انتخابی نتائج نئے ہندوستان کی بنیاد - مودی کا خطاب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-03-13

انتخابی نتائج نئے ہندوستان کی بنیاد - مودی کا خطاب

انتخابی نتائج نئے ہندوستان کی بنیاد۔ مودی کا خطاب
نئی دہلی
پی ٹی آئی
اتر پردیش اور اترا کھنڈ میں ایک تلخ اور انتشار پسندانہ مہم کے بعد بی جے پی کی شاندارکامیابی کے پس منظر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے2022تک ایک نئے ہندوستان کی تعمیر پر زوردیا جس سے ملک کے معمار کو فخرہونا چاہئے۔ بی جے پی ہیڈ کوارٹرس میں پارٹی قائدین اور حامیوں سے مبارکباد قبول کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ وہ انتخابی نتائج بالخصوص اتر پردیش کے نتیجوں کو ایک نئے ہندوستان کی بنیاد سے دیکھتے ہیں ۔ انہوں نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک نئے ہندوستان کی بنیاد کی حیثیت سے اس کامیابی کو دیکھ رہاہوں جہاں65فیصد آبادی35سال سے کم عمر ہوگی ۔ یہ غیرمعمولی طور پر چوکس خواتین کا نیا ہندوستان ہوگا ۔ ایک نیا ہندوستان جہاں غریب بھیک کے ذریعہ کچھ نہیں چاہیں گے بلکہ اپنا حصہ حاصل کریں گے اور میں اس تبدیلی کو ہوتا ہوا دیکھ رہاہوں ۔ اس موقع پر موجدہ افراد نے مودی کے ہر ہر حرف پر تالیاں بجائیں ۔ اس سے پہلے دن میں مودی نے ٹوئٹر پر کہا کہ ہندوستان ابھر رہا ہے جسے125کروڑ کی طاقت اور صلاحیتوں کی مدد حاصل ہے۔ یہ ہندوستان ترقی کے لئے کھڑا ہے ۔ مودی نے ٹوئٹر پر عوام سے کہا کہ وہ ان کے موبائل ایپ پر اس بات کا عہد کریں کہ وہ نئے ہندوستان کی تعمیر کے لئے ان کا ساتھ دیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ2022ء میں جب ہم آزادی کی75ویں سالگرہ منارہے ہوں گے ہمیں ہندوستان کو گاندھی جی ، سردار پٹیل ، ڈاکٹر امبیڈ کر کے لئے قابل فخر بنانا ہے ۔

بی جے پی کے لئے اپنی پسندکا صدرجمہوریہ بنانا آسان
نئی دہلی
پی ٹی آئی
اتر پردیش اور اترا کھنڈ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے فیصلہ کن کامیابینے آنے والے صدارتی انتخاب میں زعفرانی پارٹی کوملک کے آئندہ صدرکے انتخاب میںمزید اختیارات حوالہ کردیا ، ماہ جولائی میں صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی میعادکا اختتام عمل میں آرہاہے ۔ بی جے پی جس کا543رکنی لوک سبھا میں281ارکان ہیں، کو25جولائی 2017ء میں نئے صدر کے انتخاب میں اپنی پسند کے امید وار کے انتخاب میں مزید ارکان کی تائیدکی ضرورت ہے ۔مکرجی کی جانشین کا انتخاب الکٹورل کالج کے ذریعہ کیاجائے گا جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ارکان،29ریاستوں کے ارکان اسمبلی کے علاوہ قومی دارالحکومت دہلی کے علاقہ کے ارکان اور مرکزی زیر انتظام ریاست پوڈیچیری کے ارکان پر مشتمل ہے ۔ پہلے ہی بی جے پی کی مہاراشٹرا، گجرات ، ہریانہ، چھتیس گڑھ، جھار کھنڈ، مدھیہ پردیش اور آسام میں حکومت قائم ہے ، جب کہ پی ڈی پی سے اتحاد کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر اور تلگو دیشم سے اتحاد کرتے ہوئے آندھرا پردیش میں حکمراں جماعت کا موقف حاصل ہے ۔ اب اتر پردیش اور اترا کھنڈ میں بڑی کامیابی حاصل ہونے کے بعد بی جے پی اپنی پسند کے امید وار کو صدر جمہوریہ بنانے کے لئے مزید بہتر موقف میں آگئی ہے ۔ راشٹرپتی بھون اپنی پسند کی شخصیت کو رکھنے سے بی جے پی کو متنازعہ اور پیچیدہ سیاسی صورتحال میں پارلیمنٹ میں منظور کئے گئے بلوں کو قوانین میں تبدیل کرنے میں آسانی ہوگی ۔ اتر پردیش میں کامیابی سے بی جے پی کو خصوصی فائدہ اس لئے ہورہا ہے کہ صدارتی انتخاب کے لئے آبادی کے لحاظ سے اتر پردیش اسمبلی کے ارکان کی قدر ملک کے دیگر ارکان اسمبلی کی قدر سے زیادہ ہے ۔ صدارتی انتخاب میں کسی بھی ریاست کے ارکان اسمبلی کی قدر اس ریاست کی آبادی کے مساوی ہوتی ہے۔ اس منتخب ارکان سے تقسیم کیاجاتا ہے اس کے بعد پھر مزید1000سے تقسیم کیاجاتا ہے جس سے جو عدد سامنے آتا وہ ایک رکن اسمبلی کی قدر قرار پاتا ہے ۔ ہر ریاست کے رکن اسمبلی کی قدر مختلف ہوسکتی ہے لیکن ہر رکن پارلیمنٹ کے ووٹ کی قدر یکساں ہوتی ہے۔ الکٹورک کالج کیکل4896رائے دہندے ہیں جن میں4120ارکان اسمبلی اور776ارکان پارلیمنٹ شامل ہیں ۔ جب کہ لوک سبھا اسپیکر جومنتخب رکن ہوتے ہیں بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکتے ہیں ۔ لوک سبھا کے لئے اینگلو انڈین طبقہ سے نامزد دو ارکان کے علاوہ راجیہ سبھا کے12نامزد ارکان اس رائے دہی میں حصہ نہیں لے سکتے ۔ جاریہ سال ماہ اگست میں نائب صدر کے عہدہ مخلوعہ ہوگا۔ نائب صدر حامد انصاری کی پانچ سالہ دوسری میعاد کا ماہ اگست میں اختتام عمل میں آرہا ہے۔ اس عہد ہ پر بی جے پی اپنے نمائندہ کو آسانی سے منتخب کرواسکتی ہے ۔ اگر بی جے پی صدارتی عہدہ پر اپنے امید وار کو منتخب کرواتی ہے تو اسے نائب صدر کے عہدہ کو اپنے حلیفوں کے لئے چھوڑنا پڑے گا ۔ سال2002ء میں بی جے پی نے سابق چیف منسٹر راجستھان بھیرون سنگھ شیخاوت کو نائب صدر منتخب کروایا تھا ۔ بی جے پی کو امید ہیکہ ان انتخابات مین بہتر مظاہرہ سے گڈس اینڈ سرویس ٹیکس( جی ایس ٹی) بل کے لئے بہتر ثابت ہوگا ۔ گزشتہ دو دہوں کے دوران جی ایس ٹی ایک بڑا اصلاحی اقدام ہے جو سال2015ء سے ایوان بالا میں تعطل کار شکار رہا جہاں بی جے پی اقلیت میں ہے ۔ اس طرح اس کامیابی اب راجیہ سبھا میں اس کی مخالفت کرنے والے ارکان کی تعداد میں کمی آئے گی ۔ اب اتر پردیش اور اتر کھنڈ میں بی جے پی کی کامیابی سے راجیہ سبھا کے ماہ جولائی میںمنعقد شدنی دو سالہ انتخابات میں راجیہ سبھا میں بی جے پی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوگا ۔ اس تبدیل شدہ صورتحال نے بی جے پی کے حق میں منظر کو تبدیل کردیا ہے۔ ماہ جولائی کے اختتام تک راجیہ سبھا میں بی جے پی ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوگا ۔ کیونکہ کئی ارکان ماہ جولائی میں عہدہ سے سبکدوش ہوں گے ۔ الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے بموجب اسمبلی انتخابات سے قبل قدر کے لحاظ سے این ڈی اے کو75,076ووٹوں کی قلت کا سامنا تھا لیکن اتر پردیش ، اتر کھنڈ اور منی پور میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد یہ قلت کم ہوکر20ہزار ہوگئی ۔ اگر بی جے پی اے آئی انا ڈی ایم کے(134ارکان اسمبلی)بیجو جنتادل(117ارکان اسمبلی) کی تائید حاصل کرتی ہے تو حکمراں جماعت کو صدارتی عہدہ پر اپنی پسند کے امید وار کو کامیاب بنانے میں آسانی ہوگی ۔243رکنی راجیہ سبھا میں بی جے پی کے56ارکان ہیں جب کہ59ارکان کے ساتھ کانگریس راجیہ سبھا کی واحد بڑی پارٹی ہے ۔ آئندہ سال بی جے پی راجیہ سبھا سب سے بڑی پارٹی بن جائے گی کیونکہ راجیہ سبھا میں این ڈی اے ارکان کی تعداد100ہوجائے گی ۔ پھر بھی اسے ایوان بالا میں اکثریت حاصل نہیں ہوگی ۔ مایاوتی کی بی ایس پی کو19نشستیں ملی ہیں جس سے وہر اجیہ سبھا میں اپنے کسی بھی امید وار کو کامیاب کروانے کے موقف میں نہیں ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں