گاؤ رکھشکوں کے مسئلہ پر لوک سبھا میں ہنگامہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-01

گاؤ رکھشکوں کے مسئلہ پر لوک سبھا میں ہنگامہ

گاؤ رکھشکوں کے مسئلہ پر لوک سبھا میں ہنگامہ
نئی دہلی
یو این آئی
ہجوم کی جانب سے زدوکوب کے واقعات پر آج لوک سبھا میں مباحث شوروغل اور اپوزیشن و بی جے پی ارکان کے مابین بحث و تکرا ر اور ہنگامہ آرائی کے مناظر کے بیچ ترنمول کانگریس کے رکن سوگتا رائے نے ایسے جرائم سے نمٹنے ایک نیا قانون مدون کرنے کا مطالبہ کیا جب کہ لوک جن شکتی پارٹی لیڈر و مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے1984کے مخالف سکھ فسادات و قتل عام کا حوالہ دے کر کانگریس کو گھیرنے کی کوشش کی ۔ سوگتا رائے نے مرکزی بی جے پی زیر قیادت حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے ادعا پیش کیا کہ این ڈی اے حکومت کے اقتدارپر آنے کے بعد سے ہجوم کی جانب سے زدوکوب واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سال2010سے2017ء کے درمیان جبکہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں سے ایسے واقعات میں کم از کم باون فیصد اضافہ ہوا ہے ، ان کے منجملہ گزشتہ تین سالوں میں97فیصد اضافہ ہوا ۔ رائے کے اس ادعا کی سختی کے ساتھ تردید کرتے ہوئے مملکتی وزیر داخلہ کرن رجیجو نے کہا کہ ایوان کے رکن(سوگتا رائے) کو چاہئے کہ ان اعداد و شمار کے حصول کے ذرائع کا انکشاف کریںاور انہیں ثابت کریں۔ دار جلنگ سے منتخبہ رکن ایس ایس اہلوالیہ نے مملکتی وزیر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اگر رکن لوک سبھا اپنے اپنے ادعا کو ثابت نہ کریں تو ان کی ساری تقریر کا رروائی سے خارج کی جائے۔ کاکولی گھوش دستی وار اور کلیان بنرجی کے بشمول ترنمول کانگریس کے کئی ارکان نے اہلوالیہ سے کہا کہ وہ منتخبہ ارکان پر شرائط عائد نہ کرسکتے ۔ اہلوالیہ نے کہا کہ وہ کوئی ہدایت جاری نہیں کررہے ہیں ، بلکہ یاددہانی کررہے ہیں۔ اپنی پارٹی کے ساتھ ڈاکٹر گھوش دستی وار سے حوصلہ پاکر سوگتا رائے نے اہلوالیہ کو دار جلنگ سے لاپتہ رکن پارلیمنٹ قر ار دیا۔ رائے کی جانب سے بی جے پی کی معاون چند تنظیموں کے خلاف ریمارکس پر کرن تھیراور رمیش بدھوری کی جانب سے برہم احتجاج کیا گیا۔ کھیر نے ترنمول کانگریس کے زیر حکومت مغربی بنگال کے مقام بشیر ہاٹ کے پر تشدد فرقہ وارانہ حالیہ جھڑپوں پر سوال اٹھایا گیا ۔ رائے نے یہ بھی سوال کیا کہ کیا بی جے پی مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کا تیقن کرنا چاہتی ہے ۔ وزیر خوراج رام ولاس پاسوان نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں مختلف وجوہات کے نتیجہ میں ہجوم کی جانب سے زدوکوب کے واقعات رونما ہوئے ہیں ، اس لئے انہیں فرقہ وارانہ رنگ دینا منصفانہ نہیں ، کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایسے غنڈہ گردی واقعات کی مخالفت کرتے ہوئے سخت بیانات دئیے ہیں، پاسوان جنہوں نے1984ء کے فسادات کا حوالہ دیا نے کہا کہ یہ موزوں وقت ہے کہ ایوان میں ایسے واقعات کی مذمت کرنے قرار داد منظور کی جائے اور تمام سیاسی جماعتیں ریاستی چیف منسٹروں سے اپیل کریں کہ ایسے تشدد کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں ۔ پاسوان نے زور دے کر کہا کہ وفاقی ڈھانچہ کے تحت نظم و ضبط یقینا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے ، لیکن اپوزیشن جماعتیں بار بار یہ کوشش کررہی ہیں، کہ مرکز پر سارا الزام عائد کیاجائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہجوم کی جانب سے زدوکوب کے خلاف اگر ریاستیں مناسب کارروائی نہیں کررہی ہیں تو کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ مرکز فوج کو تعینات کرے ۔ تب وفاقی ڈھانچہ کا کیا ہوگا۔ گائے رکھشکوں کے بارے میں وزیر اعظم کی تقاریر کا حوالہ دیتے ہوئے مرکزی وزیر نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران حکومت کا واحد مقصد ترقی رہا ہے ۔ وزیر اعظم نے سخت الفاظ میں کہا ہے کہ ایسے واقعات سے ملک کی شبیہ متاثر ہوئی ہے اور ریاستیں سخت کارروائی کریں ۔ انہوں نے سوال کیا کہ حکومت یا وزیر اعظم کی جانب سے آپ اور زیادہ کیا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ارکانک ی پسند جو بھی ہو انہیں چاہئے کہ وہ قرار داد منظور کریں۔ پاسوان جنہوں نے گجرات فسادات پر سال2002ء میں این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کی تھی، نے وزیر اعظم کے رویہ کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ مودی گزشتہ تین سالوں کے دوران صرف ایک نکاتی ایجنڈا ترقی پر توجہ مبذول کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہ ان تین سالوں کے دوران مودی نے کبھی بھی رام جنم بھومی ، بابری مسجد، یکساں سول کوڈ یا آرٹیکل(فقرہ)377کا نام نہیں لیا۔ اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے انہو ں نے کہا کہ سماج میں ایسے عناصر ہیں جو حکومت کی توجہ ترقی کے ایجنڈہ سے ہٹانے شبہ دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔، پاسوا ن نے الزا م عائد کیا کہ وہ کسی بھی اور مسئلہ کے سوا صرف ایک مخصوص فرقہ کے بارے کئی سال سے لب کشائی کرتی رہی۔ وہ بد عنوان افراد کا ساتھ دیتی رہی اور ترقی کے لئے کچھ نہیں کی۔ دلتوں کے بارے میں اس کی اپیل مزید کار آمد نہیں، کیونکہ این ڈی اے نے ایک دلت کو صدر بنایا ہے ۔ ترنمول کانگریس کے سوگتا رائے نے کہا کہ بلتھ گڑھ اور الورا جیسے فسادات کی مذمت کرنے بی جے پی کے چیف منسٹروں نے چار تا سات دن تک تاخیر کی ہے ۔
نئی دہلی سے پی ٹی آئی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب ہجوم کے حملوں میں ہلاکتوں کے مسئلہ پر آج لوک سبھا میں الزامات اور جوابی الزامات عائد کئے گئے۔ کانگریس نے کہا کہ ہندوستان کو لنچستان(ہجوم کے حملوں میں مختلف افراد کو ہلاک کردینے کے مقام) میں بدلنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے اور حکومت نے اپوزیشن پر الزام عائد کیا کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بدنام کرنے کی خاطر سیکولرازم کے نام پر ڈرامہ کررہی ہے ۔ حکومت نے پرزور الفاظ میں کہا کہ ہجوم کے حملوں میں ہلاکتوں اور اس سے متعلق کسی بھی چیز کو ہرگز برداشت نہیں کیاجاسکتا اور اس بات کا تذکرہ کیا کہ وزیر اعظم نے خود بھی کئی دفعہ اس کی مذمت کی تھی اور ایسی حرکات کو بد ترین جرم قرار دیا تھا۔ جیسے ہی ہجوم کے حملوں میں ہلاکتوں کے مسئلہ پر ایوان میں بحث شروع ہوئی مملکتی وزیر داخلہ کرن رجیجو نے کہا کہ ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے جرائم سے نمٹیں اور مرکز نے اس کی اپنی جانب سے اس خصوص میں واضح مشورہ دے دیا تھا ۔ رجیجو نے بحث کا جواب دیتے ہوئے سوال کیا۔ مرکز کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ریاست کے معاملہ میں مداخلت کرے ، کیا اپوزیشن یہ چاہتی ہے کہ وزیر اعظم وفاقی ڈھانچہ کو توڑدیں اور یہ چاہتی ہے کہ مرکز ریاستوں کا بھی نظم و نسق سنبھال لے ۔ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے وزیر موصوف کے جواب پر ناخوشی کا اظہار کیا اور واک آؤٹ کردیا۔ ملک میں زیادتیوں اور ہجوم کے حملوں میں ہلاکتوں کے واقعات پر بحث کے دوران تمام جماعتوں کے ارکان نے گائے کے نام پر ہلاکتوں کی مذمت کی ۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں جیسے کانگریس، ترنمول کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے بی جے پی زیر قیادت حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ گاؤ رکھشکوں خی جانب سے تشدد کے پس پشت کار فرما گروپس کی حوصلہ افزائی کررہی ہے ۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے قائد کانگریس ملکار جن کھرگے نے کہا ہندوستان کو لنچستان بنانے نہیں دیاجانا چاہئے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ حکومت اقلیتوں، دلتوں اور خواتین کی مخالف ہے دعویٰ کیا کہ یہ طبقات ہجوم کے تشدد کا زیادہ نشانہ بنے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ وہ ان کیسس میں ملزمین کے خلاف کارروائی کی تفصیلات کی پیشکشی عمل میں لائے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملزمین کے حوصلے اس لئے بڑھ گئے ہیں کیونکہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے ۔

Opposition attacks government for encouraging cow vigilantes


پکوان گیس سلنڈر کی قیمت میں ہر مہینہ 4 روپئے کا اضافہ
نئی دہلی
پی ٹی آئی
وزیر تیل دھرمیندر پردھان نے آج کہا کہ حکومت نے سرکاری زیر انتظام آئیل کمپنیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ہر مہینہ سبسیڈی پکوان گیس کی قیمت میں چار روپئے فی سلنڈر کا اضافہ کریں تاکہ آئندہ سال مارچ تک ساری سبسڈیز کو برخواست کردیاجاسکے ۔ حکومت نے قبل ازیں انڈین آئیل، بھارت پٹرولیم اور ہندوستان پٹرولیم سے کہا تھا کہ گھریلو استعمال کی سبسیڈی پکوان گیس کی قیمت میں ہر مہینہ 14.2کلو کے سلنڈرپر دو روپئے کا اضافہ کردیں۔ انہوں نے لوک سبھا میں ایک سوال کا تحریری جواب دیتے ہوئے بتایا کہ اب اسے بڑھاکر دوگنا کردیاگیا ہے تاکہ سبسیڈی کا بالکلیہ طور پر خاتمہ عمل میں لایاجاسکے ۔ کولکتہ سے موصولہ علیحدہ اطلاع کے مطابق چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے آج سبسیڈی ایل پی جی کی قیمت میں ہر مہینہ اضافہ اور تمام سبسیڈیز کو برخواست کردینے سے متعلق نریندر مودی حکومت کے فیصلہ پر سخت تنقید کی اور کہا کہ بی جے پی کو صرف پیسے کی فکر ہے ۔ ترنمول کانگریس کی سربراہ نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی عوام سے کئے جانے والے اپنے وعدوں سے انحراف کررہی ہے اور بتایا کہ زعفرانی جماعت کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ ممتا بنرجی نے آج دوپہر اپنے ٹوئٹر پر تحریر کیا بی جے پی عوام سے وعدے کرتی ہے اور پھر ان سب وعدوں سے منحرف ہوجاتی ہے ۔ ان کو صرف پیسہ کی فکر ہے ۔ سماج کے تعلق سے بی جے پی کے پابند عہد ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے تحریر کیا ’’ بی جے پی اپنی سماجی ذمہ داری کس طرح نہیں نبھا سکتی ۔ سماج کے تئیں ان کے عزائم کا کیا ہوا ہے ۔ انہوں نے وضاحت کی مجھے واقعی عام آدمی کی فکر ہے ، قبل ازیں ایل پی جی پر سبسیڈی کو واپس لے لیا گیا تھا اور اب ایسا دوبارہ کیا گیا ہے ۔ بی جے پی کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے ۔

این سی بی سی کو دستوری موقف - بل پارلیمنٹ میں متعارف
نئی دہلی
پی ٹی آئی
قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات (این سی بی سی) کو دستوری موقف عطا کرنے کے لئے آج راجیہ سبھا میں ایک بل متعارف کروایا گیا ۔ مرکزی وزیر سماجی انصاف تہور چند گہلوٹ نے آج دستوری(123ویں ترمیمی) بل 2017ء کو متعارف کرواتے ہوئے پارلیمنٹ سے قومی کمیشن برائے درج فہرست طبقات اور قومی کمیشن برائے درج فہرست قبائل کی طرح این سی بی سی کو بھی دستوری موقف دینے کی خواہش کی ۔ ایوان قومی کمیشن برائے درج فہرست طبقات(نظر ثانی) بل پر غور کرے گا جو قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات قانون1993ء کو منسوخ کرنے پر غور کرے گا ۔ اس بل کو پیش کرتے ہوئے وزیر سماجی انصاف نے کہا کہ یہ بل این سی بی سی کو دستوری موقف دینے کے طویل عرصہ سے جاری مطالبہ کی تکمیل کرے گا۔ اس بل سے کمیشن کو نہ صرف پسماندہ طبقات سے متعلق کمیٹیوں پر اختیار حاصل ہوگا بلکہ کمیشن سیول اور مجرمانہ مقدمات کی بھی سماعت کرسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کے ذریعہ سماج میں درج فہرست طبقات کے عوام کو اختیارات حاصل ہوں گے ۔ اس بل پر مباحث کا آغاز کرتے ہوئے کانگریس کے ہری پرساد نے کہا کہ ان کی پارٹی اس بل کی مخالفت نہیں کرے گی لیکن اسی وقت اس بل کو ایوا ن میں پیش کرنے کے انداز کی مخالفت کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقات کی شناخت کے لئے بڑے پیمانہ پر امتیازات برتے گئے ہیں۔ اس تناظر میں انہوں نے کہا کہ چند طبقات کو چند ریاستوں میں درجہ فہرست ذاتوں کے زمرہ میں شامل کیا گیا ہ۔ انہیں دیگر ریاستوں میں درج فہرست پسماندہ طبقات میں شامل کیاجانا چاہئے ۔ انہوں نے قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات قانون1993ء کو منسوخ کرنے کی اپیل کی مخالفت کی ۔ اس طرح کے اقدام پسماندہ طبقات کے مفادات کے خلاف ہیں ۔ اس بل کی تائید میں اظہار خیال کرتے ہوئے بی جے پی کے رکن بھوپندر یادو نے کہا کہ اس بل کا طویل عرصہ سے انتظار تھا۔ اس بل کے ذریعہ او بی سیز کو انصاف کی فراہمی عمل میں آئے گی۔ اس تناظر میں انہوں نے کہا کہ پچھلے کانگریسی حکومت نے کاکا کیلیکار کمیشن کی رپورٹ کا نافذ نہیں کیا۔ اس رپورٹ میں دیگر پسماندہ طبقات کو حقوق فراہم کئے گئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ مرار جی دیسائی حکومت ہی تھے جس نے1878ء میں سماج کے اس طبقہ کو حقوق کی فراہمی کے لئے منڈل کمیشن قائم کیا تھا۔ منڈل کمیشن کی رپورٹ1980ء میں سامنے آئی ۔ تاہم اسے صرف1990ء میں ہی نافذ کیا جاسکا ۔ اسی دوران کانگریس، سماجو ادی پارٹی اور جنتادل یو نے دیگر پسماندہ طبقات( او بی سی) کے لئے ریزرویشن کوٹہ میں، کریمی لیئر ، کا ضابطہ ختم کرنے کا آج راجیہ سبھا میں پرزور مطالبہ کیا جس کی دیگر پارٹیوں کے لیڈروں نے بھی حمایت کی ۔ جنتادل یو کے شرد یادو نے قومی پسماندہ طبقہ کمیشن کے قیام اور اسے آئینی درجہ دینے سے متعلق بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ او بی سی ریزرویشن کوٹہ میں کریمی لیئر کا ضابطہ آئین کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہے اور اسے فوی طور پر ختم کیاجانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی امتحان پاس کرنے کے بعد کچھ طلبا کے خاندان کی آمدنی کا حساب کتاب لیاجارہا ہے اس ضابطہ کو فوری طورپر ختم کیاجانا چاہئے ۔ کانگریس کے دگ وجئے سنگھ نے بھی کہا کہ آئین میں کریمی لیئر کا تصور ہی نہیں ہے اور صرف سپریم کورٹ کے حکم پر اسے مان لیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی چپراسی کی تنخواہ بھی کریمی لیئر میں آتی ہے تو ایسے میں اس طبقے کے لوگو ں کے ساتھ انصاف کیسے ہوگا ۔ کانگریس رکن نے کہا کہ اس ضابطہ وک فوری طور پر ختم کیاجانا چاہئے ۔ انہیں کی پارٹی کے آنند بھاسکر راپولو نے بھی کہا کہ صرف او بی سی ریزرویشن کوٹہ میں کریمی لیئر کے التزام کا کیا جواز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے او بی سی طبقے کو اس ریزرویشن کا پورا فائدہ نہیں مل پاتا ۔ اس سے پہلے سماج وادی پارٹی کے لیڈر رام گوپال یادو نے بھی کہا کہ او بی سی کے ریزرویشن میں کریمی لیئر کا بندوبست ختم کیاجانا چاہئے ۔ کریمی لیئر کی حد چھ لاکھ روپے سالانہ کی آمدنی رکھی گئی ہے ۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ نا انصافی ہے ۔ جنتادل یو کے شرد یادو سمیت سبھی پارٹیوں کے کئی ارکان نے ان کی حمایت کی ۔

بی جے پی کی توجہ اب جنوبی ہند پر مرکوز - امیت شاہ
لکھنو
پی ٹی آئی
رکن راجیہ سبھا بننے کے بعد مرکزی کابینہ میں شامل ہونے کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے صدر بی جے پی امیت شاہ نے آج کہا کہ وہ بی جے پی کے قومی صدر کی حیثیت سے اپنے کام سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور کہیں بھی جانے کی سونچ نہیں رہے ہیں ۔اتر پردیش میں اپنے سہ روزہ دورہ کے اختتا م کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر بی جے پی امیت شاہ نے میڈیا سے سوال کیا کہ کیوں آپ لوگ میرے مرکزی کابینہ میں شمولیت کے بارے میں بات کررہے ہیں جب کہ میں ا پنے کام سے خوش ہوں ۔ گجرات میں کانگریس اراکین اسمبلی کو لالچ دینے کے الزامات اور گجرات کے کانگریسی ارکان اسمبلی کو لاحق کسی قسم کے خطرہ کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے امیت شاہ نے کہا کہ آیا کانگریس اس بات کا جواب دے سکتی ہے کہ اس نے اپنے اراکین اسمبلی کو بنگلور کے ایک ریسارٹ میں مقفل کررکھا ہے جب کہ کرناٹک میں خود اس کی حکومت ہے ۔ وہاں کانگریسی ارکان اسمبلی کو گھومنے پھرنے کیوں نہیں دیاجارہا ہے ۔ کانگریس کی یہ حرکت صرف بی جے پی اور گجرات حکومت پر الزامات دھرنے کے لئے ہے ۔ جب کہ دوسری طرف کانگریس خود اپنے ارکان اسمبلی کو متحد رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے ۔ رام مندر کی تعمیر کے متعلق صدر بی جے پی امیت شاہ نے اپنی بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے حکم یا پر باہمی مفاہمت سے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہونی چاہئے ۔ امیت شاہ نے آج یہاں صحافیوں سے کہا کہ متنازعہ بابری مسجد کا ڈھانچہ منہدم ہونے کے بعد سے پارٹی نے ا پنے ہر انتخاب کے منشور میں واضح طور پر کہا ہے کہ رام مندر کی تعمیر ہونی چاہئے لی ک آپسی سمجھوتے یا عدالت کے حکم سے یہ کام ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پارٹی مندر کی تعمیر کے بارے میں اپنے موقف پر قائم ہے ۔ پارٹی کا خیال ہے کہ مندر کی تعمیر عقیدہ کا معاملہ ہے اور اس کا حل دستور کے دائرے میں ہی ہونا چاہئے۔ امیت شاہ نے واضح طور پر کہا کہ بی جے پی کی توجہ اب جنوب پر مرکوز ہے اور جیسا پارٹی نے شمال میں کیا ہے، عنقریب جنوب میں بھی اپنا پرچم لہرائے گی ۔ اتر پردیش اور دیگر ریاستوں میں دیگر جماعتوں کے قائدین اور ایم ایل سیز کی بی جے پی میں شمولیت پر امیت شاہ نے کہا کہ اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات سے قبل دوسری جماعتوں کے کئی قائدین بی جے پی میں شامل ہوئے تھے ۔انتخابات میں انہیں عوامی تائید حاصل رہی۔ بہار واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے امیت شاہ نے کہا کہ نتیش کمار نے کسی کو کابینہ سے نکالا نہیں اور نہ ہی کوئی پارٹی توڑی۔ وہ خود اتحاد سے الگ ہوکر بی جے پی سے ناطہ جوڑا ۔ اس میں بی جے پی یا نتیش کمار کہاں غلط ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے کسی بھی پارٹی کو نہیں توڑا، نتیش کمار نے پہلے خود سے استعفیٰ دیااور ہمارے ساتھ حکومت قائم کی۔ انہوں نے شیو پال یادو کی بغاوت کا حوالہ دیتے ہوئے امیت شاہ نے کہا کہ نہ تو شیوپال یادو اور نہ ہی کسی بھی گوشہ سے ایسی تجویز سامنے نہیں آئی ہے ، کہ شیو پال یادو مستقبل قریب میں بی جے پی میں شامل ہوں گے ۔ بی جے پی صدر نے اس بات کو مسترد کردیا کہ پارٹی کا کوئی بھی لیڈر پناما اسکام میں ملوث نہیں ہے جس میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو ا پنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن ملزموں کی فہرست تیار کی گئی لیکن اس فہرست میں کسی بھی بی جے پی قائد کا نام نہیں آیا۔ یو این آئی کے بموجب گجرات ، بہار اور اتر پردیش کے سیاسی واقعات پر بھارتیہ جنتا پارٹی پر اٹھ رہی انگلیوں کے درمیان پارٹی کے صدر امت شاہ نے کہا کہ ان کی پارٹی یا حکومت اندرا گاندھی کے طرز کی سیاست نہیں کرتی۔ ایک سوال کے جواب میں امیت شاہ نے کہا کہ اتر پردیش کے ڈپٹی چیف منسٹر کیشوپرساد موریہ ریاست میں ہی رہیں گے۔ انہوں نے موریہ کو مرکزی کابینہ میں شامل کئے جانے کی قیاس آرائیوں کو سرے سے خارج کردیا۔ اتر پردیش میں امن و قانون نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے بی جے پی کے صدر نے کہا کہ اس ریاست میں انتظامیہ میں سیاست کی آمیزش کو ودر کرنے میں وقت لگے گا۔ امن و قانون نظام کو چست درست کرنے میں اسی وجہ سے وقت لگ رہا ہے ۔ جلد ہی سب ٹھیک ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اقربا پروری اور ذات پات کی سیاست سے اس ریاست کا بہت نقصان ہوچکا ہے ۔ گاڑی پٹری پر لانے میں وقت لگ رہا ہے ۔ شاہ نے2019ء میں مرکز میں بی جے پی اور اس کی معاون پارٹیوں کی مزید مضبوط حکومت بننے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ترقی اور اچھی حکومت کی بنیاد پر ہمیں عوام کی مکمل حمایت مل رہی ہے ۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ مودی حکومت کی ترقی اور اچھی حکمرانی کی وجہ سے عوام2019میں مضبوط تر حکومت بنانے کے خواہشمند نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی ایس) کے سرحد پار سے تجارت بند کرنے سے متعلق مشورہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی فوج اور جموں و کشمیر حکومت سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد ہی کوئی رد عمل ظاہر کرے گی ۔ انہوں نے اشیاء اور خدما ت ٹیکس( جی ایس ٹی) کو وفاقی ڈھانچہ کے مطابق بڑا قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب ایک ٹیکس ایک ملک کا اصول نافذ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرجیکل اسٹرائیک سے ملک کی شناخت دنیا میں بڑھی ہے ۔ دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ ہندوستان اپنے دفاع کے لئے سنجیدہ ہے ۔ اس موقع پر انہوں نے مرکزی حکومت کی حصولیابیوں کی سلسلہ وار تفصیلات دیں اور کہا کہ مودی حکومت کے تین برس پورے ہونے پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں