، اعلیٰ اور مہذب سوسائٹی کے ہوتے ہیں اور ان میں غیر معمولی خوبیاں ہوتی ہیں۔"
حجاب امتیاز علی نے اپنی تحریروں سے ادب کو نئی جہت دی۔ ان کے افسانے فنی اور لسانی دونوں اعتبار سے بلند ہوتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں غضب کی دلکشی اور تاثیر ہے۔ ان کے افسانوں میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں، جو ایک کامیاب کہانی کا ر میں ضروری ہیں۔ حجاب کے افسانوں کا پلاٹ اکہرا، چست درست، مربوط اور مضبوط ہے۔ برجستگی کا لطف اور زبان کی چاشنی بھرپور ہے۔ اس کا اعتراف سجاد حیدر یلدرم نے اس طرح کیا ہے ۔ ' حجاب کے تخیل نے ایک نئی دنیا خلق کی ہے اور اس دنیا میں ایک نئی اور نہایت دلکش مخلوق آباد کی ہے۔ یہ دنیا، جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں، اس سے علیحدہ ہے، گو اس سے ملتی جلتی ہے اور جو لوگ اس دنیا میں آباد ہیں، وہ ہم سے مشابہ تو ضرور ہیں، مگر بالکل ہماری طرح نہیں ہیں۔' ان کا خیال درست ہے۔ کیوں کہ ایک مستند ومعتبر قلم کار کے لیے تمثیل نگاری اور معاشرے کی ترجمانی کے لیے کائنات کا نجی مشاہدہ ہو۔ تاکہ سماج کے نشیب وفراز سے پوری آگہی ہو۔اسی سے منظر نگاری کے دل پذیر ودلکش خاکوں کی سچی تصویر بنتی ہے۔
حجاب امتیاز علی کے سفر اور تجربات کی وجہ سے ان کی تحریروں میں حسین کینوس نظر آتا ہے۔ جس سے قاری کو یہ احساس ہو تا ہے کہ وہ اس نظارہ کو بچشم خود دیکھ کر لطف اندوز ہورہا ہے۔ حجاب کی زندگی کا بڑا حصہ سیر وتفریح میں گزرا ہے۔حجاب کی تحریروں میں کردار عاشقانہ ورومانی ہونے کے باوجود اخلاقی وتہذیبی روایات کے باغی نہیں ہوتے۔ اس کے ثبوت میں ان کے ایک ناولٹ'میری نا تمام محبت' کا ایک اقتباس ہوں :
"اب آفتاب غروب ہوگیا تھا۔ باغ کے دریچے سے ہوکر ایک اداس روشنی اندر آرہی تھی، جس کو دیکھ کر میں اکثر اوقات شدتِ رنج سے روپڑتی تھی۔ ایسی اداس روشنیاں دونوں پر اکثر درد ناک اثر کرتی ہیں۔ دسمبر کا درخشاں اور بڑا سا آفتاب سرخ ہوکر دریائے شون کی تلاطم خیز اور گرجنے والی موجوں میں ڈوب رہا تھا، آسمان گہرا سرخ نکل آیا تھا، خنک اور خوشگوار ہوائیں چل رہی تھیں۔"
یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار رومانیت کی دھیمی آنچ میں ابھر کر محبت کے جذبات میں گھل مل جاتے ہیں۔اس کی بہترین مثال ان کے ایک مشہور نال 'پاگل خانہ' میں دیکھی جا سکتی ہے۔' بلا شبہ کائنات بڑی حسین ہے۔ اسی حسن کی بارگاہ میں تو میری ساری عمر پرستش میں گزر رہی ہے۔لیکن ابھی آفتاب ڈوب جائے گا اور کائنات کے سارے رنگ بدل جائیں گے۔'
حجاب امتیاز علی نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں اتنا وسیع اور حسین محل تعمیر کیاجسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اردو کی فکشن نگارو خواتین میں حجاب کا نام صفِ اول میں لیا جاتا ہے۔کیوں کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں دلکش انداز سے لفظوں کا جامہ پہنا یا۔ حجاب کی تمام کہانیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہیں۔جس کی بنا پر وہ نئی نسل کو بھرپور زندگی کا پیغام دینے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ پھر بھی حجاب کے فکشن میں زبان و بیان،اسلوب ، قصہ ، منظر نگاری، پلاٹ بہت معیاری ہوتاہے۔ ان کا یہی وصف ان کے فکر پاروں میں ہے۔ ان کی رومانی تخیل آفرینی کی بنا پر انہیں ا قدر کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اردو ادب کی ترقی و ترویج میں حجاب کی رومانوی فکشن نگاری نے ایسے گل ہائے رنگا رنگ کھلائے ہیں، جو اپنی مہک اور حسن کے لحاظ سے کبھی نہ مرجھائیں گے۔

***
jannisarmoin1[@]gmail.com
موبائل : 09394578313/08328584311
Jan Nisar Moin, Senior Research Scholar,
Department of Women Education, Maulana Azad National Urdu University, Gachibowli, Hyderabad -500032
--
جاں نثار معین

Hijab Imtiaz Ali, Hyderabad's first fiction writer. - Article: Jan Nisar Moin

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں