شبلی نعمانی کا قائم کردہ دارالمصنفین قوم کی توجہ کا محتاج - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-04-06

شبلی نعمانی کا قائم کردہ دارالمصنفین قوم کی توجہ کا محتاج

5/اپریل
ممبئی
یو این آئی
azamgarh darul musannefin
اتر پردیش کے شہر اعظم گڑھ کے مشہور و معروف ادارہ دارالمصنفین کو علامہ شبلی نعمانی نے دینی، علمی اور ادبی تحقیق کے لئے تقریباً سو سال قبل قائم کیا تھا ۔ یہ ادارہ کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں ہے ، لیکن فی الحال دوسرے مسلم اداروں اور تنظیموں کی طرح وہ بھی توجہ کا محتاج ہے ۔ اس تحقیقی ادارے کو بچانے کے لئے قوم و ملت کمر کس لینا چاہئے ۔ اس خیالات کا اظہار ادارہ کے اعزازی فیلو ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی نے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لئے مسلمانوں میں بیداری کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ مسلم قوم اب ایک بیدار قوم نہیں رہی ۔ انہوں نے کہا کہ دارالمصنفین کا شمار بیت الحکمت بغداد اور دائرۃ المعارف حیدرآباد کے بعد تیسرا مایہ ناز علمی و تحقیقی ادارہ ہے ۔ جس کی داغ بیل1914ء میں علامہ شبلی نعمانی نے ڈالی تھی ۔ اس کے عظیم الشان علمی کارناموں کی بدولت اعظم گڑھ کا گمنام خطہ ہم رتبہ یونان و بغداد بن گیا۔اس ادارہ نے اسلامی علوم و فنون ، سیرت و تاریخ ، کلام و عقائد اور فلسفہ و ادب وغیرہ متنوع موضوعات پر 250کتابیں اپنے رفقاء سے تحریر کروا کر شائع کیں اور جن کو علمی حلقوں میں سند اعتبار حاصل ہے ۔ ڈاکٹر الیاس اعظمی نے کہا کہ ادارہ کا مقصد اسلامی تعلیمات پر ہونے واے حملوں کا علمی انداز میں جواب دینے کے لئے ایسے اہل قلم پیدا کئے جائیں جو علمی انداز میں تحقیق کے ذریعے نوجوانوں کو لکھنے پڑھنے کا سلیقہ سکھایاجائے اور ایک اہم ترین تحقیقی ادارہ بن گیا جہاں سے معارف جیسا ایک رسالہ سو سال تک جاری رہا، جس کے بارے میں عرب کے ایک سیاح نے لکھا ہے کہ پوری دنیا میں سیاحت کے دوران انہیں کئی سیاسی مملکتیں دیکھنے کا موقع ملا، لیکن دارالمصنفین کی شکل میں صرف ایک علمی مملکت اعظم گڑھ میں ملی ہے ۔ انہوں نے ایک سوا ل کے جواب میں کہا کہ حال کے چند سال میں مسلمانوں مین تعلیمی بیداری ضرور پیدا ہوئی لیکن کیونکہ مسلمانوں کی فطرت جوشیلی ہے اس لئے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے مگر حقیقت کوسوں دور ہے ۔ ہم نے جب سرٹیفکٹ حاصل کیے جب پروفیشنل کورسس کا دور تھا اور سرٹیفکٹ کی اہمیت ختم ہوکر رہ گئی اس لئے ملازمت سے محرومی ہاتھ لگی ۔ پھر بھی قوم کو ہمت نہیں ہرنا چاہئے اور منصوبہ بند طریقے سے کام کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر الیاس اعظمی نے کہا کہ ایک صدی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود دارالمصنفین نے اپنے معیار کو بچا کر رکھا ہے ۔ یہ ادارہ ہمیشہ قوم کی مالی امداد سے قائم رہا اور اس کی شائع کردہ کتابوں سے ہونے والی آمدنی سے چلایاجاتا ہے ۔ لیکن اب ملت کے اس ادارے کو بچانے اور قائم رکھنے کیلئے آگے آنا چاہئے اور دینی، علمی اور ادبی تحقیقی کام کے لئے کوشش کی جانی چاہئے، مالی فنڈ قائم کرکے اہم قدم اٹھانا چاہئے جس نے سو سال کے دوران 32فیلو اور چار ڈائریکٹر دئیے ہیں اور جس کے لئے پہلے ڈاکٹر مولانا سید سلیمان ندوی تھے۔ جب کہ مولانا ابو الکلام آزاد ، ڈاکٹر فخرالدین احمد، ڈاکٹر ذاکر حسین، سید محمود اور دیگر اہم مسلم شخصیات دارالمصفین سے وابستہ رہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں