یکساں سول کوڈ - جاریہ صدی میں ہندوستانی تاریخ میں تناؤ کا مسئلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-02-20

یکساں سول کوڈ - جاریہ صدی میں ہندوستانی تاریخ میں تناؤ کا مسئلہ

19/فروری
یکساں سول کوڈ - جاریہ صدی میں ہندوستانی تاریخ میں تناؤ کا مسئلہ - فلیرو
پنجی
یو این آئی
سابق مرکزی وزیر اڈورڈ فلیرو نے یونیفارم سول کوڈ پر مباحث کو اس صدی میں ہندوستانی تاریخ میں انتہائی متنازعہ مسائل میں سے ایک طور پر بتایا۔ انہوں نے کہا مرکز کی جانب سے ایک مشاورتی کمیٹی قائم کی جانی چاہئے، جو خاص طورپر مسلم برداری سے متعلق سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججس، اعتدال پسند مذہبی اسکالرس، اور مسلم خاتون نمائندوں پر مشتمل ہوتا کہ موجودہ مسلم قوانین میں مسودہ کی تبدیلی کا مشورہ دیں اور پھر اس پر پارلیمنٹ غور کرے ۔ یہ مباحث جو ملک کی بڑی برداریوں کے رسم و روایات پرمبنی شخصی قوانین کو تبدیل کرنے کے لئے تجویز کئے گئے ہیںکل یہاں انٹر نیشنل سنٹر گوا کے اشتراک سے گوا اسٹیڈی گروپ نے اس مباحثہ کا اہتمام کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی دفعہ44ہدایتی اصول ہے ۔مملکت کو ملک بھر میں تمام ہندوستانیوں کے لئے یکساں سول کوڈ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ دفعہ44آزادی مذہب کے بنیادی حق کے سلسلہ میں دستور کی دفعہ25سے کسی بھی انداز میں متضاد نہیں ہوسکتا ۔ انہوںنے یاد دہانی کروائی کہ سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے یونیفارم سول کوڈ کے آئیڈیا کی حمایت کی تھی لیکن وہ کسی بھی برداری پر اسے لاگو کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ یہ بیان کرتے ہوئے کہ اختیاری خصوصی میریج ایکٹ1954ء موجود ہے جو بلا لحاظ مذہب تمام ہندوستانی شہریوں کے لئے ہے انہوں نے کہا یہ الزام عائد کیاجاتا ہے کہ یکساں سول کوڈ کے ساتھ گواہی ہندوستان کی واحد ریاست ہے جب یہ بات درست نہیں ہے ۔ ہندو اورمسلم برادریوں کے رسم ورواج اور استعمال کی گوا میں نافذ سیول کوڈ کے ذریعہ پاسبانی کی جاتی ہے ۔ چرچ میں ہونے والی کیتھولک شادیاں خود بخود شہری اثرات رکھتی ہیں جب کہ شادیوں کے لئے دیگر برادریوں کو سیول رجسٹرار کے روبرو رجسٹریشن کرواناپڑتاہے ۔ کیتھولکی کے لئے گود لینے کی اجازت نہیں ہے جب کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو اس کی اجازت ہے۔
Eduardo Faleiro. The question of an Uniform Civil Code is one of the most controversial issues in Indian politics today

دھوکہ دینے والوں کو عوام کبھی معاف نہیں کریں گے: مودی
اتر پردیش میں انتخابی جلسہ سے وزیر اعظم کا خطاب
فتح پور
یواین آئی
اتر پردیش میں حکمراں سماج وادی پارٹی کی مذہبی اور ذات پات کی بنیاد پر طرفداری پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے آج سماجو ادی پارٹی کو اتر پردیش کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ترقی جو کہ گزشتہ چودہ برسوں سے ریاست میں ونواس پر ہے، بی جے پی کی حکومت کے قیام سے ختم ہوجائے گی۔ وزیر اعظم نے سماج وادی پارٹی کے خلاف جارحانہ رخ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے مفاد کے لئے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے والی سماج وادی پارٹی کو عوام سبق سکھانے کے لئے تیار ہیں جبکہ دیانتدار اور شفاف شبیہ والی بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے گی۔ صدر کے علاقہ میں منعقد انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے سماج وادی پارٹی نے اصولوں کی لڑائی لڑنے والے رام منوہر لوہیا جیسے رہنماؤں کے خوابوں کو کچل دیا ہے ۔ مفاد کے لئے کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے اتحاد کو ریاست کے عوام معاف نہیں کریں گی۔ ایس پی نے27سال یوپی بے حال کا نعرہ دینے والوں کے ساتھ اتحاد کیا۔اس سے قبل کہا تھا کہ تنہا الیکشن جیت جائیں گے ، بعد میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے کشتی پار کرنے کی کوشش کی لیکن اب کچھ نہیں ہوگا ۔ قوم کے ساتھ دھوکہ کرنے والوں کو کبھی اس ملک کے لوگوں نے معاف نہیں کیا ہے ۔ ایس پی اور کانگریس ایک ساتھ ڈوبیں گے۔ ایس پی صدر اکھلیش یادو اور کانگریس نائب صدر راہول گاندھی پر طنز کرتے ہوئے مودی نے کہا چاندی کا چمچ لے کر پیدا ہونے والون کو کیا پتہ کہ غربت اور مفلسی کیا ہوتی ہے ۔ میں نے غربت دیکھی ہے ، اس لئے مجھے ان کی پرواہ ہے، غریبوں کا حق دلاکر ہی دم لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں پھیلے کرپشن،بد انتظامی اور جرائم کے خلاف اہم لڑائی لڑی جارہی ہے ۔ اس میں مذہب اور ذات پات کو اختیار نہیں کیاجانا چاہئے ۔ مذہب اور ذات کی بنادی پر کسی کے ساتھ تفریق نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر ہولی پر بجلی ملتی ہے توعید پر بھی بجلی ملنی چاہئے اور رمضان میں بجلی ملتی ہے تو دیوالی پر بھی بجلی ملنی چاہئے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بی جے پی سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کی پالیسی پر کام کرتی ہے ۔ وہ کسی کے ساتھ کوئی تفریق نہیں رکھتی اور حکومتوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ بغیر کسی تفریق کے کام کریں۔ کسانوں کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ کھاد کی کمی کو دور کرنے کے لئے مرکزی حکومت نے یوریا میں نیم کوڈنگ کی جس کی بدولت آج سستے دام پر کسانوں کو یوریا مہیا کرایاجارہاہے۔ اس سے پہلے یوریا حاصل کرنے کے لئے کسان قطار میں لگتے تھے اور پولیس کی لاٹھیاں کھاتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں جرائم اور جرائم پیشہ پھل پھول رہے ہیں جب کہ دلتوں اور محروم طبقات کا استحصال کیاجارہا ہے۔ تھانوں پر غنڈوں کا راج ہے ، پولیس زور اور لوگوں کو سیاسی تحفظ ملنے کی وجہ سے خوف زدہ رہتی ہے ۔ پولیس اسٹیشنوں میں غریبوں کی نہیں سنی جاتی ۔ اکھلیش حکومت کے وزیر گایتری پرجاپتی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لئے سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی ۔ ریاست میں لوٹ، قتل، عصمت ریزی، غیر قانونی قبضوں کا کاروبار عروج پر ہے ۔ یہ کام ہے کہ کارنامہ، مودی نے کہا کہ قانون درست کئے بغیر سرمایہ کاری، کل کارخانے ، صنعتیں قائم نہیں ہوسکتیں۔ صوبے میں روزگار کے مواقع بڑھانے کے لئے گڈ گورننس ناگزیر ہے جس سے یہاں بے خوف سرمایہ کاری کو فروغ مل سکے۔ صنعت و کارخانے لگاکر بیروزگاروں کو نتقل مکانی سے روکا جاسکتا ہے ۔ ریاست میں تعلیم یافتہ لوگوں کو نوکری کی ضمانت نہیں ہے۔ کام کے لئے رقم کے ساتھ ساتھ سفارش بھی ضروری ہے ۔ کرپشن کی وجہ سے تعلیم یافتہ لوگوں کی جگہ دوسروں کو نوکری مل جاتی ہے ۔

سابق چیف جسٹس آف انڈیا التمش کبیر کا انتقال
کولکتہ
آئی اے این ایس
سابق چیف جسٹس آف انڈیا التمش کبیر کا اتوار کے دن یہاں ے ایک خانگی ہاسپٹل میں انتقال ہوگیا ۔ انہیں گردہ کا عارضہ لاحق تھا ۔ وہ68برس کے تھے۔ پسماندگان میںبیوہ مینا، لڑکا دیپ اور لڑکی انامیکا شامل ہیں ۔ خاندانی ذرائع نے یہ بات بتائی ۔ جسٹس کبیر نے اپولو گلین ایگلس ہاسپٹل میں2:52بجے دن آخری سانس لی ۔ انہیں اس ہاسپٹل میں 8فروری کو شریک کرایا گیا تھا ۔ وہ29ستمبر2012ء کو سپریم کورٹ کے39ویں چیف جسٹس بنے تھے ۔ ان کی پیدائش19جولائی1948ء کو ضلع فریدپور کے ایک مشہور بنگالی مسلمان خاندان میں ہوئی تھی۔ فرید پور اب بنگلہ دیش میں ہے ۔ ان کے والد جہانگیر کبیر ممتاز سیاستداں تھے ۔ جوبنگال کے تین چیف منسٹرس کی کابینہ میں وزیر رہے ۔ ان کے چچا ہمایوں کبیر ممتاز ماہر تعلیم اور مصنف تھے ۔ جسٹس کبیر نے ماؤنٹ ہر من اسکول دار جلنگ اور کلکتہ بوائز اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی ۔ انہوں نے پریسڈنسی کالج سے تاریخ میں گریجویشن کیا تھا اور کلکتہ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی تھی ۔ وہ292دن چیف جسٹس آف انڈیا رہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں