سخت جان اردو باقی ہے - باقی رہے گی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-07-29

سخت جان اردو باقی ہے - باقی رہے گی

urdu ncpul
گزشتہ ہفتہ راقم الحروف نے ، قومی کونسل برائے اردو زبان، کو اپنا موضوع بنایا تھا اور اس مرتبہ پھر یہی ادارہ موضوع گفتگو ہے، مگر قدرے تبدیلی کے ساتھ کہ اب ایک نشان امید سامنے ہے ۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اگرچہ ارفع و اعلی علمی و تحقیقی ادارہ ہے ، تاہم بنیادی طور پر یہ ایک لسانی ادارہ ہے ، جس کا مقصد قیام ہی وطن عزیز کی ایک اہم زبان یعنی اردو کا تحفظ ، ارتقا نیز فروغ ہے ۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران اپنی نوعیت کے اس منفرد و ممتاز ادارے پر اندیشوں و خطرات کی سیاہ گٹھائیں مسلط رہیں، ایسا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا رہا کہ اردو برادری بے چین ہوگئی۔ جو اخلاص کی دولت سے مالا مال تھے وہ خاموشی کے ساتھ اس ادارے کی بقا و تحفظ کے لئے کوشاں رہے اور جنہیں روز اول سے ہی ہر اچھی شئے، اچھے ادارے اور اچھے افراد سے بیر رہا ہے وہ اپنی فطرت سے مجبو ر ہوکر ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے ۔ بہر کیف خدائے بزرگ و برتر کا کرم اور چند مخلص و دیانت دا اہل اردو کی دعائیں شال حال ہوگئیں، حالات نے ایک اور کروٹ لی اور خود مرکزی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل) جس کے تحت یہ ادارے کام کرتے ہیں) نے دفتر وزیر اعظم اور نیتی آیوگ کی تجاویز سے مکمل عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے مذکورہ تمام تجاویز کو خارج از امکان اور ناقابل عمل قرار دیا ۔ وزارت مذکور نے گہرائی سے متعلقہ امور و سائل کا جائزہ لے کر اپنی اختلافی رائے سے دفتر وزیر اعظم اور نیتی آیوگ کو مطلع کردیا۔ قابل ذکر ہے کہ وزارت نے اپنے فیصلے کی اساس ، دلائل اور زمینی حقائق پر رکھی ، بعض حلقوں کی خوشنودی اور سستی مقبولیت کے حصول پر نہیں ۔
اطلاعات مظہر ہیں کہ مرکزی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نے نیتی آیوگ کی تمام تجاویز کو ناقابل قبول اور غیر عملی قرار دیا ہے ، اس طرح خطرہ فی الحال ٹل گیا ہے ، مگر اب گیند دفتر وزیر اعظم کے پالے میں ہے ۔ اب امید ہے کہ دفتر وزیر اعظم آداب حکمرانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے متعلقہ وزارت کے فیصلے سے اتفاق کرے گا اور یوں یہ مسئلہ حل ہوجائے گا اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اپنی روایات کے تحت بدستور کام کرتا رہے گا ۔ جو قائین اصل مسئلہ سے متعلق بنیادی حقائق سے واقف نہیں ، ان کی سہولت کے لئے عرض ہے کہ گزشتہ ماہ دفتر وزیر اعظم کی زیر نگرانی، نیتی آیوگ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ملک بھر میں برسر کار متعدد ثقافتی، سائنسی، علمی و لسانی اداروں میں سے کم از کم ایک تہائی اکائیوں کو یا تو بند کردیاجائے یا انہیں کسی بڑے ادارے( مثلاً کسی دانش گاہ یا علمی و تحقیقی مرکز) کے ساتھ ضم کر کے اس کا ح سہ بنادیاجائے۔ چونکہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان بھی ان اداروں میں شامل تھی ، جس کے انضمام یا ادغام کا فیصلہ کیا جاتا تھا ، اس لئے بجا طور پر اہالیان اردو کی نیند حرام ہوگئی تھی۔ تاہم اس سے قبل کہ حالات حد سے زیادہ بگڑتے ، وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نے بر وقت قدم اٹھایا اور غوروفکر، نیز مشورے کے بعد مذکورہ تجاویز کو خارج کردیا۔ میں بحیثیت اردو کے ایک خادم کے مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل محترم پرکاش جاؤڈیکر اور اسی وزارت میں وزیر مملکت ڈاکٹر مہیندر ناتھ پانڈے کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک دانش مندانہ فیصلہ کر کے ابتدائی مرحلے میں ہی ایک اندیشے کا سد باب کردیا۔
ہندوستان ایک رنگا رنگ دنیا کا نام ہے ، جہاں تکثیریت کا دور دورہ ہے ۔ اس ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار رہتے ہیں، وہیں درجنوں بلکہ سینکڑوں زبانیں بولنے والے بھی آباد ہیں، جن کا کلچر بھی الگ الگ ہے اور زبان بھی۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مشغلہ درس و تدریس کی نذر کرنے کے بعد حکومت ہند نے مجھے ایک ایسی ذمہ داری سونپی جو دلچسپی بھی تھی اور چنوتی بھری بھی۔ میری مراد کمشنر برائے لسانی اقلیات کے منصب سے ہے ، جس پر میں اگرچہ ایک مختصر مدت کے لئے مامور رہا ، مگر اس دوران مجھے جو نیزنگ تجربات ہوئے وہ عشروں کی دانش گاہی زندگی میں بھی نہیں ہوئے تھے ، ظاہر ہے کہ بحیثیت استاذ کسی شخص کا واسطہ حد سے حددو یا تین زبانوں سے پڑ سکتا ہے ، مگر یہاں تو درجنوں زبانوں سے سروکار رکھنا تھا۔ ان کے مسائل کو جاننا اور سمجھنا تھا ، ان کا حل بھی تلاش کرنا تھا اور حل بھی ایسا جو بیک وقت ارباب اختیار اور عوام الناس دونوں کو قابل قبول ہو ۔ اس ملک کی ایک دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ جو زبان مرکز اور کئی ریاستوں میں بطور سرکاری زبان کے رائج ہے اور اکثریت کی زبان ہے ، وہی ایک دوسری ریاست میں پہنچ کر اقلیت کی زبان بن جاتی ہے ۔ ہماری راج بھاشا ہندی، شمال کی اکثر ریاستوں میں اکثریتی زبان ہے مگر ملک کے مغرب، مشرق اور جنوب میں یہ اقلیتی زبان بن جاتی ہے اور اس لحاظ سے تحفظ کا مطالبہ کرتی ہے ، اس طرح جو زبانیں کسی ایک یا دوریاستوں کی سرکاری زبانیں ہیں ، وہی باقی ملک میں پھیلے اپنے بولنے والوں کی زبان کی حیثیت سے اقلیتی زبان کا درجہ رکھتی ہیں ۔ یہ صورتحال تفصیلی بحث کی متقاضی ہے مگر چونکہ سردست یہ راقم کے مضمون کا موضوع نہیں، اس لئے یہ گفتگو صرف تمہید کی حد تک ۔ دراصل میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ بطور کمشنر برائے لسانی اقلیات ، جہاں مجھے ملک کی تمام زبانوں کے مسائل سے واقفیت ہوئی اور زمینی صورتحال کو سمجھنے کا موقع ملا ، وہیں اپنی زبان اردو کے سلسلے میں بھی بڑے چشم کشا حقائق مجھ پر روشن ہوئے۔ مثلاً اردو اس ملک کی ایسی انوکھی زبان ہے جو پورے ملک کے طول و عرض میں کسی نہ کسی سطح پر بولی جانے والی اور زیادہ علاقوں میں سمجھی جانے والی واحد زبان ہے ، مگر اس غریب کا اپنا کوئی علاقہ نہیں، کوئی ریاست نہیں ، اگرچیکہ کم از کم ایک ریاست جموں و کشمیر کی سرکاری زبان ہے ، مگر وہاں بھی حکومتی ، درسگاہی ، نیز علمی و ادبی سطح پر ہی رائج ہے ۔ یہ نہ تو اس ریاست کے کسی بھی طبقے کی مادری زبان ہے اور نہ ہی روز مرہ زندگی میں کوئی اسے بولتا ہے ۔ ہے نا ستم ظریفی۔جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ آج کا موضوع نہیں، مگر اس تمہید ثانی کی غرض یہ ہے کہ اردو کے ملک گیر ، اصل مسائل کے ادراک کے ساتھ مجھے اس کے اداروں کے طریق کار کوبھی سمجھنے کا موقع ملا ۔ علاوہ ازیں چونکہ مجھے یہ افتخار حاصل ہے کہ میں اس ملک میں اردو کے سب سے بڑے علمی و تحقیقی ادارے یعنی قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی مرکزی مجلس منتظمہ کا رکن ہوں لہذا میں قومی کونسل کے داخلی امور سے بھی واقف ہوں اور اس کی کارکردگی کا شاہد بھی ۔ اس لئے مجھے یہ عرض کرنے کا حق حاصل ہے کہ یہ ادارہ اپنے طے شدہ دائرہ کار کے اندر ممکنہ وسعت کے ساتھ کام کررہا ہے اور علمی ، تحقیقی و اشاعتی ہی نہیں، تشہیری و کاروباری سطح پر ، اردو دنیا کا سب سے بڑا اور کامیاب ادارہ ہے ۔ ملک گیر پیمانے پر اردو کی تعلیم وت ربیت کے علاوہ اس کے شائع کردہ رسائل کو ہمہ گیر مقبولیت اور اس کی شائع کردہ کتابوں کی لاکھوں نہیں، کروڑوں کی فروخت روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ وزارت متعلقہ کے حالیہ فیصلے کے بعد اب مجھے اطمینان ہے اور تمام تر اردو برادری کو بھی اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ یہ ادارہ نہ صرف زندہ قائم ، فعال اور سرگرم رہے گا، بلکہ ہر نہج پراس کی ترقی بھی ہوگی۔ آخری سطور میں اپنے دانش مند اور نادان اردو داں دوستوں سے درخواست کروں گا کہ جو ہوا سو ہوا ، اب وہ اس ادارے یا اس کے کسی ذمہ دار کی مخالفت کی راہ چھو ڑکر مثبت رویہ اختیار کریں اور اردو کے اپنی نوعیت کے اس واحد ، وقیع اور کثیرالجہت ادارے کے فروغ کے لئے کوشاں ہوں تاکہ جب مستقبل کا مورخ داستان اردو رقم کرے تو ان کا نام اردو کے بہی خواہوں میں شامل ہو، اس کے مخالفین میں نہیں اور ان کی داستان بھی داستانوں میں شامل ہو۔

مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودہ پور کے پریسیڈینٹ ہیں۔

Urdu will remain and survive. Article: Prof Akhtar ul Wasey

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں