مسلم پرسنل لا پر عالم اسلام کی رائے حاصل کی جائے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-05-11

مسلم پرسنل لا پر عالم اسلام کی رائے حاصل کی جائے

کسی ملک کی جغرافیائی حدود ہمیشہ منجمد نہیں رہتی ہیں بلکہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر وقتاً فوقتاً ، سو دو سو برس یا چند صدیوں میں ان میں چھوٹی بڑی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ اس زمینی حقیقت سے اس مفروضہ کو فروغ ملتا ہے کہ ملکی مفاد اور انسانی مفاد میں اگر کبھی تضاد ہو تو انسانی مفاد کو ہی برتری ملنی چاہئے ۔ یہی بڑی وجہ ہے کہ اپنے ملک میںکسی اہم ایشو پر فیصلہ کرنے کے لئے یہ غور کرنا کہ ملک سے باہر کی دنیا میں اس ایشو پر کیا فیصلے لئے گئے ہیں عالمی سطح پر ہر مہذب سماج کا شیوہ رہا ہے ۔ ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں تو دستور سازی کے وقت ہی عالمی مطالعہ کیا گیا تھا اور دستور ہند بناتے وقت ان عالمی حقوق ناموں سے استفادہ کیا گیا۔
عالمی شہرت یافتہ وکیل این میری سلاٹر نے اس مثبت روش کو ٹرانس جوڈیشیل کمیونی کیشن(Transjudicial communication) کہا ہے۔ حقوق انسانی کے وکیل راجیو دھون نے ہندوستانی عدلیہ کے ذریعہ خارجی فیصلوں کے استعمال پر مضمون نگاری کی ہے۔ بنگلور میں1988اور1998میں منعقد کامن ویلتھ جوڈیشیل کلوکئیم میں زور دیا گیا تھا کہ قومی عدلیہ کو بیرون ملک فیصلوں سے استفادہ کرنا چاہئے ۔
کھڑک سنگھ بنام اتر پردیش ، بینیٹ کولمین بنام حکومت ہند، مینکا گاندھی بنام حکومت ہند، سنیل بترا بنام دہلی انتظامیہ، حسین آرا خاتون بنام حکومت بہار وغیرہ مقدموں میں عدالت عظمیٰ نے بیرون ملک عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے دیے ہیں۔ مشہور امریکی مقدمہ وولف بنانم کولاریڈ میں تو جسٹس فرینک فرٹر نے لکھا کہ عالمی آئینی دستاویزوں میں تحریر شدہ حقوق انسانی کے اصولوں کی کسی بھی ملک میں اندیکھی نہیں کی جانی چاہئے ۔
اس فیصلے میں جج نے معاملہ سے متعلق مع ہندوستان کے کئی ممالک کی عدالتوں میں دیے گئے فیصلوں کا ذکر کیا ۔ جسٹس بریئر نے لکھا کہ بیرونی ممالک میں نافذ متعلقہ قانون سے موازنہ کرنے سے اپنے ملک میں بہتر قانونی تشریح کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قوانین کی بیرون ملک وضاحت کا استعمال امریکہ کی سپریم کورٹ کے ذریعہ چار طرح سے کیاجاتا رہا ہے۔
(1) قانون کی کسی شق کے تحت معقولیت(Reasonableness) طے کرنے کے لئے۔
(2)کسی غیر واضح یا مبہم فقرہ کا مفہوم سمجھنے کے لئے
(3) اپنے فیصلوں کو منطقی تقویت و استحکام مہیا کرنے کے لئے اور
(4) ملکی عدلیہ کے ذریعہ قانونی اصلاحات کی غرض سے دیے گئے تحکمانہ و تصریحی فیصلوں کی تجربہ خیز حمایت کے لئے ۔

ماضی قریب میں ہمارے ملک کی عدلیہ اور انتظامیہ نے مسلمانوں کے شہری و ذاتی معاملات(Civil & Personal Matters)سے متعلق متعدد پہلوؤں میں مداخلت کرنے کی یا تو کوشش کی ہے یا کم از کم ان کی نقل و حرکت سے عوام میں یہ تاثر گیا ہے کہ وہ خصوصاً مسلمانوں کے اندرونی معاملات کو رجعت پسندانہ یا ظالمانہ سمجھتے ہیں اور ان میں سدھار کرنے کے لئے وہ پہل کررہے ہیں ۔ سال رواں یعنی2017میں اس رجحان کی شدت اور تعداد میں بظاہر تیزی آئی ہے ، ضروری ہے کہ اس معنی خیز تجسس کی تفتیش کی جائے ۔
مندرجہ بالا پیرا اول سے تو یہ عیاں ہوگیا کہ کسی بھی مہذب سماج میں روج ہے کہ کسی معاملہ میں اگر اہم فیصلہ دینا ہے تو عالمی سطح پر اس معاملہ میں کیا رجحانات ہیں اور ان پر کس طرح عمل ہورہا ہے ، اس کا علم حاصل کیاجائے اور فیصلہ کرنے میں اس اطلاع کا مناسب استعمال کیاجائے ، ورنہ دلیلوں کی بنیاد پر اس کی تردید کی جائے ۔ ہماری عدلیہ اور انتظامیہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اسلام صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا میں57تو اسلامی ممالک ہیں اور ان کے علاوہ22ممالک ہندوستان کی طرح کے ہیں جہاں مسلمان ممتاز و نمایاں اقلیت(Prominent minority) ہیں۔، ان 79مسلم مخصوص ملکوں کے علاوہ بھی باقی دنیا میں مسلمانوں کو شامل کرتے ہوئے ان کی کل عالمی آبادی دنیا کے پانچویں حصہ سے زائد ہے ۔ اس میں سے صرف دس فیصد ہندوستان میں ہین۔ ظاہر ہے کہ عالمی مسلم آبادی کے دس فیصد پر مشتمل مسلمانوں کے شہری و ذاتی معاملات میں مداخلت کرکے ان میں ردو بدل کرنے سے قبل عدلیہ و انتظامیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معلوم کریں کہ57مسلم ممالک اور بائیس ان ممالک میں جہاں مسلمان نمایاں اقلیت ہیں، وہاں کی انتظامیہ اور عدلیہ نے ان ایشوز پر کیا رخ اپنایا ہے، پھر ان ایشوز پر ہندوستان و بیرون ہند مشہور زمانہ ماہرین قانون کی رائے سے اپنے کو روشناس کریں اور اس کے بعد اس مواد و اطلاعات کو بنادی بنا کر ہی اپنا فیصلہ کریں ۔ جس میں عالم اسلام کی تشریحات اور ماہرین کی رائے کا ذکر کریں اور اس پر بحث کریں ۔ جب کوئی فیصلہ دنیا کے مسلم کثافت والے 79ممالک کے لئے بر محل ہو تو ان ممالک میں رائج طرزفقہ کو نظر انداز کرکے دنیا میں کہیں بھی قانونی تبدیلی نہیں کی جانی چاہئے ، ایسا کرنا مہذب سما ج کو زیب نہیں دیتا اور اس سے جمہوری اقدار بھی مجروح ہوتی ہیں۔

دنیا کے ہندوؤں میں سے90فیصد سے زائد ہندوستان میں رہتے ہیں ، یہی حال سکھوں کا ہے، لہذا ن کے مذہبی اصولوں اور رواجوں میں مداخلت کا حق اگر کسی ملک کو ہے تو وہ ہندوستان ہی ہے ۔ لیکن دنیا کے مسلمانوں میں سے دس فیصد سے کم ہندوستان میں رہتے ہیں ، عیسائی اور یہودی اس سے بھی کم، اس لئے ان کے فقہ میں ردو بدل کا حق ہندوستان سے باہر ڈھونڈنا چاہئے ۔ اور اس کا لحاظ بھی اکابرین ہند کو رکھنا چاہئے۔ میرے چھیالیس برس پرانے جگری دوست پنکج شرما اور ان کے خاندان کے افراد تبھی سے انگلینڈ کے شہری ہیں لیکن ان کے ہندو مذہب کے فقہ میں کوئیر د و بدل کرنے کا اختیار انگلینڈ کو نہیں ہے، جنہوں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں۔
گزشتہ پچپن برس سے بیرون ہند مکہ معظمہ میں رابطہ عالم اسلامی کا ہیڈ کوارٹر ہے جس مین دنیا بھر کے مسلم ممالک ، و مسلم سماجوں کی نمائندگی ہے اسے اقوام متحدہ نے مشاورتی درجہ دے رکھا ہے ۔ اس کے تحت ایک باقاعدہ اسلامی فقہ کونسل کام کرتی ہے ، وہ دنیا کے مسلمانوں کی ترجمان ہے اور دنیا میں کسی بھی ملک کو فقہ اسلامی سے متعلق اپنی تحقیق شدہ رائے سے نوازنے میں خوشی محسوس کرتی ہے ۔ہندوستان کے انتظامیہ اور عدلیہ اس تنظیم سے رجوع کر کے فقہ اسلامی سے متعلق اس سے مشورہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن( او آئی سی) کا ہیڈ کوارٹر1969سے جدہ میں ہے جس کے57اسلامی ممالک ممبر ہیں ۔ اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی تنظیم یہی ہے ۔ ابھی فروری2017میں ہی اس کی بین الاقوامی کانفرنس نے اپنے اعلامیہ میں کہا تھا کہ شادی کے ذریعہ خانہ آبادی ہی سماج کا محور ہے، لہذا اس ادارہ کو مضبوط بنائے رکھنے، خواتین کو با اختیار بنانے اور متعلقہ اقدار کی پاسداری کے لئے دیگر ممالک سے کوآڑڈی نیشن کیاجانا چاہئے ۔ اس اعلامیہ کی روشنی میں تفصیلی قرار دادیں پاس ہوئیں ، جن پر او آئی سی سکریٹریٹ میں مثبت کام ہورہا ہے ۔ حکومت ہند عدلیہ اس سے بھی رجوع کرسکتے ہیں ۔
قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی اور مدینۃ المنورہ کے شاہ فہد کمپلیکس برائے قرآنی اشاعت و تعلیمات سمیت دنیائے اسلام میں اور خود ہندوستان میں اسلامیات کے محققین و ماہرین کی کمی نہیں ہے جن کی مدلل رائے اس موضوع پر ہندوستانی انتظامیہ اور عدلیہ کی کسی بھی پیش رفت کی بنیاد ہونی چاہئے ۔ علاوہ ازیں جب کسی ملک کی عدلیہ کسی مذہب کی حقیقی قدروں کو مانتے ہوئے تمام عوام الناس کے لیے کوئی فیصلہ صادر کرے تو بڑپن اس میں ہے کہ اپنے فیصلہ میں وہ اس مذہب کے اس اصول کا ذکر کرے اور اعتراف و تعلیم کرتے ہوئے اس مذہب کی جانب اظہار تشکر کرے۔ ابھی حال میں نربھیا کیس میں سپریم کورٹ نے ملزمین کو سزائے موت دی جب کہ مذہب اسلام ہی میں زنا کی سزا موت ہے ، فاضل جج صاحبان کے ذریعہ اس حقیقت کا اپنے فیصلے میں اعتراف کیے جانے سے ان کے عہدے کی عظمت میں اضافہ ہوجاتا۔

Need Opinions of Muslim world on Muslim Personal Law. Article: Dr. Syed Zafar Mahmood

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں