اذاں اور لاؤڈ اسپیکر - فیس بک مکالمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-09-19

اذاں اور لاؤڈ اسپیکر - فیس بک مکالمہ

islamic-azan
پروفیسر مصطفی علی سروری (اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اینڈ جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی، حیدرآباد) کے قائم کردہ فیس بک گروپ "آپ کی بات آپ کا خیال" کا ایک مکالمہ

مکرم نیاز:
شہر کی مرکزی سڑکوں کے چوراہوں پر قائم مساجد کے میناروں کے پھٹے لاؤڈ-اسپیکروں سے گونجتی بےڈھب و بےسری چیختی چلاتی آوازوں کو "اذاں" کا نام دینے میں مجھے تامل ہے اور رہے گا!

ارشد حسین:
پھر کیا کہیں جناب عالی؟

مکرم نیاز:
اذاں کے نام پر مقدس شور و غوغا!!

اعجاز احمد:
جس اذاں سے قوموں کی تقدیریں بدلنی تھی آج صرف گونجتی اک آواز سی ہوگئی ۔ اعتراض حق بجانب۔

ارشد حسین:
بھائی صاحب، ہمارے میم بھائی لوگ علاقے میں اپنے وجود کا احساس دلوانے کے لئے شائد اس طرح بے ڈھنگا شور مچاتے ہوں۔

ارشد حسین:
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

مصطفیٰ علی سروری:
تو کیا اذان پر پابندی لگادینی چاہیے؟

مکرم نیاز:
صوتی آلودگی پر قابو کیلئے لوگوں کے عقائد کو نشانہ بنانے پر کسی بھی سلیم الطبع کو اعتراض ہوگا۔۔۔
اصل گرفت دراصل آلودگی پھیلانے والے آلات کی پیمائش پر کی جانی چاہیے۔

مصطفیٰ علی سروری:
صوتی آلودگی کی بنیادوں پر اذاں پر پابندی کا مطالبہ کافی عرصہ سے زیر التوا ہے کولکتہ ہائیکورٹ نے عرصہ ہوا پابندی کی سفارش کی تھی۔

ارشد حسین:
مصطفی سروری صاحب، پاپندی اذاں پر نہیں، بے ہنگم شور اور صوتی الودگی پر ہونی چاہئے۔
قرآن کریم میں حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحت نقل کرتے ہوئے ارشاد باری ہے:
"اور اپنی آواز کو پست رکھ، بے شک سب سے زیادہ مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔" (لقمان:91)
قابل فکر پہلو ہے کہ جب تیز اور کرخت آواز میں گفتگو کی اجازت نہیں تو صوتی کثافت پھیلانے کی اجازت اسلام کیسے دے سکتا ہے؟ اسلام کے ماننے والے بھی اسلام کی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں اور ان پہلوؤں پر غور نہیں کرتے۔ ہماری مساجد جنہیں اسلام کی تعلیمات کا مرکز ہونا چاہئے کیونکہ یہ اسلام کا چہرہ ہیں، وہیں سے مائک کے ذریعے کرخت آواز میں اذان، خطبہ اور اعلانات بلند ہوتے ہیں۔ کیا ہمیں کبھی یاد آتا ہے کہ مسجد سے بلند ہونے والی آواز کو اعتدال میں رکھیں؟
اس کائنات کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور یہاں فتنہ وفساد برپاکرنے سے اس نے منع فرمایا ہے۔ اس نے اعتدال کی زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے اور جب انسان نے اعتدال کو چھوڑ فساد کا راستہ اپنایا تو یہاں خرابی کا پیدا ہونا لازمی تھا۔ان مسائل کا صرف اک حل ہے کہ انسان غیرفطری زندگی کو چھوڑ ایک بار پھر فطری زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ اللہ کے احکام پر عمل کرے اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الانعام:141)
ظاہر ہے کہ آج گلوبل وارمنگ سے متعلق جو بھی مسائل ہیں، وہ انسان کے حد سے تجاوز کرنے کے سبب ہی ہیں۔ غیر فطری زندگی گزارنا اللہ و رسول کی مرضی و منشا کے خلاف ہے اور یہ " فساد فی الارض" کے دائرے میں آتا ہے جس کی ممانعت بار بار قرآن
میں کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اور جب وہ تمہارے پاس سے دور ہوتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لئے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ (البقرہ:502)
لفظ "فساد" کی وضاحت وقار احمد حسینی اس طرح کرتے ہیں:
’’یہ قرآن کی ایک جامع اصطلاح ہے، جو ہر غیر اسلامی کام سے روکتی ہے۔ قرآن میں تقریباً 50 مقامات پر اس کا استعمال کیا گیا ہے۔ اسے ہم تمام بڑی اخلاقی برائیوں و جرائم کے ساتھ 'برے اور نقصان دہ خیالات' سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس میں انسانوں کے لیے نقصان دہ سائنسی، تکنیکی، سماجی، معاشی اور سیاسی پالیسیاں بھی شامل ہیں۔ اس لفظ کے ذریعے قرآن کریم، انسان کو اس کے برے اعمال کے بھیانک انجام سے آگاہ کرتا ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کے غلط اور بے قید منصوبوں کے خلاف ایک مضبوط بیداری پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (بحوالہ: ایس، وقار احمد حسینی، اسلامک تھاٹ، گڈورڈ بکس، ص:502)

اکرم ناصر:
کبھی کبھی مجھے شک ہونے لگتا ہے کہ نعوذ بااللہ میرے اندر جن تو نہیں۔ جو اذان کی آواز مجھے گراں گزرتی ہے۔ کیونکہ جنات اور شیاطین کو اذان کی آواز برداشت نہیں ہوتی۔
مسئلہ دراصل لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کا نہیں بلکہ اسکے غلط استعمال کا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ آواز تکلیف دہ حد تک بلند نہ ہو۔ اور اس انداز میں دی جائے کہ سماعت پر گراں نہ گزرے۔ ۔
کبھی کبھی سے مراد کچھ مساجد ہیں جہاں اذان ایسے دی جاتی ہے کہ سماعت پر گراں گزرتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں وہاں کی انتظامیہ اس بات کا نوٹس نہیں لیتی؟ جبکہ اذان کے الفاظ تک سمجھ میں نہیں آتے۔

سید زین:
مجھے صبح اور جمعہ کے بعد سلام اور مساجد میں ہونے والی تقاریر پر اعتراض ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت سوتی رہتی ہے، پتا نہیں کتنے لوگ گھروں میں کس حالت میں ہوتے ہیں ، اب ایسے میں مسجد کے باہری اسپیکر سے سلام نشر کرنے سے سلام کا احترام ختم ہو جاتا ہے اور بےادبی کا احتمال ہوتا ہے۔ سلام اور نماز مسجد میں موجود مصلیان کے لیے ہے، باہر والوں کے لیے نہیں۔

ڈاکٹر اسلم فاروقی:
جی، یہ لوگ ضد کے طور پر ایسا کرتے ہیں۔ جمعہ کا بیان بھی سنجیدہ ذہن مساجد میں اندرونی اسپیکرز سے دیا جاتا ہے۔
اذاں بہر حال اسلامی شعائر کا حصہ ہے اس پر راست تنقید یا کچھ اور نام دینے سے احتیاط برتی جائے، یہ بھی یاد رکھا جائے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی اذان کے الفاظ میں اٹکتے تھے لیکن ایک عرصے بعد انہوں نے اذان دی تو سارا مدینہ ان کی یاد میں گھر سے باہر نکل پڑا تھا۔ موجودہ عرب علاقوں اور حرمین میں اذان لحن سے دی جاتی ہے جب کہ محی السنہ حضرت شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئ والوں کی پابندی ہے کہ اذان کے الفاظ تجوید سے ہی سادہ آواز میں ادا کئے جائیں زیادہ راگ نہ کھینچا جائے کہ حرکت مد ہو جائے۔
سونو نگم سنگر ہے اسے اگر حرمین کے طرز کی آواز میں اذان سنائی جائے تو وہ اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ ہماری مساجد کا بجٹ چونکہ کسمپرسی کا شکار ہے اس لئے موذن کو خدمت گار کے طور پر رکھا جاتا ہے جب کہ اسے نائب امام کی قابلیت کا ہونا چاہئے۔ اور یہ بھی کہ بے ڈھنگی آواز میں اذان دینے والے موذنین کی تربیت کی جانب سنجیدگی سے سوچا جائے۔
اب مسلسل اس طرح کے حالات میں ہنگامی طور پر اصلاح امت کے کام میں تیزی پیدا کرنا ہوگا، دعوتی تنظیموں کو بھی امت کے ہر طبقے میں موجودہ حالات میں مثالی زندگی پیش کرنے کی ترغیب کی مہم شروع کرنی ہوگی۔ ایک اور اہم بات کہ مسلمانوں کی جانب سے انفرادی طور پر جو بھی اچھے کام ہیں ان کی تشہیر کرنی ہوگی اور مسلمانوں کے بارے میں غیر مسلموں کی مثبت آرا کی تشہیر بھی کرنی ہوگی۔

تحریک اردو:
اذان پر سوشل میڈیا پر مہربانی کر کے اس کو موضوعِ بحث نہ بنائیں۔ گستاخی مت کیجئے، اذان کی اہمیت برکت اور رحمت کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ مساجد میں خوش لحن موذن کے لئے مساجد کی کمیٹیوں کے ذمہ دار افراد کی توجہ مبذول کرائیں، اہل خیر حضرات کم از کم ایک خوش لحن موذن کا اپنی طرف سے بندوبست کریں۔ سسٹم کی خرابیوں کو دور کریں اذان کی گستاخی نہ کریں، فرقہ پرست لوگوں کو موقع نہ دیں۔

مکرم نیاز:
اپنے ہمخیال اور ہم مزاج احباب سے مکالمہ اور تبادلہ خیال کی خاطر میں نے اپنا ذاتی نقطہ نظر بیان کیا ہے۔۔۔
سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنانا یا اپنے مذہب/طبقہ کی خامیوں/خرابیوں کو محض اچھالنا مقصود ہوتا تو میں پبلک سطح پر اپنی ٹائم لائن پر ایسا ہی کچھ لکھتا۔۔۔۔
ہم خود اب یہاں دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح میرے ایک کے لکھنے سے اس موضوع پر مختلف منفرد مفید اور معلوماتی آراء سامنے آ رہی ہیں؟

تحریک اردو:
اذان میں اللہ تعالٰی کی بڑائی بیان کی جاتی ہے اور بندوں کو فلاح کی طرف بلایا جاتا ہے، اذان سے بہتر کوئی اعلان نہیں۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہوا میں آواز کی موجوں کے پھیلنے کا جو سسٹم اللہ تعالٰی نے بنایا ہے وہ صرف اذان کے لئے بنایا ہے جس کے طفیل میں مواصلات کا نظام دنیا میں چل رہا ہے جس سے بےشمار فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ اعتراض تو موسیقی کی آوازوں اور ڈی جے ساونڈ پر ہونا چاہیے

محمد عبدالعزیز:
روح بلالی تو رخصت ہوگئی اب کم از کم رسم اذان ہی کو رہنے دیجئے۔ یہ مسلمانوں کے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ بے ہنگم اور بے سروپا آوازیں کلیساؤں، گردواروں اور منادر سے بھی بلند ہوتی رہتی ہیں۔ یہ آزادی مذاہب کی ضرورت اور علامتیں ہیں۔ صوتی آلودگی کے سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ سپریم کورٹ کو لینے دیجے اور ایک سیکولر ملک میں سب کے لیے اور سب کے مفاد میں اور دستوری حقوق کی روشنی میں۔
میرے خیال میں اذان اسلام کا شعائر رہا ہے کئی لوگ اس کو بھی سن کر اور مفہوم کو سمجھ کر اسلام کی طرف آئے ہیں اور آتے رہینگے، انشااللہ

ارشد حسین:
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہ کلام بانگ درا کی نظم "جواب شکوہ" سے انتخاب
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذان روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

مکرم نیاز:
اردو پروفیسرز واٹس اپ گروپ میں فہیم الدین احمد کا کمنٹ۔۔۔
سونو نگم کی ٹویٹس سے بحث نہیں لیکن آخر illogical چیزوں کو دین و ایمان کا جز کیوں بنایا جائے، جن کی کوئی معقول توجیہ نہیں حتیٰ کہ جو ہمارے دعوتی اہداف، اسلام کے امیج کو بھی نقصان پہنچائے ۔
لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی decible limit اور انداز دونوں کے متعلق رہنمائی ہونی چاہئے ۔۔
کچھ مساجد کی اذان 2 تا3 کلومیٹر تک سنوائی جاتی ہے ۔۔ میں فجر کی نماز حیدرآباد میں گنبدان شاہی کی مسجد میں ادا کرتا ہوں۔ تقریبا 1 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک مسجد کے امام صاحب ، ہم سے ایک میٹر آگے ٹھہرے امام پر بھاری پڑ جاتے ہیں ۔۔ کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ دور کے امام صاحب لاؤڈ اسپیکر پر بلند تکبیر کے سہارے اس مسجد کے کسی مصلی کو سجدے سے اٹھا کر قعدہ میں بٹھا دیتے ہیں۔ اپنے امام کو ہنوز سجدہ ریز دیکھ کر بیچارہ مصلی عجیب صدمہ کا شکار ہوتا ہے ۔۔
بلند ترین آواز کی سطح کیوں ضروری ہے، اسکی کوئی معقول وجہ مجھے نظر نہیں آتی ۔۔
رسول اللہ (ص) کے دورمیں اذان کا اسلوب کیا تھا اس پر بھی تحقیق ہو۔ ایک معروف عالم دین کے مطابق اس دور میں اذان کا انداز اعلان کا ہوا کرتا تھا۔ غیر ضروری راگ سنوارنے کی کوشش نہیں ہوتی۔ یہی زیادہ logical بھی محسوس ہوتا ہے ۔۔ رائج الوقت اذانوں کے اندازمیں ذرا یہ پڑھ کر دیکھئے ۔۔
آؤ نماز کی طرف
آؤ کامیابی کی طرف
اللہ بہت بڑا ہے۔۔۔۔۔
اب ذرا سوچئے، کیا ایسا نہیں لگتا کہ ہم بالکل ہی عجیب سا انداز اپنائے ہوئے ہیں؟!


Azan on loud speakers, a dialogue on FaceBook.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں