یاد رفتگاں - ڈاکٹر زینت ساجدہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-05

یاد رفتگاں - ڈاکٹر زینت ساجدہ

Dr-Zeenat-Sajida
یہ عثمانین ایسی استاد ہیں جنہیں کم از کم حیدرآبادی تو بھول ہی نہیں سکتے۔۔ زینت آپا کسی اور کالج میں پڑھاتی تھیں اور ہم کسی دوسرے کالج میں۔۔۔ مگر یہ معلوم تھا کہ آپا کی جماعت کب ہوتی ہے۔ ہم فوراً اپنے کالج سے ویمنس کالج پہنچ جاتے تھے اور دیکھتے کہ آپا غالب کی روح کے لئے فاتحہ پڑھتی تھیں اور غالب پڑھاتی تھیں۔ واقعی غالب کو پڑھانے کا ان کا اپنا انداز ہوا کرتا تھا۔ وہ کالج میں داخؒ ہوتیں تو تمام لڑکیو ں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھر جاتی تھیں اور آپا جب کلاس میں جاتیں تو ایک سپہ سالار کی طرح ان کے پیچھے سبھی طالبات پہنچ جاتیں ۔ آپا کو نہ صرف اپنی کلاس کی طالبات یاد تھیں بلکہ ہم جیسے جو صرف اپا کی کلاس اٹنڈ کرتے تھے ، ان کے بارے میں وہ اچھی خاصی معلومات رکھتی تھیں۔ اس کا علم ہمیں اس طرح ہوا کہ میں ایک بار کلاس میں بیٹھے باہر دیکھ رہی تھی جہاں پیڑ پر ایک سانپ چڑیا کے گھونسلے کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ آپا نے فوراً تاڑ لیا کہ میں جماعت میں دماغی طور پر غائب ہیں۔ انہوں نے کہا ’ادھیش رانی صاحبہ کھڑکی کے باہر جوہورہا ہے اس کی آپ کو فی الحال ضرورت نہیں، میری آواز پر بھی دھیان دیجئے۔ میں حیران کہ میں تو اس کالج کی بھی نہیں ہوں مگر آپا کو میرا نام بھی معلوم ہے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ میرے پورے خاندان سے واقف ہیں۔
آپا اپنے مختصر سے فرصت کے وقت غریب بچوں کو پڑھاتی تھیں، شاید وہ واحد خاتون لکچرر تھیں جو غریب مالی اور مزدور کے بچوں کے لئے سوچتی تھیں۔ آپا عثمانیہ کے اس دور کی طالبہ تھیں جب یونیورسٹی میں پردے کا رواج تھا ۔ اردو سے ایم اے کیا اور ویمنس کالج کی لکچرر بن گئیں۔ شاید ہی کوئی لکچرر طالبات میں اتنی مقبول تھیں ، پڑھنا ان کی پہلی پسند تھی اور پڑھانا دوسری ۔ حیدرآبادی سماج کی کوئی بھی بات ایسی نہیں تھی جو آپا کو پتا نہ تھی، کائستھ سہاگن کی نتھ، اسکا لباس( جسے لوگڑا لہنگا کہتے تھے) ، مارواڑٰ گھروں، مہندی لگانے کے طریقوں اور ان کے مخصوص میٹھے، لباس اور طرز زندگی، راجپورت گھرانوں کے طور طریق، تہوار اور ڈریس کو ڈ شاید اب ان کے بارے میں خود ان لوگوں کو بھی معلوم نہ ہوگا ۔ آپا کا تعلق مشہور صوفی شاعر سے تھا، اس طرح صوفیانہ طرز زندگی ان کی پہچان تھی ۔آپا نے بیسوں طلباء کو ڈاکٹر بنوایا مگر خود کبھی نہیں سوچا کہ وہ خود بھی ڈاکٹر کہلانے کی مستحق ہیں۔ ان کو پی ایچ ڈی کے لئے اکسانے کا سہرا ڈاکٹر مسعود حسین خان کے سر جاتا ہے اور آپا نے وہ کام کر دکھایا کہ آج تک کسی محقق نے ان کے کام کی طرح کام نہیں کیا ۔ آپا نہ صرف ایک اچھی استاد تھیں بلکہ وہ ایک اچھی دوست بھی تھیں، وہ ڈانٹتیں تو احترام کرنا سکھاتی تھیں، بے حد کفایت شعار تھیں مگر ا پنے پر کم خرچتیں۔ ذرا سوچئے کہ خود تو بس سے سفر کرتیں مگر بچوں کو ریچھ اور بندر کا کھیل دکھانے کے لئے آٹو میں ریچھ اور بندر والے کا پیچھا کرکے بچوں کو یہ کھیل دکھاکر لاتی تھیں ۔ جب کچھ لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہا تھا کہ یہ فن جلد ہی ختم ہوجائے گا ۔ سچ ہے اب لوگوں کو اپنے کھانے کے لالے پڑے ہیںِ وہاں ریچھ اور بندر کو کیا کھلائیں گے۔ مجھے اپنے ایم فل کا کام کرنے کے لئے آپا کے پاس رہنا پڑا تھا ، ایک تو میرے گائیڈ کو تلگو نہیں آتی تھیں دوسرے شہر میں فسادات جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں آپ کے پاس رہ کر لکھوں اور وہیں اس میں ترمیم کرلوں ۔
اس سلسلے میں آپا سے مضمون کے علاوہ بہت سی باتیں سیکھنے کو ملتی تھیں۔اس وقت مجھے پتا چلا کہ آپا صرف غالب نہیں پڑھاتی ہیں، وہ تو سیاست دانوں کے دماغ بھی پڑھ لیتی ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھیں گے ۔ میں سوچتی کہ آپا نے اردو فیسٹول میں زندہ مہروں کی شطرنج کا ڈراما یوں ہی نہیں کیا ہوگا ۔ انہوں نے شطرنج کی پوری چالوں سے واقفیت حاصل کی تھی اور جب آپا تلگو کے ادیبوں پر ہم کو سمجھاتیں تو بھلے ہی وہ تیلگو روانی سے نہ پڑھیں مگر تلگو ادب سے وہ خوب واقف تھیں اور ان کی رہنمائی میں، میں نے اپنا ایم فل کیا۔ استاد زندگی بھر استاد رہتا ہے ، میں آپ کے پاس آتی جاتی رہتی اور میری رح کئی شاگرد آیا کرتے تھے حالانکہ اب سبھی اساتذہ کے زمرے میں آگئے تھے مگر جائے استاد تو جائے استاد ہی رہتی ہے ۔ ایک امریکی خاتون ہمارے گھر رہ رہی تھیں، ان کی تحقیق کا موضوع شیعہ سنی تھا۔ ابھی صدام حسین اور عراق کا مسئلہ ابھر کر سامنے نہیں آیا تھا۔ آپا نے ان خاتون کو ملوایا کیونکہ وہ مذہب کے تعلق سے جاننا چاہتی تھیں، پھر آپا سے دوبارہ ملنے کا اتفاق ہوا تو آپا نے کہا ان امریکیوں کو شیعہ سنی معاملے سے کیا کام، عراق کا پٹرول ہے جو ان کی دلچسپی ہے اور دو سال بعد انہوں نے جب صدام حسین کی گرفتاری کے بارے میں پڑھا تو پیشن گوئی کی طرح کہا کہ صدام حسین کو پھانسی بقرعید کو ہوگی۔ جب ایسا ہوا تو مجھے آپا کی بات یاد آئی کہ اردو کے طالب علم کو جغرافیہ ، تاریخ ، سائنس ، سیاست اور معاشیات سے واقف ہونا چاہئے تب ہی اردو ادب سمجھ میں آسکتا ہے ۔ آپا جامعہ کی دختر ہونے کی وجہ سے اس سے بے انتہا محبت کرتی تھیں ، حالانکہ ان کے ساتھ اس جامعہ کے لوگوں نے نا انصافیاں کیں مگر آپ کو کوئی فرق نہیں پڑا ۔ ان کی عقیدت اور محبت برقرار تھی، اس کا ثبوت ہم کو ان کے بہو کے تقرر کے موقع پر ہوا ۔۔۔۔کیونکہ شگفتہ کا تقرر عثمانیہ اور مانو دونوں میں ہوا تھا آپا کی خواہش کی تھی کہ وہ جامعہ عثمانیہ میں رہے۔ شاید وہ بھی آپا کی بات مان جاتیں مگر بہت سے لوگوں نے آپا کو مشورہ دیا کہ جامعہ عثمانیہ ایک اسٹیٹ یونیورسٹی ہے اور رمانو ایک مرکزی یونیورسٹی ہے اور شگفتہ نے پھر مانو کو چن لیا۔
آپا عموماً ہمارا نام لے کربلاتیں مگر جب ہماری کسی غلطی کی طرف سے اشارہ کرنا ہوتا تو وہ نام کے ساتھ القاب اور خطاب اور ڈگری سب لگاتیں، اس سے ہی ہم کو غلطی کا درجہ معلوم ہوجاتا کہ وہ کتنی معصوم اور کتنی سنگین ہے ۔آپا کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے ہوگا کہ آپا کو جامعہ سے وظیفے پر علیحدہ ہوئے کئی برس بیت گئے تھے مگر ان کے جنازے میں لوگوں کی تعداد اتنی تھی جتنی شاید بر سرروزگار ملازم کے جنازے میں بھی نہیں ہوتی ہے ۔ آپا کی برجستگی اور بے لاگ بات اکثر لوگوں کے دلوں پر اثر کرتی تھی، ایک واقعہ چنا ریڈی صاحب کے دور کا ہے ، وہ اردو کے کسی جلسے میں شرکت کررہے تھے اور سردارجعفری وغیرہ بھی موجود تھے ۔ آپا نے اردو کے فنڈس کے تعلق سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ڈاکٹر چنا ریڈی اردو کے دشمن ہیں یا دوست اس کا پتا نہیں ، لوگوں نے سمجھا کہ اب اردو کا فنڈ ختم مگر جب چنا ریڈی نے تقریر کی تو انہوں نے سب سے پہلے فنڈ اجرائی کی بات کی تھی ، وہ بھی عثمانین اور اردو میڈیم سے ایم بی بی ایس تھے۔ اساتذہ میں اب کوئی بھی نہیں رہا ہے ، سوائے یادوں کے اور آپا کی یاد تو ہرروز آتی ہے ۔

Dr Zeenat Sajida, a prominent name of Hyderabad Literary circles. Article: Udesh Rani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں