مذہب اور ذات کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگا جا سکتا - سپریم کورٹ کی رولنگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-01-03

مذہب اور ذات کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگا جا سکتا - سپریم کورٹ کی رولنگ

نئی دہلی
پی ٹی آئی
اکثریتی فیصلہ میں سپریم کورٹ نے آج کہا کہ مذہب، نسل ، ذات، برادری یا زبان، کی بنیاد پر ووٹ کی کوئی بھی اپیل انتخابی قانون کے تحت بد عنوانی ہے ۔ عوامی نمائندگی( آر پی) قانون کی دفعہ(3)123میں مستعملہ اس کا مذہب کی اصطلاح کے حوالہ سے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے4:3کے فیصلہ میں کہا کہ اس کا مطلب سبھی بشمول رائے دہندگان امید وار اور ان کے ایجنٹس وغیرہ کا مذہب ہے تاہم تین ججس یو یو للت ، اے کے گوئل اور ڈی وائی چندر چور،کی اقلیتی رائے دہی، کہ اس کا مذہب سے مراد صرف امید وار کا مذہب ہے۔ اکثریتی رائے میں جو جسٹس ایم بی لوکر، جسٹس ایس اے بوبدے اور جسٹس ایل این راؤ کی بھی رہی کہا گیا کہ ایسے امور میں سیکولر ازم کو مد نظر رکھنا ہوگا ۔ سپریم کورٹ نے27اکتوبر کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ بنچ نے کہا تھا کہ مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کی اجازت ہے لیکن ا نے سوال کیا تھا کہ آیا مذہب کو انتخابی مقاصد کے لئے استعما ل کیاجاسکتا ہے۔ بنچ کئی درخواستوں کی سماعت کررہی تھی جس میں ایک درخواست ابھی رام سنگھ کی بھی تھی جن کے1990میں بی جے پی ٹکٹ پر ممبئی کے حلقہ سانتا کروز سے بحیثیت رکن اسمبلی انتخاب کو بمبئی ہائی کورٹ نے کالعدم کردیا تھا ۔ آئی اے این ایس کے بموجب سپریم کورٹ نے پیر کے دن رولنگ دی کہ امید وار یا اس کے حریف کے مذہب نس، ذات، یا زبان کی بنیاد پر ووٹ مانگناغیر قانونی ہے اور اس سے انتخابی عمل کی نفی ہوسکتی ہے ۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھار کی زیر قیادت بنچ نے4:3کے اکثریتی فیصلہ میں کہا کہ الیکشن سیکولر مشق ہے اور منتخبہ مائندہ کی کارکردگی بھی سیکولر ہونی چاہئے ۔ یہ نشاندہی کرتے ہوئے کہ مذہب کا انتخابی عمل بالخصوص سیکولر سر گرمی میں کوئی مقام نہیں، عدالت نے کہا کہ حکومت کو سیکولر اقدار کا لحاظ رکھنا چاہئے اور انہیں قائم رکھنے اپنی ذمہ داری انبھانی چاہئے ۔ اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس ٹھاکر ، جسٹس مدن بی لوکر، جسٹس ایس اے بوبدے اور جسٹس ایل ناگیشور راؤ نے دیا۔ جسٹس لوکر نے اسے سنایا۔ چیف جسٹس ٹھاکر نے اپنی مزید وجوہات بھی سنائیں۔ جسٹس بوبدے نے بھی علیحدہ وجوہات گنائیں۔ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس آدرس کمار گوئل اور للت کے اختلافی فیصلہ میں یہ تو مانا گیا کہ مذہب، نسل، ذات، برادری اور زبان کی بنیاد پر ووٹ مانگنا، بد عنوانی ہے لیکن کہا گیا کہ ایلکشن لڑنے والوں کو لوگوں کی جائز شکایتوں کے تعلق سے کہنے سے روکنا جمہوریت کے منافی ہے۔ جسٹس چندر چور نے کہا کہ کوئی بھی گورنمنٹ سسٹم پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ اکثریتی فیصلہ مین کہا گیا کہ سرکاری سر گرمیوں کو مذہب سے ملانے کی اجازت نہیں۔ فرد اور خدا کا تعلق انفرادی انتخاب ہے ۔ عدالت نے عوامی نمائندگی قانون1951کی دفعہ123(3)کی تشریح کرتے ہوئے یہ بات کہی۔

Politicians can't seek votes on the basis of religion, rules SC

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں