روہنگیائی مسلمانوں کے حوالے سے چند سوالات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-09-02

روہنگیائی مسلمانوں کے حوالے سے چند سوالات

یوں تو دنیا کے مختلف حصوں اور خطوں میں مسلمانوں کی دنی اور راہیں تاریک ہیں اور آئے دن طرح طرح کے مظالم کی داستانیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن دنیا کے سامنے سب سے زیادہ فلسطین میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و بربریت کو توجہ ملی اور بین الاقوامی سطح کے کئی پلیٹ فارم پر فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں، یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں بھی متعددبار فلسطینیوں کے لئے حقوق و انصاف کی بازگشت سنائی دی۔ مگر نہایت افسوس اور تشویش کی بات یہ ہے کہ برما میں روہنگیائی مسلمانوں پر پے درپے مظالم، خونریزی اور بے گھر کرنے کی وارداتیں کئی برسوں سے سامنے آرہی ہیں مگر روہنگیائی مسلمانوں پر کسی کو ترس آرہا ہے اور نہ ہمدردی ، شرمناک بات یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیائی مسلمانوں کو دربدربھٹکنے پر مجبور ہونا پڑا ہے ، اس کے باوجود اس پر دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی کوئی ن ظر التفات نہیں ہے۔ عالمی سطح پر میڈیا کے لئے بھی یہ خبر بہت اہمیت نہیں رکھتی۔ بڑے پیمانے پر برما میں مسلمانوں کی نسل کشی اور حقوق انسانی کی پامالی پر دنیا بھر میں حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا بھی رویہ افسوسناک ہی رہاہے ۔ سب سے زیادہ شرمناک بات عالم عرب سمیت متعدد مسلم ممالک کی سردمہری ہے جن کے سامنے اسلام کا فلسفہ پوری طرح واضح ہے ، کہ سبھی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔
حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق برما میں خانماں برباد روہنگیائی مسلمانوں کی باز آبادکاری اور ان کو بنیادی سہولت فراہم کرنے کے لئے بین الاقوامی سطح کی امدادی ٹیموں کارویہ بھی مایوس کن ہی رہا۔ رپورٹ کے مطابق دنیابھر میں پناہ گزینوں کے درمیان یو ایس ایڈ سمیت سیکڑوں امدادی تنظیمیں جس بڑے پیمانے پر غذائی اجناس، ہیلتھ سروسیز اور بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے جس طرح کام کررہی ہیں ، اس کا عشر عشیر بھی روہنگیائی مسلمانوں کے پناہ گزیں کیمپوں میں نظر نہیں آتا، جس کا صاف مطلب ہے کہ مذہبی بنیادوں پر ایک عصبیت کی لہر ہے جو تمام سرحدوں کو عبور کرتی ہے۔ اقوام متحدہ اور خبررساں ادارہ اے ایف پی کے مطابق برما کے صرف رخائن علاقہ میں2016تک ایک لاکھ سے بھی زائد افرادبے گھر ہوچکے ہیں ،20000سے زائد لوگوں کی جانیں جاچکی تھیں اور وہاں بودھوں کی جانب سے تشدد کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ، زیادہ تر لوگ وہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں، جو بچے ہیں وہ آئے دن طرح طرح کے ظلم و ستم اور استحصال کا شکار ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے برما کے مغربی حصوں میں روہنگیائی مسلمانوں پر جوروجبر، ان کے مکانات کو نذر آتش کئے جانے اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیے جانے کی تصویری شواہد اورویڈیوز بھی ریلیز کئے مگربرما کی حکومت کا دل اس پر بھی نرم نہیں ہوا اور کھلے عام روہنگیائی مسلمانوں پر جنگجو بودھوں اور سنگ دل سیکوریٹی فورسز کا ظلم جاری ہے ۔ دنیا کے کچھ حصوں میں جب روہنگیائی مسلمانوں کے حق کی آواز بلند ہوئی اور ان پر روا مظالم کے خلاف احتجاج کی باز گشت سنائی دی اور کئی ممالک نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک کمیشن کے قیام پر زور ڈالا، دوسری طرف آنگ سانگ سوچی کوبھی دنیابھر میں روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہے مظالم پر رد عمل، احتجاج و مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا تو برما حکومت نے اقوام متحدہ کی نگرانی والے کمیشن سے انکار کردیا البتہ ایک کمیشن تشکیل دے ڈالا لیکن اس کمیشن کی رپورٹ نے یہ ماننے سے ہی انکار کردیا کہ روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف زیادتی ہے ۔ اس کمیشن نے روہنگیائی مسلمانوں کو ہی جنگجو قرار دے دیا ۔ روہنگیائی مسلمانوں کو خانماں برباد کرنے اور انہیں در بدر بھٹکنے پر مجبور کرنے کے لئے برمی حکومت نے گاؤں گاؤں ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کروائی اور بری افواج نے لوگوں کے گھروں کو نذر آتش کردیا ، جس کی وجہ سے کچھ لوگ جل کر ہلاک ہوگئے تو کچھ فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے اور باقی ماندہ اپنے گھربار، سازوسامان اور زندگی بھر کی کمائی ہوئی پونجی کو چھوڑ کر صرف پہنے ہوئے کپڑوں کے ساتھ وہاں سے بھاگے، اس طرح مختلف علاقوں سے بے گھر ہونے والے مسلمانوں کی غول در غول آبادی مختلف مقامات پر مجتمع ہونے لگی اور پھر وہ لوگ مختلف پناہگ زیں کیمپوں میں آباد ہوگئے ۔ برما سے بے گھر ہونے والے لاکھون افراد بنگلہ دیش، سری لنکا اور ہندوستان میں پناہ گزیں ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو برما کی مختلف شاہراہوں پر ٹینٹوں میں اس امید میں بیٹھے ہیں کہ حالات پرامن ہوں تو وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ برما حکومت کے ظلم و ستم پر روک لگانے یا ظالم بودھوں کا ہاتھ پکڑنے والی کوئی مضبوط طاقت اب تک سامنے کیوں نہیں آئی، آنگ سانگ سوچی حقوق انسانی کی علمبردار بن کر ابھری تھیں ، اور دنیا بھر میں ان کے لئے ریڈ کار پیٹ بچھایا گیا، مگر وہ بھی روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہے مسلسل ظلم و ستم کے خلاف کیوں سامنے نہیں آئیں، برمی افواج کی قہر آلود گولیاں روہنگیائی مسلمانوں پر تو برستی رہیں، مگر نہ تو وہاں کی حکومت پالیسی بدلنے پر آمادہ ہوئی اور نہ ان کے خلاف کسی بڑی عالمی طاقت نے کوئی ٹھوس کارروائی کی ۔ میرا سوال اقوام متحدہ کے لچر رویہ پر بھی ہے اور ساری دنیا میں امن و انصاف کی بالا دستی کے ٹھیکہ دار امریکہ پر بھی ہے، ہندوستان سمیت ان پڑوسی ممالک سے بھی شکایت ہے جنہوں نے روہنگیائی مسلمانوں سے ہمدردی تو کی لیکن ان کی باز آباد کاری اور ان کے حقوق کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بنائی ۔ ان سب سے ہٹ کر میر ا سوال مسلم ممالک سے بھی ہے جن کی سرد مہری اور روہنگیائی مسلمانوں سے بے التفاتی اور ان ے تئیں مجرمانہ غفلت سامنے آتی رہی ہے ، کچھ ممالک، افراد اور مسلم تنظیمیں فلسطینی مسلمانوں کے حق و انصاف کے لئے جدو جہد وہاں خیراتی، سر گرمیاں اور ان کی حمایت پر تو توجہ دیتی رہتی ہیں مگر وہی توجہ میانمار کے مسلمانوں کو حاصل نہیں ہوسکی، میر اسوال ان تنظیموں سے بھی ہے جو دنیا بھر میں پھیلے لاکھوں پناہ گزیں، کیمپوں میں ریلیف و راحت کا کام کرتی ہیں مگر ان کا وہی رویہ اور دادودہش روہنگیائی مسلمانوں کے پناہ گزیں کیمپومیں نظرنہیں آئی۔
بلا شبہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے روہنگیائی مسلمانوں کی حمایت و ہمدردی کے لئے کچھ اقدامات کیے اور کچھ تنظیموں او ر افراد نے بھی دست تعاون بڑحایا، مگر جو توقعات بنگلہ دیش کی حکومت، وہاں کے مسلمانوں اور تنظیموں سے تھیں، اس میں مایوسی ہاتھ لگی اور ہندوستان سے بھی بڑی امیدیں تھیں، مگر یہاں کی حکومت اور فلاحی اداروں نے بھی مایوس کیا، بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جموں و کشمیر سمیت ملک کے مختلف مقامات پر قائم روہنگیائی مسلمانوں کے کیمپوں پر ہی وشوہندو پریشد اور دیگر ہندو تنظیموں نے سوالات کھڑے کردیے، یہاں تک کہ حکومت کو یہ رپورٹ بھی سونپی گئی کہ ان کیمپوں کا استعمال دہشتگرد کرسکتے ہیں ۔ روہنگیائی مسلمانوں کے دکھ درد، ان کی بے سروسامانی اور تاریک مستقبل کے پیش نظر میں برما کے تمام پڑوسی ممالک سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایساما حول بنائیں کہ عالمی سطح کا ایک کمیشن صرف روہنگیائی مسلمانوں کے لئے تشکیل پائے جو انہیں ان کے حقوق کی بازیابی کا خاکہ تیار کرے، ا ن کی دربدری اور محرومی کے خاتمہ کی سبیل پیدا کرے اور پناہ گزیں کیمپوں سے ان کی واپسی ان کے گھروں کو ہو۔ ظاہر ہے اس کے لئے اس خطہ کی سب سے بڑی طاقت ہندوستان کو پیش قدمی کرنی ہوگی اور عالمی پلیٹ فارم پر اس مسئلہ کو پوری طاقت سے اٹھانا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ حق و انصاف کے علمبردار افراداگرروہنگیائی مسلمانوں کے خلاف ظلم و زیادتی پر متحد ہوں گے تو کچھ بعید نہیں کہ انہیں ان کا حق مل سکے، اسی کے ساتھ ساتھ میں بین الاقوامی امدادی تنظیموں سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں پر خصوصی توجہ دیں اور ان کے تئیں رحم و کرم کا خصوصی معاملہ کریں اور مسلم ممالک سے بھی ابھی امیدیں نہیں ٹوٹی نہیں ٹوٹی ہیں، اس لئے انہیں اپنے بھائیوں کی دست گیری کے لئے آگے آنا چاہئے۔( مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے پریسیڈینٹ ہیں)

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی ، جودھ پور کے پریسیڈنٹ ہیں)

Few questions regarding Rohingya Muslims. Article: Prof Akhtar ul Wasey

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں