کتنے غیر محفوظ ہیں مسلمان؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-23

کتنے غیر محفوظ ہیں مسلمان؟

Indian-unsafe-muslims
ایک الوداعی پیغا م میں سبکدوش نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری نے کہا تھا کہ ملک کے مسلمان خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیںِ جو کچھ انہوں نے کہا اس پر غوروخوض کے بجائے آر ایس ایس اور بی جے پی نے حامد انصاری کی مذمت کی ۔ بعض تو یہ کہنے تک سے بھی نہیں چوکے کے انصاری کسی ایسے ملک میں منتقل ہوجائیں، جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہوں۔
تلخ ترین رد عمل کا مظاہرہ وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ کہہ کر کیا کہ انصاری اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتے ہیں ، اعلیٰ عہدوں پر فائز بعض دیگر افراد نے بھی کم و بیش اسی طرح کے تبصرے کیے ہندو لیڈران کی طرف سے تفکر و تجزیہ کا کوئی بھی اشارہ نہیں نملا اور اس طرح مسلمانوں کے دلوں سے خوف دور کرنے کا ایک بڑا موقع گنوادیا گیا ۔ یہ درست ہے کہ نائب صدر جمہوریہ اسی تاثر کا اظہار پہلے بھی کرسکتے تھے اور منصب پر رہتے ہوئے اپنا استعفیٰ بھی پیش کرسکتے تھے ، لیکن ایک اور طرح کا بحران پیدا ہوجاتا، جس کا ازالہ ماہرین آئین کے لئے مشکل ہوجاتا اور اس طرح ملک پر شک اور بے یقینی کی فضا طاری ہوجاتی ۔ اقلیتی فرقہ کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ جب بھی کوئی موقع آتا ہے خصوصاً منصب سے سبکدوش یا دست بردار ہوتے ہوئے ہر مسلم لیڈر اپنے فرقہ کی بہبود کے بارے میں شکوک کا اظہار کرتا ہے ۔ یہ تبصرہ کہ انصاری اپنی پسند کے کسی بھی ملک میں جاسکتے ہیں، کسی طرح بھی اس نکتے سے موزونیت نہیں رکھتا جو انہوں نے اٹھایا تھا ۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ذاتی طور پر وہ محفوظ ہیں یا غیر محفوظ ہیں۔ انصاری تو صرف مسلمانوں کے خوف سے آگاہ کررہے تھے ۔انصاری پر ذاتی حملوں سے کام نہیں چلے گا ۔ سرکاری لیڈران کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ حامد انصاری نے کیا کہا تھا اور صورت حال کو درست کرنے کے لئے اقلیتی فرقہ اپنے اندر تبدیلیاں کرسکتا ہے ، لیکن اس پیغام کو اس کے اصل جذبے کی شکل میں آگے نہیں بڑھایا گیا ۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے مبینہ طور پر اس خیال کی توثیق کی ہے کہ چونکہ انصاری ہندوستان میں خوش نہیں ہیں تو وہ کہیں بھی جاسکتے ہیں ۔ ایک ہندو تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے اس تبصرہ کو ایک نمائندہ موقف کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے ، جو بد قسمتی سے پورے معاملہ کو ہندومقابل مسلمان کی پرانی بحث کی طرف لوٹا دیتا ہے ۔
چونکہ انصاری کا بیان عوامی ملکیت ہے اور یہ ملک کے نائب صدر جمہوریہ کا بیان ہے۔ اس پر بشمول پارلیمنٹ تمام ذمہ دارانہ فورموں میں بحث ہونی چاہئے ۔ مرکزی حکومت نے ماضی میں یہ جاننے کے لئے کہ مسلمانوں کو کیا محسوس ہوتا ہے ایک کمیشن کی تشکیل کی تھی ۔ کمیشن کی قیادت کرنے والے جسٹس راجندر سچر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ دلتوں سے بھی بر ا سلوک ہوا ہے اور انہوں نے یہ دیکھا کہ کمیونسٹوں کے تیس سالہ اقتدار کے بعد مغربی بنگال میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کی کل تعداد2.5فیصد ہے ۔ یہ جاننے کے لئے سچر رپورٹ کی کوئی بات اس سے مختلف تو نہیں ہے، ایک اور کمیشن بٹھانے کا صحیح وقت آگیا ہے ۔ بد قسمتی سے اس سے پہلے دیگر مسلم لیڈران نے اسی طرح کے افسوسناک مشاہدات کا اظہار کیا ہے۔ در حقیقت بعض معروف شخصیتوں نے بھی ان کی آواز میں آواز ملائی ہے ۔ مثال کے طور پر فلم اداکار عامر خان نے ودسال پہلے ہندوستان میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری پر اپنی اہلیہ کرن راؤ کے خوف کے حوالہ سے ایسا ہی خیال ظاہر کیا تھا، عامر خان نے کہا: جب میں کرن سے گھر پر بات چیت کرتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ کیا ہم ہندوستان چھوڑ دیں؟ یہ کرن کے لئے بھیانک اور بڑا بیان ہے ۔ اسے اپنے بچے کا ڈر ہے ، اسے اس کا ڈر ہے کہ ہمارے ارد گرد کس طرح کا ماحول پیدا ہوگا ۔ وہ ہر روز اخبارات کے صفحے پلٹنے سے ڈرتی ہے ۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کا اور خطرے کے علاوہ بڑھتی ہوئی بے چارگی کا بھی۔ آپ محسوس کریں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ آپ کی ہمت پست ہوجائے گی ، یہی احساس مجھ میں بھی ہے ۔
ایک ایوارڈ تقریب میں بولتے ہوئے عامر یہ کہتے ہوئے کہ تخلیق کاروں کی طرف سے انعامات لوٹانے کی توثیق کی کہ یہ ان کے عدم اطمینان اور مایوسی کے اظہار کا ایک طریقہ تھا۔ معروف اداکار نے مزید کہا کہ ہمارے منتخب کردہ لوگ، پانچ سال تک ہماری دیکھ بھال کرنے کے ذمہ دار لوگ، ریاست یامرکز میں، جب لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں تو ہم انہی افراد سے قومی موقف اختیار کرنے کی توقع کرتے ہیں یعنی کہ وہ پرزور بیان دیں کہ قانونی کارروائی کی رفتار تیز کریں۔ جب ہم ایساہوتے دیکھتے ہیں تو ہم میں تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے اور ایسا نہ ہونے پر عدم تحفظ کا ۔عامر کے اس تبصرے پر بی جے پی کا رد عمل فطری تھا ، جس نے عامر کی دلیل کو مسترد کردیا۔ بی جے پی ترجمان شاہنواش حسین نے کہا کہ عامر خوفزدہ نہیں ہیں، بلکہ عوام کو ڈرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہندوستان سے انہیں تمام شہرت و عزت ملی ہے اور انہیں بھولنا نہیں چاہئے کہ اسی ملک نے انہیں اسٹار بنایا ہے ۔ کانگریس نائب صدر نے جم کر عامرکا دفاع کیا اور یہ تجویز رکھی کہ مودی حکومت عوام سے رابطہ کر کے یہ معلوم کرے کہ وہ انتشار کیوں محسوس کرتے ہیں۔
اپنے ایک ٹوئٹ میں راہل نے کہا کہ حکومت اور مودی جس پر سوالات قائم کرنے والے افرا دکو غیر محب وطن ، وطن مخالف اور دوسروں کے اکسانے پر کام کرنے والا قرار دینے کے بجائے بہتر ہے کہ حکومت عوام سے رابطہ کرکے یہ جانے کہ انہیں کون سی بات پریشان کررہی ہے ۔ لیکن بی جے پی کے ترجمان نے راہل کے تبصرے کو چٹکیوں میں اڑا دیا کہ ملک کے اندر ملک کو بدنام کرنے کی ایک سازش چل رہی ہے ۔ اصل مسئلہ اس لکیر کا ہے جو ریڈ کلف نے مذہب کی بنیاد پر کھینچی تھی ۔ انہوں نے ملک کے بٹوارے کے دوران ہوئی ہلاکتوں پر اظہار افسوس تو کیا، لیکن لکیر میں تبدیلی نہیں کی۔ اس لکیر کے پاس کے افراد پاکستان والے لوگ ہیں جو آہستہ آہستہ اور بتدریج اسلامی دنیا کا حصہ بننے جارہے ہیں۔ ان پر بنیادپرستی کی گرفت مضبوط ہوچکی ہے۔ سرحد کے دوسری طرف عملا کوئی ہندو یا سکھ نہیں ہے ۔ پاکستان میں عیسائیوں کو اقلیت کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کی شکایت یہ ہے کہ چرچ تباہ کیے جاچکے ہیں اور جبراً مذہب تبدیل کرایاجارہا ہے ۔ جمہوری طرز پر منتخب مرکزی وزیر اپنی مرضی سے جو چاہتا کرتا ہے ۔ لیکن فوج کو حرف آخر کا درجہ حاصل ہے ۔ بد قسمتی سے فوج پھر آلودگی کی زد پر آرہی ہے ۔ حامد انصاری کے الفاظ گہری معنویت رکھتے ہیں، کیوں کہ ہندوستان میں ایک طرح کا نرم ہندو تو پھیل رہا ہے جن لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کے انتظام کی باگ ڈور ہے وہ تفریق کو ہوا دے رہے ہیں کیوں کہ ہندومقابل مسلمان کے نام پر لڑے جانے والے انتخابات میں فائدہ ہندوؤں کا ہی ہوتا ہے ۔ جمہوری ہندوستان کا جمہوری شیرازہ تار تار ہوکر بکھر رہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں سے زیر عمل سیکولرزم کو شدید خطرہ لاحق ہے ۔

How unsafe are Muslims in India? Column: Kuldip Nayar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں