امرناتھ یاتریوں پر حملہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-07-23

امرناتھ یاتریوں پر حملہ

Attack-on-Amarnath-pilgrims
جب دہشت گرد سامنے سے حملہ کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں نتائج کا کوئی خوف نہیں ہے ۔ کشمیر میں امرناتھ یاتھ یاترا سے لوٹتے ہوئے سات یاتریوں کی ایک جوابی حملہ میں ہلاکت کا واقعہ کچھ اسی نوعیت کا ہے ۔ لشکر طیبہ نے بے جھجک پولیس وفوج کو نشانہ بنایا، گویا کہ دہشت گردوں کو اس بات کا علم تھا کہ ان کے خلاف جوابی کارروائی یاتریوں کے ساتھ چل رہی مسلح افواج کو ضرر پہنچانے کے ان کے عزم کے ساتھ ماند پڑ جائے گی ۔ اس حملے میں لشکر کا ہاتھ ہونے کا امکان ہے ،خصوصاً اس میں جب کہ اس نے اس کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے ۔ اگر اس سے وابستہ افراداس حملے میں ملوث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو بھی اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ایسا وہ خانہ زاد دہشت گردوں کی پردہ پوشی کے لئے کررہے ہیں ۔ جموں و کشمیر تک کی پولیس نے بھی لشکر پر انگشت نمائی کی ہے۔ عین ممکن ہے کہ لشکر ہی قصور وار ہو، مغربی ایشیا کے زیادہ تر ممالک میں اس کی اس قدر ڈھٹائی ہورہی ہے کہ وہ دوبارہ اپنی ساکھ قائم کرنا چاہتا ہے ۔اگر وہ ہندوستان کو خوف زدہ کرسکتا ہے تو اس کا پورا امکان ہے کہ مغربی ایشیائی ممالک اس کے خوف سے کانپنے لگیں۔ ملک کے عوام کی خوفزدگی بجا ہے ، کیونکہ ہلاک ہونے والے یاتری اس عقیدے کے روحانی سفر پر تھے جسے وہ عزیز رکھتے تھے۔ سیاست سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ، بد قسمتی سے جوں جوں دن گزرتے جارہے ہیں پوری کہانی کو سیاسی رنگ دیاجارہا ہے ۔ اس کا الزام بی جے پی کے سر جانا چاہئے ۔ اس نے یہ سوچتے کی زحمت نہیں کی ہے کہ ریاستی حکومت میں پارٹی کے حصہ داری ہے اور کچھ الزام اس پر بھی آئے گا۔یاتریوں پر حملے کا واقعہ پ ہلی بار نہیں ہوا ہے ۔ اگست2000میں دہشت گردوں نے95افراد پر گولی چلائی، جس کے نتیجے میں89افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔ یکم اگست کی راتمیں شروع ہونے والے حملوں کا سلسلہ منصوبہ بند سمجھا گیا تھا۔ اس کے اگلے سال مقامی حزب المجاہدین کے اعلان جنگ بندی کی مخالفت میں دہشت گردوں نے پہلگام میں یاتریوں کے بیس کیمپ پر حملہ کیا تھا۔ اس حملہ میں 32مہلوکین میں سے اکیس امرناتھ یاتری تھے ۔ اسی طرح 20جولائی2001ء کی رات میں کسی انتہا پسند نے امرناتھ مندر کے پاس دوہتھ گولے پھینکے اور پھر گولی چلائی ، جس میں تیرہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ حملہ امرناتھ گپھا کے راستے میں ایک سب سے اونچے پڑاؤ شیش ناگ کے قریب رات تقریباً ڈیڑھ بجے ہوا تھا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ2002ء میں امرناتھ کے زائرین کی حفاظت کے لئے15000حفاظتی کارکنان اور پولیس والے تعینات تھے ، پھر بھی دہشت گردانہ حملہ روکا نہیں جاسکا اور اس میں آٹھ افراد ہلاک اور تیس زخمی ہوگئے۔ خبروں کے مطابق یہ حملہ امرناتھ مندر کے راستے میں سورج نکلنے سے ذرا پہلے بننا کیمپ کے پاس ہوا ۔ جموں میں یاتریوں پر ہوئے حملے کے حوالے سے کانگریس نائب صدر نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سنگین حفاظتی بد نظمی قرار دیا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی سے اس کی ذمہ داری قبول کرنے کو کہا ہے ۔انہوں نے ٹوئٹ پر کہا کہ یہ ایک سنگین اور ناقابل قبول حفاظتی چوک ہے ۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ ذمہ داری قبول کریں او ر ایسا واقعہ کبھی نہ ہو دیں۔ ہندوستان ان دہشت گرد بزدلوں سے ہرگز ہراساں نہیں ہوگا۔کشمیر میں دہشت گردوں نے جس بس پر حملہ کیا وہ امرناتھ شرائن بورڈ میں اندراج شدہ نہیں تھی اور امر ناتھ یاتریوں کو لے جانے والی گاڑیوں کے لئے مقر ر کردہ شام کے آخری وقت کے بہت بعد کسی سیکوریٹی انتظام کے بغیر وہ چلائی جارہی تھی ۔ یہ بات کانگریس کے ترجمان اعلیٰ رن دیپ ایس سرجے والا نے کہی۔اس میں پاکستان کا ہاتھ ہوسکتا ہے ، لیکن یہ ابھی تک محض شک ہی ہے ۔ حکومت کو پاکستان کے ملوث ہونے کا ثبوت ملک کے عوام کے سامنے لازماً پیش کرنا چاہئے، لیکن ہمیں خود اپنے گھر کی صفائی کرنی چاہئے ۔ انتظامیہ ہندودہشت گردوں کو تربیت دینے میں ملوث ہے اور جیسا کہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے ، جب آپ اپنے آنگن میں سانپ پالیں گے تو وہ ایک دن آپ کو ضرور ڈسیں گے ۔ خانہ زاد دہشت گرد اب ایک حقیقت بن چکے ہیں اور وہ کہیں نہ کہیں حملہ کرتے رہتے ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ خانہ زاد دہشت گردوں کی کرتوت بتایا جاتا ہے ۔ امرناتھ یاترا کے حملہ میں سب سے بڑا نقصان کشمیر یت کا ہوا ہے یعنی ایک ایسے عقیدے کا خون جس کی آبیاری صدیوں نے کی تھی۔ اس عقیدے کا واضح اظہار اس وقت ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے حکومت سے دست بردار ہوکر اسے عوام میں مقبول رہنما شیخ محمد عبداللہ کو سونپ دیا تھا ۔ اس وقت فرقہ واریت کا احساس برائے نام بھی نہیں تھا۔ بنیاد پرستوں اور پاکستانی پروپیگنڈے نے سماجی شیرازے کے حسن کو تباہ کردیا ہے ، لیکن ہم ہار کیوں مان لیں ۔ ستر سال تک ہم ہندوستانی سیکولرزم اور جمہوریت پر مبنی سے اقدار پر کار بند رہے ہیں۔ ہم نے اپنے آئین کی تہمید میں لفظ سیکولرزم کا اضافہ کیا ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ مسز اندرا گاندھی نے ایک ایسا کام اس وقت کیا جب انہوںنے وزیر اعظم کی حیثیت سے ایمرجنسی مسلط کی تھی ۔ انہوں نے بغیر عدالتی کارروائی کے ایک لاکھ افراد کو حراست میں رکھا اور پریس پر سنسر شپ عائد کردی تھی اور انہوں نے علی الاعلان یہ کہا تھا کہ پریس نے ان کی عائد کردہ پابندیوں کی مزاحمت نہیں کی۔ ایمر جنسی کے بعد پریس پر ایل کے اڈوانی نے بجا طور پر پریس کی مذمت کی تھی ۔ انہوں نے کہا تھا کہ آپ سے جھکنے کے لئے کہا گیا تھا لیکن آپ گھٹنوں پر چلنے لگے ۔ اگر کشمیریت کو خود پر اصرار کرنا ہے تو آزاد پریس جیسی بنیادی اقدار کا احترام کرنا ہوگا ۔ کشمیری مسلمانوں کو خود اتحاد میں ا پنے یقین کا فیصلہ کرنا ہوگا جس کی جگہ بنیاد پرستی لیتی جارہی ہے ۔حال ہی میں سری نگر میں تھا جہاں یہ دیکھ کرحیران تھا کہ بندوق اٹھانے والے نوجوان وادی کو خود مختار اسلامی ملک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ یاسین ملک اور شبیر شاہ جیسے لیڈران اپنی معنویت کھوبیٹھے ہیں، سید شاہ گیلانی اور میر واعظ کے حامیوں کا حلقہ تو ہے لیکن اس کی وجہ بیک وقت پاکستان اور اسلام کے بارے میں ان کی باتیں ہیں۔ وہ یہ کہہ کر سنگ بازوں کی بھی حمایت کرتے ہیں کہ پتھر اسلام کے نام پر پھینکے جارہے ہیں، یہ ایک خطرناک رجحان پنپ رہا ہے ۔دہلی کو بہت غوروخوض کرکے وادی کے عوام اور مرکز میں برس ر اقتدار طبقہ دونوں کے لئے قابل قبول کوئی حل نکالنا ہوگا ۔ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کسی طرح حادثے کے بغیر یاترا کا انتظام کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ بی جے پی کو دیگر سیاسی پارٹیوں کے مشورے سے ایسے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں جس پر سب متفق ہوں۔

Violence Does Beget Violence. Article: Kuldip Nayar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں