ہندوستان اور نیپال کے درمیان 8 معاہدوں پر دستخط - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-25

ہندوستان اور نیپال کے درمیان 8 معاہدوں پر دستخط

ہندوستان اور نیپال کے درمیان 8 معاہدوں پر دستخط
نئی دہلی
پی ٹی آئی
ہندوستان اور نیپال نے آج8معاہدوں پر دستخط کئے جن میں منشیات کی منتقلی کی روک تھام میں باہمی تعاون بھی شامل ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے نیپالی ہم منصب شیر بہادر دیوبا کے درمیان باہمی اور علاقائی مسائل پر تفصیلی اور جامع تبادلہ خیال کے بعد ان معاہدوں پر دستخط عمل میں آئے۔ بعد ازاں دیو با کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ بڑی اچھی ملاقات رہی ہم نے آپسی شراکت داری کے پورے معاملہ پر نظر ثانی کی ہے۔ انہوں نے دیوبا کو ہمالیائی ریاست کی مجموعی ترقی کے لئے ہندوستان کے تعاون کا وعدہ کیا۔ دیوبا نے کہا نیپال اپنی سر زمین پر کبھی بھی مخالف ہند سر گرمیوں کی اجازت نہیں دے گا۔ دونوں قائدین نے مشترکہ طور پر کٹایا، کشاہا اور رکسا۔ پروان پور بین سرحدی برقی ٹرانسمیشن لائنوں کا افتتاح کیا ۔ مودی نے باہمی تعلقات کے اہم پہلو کی حیثیت سے دفاع اور سیکوریٹی کی نشاندہی کی ۔ دیوبا کا راشٹر پتی بھون میں پرتپاک استقبال کیا گیا جہاں وہ سرکاری مہمان کی حیثیت سے قیام پذیر ہیں ۔ دیوبا چار روزہ دورہ پر کل نئی دہلی پہنچے ۔ اس سال جون میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد یہ ان کا پہلا بیرونی دورہ ہے ۔ وزیر اعظم نیپال شیر بہادر دیوبا نے قبل ازیں آسوچیم کی جانب سے منعقدہ سرمایہ کاروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیپال کی اہم سیاسی جماعتوں کے خیالات میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے اور سبھی یہ سمجھتے ہیں کہ ملک اس وقت ایک نازک معاشی موڑ پر ٹھہرا ہوا ہے۔ سی آئی آئی اور فلی کی جانب سے مشترکہ طور پر یہ اجلاس کل رات منعقد کیا گیا تھا۔دیوبا نے کہا کہ بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے ہم نئے طریقہ کار اور ادارہ جات کو سر گرمی کے ساتھ فروغ دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نیپال میں سرمایہ کاری کے لئے لچکدار قواعد اور ترغیبات کی پیشکش کی جاتی ہے ۔ تاکہ بیرونی کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہو ۔ ایک کم ترقی یافتہ ملک ہونے کی حیثیت سے یوروپی مارکٹ میں ہمیں محصول سے پاک ملک ہونے کا موقف حاصل ہے اور حال ہی میں تقریباً60مصنوعات کے لئے امریکہ میں ترجیحی مارکٹ داخلہ کی اجازت ملی ہے ۔ خارجہ سکریٹری اسی جئے شنکر نے بتایا کہ مودی اور شیر بہادر دیوبا کے درمیان ملاقات میں ڈوکلام مسئلے کا کوئی ذکر نہیں آیا۔
India, Nepal sign 8 agreements

حق رازداری دستور کے تحت بنیادی حق
سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ
نئی دہلی
پی ٹی آئی
سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ میں جو تمام ہندوستانیوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوگا آج متفقہ طور پر اعلان کیا کہ حق رازداری دستور کے تحت ایک بنیادی حق ہے ۔ چیف جسٹس جے ایس کیہر کی قیادت میں9رکنی دستوری بنچ نے اس بارے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہ اکہ حق راز داری دستور کی دفعہ اکیس اور مکمل باب سوم کے تحت حق زندگی و نجی آزادی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ فیصلہ حکومت کی متعدد سماجی بہبودی اسکیمات کے فوائد حاصل کرنے کے لئے آدھار کو لازمی قرار دینے مرکز کے اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کردہ کئی مرافعات سے نمٹتے ہوئے سنایا گیا ہے ۔ اس حساس مسئلہ پر بحث کے دوران مرکز نے یہاں یہ استدلال پیش کیا تھا کہ حق زندگی بنیادی حق نہیں ہے وہیں درخواست گزاروں نے دلیل دی کہ جب ایک شہری اپنی نجی تفصیلات اور بائیو میٹر کس حکومت کو دیتا ہے اور پھر اسے تجارتی اداروں کی جانب سے استعمال کیاجاتا ہے تو یہ حق رازداری کے خلاف ہے ۔ یہ فیصلہ حق رازداری کے مسئلہ تک محدود ہے اور اس سوال کا کہ آیا آدھار حق رازداری کی خلاف ورزی کرتا ہے ایک علیحدہ پانچ رکنی بنچ کی جانب سے تصفیہ کیا جائے گا۔ یہ بنچ2015ء سے اس مسئلہ پر درخواستوں کی سماعت کرتا آرہا ہے ۔ آج کا فیصلہ سنانے والی بنچ میں دیگر ارکان جسٹس جے چلمیشور، جسٹس ایس اے بابڑے، جسٹس آر کے اگر وا، جسٹس آر ایف نریمن، جسسٹس اے ایم ساپڑے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس ایس کے کول جسٹس ایس اے نذیر شامل ہیں۔ تمام ججوں نے متفقہ طور پر ایک ہی خیال ظاہر کیا ۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے قبل ازیں دو فیصلوں کو کالعدم کردیا جس میں کہا گیا تھاکہ حق راز داری کو دستوری تحفظ حاصل نہیں ہے ۔ ایک فیصلہ1950میں جسٹس ایم پی شر ما اور دوسرا1960ء میں جسٹس کھڑک سنگھ نے سنایا تھا۔ کھڑک سنگھ کے معاملہ میں فیصلہ چھ ججوں نے اور شرما کے کیس میں آٹھ ججوں نے فیصلہ سنایا تھا ۔ جسٹس کیہر نے فیصلہ کا اصل حصہ پڑھ کر سنایا۔ اس مقدمہ میں حق رازداری بنیادی حق ہونے کی تائید اور مخالفت میں فریقین نے پر زور دلائل دئیے اور گرما گرم بحث ہوئی۔ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال،اڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا ، اروند داتار، کپل سبل ، گوپال سبرامنیم ، شیام دیون، آنند گرور، سی اے سندروم اور راکیش ترویدی جیسے سینئر وکلا نے اس انتہائی نازک مسئلہ پر بحث میں حصہ لیا ۔ درخواست گزاروں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس کے ایس پٹاسوامی، میگا سیسے ایوارڈ یافتہ شانتا سنہا حق نسواں کی ریسرچ اسکالر کلیانی سین مینن اوردوسرے شامل تھے جنہوں نے آدھار اسکیم کی حیثیت کو حق رازداری کی خلاف ورزی کی بنیاد پر چیلنج کیا ۔

حق رازداری پیدائش کے ساتھ ملتا ہے اور موت کے ساتھ جاتا ہے : جج ساپڑے
نئی دہلی
پی ٹی آئی
حق رازداری پر فیصلہ سنانے والے ججوں میں سے ایک جسٹس ابھے منوہر ساپڑے نے کہا کہ کسی فرد کا حق رازداری فطری، ناقابل علیحدگی اور ناقابل جدائی حق ہے جو انسا ن کی پیدائش کے ساتھ اسے حاصل ہوتا ہے اور زندگی تمام حاصل رہتا ہے ۔ جسٹس ساپڑے نے علیحدہ لیکن فیصلہ سے منسلک تحریر میں کہا کہ حق رازداری دستور کے تحت ایک بنیادی حق ہے اور اسے صرف اس بنیاد پر سلب نہیں کی جاسکتا ۔ کہ ایک شخص اس حق کے بغیر وقار کے ساتھ با معنی زندگی سے لطف اندوز ہورہا ہو ۔ انہوں نے تاہم کہا کہ یہ حق مطلق نہیں ہے بلکہ بعض واجبی پابندیوں کے تحت ہے اور یہ پابندیاں عائد کرنے کا حکومت کو اختیار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حق رازداری ان حقوق میں سے ہے جو کوئی بھی مہذب سماج ہر انسان کے لئے تسلیم کرتا ہے ۔ دستور کے باب سوم میں شہریوں کو جس بنیادی حق کی ضمانت دی گئی ہے یہ اس کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ میری نظر میں حق رازداری ایک فطری حق ہے جو انسان کو پیدائش سے ہی حاصل ہوتا ہے اور اس وقت تک حاصل رہتا ہے جب تک اس کی آخری سانس باقی رہتی ہے ۔ اسے کسی بھی انسان سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔
نئی دہلی
یو این آئی
سپریم کورٹ نے حق رازداری کو بنیادی حق قرار دیتے ہوئے شہریوں کے بیڈرومس، کچن اور ڈراؤنگ رومس کو ایک آمرانہ حکومت کی جھانکتی نگاہوں سے بچا لیا ہے ۔ سینئر کانگریس لیڈر منیش تیواری نے وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے آج یہ ریمارک کیا۔ یو این آئی کے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تیواری نے کہا کہ مودی حکومت نے اس کے39ماہ کے دور میں گاؤ رکھشکوں ، مخالف عشق اسکواڈس کے ذریعہ عوام کی نجی آزادیوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس نے یہ کوشش کی ہے کہ عوام پر مسلط کیاجائے کہ کیا کھائیں یا نہ کھائیں لیکن اب عدالت نے بالآخر حکومت کو اس کی حد بتادی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اہمیت اور اثرات کے اعتبار سے آج کا فیصلہ1973ء میں کیشو نند بھارتی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مماثل ہے ۔ جس میں عدالت عظمی نے کہا تھا کہ دستور کا بنیادی ڈھانچہ پارلیمنٹ کے اختیار سے بالاتر ہے اور وہ اسے تبدیل نہیں کرسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ1973ء کی طرح اب بھی دیڑھ آدمی کی حکومت کی آمریت چل رہی ہے اور یہ شدید احساس پایاجاتا ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق میں دخل اندازی کی جانے لگی ہے ۔
نئی دہلی
پی ٹی آئی
سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بیان کارڈ کو آدھار سے جوڑنے کا کام جاری رہیگا۔ یونیک آئیڈنٹی فکیشن اتھاریٹی آف انڈیا کے چیف ایکزیکیٹیو اجئے بھوشن پانڈے نے یہ بات بتائی ۔ پانڈے نے کہا کہ پرائیویسی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے مختلف اسکیموں کے لئے آدھار کارڈ کا حوالہ دینے کا کام بند نہیں ہوگا ، جن میں انکم ٹیکس، ریٹرنس بھی شامل ہیں ۔ اس دوران مودی کابینہ کے اہم وزرا اس کے اثرات کا جائزہ لینے اور بالخصوص دنیا کے سب سے بڑے بائیو میٹرک آئی ڈی کارڈ پروگرام آدھار کے استعمال پر غوروخوض کے لئے سرجوڑ کر بیٹھ گئے ۔ وزیر قانون اور آئی ٹی روی شنکر پرساد اور پرنسپال سکریٹری برائے وزیر اعظم نریپندر مشرا فیصلہ کے امکانی اثرات پر مشاورت کے لئے وزیر فینانس ارون جیٹلی کے پاس پہنچ گئے ۔ ان میں سے کسی نے بھی کچھ کہنے سے انکار کردیا۔
نئی دہلی
پی ٹی آئی
مرکز نے حق رازداری پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ اعلیٰ عدالت نے اس مسئلہ پر حکومت کے موقف کی صرف توثیق کی ہے ۔ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ عدالت نے کہا ہے کہ حق رازداری مطلق نہیں ہے اوریہ واجبی پابندیوں کے تابع ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں آدھار بل پیش کرتے ہوئے کہے گئے موقف کی توثیق کی ہے ۔ حق رازداری بعض واجبی پابندیوں کے تابع بنیادی حق ہونا چاہئے ۔ کانگریس کے اس دعوی پر کہ یہ فیصلہ نگرانی کے ذریعہ دباؤ ڈالنے کے بی جے پی کے نظریہ کو مسترد کرنے کے برابر ہے ۔پرساد نے ٹوئٹ کے ذریعہ رد عمل میں کہا کہ انفرادی آزادی کے تحفظ میں کانگریس کا ریکارڈ ایمرجنسی کے دوران دیکھا گیا۔

مسلمان دوسرے فرقوں سے کافی پیچھے
اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے تین سال میں موثر اقدامات کی سفارش
نیتی آیوگ کا ایکشن ایجنڈہ جاری۔ اقلیتی خواتین کو با اختیار بنانے پر خصوصی توجہ
نئی دہلی
پی ٹی آئی
نیتی آیوگ نے اقلیتوں کے لئے فلاحی اسکیمات پر عمل آوری کو مضبوط کرنے کے لئے اگلے تین سال میں موثر اقدامات کی تجویز پیش کی ہے اور ادعا کیا ہے کہ گیارہ ویں پنجسالہ منصوبہ تک اقلیتی فرقوں کے تعلق سے کوئی ٹھوس ترقیاتی پروگرامس پر عمل نہیں کیا گیا ۔ نیتی آیوگ نے پرائمری سکنڈری اور اعلی سطح پر تعلیم کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اقلیتوں کو باختیار بنایاجاسکے ۔ اس کے علاوہ صلاحیتوں کو فروغ دینے اور خواتین کی لیڈر شپ کے پروگرامس شروع کرنے کی سفارش کی گئی ۔ پالیسی تھنک ٹینک نے سال2017-18 سے2019-20تک تین سال کے ایکشن ایجنڈے کے تحت یہ سفارشات کی ہیں جسے آج وزیر فینانس ارون جیٹلی نے جاری کیا۔ نیتی آیوگ کا تاثر ہے کہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت مسلمان معیشت ، صحت اور تعلیم کے پیمانوں میں دوسرے فرقوں سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔ تنخواہ یافتہ ملازمین میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے ۔ مسلم ورکرس عام طور پر غیر منظم شعبہ سے وابستہ ہیں جن میں اجرتیں کم ہیں، کام کرنے کے حالات ناقص ہیں اور کوئی خاص سماجی تحفظ حاصل نہیں ہے ۔ نیتی آیوگ نے حکومتوں کو مشورہ دیا کہ وہ وزیر اعظم کے پندرہ نکاتی پروگرام کے تحت اقلیتی فرقوں کی فلاح و بہبود کے لئے فنڈس مختص کریں۔ نیتی آیوگ نے یہ بھی کہا کہ اقلیتی آبادی والے علاقوں میں منظورہ سکنڈری اور سینئر سکنڈری اسکولس کا رکرد بنائیں جائیں ۔نیتی آیوگ نے نوٹ کیا کہ اقلیتی آبادی والے علاقوں میں سال2006-07سے منظورہ 555بالیکا ودیالیہ اسکولس میں مسلم لڑکیوں کی بھرتی کی شرح2013-17تک بھی صرف16.39ہے۔ نیتی آیوگ نے کہا کہ بھرتیوں میں اضافہ کے لئے اجتماعی ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کی جانی چاہئے اور طلباء کے لئے اسکول اسٹائفنڈ یا کیش کی منتقلی کے پروگرامس جیسے اقدامات کئے جائیں ۔ نیتی آیوگ نے کہ اکہ ملک میں مدارس کی ایک بڑی تعداد ہے اور ان مدارس کو عصری بنانے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئے ، جہاں کمپیوٹرس، لیبس، لائبریریز کے بشمول نصاب میں اصلاحا ت کرنی چاہئے ۔ نیتی آیوگ نے کہا کہ مدرسوں میں پڑھنے والے طلباء کے لئے جو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ کے امتحانات میں شرکت کرنا چاہتے ہیں ۔ فیس معاف کی جانی چاہئے۔ اقلیتوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کو مضبوط و مستحکم کرنے کے حوالے سے نیتی آیوگ نے کہا کہ تمام صراحت کردہ اضلاع میں ماڈل ڈگری کالجس کے قیام کا کام تین سال کی مدت میں پورا کیاجانا چاہئے ۔ نیتی آیوگ نے کہا کہ ان روایتی فنون اور ہنر پر خصوصی توجہ دینی چاہئے ۔ جو اقلیتی فرقوں میں عام ہیں ۔ اقلیتی فرقہ کی خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے رپورٹ میں کہا گیا کہ عورتوں میں لیڈر شپ کے پروگرام نئی روشنی کو تمام اضلاع تک پھیلانا چاہئے جہاں اقلیتی فرقہ کی خاطر خواہ آبادی ہے ۔ تمام اداروں میں اقلیتی فرقہ کی خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنانا چاہئے ۔ اس دوران نیتی آیوگ نے کہا کہ شمالی ہندوستان میں فضائی آلودگی کی سطح تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے ۔ نیتی آیوگ نے اس کے لئے پٹرول پر زیادہ ٹیکس کے بشمول کئی اقدامات کی سفارش کی ۔

35اے ہٹانے کا مقصد مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے ۔ میر واعظ
سری نگر
یو این آئی
حریت کانفرنس(ع) کے چیئرمین میر واعظ مولوی عمرفاروق نے کہا کہ دفعہ 35اے کو ہٹانے کا منصوبہ صرف جموں و کشمیر کی مسلم آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے اور کشمیریوں کے پیدائشی حق یعنی خود ارادیت جس کا بقول ان کے خود ہندوستان اور اقوام متحدہ نے کشمیری عوام سے وعدہ کیا ہے کو چھیننا ہے ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت ہندوستان عدلیہ کا سہارا لے کر دفعہ 35اے کو ہٹا کر کشمیرکا ہندوستان کے ساتھ انضمام کرنا چاہتی ہے ۔ میر واعظ نے ان باتوں کا اظہار جمعرات کو یہاں میر واعظ منزل راجوری کدل میں جموں و کشمیر عوامی مجلس عمل جس کے وہ صدر ہیں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عوامی مجلس عمل کے ایک ترجمان نے کہا کہ مذکورہ اجلاس میں پارٹی کے ایگزیکٹیو ممبران، پائین شہر کی تاجر برادری ، طلباء، ائمہ، مساجد اور سیول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے شرکت کی ۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری سطح پر لگاتار بندشوں اور قدغنوں کے باعث گزشتہ سات ماہ کے دوران عامی مجلس عمل کا کوئی اجلاس ممکن نہیں ہوسکا تاہم یہ اس سال پہلی مرتبہ ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر تنظیم کے زیر اہتمام خصوصی اجلاس میں دفعہ 35اے کے حوالے سے کشمیر میں پیدا شدہ انتہائی نازک صورتحال نوجوانوں کی روز مرہ ہلاکتوں اور این آئی اے کی جانب سے چھاپوں اور گرفتاریوں پر تفصیل کے ساتھ غوروخوض کیا گیا۔ میر واعظ نے دفعہ 35اے کے خلاف ہورہی مبینہ سازوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام ایسے منصوبوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور وہ اپنے حق کی خاطر پچھلے 70سالوں کی طرح برابر پر امن اور بہادری سے ایسے حربوں کا مقابلہ کریں گے ۔انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت ہندوستان جموں و کشمیر کو ایک کالونی کی طرح اس پر اپنا کنٹرول کرکے یہاں حق خود ارادیت کی خاطر اٹھنے والی آوازوں کو دبانا چاہتا ہے ۔ جی ایس ٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے میر واعظ نے کہا ہندوستان کی قیادت کو لگتا ہے کہ اس قانون کو لاگر کرنے سے کشمیر کا اقتصادی انضمام ہندوستان کی باقی ریاستوں سے ہوا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح انہیں لگا تھا کہ نوٹ بدلی سے یہاں حق خو د ارادیت کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو دبایاجاسکے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں