اردو صحافت اور عصری تقاضے - فیس بک مذاکرہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-22

اردو صحافت اور عصری تقاضے - فیس بک مذاکرہ

urdu-journalism
محمد علم اللہ
گذشتہ دنوں میرے دوست اور 'دی وائر' اردو کے ایگزیکیٹیو ایڈیٹر جناب مہتاب عالم کے توسط سے وائر اردو کے لئے کچھ مضامین کے تراجم اور کچھ کی ادارت کا اتفاق ہوا ۔ اس درمیان میں نے ایک چیز شدت سے محسوس کی کہ ہندی اور انگریزی میں صحافت کافی بالغ، پختہ، وقیع، معلوماتی اور مضبوط ہے جبکہ ٹھیک اس کے برعکس اردو میں انتہائی سطحی ،کمزور اور لاغر ۔
بلامبالغہ میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ اردو میں مہینوں بلکہ کبھی تو شاید برسوں میں ایک آدھ مضامین اس قدر وقیع ، علمی اور معلوماتی پڑھنے کو ملتے ہیں جن کے بارے میں ہم کہہ سکیں کہ ہاں واقعی طبیعت کو سیری حاصل ہوئی یا کچھ نیا سیکھنے کو ملا ۔
اس احساس کا اظہار میں نے اردو کے اپنے دو سینئر احباب اور صحافی جناب 'شاہد الاسلام' اور جناب 'اشرف بستوی' سے کیا تو انھوں نے بھی میرے خیال کی تائید کی ۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ یہاں پر میں اردو کے قلم کار ، صحافی ، محققین اور مدیران کو بھی ٹیگ کر رہا ہوں اس امید کہ ساتھ کہ وہ کچھ وجہ ضرور بتائیں گے اور کم از کم اپنے اخبارات میں اس کمی کو دور کرنے کی سعی کریں گے ۔

سید ظفرالاسلام
شاید اس کی وجہ اردو کے حلقہ احباب کا تنگ ہونا ہے اور اس کے لیے کوشاں نہ ہونا ہے۔

ظفر عمران
اس کی وجہ واضح ہے۔ ہندوستان میں اردو رسم الخط سیکھنے سے روزگار میں مدد نہیں ملتی، یہ تو کچھ لوگ ہیں جو مسلمان کی زبان کے طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انھیں جہاں کہیں سے مواد ملتا ہے، لے لیتے ہیں، کیوں کہ اردو اخبار کم بکتے ہوں‌ گے، کم اشتہار ملتے ہوں‌ گے ان کے بجٹ نہیں ہوتے کہ لکھنے والوں کی مدد لیں۔

مکرم نیاز
مجھے آپ کی بات سے مکمل اتفاق نہیں۔ اردو اخبار بکتے بھی ہیں اور سرکاری/غیر سرکاری اشتہار بھی انہیں ملتے ہیں ۔۔۔ چند بڑے اخبار مالکان کے پاس بجٹ بھی مناسب ہوتا ہے کہ قلمکار کو معاوضہ دیں ۔۔۔ مگر نہ وہ قلمکار کو کوئی محنتانہ دیتے ہیں اور نہ ہی معاوضہ دے کر قلمکاروں سے مخصوص موضوعات پر تحقیقی مضامین لکھنے کی ترغیب دلاتے ہیں ۔۔۔۔۔

عاطف بٹ
خطابت اور نعرے بازی دو ایسے بنیادی عناصر ہیں جن کے بغیر اردو صحافت چلتی ہی نہیں۔ برسوں بلکہ عشروں سے قارئین کو ان دونوں چیزوں کی عادت پڑ چکی ہے، لہٰذا اردو میں آپ کو سنجیدہ، وقیع اور پختہ قسم کی چیزیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ جب تک ان دونوں عناصر سے جان نہ چھڑائی جائے تب تک اردو صحافت سے سنجیدگی اور پختگی کی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔

جاوید نہال حشمی
میں ظفر عمران سے اتفاق کرتے ہوئے کچھ اضافہ کرنا چاہوں گا۔
جس طرح ہندوستان میں اردو زبان ایک مخصوص قوم کی زبان ہو کر رہ گئی ہے، اسی طرح اردو صحافت بھی صرف مسلمانوں کی نمائندگی کرتی اور ان ہی کے مسائل کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے موضوعات میں تنوع نہیں ہونے کا سبب اس کا parochial ہونا ہے۔ یعنی اپنی قوم سے باہر کے مسائل پر بہت کم لکھا جاتا ہے۔

مکرم نیاز
کیوں کم لکھا جاتا ہے؟ کیا اس کی کچھ ٹھوس وجوہات نہیں ہیں؟ کیا آپ ، میں ، علم اللہ ، یحیی خان وغیرہ ایک سے ایک منفرد و متنوع موضوعات پر اردو میں لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ یقیناً رکھتے ہیں ۔۔۔ مگر ہماری بھی مجبوریاں ہیں ۔۔۔ ہم فی سبیل للہ کچھ حد تک ہی کر سکتے ہیں ہمیشہ نہیں۔ کوئی ہے جو سامنے آئے اور ہندوستانی قلمکاروں کو معقول معاوضہ دے؟؟ ۔۔۔ یقیناً اردو والے ہندی/انگریزی کے علاوہ پاکستانی قلمکاروں کو بھی پیچھے چھوڑنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ یہ مذاق نہیں سنجیدہ دعویٰ ہے۔

یحیی خان
بہترین موضوع اٹھایا ہے بھائی محمد علم اللہ نے ، بقول آپ ہی کے " دو روپئے میں اوبامہ کا انٹرویو چاہئیے ہوتا ہے اردو اخبارات کے انتظامیہ کو "۔
شکریہ مکرم نیاز صاحب ، میرا ماننا تو یہ ہیکہ اردو صحافت میں لکھنے والے بہت ہیں اور مکمل حوالوں کیساتھ لکھیں گے ،اور بہترین لکھیں گے ! لیکن ان دنوں کوئی بھی اردو اخبار بے باک اور تحقیقاتی رپورٹس کو شائع کرنے سے گھبرا رہا ہے ( بعض معاملات میں تو اشخاص اور اداروں کو تحقیقاتی رپورٹ بتا کر ہی سودا بازی کرلی جا رہی ) اب کون آگے آئے گا لکھنے کیلئے؟ اعراس شریف ، مجالس ، دیوان خانوں کے مشاعروں کی خبروں کی جانب واپس لوٹ رہی ہے اردو صحافت! اگر کوئی نمائندہ کہیں سے خبریں لا بھی لیتا ہے تو دیگر " نااہل" ساتھیوں کی -- جل جاتی ہے ، اور شکاتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ ان کو ہی فوقیت دی جا رہی ہے دیگر زبانوں کے اخبارات باقاعدہ اونچا معاوضہ دیکر مضامین حاصل اور شائع کرتے ہیں اور عنوان دیکر مضامین لکھاتے ہیں ۔ چند اردو اخبارات تو اب مفت میں راوش کمار کی خبروں کا اردو ترجمہ کرکے شائع کر رہے ہیں اور جہاں سے یہ مضمون / ویڈیو اٹھایا ہے ان کیلئے " بشکریہ " تک نہیں لکھ رہے ! اب پڑوسی ملک کے مضامین پر تو ایسے ہاتھ صاف کیا جارہا ہے گویا کہ تقسیم کے وقت معاہدہ ہوا تھا کہ ایسا کر سکتے ہیں !!

محمد ہاشم خان
انگریزی والوں کو مضمون لکھنے کے جتنے پیسے ملتے ہیں اس حساب سے وہ گھٹیا مضامین لکھتے ہیں۔ اردو والوں کے پاس پیسے نہیں سو ان کی ساری صحافت فرض کفایہ ہے۔ کچھ یہاں سے چرا لیا اور کچھ وہاں سے۔۔

اقبال حسن
میری نظر سے آپ کے اردو اخبارات کم گزرے ہیں اس لیے قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا عبث ہے لیکن پھر بھی غنیمت جانیے کہ اسی بہانے اردو زندہ ہے۔ مواد اور خیالات کے حوالے سے یہاں کی صحافت کو بھی بہت اعلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ادارتی تحاریر تک بعض اوقات زبان و بیان کے تعلق سے معیاری نہیں ہوتیں۔ یہ امر میرے لیے ہمیشہ باعث تعجب رہا کہ اردو کو مسلمان کی زبان فرض کر لیا گیا ہے جبکہ یہ ہندوستانی زبان ہے۔ اگر یہ فارسی رسم الخط میں نہ ہوتی تو شاید اس الزام سے مبرا ٹھہرتی۔

سلمی جیلانی
چونکہ میری دسترس آن لائن اخبار اور رسائل تک ہے اور اردو میں پاکستان کے جو جریدے آن لائن پڑھتی ہوں ان کے یہاں صحافت کے معیار کو پست تو نہیں کہا جا سکتا پیپر میڈیا کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی ویسے بھی اکثر رپورٹ بین القوامی اداروں سے ہی لی جاتی ہیں اور ترجمے کے ذریعے اردو میں منتقل ہوتی ہیں۔ عمومی طور پر جو سوال علم اللہ نے اٹھائے ہیں ان کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انگریزی میں پلیجرازم [plagiarism] ایک جرم ہے جس کی سزا جیل ہو سکتی ہے۔ دوسرے کاپی رائٹ ایکٹ ، اور پرائویسی ایکٹ کے فعال ہونے کی وجہ سے چوری کر کے لکھنا ناممکن ہے اس کے علاوہ بینچ مارک اور دوسرے اصولوں کی موجودگی میں سب کو معیار کی ایک خاص سطح کی پابندی کرنی پڑتی ہے اس کے لئے انہیں اپنے ملازمین کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے مغربی ملکوں میں صحافت ایک باوقار پیشہ ہے اس کی وجہ معیار کا بلند ہونا ہی ہے۔

اقبال حسن
ارے آپ یہ کہہ رہی ہیں۔ اس دن میری بیوی مجھے بتا رہی تھیں کہ یہاں ایک ڈرامہ سیریل چل رہا ہے جس کے پورے پورے سین کسی ظالم نے میرے ڈرامہ سیریل رائیگاں سے اُڑا کر معمولی سی تبدیلی کے ساتھ چھاپ دیے ہیں! یہاں ایسی چوریوں کا تدارک کیا ہی نہیں جا سکتا۔

سلمی جیلانی
اوہ بہت افسوس ناک صورت حال ہے لیکن اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے اگر تمام رائٹر برادری مل کر ان چوریوں کے خلاف کوئی موثر اقدام کے لئے جد و جہد کرے، کاپی رائٹ ایکٹ اور دوسرے انٹرنیشنل قوانین کو لاگو کیا جائے۔

محمد ہاشم خان
علم اللہ صاحب آپ نے جو مفروضہ قائم کیا ہے کہ اردو میں صحافت ہے مجھے اسی پر اعتراض ہے اردو میں صحافت نہیں ہے محرری اور چوری چماری ہے۔ آپ نے کب کسی اردو صحافی کو کسی اہم جائے حادثہ پر دیکھا ہے؟ کوئی ایسی مثال کہ ممبئی کا کوئی صحافی کسی حادثے کو کور کرتے ہوئے جھارکھنڈ میں آپ کو ملا ہو؟
ای ٹی آئی پی ٹی آئی رائٹر اے ایف پی اے پی سب انکے ڈیسک پر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اردو اخبارات کے 99 فیصد مالکان کمیونٹی سوداگر ہیں جو صحافت کے ethics سے بس اتنا ہی واقف ہیں کہ جہاں جس قیمت پر موقعہ ملے بیچ سکیں۔ پاکستان کی اردو صحافت اور بھی زیادہ ناگفتہ بہ ہے کہ تمام سرکاری مراعات اور عوامی حمایت (عوامی حمایت ریڈرشپ کے معنی میں ہے) وہ کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں رہے نیز زرد صحافت حاوی رہی۔ وہاں کے اداریے پڑھتا رہتا ہوں۔ معذرت خواہ ہوں کہ کوئی خاص کیفیت نہیں پیدا کرتے۔ بہت کچھ ہے کہنے کے لیے کہاں تک سنو گے اور کہاں تک ہم سنا پائیں گے؟

یحیی خان
محترم محمد ہاشم خان صاحب ، ممبئی کا مفلس اردو صحافی بھلا جھارکھنڈ جاکر کیسے کچھ کور کرسکتا ہے !! مقامی کوریج کیلئے جانے کیلئے اسکو ٹیکسی کا کرایہ تک نہیں دیا جاتا !! اور نہ ہی بیچارہ کی اتنی آمدنی ہوتی ہیکہ اپنی کار / ٹو وہیلر مینٹین کرسکے سب مقامات کا یہی حال ہے جناب والا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر معاوضہ اچھا دیا جائے تو جھارکھنڈ تو کیا اردو کا صحافی دنیا کے کسی بھی کونے مین جاکر کوریج کرسکتا ہے !!

آزاد میر
ہمارے ہاں اردو صحافت، مطالبہ، احتجاج، محرومی کا رونا اور شکایتی رپورٹنگ کا نام ہے۔ اس میں اب کاپی پیسٹ بھی شامل ہو چکا ہے۔۔۔۔اپنی محنت اورخود کے ذرائع سے جو خبریں چھاپی جاتی وہ اعلان برائے چندہ، اظہار تعزیت، مجلس، بزم شاعری کا انعقاد، اور دستار بندی، چاند دیکھنے، وغیرہ کی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتی ہیں۔ نتیجہ اردو اخبار جو تھوڑا بہت بکتےہیں اپنی انہیں ضروریات کی وجہ سے پڑھے جاتے ہیں۔ باقی خبروں کیلئے لوگ ہندی انگریزی اخبار اور ٹی-وی نوش فرماتے ہیں۔

منصور قاسمی
اردو صحافت ہندوستان میں اب تک باقی ہے ، یہی کچھ کم نہیں ہے۔ جن حالات پر آ پ کو شکوہ ہے ، مجھے اس سے بھی بدتر حالات مستقبل میں نظر آ رہے ہیں۔ سطحی اور غیر معیاری در آنے کی ایک وجہ صحافی کو خاطرخواہ معاوضہ نہ ملنا بھی ہو سکتا ہے ، مطلب جیسی دال بھات ویسی فاتحہ

محمد غزالی خان
منصور قاسمی بڑی حد تک آپ کی بات درست ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جیسی تیسی اردو صحافت زندہ ہے وہ دینی مدارس اردو کو زندہ رکھ کر اور اس طرح اردو اخبارات کو آکسیجن دے کر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مگر پھر بھی جب ایک کام ہو رہا ہے تو کیوں نہ اسے بہتر طریقے سے کرنے کی کوشش کی جائے؟ تھوڑی سی محنت اور کر لی جائے۔ مثال کے طور پر یونیفارم سول کوڈ پر لکھتے وقت یہ کہنے کے بجائے کہ "قانون بنانے والوں نے مسلمانان ہند کو یقین دلایا تھا کہ ان کے آئیلی قوانین محفوظ رہیں گے۔" کیوں نہ قاری کو حوالے کے ساتھ بتایا جائے کہ جس وقت دستور ساز اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کا مسئلہ زیر بحث آیا، مسلمانوں نے اس پر سخت اعتراض کیا جس کے جواب میں ڈاکٹر امبیڈکر نے یقین دلایا کہ ۔۔۔
"کسی کو اس بات سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگر حکومت کے پاس اختیارات ہوں گے تو وہ فوراً کوئی ایسا قدم اٹھالے گی جو مسلمانوں یا عیسائیوں یا کسی دوسرے فرقے کیلئے قابل اعتراض ہو۔ جن مسلم ارکان نے اس مسئلے پر تقاریر کی ہیں ان سمیت ہم سب کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اختیارات ہمیشہ محدود ہوتے ہیں۔۔۔ کیونکہ ان اختیارات کو استعمال کرتے وقت مختلف فرقوں کے جذبات کا خیال رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ کوئی بھی حکومت اپنے اختیارات اس انداز میں استعمال نہیں کر سکتی کہ وہ مسلمانوں کو مشتعل کر کے بغاوت پر آمادہ کر دے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی حکومت نے ایسا کیا تو وہ احمق حکومت ہوگی۔"
(حوالہ: Constituent Assembly Debates Vol VII)
ایسی کوشش کیلئے اضافی وسائل کی ضرورت نہیں۔

آزاد میر
اخبار بکے گا تب صحافی کو معقول معاوضہ ملے گا۔ اور اخبار تب بکے گا جب معقول صحافت ہوگی۔

محمد ہاشم خان
جو اصل غم ہے وہی غم کوئی نہیں کرتا
ہماری عقل کا ماتم کوئی نہیں کرتا
(رشید کوثر فاروقی)
میں تو اپنی عقل کا ماتم کر کے خوش ہو جاتا ہوں

وصی بختیاری
بھائی محمد علم اللہ نے آج دکھتی رگوں پر انگلیاں رکھ دیں
اے پرستارانِ نغمہ چھوڑ کر تارِ رباب
آج کچھ دکھتی رگوں پر انگلیاں رکھتا ہوں میں

محمد غزالی خان
آپ سے پورا اتفاق ہے ۔ بدقسمتی سے اردو میڈیا میں آج بھی اپنے ذاتی خیالات اور جذبات کے اظہار کو ہی صحافت سمجھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو پورے واقعے پر تبصرہ ہو جاتا ہے جبکہ واقعے کی تفصیلات لمبے چوڑے مضمون میں برائے نام ہی ملیں گی۔ مضمون پڑھتے وقت ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا مگر جن لوگوں کو اردو سے انگریزی یا کسی اور زبان میں ترجمہ کرنا پڑا ہو انہیں معلوم ہوگا کہ بڑے بڑوں کے مضامین کی زبان بھی اتنی مبہم اور غیر واضح ہوتی ہے کہ ترجمہ کرنے والے کو پہلے خود کوئی بات سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے بیچارہ ترجمہ کیا کرے گا؟ جو معلومات فراہم کی بھی جاتی ہیں ان کا کوئی حوالہ مشکل ہی سے ملے گا۔ رپورٹنگ انتہائی ناقص ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تو رپورٹنگ کے نام پر پورا تبصرہ ہوتا ہے۔ آپ حالات حاضرہ کو چھوڑ دیجئے مذہبی کالموں تک کا یہی حال ہے جس پر مزید تبصرہ کرنا خطرے سے خالی نہیں ۔ بہتر ہے کہ یہیں رک جایا جائے۔

شمس تبریز قاسمی
اردو صحافت کے بجائے ہندوستان کی اردو صحافت لکھیں۔ پاکستان میں اردو صحافت بہت مضبوط ہے۔
دوسری بات اردو صحافت کی بے بسی کا شکوہ کرنے کے ساتھ کبھی اس کے اسباب وسائل اور قارئین کا بھی جائزہ لیں۔ اردو صحافت ہندوستان میں غیروں کے کرم پر زندہ ہے ۔ آپ جائزہ لیں کہ آپ کے محلے میں کتنے لوگ اردو اخبارات خریدتے ہیں؟

محمد غزالی خان
شمس صاحب ، بات تو آپ کی ٹھیک ہے مگر بہت سے مسائل ایسے ہیں جن پر خواہش ہو تو قابو پایا جا سکتا ہے، مثلاً مبالغہ اور سخت زبان (strong language) سے با آسانی بچا جا سکتا ہے ۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ بڑے بڑوں کی تصنیفات تک ان کمزوریوں سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ حال ہی میں ایک بزرگ دوست کے پاس ایک دینی شخصیت کی سوانح دیکھی۔ بڑی ضخیم کتاب ہے جسے ایک نامور ہستی نے مرتب کیا ہے۔ اﷲ جانتا ہے جس شوق سے میں اسے پڑھنے کیلئے لایا تھا وہ چند صفحات پڑھتے ہی رفوچکر ہو گیا۔ کتاب تو پھر بھی پڑھی مگر میں اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتا کہ نہایت مایوسی ہوئی۔

ابو طلحہ
اصل بات یہی ہے۔ جتنے لوگوں نے طنز و تشنیع سے متعلق الفاظ کی دکان لگائی ہے، وہ تجزیہ کرنے، اسباب و علل سے واقفیت حاصل کرنے سے عاجز محض ہیں اور رد عمل کی نفسیات کا شکار ہیں!

شمس تبریز قاسمی
مبالغہ آرائی اور جذباتیت ایک مسئلہ ہے ، بہت سے نئے لکھنے والے ایسے ہیں جو جذبات میں حد سے تجاوز کرجاتے ہیں ۔ اس کیلئے تربیت کی ضرورت ہے۔

شمس الرحمن علوی
یہ ایک عجیب و غریب مسئلہ ہے۔ اس میں نہ وسائل کی کمی والی بات ہے اور نہ زبان اور صرف مسلمان تک محدور رہنے کا معاملہ۔ یہ دراصل ویژن کی کمی، عدم واقفیت، ٹریننگ اور تربیت کی کمی ہے۔ اخبار اور جرنلسٹ کا کام خبر لانا ہوتا ہے، آپ سوسائٹی میں رہتے ہیں اور آپ کو خبریں نہیں ملتیں؟ اردو اخبار ہفتے یا مہینے میں کتنی ایسی خبریں چھاپتے ہیں جو دوسرے اخبار میں نہیں ہوتیں اور جن کی وجہ سے ان کو ڈسکس کیا جائے؟ اردو کے صحافی کی تربیت کا نظام دفتروں میں صحیح نہیں ہے اور نہ انکو رہنمائی کرنے والے ملتے ہیں۔ مسلم اداروں، اوقاف یا سیاستدانوں کی پریس کانفرینس کور کرنا اور اس میں بھی صرف بنیادی خبر لکھنا ہی صحافت نہیں ہے۔ بےحد چھوٹے اخبارات جو چھ اور آٹھ صفحے کے ہوتے ہیں اور انکا سرکیولیشن زیادہ نہیں ہوتا، انکے رپورٹر بھی جانتے ہیں کیسے اپنی خبر پر امپکیٹ ہو سکتا ہے، کیسے سرکار ایکشن لے سکتی ہے؟ زبان الگ ہو اسکے باوجود۔ یہاں مسلہ ہی دوسرا ہے۔ آپ رپورٹر ہیں تو ایک بیسک ٹرینینگ ہوتی ہے، کس خبر میں کس کا 'اقتباس' لینا ہے، اسکیم پر کس طرح لکھنا ہے، دس سے بارہ اہم 'بیٹ' ہوتی ہیں جس میں آپ شروع کے کئی سال کام کرتے ہیں، زمین پر اس 'بیٹ' کا ہر آدمی آپ کو پہچاننے لگتا ہے۔ مگر اردو اخباروں میں شاید یہ سکھایا نہیں جاتا۔ اگر ایک اینکاؤنٹر ہوا ہے تو اسکو کب تک فالو کرنا ہے اور کس کس طرح کہ اس پر ایکشن ہو، ایک غریب آدمی کی اگر پولس کی پٹائی سے موت ہوتی ہے تو آپ خاطی پولس والوں کو صرف سسپنڈ نہیں بلکو سخت سزا دلوا سکتے ہیں مگر آپکو پہلے وہ طریقے، اس نظام کا تو پتا ہو، 'بیٹ" میں سالوں محنت سے کام کرنے پر ان کا پتا چلتا ہے۔ ہر شہر میں ہر بیٹ میں آپکو کئی ایکسپرٹ صحافی ملینگے، مثال کے طور پر اگر کوئی پاور دیکھتا ہے تو اسے یہ سب تو معلوم ہوتا ہے کہ پاور کمپنیز میں کیا گھوٹالے چل رہے ہیں ساتھ ہی اسکے ٹیکنیکل اشیوز بھی اتنے معلوم ہو تے ہیں کہ کئ بار اسپیشلسٹ سے زیادہ اسے اسکی سمجھ ہوتی ہے، یہ سب لوگ ٹی وی پر نہیں آتے، مگر انکی نالیج کی وجہ سے انکی اہمیت ہوتی ہے، آپ کرائم دیکھتے ہیں تو آپ کو صرف پولیس کنٹرول روم یا تھانے یا پی ایچ کیو نہیں بلکہ انٹیلیجینس، اے ٹی ایس، لوک آیوکت، اور تمام برانچز، بٹالینز، سب جگہ جانا ہوتا ہے۔ شروعاتی چند سالوں کی محنت ہوتی اور پھر سب آپ کو جان جاتے ہیں، زندگی بھر خبریں خود چل کر آتی ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو 'اسٹرنگر' ہوتے ہیں مگر انکی طاقت سے سب واقف ہوتے ہیں کیون کہ وقت ضرورت وہ نیشنل ٹی وی چینل کے جرنلسٹس کو مزیدار اور ضروری اِن-پُٹ دیتے ہیں، وہ لوگ بھی ایسے اسٹرنگر کا خیال رکھتے ہیں اور اسکی بھیجی کسی خبر کو نیشنل بریکنگ نیوز بنا کر صوبے سے قومی لیول تک ہنگامہ کروا سکتے ہیں۔ زیادہ تر انگریزی اخباروں کے اسٹرنگر ہندی میں خبریں بھیجتے ہیں مگر باہر لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہوتا۔ افسوس کہ لوگ بغیر محنت کئے ہی سب کچھ چاہتے ہیں۔ اور ساتھ ہی دہلی میں کیرل کے ملیالی اخبار کے نامہ نگار بھی اکثر آپکو جرنلسٹس میں اپنی اہمیت منواتے ملینگے کیوں کہ انکے پاس خبر ہوتی ہے، تجربہ ہوتا ہے، یہاں عالم یہ ہے کہ حیدرآباد جیسے شہر میں جب روہت ویمولا کی موت ہوئی، آٹھ نو بجے رات میں پتا چل گیا تھا کہ کچھ ہوا ہے، مگر اردو ویب سایٹس خاموش رہیں، اگلے دن اردو اخبار خالی تھے۔ حد تو تب ہو گئی کہ سینٹرل یونیورسٹی میں جو مہم چلی جسکا پورے ہندوستان پر اثر ہوا اس کو ایک دن بھی بڑے اردو اخباروں نے نامہ نگار بھیج کر کور نہیں کیا۔ بےحد سطحی اور ایجینسی جیسی رپورٹس اکا دکا نظر آتی تھیں، جب کہ حیدرآباد کے اخباروں کو اسمیں لیڈ کرنا چاہیئے تھا۔ جھارکھنڈ میں بچہ چوری میں لوگ مارے جاتے ہیں تو اگلے دن نہیں تو کم از کم دو دن بعد اردو اخباروں میں جامع گراؤنڈ رپورٹ تو ہونی چاہیے، نہیں ہوتی، ہاں ویوز ضرور ہوتے ہیں۔ صحافی کو خبر پر نظر رکھنی چاہیئے، سیاستدانوں کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر فیس بک پر ڈالنے سے صحافت یا اخبار نہیں چلتا، کیوں کہ یہ تو سب سے آسان ہے، صحافی کو 'ایکسیس' ہوتا ہے، اصل چیز تو خبر ہے۔
عوام اور خواص ہر جگہ برانڈ کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی اس بات کی کہ آپ نظر آیئں۔ ایسے بہت صحافی ہوتے ہیں جو کہیں نہیں ہوتے مگر لوگ انہیں صحافی مانتے ہیں کیوں کہ وہ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، افسر یا کوئی مظلوم بھی انکو اس لیے خبر بتاتا ہے کیوں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے یہ خبر آگے نشر ہو جائے گی، وہ صحافی چاہے وہاٹس ایپ گروپس کے ذریعہ یا درجنوں دوسرے طریقوں سے خبر کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوتا ہے کیوں کہ وہ اس نیٹ ورک میں ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں، سارے اردو اخبارات غریب نہیں ہیں، کم از کم ایک رپورٹر کو تو بھیج کر اسپیشل سیریز کروا سکتے ہیں، مظفر نگر یا پہلو خان کی موت یا آسام میں شہریت کے مسلہ پر جو ہو رہا ہے، اس پر بریکنگ سٹوریز اردو اخبار میں کیوں نہیں ہوتیں؟ جو بعد میں انگریزی اور ہندی والے بھی فالو کریں۔ بالکل ہو سکتی ہیں- جو خبر لکھیگا یا چھاپیگا، اسی کی خبر ڈسکس ہوگی، اسی کو کل کوئی اسمبلی میں کوٹ بھی کریگا، ایکشن بھی ہوگا مگر۔۔۔

یحیی خان
متفق جناب ۔۔ اب چند حیدرآبادی اردو اخبارات کی یہ حالت ہے کہ انکے پاس سے صحافی بھاگ گئے ہیں، کمپوزنگ ، پروف ریڈنگ ، سب ایڈیٹر ، اور پیج میکنگ سب کام ایک دو ہی سنبھال رہے ہیں کیونکہ اردو صحافی کو بہتر تنخواہ نہیں دی جاتی اس سے بندھوا مزدور جیسا کام لیا جاتا ہے، اضلاع کے صحافیوں سے کہا جاتا ہے کہ اشتہار لاؤ اس میں سے کمیشن لے لو بس یہی ہے تمہاری تنخواہ ۔۔ ایسی صحافت سے تو بہتر ہے کہ آدمی ٹھیلہ بنڈی لگالے کم از کم روز دو تین سو روپئے کمالے گا ۔۔۔ !!!

شمس الرحمن علوی
یحیی خان بیشک، سیاست جیسے اخبارات کے پاس اتنے وسائل ہیں مگر افسوس جتنا امپیکٹ ہونا چاہیے تھا، نہیں ہے، اتنی بڑی ویب سائٹ ہے مگر اس کو بھی جرنلسٹ سرکلز میں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

یحیی خان
انتظامیہ کی اولین پسند اشتہارات ہیں آجکل ۔۔۔ نیوز جائے بھاڑ میں !!!

وصی بختیاری
آپ کے تفصیلی مراسلہ سے بہت سی باتیں معلوم ہوئیں؛ شکریہ محترم شمس الرحمٰن علوی صاحب

شمس الرحمن علوی
میں نے لکھا بے ربط ہے کیوں کہ میں کافی جلدی میں تھا۔۔۔۔کئ باتیں ڈسکس کرنے اور لکھنے کی ہیں مگر خیر۔۔۔

محمد علم اللہ
انتہائی معلوماتی گفتگو کی ہے علوی بھائی نے ایک دو دن میں اس کو ایک الگ سے پوسٹ بنا کے ڈالوں گا انشاءاللہ۔

محمد غزالی خان
اس بحث میں اگر اس خاص نکتے کو شامل نہ کیا گیا تو ناانصافی ہوگی اور وہ یہ ہے کہ اردو صحافت کا محور ہمارے ملی مسائل ہیں۔ یا یہ کہیے کہ اردواخبارات کمیونٹی نیوز پیپرز کا کردار زیادہ ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان اخبارات میں غیر ملی مسائل پر مواد یا تو ہوتا ہی نہیں یا بہت کم ہوتا ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا شکار کسی قدر ہماے انگریزی نیوز پورٹلز بھی ہیں۔ اس لحاظ سے دیگر اخبارات سے ان کا موازنہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ اور اردو میں لکھنے والے تمام صحافیوں کو ایک ہی خانے میں رکھ دینا بھی زیادتی ہے کیونکہ کئی نام ایسے ہیں جن کے کالمز میں معلومات بھی ہوتی ہیں اور جن مسائل پر وہ بات کرتے ہیں ان یر سیر حاصل بحث بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے سر دست جو نام ذہن میں آ رہے ہیں ان میں حسن کمال صاحب، حفیظ نعمانی صاحب، آغا منصور صاحب، ودود ساجد صاحب، اشرف بستوی صاحب، معصوم مراد آبادی صاحب وغیرہ شامل ہیں۔

محمد علم اللہ
کبھی کبھی میں بھی کوشش کرتا ہوں گو لکھتا کم ہوں

محمد غزالی خان
محمد علم اللہ، بالکل ۔ آپ یقیناًبہت اچھا لکھتے ہیں۔ میں بزرگوں میں آپ کو شامل نہیں کرنا چاہتا تھا!!!

افسر فریدی
اردو صحافت میں جو احباب ہیں وہ رپورٹنگ پر توجہ دیں تو صورت حال میں قدرے بہتری آ سکتی ہے۔ ہم اپنے وسائل اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق کم ہی کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری صلاحیت صرف جامعہ نگر کو کور کرنے کی ہے لیکن ہم پورے ملک کو کور کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے سب کچھ ہوا میں لکھتے ہیں۔ اخبار کا قاری گاہک ہوتا ہے آپ ان سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا مال خریدو تو ہم تمہیں آئندہ اچھا مال دیں گے ۔


Drawbacks of Urdu journalism in modern era, a dialogue on FaceBook.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں